file_id
stringlengths
8
8
metadata
stringlengths
415
808
title
stringlengths
4
145
num-words
int64
0
36.2k
contains-non-urdu-languages
stringclasses
2 values
document_body
stringlengths
41
200k
0001.xml
<meta> <title>بنگلہ دیش کی عدالت کا تاریخی فیصلہ</title> <author> <name>سید منظور الحسن</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Mahnama Ishraq February 2001</name> <year>2001</year> <city>Lahore</city> <link>https://www.javedahmedghamidi.org/#!/ishraq/5adb7341b7dd1138372db999?articleId=5adb7452b7dd1138372dd6fb&amp;year=2001&amp;decade=2000</link> <copyright-holder>Al-Mawrid</copyright-holder> </publication> <num-words>1694</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
بنگلہ دیش کی عدالت کا تاریخی فیصلہ
1,694
No
<body> <section> <p>بنگلہ دیش کی عدالتِ عالیہ نے طلاق کے ایک مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے علما کے فتووں کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ عدالت نے پارلیمنٹ سے یہ درخواست کی ہے کہ وہ جلد ایسا قانون وضع کرے کہ جس کے بعد فتویٰ بازی قابلِ دست اندازیِ پولیس جرم بن جائے۔ بنگلہ دیش کے علما نے اس فیصلے پر بھر پور ردِ عمل ظاہرکرتے ہوئے اس کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ اس ضمن میں علما کی ایک تنظیم ”اسلامک یونٹی الائنس“ نے متعلقہ ججوں کو مرتد یعنی دین سے منحرف اور دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔</p> <p>فتوے کا لفظ دو موقعوں پر استعمال ہوتا ہے۔ ایک اس موقع پر جب کوئی صاحبِ علم شریعت کے کسی مئلے کے بارے میں اپنی رائے پیش کرتا ہے۔ دوسرے اس موقع پر جب کوئی عالمِ دین کسی خاص واقعے کے حوالے سے اپنا قانونی فیصلہ صادر کرتا ہے۔ ایک عرصے سے ہمارے علما کے ہاں اس دوسرے موقعِ استعمال کا غلبہ ہو گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس لفظ کا رائے یا نقطۂ نظر کے مفہوم میں استعمال کم و بیش متروک ہو گیا ہے۔ چنانچہ اب فتوے کا مطلب ہی علما کی طرف سے کسی خاص مألے یا واقعے کے بارے میں حتمی فیصلے کا صدور سمجھا جاتا ہے۔ علما اسی حیثیت سے فتویٰ دیتے ہیں اور عوام الناس اسی اعتبار سے اسے قبول کرتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ہمارے نزدیک، چند مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم مذکورہ فیصلے کے بارے میں اپنا تاثر بیان کریں، یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مختصر طور پر ان مسائل کا جائزہ لے لیا جائے۔</p> <p>پہلا مألہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ قانون سازی اور شرعی فیصلوں کا اختیار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آجاتا ہے جو قانون کی رو سے اس کے مجاز ہی نہیں ہوتے۔ کسی میاں بیوی کے مابین طلاق کے مألے میں کیا طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں ہوئی؟ ان کا نکاح قائم ہے یا باطل ہو گیا ہے؟ رمضان یا عید کا چاند نظر آیا ہے یا نہیں آیا؟کوئی مسلمان اپنے کسی قول یا اقدام کی وجہ سے کہیں دائرۂ اسلام سے خارج اورنتیجۃً مسلم شہریت کے قانونی حقوق سے محروم تو نہیں ہو گیا؟ یہ اور اس نوعیت کے بہت سے دوسرے معاملات سر تا سر قانون اور عدالت سے متعلق ہوتے ہیں۔ علما کی فتویٰ سازی کے نتیجے میںیہ امور گویا حکومت اورعدلیہ کے ہاتھ سے نکل کر غیر متعلق افراد کے ہاتھوں میں آجاتے ہیں۔</p> <p>دوسرا مألہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ قانون کی حاکمیت کا تصور مجروح ہوتا ہے اور لوگوں میں قانون سے روگردانی کے رجحانات کو تقویت ملتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قانون اپنی روح میں نفاذ کا متقاضی ہوتا ہے۔ اگر اسے نفاذ سے محروم رکھا جائے تو اس کی حیثیت محض رائے اور نقطۂ نظر کی سی ہوتی ہے۔ غیر مجاز فرد سے صادر ہونے والا فتویٰ یا قانون حکومت کی قوتِ نافذہ سے محروم ہوتا ہے۔ اس کی خلاف ورزی پر کسی قسم کی سزا کا خوف نہیں ہوتا۔ چنانچہ فتویٰ اگر مخاطب کی پسند کے مطابق نہ ہو تو اکثر وہ اسے ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔ اس طرح وہ فتویٰ یا قانون بے توقیر ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں رہنے والے شہریوں میں قانون ناپسندی کا رجحان فروغ پاتا ہے اور جیسے ہی انھیں موقع ملتا ہے وہ بے دریغ قانون کی خلاف ورزی کر ڈالتے ہیں۔</p> <p>تیسرامسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگرغیر مجاز افراد سے صادر ہونے والے فیصلوں کو نافذ کرنے کی کوشش کی جائے تو ملک میں بد نظمی اور انارکی کا شدید اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ جب غیر مجازافراد سے صادر ہونے والے قانونی فیصلوں کو حکومتی سرپرستی کے بغیر نافذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اپنے عمل سے یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ مرجعِ قانون و اقتدارتبدیل ہو چکا ہے۔ جب کوئی عالمِ دین مثال کے طور پر، یہ فتویٰ صادر کرتا ہے کہ سینما گھروں اور ٹی وی اسٹیشنوں کو مسمار کرنامسلمانوں کی ذمہ داری ہے، یا کسی خاص قوم کے خلاف جہاد فرض ہو چکا ہے، یا فلاں کی دی گئی طلاق واقع ہو گئی ہے اور فلاں کی نہیں ہوئی، یا فلاں شخص یا گروہ اپنا اسلامی تشخص کھو بیٹھا ہے تو وہ درحقیقت قانونی فیصلہ جاری کر رہا ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، وہ ریاست کے اندر اپنی ایک الگ ریاست بنانے کا اعلان کر رہا ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ سوائے انتشار اور انارکی کے اور کچھ نہیں نکلتا۔ یہی وجہ ہے کہ جن علاقوں میں حکومت کی گرفت کمزور ہوتی ہے وہاں اس طرح کے فیصلوں کا نفاذ بھی ہو جاتا ہے اور حکومت منہ دیکھتی رہتی ہے۔</p> <p>چوتھا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ مختلف مذہبی مسالک کی وجہ سے ایک ہی معاملے میں مختلف اور متضاد فتوے منظرِ عام پر آتے ہیں۔ یہ تو ہمارے روز مرہ کی بات ہے کہ ایک ہی گروہ کو بعض علماے دین کافر قرار دیتے ہیں اور بعض مسلمان سمجھتے ہیں۔ کسی شخص کے منہ سے اگر ایک موقع پر طلاق کے الفاظ تین بار نکلتے ہیں تو بعض علما اس پر ایک طلاق کا حکم لگا کر رجوع کا حق باقی رکھتے ہیں اور بعض تین قرار دے کررجوع کو باطل قرار دیتے ہیں۔ یہ صورتِ حال ایک عام آدمی کے لیے نہایت دشواریاں پیدا کر دیتی ہے۔</p> <p>پانچواں مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکمران اگر دین و شریعت سے کچھ خاص دلچسپی نہ رکھتے ہوں تو وہ اس صورتِ حال میں شریعت کی روشنی میں قانون سازی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ کام چل رہا ہے کے اصول پر وہ اس طریقِ قانون سازی سے سمجھوتاکیے رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حکومتی ادارے ضروری قانون سازی کے بارے میں بے پروائی کا رویہ اختیار کرتے ہیں اور قوانین اپنے فطری ارتقا سے محروم رہتے ہیں۔</p> <p>چھٹا مألہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ رائج الوقت قانون اور عدالتوں کی توہین کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ جب کسی مسئلے میں عدالتیں اپنا فیصلہ سنائیں اور علما اسے باطل قرار دیتے ہوئے اس کے برعکس اپنا فیصلہ صادر کریں تو اس سے عدالتوں کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی شہری عدلیہ کو چیلنج کرنے کے لیے کھڑا ہو گیا ہے۔</p> <p>ان مسائل کے تناظر میں بنگلہ دیش کی عدالتِ عالیہ کا فیصلہ ہمارے نزدیک، امت کی تاریخ میں ایک عظیم فیصلہ ہے۔ جناب جاوید احمد صاحب غامدی نے اسے بجا طور پر صدی کا بہترین فیصلہ قرار دیا ہے۔ بنگلہ دیش کی عدالت اگر علما کے فتووں اور قانونی فیصلوں پر پابندی لگانے کے بجائے، ان کے اظہارِ رائے پر پابندی عائدکرتی تو ہم اسے صدی کا بدترین فیصلہ قرار دیتے اور انھی صفحات میں بے خوفِ لومۃ و لائم اس پر نقد کر رہے ہوتے۔</p> <p>موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کے علما اپنی اصل ذمہ داری کو ادا کرنے کے بجائے ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے پر مصر ہیں جن کے نہ وہ مکلف ہیں اور نہ اہل ہیں۔ قرآن و سنت کی رو سے علما کی اصل ذمہ داری دعوت و تبلیغ، انذار و تبشیر اور تعلیم و تحقیق ہے۔ ان کا کام سیاست نہیں، بلکہ سیاست دانوں کو دین کی رہنمائی سے آگاہی ہے؛ ان کا کام حکومت نہیں، بلکہ حکمرانوں کی اصلاح کی کوشش ہے؛ ان کا کام جہاد و قتال نہیں، بلکہ جہادکی تعلیم اور جذبۂ جہاد کی بیداری ہے؛ اسی طرح ان کا کام قانون سازی اور فتویٰ بازی نہیں بلکہ تحقیق و اجتہاد ہے۔ گویا انھیں قرآنِ مجیدکامفہوم سمجھنے، سنتِ ثابتہ کا مدعا متعین کرنے اور قولِ پیغمبر کا منشامعلوم کرنے کے لیے تحقیق کرنی ہے اور جن امور میں قرآن و سنت خاموش ہیں ان میں اپنی عقل و بصیرت سے اجتہادی آراقائم کرنی ہیں۔ ان کی کسی تحقیق یا اجتہاد کو جب عدلیہ یا پارلیمنٹ قبول کرے گی تو وہ قانون قرار پائے گا۔ اس سے پہلے اس کی حیثیت محض ایک رائے کی ہوگی۔ اس لیے اسے اسی حیثیت سے پیش کیا جائے گا۔</p> <p>اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی حکم نہیں لگایا جائے گا، کوئی فیصلہ نہیں سنایا جائے گا، کوئی فتویٰ نہیں دیا جائے گا، بلکہ طالبِ علمانہ لب و لہجے میں محض علم و استدلال کی بنا پر اپنا نقطۂ نظر پیش کیا جائے گا۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ فلاں شخص کافر ہے، بلکہ اس کی اگر ضرورت پیش آئے تو یہ کہا جائے گا کہ فلاں شخص کا فلاں عقیدہ کفر ہے۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ فلاں آدمی دائرۂ اسلام سے خارج ہو گیا ہے، بلکہ یہ کہا جائے گا کہ فلاں آدمی کا فلاں نقطۂ نظر اسلام کے دائرے میں نہیں آتا۔ یہ نہیں کہا جائے گا فلاں آدمی مشرک ہے، بلکہ یہ کہا جائے گا فلاں نظریہ یا فلاں طرزِ عمل شرک ہے۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ زید کی طرف سے دی گئی ایک وقت کی تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں، بلکہ یہ کہا جائے گا کہ ایک وقت کی تین طلاقیں واقع ہو نی چاہییں۔</p> <p>حکم لگانا، فیصلہ سنانا، قانون وضع کرنا اورفتویٰ جاری کرنا درحقیقت، عدلیہ اور حکومت کا کام ہے کسی عالمِ دین یا کسی اور غیر مجاز فرد کی طرف سے اس کام کو انجام دینے کی کوشش سراسر تجاوز ہے۔ خلافتِ راشدہ کے زمانے میں اس اصول کو ہمیشہ ملحوظ رکھا گیا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب ”ازالتہ الخفا ء“ میں لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>”اس زمانے تک وعظ اور فتویٰ خلیفہ کی رائے پر موقوف تھا۔ خلیفہ کے حکم کے بغیر نہ وعظ کہتے تھے اور نہ فتویٰ دیتے تھے۔ بعد میں خلیفہ کے حکم کے بغیر وعظ کہنے اور فتویٰ دینے لگے اور فتویٰ کے معاملے میں جماعت (مجلسِ شوریٰ) کے مشورہ کی جو صورت پہلے تھی وہ باقی نہ رہی——- (اس زمانے میں) جب کوئی اختلافی صورت نمودار ہوتی، خلیفہ کے سامنے معاملہ پیش کرتے، خلیفہ اہلِ علم و تقویٰ سے مشورہ کرنے کے بعد ایک رائے قائم کرتا اور وہی سب لوگوں کی رائے بن جاتی۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد ہر عالم بطورِ خود فتویٰ دینے لگا اور اس طرح مسلمانوں میں اختلاف برپا ہوا۔“ (بحوالہ ”اسلامی ریاست میں فقہی اختلافات کا حل“، مولاناامین احسن اصلاحی، ص۳۲)</p> </blockquote> </section> </body>
0002.xml
<meta> <title>جن اور فرشتہ</title> <author> <name>طالب محسن</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Mahnama Ishraq January 2001</name> <year>2001</year> <city>Lahore</city> <link>https://www.javedahmedghamidi.org/#!/ishraq/5adb739db7dd1138372dc378?articleId=5adb7427b7dd1138372dd0c5&amp;year=2001&amp;decade=2000</link> <copyright-holder>Al-Mawrid</copyright-holder> </publication> <num-words>1588</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
جن اور فرشتہ
1,588
Yes
<body> <section> <p>(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: ۶۷۔۷۲)</p> <blockquote> <p><annotation lang="ar">عن ابن مسعود رضی اﷲ عنہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ما من أحد إلا و قد وکل بہ قرینہ من الجن و قرینہ من الملائکۃ۔ قالوا: و إیاک یا رسول اﷲ۔ قال: و إیای، و لکن اﷲ أعاننی علیہ فأسلم، فلا یأمرنی إلا بخیر۔</annotation></p> <p>”ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے، مگر یہ کہ وہ اپنے ساتھی ایک جن اور ایک فرشتے کے سپرد کر دیا گیا ہو۔ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ، کیا آپ کے ساتھ بھی یہی معا ملہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، میرے ساتھ بھی، لیکن اللہ نے میری مدد کی، چنانچہ وہ مسلمان ہو گیا۔ لہٰذا وہ مجھے خیر ہی کی باتیں کہتا ہے۔ ”</p> </blockquote> <heading>لغوی مباحث</heading> <p><annotation lang="ar">وکل بہ</annotation>: ’<annotation lang="ar">وَکَّل</annotation>‘ کا مطلب اپنا معاملہ کسی کے سپرد کرنا ہے۔ یہاں یہ مجہول ہے اور اس سے مراد ان کا مسلط ہونا ہے۔</p> <p>قرین: ساتھی، جس کا ساتھ ہمہ وقتی ہو۔</p> <heading>متون</heading> <p>اس روایت کے متون میں کچھ فرق تو محض لفظی ہیں۔ مثلا ایک روایت میں ’<annotation lang="ar">من الجن</annotation>‘ کے بجائے ’<annotation lang="ar">من الشیاطین</annotation>‘ ہے۔ اسی طرح احمد کی ایک روایت میں ’<annotation lang="ar">قد وکل بہ</annotation>‘ کی جگہ ’<annotation lang="ar">ومعہ</annotation>‘ روایت ہوا ہے۔ لیکن ایک فرق کافی اہم ہے اور وہ فرق یہ ہے کہ ایک دو روایات میں ’<annotation lang="ar">قرینہ من الملائکۃ</annotation>‘ کا ذکر نہیں ہے۔ کیونکہ زیادہ تر روایات میں یہ جز بیان ہوا ہے۔ چنانچہ اسے راویوں کا سہو ہی قرار دیا جائے گا۔</p> <heading>معنی</heading> <p>اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو کچھ مادی قواعد و ضوابط کا پابند بنا رکھا ہے۔ یہ قواعد ہم اپنے مشاہدے اور تجزیاتی مطالعے کی روشنی میں سمجھ لیتے ہیں۔ جدیددور میں سائنس دانوں نے اس دائرے میں بہت سا کام کیا ہے اور وہ بہت سے قوانین دریافت کر چکے ہیں اوردریافت کرتے رہیں گے، لیکن اللہ تعالیٰ کی یہ دنیا صرف ان مادی احوال تک محدود نہیں ہے۔ اس مادی کارخانے کے پیچھے ایک غیر مادی نظام بھی کارفرما ہے۔ اس روایت میں اس غیر مادی دنیا کے ایک معاملے کے بارے میں خبردی گئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کے ساتھ کچھ غیر مادی طاقتیں وابستہ ہیں۔ یہ طاقتیں خیر اور شر کی طاقتیں ہیں۔ اس روایت میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ ان طاقتوں کے وابستہ ہونے سے کوئی انسان بھی مستثنٰی نہیں ہے۔</p> <p>قرآنِ مجید میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذی شعور مخلوقات میں فرشتے اورجنات بھی شامل ہیں۔ فرشتے سراپاخیر مخلوق ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی تنفیذ کا ذریعہ بھی ہیں۔ جنات انسانوں کی طرح آزمایش سے گزر رہے ہیں اور انھیں خیروشر کے ترک و اختیار کی پوری آزادی حاصل ہے۔ چنانچہ ان میں صالحین بھی موجود ہیں اور اشرار بھی پائے جاتے ہیں، بلکہ انھی کا ایک فرد ابلیس انسانوں کو گمراہ کرنے کا مشن اختیار کیے ہوئے ہے اور اپنے اس مشن کو پورا کرنے کے لیے انسانوں اور اپنے ہم جنسوں سے کام بھی لیتا ہے۔ ہمارے نزدیک، ملائکہ کی ذمہ داریوں اور ابلیس اور اس کے لشکر کی چالبازیوں کے نتیجے میں وہ صورتِِ حال پیدا ہو جاتی ہے جس کے لیے اس حدیث میں ایک جن اور ایک فرشتے کے مسلط کیے جانے کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔</p> <p>یہاں یہ بات واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کی رہنمائی اور بھلائی ہی کا بندو بست کیا گیا ہے۔ یہ آزمایش کے لیے جنوں اور انسانوں کو دی گئی آزادی ہے جس کے نتیجے میں مذکورہ صورتِ معاملہ پیدا ہو جاتی ہے۔</p> <p>قرآنِ مجید میں یہ بات اس طرح بیان نہیں ہوئی، لیکن فرشتوں اور جنات کے انسانی زندگیوں میں کردار اور مداخلت کو مختلف مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ انعام میں بتایا گیا ہے:</p> <blockquote> <p><annotation lang="ar">وَ ھُوَ الْقَاھِرُ فَوْقَ عِبَادِہِ وَ یُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃٌ۔</annotation>(۶: ۶۱)</p> <p>”وہ اپنے بندوں پر پوری طرح حاوی ہے اور وہ تم پر اپنے نگران مقرر رکھتا ہے۔“</p> </blockquote> <p>مولانا امین احسن اصلاحی اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>”مطلب یہ ہے کہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ خدا اپنی مخلوق کے کسی فرد اور اپنے گلے کی کسی بھیڑ سے غافل ہوتا ہے، سب ہر وقت اسی کے کنٹرول میں ہیں۔ وہ برابر اپنے نگران فرشتوں کو ان پر مقرر رکھتا ہے، جو ایک پل کے لیے بھی ان کی نگرانی سے غافل نہیں ہوتے۔“ (تدبرِقرآن، ج۳، ص۷۰)</p> </blockquote> <p>سورۂ رعد میں اس سے بھی واضح الفاظ میں یہ بات بیان ہوئی ہے:</p> <blockquote> <p><annotation lang="ar">لَہُ مُعَقِّبَاتٌ مِنّ بَیْنِ یَدَیْہِ وَ مِنْ خَلْفِہِ یَحْفَظُوْنَہُ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ۔</annotation> (۱۳: ۱۱)</p> <p>”ان پران کے آگے پیچھے سے امرِالٰہی کے مؤکل لگے رہتے ہیں جو باری باری ان کی نگرانی کرتے ہیں۔“</p> </blockquote> <p>اسی طرح جنات کے مسلط ہونے کا مضمون بھی قرآنِ مجید میں بیان ہوا ہے۔ سورۂ زخرف میں ہے:</p> <blockquote> <p><annotation lang="ar">وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْطَانًا فَھُوَ لَہُ قَرِیْنٌ۔</annotation>(۴۳: ۳۶)</p> <p>”اور جو خدا کے ذکر سے اعراض کر لیتا ہے تو ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں جو اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔“</p> </blockquote> <p>درجِ بالا آیات کے مطالعے سے واضح ہو جاتا ہے کہ روایت میں جو بات بیان ہوئی ہے، وہ قرآنِ مجید میں بھی بتائی گئی ہے۔ روایت سے شبہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیدھی راہ پر لگانے کے ساتھ ساتھ گمراہ کرنے کا بندوبست بھی کیا گیا ہے۔ سورۂ زخرف کی آیت سے واضح ہو جاتا ہے کہ شیطان کا تسلط خود انسان کے اپنے عمل کا نتیجہ ہے۔</p> <p>نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حوالے سے یہ بیان کیا ہے کہ میرے جن کو مسلمان کر دیا گیا ہے۔ یہ درحقیقت پیغمبر کی عصمت کی حفاظت کے اس نظام کا نتیجہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کارِ دعوت کے تحفظ کے لیے کیا جاتا ہے۔</p> <heading>کتابیات</heading> <p>مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ و الجنۃ و النار، باب ۱۷۔ دارمی، کتاب الرقاق، باب ۲۴۔ مسند احمد، مسند عبداللہ بن عباس، مسند عبد اللہ بن مسعود۔</p> </section> <section> <heading>شیطان اورانسان</heading> <blockquote> <p><annotation lang="ar">عن أنس رضی اﷲ عنہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: إن الشیطان یجری من الانسان مجری الدم۔</annotation></p> <p>”حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان انسانی جسم میں اسی طرح گرداں ہے جیسے خون گرداں ہے۔“</p> </blockquote> <heading>لغوی مباحث</heading> <p>یجری مجری۔۔۔: کسی کی جگہ آنا، قائم مقام ہونا۔</p> <heading>متون</heading> <p>بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اپنے ایک عمل کی دلیل کے طور پر تھا۔ روایت کے الفاظ ہیں:</p> <blockquote> <p><annotation lang="ar">عن علی بن الحسین رحمہ اﷲکان النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فی المسجد و عندہ أزواجہ فرحن۔ فقال لصفیۃ بنت حیی: لا تعجلی حتی انصرف معک و کان بینہا فی دار اسامۃ۔ فخرج النبی صلی اﷲ علیہ وسلم معھا۔ فلقیہ رجلان من الانصار۔ فنظرا الی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم، ثم أجازا۔ و قال لہما النبی صلی اﷲ علیہ وسلم: تعالیا، إنھا صفیۃ بنت حیی۔ قالا: سبحان اﷲ یا رسول اﷲ۔ قال: إن الشیطان یجری من الانسان مجری الدم و إنی خشیت أن یلقی فی أنفسکما شیئا۔</annotation> (بخاری، کتاب الاعتکاف، باب ۱۱)</p> <p>”حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے اور آپ کے ساتھ آپ کی ازواج بیٹھی خوش ہو رہی تھیں۔ آپ نے صفیہ بنت حیی سے کہا: جلدی نہ کرو میں تمھارے ساتھ لوٹوں گا۔ اور صفیہ کا گھر دارِ اسامہ میں تھا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ نکلے۔ اس موقع پر انصار کے دو آدمی ملے۔ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا، پھر آگے بڑھ گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو کہا: ادھر آؤ، یہ صفیہ بنت حیی ہیں۔ ان دونوں نے کہا: سبحان اللہ، یا رسول اللہ۔ آپ نے فرمایا: شیطان انسانی جسم میں اسی طرح گرداں ہے جیسے خون گرداں ہے۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ تمھارے دل میں کوئی بات نہ ڈال دے۔“</p> </blockquote> <p>بخاری کی دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صفیہ کے مسجد میں حضور سے ملنے آنے کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں معتکف تھے۔ اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے آئی تھیں۔</p> <p>معلوم ہوتا ہے کہ صاحب مشکوٰۃ نے یہ روایت مسلم سے لی ہے اور پوری روایت لینے کے بجائے باب کی مناسبت سے مکالمے کا ایک جز لے لیا ہے۔ اس جز کے اعتبار سے متون میں صرف ایک ہی فرق روایت ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ ’۔۔۔ یجری۔۔۔ مجری‘ کے بجائے ’۔۔۔ یبلغ۔۔۔ مبلغ‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ </p> <p>دارمی، ابنِ ماجہ اور احمد میں مروی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ ایک اور موقع پر بھی بولا تھا۔ اس روایت کے الفاظ ہیں:</p> <blockquote> <p><annotation lang="ar">عن جابر قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: لا تدخلوا علی المغیبات۔ فان الشیطان یجری من ابن آدم کمجری الدم۔ قالوا: و منک؟ قال: نعم ولکن اﷲأعاننی علیہ فأسلم۔</annotation> (دارمی، کتاب الرقاق، باب ۶۴) </p> <p>”حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اکیلی بیوی ہو تو گھر میں داخل نہ ہو، کیونکہ شیطان ابنِ آدم میں اس کے خون کی طرح گرداں ہے۔ لوگوں نے پوچھا: کیا آپ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ آپ نے فرمایا: ہاں، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے میں میری مدد فرمائی اور وہ مسلمان ہو گیا۔“</p> </blockquote> <heading>معنی</heading> <p>شیطان نے جس مشن کو اختیار کیا ہے، اس کے لیے اس کو متعدد کارندے دستیاب ہیں اور وہ انھیں انسانوں کے پیچھے لگائے رکھتا ہے۔ اس روایت میں ان شیاطین کی مستعدی کو واضح کیا گیا ہے۔ یعنی یہ ایک انسان پراپنے افکار کے ساتھ حملہ آور ہونے کی بار بار کوشش کرتے ہیں۔ یہ کوشش شب وروز میں اتنی بارکی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خون کی گردش سے تشبیہ دی ہے۔ </p> <p>مقصود یہ ہے کہ شیطان کے معاملے میں صالح سے صالح آدمی کو بھی بے پروا نہیں ہونا چاہیے۔ شیاطین ہر وقت چپکے رہتے ہیں اور دراندازی کے ہر موقعے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ متون کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی بیوی کے ساتھ کھڑے ہونے پر راہ سے گزرنے والوں پر واضح کرنا ضروری سمجھا کہ آپ اپنی اہلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جب انھوں نے کسی سوے ظن کی نفی کرنی چاہی تو آپ نے یہ واضح کیا کہ اسی طرح کے مواقع ہوتے ہیں جب شیاطین فائدہ اٹھاتے اور برائی کا بیج بوتے ہیں۔ اسی طرح آپ نے اکیلی عورت کے گھر میں داخل ہونے سے منع کرتے ہوئے بھی یہی جملہ کہا ہے۔ اس موقع پر بھی آپ کا مطلب یہ ہے کہ شیطان کے لیے برائی کی طرف ابھارنے کے مواقع پیدا نہ کرو۔</p> <p>اس روایت سے عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ابلیس ہر آدمی کی رگوں میں گرداں رہتا ہے۔ یہ محض غلط فہمی ہے۔ ابلیس کو یہ طاقت نہیں دی گئی کہ وہ ہرجگہ ہروقت موجود رہے۔ یہ اس کے کارندے ہیں جو وہ مختلف لوگوں پر مسلط کر دیتا ہے اور وہ مسلسل اپنے ہدف کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔</p> <p>کتابیات</p> <p>بخاری، کتاب الاعتکاف، باب ۱۱۔ ۱۲۔ کتاب بدء الخلق باب ۱۰۔ کتاب الاحکام، باب ۲۱۔ مسلم کتاب السلام، باب ۹۔ ترمذی، کتاب الرضاع، باب ۱۶۔ ابوداؤد، کتاب الصوم، باب ۷۹۔ کتاب السنۃ، باب ۱۸۔ کتاب الادب، باب ۸۸۔ ابن ماجۃ، کتاب الصیام، باب ۶۵۔ احمد، مسند انس بن مالک۔ مسند جابر بن عبداللہ۔ حدیث صفیہ ام المؤمنین۔ دارمی، کتاب الرقاق، باب۶۴۔</p> </section> </body>
0003.xml
<meta> <title>شعائر اللہ اور فطرت اللہ</title> <author> <name>ڈاکٹر وسیم مفتی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Mahnama Ishraq February 2001</name> <year>2001</year> <city>Lahore</city> <link>https://www.javedahmedghamidi.org/#!/ishraq/5adb7341b7dd1138372db999?articleId=5adb73f3b7dd1138372dcbcf&amp;year=2001&amp;decade=2000</link> <copyright-holder>Al-Mawrid</copyright-holder> </publication> <num-words>744</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
شعائر اللہ اور فطرت اللہ
744
Yes
<body> <section> <p>”شِعار“ اس لباس کو کہتے ہیں جو جسم کے ساتھ لگا رہتا ہے۔ اس کے مقابل میں ”دِثار“ کا لفظ بولا جاتا ہے یہ وہ لباس ہوتا ہے جو حسبِ ضرورت جسم سے الگ کر کے رکھ لیتے ہیں، جیسے چادر اور اوڑھنی۔ یوں ”شِعار“ کے لفظ میں شِےء لازم کا مفہوم پیدا ہو گیا۔ پھر یہ جنگ اور سفر کے دوران میں پکارے جانے والے کسی خاص نعرے کے لیے استعمال ہونے لگا، جس سے لوگ ایک دوسرے کو بلاتے ہیں یا للکار کر دشمن پر حملہ کر دیتے ہیں، جیسے جنگِ بدر میں مہاجرین یا بنی عبد الرحمن کہہ کر ایک دوسرے کو پکارتے تھے۔ اوس یا بنی عبید اللہ اور خرزج یا بنی عبداللہ پکار کر ایک دوسرے کی ہمت بڑھاتے تھے۔ (البدایہ وا لنھایہ، ابنِ کثیر، ج۳، ص۲۷۴)</p> <p>ایک اور غزوہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’<annotation lang="ar">حٰمٓ۔ لا ینصرون</annotation>‘، شعار مقرر فرمایا۔ (سنن ابو داؤد، کتاب الجہاد) آج کل سلوگن، ماٹو اور ’<annotation lang="en">Coat of arms</annotation>‘ کے الفاظ اس مقصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ عوام کی طاقت ان کے سلوگن میں ہوتی ہے۔ ایسے ہی اسکول اور کالج اپنا ایک ماٹو مقرر کرتے ہیں اور طلبہ کو اسے مدِ نظر رکھنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ ملکی سطح پر قومی ترانہ، قومی جھنڈا، قومی کھیل اور قومی پھول شناخت کا کام انجام دیتے ہیں۔</p> <p>”شِعار“ سے ملتا جلتا لفظ ”شعیرہ“ ہے، جس کی جمع شعائر ہے۔ ”شعیرہ“ کے معنی علامت اور نشانی کے ہیں۔ قرآنِ مجید میں یہ لفظ حج کے اعمال و مناسک کے لیے آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’<annotation lang="ar">ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ</annotation>‘۔ (بے شک صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں)۔ (البقرۃ ۲: ۱۵۸) اسلام کے ابتدائی زمانے میں صحابہ سعی بین الصفا و المروہ سے کراہت محسوس کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ شعائر جاہلیت میں سے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں مطلع کیا کہ صفا اور مروہ جاہلیت کے نہیں بلکہ اللہ کے شعائر میں شامل ہیں۔ سورۂ حج میں ارشاد ہے: ’<annotation lang="ar">والبدن جعلنھا لکم من شعائر اللہ لکم فیھا خیر</annotation>۔ (اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمھارے لیے شعائرِ الہٰی میں سے ٹھیرایا ہے۔ تمھارے لیے ان میں بڑے خیر ہیں)۔ (۲۲: ۳۶) پھر یہ بھی فرمایا: ’<annotation lang="ar">لن ینال اللہ لحومھا ولا دمآؤھا ولکن ینالہ التقویٰ منکم</annotation>‘۔ (نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں اور نہ خون۔ لیکن تمھارے اندر کا تقویٰ اس تک رسائی پاتا ہے)۔ (۲۲: ۳۷) اونٹ عربوں کا محبوب اور سب سے بڑھ کر کام آنے والے جانور تھا۔ یہود اس کی حرمت کا عقیدہ رکھتے تھے۔ اس لیے ہدی کے اونٹوں کے شعائر اللہ میں سے ہونے کا بطور خاص تذکرہ فرمایا اور یہ بھی بتایا کہ ان کے خون اور گوشت کا اللہ کو کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ جذبہء عبودیت اور خدا ترسی کے ساتھ ان کی قربانی ہی اللہ کو مطلوب ہے۔</p> <p>سنن ابنِ ماجہ، کتاب المناسک میں، زید بن خالد الجھنی رضی اللہ عنہ سے اور مسندِ احمد میں ان سے اور حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ جبریل علیہ السلام، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے او رکہا: ’<annotation lang="ar">یا محمد مر اصحابک فلیر فعوا اصواتھم بالتلبیۃ فانھا من شعار الحج</annotation>‘۔ (اے محمد، اپنے صحابہ کو حکم فرمائیں کہ تلبیہ پڑھتے ہوئے آواز بلند رکھیں کیونکہ یہ شعارِ حج میں سے ہے)۔</p> <p>ان شواہد سے پتا چلتا ہے کہ قرآن و حدیث میں شعار اور شعائر کے الفاظ خصوصاً مناسکِ حج کے لیے ہی استعمال ہوئے ہیں۔ سورۂ حج میں ان کے لیے حرمت کا لفظ بھی آیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ شعائر محترم اور قابلِ تعظیم ہیں۔ البتہ اردو اور فارسی لٹریچر میں شعائر کا لفظ عام معنوں میں بولا جاتا ہے۔ تمام مذہبی رسوم، عبادات اور مقدس مقامات ان میں شامل ہو جاتے ہیں اور یہ انگریزی لفظ ’<annotation lang="en">Ritual</annotation>‘ کے قائم مقام ہو گیا ہے۔ اسے زبان کا توسع کہا جا سکتا ہے لیکن خود قرآن و حدیث کے جو نظائر ہم نے پیش کیے ہیں ان کا اسلوب بتاتا ہے کہ صرف افعالِ حج ہی شعائر اللہ نہیں ہیں بلکہ یہ شعائر اللہ میں شامل ہیں اور ان میں سے کچھ ہیں۔ جیسے ’<annotation lang="ar">من شعائر اللہ</annotation>‘(شعائر اللہ میں سے۔ شعائر اللہ کی نوعیت والے) ’<annotation lang="ar">من شِعار الحج</annotation>‘ (عملِ حج میں سے) کی تراکیب سے رہنمائی ملتی ہے۔ چونکہ باقی عبادات اور دینی اہمیت رکھنے والے مقامات کا صراحت سے ذکر نہیں ہوا اس لیے ہم ان کو تبعاً شعائر اللہ کہیں گے کیونکہ یہ لغۃً و عرفاً اس معنی میں شامل ہیں۔ افعالِ حج کے شعائر اللہ میں سے ہونے کی صراحت اسی لیے کی گئی کہ زمانہء جاہلیت کی بعض قبیح رسمیں حج میں شامل ہو گئی تھیں اور صحابہء کرام سعی اور قربانی کے بارے میں کچھ شبہات رکھتے تھے۔ مشرکانہ رسوم کی نفی کر کے اصل مناسک کے بارے میں بتا دیا گیا کہ ان کو بغیر جھجک کے بجا لاؤ کیونکہ یہ اللہ کی قربت اور ثواب کا سبب ہیں۔</p> <p>شعائر اللہ کی طرح ایک اور ترکیب فطرت اللہ ہے جو قرآنِ مجید کی سورۂ روم آیت ۳۰ میں آئی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’<annotation lang="ar">فاقم وجھک للدین حنیفا۔ فطرت اللہ الَتی فطر الناس علیھا</annotation>‘۔ (پس اے نبی، آپ یکسو ہو کر اپنا رخ اس دین کی طرف جما دیں اور اس فطرت پر برقرار رہیں جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے) فطرت سے مراد وہ فطری استعداد و صلاحیت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر بندے میں ودیعت کی ہے۔ اس صلاحیت کو استعمال کر کے آدمی حق و باطل میں امتیاز کرتا ہے اور دینِ توحید تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ مرتے دم تک اور ہوش و حواس کے قائم رہنے تک موجود رہتی ہے اور کوئی اس کو کھرچ نہیں سکتا۔ لاکھ بدلنے کی کوشش کریں، یہ نہیں بدلتی۔ اور جب ہواے نفس اور تزئینِ شیطان کے ڈالے ہوئے حجاب اٹھتے ہیں تو دین کی سیدھی راہ نظر آنے لگتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’<annotation lang="ar">مامن مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یہودانہ او ینصرانہ اویمجسانہ کما تنتج البھیمہ جمآء ھل تحسون فیھا من جدعاء</annotation>‘۔ (ہر نومولود فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، عیسائی یا پارسی بنا ڈالتے ہیں۔ جیسے ایک چوپایہ سالم چوپائے کی شکل میں پیدا ہوتا ہے کیا تم نے دیکھا کہ ان میں کوئی بوچا کانوں سے محروم پیدا ہوا ہو۔ (صحیح بخاری، کتاب الجنائز) چوپائے کی مثال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مشرکانہ رسم واضح کرنے کے لیے دی۔ جب ایک اونٹنی پانچ بچے جن لیتی اور آخری نر ہوتا تو اس کے کان چیر کر اس کو بوچابنا دیتے۔ اس کا دودھ پیتے اور نہ اس پر سواری کرتے۔ جہاں اس کا دل چاہتا چرتی پھرتی۔ اسے ”بحیرہ“ کا نام دیا جاتا۔ (المائدہ ۵: ۱۰۳) اس میں ایک لطیف سا اشارہ کافروں کے اعراض کی طرف بھی ہے کہ وہ کان لپیٹ کر دینِ فطرت سے بہرے ہو چکے ہیں۔</p> <p>یہ حدیث بیان کرنے کے بعد حضرت ابوہریرہ نے سورۂ روم کی یہی آیت تلاوت کر دی۔ اس سے پتا چلا کہ فطرت دینِ توحید و اسلام پر قائم ہونا ہے جبکہ شرک و کفر فطرت کی نفی ہے۔</p> <p>فطرت اللہ کا ایک مظہر وہ جسمانی ساخت وہیئت بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس ہیئت کو برقرار رکھیں اور اس کی آرایش اور اصلاح اس طرح کریں کہ یہ ساخت بگڑنے نہ پائے۔ جسمانی فطرت کو قائم رکھنے اور جسم کی صفائی و ستھرائی کے قاعدے، ابو الانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی نشانی ہیں اور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے ہمیں ملے ہیں۔ صحیح بخاری، کتاب اللباس میں حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں: ’<annotation lang="ar">سمعت النبی، یقول الفطرۃ خمس: الختان والاستحداد و قص الشارب و تقلیم الاظفار و نتف الآباط</annotation>‘۔( میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا۔ پانچ چیزیں فطرت ہیں: ختنہ کرانا، زیر ناف بال صاف کرنا، مونچھیں چھوٹی کرانا، ناخنوں کو کاٹنا اور بغلوں کے بال اکھاڑنا) صحیح، مسلم کتاب الطہارہ میں حضرت عائشہ کی روایت میں دس چیزیں بیان ہوئی ہیں۔ اس میں ’<annotation lang="ar">اعفاء اللحیۃ</annotation>‘۔ (داڑھی کا بڑھانا۔ مسواک کرنا) ’<annotation lang="ar">استنشاق الماء</annotation>‘۔ (ناک میں پانی چڑھا کر صاف کرنا) ’<annotation lang="ar">غسل البراجم</annotation>‘۔ (انگلیوں کے جوڑوں کی میل دھونا) ’<annotation lang="ar">انتقاص الماء</annotation>‘۔ (پانی سے استنجا کرنا) اور ’<annotation lang="ar">المضمضہ</annotation>‘ (کلی کرنے)کے اضافے ہیں۔ ختنے کا ذکر نہیں ہوا۔ بحیثیتِ مجموعی یہ جسم کی صفائی کرنے اور اسے خوب صورت رکھنے کے ضابطے ہیں۔ طبری نے حضرت عبد اللہ بن عباس کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ وہ خصائل ہیں جن کے ذریعے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جانچا گیا۔ یعنی انھیں ان اطوار کی تعلیم دی گئی۔ (جامع البیان الجزء الاول ص۴۱۴۔ ۴۱۵)</p> <p>اب یہ مسلمان اور کافر کے درمیان نشانِ تفریق بن گئے ہیں۔ چنانچہ ایک آدمی نے اسلام قبول کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ کفر کے بال صاف کرو اور ختنہ کراؤ۔ (مسند احمد۔ مسند المکیین حدیث ابی کلیب)</p> <p>فطرت اللہ پر برقرار رہ کر ہی ہم دینِ اسلام پر قائم رہ سکتے ہیں۔ اسی فطرت سے توحید پھوٹتی ہے، شرک کی آلودگی دور ہوتی ہے اور عقائد کا فساد ختم ہوتا ہے۔ وحی کی تعلیم اسی فطرت کو چمکا کر اسے جلا بخشتی ہے۔ اس فطرت کی روشنی ہی میں ہم اپنے وجود اور اپنی وضع قطع کو اصل حالت میں باقی رکھ سکتے ہیں۔ اس فطرت کے منافی تزئین و آرایش جسم میں بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ کافر فطرت کو مسخ کر کے خیالات و اعمال کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔</p> <p>ایسے ہی شعائر اللہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ہیں۔ ان کی تعظیم خود اللہ کی تعظیم ہے۔ <annotation lang="ar">ذلک ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوب</annotation>‘۔ (ان امور کا اہتمام رکھو۔ اور جو اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے تو یاد رکھے کہ یہ چیز دل کے تقویٰ سے تعلق رکھنے والی ہے)۔ (الحج ۲۲: ۳۲) ہمیں حق نہیں پہنچتا کہ اپنی طرف سے کوئی شعیرہ مقرر کر لیں یا اللہ نے تعظیم کا جو طریقہ بتایا ہے اسے چھوڑ کر اپنی مرضی سے طریقہء تعظیم وضع کر لیں۔ حجرِ اسود کو بوسہ دینا یا اشارے سے استلام کرنا شعیرہ ہے۔ صفا اور مروہ کے درمیان پہلے آہستہ پھر تیز چلنا، شعار ہے۔</p> <p>بیعت اللہ کا طواف کرنا ہی عبادت ہے۔ نماز اور روزے کے جن آداب کی ہمیں تعلیم دی گئی ہے، انھیں اسی طرح بجا لانا ہی ہمارے لیے عبادت ہے۔ ان میں اپنی طرف سے کمی بیشی کرنا جائزنہیں۔ اپنی طرف سے نئے مقدس مقامات بنا لینا بھی درست نہیں کیونکہ اس سے شرک کی راہ کھلتی ہے۔</p> <p>فطرت اللہ اور شعائر اللہ دین کے دو پہلو ہیں، جو مختلف بھی ہیں اور آپس میں مربوط بھی۔ کچھ باتیں ہمیں اپنی عقل سے سمجھ میں آجاتی ہیں اور کچھ کتاب و سنت کی رہنمائی سے معلوم ہوتی ہیں۔ ہمارا کام ہے کہ اپنی عقل کو عقلِ سلیم بنائیں اور کتاب و سنت سے ہدایت حاصل کرنے میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔</p> </section> </body>
0004.xml
<meta> <title>نومولود اور شیطان</title> <author> <name>طالب محسن</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Mahnama Ishraq February 2001</name> <year>2001</year> <city>Lahore</city> <link>https://www.javedahmedghamidi.org/#!/ishraq/5adb7341b7dd1138372db999?articleId=5adb7427b7dd1138372dd0ca&amp;year=2001&amp;decade=2000</link> <copyright-holder>Al-Mawrid</copyright-holder> </publication> <num-words>1871</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
نومولود اور شیطان
1,871
Yes
<body> <section> <p>(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: ۶۹۔۷۲)</p> <blockquote> <p><annotation lang="ar">عن إبی ھریرۃ رضی اﷲ عنہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: ما من بنی آدم مولود إلا یمسہ الشیطان حین یولد۔ فیستھل صارخا من الشیطان، غیر مریم و ابنھا (علیھما الصلٰوۃ و السلام)۔</annotation></p> <p>”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدم کی اولاد میں کوئی جنم لینے والا ایسا نہیں ہے جسے شیطان اس کی پیدایش کے موقع پر تنگ نہ کرے۔ چنانچہ وہ شیطان کے چھونے سے چیخ چیخ کر رونے لگتا ہے، سوائے مریم علیہا السلام اور ان کے بیٹے کے۔“</p> </blockquote> <heading>لغوی مباحث</heading> <p><annotation lang="ar">مس</annotation>: یہ لفظ چھونے کے معنی میں آتا ہے۔ شیطان کے ساتھ نسبت میں اس میں شیطان کی ایذا رسانی کے معنی کا اضافہ ہو جاتا ہے۔</p> <p><annotation lang="ar">یستہل</annotation>: بچے کا پیدایش کے موقع پر رونا۔</p> <p><annotation lang="ar">صارخا</annotation>: بلند آواز سے چیخنا۔ یہ حال ہونے کی سبب سے منصوب ہے۔</p> <heading>متون</heading> <p>صاحبِ مشکوٰۃ نے یہ روایت حضرت مسیح اور حضرت مریم علیہما الصلوۃ و السلام کے استثنا پر ختم کر دی ہے۔ بخاری کی ایک روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا اس استثنا پر قرآنِ مجید کی آیت: ’<annotation lang="ar">وانی اعیذھا بک و ذریتھا من الشیطان الرجیم</annotation>‘، (میں اسے اور اس کی ذریت کو(اے اللہ،) آپ کی پناہ میں دیتی ہوں)(آلِ عمران ۳:۳۶) سے استشہاد بھی روایت ہوا ہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت ابو ہریرہ نے یہ آیت ’<annotation lang="ar">واقرء وا ان شئتم</annotation>‘ (اگر چاہو تو پڑھو )کے الفاظ بول کر پڑھی ہے۔ باقی فرق محض لفظی ہیں۔ مثلاًصحیح مسلم کی ایک روایت میں ’<annotation lang="ar">مس</annotation>‘ اور ’<annotation lang="ar">یمس</annotation>‘ کی جگہ پر اس کے ہم معنی الفاظ <annotation lang="ar">’نخس</annotation>‘ اور ’<annotation lang="ar">نخسۃ</annotation>‘ کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔ بعض روایات میں ’<annotation lang="ar">مس</annotation>‘ کی ایک دوسری صورت ’<annotation lang="ar">مسۃ</annotation>‘ استعمال ہوئی ہے۔ یہ روایت بخاری، مسلم اور مسندِ احمد میں روایت ہوئی ہے۔ اور اس کے ہر متن میں مذکورہ آیت کا حوالہ دیا گیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ صاحبِ مشکوٰۃ نے اس حصے کو نقل نہیں کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ استشہاد کچھ زیادہ قوی نہیں ہے۔</p> <p>اس روایت کی تشریح کرتے ہوئے صاحبِ ”فتح الباری“ نے ایک روایت نقل کی ہے جس میں شیطان کا طریقِ کار بیان ہوا ہے۔ یہ روایت بخاری میں ہے۔ روایت کے الفاظ ہیں:</p> <blockquote> <p><annotation lang="ar">عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ عنہ قال: قال النبی صلی اﷲ علیہ وسلم: کل بنی آدم یطعن الشیطان فی جنبیہ باصبعہ حین یولد غیر عیسی بن مریم ذھب یطعن فطعن فی الحجاب۔</annotation> (کتاب بدء الخلق، باب ۱۰)</p> <p>”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمام بنی آدم کوجب وہ پیدا ہوتے ہیں، شیطان ان کے پہلو میں اپنی انگلی سے کچوکا دیتا ہے۔ سوائے عیسیٰ بن مریم کے۔ وہ انھیں بھی کچوکا دینے گیا، مگر کچوکا ایک پردے میں دیا۔“</p> </blockquote> <heading>معنی</heading> <p>یہ روایت اپنے مفہوم کے اعتبار سے ایک خبر کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ پیدایش کے موقع پر بچے کے رونے کا سبب کیا ہے۔ اس خبر کے درست یا غلط ہونے کا مدار روایت کی صحت پر ہے۔ بخاری ومسلم کے اس روایت کو منتخب کرلینے کی وجہ سے یہ ایک وقیع روایت ہے۔ لہٰذا اس میں جو خبر دی گئی ہے اسے درست ہی قرار دیا جائے گا۔ قرآنِ مجید میں نفیاً، اثباتاً، یا اشارۃً بھی اس ضمن میں کوئی بات بیان نہیں ہوئی ہے۔ چنانچہ اس روایت کے فہم یا مدعا کو متعین کرنے میں ہمیں قرآنِ مجید سے کوئی مدد نہیں ملتی۔</p> <p>بچے کے رونے کاظاہری سبب طبی ہے۔ اطبا کے مطابق بچے کے سانس کے عمل کا آغاز پھیپھڑوں کے کھلنے سے ہوتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بچہ بلند آواز سے چیخے۔ جب بچہ چیختا ہے تو اس کے پھیپھڑے کھل جاتے ہیں اور تنفس کا عمل ہموار طریقے سے جاری ہو جاتا ہے۔ اطبا کی اس بات اور حدیث کے مفہوم میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ انسان کے لیے جو چیز طبی لحاظ سے ناگزیر ہے، اس کو مہیا کرنے کے مرئی یا غیر مرئی اسباب کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔</p> <p>اصل میں اس حدیث سے جس بات کا ابلاغ مقصود ہے، وہ شیطان کا عمل دخل ہے۔ اس روایت میں بتا دیا گیا ہے کہ انسان کے اس دنیا میں آتے ہی اس کا سابقہ شیاطین سے پڑ جاتا ہے۔ اس روایت سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ شیطان کی انسان سے دشمنی کی شدت کیا ہے۔ ایک بچہ جو ابھی دنیا میں داخل ہوا ہے۔ جس کا ابھی اس خیر و شر کی کشمکش سے کوئی واسطہ نہیں ہے، شیطان اسے بھی نظر انداز نہیں کرتا اور اپنی دشمنی کا اظہار اسے جسمانی تکلیف دے کر کرتا ہے۔</p> <p>قرآنِ مجید میں شیطان کی انسان سے دشمنی اور اسے گمراہ کرنے کا عزم پوری وضاحت سے بیان ہوا ہے۔ یہ روایت اس دشمنی کے نقطۂ آغاز کا پتا دیتی ہے۔</p> <p>اس روایت میں حضرت عیسٰی علیہ السلام اور ان کی والدہ ماجدہ حضرت مریم علیہا السلام کا استثنا بھی بیان ہوا ہے۔ یہ استثنا کس وجہ سے ہے ؟یہ نہ اس روایت سے واضح ہوتا ہے اور نہ اس روایت کے کسی اور متن میں اس کی وضاحت بیان ہوئی ہے۔ لہٰذا یہ بات بھی ایک خبر ہی کی حیثیت رکھتی ہے اور اس مجمل خبر کو جان لینے کے سوا ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اس کے بارے میں مزید کوئی بات کہنے اور جاننے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔</p> <p>حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جس آیت سے اس استثنا کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے وہ بڑی حد تک قابلِ لحاظ ہے۔ لیکن آیت کا اصل مدعا اس خبر کی تصویب نہیں ہے۔ قرآنِ مجید میں حضرت مریم کی یہ دعا جس محل میں بیان ہوئی ہے، اس سے واضح ہے کہ ان کی یہ دعا قبول ہوئی اور ان کی بچی اور نواسے کو شیطان کی دراندازیوں سے محفوظ کر دیا گیا، لیکن یہ بات واضح رہے کہ انھوں نے یہ دعا حضرت مریم علیہا السلام کی پیدایش کے بعد کی تھی۔ لہٰذا حضرت مریم کی پیدایش کے موقع کو اس آیت کی وجہ سے مستثنیٰ سمجھنا درست معلوم نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس روایت کا وہ متن زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے جس میں صرف عیسٰی بن مریم علیہ السلام کا استثنا بیان ہوا ہے۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کا پہلے دن ہی سے محفوظ ہونا اس لیے بھی درست ہے کہ انھیں گود ہی میں کلام کرنے کی اہلیت دی گئی تھی اور انھوں نے اپنے پیغمبر ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ قرآنِ مجید میں یہ بات پوری وضاحت سے بیان کی گئی ہے کہ جب کسی شخص پر وحی نازل کرنے کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو زمین آسمان میں اس حق کی حفاظت کا خصوصی اہتمام کر دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے، حضرت عیسی علیہ السلام کے لیے یہ اہتمام بچپن ہی سے ہونا چاہیے۔ اسی طرح حضرت مریم علیہا السلام کو چونکہ ایک ایسے پیغمبر کی ماں بننا تھا، جو بن باپ کے پیدا ہو لہٰذا ان کی خصوصی حفاظت بھی سمجھ میں آنے والی بات ہے۔</p> <heading>کتابیات</heading> <p>بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ۴۲۔ کتاب تفسیر القرآن، باب ۵۹۔ مسلم، کتاب فضائل القرآن، باب ۴۰۔ مسند احمد، مسندِ ابی ہریرہ۔</p> </section> <section> <heading>بچے کا رونا اور شیطان</heading> <blockquote> <p><annotation lang="ar">عن أبی ھریرۃ رضی اﷲ عنہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: صیاح المولود حین یقع نزغۃ من الشیطان۔</annotation></p> <p>”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بچے کے چیخنے کاباعث، جب بچا چیختا ہے، شیطان کا کچوکا ہے۔“</p> </blockquote> <heading>لغوی مباحث</heading> <p><annotation lang="ar">نزغۃ</annotation>: کچوکا، انگلی یا کسی نوکیلی چیز کو چبونا۔</p> <heading>متون</heading> <p>اس روایت کا یہی متن روایت ہوا ہے۔ اصل میں یہ پہلی روایت کے مضمون ہی کا مختصر بیان ہے۔</p> <heading>معنی</heading> <p>اس روایت کے متعدد پہلو ہم اوپر کی روایت کی شرح میں واضح کر چکے ہیں۔ یہاں صرف ایک پہلو کی توضیح پیشِ نظر ہے۔ ان روایات کے مطالعے سے یہ تاثر ہو سکتا ہے کہ انسان پیدا ہوتے ہی شیطان کے تسلط میں آجاتا ہے۔ اس روایت کا مدعا یہ نہیں ہے۔ شیطان کی صلاحیت صرف وسوسہ اندازی تک محدود ہے۔ انسان اپنے ارادے سے اس وسوسے کو قبول کرتا اور شیطانی راستوں پر چل نکلتا ہے۔</p> <heading>کتابیات</heading> <p>مسلم، کتاب الفضائل، باب ۶۵۔ تفصیلی مضمون کے لیے دیکھیے، ”کتابیات“، حدیثِ سابق۔</p> </section> <section> <heading>شیطان کے کارندے</heading> <blockquote> <p><annotation lang="ar">عن جابر رضی اﷲ عنہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم إن إبلیس یضع عرشہ علی الماء۔ ثم یبعث سرایاہ یفتنون الناس فأدناھم منہ منزلۃ أعظمھم فتنۃ۔ یجئ أحدھم فیقول: فعلت کذا و کذا۔ فیقول: ما صنعت شیئا۔ قال: ثم یجئ أحدھم فیقول: ما ترکتہ حتی فرقت بینہ و بین إمرأتہ۔ قال: فیدنیہ منہ۔ فیقول: نعم أنت۔ قال الأعمش: أراہ۔ قال: فیلتزمہ۔</annotation></p> <p>”حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے۔ پھر وہ مہمات بھیجتا ہے جو لوگوں کو فتنوں میں ڈالتی ہیں۔ جو ان میں سب سے بڑا فتنہ پرداز ہوتا ہے وہ مرتبے میں اس کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک آتا ہے، پھر وہ بیان کرتا ہے: میں نے یوں اور یوں کیا۔ پھر وہ کہتا ہے: تم تو کچھ بھی نہیں کر سکے، پھر ایک اور آتا ہے، آکر کہتا ہے: میں نے اسے نہیں چھوڑا، یہاں تک کہ اس کے اور اس کی گھر والی کے مابین تفریق کرا دی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ شیطان اسے اپنے قریب کر لیتا ہے اور کہتا ہے تم کیا خوب ہو۔ اعمش کہتے کہ میرے خیال میں آپ نے فرمایا تھا: پھر وہ اسے لپٹا لیتا ہے۔“</p> </blockquote> <heading>لغوی مباحث</heading> <p><annotation lang="ar">عرش</annotation>: صاحبِ اقتدار کی نشست۔</p> <p><annotation lang="ar">یفتنون</annotation>: آزمایش میں ڈالتے ہیں۔</p> <p><annotation lang="ar">فرقت</annotation>: تفریق کرا دیتے ہیں۔</p> <p><annotation lang="ar">نعم أنت</annotation>: تم کیا خوب ہو۔</p> <p><annotation lang="ar">یلتزم</annotation>: لپٹنا۔ چمٹ جانا۔</p> <heading>متون</heading> <p>اس روایت کا تفصیلی متن یہی ہے۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ باقی کتابوں میں فتنوں کی تفصیل بیان نہیں کی گئی۔ صرف یہ خبر دی گئی ہے کہ ابلیس اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے اور اس کے ہاں بڑے مراتب اسے حاصل ہوتے ہیں جو انسانوں کے لیے سب سے بڑا فتنہ سامان ہوتا ہے۔</p> <heading>معنی</heading> <p>یہ روایت بھی ان اخبار میں سے ہے جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا گیا اور آپ نے اپنی امت کو باخبر کیا۔ اس روایت میں پہلی بات یہ واضح کی گئی ہے کہ شیطان اپنی فتنہ سامانیوں میں اکیلا نہیں ہے۔ اس کا کارخانہ خود اس پر اور اس کے بہت سے کارندوں پر مشتمل ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ شیطان کے یہ کارندے ہر ہر طرح کی برائیوں کی ترویج کی کوشش کرتے ہیں اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے بار بار وسوسہ اندازی کرتے ہیں۔ تیسری بات یہ واضح ہوتی ہے کہ شیطان کو سب سے زیادہ مرغوب زوجین میں مناقشہ پیدا کرنا ہے۔ انسانی سماج کی خیر و فلاح کا انحصار گھر کے سکون پر ہے۔ اگر یہ سکون غارت ہو تو اس کے نتیجے میں صرف دو مرد وعورت ہی متاثر نہیں ہوتے، بلکہ ان کے بچے اور ان کے خاندان بھی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سب سے برا نتیجہ یہ ہے کہ نئی نسل کی صحیح خطوط پر تربیت شدید طور پر متاثر ہوتی ہے۔</p> <p>یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ میاں بیوی کی مثال ایک نمایاں مثال کی حیثیت سے مذکور ہوئی ہے۔ شیطان کا ہدف تمام انسانی تعلقات ہیں۔ وہ ہر ہر رشتے کو توڑنا چاہتا ہے۔ چنانچہ وہ بہنوں اور بھائیوں، والدین اور اولاد اور دوست اور دوست کے مابین بھی منافرت کے بیج بوتا رہتا ہے۔</p> <p>اس سے ایک اور نکتہ بھی واضح ہوتا ہے۔ ان روابط کی درستی انسانی اخلاق کی درستی کی مرہون ہے۔ چنانچہ حقیقت میں اس کا اصل ہدف اخلاق کی بربادی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اس لیے بیان کر دی ہے کہ ہر انسان اخلاق کے معاملے میں شیطان کی دراندازیوں پر متنبہ رہے۔</p> <heading>کتابیات</heading> <p>مسلم، کتاب صفۃ القیامہ و الجنہ والنار، باب ۱۷۔ مسند احمد، مسند جابر بن عبداللہ۔</p> </section> <section> <heading>اہلِ عرب اور شیطان</heading> <blockquote> <p><annotation lang="ar">عن جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: إن الشیطان قد أیس من أن یعبدہ المصلون فی جزیرۃ العرب و لکن فی التحریش بینھم۔</annotation></p> <p>”حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان جزیرۂ عرب کے ان نمازیوں سے اپنی عبادت سے مایوس ہو چکا ہے۔ لیکن باہمی مناقشات میں وہ پر امید ہے۔“</p> </blockquote> <heading>لغوی مباحث</heading> <p><annotation lang="ar">المصلون</annotation>: یہ نمازی۔ یہ الف لام عہد کا ہے۔</p> <p><annotation lang="ar">التحریش</annotation>: باہمی تفریق و دشمنی۔</p> <heading>متون</heading> <p>روایت کے متون زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ ایک روایت میں ’<annotation lang="ar">فی التحریش</annotation>‘ کے بعد ’<annotation lang="ar">بینھم</annotation>‘ کا اضافہ روایت ہوا ہے۔ مسلم کی ایک روایت کے سوا کسی روایت میں ’<annotation lang="ar">المصلون</annotation>‘ کے ساتھ ’<annotation lang="ar">جزیرۃ العرب</annotation>‘ کی تخصیص بیان نہیں ہوئی۔ امام احمد نے اپنی کتاب میں یہ جملہ حج کے موقع پر آپ کے خطاب کے ایک جزکے طور پر بھی روایت کیا ہے۔</p> <heading>معنی</heading> <p>یہ روایت صحابہء کرام رضوان اللہ عنہم کے حوالے سے ایک عظیم الشان بشارت کو بیان کرتی ہے۔ یہاں شیطان کی عبادت سے شرک مراد ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کا تصور جس طرح راسخ کر دیا تھا اور صحابہء کرام جس طرح اس پر جازم ہو گئے تھے، یہ خوش خبری اسی کامیابی کا نتیجہ ہے۔</p> <p>اس روایت سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ قیامت تک کے اہلِ عرب کو کوئی خصوصیت حاصل ہو گئی ہے۔ روایت میں ’<annotation lang="ar">المصلون</annotation>‘ کا لفظ معرف باللام آیا ہے اور یہ لام عہد کا ہے۔ چنانچہ اس روایت میں صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے براہِ راست تربیت کردہ صحابہ ہی کو ’<annotation lang="ar">المصلون</annotation>‘ قرار دیا گیا ہے۔</p> <p>اس روایت میں ایک اندیشے کو بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ عقائد کے معاملے میں شیطان کا بس تم پر نہیں چلے گا۔ لیکن تمھارے اندر پھوٹ ڈالنے کے معاملے میں اسے کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بات کو بیان کرنے سے آپ کا مقصود یہ معلوم ہوتا ہے کہ شرک و توحید کے معاملے میں تمھارے اندر ضروری حساسیت پیدا ہو گئی۔ چنانچہ شیطان کی وسوسہ اندازی اس میں مؤثر نہیں ہو گی۔ لیکن تفریق و انتشار کے معاملے میں تم اس کے فریب میں آ سکتے ہو۔ تمھیں اس معاملے میں بھی پوری طرح چوکنا رہنا چاہیے۔</p> <heading>کتابیات</heading> <p>مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ و الجنۃ و النار، باب ۱۷۔ ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ۲۵۔ مسند احمد، مسند انس بن مالک۔</p> </section> </body>
0005.xml
<meta> <title>مولانا زاہد الراشدی کی خدمت میں</title> <author> <name>معز امجد</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Mahnama Ishraq March 2001</name> <year>2001</year> <city>Lahore</city> <link>https://www.javedahmedghamidi.org/#!/ishraq/5adb7355b7dd1138372dbc47?articleId=5adb7355b7dd1138372dbc50&amp;year=2001&amp;decade=2000</link> <copyright-holder>Al-Mawrid</copyright-holder> </publication> <num-words>7335</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
مولانا زاہد الراشدی کی خدمت میں
7,335
Yes
<body> <section> <p>پچھلے دنوں مولانا زاہد الراشدی صاحب کا ایک مضمون ”غامدی صاحب کے ارشادات پر ایک نظر‘ ‘تین قسطوں میں روزنامہ ”اوصاف‘ ‘میں شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں مولانا محترم نے استاذِ گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی کی بعض آرا پر اظہارِ خیال فرمایا ہے۔ مذکورہ مضمون میں مولانا محترم کے ارشادات سے اگرچہ ہمیں اتفاق نہیں ہے، تاہم ان کی یہ تحریر علمی اختلافات کے بیان اور مخالف نقطہء نظر کی علمی آرا پر تنقید کے حوالے سے ایک بہترین تحریر ہے۔ مولانا محترم نے اپنی بات کو جس سلیقے سے بیان فرمایا اور ہمارے نقطہء نظر پر جس علمی اندازسے تنقید کی ہے، وہ یقیناًموجودہ دور کے علما اور مفتیوں کے لیے ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے۔ مولانا محترم کے اندازِ بیان اور ان کی تنقید کے اسلوب سے جہاں ہمارے دل میں ان کے احترام میں اضافہ ہوا ہے، وہیں اس سے ہمیں اپنی بات کی وضاحت اور مولانا محترم کے فرمودات کا جائزہ لینے کا حوصلہ بھی ملا ہے۔ اس مضمون میں ہم مولانا محترم کے اٹھائے ہوئے نکات کا بالترتیب جائزہ لیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے ہماری دعا ہے کہ وہ صحیح بات کی طرف ہماری رہنمائی فرمائے اور غلط باتوں کے شر سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔</p> <heading>علماے دین اور سیاست</heading> <p>سب سے پہلی بات، جس پر مولانا محترم نے تنقید کی ہے، وہ علماے دین کے کام کے حوالے سے استاذِ گرامی کی رائے ہے۔ مولانا محترم کے اپنے الفاظ میں، وہ اس طرح سے ہے:</p> <blockquote> <p>علماے کرام خود سیاسی فریق بننے کی بجائے، حکمرانوں اور سیاست دانوں کی اصلاح کریں تو بہتر ہو گا، مولوی کو سیاست دان بنانے کے بجائے، سیاست دان کو مولوی بنانے کی کوشش کی جائے۔</p> </blockquote> <p>مولانا محترم استاذِ گرامی کی اس رائے کے بارے میں لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے کہ علماے کرام خود سیاسی فریق بننے کی بجائے، حکمرانوں اور سیاست دانوں کی اصلاح کریں، تو اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ یہ موقع ومحل اور حالات کی مناسبت کی بات ہے اور دونوں طرف اہلِ علم اور اہلِ دین کا اسوہ موجود ہے۔ امت میں اکابر اہلِ علم کا ایک بہت بڑا طبقہ ہے جس نے حکمرانوں کے خلاف سیاسی فریق بننے کی بجائے ان کی اصلاح اور رہنمائی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ لیکن ایسے اہلِ علم بھی امت میں رہے ہیں، جنھوں نے اصلاح کے دوسرے طریقوں کو کامیاب نہ ہوتا دیکھ کرخود فریق بننے کا راستہ اختیار کیا ہے ... اس لیے اگر کسی دور میں علماے کرام یہ سمجھیں کہ خود فریق بنے بغیر معاملات کی درستی کا امکان کم ہے تو اس کا راستہ بھی موجود ہے اور اس کی مطلقاً نفی کر دینا دین کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔</p> </blockquote> <p>ہمیں مولانا محترم کی محولہ عبارت سے بہت حد تک اتفاق ہے۔ علماے دین کا سیاسی اکھاڑوں میں اترنے کا مسئلہ، جیسا کہ استاذِ گرامی کے رپورٹ کیے گئے بیان سے بھی واضح ہے، حرمت و حلت کا مسئلہ نہیں ہے۔ استاذِ گرامی کا نقطہء نظر یہ نہیں ہے کہ علما کا سیاست کے میدان میں اترنا حرام ہے، اس کے برعکس، ان کی رائے یہ ہے کہ سیاست کے میدان میں اترنے کے بجائے، یہ ’بہتر ہوگا‘ کہ علماسیاست دانوں کی اصلاح کریں۔ ظاہر ہے کہ مسئلہ بہتر اور کہتر تدبیر کا ہے، نہ کہ حلال و حرام یا مطلقاً نفی کا۔</p> <p>یہاں ہم البتہ، یہ بات ضرور واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ قرآنِ مجید میں علماے دین کی جو ذمہ داری بیان ہوئی ہے، وہ اپنی قوم میں آخرت کی منادی کرنا اور اس کے بارے میں اپنی قوم کو انذار کرنا ہے۔ چنانچہ، اپنے کام کے حوالے سے وہ جو رائے بھی قائم کریں اور جس میدان میں اترنے کا بھی وہ فیصلہ کریں، انھیں یہ بات کسی حال میں فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں وہ سب سے پہلے اسی ذمہ داری کے حوالے سے مسؤل ٹھیریں گے جو کتابِ عزیز نے ان پر عائد کی ہے۔ اس وجہ سے انھیں اپنی زندگی اور اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتے ہوئے یہ ضرور سوچ لینا چاہیے کہ کہیں ان کا یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ ذمہ داری کو ادا کرنے میں رکاوٹ تو نہیں بن جائے گا۔</p> <p>ہم یہاں اتنی بات کا اضافہ ضروری سمجھتے ہیں کہ علماے کرام پر قرآنِ مجید نے اصلاحِ احوال کی نہیں، بلکہ اصلاحِ احوال کی جدوجہد کرنے کی ذمہ داری عائد کی ہے۔ مولانا محترم اگر غور فرمائیں، تو ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے۔ پہلی صورت میں منزلِ مقصود اصلاحِ احوال، جبکہ دوسری صورت میں اصلاح کی جدوجہد ہی راستہ اور اس راستے کا سفر ہی اصل منزل ہے۔ چنانچہ، ہمارے نزدیک، معاملات کی درستی کے امکانات خواہ بظاہر ناپید ہی کیوں نہ ہوں، علماے دین کا کام کامیابی کے امکانات کا جائزہ لینا نہیں، بلکہ اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آنے تک اس کی ڈالی ہوئی ذمہ داری کو بہتر سے بہتر طریقے پر ادا کرتے چلے جانا ہے۔ اس معاملے میں قرآنِ مجید نے ان لوگوں کا بطورِ مثال، خاص طور پر ذکر کیا ہے، جو یہود کی ایک بستی میں آخرت کی منادی کرتے تھے۔ یہ یہود کی اخلاقی پستی کا وہ دور تھا کہ اصلاح کی اس جدوجہد کی کامیابی کا سرے سے کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا۔ چنانچہ، جب بستی والوں نے ان مصلحین سے یہ پوچھا کہ ناامیدی کی اس تاریکی میں وہ یہ کام آخر کس لیے کر تے چلے جا رہے ہیں، تو انھوں نے جواب دیا:</p> <blockquote> <p><annotation lang="ar">مَعْذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمْ۔ (الاعراف ۷: ۱۶۴)</annotation></p> <p>”اس لیے کہ تمھارے رب کے حضور یہ ہمارے لیے عذر بن سکے(کہ ہم نے اپنے کام میں کوئی کمی نہیں کی)۔“</p> </blockquote> <p>قرآنِ مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت و انذار کے معاملے میں انبیاے کرام کا اسوہ بھی یہی رہا ہے۔ حالات کی نامساعدت اور کامیابی کی امید کے فقدان کو انھوں نے اپنے لیے کبھی رکاوٹ نہیں سمجھا۔ وہ اللہ کی طرف سے فیصلہ آنے تک اسی کام پر لگے رہے جس کا پروردگارِ عالم نے انھیں حکم دیا تھا۔ اس میدانِ عمل کا اسوۂ حسنہ یہی ہے۔ اس کی راہ پر چل نکلنا ہی منزل اور اس راہ میں اٹھایا ہوا ہر قدم ہی اصل کامیابی ہے۔</p> <heading>زکوٰۃ اور ٹیکس</heading> <p>اخبار کے بیان کے مطابق، استاذِگرامی نے کہا ہے:</p> <blockquote> <p>زکوٰۃ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ٹیکسیشن کو ممنوع قرار دے کر حکمرانوں سے ظلم کا ہتھیار چھین لیا ہے۔</p> </blockquote> <p>مولانا محترم اس بیان کے بارے میں لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>... لیکن کیا کسی ضرورت کے موقع پر (زکوٰۃ کے علاوہ) اور کوئی ٹیکس لگانے کی شرعاً ممانعت ہے؟ اس میں ہمیں اشکال ہے۔ اگر غامدی صاحب محترم اللہ تعالیٰ کی طرف سے زکوٰۃ کے بعد کسی اور ٹیکسیشن کی ممانعت پر کوئی دلیل پیش فرما دیں، تو ان کی مہربانی ہو گی اور اس باب میں ہماری معلومات میں اضافہ ہو جائے گا۔</p> </blockquote> <p>استاذِ گرامی اپنی بہت سی تحریروں میں اپنی رائے کی بنیاد واضح کر چکے ہیں۔ اپنے مضمون ’قانونِ معیشت‘ میں وہ لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p><annotation lang="ar">”فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُاالزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَھُمْ۔ (التوبۃ ۹: ۵)</annotation></p> <p>”پھر اگر وہ توبہ کر لیں، نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔“</p> <p>سورۂ توبہ میں یہ آیت مشرکینِ عرب کے سامنے ان شرائط کی وضاحت کے لیے آئی ہے جنھیں پورا کر دینے کے بعد وہ مسلمانوں کی حیثیت سے اسلامی ریاست کے شہری بن سکتے ہیں۔ اس میں ’فخلوا سبیلہم‘ (ان کی راہ چھوڑ دو) کے الفاظ اگر غور کیجیے تو پوری صراحت کے ساتھ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ آیت میں بیان کی گئی شرائط پوری کرنے کے بعد جو لوگ بھی اسلامی ریاست کی شہریت اختیار کریں، اس ریاست کا نظام جس طرح ان کی جان، آبرو اور عقل و رائے کے خلاف کوئی تعدی نہیں کر سکتا، اسی طرح ان کی املاک، جائدادوں اور اموال کے خلاف بھی کسی تعدی کا حق اس کو حاصل نہیں ہے۔ وہ اگر اسلام کے ماننے والے ہیں، نماز پر قائم ہیں اور زکوٰۃ دینے کے لیے تیار ہیں تو عالم کے پروردگار کا حکم یہی ہے کہ اس کے بعد ان کی راہ چھوڑ دی جائے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمانِ واجب الاذعان کی رو سے ایک مٹھی بھر گندم، ایک بالشت زمین، ایک پیسا، ایک حبہ بھی کوئی ریاست اگر چاہے تو ان کے اموال میں سے زکوٰۃ لے لینے کے بعد بالجبر ان سے نہیں لے سکتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت میں فرمایا ہے:</p> <p><annotation lang="ar">امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدوا ان لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ ویقیموا الصلوٰۃ ویؤتوا الزکوٰۃ فاذا فعلوا عصموا منی وماء ہم واموالہم الا بحقہا وحسابہم علی اللہ۔ (مسلم، کتاب الایمان)</annotation></p> <p>”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروںیہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ وہ یہ شرائط پوری کر لیں تو ان کی جانیں اور ان کے اموال مجھ سے محفوظ ہو جائیں گے، الا یہ کہ وہ ان سے متعلق کسی حق کے تحت اس سے محروم کر دیے جائیں۔ رہا ان کا حساب تو وہ اللہ کے ذمے ہے۔“</p> <p>یہی بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر نہایت بلیغ اسلوب میں اس طرح بیان فرمائی ہے:</p> <p><annotation lang="ar">ان دماء کم واموالکم حرام علیکم لحرمۃ یومکم ھذا فی شھرکم ھذا فی بلدکم ھذا۔ (مسلم، کتاب الحج)</annotation></p> <p>”بے شک، تمھارے خون اور تمھارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں، ۱؂جس طرح تمھارا یہ دن (یوم النحر) تمھارے اس مہینے (ذوالحجہ) اور تمھارے اس شہر (ام القری مکہ) میں۔“</p> <p>اس سے واضح ہے کہ اس آیت کی رو سے اسلامی ریاست زکوٰۃ کے علاوہ جس کی شرح اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کی وساطت سے مختلف اموال میں مقرر کر دی ہے، اپنے مسلمان شہریوں پر کسی نوعیت کا کوئی ٹیکس بھی عائد نہیں کر سکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:</p> <p><annotation lang="ar">اذا ادیت زکوٰۃ مالک فقد قضیت ما علیک۔ (ترمذی، کتاب الزکوٰۃ)</annotation></p> <p>”جب تم اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہو، تو وہ ذمہ داری پوری کر دیتے ہو جو (ریاست کی طرف سے) تم پر عائد ہوتی ہے۔“</p> <p>اسی طرح آپ نے فرمایا ہے:</p> <p><annotation lang="ar">لیس فی المال حق سوی الزکوٰۃ۔(ابنِ ماجہ، کتاب الزکوٰۃ)</annotation></p> <p>”لوگوں کے مال میں زکوٰۃ کے سوا (حکومت کا) کوئی حق قائم نہیں ہوتا۔“</p> <p>اربابِ اقتدار اگر اپنی قوت کے بل بوتے پر اس حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو یہ ایک بد ترین معصیت ہے جس کا ارتکاب کوئی ریاست اپنے شہریوں کے خلاف کر سکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:</p> <p><annotation lang="ar">لا یدخل الجنۃ صاحب مکس۔(ابو داؤد، کتاب الخراج والامارۃ والفء)</annotation></p> <p>”کوئی ٹیکس وصول کرنے والا جنت میں داخل نہ ہو گا۔“</p> <p>اسلام کا یہی حکم ہے جس کے ذریعے سے وہ نہ صرف یہ کہ عوام اور حکومت کے مابین مالی معاملات سے متعلق ہر کشمکش کا خاتمہ کرتا، بلکہ حکومتوں کے لیے اپنی چادر سے باہر پاؤں پھیلا کر قومی معیشت میں عدمِ توازن پیدا کردینے کا ہر امکان بھی ہمیشہ کے لیے ختم کر دیتا ہے۔</p> <p>تاہم اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ مال سے متعلق اللہ پروردگارِ عالم کے مطالبات بھی اس پر ختم ہو جاتے ہیں۔ قرآن میں تصریح ہے کہ اس معاملے میں اصل مطالبہ انفاق کا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح یہ فرمایا ہے کہ مال میں زکوٰۃ ادا کر دینے کے بعد حکومت کا کوئی حق باقی نہیں رہتا، اسی طرح یہ بھی فرمایا ہے:</p> <p><annotation lang="ar">ان فی المال حقاً سوی الزکوٰۃ۔(ترمذی، کتاب الزکوٰۃ)</annotation></p> <p>”بے شک، مال میں زکوٰۃ کے بعد بھی (اللہ کا)ایک حق قائم رہتا ہے۔“</p> <p>(ماہنامہ ”اشراق“، اکتوبر ۱۹۹۸، ص۲۹۔ ۳۲)</p> </blockquote> <p>امید ہے کہ دیے گئے اقتباس سے مولانا محترم پر استاذِ گرامی کا استدلال پوری طرح سے واضح ہو جائے گا۔ مولانا محترم سے ہماری گزارش ہے کہ وہ اس استدلال میں اگر کوئی خامی دیکھیں، تو ہمیں اس سے ضرور آگاہ فرمائیں۔</p> <heading>جہاد اور مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی</heading> <p>اخبار کے بیان کے مطابق، استاذِ محترم نے کہا ہے:</p> <blockquote> <p>جہاد تبھی جہاد ہوتا ہے، جب مسلمانوں کی حکومت اس کا اعلان کرے۔ مختلف مذہبی گروہوں اور جتھوں کے جہاد کو جہاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔</p> </blockquote> <p>مولانا محترم، استاذِگرامی کی بات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>... جہاد کی مختلف عملی صورتیں اور درجات ہیں اور ہر ایک کا حکم الگ الگ ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کسی ملک یا قوم کے خلاف جہاد کا اعلان اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ایک اسلامی یا کم از کم مسلمان حکومت اس کا اعلان کرے، لیکن جب کسی مسلم آبادی پر کفار کی یلغار ہو جائے اور کفار کے غلبے کی وجہ سے مسلمان حکومت کا وجود ختم ہو جائے یا وہ بالکل بے بس دکھائی دینے لگے، تو غاصب اور حملہ آور حکومت کے خلاف جہاد کے اعلان کے لیے پہلے حکومت کا قیام ضروری نہیں ہو گا اور نہ ہی عملاً ایسا ممکن ہوتا ہے کیونکہ اگر ایسے مرحلہ میں مسلمانوں کی اپنی حکومت کا قیام قابلِ عمل ہو تو کافروں کی یلغار اور تسلط ہی بے مقصد ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ صورت پیدا ہی اس وقت ہوتی ہے جب مسلمانوں کی حکومت کفار کے غلبہ اور تسلط کی وجہ سے ختم ہو جائے، بے بس ہو جائے یا اسی کافر حکومت کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر رہ جائے۔</p> <p>سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں کیا کیا جائے گا؟ اگر جاوید غامدی صاحب محترم کا فلسفہ تسلیم کر لیا جائے تو یہ ضروری ہو گا کہ مسلمان پہلے اپنی حکومت قائم کریں اور اس کے بعد اس حکومت کے اعلان پر جہاد شروع کیا جائے۔ لیکن پھر یہ سوال اٹھ کھڑا ہو گا کہ جب مسلمانوں نے اپنی حکومت بحال کر لی ہے تو اب جہاد کے اعلان کی ضرورت ہی کیا باقی رہ گئی ہے؟ کیونکہ جہاد کا مقصد تو کافروں کا تسلط ختم کر کے مسلمانوں کا اقتدار بحال کرنا ہے اور جب وہ کام جہاد کے بغیر ہی ہو گیا ہے تو جہاد کے اعلان کا کون سا جواز باقی رہ جاتا ہے؟</p> </blockquote> <p>مولانا محترم کی یہ بات کہ کسی قوم یا ملک کے خلاف جہاد تو بہرحال مسلمان حکومت ہی کی طرف سے ہو سکتا ہے، ہمارے لیے باعثِ صد مسرت ہے۔ ہم اسے بھی غنیمت سمجھتے ہیں کہ موحودہ حالات میں مولانا نے اس حد تک تو تسلیم کیا کہ کسی ملک وقوم کے خلاف جہاد مسلمان حکومت ہی کر سکتی ہے۔ چنانچہ اب ہمارے اور مولانا کے درمیان اختلاف صرف اسی مسئلے میں ہے کہ اگر کبھی مسلمانوں پر کوئی بیرونی قوت اس طرح سے تسلط حاصل کر لے کہ مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی اس کے آگے بالکل بے بس ہو جائے تو اس صورت میں عام مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ یہ واضح رہے کہ ایسے حالات میں مولانا ہی کی بات سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ بیرونی طاقت کے خلاف اگر مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی اپنی سلطنت کے دفاع کا انتظام کرنے کو آمادہ ہو تو اس صورت میں بھی مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی ہی کی طرف سے کی جانے والی جدوجہد ہی اس بات کی مستحق ہو گی کہ اسے جہاد قرار دیا جائے۔ مزید برآں ایسے حالات میں نظمِ اجتماعی سے ہٹ کر، جتھہ بندی کی صورت میں کی جانے والی ہر جدوجہد، غلط قرار پائے گی۔ اگرچہ ہمیں یقین ہے کہ مولانا کو ہماری اس بات سے اتفاق ہو گا، تاہم پھر بھی ہم یہ چاہیں گے کہ مولانا ہمارے اس خیال کی تصدیق یا تردید ضرور فرما دیں، تاکہ اس معاملے میں قارئین کے ذہن میں بھی کوئی شک باقی نہ رہے۔ چنانچہ ہمارے فہم کی حد تک، اب ہمارے اور مولانا کے درمیان اختلاف صرف اس صورت سے متعلق ہے جب مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی، کسی بھی وجہ سے، بیرونی طاقت کے تسلط کے خلاف جدوجہد کرنے سے قاصر ہو۔ مولانا کے نزدیک اس صورت میں مسلمانوں کو ہر حال میں اپنی سلطنت کے دفاع کی جدوجہد کرنی چاہیے، خواہ یہ جدوجہد غیر منظم جتھہ بندی ہی کی صورت میں کیوں نہ ہو۔ مزید یہ کہ اس ضمن میں جو منظم یا غیر منظم جدوجہد بھی مسلمانوں کی طرف سے کی جائے گی، وہ مولانا محترم کے نزدیک ’جہاد ‘ہی قرار پائے گی۔</p> <p>مولانا محترم نے اپنی بات کی وضاحت میں فلسطین، برِ صغیر پاک وہند، افغانستان اور الجزائرکی کامیاب جدوجہدِ آزادی اور دمشق کے عوام میں تاتاریوں کے خلاف کامیابی کے ساتھ جہاد کی روح پھونکنے کے معاملے میں ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ کی کوششوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ ہم اپنا نقطہء نظر بیان کرنے سے پہلے، تین باتوں کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں: اول یہ کہ مولانا محترم نے جتنے واقعات کا حوالہ دیا ہے، ان سب کی مولانا محترم کی رائے سے مختلف توجیہ نہ صرف یہ کہ کی جا سکتی بلکہ کی گئی ہے۔ دوم یہ کہ کسی جدوجہد کی اپنے مقصد کے حصول میں کامیابی، اس جدوجہد کے شریعتِ اسلامی کے مطابق ہونے کی دلیل نہیں ہوتی اور نہ کسی جدوجہد کی اپنے مقصد کے حصول میں ناکامی اس کے خلافِ شریعت ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔ اور سوم یہ کہ عام انسانوں کی بات بے شک مختلف ہو گی، مگر مولانا محترم جیسے اہلِ علم سے ہماری توقع یہی ہے کہ وہ اہلِ علم کے عمل سے شریعت اخذ کرنے کے بجائے، شریعت کی روشنی میں اس عمل کا جائزہ لیں۔ اگر شریعتِ اسلامی کے بنیادی ماخذوں، یعنی قرآن و سنت، میں اس عمل کی بنیاد موجود ہے تو اسے شریعت کے مطابق اور اگر ایسی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے تو بغیر کسی تردد کے اسے شریعت سے ہٹا ہوا قرار دیں۔ ’جہاد‘ یا ’قتال‘ شریعتِ اسلامی کی اصطلاحات ہیں۔ ان اصطلاحات کی تعریف یا ان کے بارے میں تفصیلی قانون سازی کا ماخذ اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبروں کا اسوہ اور ان کی جاری کردہ سنت ہی ہو سکتی ہے۔ فلسطینی مسلمانوں کی جدوجہد ہو یا برِ صغیر پاک و ہند، افغانستان، الجزائریا دمشق کے مسلمانوں کی، یہ جدوجہد جہاد و قتال کی تعریف اور قانون سازی کا ماخذ نہیں، بلکہ خود اس بات کی محتاج ہے کہ شریعت کے بنیادی ماخذوں کی روشنی میں اس کی صحت یا عدمِ صحت کا فیصلہ کیا جائے۔ مولانا یقیناًاس بات سے اتفاق کریں گے کہ شریعتِ اسلامی مسلمانوں کے عمل سے نہیں، بلکہ مسلمانوں کا عمل شریعتِ اسلامی سے ماخوذ ہوناچاہیے۔ وہ یقیناًاس بات کو تسلیم کریں گے کہ شریعتِ اسلامی کے فہم کی اہمیت اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے ہر قسم کے جذبات و تعصبات سے بالا ہو کر پوری دیانت داری کے ساتھ پہلے سمجھ لیا جائے اور پھر پورے جذبے کے ساتھ اس پر عمل کیا جائے۔ جذبات و تعصبات سے الگ ہو کر غور کرنے کے لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے بات کو اصولی سطح پر سمجھ لیا جائے۔ اس کے بعد بھی اگر ضروری محسوس ہو تو فلسطین، برصغیر پاک و ہند، افغانستان، الجزائر اور دمشق کے مسلمانوں کی جدوجہد کو شریعت سے مستنبط اصولی رہنمائی کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔</p> <p>اس وضاحت کے بعد، اب آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ کی کتاب قرآنِ مجید اور اس کے پیغمبروں کا اسوہ اور ان کی جاری کردہ سنت زیرِ غور مسئلے میں ہمیں کیا رہنمائی دیتے ہیں:</p> <p>سب سے پہلی صورت جو ہمارے اور مولانا محترم کے درمیان متفق علیہ ہے، یہ ہے کہ کسی قوم و ملک کے خلاف جارحانہ اقدام اسی صورت میں ’جہاد‘ کہلانے کا مستحق ہو گا، جب یہ مسلمانوں کی کسی حکومت کی طرف سے ہو گا۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں بھی منظم حکومت کی طرف سے ہونا، اس اقدام کے جواز کی شرائط میں سے ایک شرط ہی ہے۔ بات یوں نہیں ہے کہ مسلمانوں کی منظم حکومت کی طرف سے کیا گیا ہر اقدام ’جہاد‘ ہی ہوتا ہے، بلکہ یوں ہے کہ ’جہاد‘ صرف مسلمانوں کی منظم حکومت ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔</p> <p>دوسری صورت، جس کا اگرچہ مولانا محترم نے اپنی تحریر میں ذکر تو نہیں کیا، تاہم ان کی باتوں سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ اس میں بھی ہمارے اور ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، وہ یہ ہے کہ جب کسی مسلمان ریاست کے خلاف جارحانہ اقدام کیا جائے اور اس کا نظمِ اجتماعی اپنا دفاع کرنے کے لیے تیار ہو اور اس مقصد کے لیے جارح قوم کے خلاف میدانِ جنگ میں اترے، تو اس صورت میں بھی مسلمانوں کی منظم حکومت ہی کی طرف سے کیا گیا اقدام ’جہاد‘ کہلانے کا مستحق ہو گا۔ اس صورت میں تمام مسلمانوں کے لیے لازم ہو گا کہ وہ اپنے نظمِ اجتماعی ہی کے تحت منظم طریقے سے اپنے ملک و قوم کا دفاع کریں اور اس سے الگ ہو کر کسی خلفشار کا باعث نہ بنیں۔ یہ صورت، اگر غور کیجیے، تو پہلی صورت ہی کی ایک فرع ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ معاملہ خواہ قوم کے دفاع کا ہویا کسی جائز مقصد سے کسی دوسری قوم کے خلاف جارحانہ اقدام کا، دونوں ہی صورتوں میں یہ چونکہ مسلمانوں کی اجتماعیت سے متعلق ہے، لہٰذا اس کے انتظام کی ذمہ داری اصلاً ان کی اجتماعیت ہی پر ہے۔ اس طرح کے موقعوں پر عام مسلمانوں کو دین و شریعت کی ہدایت یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنے ملک و قوم کی خدمت کے لیے پیش کر دیں، اپنے حکمرانوں (اولوالامر) کی اطاعت کریں اور ہر حال میں اپنے نظمِ اجتماعی (الجماعۃ) کے ساتھ منسلک رہیں۔ ان کا نظمِ اجتماعی انھیں جس محاذ پر فائز کرے، وہ وہیں سینہ سپر ہوں، ان کا نظمِ اجتماعی جب انھیں پیش قدمی کا حکم دے تو اسی موقع پر وہ پیش قدمی کریں اور اگر کبھی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ان کا اجتماعی نظم انھیں دشمن کے آگے ہتھیار ڈال دینے کا حکم دے، تو وہ اپنے ملک و قوم ہی کی اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے، اس ذلت کو بھی برداشت کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔</p> <p>منظم اجتماعی دفاع و اقدام کی ان دو واضح صورتوں کے علاوہ اندرونی یا بیرونی قوتوں کے جبر و استبداد کی بہت سی دوسری صورتیں بھی ہو سکتی ہیں۔ ہمارے اور مولانا محترم کے درمیان اختلاف اصلاً انھی دوسری صورتوں سے متعلق ہے۔ مولانا محترم کے نزدیک، اوپر دی ہوئی دونوں صورتوں کو چھوڑ کر، جبر و استبداد کی باقی صورتوں میں مسلمانوں کو گروہوں، جتھوں اور ٹولوں کی صورت میں اپنا دفاع اور آزادی کی جدوجہد کرنی چاہیے اور اس صورتِ حال میں یہی جدوجہد ’جہاد‘ قرار پائے گی۔ ہمارے نزدیک، مولانا محترم کی یہ رائے صحیح نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک، ایسی صورتِ حال میں بھی دین و شریعت کی ہدایت وہی ہے، جو پہلی دو صورتوں میں ہمارے اور مولانا محترم کے درمیان متفق علیہ ہے۔ شاید یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ دین و شریعت کی رو سے جہاد و قتال کی غیر منظم جدوجہد، بالعموم، جن ہمہ گیر اخلاقی و اجتماعی خرابیوں کو جنم دیتی ہے، شریعتِ اسلامی انھیں کسی بڑی سے بڑی منفعت کے عوض بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ قرآنِ مجید اور انبیاے کرام کی معلوم تاریخ سے یہ بات بالکل واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جبر و استبداد کی قوتوں کے خلاف، خواہ یہ قوتیں اندرونی ہوں یا بیرونی، اسی صورت میں تلوار اٹھانے کا حکم اور اس کی اجازت دی، جب مسلمان اپنی ایک خودمختار ریاست قائم کر چکے تھے۔ اس سے پہلے کسی صورت میں بھی انبیاے کرام کو کسی جابرانہ تسلط کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی۔</p> <p>جابرانہ تسلط میں حالات کی رعایت سے جو صورتیں پیدا ہوتی ہیں، وہ درجِ ذیل ہیں:</p> <p>۱۔ جہاں محکوم قوم کو اپنے مذہب و عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی حاصل ہو۔</p> <p>۲۔ جہاں محکوم قوم کو اپنے مذہب و عقیدے پر عمل کرنے کی اجازت حاصل نہ ہو۔</p> <p>پہلی صورت میں جابرانہ تسلط سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کرنا ہر محکوم قوم کا حق تو بے شک ہے، مگر یہ دین کا تقاضا نہیں ہے۔ چنانچہ اسی اصول پر حضرتِ مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کی بعثت کے موقع پر اگرچہ بنی اسرائیل رومی سلطنت کے محکوم ہو چکے تھے، تاہم اللہ کے اس پیغمبر نے انھیں نہ کبھی رومی تسلط کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے کا مشورہ دیا اور نہ خود ہی ایسی کسی جدوجہد کی بنا ڈالی۔ ظاہر ہے کہ اگر ایسے حالات میں آزادی کی جدوجہد کو دین میں مطلوب و مقصود کی حیثیت حاصل ہوتی، تو حضرتِ مسیح جیسے اولو العزم پیغمبر سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ دین کے اس مطلوب و مقصود سے گریز کی راہ اختیار کرتے۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایسی صورتِ حال میں آزادی کی جدوجہد دین و شریعت کا تقاضا نہیں ہے۔ اس بات سے بہرحال اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ ایسی صورتِ حال میں بھی آزادی کی جدوجہد ہر قوم کا فطری حق ہے۔ وہ یقیناًیہ حق رکھتی ہے کہ اس جابرانہ تسلط سے چھٹکارا پانے کی جدوجہد کرے۔ مگر چونکہ یہ جدوجہد دین کا تقاضا نہیں ہے، اس وجہ سے یہ ضروری ہے کہ اسے نہ صرف پرامن بنیادوں ہی پر استوار کیا جائے، بلکہ اس بات کا بھی پوری طرح سے اہتمام کیا جائے کہ مسلمانوں کے کسی اقدام کی وجہ سے کسی مسلم یا غیر مسلم کا خون نہ بہنے پائے۔ اس جدوجہد میں مسلمانوں کے رہنماؤں کو یہ بات بہرحال فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دین و شریعت میں جان و مال کی حرمت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ انھیں ہر حال میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان کے کسی اقدام کے نتیجے میں جان و مال کی یہ حرمت اگر ناحق پامال ہوئی، تو اس بات کا شدید اندیشہ ہے کہ وہ اپنے اس اقدام کے لیے اللہ کے حضور میں مسؤل قرار پا جائیں۔ جان و مال کی یہ حرمت اگر کسی فرد یا قوم کے معاملے میں ختم ہو سکتی ہے تو شریعت ہی کی دی ہوئی رہنمائی میں ختم ہو سکتی ہے۔ چنانچہ، ظاہر ہے کہ جبر و تسلط کی اس پہلی صورت میں اگر آزادی کی جدوجہد دین و شریعت کا تقاضا نہیں ہے تو پھر اس کے لیے کیے گئے کسی جارحانہ اقدام کو نہ ’جہاد‘ قرار دیا جا سکتا اور نہ اس راہ میں لی گئی کسی جان کو جائز ہی ٹھیرایا جا سکتا ہے۔</p> <p>دوسری صورت وہ ہے کہ جب کسی دوسری قوم پر جابرانہ تسلط ایسی صورت اختیار کر لے کہ محکوم قوم کے باشندوں کو اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اجازت حاصل نہ ہو۔ اس صورت میں محکوم قوم کے امکانات کے لحاظ سے دو ضمنی صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں:</p> <p>۱۔ جہاں محکوم قوم کے لیے جابرانہ تسلط کے علاقے سے ہجرت کر جانے کی راہ موجود ہو۔</p> <p>۲۔ جہاں محکوم قوم کے لیے ہجرت کی راہ مسدود ہو۔</p> <p>اگر مذہبی جبر اور استبداد کے دور میں لوگوں کے لیے اپنے علاقے سے ہجرت کر جانے اور کسی دوسرے علاقے میں اپنے دین پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزارنے کی راہ کھلی ہو، تو اس صورت میں دین کا حکم یہ ہے کہ لوگ اللہ کے دین پر آزادی کے ساتھ عمل کرنے کی خاطر، اپنے ملک اور اپنی قوم کو اللہ کے لیے چھوڑ دیں۔ قرآنِ مجید کے مطابق ایسے حالات میں ہجرت نہ کرنا اور اس کے نتیجے میں اپنے آپ کو مذہبی جبر اور استبداد کا نشانہ بنے رہنے دینا جہنم میں لے جانے کا باعث بن سکتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:</p> <blockquote> <p><annotation lang="ar">اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَآءِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَالُوْ فِیْمَ کُنْتُمْ، قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْآ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَا جِرُوْا فِیْھَا فَاُولٰٓءِکَ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَسَآءَ تْ مَصِیْرًا۔ (النساء ۴: ۹۷)</annotation></p> <p>”بے شک، جن لوگوں کو فرشتے اس حال میں موت دیں گے کہ وہ (ظلم و جبر کے باوجود یہیں بیٹھے) اپنی جانوں پر ظلم ڈھا رہے ہوں گے، تو وہ ان سے پوچھیں گے: ’تم کہاں پڑے رہے؟‘ وہ کہیں گے: ’ہم اپنی زمین میں کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں رکھتے تھے‘۔ فرشتے ان سے پوچھیں گے: ’کیا اللہ کی زمین اتنی وسیع نہ تھی کی تم اس میں (کہیں اور) ہجرت کر جاتے؟‘ چنانچہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے۔“</p> </blockquote> <p>ہجرت کی یہی صورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی زندگیوں میں پیش آئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ ہجرت مصر سے صحراے سینا کی طرف تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت نے یثرب کو مدینۃ النبی بننے کا شرف بخشا۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اس ہجرت سے پہلے نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جاں نثار ساتھیوں کو جبر وا ستبداد کے خلاف کسی جہاد کے لیے منظم کیا اور نہ حضرت موسیٰ ہی نے اس طرح کی کسی جہادی کارروائی کی روح اپنی قوم میں پھونکی۔ اللہ تعالیٰ کے ان جلیل القدر پیغمبروں کا اسوہ یہی ہے کہ ظلم و استبداد کی بدترین تاریکیوں میں بھی انھوں نے فدائین کے جتھے، گروہ اور ٹولے تشکیل دینے کے بجائے، صبر واستقامت سے دار الہجرت کے میسر آنے کا انتظار کیا اور اس وقت تک ظلم و جبر کے خاتمے کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی جب تک اللہ کی زمین پر انھیں ایک خود مختار ریاست کا اقتدار نہیں مل گیا۔</p> <p>اس کے برعکس، اگر ایسے حالات میں دارالہجرت میسر نہ ہو یا کسی اور وجہ سے ہجرت کرنے کی راہیں مسدود ہوں، تو اس صورت میں بھی قرآنِ مجید میں دو امکانات بیان ہوئے ہیں: اولاًیہ کہ ان حالات میں ظلم و استبداد کا نشانہ بنے ہوئے یہ لوگ کسی منظم اسلامی ریاست کو اپنی مدد کے لیے پکاریں۔ ایسے حالات میں قرآنِ مجید نے اس اسلامی ریاست کو، جسے لوگ مدد کے لیے پکاریں، یہ حکم دیا ہے کہ اگر اس کے لیے اس جابرانہ اور استبدادی حکومت کے خلاف ان مسلمانوں کی مدد کرنی ممکن ہو تو پھر اس پر لازم ہے کہ وہ یہ مدد کرے، الا یہ کہ جس قوم کے خلاف اسے مدد کرنے کے لیے پکارا جا رہا ہے، اس کے اور مسلمانوں کی اس ریاست کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ موجود ہو۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:</p> <blockquote> <p><annotation lang="ar">وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یُہَاجِرُوْا مَا لَکُمْ مِّنْ وَّلَایَتِہِمْ مِّنْ شَیْ ءٍ حَتّٰی یُھَاجِرُوْا وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ اِلاَّ عَلٰی قوَمٍْ م بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَھُمْ مِّیْثَاقٌ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۔ (الانفال ۸: ۷۲)</annotation></p> <p>”وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں، مگر جنھوں نے ہجرت نہیں کی، تم پر ان کی اس وقت تک کسی قسم کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے جب تک وہ ہجرت کر کے تمھارے پاس نہ آ جائیں۔ البتہ، وہ اگر تمھیں دین کے نام پر مدد کے لیے پکاریں، تو تم پر ان کی مدد کرنے کی ذمہ داری ہے، الا یہ کہ جس قوم کے خلاف وہ تمھیں مدد کے لیے پکاریں، اس کے اور تمھارے درمیان کوئی معاہدہ موجود ہو۔ اور یاد رکھو، جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔“</p> </blockquote> <p>پھر ایک اور مقام پر وقت کی اسلامی ریاست کو ان مجبور مسلمانوں کی مدد پر ابھارتے ہوئے فرمایا:</p> <blockquote> <p><annotation lang="ar">وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیّاً وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا۔(النساء ۴: ۷۵)</annotation></p> <p>”اور تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے جنگ نہیں کرتے جو دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار، ہمیں اس ظالم باشندوں کی بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنے پاس سے ہمدرد پیدا کر اور ہمارے لیے اپنے پاس سے مددگار کھڑے کر۔“</p> </blockquote> <p>ثانیاً یہ کہ ظلم و استبداد کے ان حالات میں ان کے لیے مسلمانوں کی کسی منظم ریاست سے مدد طلب کرنے یا کسی ریاست کے ان کی مدد کو آنے کا امکان موجود نہ ہو۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ لوگ صبر و استقامت کے ساتھ ان حالات کو برداشت کریں، یہاں تک کہ آں سوے افلاک سے ان کی آزمایش کے خاتمے کا فیصلہ صادر ہو جائے۔ قرآنِ مجید میں حضرت شعیب علیہ الصلاۃ والسلام کی سرگزشت بیان کرتے ہوئے ان کے حوالے سے فرمایا ہے:</p> <blockquote> <p><annotation lang="ar">وَاِنْ کَانَ طَآءِفَۃٌ مِّنْکُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِیْٓ اُرْسِلْتُ بِہٖ وَطَآءِفَۃٌ لَّمْ یُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰہُ بَیْنَنَا وَ ھُوَ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ۔(الاعراف ۷: ۸۷)</annotation></p> <p>”اور اگر تم میں سے ایک گروہ اس بات پر ایمان لے آئے جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے اور ایک گروہ اسے ماننے سے انکار کرے، تو (ایمان لانے والوں کو چاہیے کہ) وہ صبر کریں، یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ فرما دے۔ اور یقیناً اللہ بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے۔“</p> </blockquote> <p>مولانا حمید الدین فراہی اسی صورتِ حال کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>... اپنے ملک کے اندر بغیر ہجرت کے جہاد جائز نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سرگزشت اور ہجرت سے متعلق دوسری آیات سے یہی حقیقت واضح ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاد اگر صاحبِ جمیعت اور صاحبِ اقتدار امیر کی طرف سے نہ ہو تو وہ محض شورش و بد امنی اور فتنہ و فساد ہے۔ (مجموعہء تفاسیرِ فراہی، ص۵۶)</p> </blockquote> <p>قرآنِ مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاے کرام کے حوالے سے، ظلم و استبداد کی مذکورہ صورتیں اور ان صورتوں کا مقابلہ کرنے میں اللہ کے ان جلیل القدر پیغمبروں کا اسوہ بیان ہوا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ مولانا محترم پیغمبروں کے اس اسوہ سے جہاد و قتال کے احکام کا استنباط کرنے کے بجائے، مسلمان قوموں کی تحریک ہاے آزادی ہی سے جہاد کی مختلف صورتیں اور ان کے احکام اخذ کرنے پر کیوں مصر ہیں۔ ہم البتہ یہاں اس بات کی طرف اشارہ ضروری سمجھتے ہیں کہ دنیا میں جب کبھی غیر مقتدر گروہوں کی طرف سے تلوار اٹھائی گئی ہے، تو اس اقدام نے آزادی کی تحریک کو کوئی فائدہ پہنچایا ہو یا نہ پہنچایا ہو، ظلم و جبر کی قوتوں کو بے گناہ شہریوں، عورتوں اور بچوں پر ظلم و جبر کے مزید پہاڑ گرانے کا جواز ضرور فراہم کیا ہے۔ لوگ خواہ اس قسم کی قتل و غارت کو جبر و استبداد کی بڑھتی ہوئی لہریں قرار دے کر اپنے دلوں کو کتنی ہی تسلی دیتے رہیں، ہمیں یہ بات بہرحال فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دین و شریعت سے اعراض کر کے، اپنی بے تدبیری اور بے حکمتی کے ساتھ امن و امان کی فضا خراب کر کے ظلم و جبر کو اخلاقی جواز فراہم کرنا، کسی حال میں بھی ظلم و جبر کا ساتھ دینے سے کم نہیں ہے۔</p> <heading>فتووں پر پابندی</heading> <p>اخبار کے بیان کے مطابق، استاذِگرامی نے کہا ہے:</p> <blockquote> <p>فتووں کا بعض اوقات انتہائی غلط استعمال کیاجاتا ہے۔ اس لیے فتویٰ بازی کو اسلام کی روشنی میں ریاستی قوانین کے تابع بنانا چاہیے اور مولویوں اور فتووں کے خلاف بنگلہ دیش میں (عدالت کا) فیصلہ صدی کا بہترین فیصلہ ہے۔</p> </blockquote> <p>مولانا محترم استاذِ گرامی کی اس رائے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>جہاں تک اس شکایت کا تعلق ہے کہ ہمارے ہاں بعض فتووں کا انتہائی غلط استعمال ہوتا ہے ہمیں اس سے اتفاق ہے۔ ان فتووں کے نتیجے میں جو خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں، وہ بھی ہمارے سامنے ہیں اور ان خرابیوں کی اصلاح کے لیے غیر سرکاری سطح پر کوئی قابلِ عمل فارمولا سامنے آتا ہے تو ہمیں اس سے بھی اختلاف نہیں ہو گا۔ مگر کسی چیز کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے سرے سے اس کے وجود کو ختم کر دینے کی تجویز ہماری سمجھ سے بالاتر ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ چونکہ ہماری عدالتوں میں رشوت اور سفارش اس قدر عام ہو گئی ہے کہ اکثر فیصلے غلط ہونے لگے ہیں اور عدالتی نظام پر عوام کا اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے اس لیے ان عدالتوں میں بیٹھنے والے ججوں سے فیصلے دینے کا اختیار ہی واپس لے لیا جائے۔ یہ بات نظری طور پر تو کسی بحث و مباحثے کا خوب صورت عنوان بن سکتی ہے، مگر عملی میدان میں اسے بروے کار لانا کس طرح ممکن ہے؟...</p> <p>اور ”فتویٰ“ تو کہتے ہی کسی مسئلے پر غیر سرکاری ”رائے“ کو ہیں کیونکہ کسی مسئلہ پر حکومت کا کوئی انتظامی افسر جو فیصلہ دے گا، وہ ”حکم“ کہلائے گااور عدالت فیصلہ صادر کرے گی تو اسے ”قضا“ کہا جائے گا اور ان دونوں سے ہٹ کر اگر کوئی صاحبِ علم کسی مسئلے کے بارے میں شرعی طور پر حتمی رائے دے گاتو وہ ”فتویٰ“ کہلائے گا۔ امت کا تعامل شروع سے اسی پر چلا آ رہا ہے کہ حکام حکم دیتے ہیں، قاضی حضرات عدالتی فیصلے دیتے ہیں اور علماے کرام فتوی صادر کرتے ہیں۔</p> </blockquote> <p>ہم مولانا محترم کو یقین دلاتے ہیں کہ استاذِگرامی کی مذکورہ رائے بھی اسی قسم کے فتووں سے متعلق ہے، جسے مولانا محترم نے بھی ’فتووں کا انتہائی غلط استعمال‘ قرار دیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مولانا محترم کسی نامعلوم وجہ سے اس ’انتہائی غلط استعمال‘ کی روک تھام کے لیے بھی کسی ’غیر سرکاری‘ فارمولے ہی کے قائل ہیں. جبکہ ہمارے استاذ کے نزدیک فتووں کا یہ ’انتہائی غلط استعمال‘ بالعموم، جن مزید ’انتہائی غلط‘ نتائج و عواقب کا باعث بنتا اور بن سکتا ہے، اس کے پیشِ نظراس کی روک تھام کے لیے سرکاری سطح پرسخت قانون سازی کرنا ضروری ہو گیا ہے۔</p> <p>ہم یہاں یہ ضروری محسوس کرتے ہیں کہ قارئین پر صحیح اور غلط قسم کے فتووں کا فرق واضح کر دیں۔ اس کے بعد قارئین خود یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ موجودہ دور کے علما میں فتووں کا صحیح اور ’انتہائی غلط‘ استعمال کس تناسب سے ہوتا ہے۔</p> <p>اس میں شبہ نہیں کہ علماے کرام کی سب سے بڑی اور اہم ترین ذمہ داری، عوام و خواص کے سامنے دینِ متین کی شرح و وضاحت کرنا اور مختلف صورتوں اور احوال کے لیے دین و شریعت کا فیصلہ ان کے سامنے بیان کرنا ہے۔ مثال کے طور پر، یہ علما ہی کا کام ہے کہ وہ نکاح و طلاق کے بارے میں شریعت کے احکام کی وضاحت کریں، یہ انھی کا مقام ہے کہ وہ قتل و سرقہ، قذف و زنا اور ارتداد وغیرہ کے حوالے سے شریعت کے احکام بیان کریں۔ اس میں شبہ نہیں کہ کتاب و سنت کی روشنی میں اس طرح کے تمام احکام کی شرح و وضاحت کا کام علما ہی کو زیب دیتا ہے اور وہی اس کے کرنے کے اہل ہیں۔ علما کے اس کام پر پابندی لگانا تو درکنار، اس کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنا بھی بالکل ممنوع قرار پانا چاہیے۔ تاہم، ریاستی سطح پر قانون سازی اور اس قانون سازی کے مطابق مقدمات کے فیصلے کرنے کا معاملہ محض مختلف علما کے رائے دے دینے ہی سے پورا نہیں ہو جاتا۔ اس کے آگے بھی کچھ اہم مراحل ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں، سب سے پہلے ملک کی پارلیمان کو مختلف علما کی رائے سامنے رکھتے اور ان کے پیش کردہ دلائل کا جائزہ لیتے ہوئے، ملکی سطح پر قانون سازی کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے، ملکی سطح پر قانون سازی کرتے ہوئے تمام مکاتبِ فکر اور علما کی رائے کو سامنے تو رکھا جا سکتا ہے، مگر ان سب کی رائے کو مانا نہیں جاسکتا۔ رائے بہرحال وہی نافذالعمل ہوگی اور ملکی اور ریاستی قانون کا حصہ بنے گی، جو پارلیمان کے نمائندوں کے نزدیک زیادہ صائب اور قابلِ عمل سمجھی جائے گی۔ قانون سازی کے اس عمل کے بعد بھی علما کا یہ حق تو بے شک برقرار رہتا ہے کہ وہ قانون و اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے، اپنی بات کو مزید واضح کرنے، اس کے حق میں مزید دلائل فراہم کرنے اور پارلیمان کے نمائندوں کو اس پر قائل کرنے کی جدوجہد جاری رکھیں۔ لیکن ریاست کا نظم یہ تقاضا بہرحال کرتا ہے کہ اس میں جس رائے کے مطابق بھی قانون سازی کر دی گئی ہو، اس میں بسنے والے تمام لوگ عوام خواص اور علما اس قانون کا پوری طرح سے احترام کریں اور اس کے خلاف انارکی اور قانون شکنی کی فضا پیدا کرنے کی ہرگز کوشش نہ کریں۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ پارلیمان کے اختیار کردہ قانون کے مطابق عدالتوں میں پیش ہونے والے مقدمات کے فیصلے کرنے کا ہے۔ یہ مرحلہ، دراصل، قانون کے اطلاق کا مرحلہ ہے۔ اس میں عدالت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ فریقین کی رائے سن کر، ملکی پارلیمان کی قانون سازی کی روشنی میں حق و انصاف پر مبنی فیصلہ صادر کرے۔</p> <p>جن فتووں کو ہم ’انتہائی غلط‘ سمجھتے اور مسلمانوں کی اجتماعیت کو جن کے شر و فساد سے بچانے کے لیے قانون سازی کو نہ صرف جائز بلکہ بعض صورتوں میں ضروری سمجھتے ہیں، ان کا تعلق دراصل قانون سازی اور اس کے بعد کے مراحل سے ہے۔</p> <p>چنانچہ، مثال کے طور پر، یہ بے شک علماے دین کا کام ہے کہ وہ دین و شریعت کے اپنے اپنے فہم کے مطابق لوگوں کو یہ بتائیں کہ طلاق دینے کا صحیح طریقہ کیا ہے، اور اس میں غلطی کی صورت میں کون کون سے احکام مترتب ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی علما ہی کا کام ہے کہ وہ لوگوں کو یہ سمجھائیں کہ ان کے فہم کے مطابق کن کن صورتوں میں طلاق واقع ہو جاتی اور کن کن صورتوں میں اس کے وقوع کے خلاف فیصلہ دیا جا سکتا ہے۔ تاہم ریاستی سطح پر طلاق کے بارے میں قانون سازی، ہما شما کی رائے پر نہیں بلکہ پارلیمان کے نمائندوں کی اکثریت کے کسی ایک رائے کے قائل ہو جانے پر منحصر ہو گی۔ پارلیمان میں طے پا جانے والی یہ رائے بعض علما کی رائے کے خلاف تو ہو سکتی ہے، مگر ریاست میں واجب الاطاعت قانون کی حیثیت سے اسی کو نافذ کیا جائے گا اور، علما سمیت، تمام لوگوں پر اس کی پابندی کرنی لازم ہو گی۔ مزید برآں، یہ فیصلہ کہ زید یا بکر کے کسی خاص اقدام سے اس کی طلاق واقع ہو گئی یا اس کا نکاح فسخ ہو گیا ہے، ایک عدالتی فیصلہ ہے، جس کا دین کی شرح و وضاحت اور علماے کرام کے دائرہء کار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر یہ فیصلے بھی علماے کرام ہی کو کرنے ہیں، تو پھر مولانا محترم ہی ہمیں سمجھا دیں کہ عدالتوں کے قیام اور ان میں مقدمات کو لانے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے۔</p> <p>اسی طرح، یہ علماے دین ہی کا کام ہے کہ وہ اپنے نقطہء نظر کے مطابق ارتداد کی صورتوں اور ان کی مجوزہ سزاؤں کو پارلیمان سے منوانے کی کوشش کریں۔ تاہم یہ ان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی رائے کے خلاف، پارلیمان کے نمائندوں کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیں۔ مزید برآں، کسی خاص شخص کو مرتد قرار دینا بھی، چونکہ قانون کے اطلاق ہی کا مسئلہ ہے، اس لیے یہ بھی علما کے نہیں بلکہ عدالت کے دائرے کی بات ہے، جو اسے مقدمے کے گواہوں کے بیانات، ان پر جرح اور ملزم کو صفائی کا پورا پورا موقع دے دینے کے بعد انصاف کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہی کرنا چاہیے۔ یہی معاملہ کسی فرد یا گروہ کو کافر یا واجب القتل قرار دینے اور اس سے ملتے جلتے معاملات کا ہے۔ چنانچہ، فتووں کے ’انتہائی غلط استعمال‘ ہی کی ایک مثال بنگلہ دیشی عدالت کا فیصلہ صادر ہونے کے بعد اگلے ہی روز سامنے آئی، جب بنگلہ دیشی علما کے ایک گروہ نے فیصلہ کرنے والے جج کو ’مرتد‘ اور، ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں، واجب القتل قرار دے دیا۔ مولانا محترم ہی ہمیں یہ بتائیں کہ اگر اس قسم کے فتوے کو سن کر کوئی مذہبی انتہا پسند فیصلہ کرنے والے جج کو، صفائی کا موقع دیے یا اس کی بات کو سمجھے بغیراپنے طور پر خدا نخواستہ، قتل کر دے تو کیا ریاست کو ایسے انتہا پسندوں کے ساتھ ساتھ فتووں کا یہ ’انتہائی غلط استعمال‘ کرنے والے علما کو کوئی سزا نہیں دینی چاہیے؟ مولانا محترم کا جواب یقیناًنفی ہی میں ہو گا، کیونکہ اس معاملے میں ان کا ’فتویٰ‘ تو یہی ہے کہ فتووں کے اس ’انتہائی غلط استعمال‘ کی روک تھام کے لیے بھی اگر کوئی اقدام ہونا چاہیے، تو وہ ’غیر سرکاری سطح‘ ہی پر ہونا چاہیے۔</p> <p>مولانا کی مذکورہ رائے کے برعکس، ہمارے نزدیک، فتووں کے اس طرح کے ’انتہائی غلط استعمال‘ کی روک تھام کے لیے ’سرکاری سطح پر‘ مناسب قانون سازی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔</p> <p>اس ضمن میں علما صحابہ کا اسوہ ہمارے سامنے ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ انھیں تقسیمِ میراث کے معاملے میں عول و رد کے قانون سے اتفاق نہیں تھا۔ تاہم ان کا یہ اختلاف ہمیشہ جائز حدود کے اندر ہی رہا۔ وہ اپنے اس اختلاف کا ذکر اپنے شاگردوں میں تو کرتے تھے اور بے شک یہ ان کا فطری حق بھی تھا، مگر انھوں نے نہ اپنے اس اختلاف کی وجہ سے قانون سازی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی، نہ اس کی بنیاد پر حکومت کے خلاف پراپگینڈہ کیا اور نہ ریاست میں تقسیمِ وراثت کے معاملے میں اپنے فتوے جاری کیے۔</p> <p>علماے کرام کے فتوے بھی جب تک ان اخلاقی اور قانونی حدود کے اندر رہیں، اس وقت تک وہ یقیناًخیر و برکت ہی کا باعث بنیں گے۔ مگر ان حدود سے باہرپارلیمان اور عدالتوں کے کام میں مداخلت کرنے والے فتووں پر پابندی نہ صرف مسلمانوں کی اجتماعی مصلحت کے لیے ضروری ہے، بلکہ منظم اجتماعی زندگی کی تشکیل کے لیے ناگزیر محسوس ہوتی ہے۔</p> <p>اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ صحیح باتوں کے لیے دلوں میں جگہ پیدا فرمائے اور غلط باتوں کے شر سے ہم سب کو دنیا اور آخرت میں محفوظ و مامون رکھے۔</p> <p /> </section> </body>
0006.xml
<meta> <title>برے خیالات اور وسوسہ</title> <author> <name>طالب محسن</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Mahnama Ishraq March 2001</name> <year>2001</year> <city>Lahore</city> <link>https://www.javedahmedghamidi.org/#!/ishraq/5adb7355b7dd1138372dbc47?articleId=5adb7427b7dd1138372dd0cf&amp;year=2001&amp;decade=2000</link> <copyright-holder>Al-Mawrid</copyright-holder> </publication> <num-words>1356</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
برے خیالات اور وسوسہ
1,356
Yes
<body> <section> <p>(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث:۷۳۔ ۷۴)</p> <blockquote> <p><annotation lang="ar">عن ابن عباس: أن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم جاء ہ رجل، فقال: إنی أحدث نفسی بالشئ لأن أکون حممۃ أحب إلی من أن أتکلم بہ۔ قال: الحمد ﷲ الذی رد أمرہ إلی الوسوسۃ۔</annotation>”حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میں اپنے آپ سے ایسی باتیں کرتا ہوں کہ میں ان کو بیان کرنے سے کوئلہ ہونے کو زیادہ پسند کروں گا۔ آپ نے فرمایا: اس اللہ کا شکر ہے جس نے اس کے معاملے کو وسوسے کا معاملہ بنا دیا۔“</p> </blockquote> <heading>لغوی مباحث</heading> <p><annotation lang="ar">حممۃ</annotation>: کوئلہ، راکھ، ہر وہ چیز جو آگ میں جل چکی ہو۔<annotation lang="ar">رد أمرہ </annotation>: لفظی مطلب ہے: اس نے اس کے معاملے کو لوٹا دیا۔ یہاں اس سے مراد ایک معاملے کو دوسری صورت دے دینا ہے۔</p> <heading>متون</heading> <p>یہ روایت مختلف الفاظ میں ملتی ہے، لیکن ان متون میں کوئی فرق ایسا نہیں ہے جو کسی بڑے معنوی فرق پر دلالت کرتا ہو۔ مثلاً بعض روایات میں ’<annotation lang="ar">إنی أحدث نفسی بالشی‘ کے بجائے ’إنا أحدنا یجد فی نفسہ یعرض بالشی</annotation>‘ اور ’<annotation lang="ar">إنی لأجد فی صدری الشء</annotation>‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ لیکن یہ تینوں جملے ایک ہی مفہوم کے حامل ہیں۔ البتہ ایک روایت میں ’الشء‘ کے ساتھ ’من أمر الرب‘ کی وضاحت بھی بیان ہوئی ہے۔ یہ وضاحت کسی راوی کا اضافہ بھی ہو سکتی ہے۔ بعض روایات میں ’<annotation lang="ar">لأن أکون حممۃ</annotation>‘ کے بجائے ’<annotation lang="ar">لأن أخر من السماء</annotation>‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ دوسرا جملہ بھی شدت ندامت ہی کو ظاہر کرتا ہے۔ سوال کے ساتھ ساتھ حضور کا جواب بھی مختلف الفاظ میں روایت ہوا ہے۔ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’<annotation lang="ar">الحمد ﷲ</annotation>‘ کا کلمہ بولنے سے پہلے اپنی مسرت کو ’<annotation lang="ar">اﷲ اکبر، اﷲ اکبر</annotation>‘ کہہ کر ظاہر کیا تھا۔ اس تفصیلی جواب کے برعکس ایک روایت یہ بتاتی ہے کہ آپ نے صرف ’ذاک صریح الایمان‘ کے الفاظ کہہ کر سائل کے صادق جذبے کی تصویب کی تھی۔ اس کے برعکس ایک روایت میں حضور کے جواب کے الفاظ یہ ہیں:’<annotation lang="ar">إن الشیطان قد أیس من أن یعبد بأرضی ھذہ و لکنہ قد رضی بالمحقرات من أعمالکم</annotation>‘، (شیطان اس سے مایوس ہو چکا ہے کہ اس سر زمین میں اس کی پوجا کی جائے گی۔ البتہ، وہ تم سے چھوٹے گناہوں کے ارتکاب کے معاملے میں مطمئن ہے۔) یہ تمام جوابات بھی مختلف اسالیب میں ایک ہی حقیقت کا بیان ہیں۔ کچھ روایتوں میں ’<annotation lang="ar">ردأمرہ</annotation>‘ کی جگہ ’<annotation lang="ar">ردکیدہ</annotation>‘ کی ترکیب مروی ہے۔ ’<annotation lang="ar">کید</annotation>‘ کا لفظ ’<annotation lang="ar">امر</annotation>‘ کے مقابلے میں شیطانی در اندازی کے لیے زیادہ موزوں ہے۔</p> <heading>معنی</heading> <p>اس روایت میں دو باتیں بیان ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی کی سوچ اسے بسا اوقات انتہائی پر خطر وادیوں میں لے جاتی ہے۔ وہ ایسی باتیں سوچنے لگ جاتا ہے جنھیں بیان کرنا اسے بہت ہی ناگوار گزرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ یہ چاہنے لگتا ہے کہ اس پر آسمان گر جائے یا وہ جل کر راکھ ہو جائے، لیکن اس کی اس سوچ سے کوئی آگاہ نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے والا یہ سائل کسی ایسی ہی سوچ میں مبتلا ہو گیا تھا۔ چنانچہ اس نے نے آپ کے سامنے بھی اپنی سوچ بیان نہیں کی۔ صرف ایک سچے اور مخلص مؤمن کی طرح اپنی پریشانی بیان کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سائل کی الجھن یہ تھی کہ کہیں اس طرح کی سوچ پر اس کی گرفت تو نہیں ہو گی۔ یعنی وہ کسی گناہ کا مرتکب تو نہیں ہو گیا ہے۔ اگرچہ اس روایت کے ایک متن میں یہ تصریح ہو گئی ہے کہ اس کی سوچ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں تھی، لیکن اس تحدید کی کوئی اصولی اہمیت نہیں ہے۔ غلط، پر خطر اور بری سوچ کا دائرہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی سے متعلق نہیں ہے، بلکہ اس کی صفات، اس کے سنن، قانونِ آزمایش، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، شخصیت، ان کی دی ہوئی تعلیمات، یعنی عقائد، شریعت اور اس سے آگے اخلاقی رویوں ہر ہر چیز پر محیط ہے۔ شیطان دین کی ہر چیز کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتا اور آدمی کے ایمان وعمل کو متزلزل کرنے کے درپے رہتا ہے۔ چنانچہ بندۂ مؤمن کا اپنی سوچ کے بارے میں حساس اور بیدا رہنا اس کے ایمان اور عمل کی حفاظت کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس روایت میں دوسری بات یہ بیان ہوئی ہے کہ اس طرح کی سوچ پر گرفت کی نوعیت کیا ہے۔ سائل نے اپنی پریشانی بیان کرتے ہوئے یہ واضح کر دیا ہے کہ اسے اپنی یہ سوچ بہت ناگوار گزری ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس سوچ کی اپنی ذات کے ساتھ نسبت کے ظاہر ہونے کو بھی کسی حال میں پسند نہیں کرے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پریشانی اور پشیمانی کی اس صورت کو دیکھ کر یک گونہ مسرت کا اظہار کیا ہے۔ اور اس کے اطمینان کے لیے یہ واضح فرما دیا ہے کہ اگر آدمی ذہن میں آنے والے غلط خیالات پر اس طرح پریشان اور پشیمان ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے سوچ کے مضر اثرات سے بچا لیتے ہیں۔ یہ سوچ جہاں پیدا ہوتی ہے وہیں مرجھا کر مر جاتی ہے۔ یعنی ایمان و عمل کی خرابی کی صورت میں کوئی برگ و بار لائے بغیر اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب یہ معاملہ ہو تو یہ سوچ محض وسوسہ ہے اور اس پر کوئی گرفت نہیں ہو گی۔ شارحین کے سامنے روایت کے جملے ’رد أمرہ‘ کے بارے میں یہ سوال ہے کہ اس میں وارد ترکیب ’أمرہ‘، کا مرجع کیا ہے۔ یعنی ”اس کے معاملے“ سے شیطان کا معاملہ مرادہے یا اشارہ بندۂ مومن کے معاملے کی طرف ہے۔ اوپر بیان کردہ تصریح سے واضح ہے کہ اس سے اشارہ بندۂ مومن ہی کی طرف ہے۔ اس روایت سے نکتے کی بات یہ سامنے آتی ہے کہ شیاطین نفسِ انسانی میں مختلف قسم کے خیا لات اور خواہشات کے وجود پذیر ہونے کا باعث بنتے رہتے ہیں۔ بندۂ مؤمن اگر اپنی باگ ان کے ہاتھ میں دے دے تو اس کا نتیجہ اس کے ایمان میں خرابی یا عمل میں برائی کی صورت میں نکلے گا۔ یہ چیز اسے گناہ گار بنا دے گی اور وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آجائے گا۔ اور اگر وہ ان خیالات یا خواہشات کو پوری طاقت سے رد کر دیتا ہے تو یہ چیز وسوسے سے آگے نہیں بڑھے گی اور وسوسے پر کوئی گرفت نہیں ہے۔</p> <heading>کتابیات</heading> <p>ابوداؤد، کتاب الادب، باب ۱۱۸۔ احمد، عنِ ابن عباس۔ تفسیر ابنِ کثیر، ج۴ ص۵۷۶۔ صحیح ابنِ حبان، ج۱۴، ص۶۷۔ موارد الظمان، ج۱، ص۴۱۔ مسندِ ابی عوانہ، ج۱، ص۷۷۔ مسندِ عبد بن حمید، ج۱، ص۲۳۲۔ المعجم الکبیر، ج۱۰، ص۳۳۸۔ ج۲۰، ص۱۷۲، لا بن مندہ، ج۱، ص۴۷۱۔</p> </section> <section> <p>شیاطین اور فرشتے</p> <blockquote> <p><annotation lang="ar">و عن ابن مسعود، قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: إن للشیطان لمۃ بابن آدم و للملک لمۃ۔ فأما لمۃ الشیطان فایعاد بالشر و تکذیب بالحق۔ وأما لمۃ الملک فإیعاد بالخیر و تصدیق بالحق۔ فمن وجد ذلک فلیعلم أنہ من اﷲ فلیحمد اﷲ۔ و من وجد الأخری، فلیتعوذ باﷲ من الشیطان الرجیم۔ ثم قرأ: (الشیطان یعدکم الفقر و یأمرکم بالفحشاء)۔</annotation></p> <p>”حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابنِ آدم (کے نفس میں) دخل اندازی کا موقع شیطان کو بھی حاصل ہے اور فرشتے کو بھی۔ شیطان کی در اندازی برے حالات کا ڈراوا (دے کر) حق کے جھٹلانے پر آمادہ کرنا ہے اور فرشتے کی دخل اندازی خیر کی توقع (پیدا کر کے) حق کی تصدیق پر ابھارنا ہے۔ جو اسے پائے، وہ یہ جان لے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔ جو دوسری چیز پائے وہ اللہ تعالیٰ کی شیطان مردود سے پناہ مانگے۔ پھر آپ نے یہ آیہء کریمہ تلاوت کی: <annotation lang="ar">الشیطان یعدکم الفقر و یأمرکم بالفحشاء</annotation>۔ (شیطان تمھیں فقر سے ڈراتا اور بے حیائی کا کہتا ہے۔ اور اللہ تم سے اپنی جناب میں مغفرت اور عنایت کا وعدہ کرتا ہے اور وہ سمائی والا اور جاننے والا ہے۔“</p> </blockquote> <heading>لغوی مباحث</heading> <p><annotation lang="ar">إیعاد</annotation>: یہ ’<annotation lang="ar">وعد</annotation>‘ سے باب افعال میں مصدر ہے اس کا مطلب ہے دوسرے کو کسی بات کا یقین دلانا۔<annotation lang="ar">لمۃ</annotation>: ’<annotation lang="ar">لم</annotation>‘ کا مطلب ہے: اترنا، اثر انداز ہونا اور قریب ہونا۔ یہاں یہ شیطانی وساوس کے لیے آیا ہے۔</p> <heading>متون</heading> <p>مختلف کتابوں میں اس روایت کا ایک ہی متن روایت ہوا ہے۔ جو تھوڑے بہت فرق ہیں، ان کی نوعیت بھی محض لفظی فرق کی ہے۔ مثلاً ’<annotation lang="ar">بابن آدم</annotation>‘ کی جگہ ’<annotation lang="ar">من ابن آدم</annotation>‘ اور ’<annotation lang="ar">فمن وجد ذلک</annotation>‘ کے بجائے ’<annotation lang="ar">فمن أحس من لمۃ الشیطان اور من لمۃ الملک</annotation>‘ کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔</p> <heading>معنی</heading> <p>بنیادی طور پر یہ روایت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ جہاں شیاطین انسانوں کے نفوس میں برائیوں کے لیے تحریک پیدا کرنے کی سعی کرتے ہیں وہیں فرشتے نیکیوں کے لیے آمادگی کا جذبہ ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات ہم اس سے پہلے حدیث: ۶۷میں واضح کر چکے ہیں کہ یہ بات صرف حدیث ہی میں نہیں آئی ہے، بلکہ قرآنِ مجید میں بھی بیان ہو ئی ہے۔ چنانچہ یہ نکتہ تو ایک طے شدہ نکتہ ہے۔ اس روایت میں پیشِ نظر نکتہ شیطانی اور ملکوتی تاثیرات میں فرق اور نوعیت کو واضح کرنا ہے، تاکہ اہلِ ایمان شیطان کے اصل ہتھیار سے واقف ہو جائیں اور اس کا مقابلہ کرنا ان کے لیے آسان ہو۔ شیطان کا اصل حربہ یاس اور ناامیدی پیدا کر کے مستقبل کی ناکامیوں اور پیش آنے والی تکلیفوں کے خوف میں مبتلا کر کے برائی کے راستے پر لگانا ہے۔ اسی بات کو واضح کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’ایعاد بالشر‘ کی ترکیب اختیار کی ہے۔ انسانی فطرت صالح ہے۔ لہٰذا اس کا اصل میلان اعمالِ صالحہ ہی کی طرف ہے۔ یہ ایک مشکل کام ہے کہ انسان کو صحیح کاموں سے ہٹا کر برے کاموں کی طرف لگایا جائے۔ اس کے لیے ایک راستہ یہ ہے کہ آدمی کو مختلف اندیشوں میں مبتلا کر دیا جائے تاکہ وہ صحیح اصول پر فیصلہ کرنے کے بجائے مایوسی اور خوف کی حالت میں شیطان کا مطلوب فیصلہ کرے۔ شیطان کا دوسرا حربہ انسان کے جنسی جذبے کو بے راہ رو کرنا ہے۔ جنسی جذبے کو قابو کرنے میں حیا کے جذبے کو مؤثر ترین عامل کی حیثیت حاصل ہے۔ شیطان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اس جذبے کو غیر مؤثر کر دے تاکہ انسان بے حیائی کی راہ پر چلنے میں عار محسوس نہ کرے اور نتیجۃً معاشرے میں فحاشی پھیل جائے۔ فرشتے اس کے برعکس انسان کو امید دلاتے ہیں۔ اسے خدا کی رحمت اور مغفرت پانے کی طرف راغب کرتے ہیں۔ امید آدمی کی مثبت سرگرمیوں کا منبع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرشتے ناامیدی کی کیفیت پیدا کرنے کے بجائے آدمی کی توجہ خدا کی رحمتوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ مایوسی کے نتیجے میں آدمی کفر کی راہ اختیار کرتا اور خدا کی رحمت کے بھروسے پر آدمی حق کو اختیار کرتا اور اس کے نتیجے میں آنے والی مشکلات اور مصیبتوں کو دیکھ کر اس کے قدم متزلزل نہیں ہوتے۔</p> <heading>کتابیات</heading> <p>ترمذی، کتاب تفسیر القرآن، باب ۳۔ تفسیر قرطبی ج۳، ص۳۲۹۔ ج۷، ص۱۸۶۔ تفسیر طبری، ج۳، ص۸۸۔ صحیح ابنِ حبان، ج۳، ص۲۷۸۔ موارد الظمآن، ج۱، ص۴۰۔ السنن الکبری، ج۶، ص۳۰۵۔ مسند ابی یعلیٰ، ج۸، ص۴۱۷۔</p> </section> </body>
0007.xml
<meta> <title>نیا پاکستان مبارک!</title> <author> <name>خورشید احمد ندیم</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Mahnama Ishraq June 2013</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://www.javedahmedghamidi.org/#!/ishraq/5adb73a7b7dd1138372dc6e2?articleId=5adb7463b7dd1138372dda93&amp;year=2013&amp;decade=2010</link> <copyright-holder>Al-Mawrid</copyright-holder> </publication> <num-words>1429</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
نیا پاکستان مبارک!
1,429
Yes
<body> <section> <p>وزیراعظم: نواز شریف، قائد حزب اختلاف: عمران خان۔</p> <p>پاکستان کے لیے اس سے بہتر سیاسی مستقبل ممکن نہیں تھا۔ اگر یہ ترتیب الٹ جاتی تو بھی میری راے یہی ہوتی۔ وزیراعظم: عمران خان، قائد حزب اختلاف: نواز شریف۔ پاکستان کے عوام نے بالعموم جس ذہنی بلوغت کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے جمہوریت پر میرے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ نواز شریف نے ۱۱ مئی کی شب جو تقریر کی، وہ بلاشبہ ایک نئے پاکستان کی خبر دے رہی ہے۔ شہباز شریف کے چند جملوں نے فضا میں جو تلخی پیدا کر دی تھی میاں صاحب کی بصیرت نے بڑی حد تک اس کا تدارک کر دیا۔ انھوں نے زبان حال سے بتا دیا کہ شہباز شریف صاحب وزارت عظمیٰ کے لیے جتنے غیر موزوں ہو سکتے ہیں، نواز شریف صاحب اتنے ہی موزوں ہیں۔ قومی راہنما ہونے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ آدمی کے دل میں ایک کائنات سما جائے۔ مخالفین کے لیے بھی وہ سراپا شفقت ہو۔ عمران خان کو بھی اس باب میں ابھی بہت تربیت کی ضرورت ہے۔</p> <p>نواز شریف اور عمران خان اب ایک نئے عرصۂ امتحان میں ہیں۔ دونوں کے لیے نئے چیلنج ہیں۔ نواز شریف نے باہمی تعاون کی بنیاد پر ایک نئے عہد کے خدوخال واضح کرنے کی کوشش کی، تاہم عمران خان اس کے لیے آمادہ نہیں ہوں گے۔ یہ ان کی راے ہے جن کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کو ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ میں ان کی بات پر اعتبار کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کر رہا ہوں۔ اس میں بھی پاکستان کے لیے خیر ہے۔ جمہوریت کی کامیابی کے لیے اچھی اپوزیشن اتنی ہی ضروری ہے جتنی اچھی حکومت۔ اس وقت یہ خطرہ موجود ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم مل کر اپوزیشن کا منصب لے سکتے ہیں۔ نئے پاکستان کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ یہ منصب عمران خان کے پاس رہے۔</p> <p>نئے پاکستان میں نواز شریف صاحب اور عمران خان کو جو چیلنج درپیش ہوں گے، ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ پہلے نواز شریف، عوامی تائید کے ساتھ اس وقت ان کے دو مثبت امتیازات ہیں۔ ایک یہ کہ انھیں پاکستان کے کاروباری طبقے کا اعتماد حاصل ہے۔ دوسرا بین الاقوامی برادری کا۔ آج پاکستان کو ایسے ہی راہنما کی ضرورت تھی۔ اس سے پاکستان کی معیشت اور ساکھ پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اس زاد راہ کے ساتھ وہ جس سفر کا آغاز کریں گے، اس میں انھیں چار اہم سوالات کا سامنا ہو گا۔ ان کا جواب دیے بغیر وہ سیاست کے پل صراط سے کامیابی کے ساتھ نہیں گزر پائیں گے۔</p> <p>۱۔ پاکستان سکیورٹی سٹیٹ بنا رہے گا یا اسے ایک فلاحی جمہوری ریاست بننا ہے؟ آٹھ ماہ پہلے میں نے ایک بالمشافہ ملاقات میں بھی میاں صاحب کے سامنے یہ سوال رکھا تھا۔ آسان لفظوں میں اس کا مطلب ہے خارجہ پالیسی سمیت قومی ترجیحات کا نئے سرے سے تعین۔ انتخابات کی رات ’’دنیا‘‘ ٹی وی پر امتیاز گل صاحب نے ایک اہم بات کہی۔ ان کے بقول میاں صاحب نے اپنے قریبی حلقے سے یہ کہا ہے کہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک فیصلہ کن بات کریں گے: مشرقی اور مغربی سرحدوں پر وہ پرانی حکمت عملی برقرار رکھیں گے یا نئی حکمت عملی ترتیب دینے کا موقع دیں گے۔ اگر وہ پرانی حکمت عملی پر اصرار کریں گے تو میاں صاحب حکومت بنانے سے معذرت کر لیں گے اور اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دیں گے۔ اگر یہ بات درست ہے تو اس کا مطلب ہے، وہ پاکستان کے بنیادی مسئلے کا ادراک رکھتے ہیں اور اصلاح چاہتے ہیں۔ گویا اس صورت میں پاکستان کو اس مسلسل غلطی سے نجات مل سکتی ہے جسے سٹریٹجک ڈیپتھ کا عنوان دیا جاتا ہے۔ اگر میاں صاحب یہ کام کر گزرے تو بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ اس سے پاکستان کے بہت سے مسائل کا تدارک ہو سکے گا۔</p> <p>۲۔ دہشت گردی کے بارے میں وہ کیا حکمت عملی اپناتے ہیں؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج یہ پاکستان کی جنگ ہے۔ قاتل اور مقتول، حملہ آور اور ہدف دونوں پاکستانی ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے وابستگان پاکستانی ہیں اور بشیر بلور اور منیر اورکزئی جیسے لوگ بھی پاکستانی۔ اس میں امریکا فریق نہیں ہے۔ یہ طے ہے کہ دہشت گردی سے نجات کے بغیر پاکستان ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتا۔ نہ سیاسی حوالے سے نہ معاشی اعتبار سے۔ نواز شریف صاحب کے لیے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اس کا سامنا کیسے کرتے ہیں۔ کیا وہ طالبان کو پاکستان میں حملوں سے باز رکھ پائیں گے؟</p> <p>۳۔ کیا وہ امن و امان اور بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ جیسے مسائل پر ایک سال میں قابو پا سکیں گے؟ اگر عوام کو ان دو مسائل سے نجات نہ مل سکی یا بڑی حد تک ان کا خاتمہ نہ ہوا تو نواز شریف صاحب کی عوامی مقبولیت کا گراف بہت تیزی سے نیچے آئے گا۔ اس وقت عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہے۔ پیپلز پارٹی کو دراصل اسی کی سزا ملی ہے۔ شہباز شریف صاحب کے دعووں کی بازگشت اب باربار سنی جاتی رہے گی۔ </p> <p>۴۔ کیا وہ مرکزی حکومت میں دوسرے صوبوں کو نمائندگی دے پائیں گے؟ حکومت کی ساکھ اور وفاق کی یک جہتی کے لیے ضروری ہے کہ تمام صوبوں کے لوگ حکومت کا حصہ ہوں۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو شامل کیے بغیر مرکزی حکومت کتنی نمائندہ ہو گی؟ میاں صاحب کو ابتدا میں ہی اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے۔</p> <p>عمران خان کو بھی چار سوالات کا سامنا ہے:</p> <p>۱۔ کیا وہ ملک کو ایک موثر اور مثبت اپوزیشن دے پائیں گے؟ انتخابی مہم کے دوران میں عمران خان کا موقف یہ رہا ہے کہ وہ سابقہ پارلیمنٹ میں موجود کسی جماعت سے اتحاد نہیں کریں گے۔ یہ انداز نظر غیر جمہوری ہے۔ اگر وہ خیر میں تعاون اور شر میں عدم تعاون کے اصول کو پیش نظر رکھیں تو اس سے ان کی پذیرائی میں اضافہ ہو گا اور اس طرح وہ اس نظام کی تقویت کا باعث بن سکیں گے۔ </p> <p>۲۔ انھیں یہ بات بھی سامنے رکھنا ہو گی کہ اس نظام میں تبدیل ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔ وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ انھیں عوامی فیصلے کی تائید کرنی چاہیے اور کھلے دل کے ساتھ ن لیگ کی کامیابی کا اعتراف کرنا چاہیے۔ نواز شریف نے ان کے حادثے پر جس ردعمل کا اظہار کیا، اس سے ان کو اخلاقی برتری ملی ہے۔ اگر عمران خان بھی ہسپتال میں شہباز شریف صاحب سے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے تو یہ بہتر ہوتا۔ پارلیمنٹ میں موثر اپوزیشن کا کردار نبھانے کے لیے انھیں خوے دل نوازی پیدا کرنی ہو گی۔</p> <p>۳۔ انتخابی کامیابی کو وہ کس حد تک پارٹی کی مضبوطی کے لیے استعمال کر پائیں گے؟ انتخابات میں تحریک انصاف کی کارکردگی بہت متاثر کن رہی ہے۔ وہ بہت آگے جا سکتی ہے۔ اس کے لیے عمران خان کو پارٹی پر بہت توجہ دینا ہو گی۔ میرا یہ خیال اب پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ ملک ایک بار پھر دو جماعتی نظام کی طرف بڑھے گا اور ان میں ایک جماعت تحریک انصاف ہو گی، تاہم اس کا تمام تر انحصار اس بات پر ہے کہ آنے والے دنوں میں تحریک انصاف کس طرح اپنے خدو خال کا تعین کرتی ہے۔</p> <p>۴۔ کیا تحریک انصاف خیبر پختون خوا میں امید کی کرن بن سکتی ہے؟ امکان یہی ہے کہ تحریک انصاف صوبے میں حکومت بنائے گی۔ یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ امن و امان ہے۔ اب طالبان کے ساتھ ان کا براہ راست پالا پڑنے والا ہے۔ اس مرحلے پر وہ جو پالیسی اختیار کریں گے، اس سے ان کے مستقبل کا تعین ہو گا۔ اچھی حکومت اور امن میں توازن پیدا کرنا ہی امتحان ہے۔ ڈرون حملوں اور قبائلی علاقوں میں آپریشن جیسے مسائل پر انھیں عملی کردار ادا کرنا ہے۔ ان کے سامنے ایک مجلس عمل کا وجود ہے۔ جن کے نعروں اور عمل میں تفاوت نے ان کے سیاسی مستقبل کو تاریک کر دیا۔ خیبر پختون خوا کی حکومت اعزاز سے کہیں زیادہ ایک چیلنج ہے۔</p> <p>آج ایک نیا پاکستان ہمارے سامنے ہے۔ کئی نئے حقائق جنم لے چکے۔ ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بھٹو اور اینٹی بھٹو کی نفسیات سے باہر آ گیا ہے۔ نئی عصبیتیں جنم لے رہی ہیں۔ جمہوریت اسی کا نام ہے کہ سماج متحرک رہتا ہے۔ نواز شریف اور عمران خان دونوں کے ساتھ امید وابستہ ہے۔ پاکستان کو آج امید ہی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ یہ جمہوریت کا تحفہ بھی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ ہم کس طرح اس کی قدر افزائی کرتے ہیں۔</p> </section> </body>
0008.xml
<meta> <title>روزہ</title> <author> <name>جاوید احمد غامدی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Mahnama Ishraq July 2013</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://www.javedahmedghamidi.org/#!/ishraq/5adb735ab7dd1138372dbdef?articleId=5adb7364b7dd1138372dbe0b&amp;year=2013&amp;decade=2010</link> <copyright-holder>Al-Mawrid</copyright-holder> </publication> <num-words>2762</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
روزہ
2,762
No
<body> <section> <p>نماز اور زکوٰۃ کے بعدتیسرا فرض روزہ ہے۔ یہ روزہ کیا ہے؟ انسان کے نفس پر جب اس کی خواہشیں غلبہ پالیتی ہیں تو وہ اپنے پروردگار سے غافل اور اس کے حدود سے بے پروا ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی غفلت اور بے پروائی کی اصلاح کے لیے ہم پر روزہ فرض کیا ہے۔ یہ عبادت سال میں ایک مرتبہ پورے ایک مہینے تک کی جاتی ہے۔ رمضان آتا ہے تو صبح سے شام تک ہمارے لیے کھانے پینے اور بیویوں کے ساتھ خلوت کرنے پر پابندی لگ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اس نے یہ عبادت ہم سے پہلی امتوں پر بھی اسی طرح فرض کی تھی جس طرح ہم پر فرض کی ہے۔ ان امتوں کے لیے، البتہ اس کی شرطیں ذرا سخت تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے جس طرح دوسری سب چیزوں کو ہلکا کیا، اسی طرح اس عبادت کو بھی بالکل معتدل بنا دیا ہے۔ تاہم دوسری سب عبادتوں کے مقابلے میں یہ اس لیے ذرا بھاری ہے کہ اس کا مقصد ہی نفس کے منہ زور رجحانات کو لگام دے کر ان کا رخ صحیح سمت میں موڑنا اور اسے حدود کا پابند بنا دینا ہے۔ یہ چیز، ظاہر ہے کہ تربیت میں ذرا سختی ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔</p> <p>سحری کے وقت ہم کھا پی رہے ہوتے ہیں کہ یکایک اذان ہوتی ہے اور ہم فوراً ہاتھ روک لیتے ہیں۔ اب خواہشیں کیسا ہی زور لگائیں، دل کیسا ہی مچلے، طبیعت کیسی ہی ضد کرے، ہم ان چیزوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے جن سے روزے کے دوران میں ہمیں روک دیا گیا ہے۔ یہ ساری رکاوٹ اس وقت تک رہتی ہے، جب تک مغرب کی اذان نہیں ہوتی۔ روزہ ختم کر دینے کے لیے ہمارے رب نے یہی وقت مقرر کیا ہے۔ چنانچہ مغرب کے وقت موذن جیسے ہی بولتا ہے، ہم فوراً افطار کے لیے لپکتے ہیں۔ اب رات بھر ہم پر کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ رمضان کا پورا مہینا ہم اسی طرح گزارتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ وقتی طور پر اگرچہ کچھ کمزوری اور کام کرنے کی صلاحیت میں کمی تو محسوس کرتے ہیں، لیکن اس سے صبر اور تقویٰ کی وہ نعمت ہم کو حاصل ہوتی ہے جو اس زمین پر اللہ کا بندہ بن کر رہنے کے لیے ہماری روح کی اسی طرح ضرورت ہے، جس طرح ہوا اور پانی اور غذا ہمارے جسم کی ضرورت ہے۔ اس سے یہ حقیقت کھلتی ہے کہ آدمی صرف روٹی ہی سے نہیں جیتا، بلکہ اس بات سے جیتا ہے جو اس کے رب کی طرف سے آتی ہے۔</p> <p>یہ روزہ ہر عاقل و بالغ مسلمان پر فرض ہے، لیکن وہ اگر مرض یا سفر یا کسی دوسرے عذر کی بنا پر رمضان میں یہ فرض پورا نہ کر سکے تو جتنے روزے چھوٹ جائیں، ان کے بارے میں اجازت ہے کہ وہ رمضان کے بعد کسی وقت رکھ لیے جائیں۔ روزوں کی تعداد ہرحال میں پوری ہونی چاہیے۔</p> <p>اس روزے سے ہم بہت کچھ پاتے ہیں۔ سب سے بڑی چیز اس سے یہ حاصل ہوتی ہے کہ ہماری روح خواہشوں کے زور سے نکل کر علم و عقل کی ان بلندیوں کی طرف پرواز کے قابل ہو جاتی ہے، جہاں آدمی دنیا کی مادی چیزوں سے برتر اپنے رب کی بادشاہی میں جیتا ہے۔</p> <p>۱س مقصد کے لیے روزہ ان سب چیزوں پر پابندی لگاتا ہے جن سے خواہشیں بڑھتی ہیں اور لذتوں کی طرف میلان میں اضافہ ہوتا ہے۔ بندہ جب یہ پابندی جھیلتا ہے تو اس کے نتیجے میں زہد و فقیری کی جو حالت اس پر طاری ہو جاتی ہے، اس سے وہ دنیا سے ٹوٹتا اور اپنے رب سے جڑتا ہے۔ روزے کا یہی پہلو ہے جس کی بنا پر اللہ نے فرمایا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا بھی میں اپنے ہاتھ سے دوں گا، اور فرمایا کہ روزے دار کے منہ کی بو مجھے مشک کی خوش بو سے زیادہ پسند ہے۔</p> <p>ہر اچھے کام کا اجر سات سو گنا ہو سکتا ہے، لیکن روزہ اس سے بھی آگے ہے۔ اس کی جزا کیا ہو گی؟ اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ جب بدلے کا دن آئے گا تو وہ یہ بھید کھولے گا اور خاص اپنے ہاتھ سے ہر روزے دار کو اس کے عمل کا صلہ دے گا۔ پھر کون اندازہ کر سکتا ہے کہ آسمان و زمین کا مالک جب اپنے ہاتھ سے صلہ دے گا تو اس کا بندہ کس طرح نہال ہو جائے گا۔</p> <p>دوسری چیز اس سے یہ حاصل ہوتی ہے کہ انسان کے وجود میں فتنے کے دروازے بڑی حد تک بند ہو جاتے ہیں۔ یہ زبان او رشرم گاہ، یہی دونوں وہ جگہیں ہیں جہاں سے شیطان بالعموم انسان پر حملہ کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص مجھے ان دو چیزوں کے بارے میں ضمانت دے گا جو اس کے دونوں گالوں اور دونوں ٹانگوں کے درمیان ہیں، میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ روزہ ان دونوں پر پہرا بٹھا دیتا ہے اور صرف کھانا پینا ہی نہیں، زبان اور شرم گاہ میں حد سے بڑھنے کے جتنے میلانات ہیں، ان سب کو کمزور کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ آدمی کے لیے وہ کام بہت آسان ہو جاتے ہیں جن سے اللہ کی رضا اور جنت مل سکتی اور ان کاموں کے راستے اس کے لیے بڑی حد تک بند ہو جاتے ہیں جن سے اللہ ناراض ہوتا ہے اور جن کی وجہ سے وہ دوزخ میں جائے گا۔ یہی حقیقت ہے جسے اللہ کے نبی نے اس طرح بیان کیا ہے کہ روزوں کے مہینے میں شیطان کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں۔</p> <p>تیسری چیز یہ حاصل ہوتی ہے کہ انسان کا اصلی شرف، یعنی ارادے کی قوت اس کی شخصیت میں نمایاں ہو جاتی ہے اور اس طریقے پر تربیت پالیتی ہے کہ وہ اس کے ذریعے سے اپنی طبیعت میں پیدا ہونے والے ہر ہیجان کو اس کے حدود میں رکھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ ارادے کی یہ قوت اگر کسی شخص میں کمزور ہو تو وہ نہ اپنی خواہشوں کو بے لگام ہونے سے بچا سکتا ہے، نہ اللہ کی شریعت پر قائم رہ سکتا ہے اور نہ طمع، اشتعال، نفرت اور محبت جیسے جذبوں کو اعتدال پر قائم رکھ سکتا ہے۔ یہ سب چیزیں انسان سے صبر چاہتی ہیں اور صبر کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان میں ارادے کی قوت ہو۔ روزہ اس قوت کو بڑھاتا اور اس کی تربیت کرتا ہے۔ پھر یہی قوت انسان کو برائی کے مقابلے میں اچھائی پر قائم رہنے میں مدد دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی نے روزے کو ڈھال کہا اور انسان کو بتایا کہ وہ برائی کی ہر ترغیب کے سامنے یہ ڈھال اس طرح استعمال کرے کہ جہاں کوئی شخص اسے برائی پر ابھارے، وہ اس کے جواب میں یہ کہہ دے کہ میں تو روزے سے ہوں۔</p> <p>چوتھی چیز یہ حاصل ہوتی ہے کہ انسان میں ایثار کا جذبہ ابھرتا ہے اور اسے دوسروں کے دکھ درد کو سمجھنے اور ان کے لیے کچھ کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ روزے میں آدمی کو بھوک اور پیاس کا جو تجربہ ہوتا ہے، وہ اسے غریبوں کے قریب کر دیتا ہے اور ان کی ضرورتوں کا صحیح احساس اس میں پیدا کرتا ہے۔ روزے کا یہ اثر، بے شک کسی پر کم پڑتا ہے اور کسی پر زیادہ، لیکن ہر شخص کی صلاحیت اور اس کی طبیعت کی سلامتی کے لحاظ سے پڑتا ضرور ہے۔ وہ لوگ جو اس اعتبار سے زیادہ حساس ہوتے ہیں، ان کے اندر تو گویا دریا امنڈ پڑتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ آپ یوں تو ہر حال میں بے حد فیاض تھے، مگر رمضان میں تو بس جودوکرم کے بادل بن جاتے اور اس طرح برستے کہ ہر طرف جل تھل ہو جاتا تھا۔</p> <p>پانچویں چیز یہ حاصل ہوتی ہے کہ رمضان کے مہینے میں روزے دار کو جو خلوت اور خاموشی اور دوسروں سے کسی حد تک الگ تھلگ ہو جانے کا موقع ملتا ہے، اس میں قرآن مجید کی تلاوت اور اس کے معنی کو سمجھنے کی طرف بھی طبیعت زیادہ مائل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ کتاب اسی ماہ رمضان میں اتاری اور اسی نعمت کی شکر گزاری کے لیے اس کو روزوں کا مہینا بنا دیا ہے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جبریل علیہ السلام بھی اسی مہینے میں قرآن سننے اور سنانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے۔ روزے سے قرآن مجید کی یہی مناسبت ہے جس کی بنا پر امت کے اکابر اس مہینے میں اپنے نبی کی پیروی میں رات کے پچھلے پہر اور عام لوگ آپ ہی کی اجازت سے عشا کے بعد نفلوں میں اللہ کا کلام سنتے اور سناتے رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کی راتوں میں نماز کے لیے کھڑا رہا، اس کا یہ عمل اس کے پچھلے گناہوں کی معافی کا ذریعہ بن جائے گا۔</p> <p>چھٹی چیز یہ حاصل ہوتی ہے کہ آدمی اگر چاہے تو اس مہینے میں بہت آسانی کے ساتھ اپنے پورے دل او رپوری جان کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہو سکتا ہے۔ اللہ کے بندے اگر یہ چیز آخری درجے میں حاصل کرنا چاہیں تو اس کے لیے اسی رمضان میں اعتکاف کا طریقہ بھی مقرر کیا گیا ہے۔ یہ اگرچہ ہر شخص کے لیے ضروری نہیں ہے، لیکن دل کو اللہ کی طرف لگانے کے لیے یہ بڑی اہم عبادت ہے۔ اعتکاف کے معنی ہمارے دین میں یہ ہیں کہ آدمی دس دن یا اپنی سہولت کے مطابق اس سے کم کچھ دنوں کے لیے سب سے الگ ہو کر اپنے رب سے لو لگا کر مسجد میں بیٹھ جائے اور اس عرصے میں کسی ناگزیر ضرورت ہی کے لیے وہاں سے نکلے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں اکثر اس کا اہتمام فرماتے تھے اور خاص طور پر اس ماہ کے آخری دس دنوں میں رات کو خود بھی زیادہ جاگتے، اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے اور پوری مستعدی کے ساتھ اللہ کی عبادت میں لگے رہتے تھے۔</p> <p>یہ سب چیزیں روزے سے حاصل ہو سکتی ہیں، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ روزے دار ان خرابیوں سے بچیں جو اگر روزے میں در آئیں تو اس کی ساری برکتیں بالکل ختم ہو جاتی ہیں۔ یہ خرابیاں اگرچہ بہت سی ہیں، لیکن ان میں بعض ایسی ہیں کہ ہر روزے دار کو ان کے بارے میں ہر وقت ہوشیار رہنا چاہیے۔</p> <p>ان میں سے ایک خرابی یہ ہے کہ لوگ رمضان کو لذتوں اور چٹخاروں کا مہینا بنا لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس مہینے میں جو بھی خرچ کیا جائے، اس کا اللہ کے ہاں کوئی حساب نہیں ہے۔ چنانچہ اس طرح کے لوگ اگر کچھ کھاتے پیتے بھی ہوں تو ان کے لیے تو پھر یہ مزے اڑانے اور بہار لوٹنے کا مہینا ہے۔ وہ اس کو نفس کی تربیت کے بجائے اس کی پرورش کا مہینا بنا لیتے ہیں اور ہرروز افطار کی تیاریوں ہی میں صبح کو شام کرتے ہیں۔ وہ جتنا وقت روزے سے ہوتے ہیں، یہی سوچتے ہیں کہ سارے دن کی بھوک پیاس سے جو خلا ان کے پیٹ میں پیدا ہوا ہے، اسے وہ اب کن کن نعمتوں سے بھریں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اول تو روزے سے وہ کچھ پاتے ہی نہیں اور اگر کچھ پاتے ہیں تو اسے وہیں کھو دیتے ہیں۔</p> <p>اس خرابی سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے اندرکام کی قوت کو باقی رکھنے کے لیے کھائے پیے تو ضرور، لیکن اس کو جینے کا مقصد نہ بنا لے۔ جو کچھ بغیر کسی اہتمام کے مل جائے، اس کو اللہ کا شکر کرتے ہوئے کھا لے۔ گھر والے جو کچھ دستر خوان پر رکھ دیں، وہ اگر دل کو نہ بھی بھائے تو اس پر خفا نہ ہو۔ اللہ نے اگر مال و دولت سے نوازا ہے تو اپنے نفس کو پالنے کے بجاے، اسے غریبوں اور فقیروں کی مدد اور ان کے کھلانے پلانے پر خرچ کرے۔ یہ چیز یقیناًاس کے روزے کی برکتوں کو بڑھائے گی۔ روایتوں میں آتا ہے کہ اللہ کے نبی نے رمضان میں اس عمل کی بڑی فضیلت بیان کی ہے۔</p> <p>دوسری خرابی یہ ہے کہ بھوک اور پیاس کی حالت میں چونکہ طبیعت میں کچھ تیزی پیدا ہو جاتی ہے، اس وجہ سے بعض لوگ روزے کو اس کی اصلاح کا ذریعہ بنانے کے بجاے، اسے بھڑکانے کا بہانہ بنا لیتے ہیں۔ وہ اپنے بیوی بچوں اور اپنے نیچے کام کرنے والوں پر ذرا ذرا سی بات پر برس پڑتے، جو منہ میں آیا، کہہ گزرتے، بلکہ بات بڑھ جائے تو گالیوں کا جھاڑ باندھ دیتے ہیں اور بعض حالتوں میں اپنے زیر دستوں کو مارنے پیٹنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اس کے بعد وہ اپنے آپ کو یہ کہہ کر مطمئن کر لیتے ہیں کہ روزے میں ایسا ہو ہی جاتا ہے۔</p> <p>اس کا علاج اللہ کے نبی نے یہ بتایا ہے کہ آدمی اس طرح کے سب موقعوں پر روزے کو اس اشتعال کا بہانہ بنانے کے بجاے اس کے مقابلے میں ایک ڈھال کی طرح استعمال کرے، اور جہاں اشتعال کا کوئی موقع پیدا ہو، فوراً یاد کرے کہ میں روزے سے ہوں۔ وہ اگر غصے اور اشتعال کے ہر موقع پر یاددہانی کا یہ طریقہ اختیار کرے گا تو آہستہ آہستہ دیکھے گا کہ بڑی سے بڑی ناگوار باتیں بھی اب اسے گوارا ہیں۔ وہ محسوس کرے گا کہ اس نے اپنے نفس کے شیطان پر اتنا قابو پالیا ہے کہ وہ اب اسے گرا لینے میں کم ہی کامیاب ہوتا ہے۔ شیطان کے مقابلے میں فتح کا یہ احساس اس کے دل میں اطمینان اور برتری کا احساس پیدا کرتا ہے اور روزے کی یہی یاددہانی اس کی اصلاح کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ پھر وہ وہیں غصہ کرتا ہے، جہاں اس کا موقع ہوتا ہے۔ وقت بے وقت اسے مشتعل کر دینا کسی کے لیے ممکن نہیں رہتا۔</p> <p>تیسری خرابی یہ ہے کہ بہت سے لوگ جب روزے میں کھانے پینے اور اس طرح کی دوسری دل چسپیوں کو چھوڑتے ہیں تو اپنی اس محرومی کا مداوا ان دل چسپیوں میں ڈھونڈنے لگتے ہیں جن سے ان کے خیال میں روزے کو کچھ نہیں ہوتا، بلکہ وہ بہل جاتا ہے۔ وہ روزہ رکھ کر تاش کھیلیں گے، ناول اور افسانے پڑھیں گے، نغمے اور غزلیں سنیں گے، فلمیں دیکھیں گے، دوستوں میں بیٹھ کر گپیں ہانکیں گے اور اگر یہ سب نہ کریں گے تو کسی کی غیبت اور ہجو ہی میں لپٹ جائیں گے۔ روزے میں پیٹ خالی ہو تو آدمی کو اپنے بھائیوں کا گوشت کھانے میں ویسے بھی بڑی لذت ملتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بعض اوقات صبح اس مشغلے میں پڑتے ہیں اور پھر موذن کی اذان کے ساتھ ہی اس سے ہاتھ کھینچتے ہیں۔</p> <p>اس خرابی کا ایک علاج تو یہ ہے کہ آدمی خاموشی کو روزے کا ادب سمجھے اور زیادہ سے زیادہ یہی کوشش کرے کہ اس کی زبان پر کم سے کم اس مہینے میں تو تالا لگا رہے۔ اللہ کے نبی نے فرمایا کہ آدمی اگر ہر قسم کی جھوٹی سچی باتیں زبان سے نکالتا ہے تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔</p> <p>اس کا دوسرا علاج یہ ہے کہ جو وقت ضروری کاموں سے بچے، اس میں آدمی قرآن و حدیث کا مطالعہ کرے اور دین کو سمجھے۔ وہ روزے کی اس فرصت کوغنیمت سمجھ کر اس میں قرآن مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی دعاؤں کا کچھ حصہ یاد کرلے۔ اس طرح وہ اس وقت ان مشغلوں سے بچے گا اور بعد میں یہی ذخیرہ اللہ کی یاد کو اس کے دل میں قائم رکھنے کے لیے اس کے کام آئے گا۔</p> <p>چوتھی خرابی یہ ہے کہ آدمی بعض اوقات روزہ اللہ کے لیے نہیں، بلکہ اپنے گھر والوں اور ملنے جلنے والوں کی ملامت سے بچنے کے لیے رکھتا ہے اور کبھی لوگوں میں اپنی دین داری کا بھرم قائم رکھنے کے لیے یہ مشقت جھیلتا ہے۔ یہ چیز بھی روزے کو روزہ نہیں رہنے دیتی۔</p> <p>اس کا علاج یہ ہے کہ آدمی روزے کی اہمیت ہمیشہ اپنے نفس کے سامنے واضح کرتا رہے اور اسے تلقین کرے کہ جب کھانا پینا اور دوسری لذتیں چھوڑ ہی رہے ہو تو پھر انھیں اللہ کے لیے کیوں نہیں چھوڑتے۔ اس کے ساتھ رمضان کے علاوہ کبھی کبھی نفلی روزے بھی رکھے اور انھیں زیادہ سے زیادہ چھپانے کی کوشش کرے۔ اس سے امید ہے کہ اس کے یہ فرض روزے بھی کسی وقت اللہ ہی کے لیے خالص ہو جائیں گے۔</p> </section> </body>
0009.xml
<meta> <title>مولانا اختر احسن اصلاحی</title> <author> <name>امام امین احسن اصلاحی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Mahnama Ishraq August 2013</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://www.javedahmedghamidi.org/#!/ishraq/5adb7349b7dd1138372dbb3f?year=2013&amp;decade=2010&amp;articleId=5adb7349b7dd1138372dbb43</link> <copyright-holder>Al-Mawrid</copyright-holder> </publication> <num-words>901</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
مولانا اختر احسن اصلاحی
901
No
<body> <section> <p>میں اور مولانا اختر احسن اصلاحی مرحوم دونوں ایک ہی ساتھ ۱۹۱۴ء میں مدرسۃ الاصلاح سیرائے میر، اعظم گڑھ کے ابتدائی درجوں میں داخل ہوئے اور مدرسہ کا تعلیمی کورس پورا کر کے ایک ہی ساتھ ۱۹۲۲ء میں فارغ ہوئے۔ اس کے بعد مولانا اختر احسن تو مدرسہ ہی میں تدریس کی خدمت پر مامور ہو گئے اور میں دو اڑھائی سال اخبارات میں اخبار نویسی کرتا پھرا۔ ۱۹۲۵ء میں استاذ امام مولانا فراہی نے مجھے یہ ایماء فرمایا کہ میں اخبار نویسی کا لاطائل مشغلہ چھوڑ کر ان سے قرآن حکیم پڑھوں۔ میرے لیے اس سے بڑا شرف اور کیا ہو سکتا تھا۔ میں فوراً تیار ہو گیا اور مولانا نے مدرسہ ہی میں درس قرآن کا آغاز فرما دیا جس میں مدرسہ کے دوسرے اساتذہ کے ساتھ مولانا اختر احسن مرحوم بھی شریک ہوتے رہے۔ یہ سلسلہ پورے پانچ سال قائم رہا۔</p> <p>طالب علمی کے دور میں تو ہم دونوں کے درمیان ایک قسم کی معاصرانہ چشمک و رقابت رہی تعلیم کے میدان میں بھی اور کھیل کے میدان میں بھی۔ لیکن مولانا فراہی کے درس میں شریک ہونے کے بعد ہم میں ایسی محبت پیدا ہو گئی کہ اگر میں یہ کہوں تو ذرا بھی مبالغہ نہ ہو گا کہ ہماری یہ محبت دو حقیقی بھائیوں کی محبت تھی۔ وہ عمر میں مجھ سے غالباً سال ڈیڑھ سال بڑے رہے ہوں گے۔ انھوں نے اس بڑائی کا حق یوں ادا کیا کہ جن علمی خامیوں کو دور کرنے میں مجھے ان کی مدد کی ضرورت ہوئی، اس میں انھوں نے نہایت فیاضی سے میری مدد کی۔ بعض فنی چیزوں میں ان کو مجھ پر نہایت نمایاں تفوّق حاصل تھا۔ اس طرح کی چیزوں میں ان کی مدد سے میں نے فائدہ اٹھایا۔ اس پہلو سے اگر میں ان کو اپنا ساتھی ہی نہیں استاذ بھی کہوں تو شاید بے جا نہ ہو۔</p> <p>مولانا فراہی کے درس میں اگرچہ مدرسہ کے دوسرے اساتذہ بھی شریک ہوتے، لیکن میرے واحد ساتھی مولانا اختر احسن ہی تھے۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی خاص توجہ بھی ہم ہی دونوں پر رہی۔ مولانا اختر احسن اگرچہ بہت کم سخن آدمی تھے، لیکن ذہین اور نہایت نیک مزاج۔ اس وجہ سے ان کو برابر مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا خاص قرب اور اعتماد حاصل رہا۔ انھوں نے حضرت استاذ کے علم کی طرح ان کے عمل کو بھی اپنانے کی کوشش کی، جس کی جھلک ان کی زندگی کے ہر پہلو میں نمایاں ہوئی اور مجھے ان کی اس خصوصیت پر برابر رشک رہا۔</p> <p>مولانا اختر احسن کو استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت کا بھی شرف حاصل ہوا، حالانکہ مولانا کسی کو خدمت کا موقع مشکل ہی سے دیتے تھے۔ یہ شرف ان کو ان کی طبیعت کی انھی خوبیوں کی وجہ سے حاصل ہوا، جن کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا۔</p> <p>استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ مدرسۃ الاصلاح کے ذریعہ سے جو تعلیمی اور فکری انقلاب پیدا کرنا چاہتے تھے، اس میں سب سے بڑی رکاوٹ موزوں اشخاص نہ ملنے کے سبب سے تھی۔ مولانا اختر احسن مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت سے اس تعلیمی مقصد کے لیے بہترین آدمی بن گئے تھے۔ اگر ان کو کام کرنے کی فرصت ملی ہوتی تو توقع تھی کہ ان کی تربیت سے مدرسۃ الاصلاح میں نہایت عمدہ صلاحیتوں کے اتنے اشخاص پیدا ہو جاتے جو نہایت وسیع دائرے میں کام کر سکتے۔ لیکن ان کو عمر بہت کم ملی، اور جو ملی اس میں بھی وہ برابر مختلف امراض کے ہدف رہے، تاہم اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑا حوصلہ عطا فرمایا تھا۔ اپنی مختصر زندگی میں انھوں نے مدرسۃ الاصلاح کی بڑی خدمت کی۔ اور خاص بات یہ ہے کہ اپنی اس خدمت کا معاوضہ انھوں نے اتنا کم لیا کہ اس ایثار کی کوئی دوسری مثال مشکل ہی سے مل سکے گی۔</p> <p>میں نے ۱۹۳۵ء میں استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ کی غیر مطبوعہ تصنیفات کی ترتیب و تہذیب اور اشاعت کے لیے مدرسۃ الاصلاح میں دائرۂ حمیدیہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس کے زیر اہتمام ایک اردو ماہنامہ ’الاصلاح‘ کے نام سے جاری کیا تاکہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے افکار سے اردو خواں طبقہ کو بھی آشنا کیا جائے۔ اس ادارے میں مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے عربی مسودات کی ترتیب و تہذیب کا کام مولانا اختر احسن مرحوم نے اپنے ذمہ لیا اور رسالہ کی ترتیب کی ذمہ داری میں نے اٹھائی۔ مولانا اختر احسن مرحوم اگرچہ تحریر و تقریر کے میدان کے آدمی نہیں تھے، لیکن مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیفات کے ترجمہ کے کام میں انھوں نے میری بڑی مدد فرمائی اور رسالہ میں بھی ان کے مضامین وقتاً فوقتاً نکلتے رہے۔ رسالہ تو کچھ عرصہ کے بعد بند ہو گیا، لیکن دائرۂ حمیدیہ الحمد للہ! برابر استاذ امام کی عربی تصنیفات کی اشاعت کا کام کر رہا ہے اور اس کے کرتا دھرتا مولانا اختر احسن مرحوم کے تلامذہ ہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی سعی مشکور فرمائے!</p> <p>مولانا اختر احسن مرحوم پر یہ چند سطریں میں نے مولانا کے ایک شاگرد عزیزی محمد عنایت اللہ سبحانی کے اصرار پر لکھ دی ہیں۔ اگر مجھے استاذ مرحوم کی سیرت لکھنے کی سعادت حاصل ہوتی تو اس میں بسلسلۂ تلامذۂ فراہی ان کا ذکر تفصیل سے آتا۔ لیکن اب بظاہر اس طرح کے کسی کام کا موقع میسر آنے کی توقع باقی نہیں رہی۔ اب تو بس یہ آرزو ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں استاذ مرحوم کے ساتھ برادر مرحوم کی معیت بھی نصیب کرے!</p> </section> </body>
0010.xml
<meta> <title>ترکی میں حدیث کی تدوین جدید</title> <author> <name>جاوید احمد غامدی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Mahnama Ishraq August 2013</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://www.javedahmedghamidi.org/#!/ishraq/5adb7349b7dd1138372dbb3f?articleId=5adb7358b7dd1138372dbd73&amp;year=2013&amp;decade=2010</link> <copyright-holder>Al-Mawrid</copyright-holder> </publication> <num-words>1313</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
ترکی میں حدیث کی تدوین جدید
1,313
No
<body> <section> <p>حدیث سے متعلق کسی کام کو سمجھنے کے لیے اِس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ دین کا تنہا ماخذ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے۔ آپ سے یہ دین دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے: ایک قرآن، دوسرے سنت۔ یہ بالکل یقینی ہیں اور اپنے ثبوت کے لیے کسی تحقیق کے محتاج نہیں ہیں۔ اِنھیں مسلمانوں نے نسلاً بعد نسلٍ اپنے اجماع اور تواتر سے منتقل کیا ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کی ہرنسل کے لوگوں نے بغیر کسی اختلاف کے پچھلوں سے لیا اور اگلوں تک پہنچا دیا ہے اور زمانۂ رسالت سے لے کر آج تک یہ سلسلہ اِسی طرح قائم ہے۔</p> <p>پورا دین اِنھی دو میں محصور ہے اور اُس کے تمام احکام ہم اِنھی سے اخذ کرتے ہیں۔ اِس میں بعض اوقات کوئی مشکل پیش آجاتی ہے۔ پھر جن معاملات کو ہمارے اجتہاد کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے، اُن میں بھی رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ اِس کے لیے دین کے علما کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے پیغمبر تھے، اِس لیے دین کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے عالم، بلکہ سب عالموں کے امام بھی آپ ہی تھے۔ دین کے دوسرے عالموں سے الگ آپ کے علم کی ایک خاص بات یہ تھی کہ آپ کا علم بے خطا تھا، اِس لیے کہ اُس کو وحی کی تائید و تصویب حاصل تھی۔ یہ علم اگر کہیں موجود ہو تو ہر مسلمان چاہے گا کہ قرآن و سنت کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے اِسی سے رہنمائی حاصل کرے۔</p> <p>ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ علم موجود ہے اور اِس کا ایک بڑا حصہ ہم تک پہنچ گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ علم آپ کے صحابہ نے حاصل کیا تھا، لیکن اِس کو آگے بیان کرنا چونکہ بڑی ذمہ داری کا کام تھا، اِس لیے بعض نے احتیاط برتی اور بعض نے حوصلہ کر کے بیان کر دیا۔ اِس میں وہ چیزیں بھی تھیں جنھیں وہ آپ کی زبان سے سنتے یا آپ کے عمل میں دیکھتے تھے اور وہ بھی جو آپ کے سامنے کی جاتی تھیں اور آپ اُن سے منع نہیں فرماتے تھے۔ یہی سارا علم ہے جسے ’حدیث‘ کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح کو جاننے کا سب سے بڑا ذریعہ یہی ہے۔ اِس سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا اضافہ نہیں ہوتا۔ یہ اُسی دین کی شرح و وضاحت اور اُس پر عمل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کا بیان ہے جو آپ نے قرآن و سنت کی صورت میں اپنے ماننے والوں کو دیا ہے۔</p> <p>یہ ہم تک کس طرح پہنچا ہے؟ تاریخ بتاتی ہے کہ اِسے حدیثوں کی صورت میں سب سے پہلے صحابہ نے لوگوں تک پہنچایا۔ پھر جن لوگوں نے یہ حدیثیں اُن سے سنیں، اُنھوں نے دوسروں کو سنائیں۔ یہ زبانی بھی سنائی گئیں اور بعض اوقات لکھ کر بھی دی گئیں۔ ایک دو نسلوں تک یہ سلسلہ اِسی طرح چلا، لیکن پھر صاف محسوس ہونے لگا کہ اِن کے بیان کرنے میں کہیں کہیں غلطیاں ہو رہی ہیں اور کچھ لوگ دانستہ اِن میں جھوٹ کی ملاوٹ بھی کر رہے ہیں۔ یہی موقع ہے، جب اللہ کے کچھ بندے اٹھے اور اُنھوں نے اِن حدیثوں کی تحقیق کرنا شروع کی۔ اِنھیں ’محدثین‘ کہا جاتا ہے۔ یہ بڑے غیرمعمولی لوگ تھے۔ اِنھوں نے ایک ایک روایت اور اُس کے بیان کرنے والوں کی تحقیق کر کے، جس حد تک ممکن تھا، غلط اور صحیح کی نشان دہی کی اور جھوٹ کو سچ سے الگ کر دیا۔ پھر اِنھی میں سے بعض نے ایسی کتابیں بھی مرتب کر دیں جن کے بارے میں بڑی حد تک اطمینان کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اُن میں جو حدیثیں نقل کی گئی ہیں، وہ بیش تر حضور ہی کا علم ہے جو روایت کرنے والوں نے اپنے الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔ علم کی زبان میں اِنھیں ’اخبار آحاد‘ کہتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اِنھیں صرف گنتی کے لوگوں نے بیان کیا ہے، قرآن و سنت کی طرح یہ اجماع اور تواتر سے منتقل نہیں ہوئی ہیں۔ چنانچہ بالعموم تسلیم کیا جاتا ہے کہ اِن سے جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ درجۂ یقین کو نہیں پہنچتا، اُسے زیادہ سے زیادہ ظن غالب قرار دیا جا سکتا ہے۔</p> <p>حدیث کی جن کتابوں کا ذکر ہوا ہے، وہ سب اپنی جگہ اہم ہیں، مگر امام مالک، امام بخاری اور امام مسلم کی کتابیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں اور بہت مستند خیال کی جاتی ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بڑی تحقیق کے بعد مرتب کی گئی ہیں۔ تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اِن کے مرتب کرنے والوں سے کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ اِس علم کے ماہرین جانتے ہیں کہ اُن سے تحقیق میں غلطیاں بھی ہوئی ہیں۔ اِسی بنا پر وہ حدیث کی کتابوں کو برابر جانچتے پرکھتے رہتے ہیں۔ چنانچہ کسی حدیث کے بیان کرنے والوں کو اگر سیرت و کردار اور حفظ و اتقان کے لحاظ سے قابل اعتماد نہیں پاتے یا آپس میں اُن کی ملاقات کا امکان نہیں دیکھتے یا اُن کی بیان کردہ حدیث کے مضمون میں دیکھتے ہیں کہ کوئی بات قرآن و سنت کے خلاف ہے یا علم و عقل کے مسلمات کے خلاف ہے تو صاف کہہ دیتے ہیں کہ یہ آں حضرت کی بات نہیں ہو سکتی۔ یہ غلطی سے آپ کی طرف منسوب ہو گئی ہے۔ یہی معاملہ اِن حدیثوں کے فہم اور اِن کی شرح و وضاحت کا ہے۔ اہل علم اِس معاملے میں بھی اپنی تعبیرات اِسی طرح پیش کرتے رہتے ہیں۔</p> <p>یہ کام ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ ابھی پچھلی صدی میں علامہ ناصر الدین البانی نے اِس سلسلے میں بڑی غیرمعمولی خدمت انجام دی ہے اور حدیث کی اکثر کتابوں پر ازسرنو تحقیق کر کے اُن کے صحیح اور سقیم کو ایک مرتبہ پھر الگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ جمہوریہ ترکی کے اہل علم نے جس کام کا بیڑا اٹھایا ہے، اُس کی نوعیت بھی کم و بیش یہی ہے۔ اُن کے نتائج فکر و تحقیق ابھی سامنے نہیں آئے، لہٰذا اُن کے بارے میں تو کوئی راے نہیں دی جا سکتی، لیکن کام کی نوعیت سے متعلق جو تفصیلات معلوم ہیں، اُن میں بظاہر کوئی چیز قابل اعتراض نہیں ہے۔ حدیث کی جو حیثیت اوپر بیان ہوئی ہے، اُس کو پیش نظر رکھ کر اگر اِس علم کے مسلمہ قواعد کے مطابق اُس کا جائزہ لیا جائے گا یا اُس کو نئے سرے سے مرتب کیا جائے گا یا اُس کا مدعا سمجھنے اور اُس کے وقتی اور دائمی کو الگ الگ کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اِس میں اعتراض کی کیا بات ہو سکتی ہے؟ علم و تحقیق کا دروازہ کسی دور میں اور کسی حال میں بھی بند نہیں کیا جا سکتا۔ اِس کام میں اگر کچھ غلطیاں بھی ہوں گی تو تشویش کی کوئی بات نہیں ہے۔ دوسرے اہل علم اپنی تنقیدات سے اُن کی نشان دہی کر دیں گے۔ علم کی ترقی کا اِس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ لوگوں کو آزادی کے ساتھ کام کرنے دیا جائے۔ نئی راہیں اِسی سے کھلتی ہیں اور اگلوں نے اگر کہیں غلطی کی ہے تو اُس کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ ترک اہل علم کی کاوش کو اِسی نگاہ سے دیکھنا چاہیے اور اُن لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو مسلمانوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ادارے کی صورت میں یہ خدمت انجام دے رہے ہیں۔ اُن کا کام اگر معیار کے مطابق ہوا تو یہ ایک عظیم خدمت ہو گی اور اگر کم عیار ثابت ہوا تو بے وقعت ہو کر تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو جائے گا۔ علم کی عدالت بڑی بے رحم ہے۔ وہ جلد یا بدیر اپنا فیصلہ سنا دیتی ہے۔ اِس طرح کے معاملات میں اُسی کے فیصلوں کا انتظار کرنا چاہیے۔</p> </section> </body>
0011.xml
<meta> <title>قرآن مجید بطور کتاب تذکیر۔ چند توجہ طلب پہلو</title> <author> <name>محمد عمار خان ناصر</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Mahnama Ishraq March 2012</name> <year>2012</year> <city>Lahore</city> <link>https://www.javedahmedghamidi.org/#!/ishraq/5adb73a7b7dd1138372dc6ab?year=2012&amp;decade=2010&amp;articleId=5adb73a7b7dd1138372dc6af</link> <copyright-holder>Al-Mawrid</copyright-holder> </publication> <num-words>4832</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
قرآن مجید بطور کتاب تذکیر۔ چند توجہ طلب پہلو
4,832
No
<body> <section> <p>[الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں دورۂ تفسیر قرآن کے شرکا سے گفتگو]</p> <p>قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہوئے اور اس کے تفسیری مباحث پر غور کرتے ہوئے ایک بنیادی سوال جس کے حوالے سے قرآن مجید کے طالب علم کا ذہن واضح ہونا چاہیے، یہ ہے کہ قرآن کا اصل موضوع اور قرآن نے جو کچھ اپنی آیات میں ارشاد فرمایا ہے، اس سے اصل مقصود کیا ہے؟</p> <p>اس سوال کا جواب ہمیں خود قرآن مجید کی تصریحات سے یہ ملتا ہے کہ یہ اصل میں کتاب تذکیر ہے۔ قرآن نے اپنے لیے ’ذکر‘، ’تذکرہ‘ اور ’ذکری‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ تذکیر کا مطلب ہے یاد دہانی کرانا۔ ایسے حقائق جو انسان کے علم میں تو ہیں اور وہ ان سے بالکل نامانوس نہیں ہے، لیکن کسی وجہ سے ان سے غفلت کا شکار ہو گیا ہے اور وہ اس کے فعال حافظے سے محو ہو گئے ہیں، وہ حقائق اسے یاد کرانا، ان کی طرف اس کی توجہ مبذول کرنا اور ان حقائق کی یاد دہانی سے اس کو اپنی زندگی میں ایک خاص طرح کا رویہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنا، یہ ’تذکیر‘ کی اصل روح ہے۔ معروف اور مانوس لیکن بھولی ہوئی باتوں کو یاد کرانا اور اس یادد ہانی کے ذریعے سے انسان کے فکر کو، اس کے عمل کو اور اس کے رویے کو ایک خاص رخ پر ڈالنا، یہ تذکیر ہے۔</p> <p>قرآن مجید اپنے اصل مقصد کے لحاظ سے ایک کتاب تذکیر ہے۔ اللہ تعالیٰ چند حقائق کی تذکیر انسان کو کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ حقائق انسان کے ذہن میں مستحضر رہیں اور انسان کا دھیان اور اس کی توجہ ان پر لگی رہے اور ان کی مدد سے وہ زندگی کے ایک ایک قدم پر صحیح راستے پر قائم رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کا، اس کی صفات کا اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے لیے جو قانون، ضابطے، قاعدے، سنن اور نوامیس مقرر کیے ہیں جن کے تحت وہ اس دنیاکا نظام چلا رہا ہے، خاص طور پر انسانوں کے معاملات وہ جن ضابطوں کے تحت چلاتا ہے، ان کا تعارف انسان کو کروانا، یہ نزول قرآن کی اصل غایت ہے۔</p> <p>قرآن مجید کے جتنے مضامین ہے، ان کی آپ ذیلی تقسیمات کریں تو وہ بے شمار بن جاتے ہیں او رمختلف اہل علم نے اپنے اپنے ذوق کے لحاظ سے قرآن میں پھیلے ہوئے مضامین ومطالب کو مختلف عنوانات کے تحت تقسیم کیا ہے۔ ہمارے ہاں ایک معروف تقسیم شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب ’الفوز الکبیر‘ میں لکھا ہے کہ قرآن مجید کے مضامین کو پانچ قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:</p> <p>۱۔ تذکیر بآلاء اللہ، یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت اور اس کی رحمت وربوبیت کی جو نشانیاں کائنات میں بکھری ہوئی ہیں، ان کی یاد دہانی۔</p> <p>۲۔ تذکیر بایام اللہ، یعنی اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے دنیا کی مختلف قوموں کے ساتھ نعمت ونقمت، دونوں پہلووں سے جو معاملہ کیا ہے، ان کی یاد دہانی۔</p> <p>۳۔ تذکیر بما بعد الموت، یعنی اس بات کی یاد دہانی کہ اس دنیا سے جانے کے بعد جو ایک یوم الجزاء آنے والا ہے، اس دن اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کے ساتھ کیا معاملہ کریں گے۔</p> <p>۴۔ احکام وشرائع، یعنی شریعت کے وہ قوانین جن کی پابندی اس دنیا کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کو انسانوں سے مطلوب ہے۔</p> <p>۵۔ علم المخاصمۃ، یعنی قرآن کا مخاطب بننے والے جو گروہ قرآن کے دعاوی اور اس کے پیغام کو تسلیم کرنے اور اس کی دعوت کو قبول کرنے سے گریزاں تھے اور اس پر ان کے ذہن میں کچھ استدلالات اور کچھ شبہات تھے، ان کا جواب دینا اور ان کی تردید کر کے صحیح بات کو واضح کرنا۔</p> <p>یہ بڑی حد تک ایک جامع تقسیم ہے جس میں قرآن مجید کے کم وبیش سارے نمایاں مطالب اور مضامین آ جاتے ہیں۔ اب ان پانچوں پر اگر آپ غور کریں تو مرکزی نکتہ یہ نکلے گا کہ انسان کو اس بات کی پہچان کرا دی جائے کہ اس کائنات کا خالق ومالک کیسا ہے، اس کی صفات کیا ہیں، اس کی صفات سے جو نتائج پیدا ہوتے ہیں اور جو مظاہر وجود میں آتے ہیں، وہ کیا ہیں اور اللہ تعالیٰ نے خود اپنے لیے وہ کون کون سے قوانین مقرر کیے ہیں جن کے تحت وہ اپنی مخلوق کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔ گویا یہ سب مضامین مختلف پہلووں سے تذکیر ہی کے مقصد کو پورا کرتے ہیں اور مختلف حوالوں سے، مختلف زاویوں سے انسان کے ذہن میں اس بات کے شعور کو راسخ کرتے ہیں کہ وہ اپنے مالک کو پہچانے اور اس کے ذہن میں اللہ کی ذات اور اس کی صفات کا صحیح تصور قائم ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے ذہن میں کسی بھی ہستی کے بارے میں جو تصور ہوگا، اسی کے لحاظ سے اس کا اس کے ساتھ تعلق بھی قائم ہوگا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی صفات اور اس کے قوانین اور اس کے معاملہ کرنے کے اصولوں اور ضوابط کا جو تصور انسان کے ذہن میں ہوگا، اسی کے لحاظ سے انسان کا تعلق بھی خدا کے ساتھ قائم ہوگا۔ یہ ساری باتیں جس درجے میں انسان کے ذہن میں واضح ہوں گی، اسی کے لحاظ سے خدا کے ساتھ اس کا تعلق بھی ایک خاص رنگ اختیار کر لے گا۔</p> <p>اللہ نے اپنے لیے کچھ نوامیس مقرر کیے ہیں جن کے تحت وہ اپنی ساری کائنات کا نظام چلا رہا ہے۔ کوئی دوسری ہستی اللہ کو کسی بات کی پابند نہیں کر سکتی: ’لَا یُسْئلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَہُمْ یُسْأَلُونَ‘ (الانبیاء: ۲۳)۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی عالی صفات مثلاً عدل، رافت ورحمت کے تقاضے سے خود اپنے لیے کچھ قوانین مقرر کیے ہیں جن کی پابندی وہ کہتا ہے کہ میرے ذمے لازم ہے۔ کسی دوسرے نے لازم نہیں کی اور نہ کوئی کر سکتا ہے، لیکن ان کی پابندی اس نے خود اپنے ذمے لازم کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ: ’حَقّاً عَلَیْْنَا‘ (یونس: ۱۰۳)۔ یہ جو ہم نے وعدہ کیا ہے، اس کی پابندی اب ہم پر لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے جو قوانین اور نوامیس مقرر کیے ہیں، ان کے لیے قرآن نے ’سنت‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ مثلاً دنیا میں حق کا انکار کرنے والی قوموں کے ساتھ معاملہ کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ایک خاص قانون بنایا ہے جس کے ظہور کی مثالیں تاریخ میں وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہی ہیں۔ قرآن اس کو ’سنت اللہ‘ کہتا ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا: ’سُنَّۃَ اللَّہِ فِیْ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللَّہِ تَبْدِیْلاً‘ (الاحزاب: ۶۲)۔</p> <p>اللہ نے اس ساری کائنات کے لیے کیا ضابطے بنا رکھے ہیں، وہ تو اس نے ہمیں نہیں بتائے۔ ہمیں تو اس نے قرآن میں مخاطب کیا ہے اور صرف اس دائرے کے قوانین اور ضابطے بتائے ہیں جس کا تعلق ہم انسانوں سے ہے۔ سورج چاند اور دوسری مخلوقات کو اس نے کن قوانین کے تحت بنایا ہے، وہ اس نے ہمیں نہیں بتائے۔ کائنات کے مادی قوانین بھی، جن کو سائنس دریافت کرتی ہے، قرآن کا موضوع نہیں کہ وہ انسان کو یہ بتائے کہ سورج، چاند اور دوسرے مظاہر فطرت کن قوانین کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح باقی مخلوقات سے متعلق جو اخلاقی قوانین ہیں، ان کی وضاحت بھی قرآن کا موضوع نہیں۔ مثال کے طور پر ایک انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی کسی ضرورت یا خواہش کی تکمیل کے لیے کسی دوسرے انسان کی جان لے، لیکن آپ جانوروں میں دیکھیں گے کہ بہت سے درندوں کی زندگی اور بقا کا دار ومدار ہی اس پر ہے کہ وہ کسی دوسرے جاندار کی، بسا اوقات اپنے ہی کسی ہم جنس جاندار کی جان لیں اور اس کے گوشت سے اپنا پیٹ بھریں۔ اب حیوانات کے اور اسی طرح دوسری بے شمار مخلوقات کے معاملات کن اخلاقی قوانین اور ضابطوں پر مبنی ہیں، ان کی وضاحت قرآن کا موضوع نہیں اور نہ اس نے ان کی وضاحت کی ہے۔ قرآن کا موضوع یہ ہے کہ انسان کو اس دنیا میں اللہ نے ایک خاص مقصد کے تحت بھیجا ہے اور اس کی نقل وحرکت کا اور زندگی کی سرگرمیوں کا ایک محدود دائرہ ہے۔ اللہ نے کائنات کے اربویں کھربویں بلکہ اس سے بھی حقیر ایک چھوٹے سے حصے میں انسان کو بسایا ہے اور اس کو ایک نہایت محدود دائرے میں اختیار دیا ہے۔ انسان کو یہاں بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کی آزمایش کی جائے۔ اس آزمایش میں کامیاب ہونے کے لیے انسان کو اپنے خالق ومالک اور اس کے مقرر کردہ قوانین کی پہچان کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے خدا کے ساتھ صحیح طو رپر تعلق قائم کر سکے اور اس معرفت صحیحہ کا ظہور اس کے فکر وعمل اور اس کے کردار میں بھی ہو۔ یہ سب باتیں انسان کے علم میں ہونی چاہییں تاکہ جب وہ اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد خدا کے حضور میں پیش ہو تو اس کی ابدی نعمتوں کا حق دار بن سکے۔</p> <p>یہ ہے قرآن کی ساری تذکیر اور اس کے تمام تر مطالب ومضامین کا محور۔ دین کے جو تین بنیادی عقیدے ہیں جن پر پورے دین کی بنیاد ہے، وہ بھی یہی ہیں۔ خدا کو ماننا اس کی تمام صفات کے ساتھ اور ان تمام قوانین ونوامیس کے ساتھ جو اس نے اپنے لیے مقرر کیے ہیں، نبوت ورسالت کے اس سلسلے پر ایمان رکھنا جو اللہ نے اپنی صفات اور اپنے قوانین اورضابطوں سے انسانوں کو متعارف کرانے کے لیے دنیا میں جاری کیا اور اس حقیقت پر ایمان رکھنا کہ دنیا کی اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی بھی آنی ہے جس میں انسان اپنے قول وعمل کے لحاظ سے ابدی عذاب یا ابدی نعمتوں کا مستحق قرار پائے گا۔</p> <p>اس کے ساتھ ساتھ اس معاملے کا ایک اور نہایت اہم پہلو بھی آپ کے سامنے رہنا چاہیے۔ وہ یہ کہ قرآن مجید سے اس کا یہ مطمح نظر بڑے غیر مبہم طریقے سے واضح ہوتا ہے کہ اس کو پڑھتے ہوئے لوگ اسی چیز کے حصول پر اپنی توجہ کو مرکوز رکھیں جو اس کے نزول کا اصل مقصد ہے۔ یہ نہ ہو کہ لوگ اپنی اپنی دلچسپیاں لے کر آئیں اور ان میں الجھ کر رہ جائیں۔ قرآن نے بعض پہلووں سے اپنا یہ مطمح نظر واضح کرنے کا خاص اہتمام کیا ہے اور اپنے انداز سے، اپنے اسلوب سے یہ بات سمجھائی ہے کہ قرآن کو پڑھنے کے لیے آؤ تو کیا ذہن لے کر آؤ اور تمھاری دلچسپی کا مرکزی نکتہ کیا ہونا چاہیے۔ مثال کے طو رپر آپ دیکھیں کہ قرآن مجید کا ایک بہت بڑا حصہ واقعات پر مشتمل ہے۔ شاید ایک تہائی یا اس سے زیادہ آپ کو قرآن میں واقعات ہی ملیں گے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اسی لیے اس حصے کو تذکیر بایام اللہ کا ایک مستقل عنوان دے دیا ہے۔ قرآن میں انبیا کے، دنیا کی قوموں کے اور قوموں کی تاریخ کے واقعات ہیں۔ ان واقعات کے ذکر سے قرآن کا مقصود انسان کا دل بہلانا یا اس کی تفریح طبع نہیں۔ گزشتہ زمانے کے واقعات کے بارے میں جستجو اور ان میں دلچسپی محسوس کرنا انسانی نفسیات کا حصہ ہے۔ عام طو رپر انسان جب ایسے واقعات کو سنتے ہیں تو اس کا مقصد جستجو کے جذبے کی تسکین یا محض تفریح طبع ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کے، واقعات بیان کرنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے۔ اس سے اس کا مقصد وہی تذکیر ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ان واقعات سے انسان روحانی واخلاقی سبق حاصل کرے اور ان واقعات میں اللہ تعالیٰ کے جن ضابطوں اور قوانین کا ظہور ہوا، ان کی طرف متوجہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی واقعے سے متعلق ایسا لوازمہ جو اس میں کہانی کا مزہ پیدا کرتا ہے اور ایسے پہلو جو اسے تفریح طبع کا سامان بنا سکتے ہیں، قرآن کم وبیش ہر جگہ ایسے عناصر کو بالکل نظر انداز کر دیتا ہے۔ وہ ایک طویل عرصے کو محیط سلسلہ واقعات کے بے شمار اجزا کو حذف کر کے اس کے صرف ان اجزا کو بیان کر دیتا ہے جو اس کے مقصد کے لحاظ سے مفید ہیں۔ کئی سالوں پر پھیلے ہوئے سلسلہ واقعات کو قرآن یوں بیان کرتا ہے کہ اس کا ابتدائی حصہ، کچھ درمیانی حصے اور کچھ اختتامی حصہ معرض بیان میں آ جاتا ہے اور یہ تمام اجزا وہ ہوتے ہیں جو تذکیر کے پہلو سے مفید اور برمحل ہوتے ہیں۔ باقی تمام تفصیلات جن کو اگر قرآن بیان کرنے لگ جائے تو لوگ قصے میں الجھ کر رہ جائیں اور اس سے کہانی کا لطف اٹھانے لگیں، ان سب کو قرآن حذف کر دیتا ہے۔ اس کی چند مثالیں دیکھیے:</p> <p>قرآن مجید نے حضرت موسیٰ کی پیدایش سے لے کر وادئ تیہ تک ان کی زندگی کا سفر بیان کیا ہے، لیکن اس سارے واقعے کے صرف وہ اجزا منتخب کیے ہیں جن میں تذکیر کا کوئی نہ کوئی پہلو پایا جاتا ہے اور جس سے اللہ تبارک و تعالیٰ کا کوئی خاص ضابطہ اور کوئی مخصوص قانون واضح کرنے میں مدد ملتی ہے۔ قرآن نے یہ بیان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ کی پیدایش سے پہلے مصر میں صورت حال کیا تھی اور بنی اسرائیل کس طرح ظلم وستم کا شکار تھے۔ پھر حضرت موسیٰ کی پیدایش کا ذکر ہوا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے کس طرح انھیں فرعون کی قتل اولاد کی اسکیم سے معجزانہ طو رپر محفوظ رکھا اور خود فرعون کے گھر میں ان کی پرورش کا انتظام کر دیا۔ اس کے بعد اگلا منظر جو سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ جوانی کی عمر کو پہنچ گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس درمیانی عرصے میں بھی کئی واقعات رونما ہوئے ہوں گے جن سے قرآن نے کوئی تعرض نہیں کیا۔ جوانی کے زمانے کا بھی صرف وہ واقعہ منتخب کیا ہے جو سلسلہ واقعات کو آگے بڑھانے والا ہے، چنانچہ بیان کیا گیا ہے کہ کیسے حضرت موسیٰ نے قبطی کے مقابلے میں اپنے اسرائیلی بھائی کی مدد کی اور اس کے نتیجے میں انھیں ہجرت کر کے مدین جانا پڑا۔ پھر وہاں اللہ نے ان کے لیے کیا بندوبست کیا، اس کا ذکر ہوا ہے۔ مدین سے واپسی پر راستے میں انھیں نبوت سے سرفراز کیا جاتا ہے اور پھر وہ سیدھے فرعون کے دربار میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس طرح کئی سالوں پر پھیلے ہوئے سلسلہ واقعات کو قرآن نے صرف چند اجزا میں سمیٹ دیا ہے۔</p> <p>اس ضمن میں حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ ایک خاص پہلو سے توجہ طلب ہے۔ اس واقعے کو قرآن نے تفصیل سے بیان کیا ہے اور اگرچہ یہاں بھی قرآن نے واقعے کے وہی حصے منتخب کیے ہیں جن سے کوئی نہ کوئی تذکیری فائدہ حاصل ہوتا ہے، تاہم یہ واقعہ نسبتاً زیادہ تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ یہ واقعہ پڑھتے ہوئے آپ کو محسوس ہوگا کہ حضرت یوسف کی کہانی سے متعلق بعض ایسے اہم سوالات سامنے آتے ہیں جن سے قرآن کوئی تعرض نہیں کرتا، جبکہ کہانی کے تسلسل کے اعتبار سے اس میں ایک خلا سا رہ جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان کو تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ انسان اپنے ذہنی قیاسات سے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کرتا رہے، لیکن قرآن کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ مثلاً یہ دیکھیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو بچپن میں ہی خواب کے ذریعے سے یہ بتا دیا گیا تھا کہ اللہ کی طرف سے ان پر خاص رحمت اور عنایت ہوگی۔ یہ بھی ان کو معلوم ہے کہ ان کے سوتیلے بھائی ان کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ پھر جب بھائی ان کو لے جا کر کنویں میں پھینک دیتے ہیں تو اس وقت بھی اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے کہ ایک وقت آئے گا جب تم یہ سب کچھ اپنے بھائیوں کو بتاؤ گے۔ اس کے بعد یوسف علیہ السلام مصر پہنچ جاتے ہیں۔ قرآن سے یہ واضح ہے کہ یوسف علیہ السلام کو اپنا بچپن، اپنا خاندان اور یہ سارا سلسلہ واقعات اچھی طرح یاد ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ ان کے والد کون ہیں، ان کا خاندانی پس منظر کیا ہے، لیکن مصر میں فروخت ہونے سے لے کر منصب اقتدار پر فائز ہونے تک کے اس سارے عرصے میں وہ کہیں بھی اس بات کی کوشش کرتے نظر نہیں آتے کہ اپنے والد سے رابطہ کریں۔ ان کے والد ان کی جدائی کے غم میں نڈھال ہیں، رو رو کر بینائی کھو چکے ہیں، ان کی ملاقات کے شوق میں تڑپ رہے ہیں اور کوئی ظاہری امید نہ ہونے کے باوجود پرامید ہیں کہ یوسف زندہ ہے، لیکن ادھر حضرت یوسف کے ہاں ایسی کسی تڑپ یا کسی کوشش کا ذکر قرآن میں نہیں ملتا۔ یہ چیز عام انسانی نفسیات کے لحاظ سے بڑی عجیب سی لگتی ہے۔ معلوم نہیں، حضرت یوسف نے اس سلسلے میں کیا کیا ہوگا۔ کچھ کیا بھی ہوگا یا نہیں کیا ہوگا۔ بہرحال یہ ایک سامنے کا سوال ہے جو شاید ہر پڑھنے والے کے ذہن میں پیدا ہوتا ہوگا کہ جب یوسف کو اپنے والد کے بارے میں معلوم ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ وہ ان کی جدائی پر سخت بے چین اور مضطرب ہوں گے تو وہ ان سے رابطہ کر کے انھیں صورت حال سے آگاہ کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ خاص طو رپر بادشاہ کا وزیر بن جانے کے بعد تو کوئی ظاہری رکاوٹ بھی اس میں دکھائی نہیں دیتی، تاہم قرآن اس پہلو سے سرے سے کوئی تعرض نہیں کرتا کہ انھوں نے اس کی کوشش کی یا نہیں کی۔ نہیں کی تو کیوں نہیں کی اور اگر کی تو اس کا کیا بنا اور وہ کیوں کامیاب نہیں ہوئی۔</p> <p>اب دیکھیں، قرآن یہاں اپنے انداز سے یہ واضح کر رہا ہے کہ جب وہ یہ واقعہ بیان کر رہا ہے اور بڑی تفصیل سے بیان کر رہا ہے تو واقعے سے متعلق ایک بڑے نمایاں سوال کا جواب دینے سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ قاری کو اس کا جواب ملتا ہے تو ملے، نہیں ملتا تو نہ ملے۔ قرآن کا مقصد کہانی سنانا اور کہانی کا پورا لوازمہ فراہم کرنا نہیں۔ وہ تو حضرت یوسف کے واقعے میں تذکیر کے اور تربیت کے جو پہلو ہیں، بس ان کو سامنے لانا چاہتا ہے۔</p> <p>اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کا جو واقعہ سورۂ سبا میں نہایت اختصار سے بیان ہوا ہے، وہ بھی بہت سے سوالات پیدا کرتا ہے۔ بیان ہوا ہے کہ جب ان کی موت کا وقت آیا تو وہ اپنی لاٹھی کا سہارا لیے کھڑے تھے۔ اسی حالت میں اللہ نے ان کی روح قبض کر لی۔ جنات جنھیں ان کی غلامی میں دیا گیا تھا، ان کو پتہ نہ چل سکا۔ زمین کے کیڑے نے حضرت سلیمان کی لاٹھی کو کھانا شروع کیا اور جنات کو اس وقت خبر ہوئی جب لکڑی اتنی کھوکھلی ہو گئی کہ حضرت سلیمان کا وزن نہ سہار سکی اور وہ گر گئے۔ تب جنات کو پتہ چلا کہ حضرت سلیمان کا انتقال ہو چکا ہے۔ یہاں دیکھیں، قرآن نے اپنے مقصد کے تحت واقعے کا صرف یہ پہلو بیان کر دیا ہے کہ جنوں کو غیب کا علم نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا تو حضرت سلیمان کی وفات کے بعد وہ اس ’’عذاب مہین‘‘ میں مبتلا نہ رہتے، لیکن اس مختصر بیان سے ایک سوال ہر پڑھنے والے کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان وفات کے بعد لکڑی کے سہارے آخر کتنا عرصہ کھڑے رہے؟ ظاہر ہے کہ کیڑے کو لکڑی کو کھوکھلا کرتے ہوئے کچھ دن تو لگے ہوں گے۔ کیا اس سارے عرصے میں حضرت سلیمان وہیں لاٹھی کے سہارے کھڑے رہے اور ان کی اس کیفیت پر کسی کو تعجب نہیں ہوا؟ کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ اتنے دن سے وہ نہ کہیں آ جا رہے ہیں، نہ کھا پی رہے ہیں اور نہ نماز پڑھ رہے ہیں؟ اس سوال سے قرآن کوئی تعرض نہیں کرتا۔</p> <p>حضرت مسیح علیہ السلام کے واقعے کے بیان میں بھی یہی اسلوب ہے۔ قرآن جب نازل ہوا تو یہودی اور مسیحی صدیوں سے یہ عقیدہ رکھتے چلے آ رہے تھے کہ حضرت مسیح کو یہودیوں نے سولی چڑھا کر قتل کر دیا تھا۔ قرآن آ کر اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ یہ بات درست نہیں۔ یہودی نہ انھیں سولی چڑھانے میں کامیاب ہوئے اور نہ کسی اور طریقے سے قتل کرنے میں، بلکہ اس معاملے کو ان کے لیے مشتبہ بنا دیا گیا جس کی وجہ سے وہ یہی سمجھتے رہے کہ انھوں نے سیدنا مسیح کو سولی چڑھا دیا ہے، حالانکہ حقیقت میں اللہ نے حضرت مسیح کو بحفاظت آسمانوں کی طرف اٹھا لیا تھا۔ اب دیکھیں، قرآن مذہبی تاریخ کے ایک نہایت اہم واقعے کی اصل حقیقت کو واضح کرتے ہوئے صرف دو لفظوں میں یہ کہہ کر گزر جاتا ہے کہ یہ معاملہ یہود ونصاریٰ کے لیے مشتبہ بنا دیا گیا۔ وہ اس اشتباہ کی نوعیت اور واقعے کی عملی تفصیلات سے جن سے اس پہلو پر روشنی پڑتی ہو، بالکل کوئی تعرض نہیں کرتا، اس لیے کہ یہ سب باتیں اس کے مقصد سے متعلق نہیں۔ آپ غور کرتے رہیں، چاہیں تو اسرائیلیات کو پڑھیں اور یہود ونصاریٰ کے لٹریچر کا مطالعہ کریں تاکہ اندازہ کیا جا سکے کہ کیا ہوا ہوگا، لیکن قرآن کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔</p> <p>حاصل یہ ہے کہ کہ واقعات کے بیان میں قرآن جگہ جگہ اپنے اسلوب سے یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ جتنی بات اس نے بیان کی ہے، یقیناًاس کی کچھ زائد تفصیلات بھی ہیں جن کو جاننے کی انسان کو جستجو ہو سکتی ہے، لیکن قرآن کو ان سے غرض نہیں۔ قرآن کا مقصد یہ نہیں کہ وہ پورے واقعے کو اس کی جملہ تفصیلات کے ساتھ بیان کرے تاکہ سننے والے کو کسی پہلو سے تشنگی کا احساس نہ ہو۔ وہ قاری کی توجہ کو اپنی نظر میں مقصود معنوی حقائق پر مرکوز رکھنا چاہتا ہے اور اپنے انداز سے قاری کو متنبہ کرتا رہتا ہے کہ واقعات کے بیان سے قرآن کے اصل مقصد کو سمجھے اور اسی کو اپنا مطمح نظر بنائے۔</p> <p>قرآن کے اصل مقصد کی وضاحت کے ضمن میں، میں نے جو کسی قدر طول بیانی سے کام لیا، شاید وہ آپ کو بے فائدہ دکھائی دیتی ہو۔ اس لیے کہ یہ بات بظاہر ایک سادہ سی اور معلوم ومعروف سی بات لگتی ہے اور ظاہری نظر سے دیکھیں تو علم تفسیر کے طلبہ کے سامنے اس کا ذکر شاید تحصیل حاصل بھی لگتا ہے۔ قرآن مجید نے اپنا یہ تعارف کروایا ہے اور اس کے لفظ لفظ سے اس کا یہ مقصد ٹپکتا ہوا نظر آتا ہے۔ قرآن کو پڑھنے والا ہر مسلمان اس سے واقف ہے کہ قرآن اس مقصد کے لیے نازل کیا گیا ہے اور یہ یہ اس کے مطالبات ہیں۔ اس لیے یہ سوال ذہن میں پیدا ہو سکتا ہے کہ اس نکتے کو خاص طو رپر موضوع بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ قرآن کا مطالعہ کرنے والے اور خاص طور پر علم تفسیر سے دلچسپی رکھنے والے طلبہ کے لیے خاص طو رپر سمجھنے کی بات ہے۔</p> <p>اصل میں ہوا یہ ہے اور انسانی تاریخ میں ہمیشہ ایسے ہی ہوتا رہا ہے کہ اللہ کی کتاب نے اپنا جو اصل موضوع متعین کیا اور اپنے مضامین ومطالب کا جو اصل مقصد بیان کیا، ایک خاص وقت گزر جانے کے بعد لوگوں کی توجہ اس اصل مقصود سے ہٹ کر کچھ اور باتوں پر مرکوز ہو گئی۔ میں نے ’توجہ ہٹنے‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، لاعلمی یا جہالت کا نہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ اصل مقصد لوگوں کے دائرۂ معلومات میں نہیں رہتا۔ وہ لوگوں کے علم میں ہوتا ہے، لیکن جس چیز کو ‘مرکز توجہ‘ کہتے ہیں، وہ آہستہ آہستہ بدل جاتا ہے۔ اس کتاب کو اتارنے سے جو چیز اللہ کو مقصود ہے کہ انسان جب اس کو پڑھیں تو ان کے ذہن کا رخ اس طرف ہو، وہ مرکز توجہ نہیں رہتی اور اس کے ساتھ ملحق، اس کے ارد گرد گھومنے والی کچھ دوسری باتیں، کچھ اضافی معلومات اور کچھ زوائد زیادہ توجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ اس دنیا میں انسان کے لیے ظاہر ہے کہ دلچسپی کی چیزیں بے شمار ہیں۔ یہ چیزیں مادی بھی ہیں اور ذہنی وفکری بھی۔ ایک عام آدمی کی سوچ کا دائرہ محدود ہوتا ہے اور اس کے فکر کی سطح بھی سادہ ہوتی ہے، لیکن جب علم ودانش سے دلچسپی رکھنے والے لوگ کسی چیز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو آپ جانتے ہیں کہ انسان کو دیے گئے بہت تھوڑے اور محدود علم کے باوجود، اس دنیا میں علم کے رنگ بے شمار اور اس کے اطراف وجوانب ان گنت ہیں اور علمی وفکری مزاج رکھنے والے افراد قدرتی طو رپر ان میں دلچسپی بھی محسوس کرتے ہیں۔ انسان اپنی بنیادی فطرت کے لحاظ سے علوم وفنون میں اور ان تمام چیزوں میں غیر معمولی کشش محسوس کرتا ہے جنھیں انسان اپنی عقل سے دریافت کر سکتا ہے۔</p> <p>اب جب اس طرح کے مختلف علوم وفنون کا پس منظر رکھنے والے حضرات کلام الٰہی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو قدرتی طور پر انسان میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اس کے اپنے ذوق پر جس چیز کا غلبہ ہے، وہ کتاب الٰہی کو بھی اسی رنگ میں دیکھے۔ اس کی توجہ کتاب الٰہی میں ان پہلووں پر زیادہ مرکوز ہو جاتی ہے جو اس کے اپنے ذہنی وفکری پس منظر سے ہم آہنگ ہوتی ہیں اور وہ انھیں زیادہ نمایاں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے غور وفکر اور اس کی دلچسپی کے دائرے سے تعلق رکھنے والے جو پہلو ہیں، انھیں زیادہ اجاگر کیا جائے۔ چنانچہ آپ دیکھیں، صحابہ و تابعین اور ابتدائی ایک دو صدیوں کے بعد رفتہ رفتہ قرآن مجید کی تفسیر میں کئی انداز سامنے آ گئے۔ آپ تاریخ تفسیر کی کوئی کتاب، مثلاً محمد حسین ذہبی کی مشہور کتاب ’التفسیر والمفسرون‘ اٹھا کر دیکھ لیں جس میں علم تفسیر کی تاریخ اور اس کے مختلف مناہج کا تعارف کروایا گیا ہے۔ آپ کو تفسیر کے ضمن میں بہت سے رجحانات مثلاً تفسیر بالراے، تفسیر بالروایۃ، بلاغت کے پہلو سے قرآن کی تفسیر، تصوف کے نکات ومعارف کے لحاظ سے آیات قرآنی کی تشریح، فقہی احکام کے استنباط کے پہلو سے قرآن کی تفسیر اور اس طرح کے دوسرے رجحانات کا تعارف ملے گا۔ اب آپ ان سب کا تجزیہ کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ یہ مختلف رجحانات کیسے وجود میں آئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جن لوگوں کی علم نحو اور علم بلاغت کے ساتھ ایک خاص مناسبت تھی، انھوں نے اپنے زاویہ نظر سے قرآن کو دیکھا۔ ظاہر ہے کہ قرآن عربی زبان کا ایک نہایت عالی شان شہ پارہ ادب ہے اور اسالیب زبان اور نحو وبلاغت سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس میں غور وفکر کے لیے نہ ختم ہونے والا مواد اور لطائف ودقائق اخذ کرنے کی ایک وسیع جولان گاہ ہے۔ اسی طرح سے فقہا، جن کی توجہ اور غور وفکر کا محور احکام وقوانین کا استنباط ہے، قرآن کی طرف متوجہ ہوئے اور انھوں نے اس کی کوشش کی کہ قرآن کی آیات سے، دلالت کے مختلف درجات کے تحت حتیٰ کہ لطیف اشارات تک سے جتنے زیادہ سے زیادہ فقہی احکام اخذ کیے جا سکتے ہیں، وہ کیے جائیں اور قرآن کے فقہی اور قانونی پہلو کو نمایاں کیا جائے۔</p> <p>اس طرح جب مختلف علمی وفکری پس منظر رکھنے والے حضرات قرآن کی طرف متوجہ ہوئے تو انھوں نے اپنی اپنی دلچسپی کے لحاظ سے قرآن کو ایک خاص رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ اب یہ جو کام ہوا، اس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس طرح قرآن کی علمی خدمت اور اس کی شرح ووضاحت کے اتنے متنوع اور گوناگوں پہلو سامنے آ گئے، تاہم اس کے ساتھ اس کا ایک سلبی پہلو بھی ہے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں۔ آپ جیسے جیسے ابتدائی دور کا تفسیری ذخیرہ دیکھتے ہوئے نیچے آتے جائیں گے، آپ کو ہر دور میں تفسیر کے مباحث میں مزید تنوع اور وسعت پیدا ہوتی نظر آئے گی۔ شروع کے دور کی تفسیریں دیکھیں تو صحابہ وتابعین کے ہاں قرآن کی کسی آیت کی تشریح میں آپ کو بہت سادہ انداز نظر آئے گا۔ کوئی لفظ مشکل ہے تو وہ اس کی وضاحت کر دیں گے۔ آیت کے مفہوم اور عملی مصداق کو واضح کرنے کے لیے کسی واقعے کا حوالہ دے دیں گے۔ اسی کو عام طو رپر شان نزول کہہ دیتے ہیں۔ کسی آیت کے معنی ومفہوم کے حوالے سے کوئی اشکال کسی کے ذہن میں پیدا ہوا ہے تو اس کو وہ حل کر دیں گے۔ یہ ایک سادہ سا انداز ہے۔ لیکن جیسے جیسے آپ نیچے آتے جائیں گے، یہ دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔ آپ تفسیر کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو بے شمار علوم کی بحثیں مل جائیں گی۔ شروع میں لوگ اپنے اپنے مخصوص دائرے میں قرآن کے متن سے نکات ومعارف استنباط کرتے تھے۔ نحویوں نے اپنے انداز میں فوائد جمع کیے اور فقہا نے اپنے انداز میں۔ اس کے بعد جو لوگ آئے، انھوں نے سوچا کہ کیوں نہ ان سب مباحث کو یکجا کر دیا جائے۔ اس طرح گوناگوں اور رنگا رنگ علوم وفنون کے مباحث تفسیر کے عنوان سے جمع کیے جانے لگے۔</p> </section> </body>
0012.xml
<meta> <title>عذر اور اعتراف</title> <author> <name>ریحان احمد یوسفی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Mahnama Ishraq September 2012</name> <year>2012</year> <city>Lahore</city> <link>https://www.javedahmedghamidi.org/#!/ishraq/5adb73c0b7dd1138372dc8d7?articleId=5adb740eb7dd1138372dd08e&amp;year=2012&amp;decade=2010</link> <copyright-holder>Al-Mawrid</copyright-holder> </publication> <num-words>849</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
عذر اور اعتراف
849
No
<body> <section> <p>قرآن کریم میں حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ اس واقعے کی جو تفصیلات قرآن پاک کی مختلف سورتوں میں بیان ہوئی ہیں ان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر خلیفہ بنایا۔ پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں۔ فرشتوں نے سجدہ کیا۔ مگر اس موقع پر موجود ایک جن نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو ماننے سے انکار کر دیا۔ یہ ابلیس تھا جو بعد میں شیطان کے نام سے مشہور ہوا۔</p> <p>جب اللہ تعالیٰ نے شیطان سے پوچھا کہ کس چیز نے تجھے میرا حکم ماننے سے روکا تو اس نے ایک خوبصورت عذر پیش کر دیا۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے خود اسے ایک برتر حیثیت میں پیدا کیا ہے، یعنی اس کی پیدایش آگ سے ہوئی، جبکہ جس ہستی کے سامنے اسے سجدے کا حکم دیا گیا ہے، اس کی پیدایش ایک کم تر مادے یعنی مٹی سے کی گئی ہے۔ چنانچہ ایک طرف تو اسے برتر بنایا گیااور دوسری طرف اسے ایک کم تر مخلوق کے سامنے جھکنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ اس لیے خرابی اس کے انکار میں نہیں، بلکہ اس حکم میں ہے جس میں بظاہر ایک غلط مطالبہ کیا گیا ہے۔</p> <p>یہ شیطان کا مقدمہ تھا جو بظاہربہت مضبوط اور مدلل تھا۔ مگروہ کسی اور کے سامنے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے موجود تھا، جو دلوں کے بھید تک جانتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے دل کی اصل حالت کو بیان کردیاکہ تو دراصل تکبر کا شکار ہو چکا ہے۔ اور اس تکبرنے تجھے اس طرح اندھا کیا ہے کہ تو میرے سامنے بغاوت پر تیار ہو گیا ہے۔ اس لیے اب تجھے راندۂ درگاہ کیا جاتا ہے۔</p> <p>شیطان اس موقع پر بھی سرکشی سے باز نہ آیا۔ اس نے اپنی گمراہی کا الزام یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ پر ڈالنے کی کوشش کی کہ جس طرح تونے مجھے گمراہ کیا ہے ،میں آدم اور اس کی اولاد کو گمراہ کروں گا۔ اس طرح یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہ اس عزت کے مستحق نہ تھے جو انھیں دی گئی ہے۔ بس تو مجھے قیامت کے دن تک کی مہلت دے دے۔ اللہ تعالیٰ شیطان سے سخت ناراض تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے مہلت دے دی تاکہ اس کی بدی اس طرح واضح ہو جائے کہ خدا کی رحمت جیسی بلند صفت بھی اس کے کام نہ آسکے۔</p> <p>دوسری طرف حضرت آدم کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیگم کے ہمراہ ایک باغ میں قیام کریں۔ البتہ ایک خاص درخت سے دور رہیں۔ اور انھیں یہ بھی بتادیا کہ یہ ابلیس ان کا دشمن ہے۔ لہٰذا وہ اس کے دھوکے میں نہ آئیں۔ حضرت آدم و حوا کچھ عرصہ تو اللہ کے حکم کے پابند رہے ،مگر آہستہ آہستہ شیطان نے وسوسہ انگیزی شروع کر دی۔ اس نے ان دونوں کو قسم کھا کر یہ یقین دلادیا کہ وہ اس درخت کا پھل کھا لیں تو انھیں ہر طرح سے فائدہ ہوگا۔ وہ دونوں اس کی باتوں میں آگئے اور اس درخت کا پھل کھابیٹھے۔ مگر اس کے نتیجے میں فوراََ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں سے محروم ہوگئے۔ یوں بظا ہر شیطان اپنے اس چیلنج میں کامیاب ہو گیا کہ وہ یہ ثابت کر کے رہے گا کہ آدم اس مقام کے مستحق نہیں ہیں جو انھیں دیا گیا ہے۔</p> <p>مگر آدم و حوا کا کیس شیطان والا نہیں تھا۔ انھوں نے اس کا پہلا ثبوت یہ دیا کہ جیسے ہی انھیں احساس ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر قائم نہیں رہ سکے، دونوں رب کی بارگاہ میں معافی کے خواستگار ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ کیا میں نے تمھیں منع نہیں کیا تھا۔ یہ دوسرا موقع تھا جب حضرت آدم نے شیطان سے مختلف ہونے کا ثبوت دیا۔ انھوں نے شیطان کی طرح اپنے عمل کی کوئی تاویل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ وہ دونوں یہ کہہ سکتے تھے کہ ہمیں شیطان نے دھوکا دیا ہے۔ مگر انھوں نے کوئی عذر پیش نہ کیا اور یکطرفہ طور پر ساری غلطی قبول کرلی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کر دیا۔</p> <p>آج بھی ابن آدم اور ابن شیطان میں ایک ہی بنیادی فرق ہوتا ہے۔ آدم کے بیٹے اعتراف کی نفسیات میں جیتے ہیں، جبکہ شیطان کے پیروکار عذر کی نفسیات میں۔ پہلوں سے جب کوئی غلطی ہوتی ہے تو وہ کسی توجہ دلانے سے قبل ہی غلطی مان لیتے ہیں۔ دوسروں سے جب کوئی غلطی ہوتی ہے تو وہ فوراََ کوئی تاویل سوچتے ہیں۔ پہلوں سے کوئی بھول ہوتی ہے تو اپنے اس عذر کو بھی استعمال کرنے میں جھجکتے ہیں جو وہ بجا طور پر پیش کر سکتے ہیں۔ دوسرے اپنے ہر جرم کا الزام دوسروں پر ڈال کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔</p> <p>ان دو گروہوں کا رویہ اگر اپنے اپنے پیش رو جیسا ہے تو ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا رویہ بھی وہی ہے۔ ابن آدم کی ہر بھول اور ہر غلطی معاف کر دی جاتی ہے، جبکہ شیطان کا رویہ اختیار کرنے والے انسانوں سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتے ہیں۔ پہلوں کو جنت کی بادشاہی میں اعلیٰ مقام دیا جائے گا۔ دوسروں کو جہنم کی آگ کا ایندھن بنا دیا جائے گا۔</p> </section> </body>
0013.xml
<meta> <title>معاشرہ کی اصلاح کے وسائل</title> <author> <name>امام امین احسن اصلاحی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Mahnama Ishraq January 2014</name> <year>2014</year> <city>Lahore</city> <link>https://www.javedahmedghamidi.org/#!/ishraq/5adb7349b7dd1138372dbb5a?articleId=5adb7364b7dd1138372dbe1a&amp;year=2014&amp;decade=2010</link> <copyright-holder>Al-Mawrid</copyright-holder> </publication> <num-words>1910</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
معاشرہ کی اصلاح کے وسائل
1,910
No
<body> <heading>معاشرہ کی اصلاح کے وسائل</heading> <section> <p>اصلاح معاشرہ کے جن پہلوؤں کی طرف ہم نے توجہ دلائی ہے، بہت سے درد مندوں نے ان کی اہمیت محسوس کی ہے۔ اس اثنا میں ہمیں جو خطوط موصول ہوئے ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگ بحمد اللہ ہمارے اندر موجود ہیں جو صورت حال کی نزاکت کا احساس رکھتے ہیں اور دین کے بقا و تحفظ کے لیے وہ اپنا وقت بھی صرف کرنے کے لیے تیار ہیں اور ان میں سے جن کو خدا نے مال دیا ہے، وہ اپنا مال بھی خرچ کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ ان خطوط سے ہمیں بڑی تقویت حاصل ہوئی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے درد مندوں کی تعداد میں اضافہ فرمائے۔</p> <p>کسی معاشرہ کے اندر ہزار خرابیاں موجود ہوں، لیکن جب تک اس کے اندر ان خرابیوں کو محسوس کرنے والے اور ان کو دور کرنے کی راہ میں ایثار کرنے والے افراد موجود رہیں، اس وقت تک اس کے مستقبل کی طرف سے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ کسی معاشرہ کی حالت مایوس کن اس وقت ہوتی ہے، جب اس کا بگاڑ اس حد کو پہنچ جائے کہ نہ اس کی اصلاح کے لیے اپنا وقت اور مال قربان کرنے والے باقی رہ جائیں اور نہ اس کی حالت پر غم کھانے والے۔ الحمد للہ ہمارا بگاڑ ابھی اس حد کو نہیں پہنچا ہے۔</p> <p>لیکن ان خطوط سے جہاں ہمیں یہ اندازہ کر کے خوشی ہوئی ہے کہ ہمارے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے وسائل و ذرائع اسلام کے لیے استعمال کرنے پر آمادہ ہیں۔ وہیں انھی خطوط سے ہمیں یہ اندازہ بھی ہوا ہے کہ ابھی اس معاملہ کے بعض گوشے لوگوں کے سامنے اچھی طرح واضح نہیں ہیں۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ جب تک یہ گوشے اچھی طرح واضح نہیں ہوں گے، اس وقت تک یہ احساس، جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے، کوئی مفید نتیجہ نہیں پیدا کر سکتا۔ اس وجہ سے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم ان پہلوؤں کی طرف بھی چند سطروں میں توجہ دلا دیں۔</p> <p>اس وقت جو لوگ اس مقصد کے لیے اپنے مال یا وقت کی کوئی قربانی دینا چاہتے ہیں، انھیں دو باتوں پر اچھی طرح غور کر کے اپنے ذہن کو یک سو کر لینا چاہیے۔</p> <p>ایک اس بات پر کہ اس وقت اسلام کے لیے جو مرحلہ درپیش ہے، اس مرحلہ میں اسلام کی خدمت کے لیے سب سے مقدم اور سب سے زیادہ ضروری کام کیا ہے؟ دوسرے اس بات پر کہ اس وقت جو وسائل و ذرائع میسر ہیں، ان کو اس مقدم اور ضروری کام کے لیے زیادہ سے زیادہ بہتر طریقہ پر کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے؟</p> <p>ان دونوں سوالوں پر غور کیے اور ان کے باب میں یک سو ہوئے بغیر جو کام اس وقت کیے جائیں گے، ہمیں اندیشہ ہے کہ ان پر ہماری مادی و ذہنی طاقتیں تو صرف ہوں گی، لیکن ان سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور ہو گا تو اتنا کم کہ وہ نہ ہونے کے برابر ہو گا۔</p> <p>پہلے سوال پر غور کرنے کی ضرورت اس وجہ سے ہے کہ یہ بات تو بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ بیمار ہے، لیکن اس امر میں بڑا اختلاف ہے کہ یہ بیماری کیا ہے اور اس کا علاج کیا ہے؟ اس بیماری اور اس کے علاج کے متعین نہ ہونے کے سبب سے ہر تیماردار الگ الگ مرض تشخیص کر رہا ہے اور الگ الگ اس کے علاج تجویز کر رہا ہے۔ بعض لوگ اس کے ہاتھ پاؤں کو مریض سمجھ رہے ہیں اورا پنی اس تشخیص کے مطابق اس کے پاؤں پر مالش کرنا چاہتے ہیں۔ بعض اس کے پیٹ میں درد خیال کر رہے ہیں اور اپنی سمجھ کے مطابق اس درد کی تسکین کی کوئی دوا دینا چاہتے ہیں۔ بعض اس کو ضعف قلب کا مریض سمجھتے ہیں، وہ اس ضعف قلب کو دور کرنے کے لیے کوئی مقوی قلب چیز اس کو کھلانا چاہتے ہیں۔ غرض جتنے تیماردار ہیں، اتنی ہی تشخیصیں اور اتنے ہی علاج ہیں۔ یہ اختلاف تشخیص و اختلاف علاج اگرچہ زیادہ تر نتیجہ ہے اس ذہنی پریشانی کا جس سے ایک ہمہ گیر خرابی کے احساس نے ہمیں دوچار کر دیا ہے اور اس پہلو سے یہ ایک قدرتی سی چیز ہے، لیکن کسی موثر اور نتیجہ خیز علاج کے لیے اس پریشان خیالی کا دور ہونا ضروری ہے۔ جب کسی گھر میں آگ لگتی ہے تو بالعموم یہی ہوتا ہے کہ جس جس کونے سے بھی دھواں اٹھتا نظر آتا ہے، پاس پڑوس کے ہمدرد اسی کونے کو آگ کا مرکز سمجھ کر اس پر اپنے اپنے پانی کے ڈول پھینکنے شروع کر دیتے ہیں۔ یہ کام اگرچہ وہ ازراہ ہمدردی کرتے ہیں، لیکن منتشر کوششوں سے آگ نہیں بجھا کرتی۔ آگ بجھتی اس وقت ہے جب فائر بریگیڈ آگ کے اصل سنٹر کو متعین کر کے اس کو اپنے محاصرے میں لے لیتا ہے اور اپنے زور دار دونگڑوں سے اس کے سر غرور کو کچل کے رکھ دیتا ہے۔</p> <p>دوسرے سوال پر غور کرنے کی ضرورت یوں ہے کہ اس مقصد کے لیے جو اسباب و وسائل اس وقت میسر ہیں یا آئندہ جن کے میسر آنے کی توقع ہے، وہ بہرحال نہایت محدود بھی ہیں اور نہایت منتشر حالت میں بھی ہیں۔ اگر یہ اسباب و وسائل الگ الگ مختلف مقامات پر استعمال ہوں تو کہیں بھی ان سے کوئی بڑے پیمانہ کا کوئی ایسا نتیجہ خیز کام نہیں انجام پا سکتا جو اس ضرورت کو پورا کر سکے جس کو پورا کرنا پیش نظر ہے۔ پھر مادی وسائل سے زیادہ اہم سوال اس مقصد کے لیے ذی صلاحیت اور موزوں اشخاص کی فراہمی ہے۔ اس زمانہ میں کسی اس طرح کے کام کے لیے سرمایہ حاصل کرنا جتنا مشکل ہے، اس سے کہیں زیادہ مشکل اس کے لیے اس دور قحط الرجال میں آدمیوں کی تلاش ہے۔</p> <p>ان دونوں سوالوں میں سے جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے، اس پر ہم نے جس حد تک غور کیا ہے ہم اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ہماری بیماری کوئی سرسری اور معمولی قسم کی نہیں ہے، بلکہ بڑی گہری ہے۔ انگریزوں کے تسلط کے بعد سے مغربی فکر و فلسفہ کی جو چھوت ہمیں لگی، اس نے ڈیڑھ دو سو سال کی مدت میں ایک مزمن بیماری کی شکل اختیار کر لی ہے اور اب اس نے ہمارے ذہین طبقہ کے دماغ اور دل بالکل ماؤف کر دیے ہیں۔ اس بیماری کا عمل تقریباً یک طرفہ قسم کا رہا ہے۔ اس کے تدارک کی تدبیریں یا تو اختیار ہی نہیں کی گئیں یا اختیار کی گئیں تو وہ اتنی سائنٹیفک اور علمی نہیں تھیں جتنا سائنٹیفک اور علمی اس کا عمل تھا، اس وجہ سے آہستہ آہستہ اس کے اثرات دماغوں اور دلوں کے اندر اتنے گہرے اتر چکے ہیں کہ اب اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ان سے ہمارے ذہین طبقہ کی اکثریت کے عقائد و ایمانیات کی جڑیں تک ہل چکی ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی قوم کے ذہین طبقہ کی بیماری اعضا و جوارح کی بیماری نہیں ہے، بلکہ اس کے دماغ اور عقل کی بیماری ہے اور دماغ کی خرابی ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج نہ تو درد سر کی دوا سے ہو سکتا ہے اور نہ ہر عطائی اس کا علاج کر سکتا ہے۔</p> <p>یہ مغرب کی فاسد عقلیت کا ایک عذاب ہے جو ہم پر مسلط ہوا ہے۔ اس فاسد عقلیت کا مداوا اگر ہو سکتا ہے تو اس صالح عقلیت ہی سے ہو سکتا ہے جو قرآن اور سنت کی حکمت کے اندر مضمر ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام ہر شخص کے بس کا نہیں ہے۔ یہ کام وہی لوگ کر سکتے ہیں جو دین کی عقلیت کے بھی رازداں ہوں اور جو موجودہ عقلیت کے مفاسد سے بھی اچھی طرح واقف ہوں اور ساتھ ہی اس معیار و پیمانہ پر اور اس انداز اور اس طریقہ سے اس کام کو کر سکنے کا سلیقہ رکھتے ہوں جو موجودہ زمانہ میں اس طرح کے کام کے لیے وجود میں آ چکا ہے۔ یہ ایک ٹھوس علمی اور تحقیقی کام ہے جس کا فائدہ صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکنے کی توقع ہے جب ایک ٹیم پرسکون ماحول اور اطمینان بخش حالات کے اندر اس خدمت کے لیے اپنے آپ کو دوسری تمام دل چسپیوں اور ہنگامی مشاغل سے فارغ کر لے اور اپنی محنتوں سے ان تمام زہروں کے تریاق بھی فراہم کرے جن سے اس وقت ہمارے معاشرے کا ذہین طبقہ مسموم ہے اور ساتھ ہی ان لوگوں کی تربیت بھی کرے، جو آئندہ نسلوں کے لیے اس خدمت کو جاری رکھ سکیں۔</p> <p>دوسرے سوال سے متعلق ہمارا مشورہ اسلام اور مسلمانوں کے ان تمام بہی خواہوں کے لیے جو اس عظیم خدمت میں اپنے وسائل و ذرائع سے حصہ لینا چاہتے ہیں یہ ہے کہ وہ اسلام کے وسیع مفاد کے پیش نظر اپنے شخصی اور مقامی میلانات و رجحانات کو اس وقت بھول جائیں۔ پیش نظر کام ایک بڑا وسیع کام ہے، اس کو صحیح طور پر انجام دینے کے لیے وسیع اسباب و وسائل کی ضرورت ہے جن کے فراہم ہونے کی توقع صرف اسی شکل میں ہو سکتی ہے جب تمام اصحاب وسائل مل کر اپنی متحدہ کوشش سے فراہم کریں۔ متحدہ کوشش کی صورت میں تو بلاشبہ اس بات کی توقع ہے کہ اس کام کے لیے ضرورت کے مطابق سرمایہ بھی حاصل ہو جائے اور اس کا بھی امکان ہے کہ اس کام کو چلانے کے لیے موزوں اشخاص بھی مل جائیں۔ لیکن اگر وسائل رکھنے والے حضرات کسی ایک اسکیم پر متفق نہ ہو سکے تو اس صورت میں کسی بڑے کام کے انجام پا سکنے کی کوئی توقع نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ بس یہ ہو سکے گا کہ بعض لوگ اپنے اپنے شہروں میں ایک آدھ بے مقصد قسم کے مدرسے اور قائم کر دیں گے یا اپنے دیہاتوں میں وعظ کہنے کے لیے ایک آدھ مبلغ بھیج دیں گے۔ اس سے ان مدرسوں کے بانیوں اور ان مبلغوں کے سرپرستوں کو تو ضرور تسلی ہو جائے گی کہ انھوں نے دین کی کوئی خدمت انجام دی ہے، لیکن ان مدرسوں اور ان مبلغوں سے اس اسلام کا کیا بھلا ہو گا جس کی بنیادیں تک ہمارے معاشرے کے اندر ہل چکی ہیں۔</p> <p>اس کام کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے عام معاشرہ کی دینی و اخلاقی اصلاح کی جدوجہد بھی شروع کی جائے۔ اس کا زوال و انحطاط اب خطرہ کے پوائنٹ تک پہنچ چکا ہے۔ اب اس کام میں مزید غفلت کے معنی اس کو اسلامی نقطۂ نظر سے موت کے حوالہ کر دینے کے ہوں گے۔ ابھی تو اس بات کا امکان ہے کہ اگر سمجھ دار بے لوث اور مخلص لوگوں کی ایک جماعت اس کی اصلاح کے لیے اٹھ کھڑی ہو تو شاید اللہ تعالیٰ اس کی کوششوں سے اس کی حالت کو سنبھال دے، لیکن اگر یہ کوشش نہ کی گئی تو زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا کہ اس کے لیے گمراہی کا ہر موڑ مڑ جانا بالکل متوقع ہو گا اور عند اللہ اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہو گی جو اس کی اصلاح کے سلسلہ میں کچھ کر سکنے کی صلاحیت رکھتے تھے، لیکن انھوں نے کچھ نہیں کیا۔ جن لوگوں کے نزدیک سیاسی اقتدار کے حصول کے بغیر اصلاح معاشرہ کی کوئی جدوجہد ممکن ہی نہیں ہے، انھیں ہم ان کے نظریے کی بنا پر مجبور سمجھتے ہیں، لیکن جو لوگ سیاست سے الگ رہ کر بھی اسلام کی خدمت کر سکنے کے امکانات کے قائل ہیں، ہم انھیں ان کی ذمہ داری یاد دلانا چاہتے ہیں۔</p> </section> </body>
0014.xml
<meta> <title>مولانا محمد علی جوہر</title> <author> <name>امام امین احسن اصلاحی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Mahnama Ishraq September 2014</name> <year>2014</year> <city>Lahore</city> <link>https://www.javedahmedghamidi.org/#!/ishraq/5adb7349b7dd1138372dbb63?year=2014&amp;decade=2010&amp;articleId=5adb7349b7dd1138372dbb67</link> <copyright-holder>Al-Mawrid</copyright-holder> </publication> <num-words>1499</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
مولانا محمد علی جوہر
1,499
No
<body> <section> <p>اضل محترم مولانا رئیس احمد جعفری نے مجھ سے فرمایش کی ہے کہ مولانا محمد علی جوہر رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق میں چند تاثرات قلم بند کروں۔ میں اس فرمایش کی تعمیل کے لیے آمادہ تو ہو گیا ہوں، لیکن یہ بات مضمون کے پہلے مرحلہ ہی میں واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھے مولانا سے صرف نسبت غائبانہ عقیدت ہی کی حاصل ہے، ان سے ملنے جلنے کے مواقع تو درکنار ان کو دور دور سے دیکھ لینے کی سعادت بھی شاید دو تین بار سے زیادہ مجھے حاصل نہیں ہوئی ہے۔ تحریک خلافت کے شباب کے زمانے میں، سن ٹھیک طرح یاد نہیں (غالباً ۱۹۲۱ء یا ۱۹۲۲ء میں) مولانا مدرسۃ الاصلاح ۔۔۔۔۔ سرائے میر، ضلع اعظم گڑھ یو پی، بھارت ۔۔۔۔۔ کے سالانہ جلسہ میں تشریف لائے۔ میں اس وقت مدرسۃ الاصلاح میں آخری درجوں کا طالب علم تھا۔ اس جلسہ میں مجھے یاد ہے کہ مولانا کا نام سن کر مدرسہ کے وسیع میدان میں بے پناہ خلقت جمع ہوئی۔ مولانا کے ساتھ وقت کے بعض دوسرے اکابر و مشاہیر بھی تشریف لائے میرے استاذ مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ کسی جلسہ میں کبھی مشکل ہی سے شریک ہوتے تھے، لیکن اس جلسہ میں وہ بھی شریک ہوئے۔ بڑا عظیم اجتماع تھا۔ میں نے اس سے پہلے اس سے بڑا اجتماع کوئی نہیں دیکھا تھا۔ جلسہ کھلے میدان میں تھا۔ ہوا نہایت تند چل رہی تھی۔ اس زمانہ تک لاؤڈ سپیکر کا رواج نہیں ہوا تھا، اس وجہ سے اندیشہ تھا کہ مولانا کی تقریر سنی نہ جا سکے گی جس سے جلسہ میں انتشار پیدا ہو جائے گا، لیکن جب مولانا تقریر کے لیے کھڑے ہوئے تو ان کے رعب و دبدبہ نے ہر شخص کو اس طرح مرعوب و مسحور کر لیا کہ جو شخص جس جگہ کھڑا یا بیٹھا تھا، وہیں پیکر تصویر بن کر رہ گیا! مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی بلند اور پرشکوہ آواز ہوا کی تندی اور مجمع کی غیر معمولی وسعت کے باوجود ہر گوشہ میں پہنچنے لگی۔ اور تقریر کے اثر کا عالم یہ ہوا کہ تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک آنکھ بھی ایسی نہ تھی جو رو نہ رہی ہو۔ یہ مجمع بالکل دیہاتیوں کا تھا، اس میں پڑھے لکھے لوگ بہت تھوڑے سے تھے۔ ان دیہاتیوں کے لیے مولانا محمد علی جیسے شخص کی کسی تقریر کو سمجھنا کچھ آسان کام نہیں تھا، لیکن ان کی تقریر میں ایمان و یقین کی ایسی گرمی اور سوز و درد کی ایسی گھلاوٹ تھی کہ اس سے متاثر ہونے کے لیے شاید اس کو زیادہ سمجھنے کی ضرورت نہیں تھی۔</p> <p>اس موقع کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے جو قابل ذکر ہے۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر جب ختم ہو گئی تو ہم نے دیکھا کہ مجمع کے ایک کنارے سے ایک بوڑھا دیہاتی اٹھا اور وہ مجمع کو چیرتا پھاڑتا سیدھا سٹیج کی طرف چلا۔ اگرچہ سٹیج تک پہنچنے میں اس کو سخت مزاحمتوں سے سابقہ پیش آیا، لیکن وہ اپنی دھن کا ایسا پکا نکلا کہ اس نے مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پہنچ کر ہی دم لیا۔ اور پہنچتے ہی ان کی ڈاڑھی پر ہاتھ رکھ کر اپنے مخصوص لہجہ میں بولا:</p> <blockquote> <p>محمد علی! جو تو نے کیا، وہ کسی سے نہ ہو سکا! یہ کہہ کر جب وہ واپس مڑا تو مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ’اس طرح کی داد بھی آپ کے سوا مجھے کسی اور سے نہیں ملی‘!</p> </blockquote> <p>اس موقع پر مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی عظمت کا ایک اور پہلو میرے سامنے اپنے استاذ مولانا فراہی کے تاثرات سے واضح ہوا۔ اس جلسہ میں تقریر کر کے مولانا محمد علی اعظم گڑھ شہر کے لیے روانہ ہو گئے جہاں شب میں ان کو ایک جلسۂ عام میں تقریر کرنی تھی۔ وہ گئے تو ان کے ساتھ مدرسۃ الاصلاح کا سارا جلسہ بھی چلا گیا، یہاں تک کہ خود مولانا فراہی بھی جو مدرسہ کے ناظم تھے، ان کی تقریر میں شرکت کے لیے ان کے ساتھ چلے گئے۔ انھوں نے چلتے وقت ہمیں یہ ہدایت کی کہ کچھ کٹے ہوئے کاغذ اور چند اچھی پنسلیں ان کے سامان میں رکھ دی جائیں تاکہ وہ اعظم گڑھ میں ہونے والی مولانا محمد علی کی تقریر نوٹ کر سکیں۔ یہ معاملہ میرے لیے نہایت حیرت انگیز تھا۔ میں اس بات سے تو واقف تھا کہ مولانا فراہی مولانا محمد علی اور مولانا آزاد سے محبت کرتے ہیں، لیکن ان میں سے کسی کی تقریر سے مولانا کا اس درجہ متاثر ہونا کہ وہ خود اس کے نوٹ کرنے کا اہتمام کریں، میرے تصور سے مافوق تھا۔ مولانا نہ تو جذباتی آدمی تھے، نہ کوئی سیاسی آدمی۔ وہ ایک محقق، ایک فلسفی اور ایک حکیم تھے۔ وہ، جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا، وعظ و تقریر کے جلسوں میں، خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیاسی، کبھی مشکل ہی سے شریک ہوتے تھے، لیکن مولانا محمد علی کی تقریر میں شریک ہونے کے لیے نہ صرف یہ کہ سفر کے لیے آمادہ ہو گئے، بلکہ ان کی تقریر کے نوٹ لینے کے لیے یہ اہتمام فرمایا۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے اس اہتمام نے میرے دل میں مولانا محمد علی کی عظمت بہت بڑھا دی۔ میں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ معلوم ہوتا ہے کہ مولانا محمد علی ایک عظیم سیاسی لیڈر ہی نہیں، بلکہ وہ علمی و عقلی اعتبار سے بھی ایسے بلند پایہ آدمی ہیں کہ مولانا فراہی جیسے لوگ بھی ان کی تقریروں کو یہ درجہ دیتے ہیں کہ ان کے نوٹ لیتے ہیں۔</p> <p>اس واقعہ کے دوسرے ہی دن مجھ پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ مولانا محمد علی کی تقریر میں وہ کیا چیز تھی جس سے استاذ مرحوم اس درجہ متاثر ہوئے ۔۔۔۔۔ دوسری صبح کو جب مولانا فراہی مدرسہ پر واپس آئے تو منتظمین میں سے بعض نے ان سے دبی زبان سے یہ شکایت کی کہ مولانا محمد علی کے ساتھ ان کے چلے جانے کے سبب سے خود مدرسہ کا جلسہ درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ مولانا نے اس کا جواب یہ دیا کہ:</p> <blockquote> <p>جو کام کی باتیں تھیں، وہ محمد علی نے اپنی تقریر میں کہہ دی تھیں، اس کے بعد کسی اور تقریر کی اب کیا ضرورت باقی رہی تھی!</p> </blockquote> <p>مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات اس اعتماد اور یقین کے ساتھ فرمائی کہ ہر شخص پر یہ بات واضح ہو گئی کہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو مدرسہ کے جلسہ کے درہم برہم ہو جانے کا ذرہ برابر بھی افسوس نہیں ہے۔ ان کے نزدیک سننے کی باتیں وہی تھیں جو مولانا محمد علی نے کہہ دی تھیں اور لوگوں نے وہ سن لی تھیں، اس کے بعد جلسہ کا جاری رہنا، ان کے نزدیک، گویا اضاعت وقت کے حکم میں تھا۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بعد متعدد بار مولانا محمد علی کی تقریر پر اپنی پسندیدگی کا اظہار فرماتے ہوئے یہ بھی کہا کہ:</p> <blockquote> <p>محمد علی کی تقریر میں ایمان ہوتا ہے۔</p> </blockquote> <p>ایک مرتبہ بطور لطیفہ کے یہ بھی فرمایا کہ:</p> <blockquote> <p>چونکہ محمد علی بہت ذہین آدمی ہیں، اس وجہ سے لوگوں کو قرآن کے نظم کی طرح ان کی تقریروں اور تحریروں کے نظم کو سمجھنے میں بھی بسا اوقات زحمت پیش آتی ہے!</p> </blockquote> <p>پھر فرمایا کہ:</p> <blockquote> <p>کچھ اسی قسم کا حال مولانا محمد قاسم کی تقریروں اور تحریروں کا بھی ہے۔</p> </blockquote> <p>اگرچہ بڑوں کے اس ذکر کے درمیان اپنا بیان کچھ مناسب نہیں، لیکن جن کا کل سرمایۂ زندگی صرف وہ چند چھوٹی بڑی نسبتیں ہی ہوں جو بڑوں سے ان کو حاصل ہوئیں، وہ اگر ان کو بیان نہ کریں تو آخر اپنے طرۂ افتخار کی آرایش کے لیے سامان کہاں سے لائیں گے! اس وجہ سے مجھے یہ واقعہ ذکر کرنے کی اجازت دیجیے کہ یہی جلسہ، جس کا اوپر ذکر ہوا، اول اول مجھے پبلک میں روشناس کرانے کا ذریعہ بنا۔ وہ اس طرح کہ مجھے مدرسہ کی تعلیم و تربیت کا نمونہ دکھانے کے لیے مدرسہ کے ذمہ داروں کی طرف سے اس جلسہ میں ایک تقریر کرنے کی ہدایت کی گئی۔ چنانچہ میں نے اس میں ایک تقریر کی۔ یہ تقریر میری اپنی ہی تیار کردہ تھی اور اگرچہ کسی پبلک جلسہ میں یہ میری بالکل پہلی تقریر تھی، لیکن میری عمر اور علم کے اعتبار سے نہایت کامیاب رہی ۔۔۔۔۔ مولانا محمد علی اور سٹیج پر بیٹھے ہوئے دوسرے اکابر نے اس کی بڑی تحسین فرمائی، یہاں تک کہ مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ نے بصلۂ حسن تقریر اپنے تفسیری رسائل کا ایک سیٹ اپنے دستخط سے مزین فرما کر مجھے بطور انعام عنایت فرمایا۔ اس کے بعد مجھے دور دور سے جلسوں کی شرکت کے لیے دعوت نامے ملنے لگے اور میں کبھی کبھی جلسوں میں شریک بھی ہونے لگا، لیکن میں نے یہ لے زیادہ بڑھنے نہیں دی۔ ایک مرتبہ تو انھوں نے مجھ سے یہاں تک فرمایا کہ زیادہ تقریریں کرنے سے آدمی کا دل سیاہ ہو جایا کرتا ہے! ظاہر ہے کہ جس چیز کو وہ اس درجہ ناپسند فرماتے ہوں، اس کی طرف زیادہ راغب ہونا میرے لیے ممکن نہیں تھا۔</p> <p>(مقالات اصلاحی ۲/ ۴۰۱، بہ حوالہ ماہنامہ میثاق لاہور ۔جولائی ۱۹۶۴ء)</p> </section> </body>
0015.xml
<meta> <title>فوج کی حکمرانی</title> <author> <name>سید منظور الحسن</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Mahnama Ishraq April 2007</name> <year>2007</year> <city>Lahore</city> <link>https://www.javedahmedghamidi.org/#!/ishraq/5adb7356b7dd1138372dbcc6?articleId=5adb745bb7dd1138372dd8db&amp;year=2007&amp;decade=2000</link> <copyright-holder>Al-Mawrid</copyright-holder> </publication> <num-words>2026</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
فوج کی حکمرانی
2,026
No
<body> <section> <p>ہمارے سیاسی کلچر میں فوج کی حکمرانی کو اب ایک روایت کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ سیاسی جماعتیں باہم بر سر پیکار ہوتی ہیں؛ سیاست دان ایک دوسرے کے وجود کو برداشت کرنے سے انکار کرتے ہیں؛ سول حکومتیں بدانتظامی، عدم استحکام اور اخلاقی انحطاط کا بدترین نمونہ پیش کرتی ہیں؛ عوام الناس حکمرانوں کے آگے اپنے مسائل حل نہ ہونے کا رونا روتے ہیں؛ غیر مقبول مذہبی اور سیاسی گروہ فوج کو حکومت سنبھالنے کی پیشکش کرتے ہیں اور فوجی جنرل پوری آمادگی دل کے ساتھ اس صداے خوش نوا پر لبیک کہتے اور قوم کے مسیحا کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ وہ آئین کو بالاے طاق رکھ کر مسند اقتدار پر فائز ہوتے ہیں، اقتدار کے زیادہ سے زیادہ مظاہر کو اپنی ذات میں مرتکز کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کچھ استحکام حاصل کر لینے کے بعداپنے اقتدار کے آئینی جواز کے لیے سرگرم عمل ہو جاتے ہیں، اقتدار کو طول دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور بالآخر عوام کی ناپسندیدگی کا داغ اپنے دامن پر سجا کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق نے یہی روایت قائم کی ہے اور جنرل پرویز مشرف بھی اسی کو پروان چڑھا رہے ہیں۔</p> <p>فوج کے اقتدار پر قابض ہونے سے چند ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں جو ہمارے نزدیک ملک و قوم کے لیے ضرررساں ہیں۔</p> <p>ایک مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے اقدامات کے نتیجے میں اس اصول پر زد پڑتی ہے جو شریعت کی رو سے مسلمانوں کے اجتماعی نظام کی اساس ہے۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے: ’وامرہم شوریٰ بینہم‘، یعنی مسلمانوں کا نظام ان کے باہمی مشورے پر مبنی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ریاست کی سطح پر اجتماعی نوعیت کا کوئی فیصلہ مسلمانوں کی مشاورت کے بغیر نہیں ہوگا اور اس ضمن میں ان کی رائے کو حتمی حیثیت حاصل ہو گی۔ استاذ گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>”مسلمانوں کے اجتماعی نظام کی اساس ’امرہم شوریٰ بینھم‘ہے، اس لیے ان کے امرا و حکام کا انتخاب اور حکومت و امارت کا انعقاد مشورے ہی سے ہو گا اور امارت کا منصب سنبھال لینے کے بعد بھی وہ یہ اختیار نہیں رکھتے کہ اجتماعی معاملات میں مسلمانوں کے اجماع یا اکثریت کی رائے کو رد کر دیں۔“ (قانون سیاست۲۶)</p> </blockquote> <p>دوسرا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے اقدامات آئین کی خلاف ورزی پر منتج ہوتے ہیں۔ ہمارا آئین درحقیقت وہ دستور العمل ہے جس کے بارے میں قوم نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ وہ اپنے اجتماعی امور کو اس کی روشنی میں انجام دے گی۔ اس میں ہم نے قومی سطح پر یہ طے کیا ہے کہ ہمارانظام حکومت کیا ہو گا؟ حکومت کس طریقے سے وجود میں آئے گی اور کس طریقے سے اسے تبدیل کیا جا سکے گا؟سربراہان ریاست و حکومت کس طریقے سے منتخب ہوں گے، ان کے کیا اختیارات ہوں گے اور کس طرح ان کا مواخذہ کیا جا سکے گا؟ یہ اور اس نوعیت کے بے شمار امور جزئیات کی حد تک اس دستور میں طے کیے جا چکے ہیں۔ کسی بھی قوم کا سیاسی استحکام اس بات میں مضمر ہوتا ہے کہ آئین کے لفظ لفظ پر پوری دیانت داری سے عمل کیا جائے۔ </p> <p>تیسرا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے اقدامات کے نتیجے میں جمہوری اقدار کی ترویج رک جاتی ہے۔ سیاسی عمل میں رخنہ آجاتاہے اور قومی تعمیر و ترقی کا عمل متاثر ہو جاتا ہے۔ موجودہ زمانے میںیہ بات ہر لحاظ سے ثابت شدہ ہے کہ جس معاشرے میں جمہوری اقدار مستحکم ہوں گی، وہ تعمیر و ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوری اقدار معاشرے کے افراد کو باشعور بناتی، ان کے اندر اعتماد پیدا کرتی اور انھیں مستقبل کی بہتری کے لیے سرگرم عمل کر دیتی ہیں۔ فوجی حکمرانوں کی آمد سے چونکہ قومی معاملات میں ان کی شرکت کا راستہ بند ہو جاتا ہے، اس لیے وہ کوئی فعال کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہتے۔</p> <p>یہاں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جملۂ معترضہ کے طور پر مختصراً ان اعتراضات کا جائزہ بھی لے لیا جائے جو ہمارے ہاں جمہوریت کے حوالے سے پیش کیے جاتے ہیں۔</p> <p>ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ جمہوری نظام حکومت ان ممالک کے لیے ناموزوں ہے جہاں خواندگی کی شرح کم ہو۔ جناب پرویز مشرف صاحب نے بھی منصب صدارت پر فائز ہونے سے کچھ عرصہ پہلے اپنے ایک بیان کے ذریعے سے اسی نقطۂ نظرکا اظہار کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ:</p> <blockquote> <p>”پاکستان کا ماحول پارلیمانی جمہوریت کے لیے سازگار نہیں ہے۔ ایک ایسا ملک جس کی چودہ کروڑ آبادی میں سے ستر فی صد لوگ ناخواندہ ہیں، اس سے دنیا کیوں توقع رکھتی ہے کہ وہ مغربی طرز کی جمہوریت کا حامل ہو۔“ (روزنامہ جنگ، ۳ جون ۲۰۰۱)</p> </blockquote> <p>پارلیمانی جمہوریت سے مراد وہ طرز حکومت ہے جس میں پارلیمان کو ریاست کے سب سے برتر ادارے کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ یہ ادارہ عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ عوام کے یہ نمائندے اپنے اندر سے ایک وزیر اعظم کا انتخاب کرتے ہیں۔ وزیر اعظم اپنی کابینہ کے ذریعے سے حکومت کا نظم چلاتا ہے۔ وہ اپنے تمام اقدامات کے حوالے سے پارلیمان کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے۔ ارکان پارلیمان اگر اس کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہوں تو وہ اسے تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔ اس نظام میں صدر کی حیثیت آئینی سربراہ کی ہوتی ہے، نظم حکومت اور قانون سازی کے معاملات میں اس کی مداخلت نہایت محدود ہوتی ہے۔</p> <p>اس نظام جمہوریت پرمذکورہ اعتراض کے جواب میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، لیکن یہ دو باتیں ہی اس کی تردید کے لیے کافی ہیں:</p> <p>ایک یہ کہ اس بات کا فیصلہ کہ اہل پاکستان کے لیے کون سا نظام درست ہے اور کون سا درست نہیں ہے، دین، اخلاق اور اجتماعی مصالح کے لحاظ سے اہل پاکستان ہی کو کرنا چاہیے۔ ۱۹۷۳ء تک اہل پاکستان دانستہ یا نادانستہ طور پر مختلف نظام ہاے حکومت کا تجربہ کر چکے تھے۔ اس موقع پر ان کے منتخب نمائندوں نے بہت سوچ بچار کے بعد پارلیمانی نظام حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستانی قوم اپنے اس فیصلے پر ابھی تک قائم ہے۔ اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ فیصلہ پاکستان کے قومی مفاد میں نہیں ہے تو انھیں رائے عامہ کو اپنے نقطۂ نظر کے حق میں ہموار کرنا چاہیے، یہاں تک کہ لوگوں کی اکثریت ان کی رائے کو اپنی رائے کے طور پر اختیار کر لے۔ رائے عامہ کی تائید کے بغیر کیا جانے والا اجتماعی اقدام کسی لحاظ سے بھی درست قرار نہیں پا سکتا۔</p> <p>دوسری یہ کہ سیاسی شعور کے ہونے یا نہ ہونے کا تعلیم و تعلم سے کوئی ایسا گہرا تعلق بھی نہیں ہے کہ محض تعلیم کی کمی کو سیاسی شعور کی کمی پر محمول کر لیا جائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تعلیم اجتماعی شعور کی بیداری میں معاون ثابت ہوتی ہے، مگر حقیقی معنوں میں سیاسی شعور سیاسی عمل کے تسلسل اور استحکام سے پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو واضح ہو گا کہ اس قوم میں سیاسی شعور کی ایسی کمی نہیں ہے کہ اسے حق رائے دہی سے محروم کر دیا جائے۔ ۱۹۴۷ء میں اس قوم نے اپنے ووٹوں ہی کے ذریعے سے علیحدہ مملکت اور اس کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت کا فیصلہ کیا۔۱۹۶۹ء میں اس قوم نے اپنی پرزور تحریک سے جنرل ایوب خان جیسے باجبروت حکمران کو اقتدار سے علیحدہ ہو جانے پر مجبور کر دیا۔ کیا یہ سیاسی شعور کا اظہار نہیں ہے کہ اس قوم نے بتدریج مذہبی سیاست کو بالکلیہ ختم کر دیا اور ملک کو دو جماعتی نظام کی طرف گام زن کر دیا ہے؟یہ بات صحیح ہے کہ ہماری عوامی سیاست ابھی تک جاگیر داروں اور صنعت کاروں کے حصار سے نہیں نکلی، لیکن اس کی اصل وجہ عوام کی ناخواندگی نہیں، بلکہ سیاسی عمل میں بار بار آنے والا تعطل ہے۔ اگر یہ سیاسی عمل کسی انقطاع کے بغیر جاری رہے تو یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ آیندہ تین چار انتخابات کے بعدشفاف نظام سیاست کے قیام اور باصلاحیت اور با کردار حکمرانوں کا انتخاب بہت آسان ہو جائے گا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے معروف محقق جناب ڈاکٹر صفدر محمود اپنی کتاب ”پاکستان تاریخ و سیاست“ میں لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>”تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ پاکستان کے عوام کی سیاسی پسماندگی کا رونا ان حکمرانوں نے رویا ہے جن کی کوئی نمائندہ حیثیت نہیں تھی۔ اس بدعت کا آغاز میجر جنرل سکندر مرزا سے ہوا۔ پھر یہ روایت فیلڈ مارشل ایوب خان سے ہوتی ہوئی صدر ضیا الحق تک پہنچی، کیونکہ یہ حکمران غیرسیاسی پس منظر کے مالک اورعوام سے الرجک تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے جو حقیقی معنوں میں قوم کے قائد تھے کبھی بھی عوام کی ناخواندگی یا سیاسی پسماندگی کی شکایت نہیں کی، حالانکہ اس وقت ناخواندگی کی شرح کہیں زیادہ تھی۔</p> <p>دنیا میں کسی ایسے ملک کی مثال نہیں ملتی جس کے عوام نے اپنے ووٹ کے تقدس کے تحفظ کی خاطر اتنی قیمتی جانوں اور املاک کا نذرانہ پیش کیا ہوجتنا پاکستانی عوام نے ۱۹۷۷ء میں قومی اتحاد کی تحریک کے دوران پیش کیا۔ یہ حقیقت میں پاکستان کے اس عام شہری کی فتح تھی جو ہر قیمت پر جمہوریت کی بالا دستی کا خواہاں ہے۔ کیا ایک ایسی قوم کو جو اپنے ووٹ کے تقدس کا اس قدر شعور رکھتی ہے جمہوریت کے لیے نااہل قرار دینا ناانصافی نہیں ہے؟“ (۲۹۴)</p> </blockquote> <p>جمہوری نظام پر دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں جمہوری عمل کے نتیجے میں جو سیاسی رہنما منظر عام پر آئے ہیں، انھوں نے ہمیشہ اخلاقی پستی ہی کا مظاہرہ کیا ہے۔ حکومت کی زمام کار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دیناملک و قوم کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کرنے کے مترادف ہے۔ یہ بات کچھ ایسی غلط نہیں ہے، مگر اس کا علاج قومی اداروں کا انہدام نہیں، بلکہ ان کا استحکام ہے۔ ادارے جس قدر مستحکم ہوں گے، احتساب کا نظام بھی اسی قدر بہتر ہو گا۔ اگر ہم اداروں کو ان کے بننے کے عمل سے پوری طرح گزرنے ہی نہیں دیں گے تو طالع آزما لوگ قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر قربان کرتے رہیں گے۔ اداروں کا استحکام بھی سیاسی عمل کے تسلسل کے بغیر ممکن نہیں۔</p> <p>چوتھا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے اقدامات کے لازمی نتیجے کے طور پر عوام اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں اور اجتماعی معاملات میں ان کی دل چسپی کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ صورت حال معاشرے کی صحت کے لیے کسی طرح بھی مفید نہیں ہے۔ معاشرہ اسی وقت صحیح معنوں میں ترقی کی راہ پر گام زن ہوتا ہے جب اس کا ہر فرد قومی تعمیر کے عمل میں پوری طرح شریک ہو۔ مگر جب وہ اپنے اور اپنی قوم کے مستقبل کے حوالے سے شبہات کا شکار ہو گا تو پوری دل جمعی کے ساتھ اپنا کردارادا نہیں کر پائے گا۔</p> <p>پانچواں مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے اقدامات کے نتیجے میں فردواحدبلا شرکت غیرے اقتدار کا مالک بن جاتا ہے۔ کوئی فرد واحد اپنی ذات میں بہت ایمان دار ہو سکتا ہے، اخلاق و کردار کے حوالے سے بہت بہتر ہو سکتا ہے، قیادت و سیادت کی بے پناہ صلاحیتوں کا حامل ہو سکتا ہے، سیاسی بصیرت سے بہرہ مند ہو سکتا اور قومی تعمیر کے لیے بہت متفکر ہو سکتا ہے۔ یہ تمام خصائص، بلاشبہ کسی فرد کی شخصی عظمت پر دلالت کرتے ہیں، لیکن ان سب کا کسی ایک شخص میں اجماع بھی اسے یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ عوام کی رائے کے بغیر مسند اقتدار پر قابض ہو جائے۔ دین و اخلاق اور عقل و فطرت کے مسلمات کے اعتبار سے اقتدار کے لیے صرف اور صرف ایک شرط ہے اور وہ رائے عامہ کی اکثریت کا اعتماد ہے۔ یہ اعتماد اگر حاصل ہے توذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر اور نواز شریف جیسے افراداپنی تمام خامیوں کے باوجود اقتدار کے حق دار ہیں اور اگر یہ اعتماد حاصل نہیں ہے تو ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف جیسے افراد اپنی تمام خوبیوں کے باوجود اقتدار کے مستحق نہیں ہیں۔</p> </section> </body>
0016.xml
<meta> <title>اہل سیاست اور سیاسی استحکام</title> <author> <name>سید منظور الحسن</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Mahnama Ishraq May 2007</name> <year>2007</year> <city>Lahore</city> <link>https://www.javedahmedghamidi.org/#!/ishraq/5adb73a4b7dd1138372dc579?articleId=5adb745bb7dd1138372dd8e0&amp;year=2007&amp;decade=2000</link> <copyright-holder>Al-Mawrid</copyright-holder> </publication> <num-words>1552</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
اہل سیاست اور سیاسی استحکام
1,552
No
<body> <section> <p>پاکستان میں جمہوری اقدار کو غیر مستحکم کرنے کا الزام جس قدر فوج اور بیوروکریسی پر عائد کیا جاتا ہے، اسی قدر اس کے مستحق اہل سیاست بھی ہیں۔ جتنی یہ بات درست ہے کہ اگر فوج اور بیوروکریسی کے ادارے اپنے دائرۂ کار تک محدود رہتے تو ملک سیاسی خلفشار سے محفوظ رہتا، اتنی ہی یہ بات بھی صحیح ہے کہ اگر سیاست دان اپنے فرائض بخوبی انجام دیتے تو سیاسی استحکام کی منزل زیادہ مشکل نہ ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے نہ صرف اپنے فرائض سے غفلت برتی ہے، بلکہ مجرمانہ افعال کا ارتکاب کیا ہے۔ گزشتہ پچاس ساٹھ برسوں میں انھوں نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے، اس کے بعد عوام کی لغت میں دھوکا اور سیاست ہم معنی الفاظ کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ لوگوں کے لیے اب اس کا تصور ہی محال ہے کہ کوئی سیاست دان ہوس اقتدار سے بالاتر ہو کر ان کی ترقی کے لیے سرگرم ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے اس جمہوریت پسند دور میں بھی بعض سادہ لوح لوگوں کی زبان پر یہ بات آ جاتی ہے کہ ان جیسے سیاست دانوں کے اقتدار سے تو فوجی حکومت ہی بہتر ہے۔</p> <p>اس صورت حال کا سبب درحقیقت چند سنگین غلطیاں ہیں جو ہمارے سیاست دانوں کے طرز عمل میں نمایاں طور پر پائی جاتی ہیں اور جن کی وجہ سے عوام ان سے مایوس ہو چکے ہیں۔</p> <p>ان کے طرز عمل کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے حصول اقتدار کی جدوجہد کرتے ہوئے دین و اخلاق، اصول و قانون اور جمہوری اقدار کی کبھی پروا نہیں کی۔ مناصب کے حصول کے لیے اگر انھیں جھوٹ بولنا پڑا ہے تو انھوں نے بولا ہے، خوشامد کرنی پڑی ہے تو کی ہے، رشوت دینی پڑی ہے تو دی ہے، وقار کو داؤ پر لگانا پڑا ہے تو لگایا ہے، یہاں تک کہ اقتدار کے قیام و دوام کے لیے اگر انھیں آمروں کے ہاتھ بھی مضبوط کرنے پڑے ہیں تو انھوں نے اس سے بھی دریغ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی میدان میں یہ لوگ فوج اور بیوروکریسی کے اشاروں پر حرکت کرنے والے کھلونوں سے زیادہ کوئی حیثیت کبھی اختیار نہیں کر سکے۔ ہماری سیاسی تاریخ کا یہ کوئی معمولی المیہ نہیں ہے کہ جب بھی کوئی غیر جمہوری اور غیر آئینی حکمران مسنداقتدار پر فائز ہوا ہے، ان اہل سیاست کی معتد بہ تعداد نے اپنی خدمات اسے پیش کر دی ہیں۔ ایسے موقعوں پر اگر کسی کی طرف سے کوئی مزاحمت بھی سامنے آئی ہے تو کسی اصول اور آدرش کی بنا پر نہیں، بلکہ محض مفادات اور تعصبات ہی کی بنا پر سامنے آئی ہے۔</p> <p>قائد اعظم نے گورنر جنرل بننے کے بعد مسلم لیگ کی صدارت سے استعفیٰ دے کر جمہوری روایت کی بنا ڈالی، مگر لیاقت علی خان نے اسے توڑکر جب وزارت عظمیٰ کے ساتھ مسلم لیگ کی صدارت بھی حاصل کرنا چاہی تو مسلم لیگی سیاست دانوں نے اسے خوش دلی سے قبول کیا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے پارلیمانی روایات کے علی الرغم پارلیمنٹ کی اکثریتی جماعت کے سربراہ خواجہ ناظم الدین کو برطرف کیا تو اہل سیاست خاموش رہے۔ اس کے بعد گورنر جنرل نے یکے بعد دیگرے محمد علی بوگرا اور چوہدری محمد علی جیسے غیر سیاسی افراد کو وزیر اعظم نامزد کیا تو مسلم لیگ کے اہل سیاست نے اس پر احتجاج کے بجائے انھیں اپنی جماعت کی صدارت بھی پیش کر دی۔ پھر گورنر جنرل نے منتخب دستور ساز اسمبلی توڑی تو اسے بھی کچھ احتجاج کے بعد قبول کر لیا گیا۔ بعد ازاں جب گورنر جنرل سکندر مرزاکے ایما پر مسلم لیگ کے مقابلے کے لیے ری پبلکن پارٹی تشکیل دی گئی جو نہ عوامی حمایت رکھتی تھی اور نہ مسلم لیگ کا مقابلہ کرنے کی اہل تھی تو مسلم لیگ کے بیش تر منتخب نمائندے اپنی جماعت چھوڑ کر اس میں شامل ہو گئے۔ اسی طرح جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے جب غیر جمہوری طریقے سے حکومتیں قائم کیں تو انھیں بھی سیاست دانوں کے طائفے سے بے شمار لوگ میسر آ گئے۔ تاریخ کے اس جائزے سے یہ بات پوری طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ہمارے اہل سیاست نے محض اپنے اقتدار کے لیے ملک میں سیاسی استحکام کو داؤ پر لگائے رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر سیاست دان ہوس اقتدار سے بالاتر رہتے اور باہم متحد ہو کرغیر جمہوری حکمرانوں کے خلاف جدوجہد جاری رکھتے تو یہ ملک اس وقت مستحکم سیاسی اقدار کا حامل ہوتا۔</p> <p>اہل سیاست کی دوسری غلطی یہ ہے کہ انھوں نے عوام کے ساتھ سراسر غیر سیاسی طرز عمل اختیار کیا۔ انھوں نے نہ عوام کے اندر اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی طرف کبھی توجہ دی، نہ ان سے رابطے کا کوئی چینل قائم کیا اور نہ ان کی تنظیم سازی کی طرف مائل ہوئے۔ انھوں نے عوام سے اگر کچھ ربط و تعلق قائم بھی کیا تو اسے بھی انتخابی جلسے جلوسوں تک محدود رکھا۔ عوام سے مینڈیٹ لینے کے بجائے اکثر ان کی یہی کوشش رہی کہ کسی دوسرے ذریعے سے ایوان اقتدار میں پہنچا جائے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ہمیشہ عوام کی ترجیحات اور امنگوں کے برعکس معاملہ کیا۔</p> <p>جب کبھی برسر اقتدار آئے تو عوام سے اپنا تعلق یکسر ختم کر لیا۔ یہ تجربہ اکثر لوگوں نے کیا کہ جو سیاسی لیڈر انتخابات کے دنوں میں اس کے ساتھ محبت سے ملتے تھے، اس کے دکھ درد کو سنتے تھے اور اس کی حاجت روائی کے وعدے کرتے تھے، انھوں نے کامیاب ہوتے ہی اسے پہچاننے سے ان کا رکر دیا۔ ان سیاست دانوں نے اقتدار میں آ کر اگر کچھ پرواکی تو صرف اقربا، احباب اور قریبی کارکنان کی۔ ترقی کے دروازے اگر کھولے گئے تو صرف قریبی لوگوں کے لیے اور اس ضمن میں میرٹ کا کوئی لحاظ نہ کیا گیا۔</p> <p>جو سیاسی جماعتیں تشکیل دیں، انھوں نے اپنے کارکنوں میں سیاسی شعور بیدار کرنے کے بجائے ارادت کے جذبات کو پروان چڑھایا۔ انھیں اس بات کی ترغیب دی کہ قائد ہی کی بات حرف آخر ہے۔ آج اگر وہ کسی بات کو غلط کہتا ہے تو وہ سراسر باطل ہے اور کل اسی بات کو صحیح کہتا ہے تو وہ عین حق ہے۔ جماعت کے اندر اسی شخص کو ترقی کے مواقع فراہم کیے جو قائد کے اشارے پر بے بہا مال وزر لٹانے کے لیے تیار ہو یا اس کی مدح سرائی میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے والا ہو۔</p> <p>ملکی سطح پر تو جمہوریت کے نعرے خوب بلند کیے، مگر اپنی جماعتوں کے اندر بدترین آمریت کا مظاہرہ کیا۔ نہ کارکنوں کواپنے قائدین منتخب کرنے کا موقع فراہم کیا، نہ نیچے سے اوپر تک مشاورت کا کوئی نظام وضع کیا اور نہ آزادی رائے کی گنجایش باقی رکھی۔ عوام کوجب بھی سڑکوں پر نکالا تو اس مقصد کے لیے نکالا کہ وہ اپنی جانوں، اپنی املاک اوراپنے وقت کی قربانی دے کر ان کے اقتدار کی راہیں ہموار کریں۔</p> <p>عوام کے ساتھ اس طرز عمل کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکلا کہ وہ ان سے پوری طرح مایوس ہو گئے۔ ان اہل سیاست پر نہ انھیں اعتماد رہا اور نہ کوئی تعلق خاطروہ باقی رکھ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ہم انتخابات کے موقع پر ان سیاست دانوں کے لیے عوام کی حمایت کا تجزیہ کریں تو اس کی حقیقت صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی دانست میں بڑی برائی کے مقابلے میں چھوٹی برائی کو ترجیح دے رہے ہوتے ہیں۔</p> <p>ان اہل سیاست کی تیسری بڑی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے ان جمہوری اقدار کو بھی پامال کر ڈالاجو ان کی اپنی بقا کے لیے ضروری تھیں۔ وہ وعدے جن کی بنا پر انھوں نے عوام سے ووٹ لیے، برسر اقتدار آ کر ان پر عمل تو کجا، کسی کو یاد بھی نہیں رہے۔ وہ جماعتیں جن کی حمایت سے وہ ایوان حکومت میں پہنچے، ان سے اپنی وفاداری تبدیل کر لینے میں انھیں کبھی تردد نہ ہوا۔ وہ آئین اور قوانین جنھیں انھوں نے خود تخلیق کیا اور جن کی حفاظت پر وہ مامور ہوئے، ان کی خلاف ورزی کو سیاسی عمل کی ضرورت سمجھا۔ پارلیمنٹ میں اختلاف برائے اختلاف ہی کی روایت قائم کی۔ اگر حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھے توحکومت کے صحیح اقدامات کی بھی مخالفت کی اور اگرمسند حکومت پر فائز ہوئے تو حزب اختلاف کے وجود ہی کو برداشت کرنے سے انکار کر دیا۔ قوم کی معاشی بد حالی کے باوجود ایسی مراعات کو اپنے لیے مختص کیا جو دنیا کی بڑی ریاستوں کے ارباب اقتدار کو بھی حاصل نہیں ہیں۔ قومی خزانے میں مالی بدعنوانی کی ایسی داستانیں رقم کیں جنھیں سن کر راہ زن بھی کانوں کو ہاتھ لگائیں۔ اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکلا کہ سیاسی جماعتیں ہوں یا مقننہ اور انتظامیہ کے جمہوری ادارے، سب تباہ و برباد ہو کر رہ گئے۔</p> <p>یہ اس طرز عمل کی ایک جھلک ہے جو ہمارے سیاست دانوں نے گزشتہ عرصے میں پیش کیا ہے۔ یہ تصویر سامنے لانے سے ہمارا مقصود یہ ہر گز نہیں ہے کہ لوگ ان کے بجائے کسی اور طرف رجوع کریں، وہ اچھے ہیں یا برے، بہرحال ملک کی زمام اقتدار سنبھالنا انھی کا استحقاق اور انھی کی ذمہ داری ہے۔ اس سے ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ اہل سیاست ماضی کے آئینے کو اپنے سامنے رکھیں اور قومی تعمیر کے لیے اپنے کردار کو نئے سرے سے ترتیب دیں۔</p> </section> </body>
0017.xml
<meta> <title>نئے میدان جنگ کا انتخاب</title> <author> <name>سید منظور الحسن</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Mahnama Ishraq June 2007</name> <year>2007</year> <city>Lahore</city> <link>https://www.javedahmedghamidi.org/#!/ishraq/5adb73a4b7dd1138372dc582?articleId=5adb745bb7dd1138372dd8e5&amp;year=2007&amp;decade=2000</link> <copyright-holder>Al-Mawrid</copyright-holder> </publication> <num-words>1420</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
نئے میدان جنگ کا انتخاب
1,420
No
<body> <section> <p>گزشتہ دو صدیوں میں ہماری ہزیمت کی داستان بار بار دہرائی گئی ہے۔ میسور، پلاسی، بالا کوٹ، دہلی، افغانستان اور عراق کے جنگی میدانوں میں ہماری شکست اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اس شکست کے اسباب و عواقب کے بارے میں ہمارے ارباب علم و دانش مختلف الخیال ہیں۔ بعض اسے اللہ کی آزمایش سے تعبیر کر کے عزیمت و استقامت کا درس دیتے ہیں۔ بعض قومی انتشار کا نتیجہ تصور کر کے اتحاد و یک جہتی کی تلقین کر تے ہیں اور بعض سپر پاورکی عسکری برتری کا مظہر قرار دے کر عسکری قوت کے حصول کا لائحۂ عمل تجویز کر تے ہیں۔ یہ سب تجزیے اور تجاویز درست ہو سکتی ہیں، مگر ایک حقیقت ان کے ماسوا بھی موجود ہے جس سے ہماری فکری اور سیاسی قیادت مسلسل صرف نظر کر رہی ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری قوم نے جنگ کے لیے غلط میدان کا انتخاب کر رکھا ہے۔ ایک ایسا میدان جنگ جس میں ہم پے در پے شکست کھا رہے ہیں۔ یہ مادی قوت کا میدان ہے۔ اس قوت کا مظہراگر دولت ہے تو ہمارے ہاتھ میں کاسۂ گدائی ہے، اگر علم و فن ہے تو ہمارا جہل مسلم ہے، اگر اسلحہ ہے تو ہم بے دست و پاہیں اور اگر اقتدار ہے توہم محکوم محض ہیں۔ مادی قوت کے ان تمام مظاہر سے ہمارا وجود بالکل خالی ہے۔ اس حقیقت کے تلخ نتائج کا مسلسل شکار ہونے کے باوجود ہم مسلسل اسی میدان میں جان کی بازی لگا رہے ہیں۔ یہ عمل اگرسوچا سمجھا ہوتا تو سوچ کے زاویوں کو نیا رخ دے کر ہزیمت کی گردش سے نکلا جا سکتا تھا، مگر المیہ یہ ہے کہ یہ سرتاسر بے شعوری پر مبنی ہے۔ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ ہم مادی قوت کے جس میدان میں برسر جنگ ہیں، اس میں فتح و کامرانی کے اسباب علوم و فنون، زراعت و معدنیات اور صنعت و تجارت ہیں۔ انھیں بعض اقوام نے جمع کر کے مادی قوت کے میدان میں اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ جذباتی نعروں، موہوم تمناؤں اور بے بنیاد دعووں کے ذریعے سے ہم یہ اجارہ داری ختم کر سکتے ہیں۔ ہماری بے شعوری کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ ہم نے افغانستان میں اپنی کمزوری کا ہر سطح پر مشاہدہ کر لینے کے بعد بھی سرزمین عراق کو اسی میدان جنگ کا مرکز بننے دیا ہے۔ </p> <p>بہرحال صداقت صرف اور صرف یہ ہے کہ موجودہ حالات میں مادی قوت کا میدان ہماری ہزیمت کا میدان ہے۔ ہم اگر اسی کمزور حیثیت سے اس میدان میں برسر پیکار رہے تو خدانخواستہ بربادی کی عبرت انگیز داستانیں رقم ہوتی رہیں گی اور قانون الٰہی کے عین مطابق شکست ہی ہمارا مقدر ٹھہرے گی۔ اس میدان میں اگر ہم کوئی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ پہلے اس میدان سے نکل کر مادی قوت کے وہ تمام اسباب و وسائل حاصل کریں جو کامیابی کے لیے ناگزیر ہیں۔ ان کے حصول کے لیے ایک طویل جدوجہد درکار ہے۔ آج اگر ہم اس جدوجہد کا آغاز کریں تو ممکن ہے کہ ایک مدت بعد انھیں حاصل کر لیں۔ </p> <p>تاہم، ایک میدان جنگ ایسا ہے جس میں فتح یابی کے اسباب و و سائل اس وقت بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگرہم اس میں سرگرم عمل ہوں تو دنیا کی سب اقوام مل کر بھی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اس میدان میں ہماری فتح یقینی ہے۔ یہ مادی قوت کا نہیں، بلکہ فکری قوت کا میدان ہے۔ ہمارے پاس پروردگار عالم کی آخری ہدایت کی صورت میں لافانی فکری قوت موجود ہے۔ یہودیت ہو یا عیسائیت، بدھ مت ہو یا ہندو مت، تمام مذاہب عالم پر اس کی فضیلت مسلم ہے۔ تصوف، لادینیت، اشتراکیت، سرمایہ داری اور دیگر سیاسی، معاشی اور عمرانی افکار میں سے کوئی فکر بھی اسے چیلنج کرنے کا اہل نہیں ہے۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ اگر اس میدان میں مغرب سقراط و فلاطوں سے لے کر فرائڈ اور مارکس تک فلاسفہ کی تمام فکری قوت کو بھی مجتمع کر لے تب بھی اس کی رسائی محمد عربی کے افکار تک نہیں ہو سکتی۔ </p> <p>یہ مقدمہ اگر درست ہے تو پھر ہمیں یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ اب ہمیں اقوام عالم کی علاقائی سرحدوں کو نہیں، بلکہ نظریاتی سرحدوں کو ہدف بنانا ہے، ہمیں ان کے ملکوں پر نہیں، بلکہ ان کے افکارپر تاخت کرنی ہے اور ہمیں ان کے جسموں کو نہیں، بلکہ دل و دماغ کوتسخیر کرنا ہے۔ چنانچہ اس نئے میدان میں ہمیں تعلیم و تعلم، اصلاح و دعوت اور اخلاق و کردار کے زور پر دنیا کو یہ بتاناہے کہ پیغمبر اسلام کی رسالت ایک ثابت شدہ تاریخی حقیقت ہے۔ یہودیت اور نصرانیت جیسے الہامی ادیان کا اثبات بھی اس رسالت کے اثبات پر منحصر ہے۔ یہ واضح کرنا ہے کہ زمین پر اللہ کی ہدایت کا آخری اور حتمی منبع قرآن مجید ہے۔ اس کی حفاظت کے انتظام، اس کی شان کلام اور اس کے خالص عقلی و فطری مشمولات کی بنا پر اس کی حاکمیت دیگر الہامی صحائف اور افکار فلاسفہ پرہر لحاظ سے قائم ہے۔ چنانچہ عقیدہ و ایمان اور فلسفہ و اخلاق کے تمام مباحث میں رہتی دنیا تک اسے میزان اور فرقان کی حیثیت حاصل ہے۔ ہر نظریے اور ہر عمل کو اب اس کی ترازو میں تلنا اور اس کی کسوٹی پر پرکھا جانا ہے۔ اس میدان میں ہمیں یہ بھی تسلیم کرانا ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کوصحیح خطوط پر قائم کرنے کا وا حد راستہ اسلامی شریعت ہے۔ اس ضمن میں یہ ان مسئلوں کو بھی حل کرتی ہے، جنھیں انسانی عقل اپنی محدودیتوں کی وجہ سے حل نہیں کر سکتی۔ اس کی روشنی میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جس میں حیا کو بنیادی قدر کی حیثیت حاصل ہو اور معاشرے کی اکائی خاندان کو اس قدر استحکام حاصل ہو کہ انسان بچپن اور بڑھاپے کی ناتواں زندگی بھی خوش و خرم گزار سکے۔ ایک ایسا نظم معیشت وجود میں آسکتا ہے جو لالچ، جھوٹ اور استحصال سے پاک ہو۔ ایک ایسی ریاست وجود میں آسکتی ہے جس کا نظام شہریوں کی فلاح کا ضامن اور عدل و انصاف کا عکاس ہو۔ اس کی برکت سے دنیا میں ایک ایسے ماحول کا وجود پذیر ہونا ممکن ہے جس میں انسان کا اصل ہدف دنیا نہیں، بلکہ آخرت ہو۔ انسان اپنی دنیوی ذمہ داریاں مسابقت کے پورے جذبے کے ساتھ انجام دے، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کی نظر اخروی کامیابی پر ہو۔ اس بنا پر یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ شریعت کی روشنی جس خطۂ ارضی کو منور کر دے، اس میں دہشت، درندگی، ظلم اور اخلاق باختگی کے مظاہر شاذ ہو جاتے ہیں۔</p> <p>فکری قوت کے اس میدان میں پیش قدمی کو حالات زمانہ نے بہت سازگار بنا دیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک افراد، اقوام اور حکمران جنگ کی نفسیات میں جیتے تھے۔ جس کے پاس مادی قوت ہو، اس کا یہ حق تسلیم شدہ تھا کہ وہ اگر چاہے تو اخلاقی جواز کے بغیر بھی کمزور کوتر نوالا بنا لے۔ چنگیز، ہلاکو، ہٹلر اور میسولینی جیسے حکمران قوموں کی تباہی کو اپنا حق سمجھتے تھے۔ خوف و دہشت کو بین الاقومی قانون کی حیثیت حاصل تھی۔ یہ فضا اب تبدیل ہو گئی ہے۔ دنیا کا اجتماعی ضمیر جنگ کی نفسیات سے نکل آیا ہے۔ جنگ سے نفرت اور امن سے محبت کا چلن ہے۔ انسان دوسرے انسانوں کے اور اقوام دوسری قوموں کے حق خود ارادی کو تسلیم کرنے لگی ہیں۔ خوف و دہشت کے مظاہر عظمت کے بجائے ذلت کی علامت قرار پا گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی قیادت کواپنی ظالمانہ کارروائیوں کے لیے بھی دہشت گردی، کیمیائی ہتھیار اور آمریت جیسے مقدمات کا سہارا لینا پڑتا ہے اور اس کے باوجود امریکہ سمیت پوری دنیا، بلا استثناے قوم و مذہب سراپا احتجاج ہے۔ پھر میڈیا کی عظیم وسعت نے دنیا کے ہرشخص تک رسائی کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اس صورت حال میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اسلام کی دعوت کے لیے میدان بالکل صاف ہے اور یہ آج جس قدر موثر ہو سکتی ہے، گزشتہ زمانے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ اس وقت ہمارے لیے واحد لائحۂ عمل یہ ہے کہ جب تک ہم مادی اعتبار سے ضروری قوت بہم نہیں پہنچا لیتے، اس وقت تک اپنی تمام تر توانائیاں فکری قوت کے میدان میں بروئے کار لائیں۔ یہی ہماری فتح یابی کا میدان ہے۔ ایک ایسا میدان جس میں شکست کا کوئی تصور نہیں ہے۔</p> </section> </body>
0018.xml
<meta> <title>اداریہ</title> <author> <name>نجیبہ عارف</name> <gender>Female</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 4</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/0.2_page_no.5_7_idariah_vol_4.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>837</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
اداریہ
837
No
<body> <section> <p>ردو پاکستان کی قومی زبان ہے اور ایک عظیم تہذیبی وثقافتی ورثے کی امین و عکاس ہے۔ پاکستان کے عمومی سیاسی و معاشرتی منظر نامے میں بعض اوقات اس زبان کی حقیقی قدر و قیمت کے تعین میں کوتاہی بھی ہو جاتی ہے لیکن پاکستان کی ایک بڑی اکثریت اردو کے فروغ و ارتقا پر متفق رہی ہے۔ یہ واحد زبان ہے جو پاکستان کے تمام علاقوں کے درمیان رابطے اوریک جہتی کاذریعہ ہے۔ پاکستانی عوام، خواہ وہ کسی طبقے سے تعلق رکھتے ہوں، اردو ہی کو اپنے علمی وفکری اظہارکا بہترین وسیلہ خیال کرتے ہیں۔ معاشرتی سطح پر اس کی پذیرائی کا ایک ثبوت نوجوان نسل کے وہ بچے ہیںجو انگریزی اسکولوں میں تعلیم حاصل کر کے نکلے ہیں، اور جنھیں اب تک اپنی تہذیب و ثقافت سے بیگانہ خیال کیا جاتا تھا، مگر وہ بھی اردو پر شرمانے کی بجائے اسے اپنانے کی طرف مائل ہیں۔ تاہم یہ بات کسی بھی طرح پاکستان کی دیگر زبانوں کی اہمیت اورضرورت کو کم نہیں کرتی۔ پاکستان کی تمام زبانیں اپنی تہذیبی ثروت مندی، ادبی ورثے اور سماجی اظہار کی بیش بہاصلاحیت کے باعث اپنی اپنی جگہ قابلِ فخر مقام کی حامل ہیں اورہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ یہ زبانیں بھی ترقی کر کے جلد از جلد علمی اظہار کی صلاحیت حاصل کر لیں۔ تاہم اردو کو یہ امتیازضرور حاصل ہے کہ یہ ایک طرف توپاکستان کے ہر خطے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور دوسری طرف کئی سو برس کے ارتقائی مراحل سے گزرنے کے بعد جدید علمی انکشافات کے ابلاغ پر قادر ہے۔ اگرچہ یہ زبان دنیا کے کئی ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور ہندوستان کی تو قومی زبانوں میں سے ایک ہے لیکن معروضی حقائق کا ادراک کرنے پر احساس ہوتا ہے کہ اردو کے اس علمی و ادبی سرمائے کی حفاظت اور اس کا فروغ اب مملکت پاکستان ہی کی ذمہ داری ہے۔ </p> <p>لاہور یونی ورسٹی آف مینجمنٹ سائنسزکے گرمانی مرکز زبان و ادب کے زیر اہتمام بنیاد جیسے علمی وتحقیقی مجلے کااجرا اردو زبان کے حوالے سے اس اہم قومی ذمہ داری سے نبرد آزما ہونے کی ایک قابلِ ستائش کوشش ہے۔ بنیاد کا تازہ شمارہ پیشِ خدمت ہے۔ گرمانی مرکز زبان و ادب کے فیصلے کے مطابق اب یہ شمارہ سالانہ بنیاد پر شائع کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی ضخامت پہلے شماروں سے زیادہ ہے۔ مشمولات کے حوالے سے مجلے میں موضوعاتی تنوع پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور تحقیق، تنقید، تراجم اور تبصرۂ کتب کو علیحدہعلیحدہ عنوانات کے تحت ترتیب دیا گیا ہے۔ اس شمارے میں ’’بیادِرفتگاں‘‘ کے عنوان سے ایک خصوصی گوشہ ترتیب دیا گیا ہے۔ اس حصے میں معروف محقق عبدالستّارصدیقی کی علمی و تحقیقی خدمات کے مفصل مطالعے پر مبنی مقالے کے علاوہ اردو نظم کے معروف شاعر میرا جی کے تخصیصی مطالعات بھی شامل ہیں، جس میں ان کی شعری و فکری جہات کے علاوہ ان کے تراجم کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ اس شمارے کے لیے ہمیں پاکستان کے علاوہ جرمنی، امریکہ اور بھارت کے نامور اساتذہ، محققین اور علما کے مقالات بھی موصول ہوئے ہیں۔ ہم ان تمام مقالہ نگاروں کے ممنون ہیں۔ امید ہے ہمیں صاحبانِ علم و فضل کا تعاون اسی طرح حاصل رہے گا۔ </p> <p>بنیادکی مہمان مدیر کی حیثیت سے لازم ہے کہ میں گرمانی مرکز کی رابطہ کار محترمہ یاسمین حمیدصاحبہ اور ان کے معاونین، خصوصاً احمد بلال اور ذیشان دانش کی بھرپور معاونت، مشاورت اور عملی و اخلاقی مدد کانہ صرف اعتراف کروں بلکہ شکریہ بھی ادا کروں۔ یاسمین حمید صاحبہ، بنیادکی ترتیب و تدوین کے ہر مرحلے پر شریک کار رہیں۔ بلال جب تک ملک میں موجود رہے، مسلسل بنیاد سے متعلق فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ان کے جانے کے بعد یہ ذمہ داری ذیشان دانش نے بہت خلوص اور جاں فشانی سے نبھائی۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈین کلیۂ انسانی و سماجی علوم، پروفیسر انجم الطاف کی حوصلہ افزائی اور اخلاقی مدد بھی قابلِ تحسین ہے۔ اردو اور پاکستان کی دیگر زبانوں اور ان کے ادب سے انھیں جو ربطِ خاص ہے، اس کے اظہار کی ایک صورت بنیاد میں ان کی خصوصی دلچسپی کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہاں بنیادکے سابق مدیر اعلیٰ، سید نعمان الحق، مدیر منتظم اطیب گل اور ناظمِ طباعت و اشاعت محمد نویدکا شکریہ بھی واجب ہے، جنھوں نے اس مجلے کے حوالے سے ایک مضبوط علمی و تحقیقی روایت کی بنا رکھی اور اس کا ایک جمیل اور خوش نظر سانچا تیار کر دیا۔ چناںچہ ہم نے روایت کے تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے، اسی تحقیقی و طباعتی انداز کو اختیار کیا ہے۔ ان تمام اہلِ علم کا بھی شکریہ، جنھوں نے صلے کی پروا کیے بغیر بنیادکے لیے موصول ہونے والے مقالات کو دقت نظری سے پرکھا اورہمیں بنیاد کا علمی معیار قائم رکھنے میں مدد دی۔</p> <p>آخر میں اس ذات کے حضور احساسِ تشکر جو الاوّل بھی ہے اورالآخر بھی۔ اس دعا کے ساتھ کہ ہم سب کوشہر علمؐ اور بابِ شہر علمؑ کی نسبت سے علم اور ادب کی توفیق ارزانی ہو!</p> <p>نجیبہ عارف</p> <p>مہمان مدیر،</p> <p>مئی ۲۰۱۳ئ؍ رجب المرجب ۱۴۳۴ھ</p> </section> </body>
0019.xml
<meta> <title>عالمِ اسلام میںطباعت کا آغاز اورتذبذب: جنوبی ایشیا میں فارسی طباعت کے عروج و زوال کا مطالعہ</title> <author> <name>معین الدین عقیل</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 4</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/1_moinuddin_aqeel_bunyad_2013.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>6170</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
عالمِ اسلام میںطباعت کا آغاز اورتذبذب: جنوبی ایشیا میں فارسی طباعت کے عروج و زوال کا مطالعہ
6,170
Yes
<body> <section> <heading>دنیاے اسلام، مخطوطات سے مطبوعات تک:</heading> <p>طباعت نے ابلاغِ علم میں جو انقلاب برپا کر دیا تھا، اور مغربی عیسائی دنیا نے عہدِ وسطیٰ میں اپنی مذہبی زندگی کی تشکیل ِنو میں اس وسیلے کو استعمال کرتے ہوئے جو فوائد حاصل کرنے شروع کر دیے تھے، اسلامی دنیا ابھی ان سے محروم تھی اور انیسویں صدی کے اوائل تک، عیسائی دنیا سے چار صدیوں کے بعد بھی، اس میں طباعت کا آغاز نہ ہو سکا تھا۔ اسلامی دنیا کے ان ممالک میں، جہاں اسلامی اقتدار کو مغربی توسیع پسندی سے خطرات لاحق تھے، جیسے ترکی، مصر اور پھر ایران، وہاںمطابع اگرچہ انیسویں صدی کے آغاز میں قائم ہونے شروع ہوگئے تھے، لیکن انیسویں صدی کے نصف آخر تک یہاں طباعت عام نہ ہو سکی تھی۔ لیکن جنوبی ایشیا میں صورتِ حال قدرے مختلف تھی۔</p> <p>واقعہ یہ نہیں تھا کہ مسلمان طباعت سے واقف نہیں ہوئے تھے۔ ترکی میں ۱۴۹۳ئ تک اسپین سے آنے والے یہودی آبادکاروں نے اپنے مطابع قائم کر کے اپنی مذہبی اور کچھ علمی کتابیں شائع کرنی شروع کر دی تھیں اور دیگر اسلامی ملکوں میں بھی یہودیوں اور عیسائیوں نے مطابع سے کام لینا شروع کر دیا تھا۔</p> <p>اس کا سبب یہ بھی نہیں تھا کہ دنیاے اسلام کی زبانوں کے رسم الخط کی متحرک حرفی طباعت کے لیے الفاظ میں چار مختلف صورتوں میں تقسیم کا عمل انھیں نسبتاً مشکل لگا ہو، جب کہ پندرھویں صدی میں قرآن عربی رسم الحظ میں شائع ہو چکا تھا اور سولھویں صدی میں شام کے عیسائی باشندے عربی کتابوں کی اشاعت کے لیے مطابع استعمال کرنے لگے تھے۔</p> <p>مسلمانوں کا حفظ، علم ِسینہ اور خطاطی وکتابت کی ان کی اپنی منفرد اور قابل فخرروایات نے مسلمانوں کے لیے طباعت کو قابلِ قبول نہ بنایا۔ طباعت کے لیے مخطوطے یا مسودے کی نقل نویسی میں جو اغلاط روا رہ جاتیں، وہ ان کے لیے گوارا نہ تھیں۔ خود مصنف کا لکھا ہوا ان کے لیے قابلِ اعتبار تھا اور استناد رکھتا تھا۔ پھر طباعت کے عمل میں روا رہنے والی بدصورتی اس وقت مسلمانوں کے جمالیاتی ذوق سے قطعی مختلف تھی اور قرآن کی حد تک حد سے زیادہ احتیاط اور حسن کاری کی مستحکم و مستقل روایت نے طباعت کو اختیار کرنے کے خیال کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ کیوں کہ وینس (اٹلی) سے ۱۵۲۷ئ میں شائع ہونے والے قرآن میں بعض حروف، جیسے ’د‘ اور ’ذ‘ وغیرہ کے درمیان امتیاز برقرار نہ رہ سکا تھا۔ مگر یہ ابتدائی تجرباتی عمل تھا، بعد میں صورت حال بہتر ہوتی رہی، لیکن مسلمانوں کا ذہن ایک عرصہ تک طباعت کو گوارا نہ کر سکا۔ شاید اس گریز پائی کے اس رویے میں ان کا یہ خیال بھی کار فرما رہا کہ کفار کی اس ایجاد کا استعمال کفر میں ان کی شرکت یا کفر کی معاونت کے مساوی رہے گا۔ لیکن اس مرحلہ پر، یہ رویہ صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں تھا، قدامت پرست عیسائی یا کیتھولک بھی طباعت کے آغاز کے ایک عرصہ بعد تک اس کی راہ میں اسی طرح مزاحم رہ چکے تھے۔</p> <p>اگرچہ مذہبی کتابوں کی اشاعت خود دنیاے اسلام میں متعدد ملکوں کے لیے ناقابل قبول تھی، لیکن ترکی، عہدِ زار کے روس اور ہندوستان کا نقطۂ نظر مختلف تھا۔ یہاں انیسویں صدی کے اوائل میں مذہبی کتابوں کی اشاعت شروع ہو گئی۔ ’وہابی‘ اولین مسلمان تھے، جو حج کے لیے دخانی کشتیوں اور جہاد کے لیے آتشیں اسلحہ کے استعمال کے آغاز کی طرح، اپنے خیالات کی عام اشاعت کے لیے طباعت کے جدید وسیلے کو اختیار کرنے میں مذبذب نہ ہوئے۔ چناں چہ مسلمان دانش وروں اور ان کے زیر اثر حکومتوں کا رویہ کچھ عرصے میں طباعت کے حق میں استوار ہو گیا۔ وہ یورپ میںطباعت کے مفید اثرات کو دیکھتے ہوئے اسے نہ صرف علوم کی ترقی اور معاشرتی اصلاح کے لیے بلکہ علومِ اسلامیہ کے فروغ کی خاطر عالم ِاسلام کے لیے ناگزیر سمجھنے لگے تھے۔ ان کے متوازی حکمران طبقے نے طباعت کو اپنی حکمت عملی کے نفاذ اور اس کی کامیابی کے لیے بطور وسیلہ و ہتھیار اختیار کرنا قرین مصلحت سمجھا۔ ترکی میں اولاً سلطان مراد سوم (۱۵۴۶ئ۔ ۱۵۹۵ئ) نے اکتوبر ۱۵۸۸ئ میں یورپی تاجروں کو عربی رسم الخط میں مطبوعہ کتابوں کو ترکی میں درآمد کرنے کی اجازت دے دی اور سلطان احمد سوم (۱۶۷۳ئ۔ ۱۷۳۶ئ) نے اس اقدام سے آگے بڑھ کر ۱۷۲۷ئ میں اپنی قلم رو میں مطابع کے قیام کی اجازت بھی دے دی، لیکن یہ اجازت صرف غیر مذہبی کتابوں تک محدود تھی۔ اس اجازت سے فائدہ اٹھا کر ابراہیم متفرقہ (۱۶۷۰ئ۔۱۷۴۵ئ) نے، جو ہنگری سے آکر استنبول میں بس گیا تھا اور اسلام بھی قبول کرلیاتھا، ۱۷۲۷ئ میں دنیاے اسلام کا پہلا مطبع قائم کیا۔ یہاں سے محض تاریخی اور سائنسی کتابوں کی اشاعت کے باوجود علما اور عام مسلمانوں کی جانب سے اس کی اتنی شدید مخالفت ہوئی کہ ۱۷۴۲ئ کے بعد یہ مطبع قائم نہ رہ سکا، بند ہو گیا۔ </p> <p>ترکی میں طباعت کا عمل، محدود اور مختصر مدت تک رہنے کے باوجود، دنیاے اسلام کے لیے مؤثر اور محرک ثابت ہوا۔ یورپ سے عربی مطبوعات کی درآمد کے ساتھ ساتھ لبنان میں ۱۷۳۴ئ میں عربی میں طباعت شروع ہو گئی، لیکن یہاں سے شائع ہونے والی کتابیں عیسائیت اور اس کی تبلیغ کے لیے مخصوص تھیں اور یہ محدود تعداد میں شائع ہوئیں۔ اس وقت حالات ایسے تھے کہ عرب دنیا نے یورپی افکار سے اثرات قبول کرنے شروع کر دیے تھے۔ یہی اثرات تھے جنھوں نے اس وقت کی دنیاے اسلام میں ترکی اور مصر کو سب سے پہلے متاثر کیا۔ مصر میں، خلفاے عباسیہ کے دارالترجمہ کی روایت کا ایک اگلا اور مؤثر اقدام طباعت کے شروع ہونے پر محمد علی پاشا (۱۷۸۶ئ۔ ۱۸۴۹ئ) کے دورِ حکمرانی میں نظر آتا ہے، جب حکومت کی سرپرستی میں قائم دارالترجمہ نے مغربی تصانیف کے ترجمے کرانے شروع کیے اور ۱۸۲۲ئ اور ۱۸۴۲ئ کے عرصے میں ۲۴۳ کتابیں قاہرہ میں شائع ہوئیں۔ یہ اگرچہ عربی زبان کے مرکز قاہرہ میں شائع ہوئیں، لیکن ان میں سے تقریباً نصف ترکی زبان میں تھیں۔ حکومت کی سرپرستی میں یہاں ۱۸۱۹ئ سے سرکاری مطبع نے طباعت کا کام شروع کر دیا تھا۔</p> <p>ایران میں بھی طباعت حکمراں طبقے کی توجہ کے باعث شروع ہوئی اور اس کا آغاز، مصر سے کچھ پہلے، ۱۸۱۶ئ میں عباس مرزا، نائب السلطنت (۱۷۸۹ئ - ۱۸۳۳ئ) نے تبریز میں ایک مطبع قائم کر کے کیا۔ قریب قریب اسی وقت عبدالوہاب معتمد الدولہ (متوفی ۱۸۲۷ئ) نے تہران میں ایک مطبع قائم کیا۔ یہ مطابع حکمراں طبقے کی طباعت میں اس دلچسپی کے مظہر ہیں، جس کا آغاز کئی سال قبل ۱۷۸۴ئ میں اس وقت دیکھا جاسکتا ہے، جب عباس مرزا نے جعفر شیرازی کو ماسکو اور اسد آغا تبریزی (جس کے والد اور بھائی کا ایک مطبع، ایک روایت کے مطابق، پہلے ہی تبریز میں قائم تھا) کے بیان کے مطابق، مرزا صالح شیرازی (متوفی ۱۸۳۹ئ)، وزیر تہران نے فارس کے ایک باشندے مرزا اسد اللہ کو سینٹ پیٹرس برگ بھیجا تھاتاکہ وہ سنگی طباعت کا فن سیکھ سکے۔ مرزا اسد اللہ کی واپسی پر تبریز میں پہلا سنگی مطبع قائم ہوا، جو پانچ سال کے بعد تہران منتقل کر دیا گیا۔ ۱۸۲۷ئ میں زین العابدین تبریزی کے زیر اہتمام بھی تبریز میں ایک مطبع کے قیام کا پتا چلتا ہے۔ کچھ ہی عرصے میں ایران کے دیگر شہروں میں بھی مطابع قائم ہونے لگے۔ محض تبریز میں، جو اس وقت ایران کا سب سے بڑا شہر تھا، ۱۸۴۶ئ میں کم از کم مطابع کام کر رہے تھے۔</p> <heading>جنوبی ایشیا میں ابتدائی طباعتی سرگرمیاں: فارسی طباعت کا آغاز:</heading> <p>ترکی، مصر اور ایران کے مقابلے میں جنوبی ایشا میں صورتِ حال مختلف تھی۔ یہاں کے مسلمانوں کا رویہ بھی دنیاے اسلام کے دیگر مسلمانوں سے مختلف نہ تھا، لیکن وہ اس کی افادیت کے منکر نہ تھے۔ چناںچہ مغل حکمرانوںمیںسے جہانگیر (۱۶۰۵ئ۔ ۱۶۲۷ئ) کو جب جیسوٹ (Jesuits) مبلغین نے عربی میں اٹلی میں طبع شدہ انجیل کا ایک نسخہ دکھایا، تو جہانگیر نے ان سے نستعلیق میں ٹائپ ڈھالنے کے امکانات پر گفتگو کی تھی۔ لیکن دوسری جانب شاہجہاں (۱۶۲۸ئ۔ ۱۶۵۷ئ) کے ایک وزیر سعد اللہ خاں (متوفی ۱۶۷۶ئ) کو ۱۶۵۱ئ میں جب ایک مطبوعہ عربی کتاب بطور تحفہ پیش کی گئی تو اس نے اسے لینے سے انکار کر دیا۔ یہی رویہ رہا کہ طباعت کے مروج ہوجانے پر بھی، دو تین دہائیوں تک، نستعلیق یا نسخ کے شیدائیوں میں طباعت کو خود اختیار کرنے کا احساس عام نہ ہو سکا۔ چناں چہ انیسویں صدی کے اوائل تک، ایک دو مستثنیات سے قطع نظر، جنوبی ایشیا میں جو بھی طباعتی سرگرمیاں دیکھنے میں آتی ہیں، وہ سب غیر ملکی افراد، تبلیغی اداروں یا ایسٹ انڈیا کمپنی کے عمال کی کوششوں کے باوصف تھیں اور اگرچہ مقامی افراد کی کوششوں کے نتیجے میں اسلامی ورثے کی حامل زبانوں: عربی، فارسی اور اردو میں طباعت اٹھارویں صدی کی تیسری دہائی میں عام ہو سکی، لیکن یہاں اس کا آغاز سولھویں صدی کے وسط (۱۵۵۶ئ) سے ہو چکا تھا۔ اس وقت تک ان زبانوں میں طباعت کے نمونے ان کتابوں تک محدود تھے، جویورپ کے مختلف مقامات پر شائع ہوتی رہیں اور یہ مقامی زبانوں کی ان مطبوعات میں جزوی عبارتوں یا الفاظ کی شمولیت تک مخصوص تھے، جو یہاں کے مختلف مقامات پر قائم ہونے والے مطابع میں شائع ہوئیں۔ لیکن برطانیہ کے زیرِاقتدار علاقوں میں طباعت کے آغاز و فروغ کی رفتار سست رہی۔ یہاں اوّلین مطبع ۱۷۶۱ئ میں پانڈی چری میں فرانسیسیوں کی شکست کے نتیجے میں مال غنیمت کے طور پر انگریزوں کے ہاتھ لگا۔ یہ مطبع مدراس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے سرکاری احکام اور جنتریوں کی طباعت میں کام آنے لگا۔ مگر فارسی میں طباعت کا تسلسل اور مستقل یا مکمل کتابوں کی اشاعت اس وقت ممکن ہو سکی، جب مطابع کلکتہ میں قائم ہوئے اور ان مطابع نے اپنی اپنی ضرورتوں اور مصلحتوں کے تحت فارسی (اور اردو) میں طباعت کا خاص فنی اہتمام کیا۔</p> <p>جنوبی ایشیا میں طباعت کو اس وقت تک سرکاری سرپرستی حاصل نہیں تھی۔ یہاں مطابع کے قیام کی دو سو سے زائد سالوں پر مشتمل تاریخ میں جو بھی طباعتی سرگرمیاں سامنے آئیں، وہ زیادہ تر عیسائی تبلیغی جماعتوں کے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے قائم کردہ مطابع کے باعث تھیں یا چند تاجرانہ مطابع بھی وقتاً فوقتاً اس ضمن میں سرگرم رہے۔ پھر ایسے جو مطابع قائم تھے وہ صرف ان عیسائی انجمنوں کے قائم کردہ اداروں یا ان کی آبادیوں میں کام کر رہے تھے اور ان کی مطبوعات کے موضوعات بھی ان کے مقاصدہی کی تکمیل کے لیے مخصوص تھے۔ محض چند مطبوعات ایسی تھیں، جن پر تبلیغی یا مذہبی کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ طب یا پھر جغرافیہ و تاریخ سے تعلق رکھتی تھیں اور بالعموم متعلقہ ادارے یا طابع کے اپنے ملک کی زبان میں چھاپی جاتیں۔ ان مطابع نے اگرچہ مقامی زبانوں میں بھی کتابیں اور جنتریاں وغیرہ چھاپنی شروع کر دی تھیں مگر نسخ یا نستعلیق میں طباعت کا تسلسل تو در اصل اس وقت قائم ہوا جب مطابع کلکتہ میں قائم ہوئے، جو مغرب کی ایک مستحکم اور ترقی یافتہ طاقت برطانیہ کے زیر نگیں آچکا تھا اور جنوبی ایشیا میں اٹھارویں صدی کے نصف آخر میں اس کا ایک ایسا مرکز بن گیا تھا، جہاں یورپی افکار اور تازہ ایجادات سے تربیت یافتہ افراد، علما اور مدبرین کی ایک خاصی تعداد اس وقت جمع ہو گئی تھی اور ان میں سے چند افراد کی ذاتی دلچسپی اور کوششوں سے یہاں مقامی زبانوں کے رسم الخط میں متحرک حرفی طباعت کی ممکنہ سہولتوں سے آراستہ مطابع نے کام شروع کر دیا تھا۔ اس وقت ان کوششوں اور مطابع کے قیام کو سرکاری سرپرستی حاصل نہ تھی۔ نہ اس ابتدائی مرحلے میں عیسائی تبلیغی انجمنوں کی یہاں اپنی طویل طباعتی سرگرمیوں کی روایت یا تجربہ ہی اس وقت روبہ عمل آیا۔ کلکتہ میں مطابع کی ابتدائی دو دہائیوں کی سرگرمیوں کے بعد کہیں عیسائی تبلیغی انجمنوں کو اس جانب آنے کا موقع ملا یا اجازت حاصل ہوئی۔ اس وقت تک یہاں مطابع کا قیام اور ان میں طباعت کا اہتمام اور پھر مقامی زبانوں میں طباعت کے تجربوں کا سارا دارو مدار انفرادی دلچسپیوں تک محدود رہا۔</p> <p>یہ وہ زمانہ ہے جب برطانوی اقتدار کو بنگال میں یہاں کے آزاد و خود مختار حکمراں سراج الدولہ (۱۷۳۳ئ۔ ۱۷۵۷ئ) کو جنگ پلاسی (۱۷۵۷ئ) میں شکست دینے کے بعد اپنے قدم اس طرح مضبوطی سے جمانے کا موقع مل گیا تھا، جو بعد میں سارے جنوبی ایشیا کو اس کے زیر اقتدار لانے کا سبب بن گیا۔ اب اس کے سامنے ایک وسیع تر علاقہ تھا جس پر استحکام حاصل کرنے اور اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے اسے جن ذرائع کو اختیار کرنا اور جن نئی یورپی ایجادات سے معاونت حاصل کرنا تھا، ان میں، اس وقت، اسلحہ اور ہتھیاروں کے بعد، دراصل مطبع ہی نے اس کے عزائم کی راہ ہموار کی۔ حال آنکہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور اس کے حکمت سازوں کو اس مرحلے پر نہ اپنے محکوم باشندوں کو مطبع کے فوائد سے ہمکنار کرنے کا خیال آیا تھا، نہ وہ اپنے ہم نسل افراد کو یہاں خود پر تنقید کا کوئی ذریعہ فراہم کرنے کے حق میں تھے۔ بلکہ خود حکومت برطانیہ، برطانیہ میں مطابع کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتی تھی اور اسے محدود رکھنے کے حق میں تھی، چناںچہ جنوبی ایشیا میں نجی مطابع کے قیام کے ایک عرصہ بعد تک نہ اس نے خود اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اپنا مطبع قائم کیا نہ اپنے عمال کو اجازت دی کہ وہ کمپنی کی ملازمت میں رہتے ہوئے کوئی مطبع قائم کر سکیں یا کسی مطبع یا جریدے سے تعلق ہی رکھ سکیں۔ اس لیے اپنی انتظامی ضرورتوں کے باوجود طباعت کا کام وہ ان مطابع سے لیتے رہے، جو نجی ملکیتوں میں تھے۔ یہ تو بنگال میں قدم جمانے کے بعدجلد ہی ایسٹ انڈیاکمپنی کو وارن ہیسٹنگز (<annotation lang="en">Warren Hastings</annotation>، ۱۷۳۲ئ۔۱۸۱۸ئ) جیسا روشن خیال مدبر ومنتظم ہاتھ آگیا تھا، جس نے اپنے زمانہ نظامت بنگال (۱۷۷۲ئ۔ ۱۷۸۵ئ) میں جہاں اس وقت موجود لائق مستشرقین کی علمی و تالیفی سرگرمیوں کی حوصلہ افرائی کی، وہیں ۱۷۸۱ئ میں ”مدرسۂ عالیہ کلکتہ“ کے قیام میں معاونت اور ۱۷۸۴ئ میں ”ایشیاٹک سوسائٹی بنگال“ کے قیام کی راہ ہموار کی۔ اس کی ایسی ہی حوصلہ افزائیوں کے باوصف نہ صرف مشرقی علوم کی تحقیقات کو تحریک ملی بلکہ یہ تحقیقات طباعت واشاعت کے دائرے میں بھی داخل ہوئیں۔ پھر یہی زمانہ تھا جب کلکتہ اپنے وقت کے سب سے بڑے مستشرق ولیم جونز (<annotation lang="en">William Jones</annotation>، ۱۷۴۶ئ۔ ۱۷۹۴ئ) کی آمد (۱۷۸۳ئ) اور اس کی کوشش سے ایشیاٹک سوسائٹی کے قیام کے نتیجہ میں مستشرقین کی بڑی آماجگاہ اور علمی و تحقیقی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تھا۔ جونز اور اس کے ہم عصر ساتھیوں نے فارسی کے مطالعہ، تراجم اور قواعد و فرہنگ نویسی پر بھی خاص توجہ دی۔</p> <p>ان تمام یورپی اقوام کے لیے، جو کسی بھی مقصد کی تکمیل کے لیے جنوبی ایشیا آتے رہے، فارسی زبان کا سیکھنا ناگزیر رہا۔ انھیں یہاں فارسی کی حیثیت کا خوب اندازہ اور تجربہ ہوتارہا۔ اعلیٰ سرکاری عمّال اور حکام سے کامیاب ابلاغ کے لیے یہ ایک مؤثر وسیلہ تھی۔ اپنے مقصد میں کامیابی کے لیے اس زبان کو صرف اداے مطلب کے لیے اختیار کرنا ہی ان کے لیے ضروری نہیں تھا، بلکہ اس میں اتنی مہارت بھی ان کے لیے ضروری تھی کہ اعلیٰ سطحی قانونی معاملات اور سرکاری و سفارتی مراسلت کے لیے بھی وہ اسے استعمال کر سکیں۔ اسی ضرورت نے ان میں سے بعض کے تحقیقی و تصنیفی ذوق کی آبیاری بھی کی۔ قواعد اور لغات کے ساتھ ساتھ تاریخی وادبی متون کے تراجم ان کے اسی ذوق کے مظہر تھے۔ جنگ پلاسی (۱۷۵۷ئ) میں کامیابی کے بعد سیاسی مصالح کے تحت ان میں اس زبان سے ضروری اقفیت حاصل کرنے کا احساس مزیدبڑھ گیا تھا۔ کیوں کہ وہ سارے سرکاری معاملات میں مقامی افراد سے مدد نہیں لے سکتے تھے اور نہ ہی ان پر اعتماد کر سکتے تھے۔ یہی ضرورت تھی جس نے ان مستشرقین سے فارسی کی متعدد قواعد و لغات مرتب کروائیں اور ایسی ہی وسیع تر ضرورت نے انھیں ”فورٹ ولیم کالج“ کے قیام کی تحریک دی، جو ۱۸۰۰ئ میں قائم کیا گیا۔ اگر اس کالج کا قیام خود کو مقامی زبانوں کے ہتھیار سے مسلح کرنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا، تو قبل ازیں وہ ”مدرسۂ عالیہ“ (کلکتہ) قائم کر کے مسلمانوں کے شرعی اور نافذ العمل قوانین کے مطالعہ کی جانب قدم اٹھا چکے تھے۔ یہ دونوں ادارے ان کے لیے گوناگوں فوائد کا باعث بنے۔ رائج الوقت قوانین سے ان کی واقفیت انتہائی ضروری تھی۔ اسلامی قوانین کے مجموعے ”ہدایہ“ (عربی)، مولفہ برہان الدین علی کے فارسی ترجمہ از غلام یحییٰ کے ۱۷۷۸ئ میں انگریزی ترجمہ ازچارلس ہملٹن <annotation lang="en">(Charles Hamilton)</annotation> جیسے تراجم کی تحریک و سرپرستی ان کی اسی ضرورت کا مظہر تھی۔ اسی اہمیت کے پیش نظر وارن ہیسٹنگز نے، جو ہندوستان آنے سے قبل اوکسفرڈ یونیورسٹی میں فارسی زبان کے حق میں تحریک چلا چکا تھا، اور فورٹ ولیم کالج کے قیام کے وقت اگرچہ ہندوستان میں نہیں تھا، لیکن اس کالج کے نصاب میں فارسی اور عربی کو ترجیح اور ضروری اہمیت دینے کے زبردست حق میں تھا۔ فارسی کی اسی حیثیت اور اہمیت نے لسانیات کا ذوق رکھنے والوں سے نہ صرف قواعد اور فرہنگیں مرتب کروائیں بلکہ بڑھتی ہوئی ضرورتوں نے طباعت کے ذرائع اختیار کرنے پر بھی انھیں راغب کیا۔ چناںچہ جنوبی ایشیا میں فارسی طباعت کی مذکورہ ابتدائی مثالوں سے قطع نظر، اس کا اولین باقاعدہ اہتمام ایک لائق مستشرق چارلس ولکنس <annotation lang="en">Charles Wilkins</annotation>)، ۱۷۵۰ئ۔ ۱۸۳۶ئ) کی اس شعوری کوشش میں دیکھا جاسکتا ہے جو اس نے نستعلیق حروف کو بلاک کی شکل میں ڈھالنے کے لیے انجام دیں اور اس مرحلے پر خاصی کامیابی حاصل کی۔ وہ ایک لائق مستشرق کے ساتھ ساتھ بنگالی طباعت کے بانی کی شہرت بھی رکھتا ہے۔ طباعتی امور کا وہ نہ صرف ایک ہنر مند تھا، بلکہ مطبع کا منتظم، خطاط، نقاش، کندہ کار اور حروف تراش بھی تھا۔ ۱۷۷۸ئ کے آخر میں وہ نستعلیق حروف کی ڈھلائی میں کامیاب ہو چکا تھا۔ اسی سال اس کے ایک مستشرق دوست نیتھینل براسی ہالہیڈ (<annotation lang="en">Nathaniel Brassy Halhed</annotation>، ۱۷۵۱ئ۔ ۱۸۳۰ئ) کی مرتبہ: <annotation lang="en">A Grammar of the Bengali Language</annotation> میں، جو اسی کے اہتمام سے کلکتہ میں چھپی تھی، اس کے تیار کردہ نستعلیق ٹائپ کا ایک ابتدائی نمونہ دیکھا جاسکتا ہے، یا اس سے اگلا قدم فرانسس گلیڈون <annotation lang="en">Francis Gladwin</annotation>)، ۱۷۴۰ئ۔ ۱۸۱۳ئ) کی ترتیب دی ہوئی انگریزی فارسی فرہنگ تھی، جو مالدا سے ۱۷۸۰ئ میں اسی کے اہتمام سے شائع ہوئی۔ اس میں اس کے تیار کردہ خوبصورت نستعلیق کا استعمال کیا گیا تھا۔</p> <p>دستیاب مطبوعات میں، جو اوّلین مکمل فارسی کتاب دستیاب ہے، وہ ہر کرن ملتانی کی تصنیف انشاے ہر کرن ہے، جو چارلس ولکنس ہی کے اہتمام سے کلکتہ سے ۱۷۸۱ئ میں شائع ہوئی۔ اس سے قبل کلکتہ یا اس کے نواح سے جو متعدد کتابیں فارسی یانستعلیق عبارتوں کے ساتھ شائع ہوتی رہیں، ان کی نوعیت مختلف تھی۔ اس قسم کی طباعت زیادہ تر ان ضوابط کے تراجم پر مشتمل تھی، جو ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ وقتاً فوقتاً اپنے زیر انتظام علاقوں کے لیے انگریزی زبان میںجاری کرتی تھی، لیکن بالعموم ان کا فارسی ترجمہ بھی ساتھ ہی یا علاحدہ شائع ہوتا تھا۔ بعد میں یہ روایت زیادہ مستقل ہو گئی۔ ضوابط کے علاوہ قواعدِ ِزبان اور فرہنگوں کی قسم کی تالیفات میں بھی نستعلیق الفاظ یا عبارتوں کی شمولیت عام ہو گئی تھی۔ اس وقت تک جو مطبوعات شائع ہوتی رہیں، ان میں بالعموم جنتریاں، فہرستیں، سرکاری احکامات بشمول قوانین، نقشے، لغات وفرہنگ، زبانوں کے قواعد، ادبی تراجم، سفر نامے، تاریخ، سوانح، ریاضی، علم الادویہ، جغرافیہ وغیرہ سے متعلق کتابیں شامل تھیں۔ انشاے ہر کرن ولکنس کے تیار کردہ ٹائپ کا مبسوط نمونہ تھی، جس کے انگریز مترجم و مرتب فرانسس بالفور <annotation lang="en">(Francis Balfour)</annotation> نے ولکنس کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ اب ہندوستان میں فارسی طباعت کو بنیادی وسیلہ میسر آگیا ہے۔ ولکنس کی کوششوں کی کامیابی نے اب خود ایسٹ انڈیا کمپنی کو بالآخر اپنی آئے دن کی کم از کم انتظامی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ایک سرکاری مطبع کے قیام کی ضرورت کا احساس دلادیا، جس کی تجویز خود ولکنس نے کمپنی کو پیش کی تھی اور وارن ہیسٹنگزنے، جو خود کسی مطبع کے قیام کے حق میں تھا، اپنے اختیارات کے تحت ایک مطبع کے قیام کے لیے کمپنی کے اکابر سے ولکنس کی تجویز کی پر زور سفارش کی، چناںچہ کمپنی نے یہ تجویز منظور کرلی اور کلکتہ میں سرکاری سرپرستی کے تحت ایک مکمل سرکاری مطبع کا قیام عمل میں آگیا۔</p> <p>ولکنس تو اپنی خرابیِ صحت کی وجہ سے ۱۷۸۶ئ میں واپس انگلستان چلا گیا، لیکن جانے سے قبل اس نے نستعلیق ٹائپ سازی کا ہنر مقامی افراد کو سکھا دیا تھا۔ اس کے معاصر فرانسس گلیڈون کی کوششیں بھی فارسی طباعت کے فروغ میں معاون ثابت ہوئیں، جس نے متعدد تالیفات کے علاوہ، جن کا تعلق قواعد اور فرہنگ سے تھا، اپنے مرتبہ مجلے <annotation lang="en">The Asiatic Miscellany</annotation> یاجواہر التالیف فی نوادر التصانیف کے ذریعے، جس کے شمارے ۱۷۸۵ئ اور ۱۷۸۸ئ کے درمیان منظر عام پر آئے، فارسی اور عربی و اُردو کی ادبی تخلیقات کے متن اصل اور انگریزی ترجمے کے ساتھ شائع کیے اور ادبی طباعت کے آغاز کا سہرا اپنے سر باندھا۔</p> <p>ولکنس اور گلیڈون کی کوششوں کے زیر اثر کلکتہ میں فارسی طباعت کا سلسلہ جاری رہا اور سرکاری اور علمی و تعلیمی ضرورتیں پوری ہوتی رہیں، تاآںکہ کلکتہ میں ۱۸۰۰ئ میں ”فورٹ ولیم کالج“ قائم ہوا، جس میں نصابی اور تعلیمی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ”ہندوستانی پریس“ کے نام سے ۱۸۰۲ئ میں کالج کے ایک مستقل مطبع کا قیام ناگزیر ہو گیا۔ اس پریس نے مقامی زبانوں بالخصوص اردو کی ادبی طباعت اور نصابی ضرورتوں کی تکمیل اور فروغ میں زبردست حصہ لیا۔ اس پریس کے قیام کے باوجود فورٹ ولیم کالج کے شعبۂ عربی و فارسی کے ایک استاد میتھیو لینسڈون <annotation lang="en">(Matthew Lansdowne)</annotation> نے فارسی طباعت کے مزید فروغ کے لیے؍ ستمبر ۱۸۰۵ئ کو کالج کونسل کے سامنے ایک مخصوص فارسی مطبع کے قیام کی تجویز پیش کی، جس کے لیے اس کا خیال تھا کہ کلکتہ کے بہترین خطاط شیخ کلب علی کا تقرر کیا جائے اور ایسی کتابیں شائع کی جائیں، جو مقبولِ عام ہوں۔ لیکن شاید یہ تجویز منظور نہ ہوئی۔ اس عرصے میں عیسائی تبلیغی جماعتوں نے بھی اپنے اپنے مطابع قائم کر کے طباعت کے فروغ میں نمایاں سرگرمی دکھائی، لیکن ان کی توجہ مقامی زبانوں پر مرکوز رہی، فارسی ان کے مقاصد کے دائرہ کار میں نہ آتی تھی۔</p> <p>فارسی اور دیگر مقامی زبانوں میں طباعت کی سرگرمیاں اس دور میں، ایک دو مستثنیات سے قطع نظر، تمام تر غیر ملکی افراد، اداروں اور تبلیغی جماعتوں کی توجہ اور اپنے اپنے مفادات کے باعث جاری رہیں۔ انیسویں صدی کی دوسری دہائی میں کہیں مقامی افراد نے ذاتی مطابع کے قیام اور طباعت میں دل چسپی لینی شروع کی۔ اس وقت تک طباعت شہروں سے نکل کر ضلعی قصبات تک پھیل گئی تھی۔ سرکاری پابندیوں اور کاغذ کی کمی کے باوجود یہ اس قدر عام ہو گئی تھی کہ ۱۸۰۱ئ سے ۱۸۳۲ئ کے عرصے میں مطبوعات کے نسخوںکی تعداد دو لاکھ بارہ ہزار کے لگ بھگ تھی۔</p> <p>اولین ہندوستانیوںمیں، جنھوں نے ذاتی مطابع قائم کیے، ایک ”مطبع شکر اللہ“ کا نام ملتاہے، جس کے نام سے پتا چلتا ہے کہ اسے غالباً کسی مسلمان نے قائم کیا تھا۔ لیکن ابتدائی عہد میں ہندوستانیوں کے قائم کردہ جن مطابع نے فارسی طباعت کو فروغ دیا، ان میں لکھنؤکا ”مطبع سلطانی“ تھا، جسے اودھ کے حکمران غازی الدین حیدر (۱۸۱۴ئ۔ ۱۸۲۷ئ) نے ۱۲۳۴ھ؍ ۱۸۱۸ئ میں قائم کیا تھا۔ اسے قائم کرنے میں انھیں ایک یورپی شخص ارسل، شاگرد جون گلکرسٹ کا تعاون حاصل ہوا۔ ایک روایت کے مطابق یہ مطبع کلکتہ میں شیخ احمد عرب (متوفی ۱۸۴۰ئ) کی ملکیت میں تھا، جو شاہ اودھ کی خواہش پر کلکتہ سے لکھنؤ منتقل کیا گیا۔ اس مطبع میں ٹائپ رائج تھا۔ اس وقت کے اکابر علما شیخ احمد عرب، مولوی اوحد الدین بلگرامی اور قاضی محمد صادق اخترؔ خطیر مشاہرے پر تصنیف و تالیف کے کام پر مامور کیے گئے۔ یہاںسے۱۸۱۹ئ میںاولین کتاب عربی میںمناقبِ حیدریہمصنفہ شیخ احمدعرب شائع ہوئی، اور فارسی میںمحامد حیدریہ، زاد المعاد، ہفت قلزم اورتاج اللغات شائع ہوئیں۔ یہ کتابیں ٹائپ میں چھپی تھیں، اس لیے پسند نہ کی گئیں، چناںچہ یہ شاہی مطبع ترقی نہ کر سکا۔</p> <p>اس وقت تک طباعت کے لیے ٹائپ کی کلیدوں کا استعمال کیا جاتا تھا، جو دھاتوںکی مدد سے بنائی جاتی تھیں۔ لیکن نستعلیق یا نسخ حروف کو دھاتوں کی کلیدوں میں اس طرح ڈھالنا کہ ان رسم الخطوں کے حروف لفظ میں مناسب طور پر باہم جڑ سکیں، کبھی آسان نہ رہااورساتھ ہی حرفی جوڑوں کے درمیان رہنے والے فاصلوں کی وجہ سے لفظ کا صوری حسن اس عمل میں اس طرح متاثر ہوتا کہ روایتی خوش خطی اور خطاطی کی عادی قوم کے لیے یہ اس صورت میں کبھی گوارا اور قابل قبول نہ رہا۔ خصوصاً نستعلیق میں حروف کو جوڑنے کا عمل زیادہ مشکل تھا اور کبھی بے عیب نہ رہ سکا۔ اسی لیے نستعلیق کے ادی افراد نستعلیق ٹائپ سے کبھی مطمئن نہ ہوئے اور ان کارویہ نسخ کے ساتھ بھی بالعموم یہی رہا۔ سنگی مطابع کے قیام سے پہلے اسے اختیار کرنا بہرحال ایک مجبوری تھی، چناںچہ اسے اختیار کیا گیا تو اسے حتی الامکان بہتر سے بہتر صورت دینے کی کوششیں بھی جاری رہیں۔ چوں کہ یہ کوششیں انفرادی تھیں، اس لیے مختلف مطابع کے تیار کردہ یا اختیار کردہ ٹائپ میں تنوع اور فرق بھی روارہا۔ قارئین کے ذوق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے نستعلیق کے ساتھ ساتھ نسخ بھی اختیار کیا گیا اور کہیں کہیں ان دونوں کو باہم اس طرح ملانے کی کوشش بھی کی گئی کہ اس طرح بننے والا ٹائپ نستعلیق اور نسخ کی درمیانی شکل میں ڈھل گیا، چناںچہ انیسویں صدی کے نصف اوّل میں کچھ اخبارات اور کتابوں میں یہ ملا جلا رسم الخط بھی ملتاہے۔ اگرچہ ٹائپ سے طباعت میں نستعلیق پر انحصار کو مستقل طور پر کبھی گوارا نہ کیا گیا، لیکن پھر بھی طباعت میں نستعلیق ہی زیادہ مروج رہا۔ یہ تو اب حالیہ چند برسوں سے کمپیوٹر کے ذریعے کتابت کے تجربوں اور ان کی کامیابیوں نے ان عیوب کو دور کر دیا ہے، جو قبل ازیں نستعلیق ٹائپ میں روا رہیں، اس لیے اب خصوصاً جنوبی ایشا اور اردو کی حد تک نستعلیق خط طباعت میں نہ صرف مروج ہو گیا ہے بلکہ مقبول عام بھی ہے۔</p> <heading>سنگی طباعت کاآغاز اور فارسی طباعت کا فروغ:</heading> <p>جنوبی ایشیا میں فارسی طباعت کے آغاز کا دور متحرک کلیدی ٹائپ کے رواج کا دور تھا۔ چوبی بلاکوں کے ذریعے طباعت کا عمل، جو چین میں دو صدیوں سے رائج تھا، کہیں اٹھارویں صدی کے آغاز میں یورپ سے ہوتا ہوا جنوبی ایشیا پہنچ سکا۔ چوںکہ طباعت کے آغاز میں خود طباعت مسلمانوں کے لیے کوئی کشش نہ رکھتی تھی، اس لیے ہنرسازی اور کپڑوں پر نقش ونگار کے لیے چوبی بلاکوں کے استعمال کے اپنے روزمرہ کے عمل کے باوجود وہ اس جانب فوری متوجہ نہ ہوئے۔ یہ توجنوبی ایشیا میں برطانوی استعمار کے مقابل کچھ تو مدافعت کے احساس اور پھر مغرب کی لائی ہوئی مفید ایجادات کے فوائد تھے، جن سے ان کے مقابل کی دوسری بڑی قوم (ہندو)، جس سے برطانوی عہد کے ہر دور میں ان کی مسابقت رہی، پوری طرح استفادہ کر رہی تھی، وہ مقابلے کی دوڑ میں اس سے کسی میدان میں پیچھے رہ کر مطمئن نہ ہو سکتے تھے۔ چناں چہ سنگی مطابع کے رواج نے انھیں اس جانب آنے پر آمادہ کر لیا اور جب وہ اس کے لیے آمادہ ہوئے تو پھر کوئی تذبذب اور رکاوٹ باقی نہ رہ گئی۔ سنگی مطابع کے مروج ہوجانے پر طباعتی سرگرمیوں کی ایک عام فضا سارے جنوبی ایشیا میں پھیل گئی اور چند سالوں کے عرصے میں چھوٹے چھوٹے نجی سنگی مطابع کا ایک جال تھا، جو اطراف ملک میں پھیل گیا۔</p> <p>سنگی مطابع کے رائج ہونے سے طباعت آسان او رکم خرچ تو ہو گئی لیکن اس میں قباحتیں بھی تھیں۔ اس کے مروجہ طریق کار کے تحت اس میں زیادہ تعداد میں یکساں معیار کی طباعت ممکن نہ تھی۔ زیادہ تعداد میں طباعت کے بعد پتھر یا سل پر منقش حروف یا تو پھیلنے لگتے یا ہلکے پڑجاتے، چناںچہ ان کی درستی یا تصحیح طباعت کے سابقہ معیار تک نہ پہنچ پاتی۔ اس طرح معیاراورحسن برقرار نہ رہتا۔ ایسے عیوب یا قباحتوںکے پیش نظرجب سیداحمد خاں (۱۸۱۷ئ۔۱۸۹۸ئ) نے اپنی تعلیمی تحریک کے ذیل میں اشاعت کا ایک ہمہ جہت منصوبہ بنایا تو سنگی طباعت کے بجاے پھر ٹائپ کے ذریعے طباعت کو اختیار کرنا مفید خیال کیا۔ ان کے قائم کردہ ادارے ”سائنٹی فک سوسائٹی“ (علی گڑھ) نے اپنے جرائد اور کتابیں ٹائپ میں شائع کرنا شروع کیں اور نستعلیق سے قطع نظر، جو طباعت میں اپنے اصل حسن سے عاری ہو جاتا تھا، نسخ کو اپنایا۔ اس ادارے کی مطبوعات اپنے موضوع اور مقصد کے لحاظ سے خاطر خواہ توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہیں، چناںچہ طباعت میں نسخ ٹائپ کو کچھ عرصہ تک رواج حاصل ہوا، لیکن پھر بھی قبولیت عام حاصل نہ ہوئی۔ جس کے نتیجے میں اس تحریک کو، ایک دو دہائیوں کے بعد، اپنی مطبوعات کے لیے نسخ اور ٹائپ کے بجاے نستعلیق اور سنگی طباعت ہی سے رجوع کرنا پڑا۔ بعد میں وقتاًفوقتاً ٹائپ میں طباعت کے تجربے ہوتے رہے اور نسخ اور نستعلیق دونوں کو اختیار کرنے کی کوششیں بھی جاری رہیں لیکن عامۂ خلائق نے نستعلیق اور سنگی طباعت ہی کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔ تاآں کہ آفسٹ طباعت نے کتابت اور طباعت کے معیار کو مزید جاذب نظر بنا دیا جس کی وجہ سے ٹائپ اور نسخ کی طباعت کی طرف توجہ مزید کم ہو گئی اور نستعلیق مزید مقبول ہو گیا۔</p> <p>جنوبی ایشیا میں سنگی مطبع کے قیام کا آغاز ۱۸۲۳ئ کا واقعہ ہے، جب ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ نے مدراس، بمبئی اور کلکتہ میں اوّلین سنگی مطابع قائم کیے۔ اس کے قیام میں یہ آسانی اورسہولت ہی تھی کہ محض تین سال کے عرصہ میں نجی اہتمام سے پہلا سنگی مطبع ۱۸۲۶ئ میں بمبئی میں ”مطبع فردونجی سہراب جی دستور“ قائم ہوا۔ سنگی مطبع سے جس اوّلین فارسی کتاب کی اشاعت کا علم ہوتا ہے وہ ملا فیروز ابن کاؤس (۱۷۵۸ئ۔ ۱۸۳۰ئ) کی تصنیف رسالہ موسومہ بادلہ قویہ برعدم جواز کبیسہ در شریعت زرتشتیہ تھی، جو محمد ہاشم اصفہانی کی تصنیف شواہد النفیسہ کے جواب میں لکھی گئی تھی۔ یہ ۱۸۲۷ میں بمبئی کے مطبع ”بمبئی سما چار“ سے شائع ہوئی۔ اسی سال سعدیؔ کی گلستاں بھی کلکتہ سے سنگی طباعت میں شائع ہوئی اور پھر بوستاں بھی اگلے برس یہیں سے چھپی، لیکن سنگی مطابع کے ذریعے فارسی طباعت کو فروغ دراصل شمالی ہند میں بالخصوص کانپور اور لکھنؤمیں حاصل ہوا۔ کانپور میں ایک یورپی باشندے آرچر (<annotation lang="en">Archer</annotation>) کے قائم کردہ اوّلین سنگی مطبع کے بارے میں ذکر عام ہے، جسے اس کے قیام کے بعد آرچر نے شاہ اودھ نصیر الدین حیدر (۱۸۲۷ئ۔ ۱۸۳۷ئ) کی خواہش پر لکھنؤ منتقل کر دیا۸۵، جہاں سے پہلی کتاب بہجتہ مرضیہ فی شرح الفیہ ۱۸۳۱ئ میں شائع ہوئی۔ یہ مطبع جو ”سلطان المطابع“ اور ”مطبع سلطانی“ دونوں ناموںسے معروف رہا، انتزاعِ سلطنت ِاودھ (۱۸۵۶ئ) تک سرگرم رہا۔ پھرآخری معزول شاہِ اودھ واجد علی شاہ (۱۸۴۷۔۱۸۵۶ئ) نے لکھنؤ سے اپنی بے دخلی اور کلکتہ منتقلی کے بعد اسے مٹیا برج، کلکتہ میں دوبارہ جاری کیا۔ ۱۸۸۵ئ میں اس مطبع سے شائع ہونے والی کتاب ریاض القلوبمصنفہ واجد علی شاہ غالباً آخری کتاب تھی۔ ”مطبع سلطانی“ کے قیام کے بعد لکھنؤ میں ”مطبع حاجی حرمین شریفین“ (مطبع محمدی) نجی مطابع میں غالباً سب سے پہلے قائم ہوا تھا۔ اس کی پیروی میں ”مطبع مصطفائی“ قائم ہوا۔ پھر لکھنؤ اور نواحِ لکھنؤ میں مطابع کے قیام کا ایک سلسلہ تھا، جو جاری ہو گیا۔ ان مطابع نے فارسی طباعت کے فروغ میں نمایاں خدمات انجام دیں۔</p> <p>سنگی طباعت کے اس آغاز کو ہندوستان میں طباعت کی تاریخ کے ایک نمایاں موڑ کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ آغاز اس کے تیز رفتار اور وسیع تر فروغ کے لیے ایک متحرک سبب ثابت ہوا۔ چناںچہ سنگی مطابع کے قیام نے، جس میں سرمایہ، ہنر کاری اور ٹائپ کی ناگواری اب رکاوٹ نہ رہ گئی تھی، طباعت کو آسان، ارزاں، تیزتر اور ساتھ ہی منافع بخش بھی بنا دیا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب قریب قریب سارا جنوبی ایشیا برطانوی اقتدار کے زیر تسلط آچکا تھا اور ملک و معاشرہ نئے وسائل، قدیم و جدید تصورات اور سیاسی و تعلیمی انقلابات کے دوراہے پر کھڑا تھا۔ کچھ سیاسی حالات کا تقاضا تھا اور کچھ تاریخ و تہذیب کے اپنے اسباب تھے کہ جن کے زیر اثر برطانوی اقتدار کے خلاف سیاسی تحریکوں کا آغاز ہوا اور قومی اصلاح و بیداری کی تحریکیں شروع ہوئیں۔ ہر تحریک کا سب سے بڑا وسیلہ زبان ہوتی ہے اور زبان ذرائع ابلاغ کو اپنا سہارا بناتی ہے۔ اب یہ سہارا سنگی مطابع کی صورت میں گلی گلی پہنچ رہا تھا۔ اس صورتِ حال میں مسلمانوں نے، جو طباعت سے بوجوہ اب تک گریزاں رہے تھے، سنگی طباعت کو اپنے لیے مفید اور سہولت آمیز سمجھ کر اسے اس حد تک اپنانے پر آمادہ ہوگئے کہ ایشیا بھر میں کوئی قوم، انیسویں صدی کے آخر تک، ان کے مقابل نہ رہی، برطانوی منتظمین کے مطابق انیسویں صدی میں مذہبی کتابوں کی تجارت پر مسلمان ہی حاوی تھے۔ اس کی تائید نامور مستشرق الویس اشپرنگر <annotation lang="en">Aloys Sprenger</annotation>)، ۱۸۰۳ئ۔ ۱۸۹۳ئ) کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ لکھنؤ اور کانپور سے ۱۸۵۴ئ تک سنگی مطابع سے چھنے والی مطبوعات تعداد میں تو تقریباََسات سو تھیں، لیکن انھوں نے مذہبی تعلیم یافتہ طبقہ میں وسعت پیدا کر دی تھی۔ یہاں تک کہ خواتین تک یہ حلقہ وسیع ہو گیا تھا اورعام مسلمان جو صدیوں سے اپنے اصل منابع کو نہ دیکھ سکتے تھے، اب بنیادی کتب و متون ان تک پہنچ رہے تھے۔ اس عرصے میں شائع ہونے والے قرآن اور حدیث کے متون دنیاے اسلام کے اوّلین مطبوعہ متون تھے۔ مسلمانوں میں مذہبی اصلاح اور قومی بیداری کی ہمہ جہت تحریکوں کا یہی زمانہ تھا۔ شاہ عبدالعزیز دہلوی (۱۷۴۶ئ۔۱۸۲۴ئ) کے خانوادے اور شاگردوں نے، جنھوں نے اسلامی تعلیمات کو عام مسلمانوں تک پہنچانے کے لیے مؤثر کوششیں کیں، اپنے تحریکی ادب کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی۔ سید احمد شہید (۱۷۸۶ئ۔ ۱۸۳۱ئ) کی تحریکِ جہاد سے تعلق رکھنے والے علمائ میں سے عبداللہ سیرام پوری نے سید احمد شہید ہی کی ترغیب پر کلکتہ میں ۱۸۲۴ئ میں اپنا ”مطبع احمدی“ قائم کیا تھا۔ اس مطبع سے تحریکی ادب کی اشاعت میں اس تیزی سے اضافہ ہوا کہ مطبع کے قیام کے محض آٹھ سالوں کے بعد ایک بڑی تعداد میں بازاروں میں عام دستیاب تھا۔ یہ اشاعتیں اس بڑے پیمانے پر ہونے لگیں کہ نہ صرف سارے جنوبی ایشیا بلکہ افغانستان اور اس کے راستے سے وسطِ ایشیا تک یہاں کی مطبوعات پہنچنے لگیں۔ ایک سرکاری روداد کے مطابق محض ایک سال، ۱۸۷۱ئ کے عرصے میں، قرآن حکیم کی تیس ہزار جلدیں شائع ہوئیں۔ علماے اسلام کی روز افزوں اشاعتی سرگرمیوں سے، جو ان کی تحریکی سرگرمیوں کا ایک لازمی حصہ بن گئی تھیں اور وہ انھیں اپنے علمی اور تعلیمی اور اصلاحی و مناظراتی مقاصد میں استعمال کرنے لگے تھے، یہ واضح طور پر محسوس کیا جانے لگا تھا کہ حنوبی ایشیا میں طباعت کے منظر پر ایک لحاظ سے ان کی اجارہ داری سی قائم ہو گئی تھی اور اس میدان میں ایشیاکی کوئی قوم ان کے مد مقابل نہ تھی۔ طباعت اب ان کے لیے ایک ایسے ہتھیار کی صورت اختیار کر گئی تھی، جس سے وہ ایک جانب اپنے مقابل کی ہندو تحریکوں اور دوسری جانب عیسائی مبلغوں کی کوششوں کا دفاع بھی کر سکتے تھے۔ چناںچہ انھوں نے اپنی قوم کو علمی توانائیوں سے بار آور کرنے کے لیے طباعت کو ایک مؤثر ترین وسیلے کے طور منتخب کر لیا۔</p> <p>اسلامی ادب کی طباعت اور قدیم مذہبی متون کے تراجم پر ان کی خاص توجہ رہی۔ اس ادب کی اشاعت کسی ایک دو مطابع سے مخصوص نہیں تھی۔ متعدد مطابع نے مذہبی ادب کے فروغ میں حصہ لیا، لیکن چند مطابع کی خدمات نمایاں بھی رہیں۔ شاہ عبدالعزیز کی تحریک سے متاثر مولانا محمد احسن نانوتوی (۱۸۲۵ئ۔۱۸۹۴ئ) کے قائم کردہ ”مطبع صدیقی“ (بریلی) نے، جو ۱۸۶۲ئ سے طباعت میں سرگرم ہوا تھا، عربی اور فارسی کے ادبِ عالیہ کی اشاعت ثانی اور تراجم کے ساتھ ساتھ مناظراتی ادب اور تحریکی ادب کی اشاعت پر خاص توجہ دی۔ طباعت کے وسیلے نے اسلام کے عظیم علمی آثار کو عام مسلمانوں تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ انھیں محفوظ کرنے اور اگلی نسلوں تک پہنچانے کا ذریعہ بھی فراہم کر دیا۔ اس طرح مسلمانوں کی جانب سے طباعت کو اختیار کرنے کا عمل ان کے اپنے سیاسی زوال کے تدارک کی ایک کوشش کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں میں طباعت ہی، وسطِ انیسویں صدی میں، مذہبی اور سیاسی تبدیلیوں کے ایک بڑے محرک اور مؤثروسیلے کے طور پر سامنے آتی ہے۔ یہاں علمائ تاریخ کے کسی دور میں اتنے مؤثر نہ ہوئے تھے، جتنے طباعت عام ہونے کے بعد ہوگئے۔ پھر طباعت کو اختیار کرنے میں محض شاہ عبدالعزیز کی تحریک سے منسلک علمائ ہی پیش پیش نہ تھے، علماے فرنگی محل، علماے اہلِ حدیث اور علماے دیوبند اور ہر طبقہ فکر کے علما اپنے لیے اس وسیلے سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے لگے۔</p> <heading>فارسی طباعت کا دورِ زوال:</heading> <p>انیسویں صدی کے ہندوستان میں طباعت کے فروغ کی مثال کے لیے محض ایک ”مطبع نول کشور“ کا حوالہ کافی ہے۔ یاپھروسط انیسویں صدی میں ”مطبع مصطفائی“ کانپور و لکھنؤ کا نام اہمیت رکھتا تھا، جن کی مطبوعات اپنی نفاست و دل کشی میں مثالی ہوتی تھیں، لیکن تمام دیگر مطابع کے مقابلے میں مطبع نول کشور کی اشاعتی سرگرمیاں یا خدمات اس ضمن میں منفرد اور مثالی ہیں۔ اس کی خدمات کا عرصہ اس کے قیام ۱۸۵۸ئ سے قریب قریب ۱۹۴۰ئ تک پھیلا ہوا ہے، جب کہ اس کے بانی و مہتمم منشی نول کشور)۱۸۳۶ئ۔۱۸۹۵ئ) کی زندگی میں یہ عروج پر رہا اور لکھنؤ کے علاوہ اس کی شاخیں کانپور، لاہور، جبل پور، پٹیالہ اور اجمیر میں قائم تھیں۔ اس وقت اس نے ہندوستان بلکہ ایشیا کے سب سے بڑے مطبع کی حیثیت حاصل کرلی تھی، لیکن طباعت کی اس عمومی ترقی پذیر صورتِ حال کے باوجود فارسی طباعت کا رخ اب زوال کی طرف گامزن تھا۔ انیسویں صدی کا نصف اوّل، جو مسلمانوں کے زیراہتمام ان کے اپنے مطابع میں فارسی کی طباعت کے لحاظ سے اس کا سنہری دور تھا، اب خود مسلمانوں میں اردو کے ان کی عام زبان کے ساتھ ساتھ بتدریج علمی، ادبی اور صحافتی زبان کا درجہ حاصل کرلینے اور سرکاری اور عدالتی امور سے برطانوی حکومت ِہند کی جانب سے ۱۸۳۲ئ میں فارسی کو بے دخل کردینے کے نتیجے میں فارسی کی دیرینہ وقعت کے ساتھ ساتھ اس کی سماجی اور علمی حیثیت اور طباعتی سرگرمیوں کو بھی صدمہ پہنچا۔ فارسی کی اس بے دخلی کا رد عمل مسلمانوں میں شدید تھا۔ اگرچہ اس تبدیلی کے ردِعمل کو کم کرنے کے لیے حکومت نے انگریزی کے ساتھ ساتھ مصلحتاً مقامی زبانوں (مثلاًاُردو) کو بھی متبادل زبان کے طور پر نافذ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن مسلمان پھر بھی مطمئن نہ ہوئے، چناں چہ ۱۸۳۹ئ کے اوائل میں ڈھاکا کے پانچ سو باشندوں نے فارسی کی حمایت میں اور بنگالی زبان کی مخالفت میں، جو فارسی کی جگہ وہاں نافذ کی گئی تھی، حکومت سے تحریری احتجاج کیا، لیکن صورت ِحال کہیں بھی فارسی کے حق میں حوصلہ افزا نہ رہی اور اب سرکاری اور عدالتی امور سے فارسی کے یک لخت اور تعلیمی اور علمی مدارس سے بتدریج خارج ہوجانے کے باعث اس کی سماجی حیثیت بھی بری طرح متاثر ہو رہی تھی۔ اس صورت حال میں فارسی میں طباعتی سرگرمیاں محدود سے محدود تر ہوتی چلی گئیں۔ اب اس کا دارومدار بڑی حد تک مسلمانوں کی مذہبی اور علمی ضرورتوں اور ان کے ادبی ذوق و شوق پر یا مطبع نول کشور اور بعض دیگر ہم عصر مطابع کی مصلحتوں تک مخصوص رہا۔</p> <p>طباعت کے دورِ اوّل میں اگرچہ فارسی زبان میں طباعت کا رجحان لکھنؤ میں زیادہ نمایاں رہا، لیکن دیگر شہروں میں بھی فارسی طباعت تسلسل سے جاری تھی۔ ویسے کانپور اور لکھنؤ ہی فارسی طباعت کا، کم از کم انیسویں صدی کے آخر تک، مرکز بنے رہے۔ ”مطبع مصطفائی“ اور ”مطبع نول کشور“ کی طباعتی سرگرمیاں ان ہی شہروں میں نمایاں رہیں، جب کہ دیگر مطابع بھی ان شہروں میں سرگرم تھے۔ بمبئی، مدراس، کلکتہ، دہلی اور حیدر آباد بھی فارسی طباعت کے مراکز بن گئے تھے، جہاں انیسویں صدی کے نصف آخر تک متعدد مطابع قائم ہوئے اور انھوں نے فارسی طباعت میں خاصی دلچسپی لی۔ وسطِ انیسویں صدی کے آس پاس کے عرصے میں دیگر کئی اور شہروں میں بھی طباعتی سرگرمیوں کی ایک عام فضا پیدا ہو گئی تھی، جہاں فارسی مطبوعات کی بھی ایک بڑی تعداد سامنے آتی رہی۔ ۱۸۳۷ئ کے بعد بھی، جب فارسی کی سرکاری حیثیت کامکمل خاتمہ ہو گیا، یہ صورت حال ۱۸۵۷ئ کی جنگ آزادی کے آس پاس تک یوں ہی برقرار رہی، لیکن اس جنگ میں ناکامی کے نتیجے میں جہاں مسلمانوں کے اقتدار، ان کی تہذیبی و سماجی حیثیت کو یکسر زوال اور دیگر متعدد صدمات سے دوچار ہونا پڑا، وہیں ان کی علمی و تعلیمی زندگی میں اردو زبان کے روز افزوں استعمال اور ہندوستان میں اس کے وسیع تر فروغ کے باعث فارسی کی رہی سہی حیثیت مزید متاثر ہوئی۔ چناںچہ اگلی چند دہائیوں میں اس صورت حال کو طباعت کی شرح کے حوالے سے یوں دیکھا جاسکتا ہے کہ صوبۂ متحدہ میں ۱۸۸۱ئ سے ۱۸۹۰ئ کی دہائی میں جہاں فارسی میں مطبوعہ کتب کی تعداد ۱۰۲۲ تھی، اگلی دہائی میں ۶۱۵ رہ گئی۔ ۱۹۰۱ئ میں یہ تعداد ۶۳؛ ۱۹۰۲ئ میں۳۸؛ ۱۹۰۳ئ میں ۴۴؛ ۱۹۰۴ئ میں ۳۶؛ ۱۹۰۵ئ میں ۳۲؛ ۱۹۰۶ئ میں ۲۳؛ ۱۹۰۷ئ میں ۸؛ ۱۹۰۸ئ میں۱۵؛ ۱۹۰۹ئ میں ۲۵ اور ۱۹۱۰ئ میں ۲۰ تھی۔ اس طرح فارسی کتابوں کی جو اوسط تعداد ماہانہ ۱۰۲ تھی، وہ محض ۳۰ ہو گئی۔ کل تعداد اشاعت کے لحاظ سے بھی اس صورت حال کو یوں دیکھا جاسکتا ہے کہ ۱۹۰۰ئ میں فارسی کتابوں کی جو کل تعداد ۷۴۲۵۵ تھی، وہ ۱۹۱۴ئ میں ۲۴۹۷۵ ہو گئی اور ۱۹۲۵ئ میں محض ۱۰۸۰۰ رہ گئی۔</p> <p>فارسی طباعت کے اس دورِ زوال میں کہ جس میں فارسی طباعت کا دائرہ یا تو محض رہی سہی نصابی ضرورتوں کی تکمیل یا ذاتی دل چسپیوں اور مذہبی متون کی اشاعت تک سمٹ کر رہ گیا، یا پھر ان نمائندہ علمی مطبوعات کی محدود اشاعت کی صورت میں نظر آتا ہے، جو علمی اداروں یا تحقیقاتی مجلسو ںکے اپنے مقاصد کے تحت شائع ہوئیں۔ انیسویں صدی میں اس قسم کے اداروں میں ”ایشیاٹک سوسائٹی بنگال“ (کلکتہ) کی خدمات مثالی ہیں، جس نے قرون وسطیٰ کی تاریخ کے اہم متون کو ترتیب و تدوین کے اعلی معیار کے ساتھ شائع کیا۔ بیسویں صدی کے اوائل تک یہ ادارہ فارسی متون کی اشاعت کی جانب قدرے متوجہ رہا، لیکن پھر اس کا یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ ریاست حیدرآباد میں قائم شدہ ”دائرۃ المعارف“ نے اپنے قیام ۱۸۹۰ئ سے عربی کے ساتھ ساتھ فارسی متون کی طباعت میں بھی دل چسپی لی، لیکن ریاست کے خاتمے (۱۹۴۸ئ) کے بعد اس کا یہ کردار محدود بلکہ مسدود ہو گیا۔ ”گورنمنٹ اورینٹل مینوسکرپٹس لائبریری“ (مدراس) نے اپنے ذخیرۂ مخطوطات کی فہارس کے علاوہ فارسی متون بھی شائع کیے۔ بیسویں صدی میں بعض جامعات کے شعبہ ہاے زبان وادب یا جامعاتی تحقیقی اداروں نے بھی گاہے گاہے فارسی متون کی تدوین واشاعت میں دل چسپی لی، جیسے ’جامعہ علی گڑھ‘، ’جامعہ مدراس‘، ’جامعہ کلکتہ‘، ’جامعہ عثمانیہ‘، ’جامعہ پنجاب‘ (لاہور)، ’انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز‘) بڑودہ (وغیرہ، لیکن یہ مثالیں عام نہیں تھیں۔ ـ ”خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری“ (پٹنہ) نے زیادہ تر اپنے ذخیرۂ مخطوطات کی فہارس کی طباعت تک خود کو محدود رکھا، لیکن حالیہ کچھ برسوں سے یہاں سے فارسی متون بھی شائع ہو رہے ہیں۔</p> <p>۱۹۴۷ئ میں تقسیمِ ہندوستان کے بعد یہ صورتِ حال مزید زوال پذیر نظر آتی ہے۔ بھارت میں تو مسلمانوں کی تاریخ وتہذیب اور ان سے وابستہ تمام آثار، یہاں تک کہ اردو زبان کو بھی، جو جنوبی ایشیا میں مسلمانوں ہی کی نہیں خطہ کی دیگر قوموں کی بھی مشترکہ میراث ہے اور ان اقوام کی ایک بڑی تعداد اپنے روزمرہ کے اور تدریسی و علمی مقاصد کے لیے اسے استعمال کرتی آئی ہے، اور اس زبان کے ادب میں ان سب کی خدمات نمایاں بھی رہی ہیں، سرکاری عدم سرپرستی یہاں تک کہ عصبیت کا نشانہ بننا پڑا۔ فارسی کے لیے تو مواقع اور امکانات یوں بھی حوصلہ افزا نہ ہو سکتے تھے، چناںچہ یہ محض چند جامعات کے جزوی شعبوں میں ایک اختیاری مضمون کے طور پر باقی رہ گئی ہے یا چند علمی و تحقیقی اداروں مثلاً ”مولانا ابوالکلام آزاد عربک اینڈ پرشین انسٹی ٹیوٹ“ (ٹونک) اور ”انسٹی ٹیوٹ آف پوسٹ گریجویٹ اسٹڈیز اینڈ ریسرچ ان عربک اینڈ پرشین لرننگ“ (پٹنہ) کی جانب سے شائع ہونے والی مطبوعات کی حد تک دیکھی جاسکتی ہے۔ یا پھر اب بڑی حد تک دہلی میں ”مرکز تحقیقاتِ زبانِ فارسی درہند“ کی طباعتی سرگرمیوں کی صورت میں نظر آتی ہے۔</p> <p>پاکستان میں بھی صورت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ یہاں تو بہ اعتبار علاقہ و آبادی علمی و تحقیقی ادارے بھی نسبتاً کم ہیں اور علمی ذخائر بھی محدود ہیں۔ یہ زیادہ تر بھارت میں رہ گئے۔ فقط ”مجلس ترقی ادب“ (لاہور)، ”اقبال اکیڈمی پاکستان“ (لاہور)، ”پنجابی اکیڈمی“ (لاہور)، ”جامعہ پنجاب“ اور اس کے ذیلی ادارے ”ادارۂ تحقیقات پاکستان“ (لاہور)، ”سندھی ادبی بورڈ“ (حیدرآباد سندھ)، ”انجمن ترقی اردو“ (کراچی) کا نام اس لحاظ سے لیا جاسکتا ہے کہ ان اداروں نے بعض فارسی متون شائع کیے۔ حالیہ چند دہائیوں میں یہاں فارسی طباعت کو سب سے زیادہ اہمیت ”مرکز تحقیقاتِ فارسی پاکستان“ (اسلام آباد) نے دی، جس نے فارسی کے علمی ذخیرے کو یکجا کرنے کے ساتھ ساتھ متعدد علمی وتحقیقی تصانیف اور بالخصوص کتبِ حوالہ اور فہارس مخطوطات کی ترتیب واشاعت کا خاص اہتمام کیا۔ اب پاکستان میں فارسی طباعت بڑی حد تک محض اس ایک ادارے تک مخصوص ہو کر رہ گئی ہے۔</p> </section> </body>
0020.xml
<meta> <title>فطرت، جمالیاتی ادراک، صوفیہ اور خانقاہیں: بنگال کے اسلامی کتبات کی روحانی جہت</title> <author> <name>محمد یوسف صدیق</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 4</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/2_m_yousaf_sadique_bunyad_2013.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>7023</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
فطرت، جمالیاتی ادراک، صوفیہ اور خانقاہیں: بنگال کے اسلامی کتبات کی روحانی جہت
7,023
Yes
<body> <section> <p>کتبہ: حضرت پنڈوہ میں نور قطب العالم کی خانقاہ میں ان کا تدفینی کتبہ بتاریخ ۸۶۳ھ؍۱۴۵۹ئ (جس میں شیخ کے لیے سات روحانی القاب استعمال کیے گئے ہیں)</p> <list> <li><annotation lang="ar">قال اللہ تعالی کل نفس ذائقۃ الموت وقال اللہ تعالی ]فـ[ ـإذا جا]ئ [أجلہم لا یستأخرون ساعۃ ولا یستقدمون قال اللہ تعالی کل من علیہا فان ویبقی وجہ ربک ذو الجلال والإکرام وانتقل</annotation></li> <li>اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا پڑے گا’۔ اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا ’جب وہ گھڑی آپہنچتی ہے تو نہ ایک لمحے کی تاخیر ہو سکتی ہے نہ تقدیم‘۔ اللہ عزوجل نے فرمایا ’جو کچھ روئے زمین پر ہے فنا ہو جائے گا اور باقی صرف تیرے ربِ ذوالجلال والاکرام کی ذات رہے گی۔‘</li> <li><annotation lang="ar">مخدومنا العلامۃ استاد &lt;أستاذ&gt; الأیمۃ برہان الأمۃ شمس الملۃ حجۃ الإسلام والمسلمین نافع الفقرائ والمساکین مرشد الواصلین والمسترشدین من دار الفنائ إلی دار البقائ الثامن والعشرین من ذی الحجۃ فی یوم الإثنین</annotation></li> <li>ہمارا آقا...عظیم عالم، اماموں کا استاد، امت کا ہادی، قوم کا سورج، اسلام اور مسلمانوں کی حجت، فقرائ اور مساکین کو نفع پہنچانے والا، سیدھے راستے کے متلاشیوں اور متوصلین کو راہ دکھانے والا... دارِ فنائ سے دارِ بقائ کی طرف کوچ کر گیا ہے، مؤرخہ ذوالحجہ کی اٹھائیس بروز پیر</li> <li><annotation lang="ar">وکان ذلک من السنۃ الثالث ٴ&gt;الثالثۃ&lt; والستین وثمانمایۃ فی عہد }الـ {سلطان السلاطین حامی بلاد أہل الإسلام والمسلمین ناصر الدنیا والدین أبو &gt;أبی&lt; المظفر محمود شاہ سلطان صانہ اللہ بالأمن والأمان وبنی ہذا &gt;ہذہ&lt; الروضۃ خانا لاعظم لطیفخان سلمہ من البلیات والآفات</annotation></li> <li>اور یہ سنہ آٹھ سو تریسٹھ (۲۵ اکتوبر، ۱۴۵۹ئ )میں ہوا، بعھد سلطان السلاطین حامی بلاد اہل الاسلام والمسلمین (اسلام اور مسلمانوں کی زمینوں کے محافظ)، ناصر الدنیا والدین أبوالمظفر محمود شاہ السلطان۔ اللہ سلامتی اور حفاظت سے اس کی پشت پناہی کرے۔ عظیم خان لطیف خان نے اس مقبرے کو تعمیر کیا؛ اللہ اس کو آفات و بلیات سے محفوظ رکھے۔</li> </list> <p>اس کتباتی عبارت میں موجود گہرے طور پر روحانی رنگ میں رنگے ہوئے غیر معمولی دینی القاب اس عمیق وابستگی اور احترام کے مظہر ہیں جس کا اظہار بنگال کے چند انتہائی محترم صوفی بزرگوں میں سے ایک، نور قطب العالم، کے لیے بنگال کی دیہی آبادی کے جمِ غفیر نے ہمیشہ کیا۔ اس کا سادہ و فطری اور متوازن فنی اسلوب خاصا جاذبِ نظر ہے۔ سادہ پس منظر کے اوپر خطاطی کو خطِ بِہاری میں پیش کیا گیا ہے، جو کسی بھی غیر معمولی آرائش یا مصنوعی سجاوٹ سے خالی ہے۔ متناسب ترتیب سے صف آرا مخروطی عمودی ڈنڈے نچلے حصے میں باریک لکیر سے شروع ہو کر اوپر جاتے ہوئے موٹائی پکڑتے ہیں۔ عمودی ڈنڈوں کی اوپر کی جانب غیر معمولی طوالت اور ایک صف میں ان کی تنظیم کو بچھڑجانے والی روحوں کے اوپر کی جانب سفر یا جنازہ کی دعا میں شامل حاضرین اور ساتھ ساتھ مرحوم شخص کی روح کے لیے رحمت لے کر اترنے والے فرشتوں کے علامتی اظہار کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔ تہہ میں موجود جمگھٹا نما حروف کو بھی اجتماع کی علامت شمار کیا جاسکتا ہے جو نمازِ جنازہ کے لیے صف بند سوگوار مصلیوں کی طرف اشارہ کر رہے ہوں۔ پہلی سطر کے اوپری حصے کے وسط میں ہشت پہلو پھول آٹھ جنتوں کی علامت ہے جو اس ترتیب میں ایک مناسب آرائشی عنصر ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ یہ مرحوم کی نمازِ جنازہ کی تنظیم میں مخصوص جگہ سے میل کھاتا ہے، خاص طور پر جب جسم کو جنازے کے اجتماع کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ مسلم بنگال کی فنِ تعمیرکی خطاطی میں ہمیں چند مثالیں ملتی ہیں جہاں ”تحریر“ اور ”کتابت“ نے آغاز سے ہی ایک فن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک روحانی مظہر کا کردار بھی ادا کیا ہے اور جس کے جمالیاتی پہلو میں فطرت کے عناصرکوبھی سمو دیا گیا ہے۔</p> <p>فطرت سے گہرے اتصال اور انسانی نجات کی روحانی تلاش میں گندھا ہوا سادہ زندگی کا صوفی پیغام بنگال کے وسیع دیہاتی علاقوں میں دیہی اندازِ زندگی کے ساتھ شروع سے ہی بہت اچھی طرح ہم آہنگ ہو گیا تھا۔ حضرت محمدﷺ کی زبانی دین الفطرۃ سے موسوم اسلام علاقے میں فطرت اور روحانیت کے درمیان ایک مضبوط تعلق بناتے ہوئے پھیلا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے تمام ماحول - کائنات - اپنے ایک الگ انداز میں جاندار ہے، جس کا ایک ایک جز اپنے خالق کی عبادت میں مصروف ہے۔ خالق اور مخلوق میں ایک گہرا تعلق پایا جاتا ہے، جس کو درجۂ کمال صرف اس وقت حاصل ہوتا ہے جب مناسب ہم آہنگی سے ان کو پروان چڑھایا جائے۔ خالق اپنی مخلوق کے ذریعے ہر جگہ جلوہ گر ہے جسے صوفیہ کے یہاں ”وحدت الشہود“ کا نام دیا جاتا ہے اور یہ نظریہ بنگال کے صوفی ادب میں خاص طور پر پایا جاتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ایک مومن کو خدا کی موجودگی کی شہادت کائنات میں ہر جگہ نظر آتی ہے۔ ایک مومن کے لیے زمان و مکان کا ہر عنصر اللہ کی عظمت کی یاددہانی کرواتا ہے جو اس کے اندر حیرت کی انتہا اور دل کی گہرائیوں میں ایمانی جوش ابھارتا ہے، جو مومن کو روحانی تجربے کی چوٹی اور خالق کے ساتھ اتصال تک لے جاتا ہے۔ اس مرحلے پر مومن حیرت و استعجاب کی شدت سے بے ساختہ سبحان اللہ کہتے ہوئے خدا کی عظمت کی صدا بلند کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا پیغام ہے جو بنگال کے کتبات میں مذکور قرآنی آیات اور نبیﷺ کے اقوال میں کثرت سے ملتاہے۔</p> <p>مسلم دنیا کے دوسرے خطوں کی طرح بنگال میں بھی بنیادی صوفی پیغام کا مرکزی نقطہ اللہ کی وحدت ہے جو(قرآن میں) المحیط (سب پر چھایا ہوا) کے گہرے مفہوم کے مطابق حتمی کائنات (وجود)ہے۔ وہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے اور ہر جگہ موجود(قرآن میں ”الموجود“ بمعنی ہمیشہ سے موجود، ایک صفتِ الہٰی)ہے۔ وجود (الوجود) کی حقیقتِ منتہی (الحق۳، ایک اور صفتِ خداوندی) خدائی وحدت یا توحید - اسلام کے بنیادی پیغام - کی روح میں پنہاں ہے، جس کی بہترین توضیح صوفی نظریہ وحدۃ الوجود (موجودات کی وحدت) سے ہوتی ہے۔ گویا صوفی تعلیمات میںوجود کے گوناگوں اظہار میں وحدت پنہاں ہے اور الدین(مذہب)دراصل اپنے اصلی روپ میں ازلی وحدت کی طرف لوٹنا ہے۔ یہ وہ پیغام ہے جس کا علامتی اظہار نور قطب العالم کے تدفینی کتبے میں ایک منفرد اور دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔</p> <p>قرآن میں فطرت کا کائنات میں دلچسپ کردار اور اس میں پنہاں روحانی پیغام کی طرف اشارہ جابجا موجود ہے، اگرچہ اس کو اپنی حیثیت میں بطور موضوعِ خاص شاذ و نادر ہی کھوجا گیا ہے۔ قرآنی نقطۂ نظر کے مطابق کائنات کے تمام اجزائ فطری قوانین کی پیروی کرتے ہیں جو خدائی اور بایں صورت اسلامی ہیں۔ قرآن کے مطابق ہر موجود چیز اللہ کی عظمت بیان کرتی ہے۔ (۱۷:۴۴) فطرت کی جانب اشارہ کرنے والی قرآنی آیات بنگال میں کئی کتبات میں ملتی ہیں۔ پرہیز گاری کے کام اور عبادت انسانوں کو فطرت کے قریب آنے میں مدد دیتے ہیں اور لطیف ماحولیاتی توازن اور ان کے ساتھ ان کے قریبی تعلق کی انسانی سوچ کی ایجابی پرورش کرتے ہیں۔</p> <p>اسلامی تصوف کے نظریہ میں زمین کا ایک مقدس پہلو نمایاں طور پر موجود نظر آتا ہے۔ نبیﷺ نے پوری زمین کو مقدس اور مسجد جیسا پاکیزہ اور صاف قرار دیا۔ چناںچہ پوری کائنات کی بے مثل تخلیق ایک جائے عبادت کے طور پر کی گئی ہے۔ مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں - جنگل میں، پہاڑ پر، صحرا میں یا سمندر پر - اپنے مذہبی فریضہ کے لحاظ سے صلوٰۃ (نماز) کی شکل میں کم از کم روزانہ پانچ مرتبہ اپنے خالق کو یاد کرنے کے پابند ہیں۔ اسلام میں مساجد ہمیشہ زندگی کے مختلف گوشوں میں ایک اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ اور اس لیے شاید مساجد کو صرف عبادت یا نماز ہی کی جگہ قرار نہیں دیا گیا اور نہ ہی صحیح معنوں میں مساجد فقط باجماعت عبادت کا مرکز بنی رہیں، بلکہ ثقافتی ارتقائ اور سماجی نشو نما میں مساجد نے ہمیشہ ایک گہرا اثر چھوڑا۔ اسلام کی یہ سادہ تعبیر بنگالی دیہی کاشتکاری آبادی کو راس آئی جس نے ان کے مذہبی اعمال کو آسان تر اور فطری بنا دیا۔ دیگر جگہوں کی طرح بنگال میں بھی صوفیہ نے اسلامی معاشروں میں شریعہ اور اسلامی طرزِ حیات کی ضرورت پر زور دیا۔ اور ہو بھی کیوں نہ جبکہ ان کے نزدیک یہ نظام اس دنیا میں ایک فطری طرزِ حیات اور صحت مند ماحول میں فرد اور اجتماع کے لیے شادمانی کا ضامن تھا۔ آخرکار یہ نظام آخرت میں لافانی خوشی کے انتہائی درجہ کی راحت، پودوں، پھولوں، دریاؤں، پانی اور زندگی سے بھرپور جنۃ (لغوی معنی باغ) کے طور پر روحانی انعام کا ضامن بھی تھا۔</p> <p>حق(سچائی) کے ساتھ تعلق کی بنا پر اسلامی صوفی تعلیمات میں خوبصورتی کو ایک پسندیدہ خوبی سمجھا جاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ”خوبصورتی حق(سچائی) ہے اور حق (سچائی) خوبصورتی ہیـ“ کا نظریہ اسلامی روایت میں ایک اہم جگہ پاتا ہے۔ خدائی حسن کو سمجھنے کی خاطر فطرت کی درخشانی کا ادراک مومن کی صفاتِ لازمہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ نبیﷺ کا یہ فرمان کہ ”اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے“ اُس اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، اور اس طرح حسِ جمالیات اسلام کے ساتھ گہری طرح منسوب ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ حسن کا مخرج درحقیقت اللہ ہی کے وجود میں ہے جو اس قدر شاندار ہے کہ ایک بے حجاب انسانی آنکھ اس کی تاب نہیں لا سکتی۔ جب یہ خدائی مخلوق میں سادہ انداز میں جلوہ گر ہوتی ہے پھر کہیں جا کے یہ خوبصورتی گہری روحانی بصیرت رکھنے والے انسانوں کے مشاہدے میں آسکتی ہے۔ اسلامی نقطۂ نگاہ سے اس خدائی حسن کو کائنات میں تلاش کرنا مذہبی زہدا جزوِ لازم ہے، جو بالآخر ایک مومن کو فطرت سے ایک گہرا تعلق استوار کرنے کی راہ پر گامزن کر دیتا ہے۔</p> <p>اسلامی روحانی پیام کو بنگال کے اسلامی فن میں عمدگی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، جو فطرت میں بکھری خدائی تخلیق میں لامتناہی حسن سے ترغیب پاتا ہے۔ ہم آہنگ، متقابل خاکوں اور کونیاتی نظام میں اجزاے فطرت کی بے نظیر تخلیق کے طریقہ کار کا تخیل ایک مومن کے فرائض میں سے ہے۔ وجود کی درخشانی و تابناکی میں عدم دلچسپی کو ذہنی اندھے پن سے مماثلت دی گئی ہے(قرآن،۲۲:۴۶)۔ قرآن کے مطابق ہر انسان کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ کونیاتی نظم کے بے مثل مظہر پر غور کرے (قرآن، ۱۳:۱۹۰)۔ اسلامی ثقافت میں ایک فنکار کا ادراک خدائی تحفہ شمار کیا جاتا ہے۔ یہ اس کو قدرت کے مظاہر کا باریک بینی سے مشاہدہ کرنے اور اس کے حسن کو مزید جامعیت سے دیکھنے کے قابل بناتا ہے۔ اپنی فنکارانہ کاوشوں کے سفر کے دوران میں وہ حق کے ادراک کو وسعت دیتا ہے اور اس طرح جلد ہی اپنی تخلیقی اور تخیلاتی قوتوں کی محدودیت کو محسوس کر لیتا ہے۔ آخر کار اس تمام عمل کے دوران میں وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ہر شکل کا منبع اللہ کی تخلیق میں پنہاں ہے، ہر تخلیق اپنی اصل شکل میں خالص حسن کا جوہر رکھتی ہے (قرآن،۳۲:۷) جو نقل کے دوران اپنی اصلی ساخت کھو دیتی ہے۔ جیسے جیسے فنکار کا ادراک نمو پاتا ہے وہ محسوس کرتا ہے کہ ہر رنگ، آرائش، شکل اور خاکے کے حقیقی مخارج صرف اور صرف خدائی تخلیق میں ہی موجود ہیں۔ چناںچہ خواہ ایک فنکار اپنے فن میں مہارت کی جس سطح پر بھی پہنچ جائے وہ کسی نئی چیزکی تخلیق صحیح معنوں میں نہیں کر پاتا۔ پس ایک حقیقی فن کا نمونہ ایک مومن کے لیے کونیاتی سچائی کے قریب آنے میں مددگار ہوتا ہے، اور اس طرح آخر کار اپنی فنی کاوشوں کے دوران وہ اپنے خالق کا مشاہدہ و ادراک گہرائی سے کرتا ہے۔</p> <p>ایک مسلمان کو اپنے فنکارانہ کام میںخاصی آزادی سے مستفید ہوتے ہوئے بھی اس کی اسلامی معروضیت یہ بتاتی ہے کہ اس کے اندرابداعی صلاحیتوں کے ودیعت کیے جانے کا ایک مثبت اور مفید مقصد ہے تاکہ یہ انسانیت کے لیے مثبت خدمت سرانجام دے۔ اسلامی فن کو مثالی طور پر سچائی، عظیم ترین خوبصورتی اور سچی انسانی اقدار کو ظاہر کرنا چاہیے۔ ایک طرح سے اس سے مراد ہر اس چیز کی نفی ہے جو مثبت تخلیقی صلاحیت کی طرف نہ لے کر جاتی ہو۔ بایں طور اسلامی زندگی کو دنیوی اور دینی کے دو الگ خانوں میں بانٹا نہیں جا سکتا۔ چونکہ ایک مسلمان فنکار اپنے تخلیقی کارناموں کے ذریعے اپنے اسلامی اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کا فنی نمونہ خود کو ایک بڑے مقصد کے لیے وقف کردینے کے عمل میں بدل جاتا ہے۔ اپنی فنی تخلیقی صلاحیت کے تعاقب میں ایک مسلمان فطری قانون (دین الفطرۃ) کی حدود کوکبھی بھی پھلانگ نہیں سکتا۔ مزید برآں وہ فطرت کی خدائی ترتیب و تنظیم میں قدرتی وسائل کابے جا یا ناجائزاستعمال نہیں کر سکتا اور نہ اسے قدرتی توازن کو نقصان پہنچانے یا کسی قسم کا فساد پھیلانے کی اجازت ہے۔</p> <p>ان تمام روحانی پیغامات سے بھرپوردین اسلام آخر کار تیرھویں صدی عیسوی کے آغاز میں بنگال کے دریائی ڈیلٹائی علاقے، چاول کی ثقافت کی گزرگاہ، تک جا پہنچا۔ یہ وہ وقت تھا جب بنگال ابھی تک اپنی سرسبز وزرخیز زمین کے ایک بڑے حصے پر قدرتی جنگلات سے گھرا ہوا علاقہ تھا۔ اگرچہ آریائی نسل اور ویدی ثقافت نے اپنی جڑیں پندرہ سو سال قبل مضبوط کرنی شروع کر دی تھیں، مگر بنگال کی آبادی کی اکثریت تاحال غیر آریائی (آریائی مفتوحین کے بقول ملیچھ یا ناپاک وحشی کہلائی جانے والی) اور خانہ بدوش تھی اور مقامی لوگوں کے زیادہ تر حصے نے ابھی تک ایک مستقل دیہی زندگی نہیں اپنائی تھی۔ ویدی مذہبی روایت اور مقامی فطرت و مظاہر پرستی کی رسوم کے علاوہ اسلام سے پہلے اس علاقے میں بدھ مت بھی پھیلااور گاہے بگاہے کچھ ہندو حکمران سلطنتوں بالخصوص سین حکمرانوں کی جانب سے مخالفت کے باوجود لمبے عرصے تک قرار پذیر رہا۔</p> <p>اس خطے میں اسلام کا زیادہ تر استحکام اس وجہ سے ممکن تھا کہ اسلامی پیغام کو ایک عوامی زبان میں پیش کیا گیا، جس میں بعض اوقات مقامی مذہبی استعارات بھی استعمال ہوتے رہے۔ لیکن ضرور بالضروریہ اسلامی پیغام“ اجتماع ضدین“ سے اجتناب کرتے ہوئے پہنچایا گیا۔ ویدی مذہب کے برعکس اسلام نے خود کو بنگال میں ایک بیرونی آلہ کار کے طور پر مسلط نہیں کیا۔ علاقے میں بدھ مت کے سابقہ پھیلاؤ سے خاصی مماثلت رکھتے ہوئے اسلام نے بنگالی نفسیات کی گہرائی اور سماجی زندگی میں ایک باسہولت، بتدریج تحولاتی انداز میں بغیر کسی معاشرتی بدامنی یا یورش برپا کیے اپنا راستہ ہموار کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مقامی آبادی میں سے اکثر ابھی تک خانہ بدوش تھے، جبکہ بقیہ مستقل دیہی زندگی کو اپنانے کے مراحل میں تھے۔ اسلامی طرزِ حیات فطرتی اندازِزندگی کے ساتھ بخوبی ہم آہنگ ہو گیا۔ ”دین الفطرۃ“ ہونے کے باوصف اس نے مقامی لوگوں کے دلوں کو متاثر کیا، جن کا روایتی طرزِ زندگی صدیوں سے فطرت کے بہت قریب رہا تھا۔ گویا بنگال میں اسلام کی اشاعت انقلابی ہونے کی بجائے بہت حد تک ارتقائی تھی۔ جیسے جیسے ڈیلٹا میں دیہی آبادی میں توسیع ہوتی گئی، اسلام بنگال کی دیہی اندازِ زندگی میں آہستگی اور تدریج کے ساتھ ڈھلتا گیا۔ چند ابتدائی سلاطینی کتبات (مثال کے طور پر دیکھیے: بحال شدہ الیاس شاہی حکمران محمود شاہ کے عہد میں نبہ گرام کا مدرسہ ومسجدکاکتبہ بتاریخ۸۵۸ھ ؍ ۱۴۵۴ئ؛ کتبہ نمبر ۴۲) بھی بنگالی گاؤں (الخطۃ الریفیۃ) میں بااثر انتظامیہ کی مدد اور علما کی کوشش سے شریعہ (شعائر الشرع) یا اسلامی طرزِ زندگی کے استحکام کی طرف واضح اشارہ کرتے ہیں۔</p> <p>ہمیشہ سے نمو پذیر قابلِ دید بنگالی گاؤں میں اسلام آہستہ آہستہ ایک عوامی مذہب بن گیا۔ جیسے جیسے انسانی آبادکاری ڈیلٹا کے ساتھ ساتھ پھیلی اور اس علاقے کے زیریں دلدلی زمین کے جنگل صاف کر کے چاول کی کاشت میں توسیع ہوئی، توں توں اسلام بھی پھلتا پھولتا گیا۔ بنگال کے شاندار ماحولیاتی توازن اور فطرتی ہم آہنگی نے اس کے مشہور ادب، لوک کہانیوں، فن، تعمیرات اور ثقافت پر گہری چھاپ رکھی۔ بنگال نے چند خود مختار اسلامی سلاطین کے دورِ حکومت میں بہت خوشحالی دیکھی جن کے دور میں رفاہی کاموں (جیسا کہ: عوامی سڑکوں، سقایۃ یا آبی حوض اور کنوؤں) نے اسلام کی اس خطے کے انتہائی جوانب تک توسیع میں مدد کی۔ بنگال کے کئی اسلامی کتبوں(مثلاً مغل شہنشاہ اکبر کے زمانے کے چند کتبات)میں ہمیں وقف اور مددِ معاش (معاشی اخراجات کے لیے خصوصی مراعات؍اوقاف)کے اداروں کی طرف اشارہ ملتا ہے جس نے بلا تفریقِ مذہب تمام لوگوں کی مدد کی۔ بعد میں آنے والے مغلیہ دور(سترھویں اور اٹھارویں صدی) میں بنگال نے اپنے ماحولیاتی توازن کو کھوئے بغیر قدرتی وسائل کے مثبت استعمال میں مسلسل اضافہ دیکھااور بنگال اس سلطنت کے لیے اناج کا نہ ختم ہونے والا وسیلہ شمار ہونے لگا۔ سلاطینی کتبات میں کثرت سے ملنے والے بنگالی خطِ طغرائ کے خصائصِ خطاطی بہت خوبصورتی سے بنگال میں دیہی طرزِ زندگی اور اسلام کی ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان انتہائی دلکش کتبات کی خطاطی میں لمبے لمبے عمودی خطوط کی باقاعدہ تکرار نمایاں طور پر نظر آتی ہے جو علامتی طور پر کاشت کے لیے استعمال ہونے والے ہل یا پھاؤڑا یا پھر شاید دلدلی زمین کے بانس نما درخت (اور سرکنڈوں) اور ساتھ ساتھ بنگال کے جنگلاتی منظر کو ایک تجریدی فن میں پیش کرتی ہے۔</p> <p>بالآخر اٹھارویں صدی میں اسلام بنگال کا مقبول ترین عقیدہ و عوامی مذہب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک غالب ثقافت کے طور پر ابھرا۔ اگرچہ اس علاقے میں اسلام کے پھیلاؤ میں کارفرما عوامل کے بارے میں کئی قیاس آرائیاں کی گئی ہیں، تاہم یہ کہنا مبنی بر مبالغہ نہیں کہ اسلام علاقے میں ایسے مذہب کے طور پر داخل ہوا جو فطرت کے قریب (دین الفطرۃ)تھا۔ پس اس نے دیہاتی بنگالیوں کو اپنی طرف مائل کیا جن کا روایتی طرزِ زندگی صدیوں سے نہایت ہی سادہ اور ماحول سے ہم آہنگ رہا تھا۔ سلاطینی اور مغلیہ ادوار میںبنگال کے شاندارماحولیاتی توازن اور فطرتی ہم آہنگی نے یہاں کے اسلامی ادب، فن، تعمیرات، ثقافت اور لوک ادب پر گہری چھاپ ڈالی۔</p> <p>بنگال میں مسلم حکمرانی کے ایک سو سال میں اب تک تقریباً تیرہ عربی اور فارسی کتبات دریافت ہو چکے ہیں جن کی تاریخ ۱۲۰۵ئ اور ۱۳۰۴ئ کے درمیان کی ہے۔ ان میں سے چھے، ایک اہم مذہبی ادارے یعنی خانقاہ کی تعمیر کی یادگار پر مبنی ہیں جس نے زمانوں تک بنگال کے معاشرے اور زندگی میں اسلامی روحانی اقدار پھیلانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ خانقاہوں نے مدرسہ کے ادارے کے ساتھ مساوی انداز میں علمی درسگاہ کا کردار ادا کیا۔ اسلامی دنیاکے ازمنۂ وسطیٰ میں خانقاہوں کے تعلیم اوردانش و فکر پھیلانے کے کردار کو اس قدر اہم سمجھا جاتا تھا کہ مشہور مؤرخ اور فلسفیِ زمان ابن خلدون (م۔۱۴۰۶ئ )کو مصر کے مملوک حاکم نے قاہرہ میں بیبرس کی خانقاہ کا سربراہ مقرر کیا جو اُس وقت اسلامی دنیا کے ایک کلیدی روحانی مرکز کی حیثیت رکھتی تھی۔</p> <p>متعدد تاریخی شواہد بنگال میں کافی پہلے ہی یعنی تیرھویں صدی کے آغاز میں ہی اسلامی صوفی تحریکات شروع ہونے کا پتہ دیتے ہیں جنھوں نے مقامی آبادی پر گہرا اثر چھوڑا۔ سیان کا کتبہ بتاریخ ۶۱۸ھ؍۱۲۲۱ئ (بنگال میں دوسرا قدیم ترین اسلامی کتبہ)صوفیوں کے لیے خصوصی طور پر وقف کردہ خانقاہ کا پہلا ریکارڈ ہے۔ یہ راڑ کے علاقے کے شمال مغرب میں لکھنور(مغربی بنگال کے موجودہ بیربھوم ضلع میں)کے ایک ابتدائی مسلم انتظامی مرکز، سے زیادہ دور نہیں تھا۔ اس کے بانی (ابن محمد المراغی) نے اپنے لیے کتبے میں ”صوفی“ یا ”شیخ“ کی جگہ جنوبی ایشیا کی ایک مشہور اصطلاح ”فقیر“ استعمال کرنے کو ترجیح دی، جو مقامی بدھ اور ہندو سنیاسی روایات میں راہب کے تصور سے زیادہ ہم آہنگی رکھتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ سیان میں خانقاہ کا مقام بذاتِ خود کسی تباہ شدہ بدھ مت کا آشرم یا ایک ہندو مندر رہا ہو، کیونکہ اس عربی کتبہ پر مشتمل پتھر کی یہ لوح (جس کے الٹی طرف ایک سنسکرت کتبہ بھی ہے)وہاں موجود ایک مندر میں ملی۔ ان مسلمان صوفیہ کی جماعت کو ”أہل الصفۃ“ سے موسوم کیا گیا ہے، جو ہمیں نبیﷺ کے زمانے کی مدینہ کی ابتدائی روحانی برادری کی یاددلاتی ہے جنھوں نے مسجدِ نبویﷺ میں عبادت کی خاطر زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کے لیے غربت کاراستہ اختیار کیا تھا۔ کتبہ میں مذکور عمارت نے اس جماعت کے لیے بطور مسجد بھی کام دیا۔ یہ ایک ایسی روایت ہے جو اُس علاقے میں آج تک قائم ہے۔ کتبہ میں قرآنی آیت اور حدیث کی موجودگی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ ابتدائی صوفی شریعہ پر سختی سے کاربند تھے۔ اگرچہ یہ روایت مرورِ زمانہ میں مدھم پڑتی چلی گئی۔</p> <p>سیان خانقاہ کے بانی کی نسبت ”المراغی“ بنگال کی طرف مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر ہجرت کی طرف اشارہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ابن محمد المراغی بحیرۂ خزر (بحیرۂ کیسپین) پر المراغہ کے قصبے سے ہجرت کر کے بنگال آئے۔ بنگال کے جنوبی ساحلی علاقوں میں موجود بحری راستوں کے ذریعے صوفیہ کی آمد کا امکان اس علاقے میں۱۲۰۵ئ میں بختیار خلجی کی کامیاب فوجی مہم سے پہلے بھی وجود رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ وسطی ایشیاسے اس دور دراز مضافاتی علاقے میں اُن کا ورود تیرھویں صدی میں شروع ہوا جب وسطی ایشیا، خراسان، فارس اور ملحقہ علاقوں کا ایک بڑا حصہ منگول حملوں کی زد میں تھا۔ پس ان صوفیہ کی اس دور دراز زمین کی طرف ہجرت کرنے میں روحانی تڑپ کے ساتھ سماجی و معاشی عوامل نے لازماً اہم کردار ادا کیا ہوگا۔ وسطی ایشیا میں اپنے ترک منگول پیش روؤں کی طرح وہ اپنی خانہ بدوش ثقافت بھی اپنے ساتھ ضرور لائے ہوں گے۔ متعدد ابتدائی قرائن اور مقامی روایات اشارہ کرتی ہیں کہ ان کو اس علاقے میں شمالی بھارت، وسطی ایشیا یا مغربی ایشیاسے ان کے روحانی پیشواؤں کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔ تب تو اس بات میں کوئی اچنبھا نہیں کہ بنگال کے صوفیہ ہر جگہ موجود اپنے مذہبی بھائیوں کی طرح ہمیشہ اپنے صلاح کاروں کے ساتھ روحانی تعلق برقرار رکھنے کے لیے پرجوش رہتے تھے۔ جب بھی ان میں سے کچھ لوگ ایک علاقے میں اپنی صوفی اخوت کی ایک توسیعی شاخ کے طور پر گئے۔ انھوں نے اس علاقے میں سکونت اختیار کرنے کے بعد وہاں اپنی بھائی چارہ تنظیم قائم کی، جس میں مرشد اور مرید کے درمیان روحانی وابستگی نے کلیدی کردار ادا کیا۔</p> <p>سرحد بنگال کی جانب اسلامی سرگرمیوںکے آغاز کے لیے راہ ہموار کرنا ان کے لیے کبھی بھی آسان نہ تھا۔ اکثر اوقات ان کو اس دور افتادہ مضافاتی علاقے میں کئی سخت مراحل اور مشکلات سے گزرنا پڑتا۔ بسا اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ مقامی غیر مسلم حکمرانوں کے خلاف مقدس جنگ (جہاد) شروع کرنے کے کردار کے حوالے سے ان کی کئی کہانیاں سوائے مشہور اساطیر کے کچھ بھی نہیں۔ پس ایک انسان کو ان کی موت کے مدتوں بعد لکھے گئے سوانحی ادب پر نگاہ دوڑاتے ہوئے محتاط رہنا پڑتا ہے، کیونکہ ان میںاِن مصنفوں کی نیک تمناؤں اور مذہبی جذبات سے میل کھاتی مبالغہ آرائی بھی موجود ہوتی ہے، جو ان اولیائ کی کاوشوں و کامرانیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ مقامی روایات ان کو زندگی سے کہیں بڑی اور کرشمہ ساز شخصیات کے طور پر پیش کرنے کی خاطر ان کو مجاہد یا مذہبی جنگجو کے روپ میں بھی ڈھال دیتی ہیں، جنھوں نے علاقے میں اسلام کا جھنڈا لہرانے کے لیے مختلف قسم کی مصیبتیں جھیلیں۔ اگرچہ ایسے نظریات کی تاریخی شہادت شاید ہی کہیں ملتی ہے۔ صوفیہ کا مرکزِ نگاہ ہمیشہ نفسِ بہیمہ (دنیاوی لذات و خواہشات) کے خلاف جہادِ اکبر ہی رہا۔ اس لیے ہمیں بنگال کے معدودے چند صوفیہ ہی غازی (فاتح) یا مجاہد (مذہبی ؍دینی جنگجو)کا لقب استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے کچھ بعض مواقع پر چند ناگزیر حالات میں جہادِ اصغر (مقدس جنگ) میں مشغول بھی نظر آتے ہیں، تاکہ اپنے مقامی حریف یعنی غیر مسلم حکومت یا جاگیردار (جیسے ظالم بادشاہ یا غاصب زمینداروں)کو اقتدار سے الگ کر سکیں۔ تاہم مقبول سطح پر ”غازی“ کا لقب کچھ مقامی پیروں کو دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ مقامی روایات کے مطابق مغربی بنگال کے ضلع ہوگلی میں مندران کے گاؤں میں مدفون شاہ اسماعیل کو غازی کا لقب دیا گیا ہے۔ بہر حال نئے نئے علاقے میں منتقلی کے بعد بیشتر صوفیہ نے اپنے شاگردوں کو گھر بسانے اور گھریلو زندگی(قدیم ترکی روایت میں موجود“ کتخدا“ یا خاندانی زندگی اپنانے کا نظریہ)منتخب کرنے کی اجازت دی اور کئی صورتوں میں حوصلہ افزائی بھی کی۔</p> <p>بنگال میں صوفیہ کی اثر اندازی صرف روحانی دائرہ اثر میں ہی نہیں، بلکہ سیاسی اور سماجی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ ان میں اکثرو بیشتر بلا شک و شبہ تاریخی واقعات کے سرگرم حصہ دار تھے۔ وہ عوامی زندگی، معاشرہ اور سیاسی معاملات پر گہرا اثر رکھتے تھے، کیونکہ بہر حال وہ کائنات کے روحانی واخلاقی منتظم تھے۔ کچھ واقعات میں صوفیوں کی سرپرستی اورحمایت نے کئی حکمرانوں کو ایک طرح کی مذہبی سند عطا کر دی۔ ان میں سے بعض کے بارے میں روحانی پیشواؤں نے ان کی ابتدائی زندگی میں کسی خاص نیکی کی بدولت مخصوص علاقے کی حکمرانی کی پیشین گوئی کی تھی، جیسا کہ کچھ ابتدائی ذرائع پتہ دیتے ہیں۔ متعدد قدیم مسلمان حکمرانوں نے اپنا سیاسی سفر صوفیہ سے دعا لینے کے بعد شروع کیا۔ ابن بطوطہ نے اپنے شہرۂ آفاق سفر نامہ ”رحلۃ“ میں سونار گاؤں اور سلہٹ جیسے دور افتادہ علاقوں تک میں بھی کئی مشہور و معروف مسلمان بزرگوں سے ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ وہ ”شیدا“ نامی ایک فقیر کا بھی ذکر کرتا ہے، جس نے سونار گاؤں کے حکمران فخر الدین مبارک شاہ (عہد۷۳۹۔ ۷۵۰ ھ؍ ۱۳۳۸۔۱۳۴۹ئ) کے خلاف بغاوت کی اور اس جدوجہد کے دوران مارا گیا۔ نور قطب العالم (م۔ ۱۴۵۹ئ بمطابق لوحِ قبر) جیسے صوفیہ نے اپنے وقت کی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ سحر انگیز شخصیات کے مالک بتدائی کئی فاتحین جیسے جنوب بنگال کے باگیرہاٹ میںخان جہان کو ان کی وفات کے بعد لوک داستانوں میں بتدریج پیروں کے درجے تک بلند کر دیا گیا اور ان کی قبروں کو درگاہوںمیں بدل دیا گیا۔ بعینہ دکھشن دیناج پور میں دیوی کوٹ کے قریب ایک چھوٹے سے غیر معروف گاؤں کے ایک ٹیلے کی چوٹی پر موجود بختیار خلجی کے مقبرہ کو مقامی آبادی میں مسلم اور غیر مسلم دونوں یکساں طور پر ایک مسلمان بزرگ کی درگاہ کی حیثیت سے تعظیم و احترام دیتے ہیں۔</p> <p>صوفیہ سیاست اور معاشرے دونوں پر اثر انداز تھے اور مقتدر طبقہ نے اکثر ان کی سرپرستی کی۔ ان کی مسلسل بڑھتی ہوئی قوت اور شہرت بعض اوقات حکمران طبقہ کے ساتھ محبت و نفرت کے ملے جذبے کی طرف بھی گئی۔ سلطان سکندر شاہ دارالخلافہ میں شیخ علاؤ الحق کی بڑھتی ہوئی اثر اندازی سے اس قدر بد ظن تھا کہ اُس نے اِس بزرگ کو مشرقی بنگال میں سونار گاؤں میں شہر بدر کر دیا۔ تاہم عمومی طور پر بنگال کے مسلمان حکمران اِن صوفیہ کی بحیثیت روحانی صلاح کار عزت کرتے تھے اور ان کی نصیحتوں کو سنتے تھے، تاکہ کم از کم عوام میں اپنی مقبولیت عام کو قائم رکھ سکیں۔ ان میں سے چندنے اپنے بیٹوں کو مذہبی تعلیم کے لیے اِن کے پاس بھی بھیجا۔ مثال کے طور پر مظفر شمس بلخی نے اعظم شاہ (تقریباً ۷۹۲۔۸۱۳ھ ؍ ۱۳۹۰۔۱۴۱۰ئ) کو تعلیم دی۔ شہری مراکز اور دارالخلافوں مثلاً گوڑ، پنڈوہ اور سونار گاؤں وغیرہ میں ہمیشہ صوفیہ کی گہری وابستگی رہی، جس نے ان کو سیاسی زندگی اور شاہی خانوادے پر اثر انداز ہونے کے متعدد مواقع دیے۔ ان میں سے اکثر نے اسلامی ادب میں خاصا اثر چھوڑا۔ بعضوں نے مدارس اور ہسپتال بھی قائم کیے اور عوام الناس کی رفاہ میں مجموعی طور پر سرگرمی سے حصہ لیا۔</p> <p>بنگال کے قدیم صوفیہ ایک طرف روحانی پیشوا ہوتے تھے اور دوسری طرف علما، محدث اور نبیﷺ کی روایات کے مستند عالم ہوتے تھے۔ بعض نے علاقے میں حدیث کی تعلیم میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان میں سے اکثر نے علم کی متعدد شاخوں میں دلچسپی لی۔ بالخصوص علم و دانش کے تبادلے کے لیے عموماً انھوں نے فارسی زبان کو استعمال کیا۔ نتیجتاً ان کے ملفوظات اور مکتوبات جیسے اکثر تحریری کام فارسی زبان میں پائے جاتے ہیں۔ چونکہ اکثریت ایک مضبوط دینی تعلیم کی بنیاد بھی رکھتی تھی، اس لیے ان کی عربی پر گرفت بھی اچھی تھی۔ در حقیقت کئی حضرات نے اپنا علمی کام عربی میں بھی تالیف کیا۔</p> <p>بنگال کے قدیم ترین اسلامی ادبی فن پاروں میں سے ایک ”حوض الحیاۃ“ (زندگی کا چشمہ)، اصلاً یوگا کے ایک سنسکرت مخطوطہ بعنوان امرت کنڈ(لافانی جھیل) کا عربی ترجمہ؛ (فارسی ترجمہآب حیاۃاوربحر حیاۃ) ایسے باہمی تعاملات کا بہت واضح انداز میں ذکر کرتا ہے۔ اس عظیم کام کا مرکزی خیال زندگی کے ایک روحانی سفر سے ترتیب پاتا ہے جو مختلف مراحل سے گزرتا ہے، اور باوجودیکہ اپنے تاثر میں ایک خواب نما تجربہ ہی رہتا ہے، جو صوفیوں کے مطابق زندگی کی اصل حقیقت ہے۔ مخطوطہ کا آغاز اس تاریخی پس منظر سے ہوتا ہے جس میں کامروپ سے ایک مشہور ہندو یوگی اور اپنے وقت کا خاصا مشہور ہندو عالم بھوجربرہمن بنگالی دارالخلافہ لکھنوتی میں علی مردان(۱۲۱۰۔۱۲۱۳ئ) عہد میں آتا ہے تاکہ اس نئی فاتح قوت کے مذہب و عقیدے کے بارے میں کھوج لگا سکے۔ جامع مسجد میں نمازِ جمعہ کے وقت اس کی ملاقات اس زمانے کے ممتاز حنفی قاضی رکن الدین سمرقندی سے ہوئی اور اس نے مذہبی امور پر گفت و شنید کی۔ بھوجر برہمن نے بالآخر اسلام قبول کیا اور مذہبی نصابات کی رسمی تربیت سے گزرنے کے بعد وہ آخر کار ایک مفتی(باقاعدہ قانونی رائے دینے کے اہل) کی سطح تک پہنچ گیا۔ اس ابتدائی ہندو مسلم تعامل میں ہندی مذہبی صحائف کو ابراہیمی روایت کے تسلسل سے آنے والی مقدس کتاب کے طور پرذکر کیا گیا ہے جو ”حوض الحیاۃ“ کی زبان کے مطابق ”دو براہما“ یا بالفاظ دیگر ”ابراہم اور موسی کے مصحف“ تھے۔ پس ہندوؤں کامقدس صحیفہ ”ویدا“ اور ساتھ ساتھ آریائی ویدی مذہب کو بہت آسانی سے بنگال کے ابتدائی مسلم علما کے ذریعے اسلامی عالمگیر منظر و تصور کَون(بالفاظِ دیگر رسالت یا وحیِ الہٰی کے تصور)کے وسیع مفہوم میں سمو دیا گیا۔ اس جذبِ باہم کے طریق کار کا بہت گہرا اثر ہوا۔ یہاں تک کہ بعض مسلم فقہا نے اس مفتوح زمین میں غیر مسلم اکثریت (بدھ مت کے پیروکاروں اور ہندوؤں)کو ”مشابہ بہ اہل الکتاب“ (ایک اسلامی ریاست میں عیسائیوں اور یہودیوں کو دیا جانے والے مقام)کا مرتبہ دے دیا، جو ذمی (ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلم رعایا) کی حیثیت سے واضح بیان کردہ مکمل قانونی حقوق رکھتے تھے۔ بہت کم معروف مگر یہ اہم اقدام بہرحال جنوبی ایشیا کی اسلامی تاریخ میں نیا نہیں تھا۔ صوفی ادب میں اکثر اوقات ”صلحِ کل“ یا سب کے لیے امن کے نام سے پائی جانے والی یہ حکمت عملی محمد بن قاسم نے ٹھیک پانچ سو سال قبل فتح سندھ کے بعد کم و بیش اسی طرح اپنائی تھی، جس کے انجامِ کار نے اس علاقے کو مسلم اکثریتی علاقے میں بدل دیا۔ بنگال کے مسلمان علما کی جانب سے براہما کی بطور ابراہیم اور موسی نبی کی علامت کے طور پر شناخت نے دو اہم ترین مذہبی گروہوں - ہندو اور مسلمان - کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ایک پُل کا کردار ادا کیا، کیونکہ ان گروہوں کو آخر کارآنے والے زمانوں میں لمبے عرصے تک ایک ساتھ رہنا تھا۔ مذہبی سطح پر باہم میل جول کے ذریعے ہندو اور مسلمان علما کے درمیان مکالمہ بین المذاہب کا آغاز ایک بہت ابتدائی مرحلے میں شروع ہو گیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان صوفیہ نے بنگال کے مشرقی اور شمال مشرقی دور افتادہ جنگلاتی علاقوں بالخصوص کامروپ اور آسام میں یوگا اور اس طرح کی دیگر تنتری (اور روحانی) ورزشوںاور طریقوں میں بہت زیادہ فاضلانہ دلچسپی لی۔</p> <p>سلام کا پیغام مقامی آبادی میں متعارف کرانے کے لیے اور آسان کر کے پہنچانے کے لیے مقامی مذہبی امثال و تشبیہات اور استعارات کا استعمال صرف بنگال تک محدود نہ تھا، بلکہ گجرات اور ہندوستان کے دوسرے علاقے بھی اس تاریخی تجربے سے گزرے۔ اس دلچسپ خصوصیت نے ازمنۂ وسطیٰ کی مسلم بنگالی شاعری (پُوتھی) میں اپنے اظہار کی راہ ڈھونڈ لی۔ ایک خاص برہمن یوگی کا اسلام کی طرف مائل ہونے کا فعل علامتی طور پر بہت اہم ثابت ہوا، کیونکہ اس عمل نے یہ تاریخی تاثر دیا کہ مذہب تبدیل کرنے کا رجحان علاقے میں مسلمان حکومت کے ابتدائی ادوار میں ہی شروع ہو گیا تھا، اور اِس رجحان نے آبادی میں برہمنوں سے لے کر ملیچھوں تک کے تمام طبقات پر اثر ڈالا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ بنگال کے اوائل عہد کے اکثرو بیشتر علما، جیسے قاضی رکن الدین سمر قندی، وسط ایشیاسے آئے تھے۔ چونکہ وہ فقہ حنفی کے پیرو کارتھے، اس لیے ان کے اثر سے بنگالی مسلم اکثریت میں حنفی فقہ کو قبولیتِ عام ملی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برصغیر میں صرف بعض حنفی فقیہ ہی ہندوؤں کو مشابہ بہ اہل الکتاب قرار دیتے تھے، جبکہ شافعی اور دوسرے فقہی مذاہب عموماً ہندوؤں کو مشرک خیال کرتے تھے۔ فقہ حنفی (جو جلد ہی علاقے میں رائج ہو گئی)کی رواداری اور کشادہ ذہنی کے رویے کے تحت ہندو، بدھ اور دوسرے مذاہب کے لوگ مسلمانوں کے ساتھ مساوی سطح پر آگئے اور ہر شہری بلا تفریق مذہب قانون کی نظر میں برابری کے حقوق پانے لگا۔</p> <p>اگر ابراہیم نخعی (جو عبد اللہ بن مسعودؓ کے مشہور شاگرد تھے اور عراق میں قاضی القضاۃ تھے) جیسے مسلم فقہا نے اسلام کے اوائل ہی سے، خصوصاً عراق میں، اور مشرق کے دوسرے مفتوحہ علاقوں میں یہی درسِ مساوات دیا، توبعض نے تو اس سے بھی آگے بڑھ کر ارتداد جیسے ارتکاب گناہ کے لیے صرف توبہ ہی کو اس کی سزا قرار دیا۔ بلکہ بعض نے تو ارتداد کے بعد اسلام میں واپسی کے لئے کسی سزا کی بھی ضرورت کو مناسب نہ جانا۔ تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ بنگالی مسلمان ہمیشہ خراسان اورعراق کی طرف عقیدت و احترام سے دیکھتے تھے، کیونکہ فقہ حنفی کی ترویج کے یہی دو بڑے خطے تھے جسے وہ اپنی روحانی اور ذہنی جولان گاہ خیال کرتے تھے۔</p> <p>علمااور صوفیہ دونوں ہی عوام الناس کے ساتھ قریبی تعلقات جوڑنے میں نیز دیہی اکثریت کے لیے آسان وقابلِ فہم زبان میں اسلام کا پیغام پہنچانے میں کامیاب رہے تھے۔ عموماً صوفیہ نے اسلامی معاشرے کی تشکیل میں بعض اوقات خاموشی کے ساتھ اور بعض اوقات واضح اور بین انداز سے کئی اہم کردار ادا کیے۔ فطری تقاضوں کے عین مطابق ان کی اثر اندازی کی شرح اور ان کی سرگرمی کی شدت ہر زمان و مکاں میں ایک سی نہیں رہی۔ اُن کی خاصی بڑی اکثریت نے اصلاً اسلامی معاشروں کے مرکزی دھارے میں شریعت کے پیروکار رہتے ہوئے زندگی گزاری اور علما کے ساتھ بھی ایک گہرا تعلق استوار رکھا۔</p> <p>یہ دراصل وحدت کے بڑے تانے بانے کے اندر ثقافتی مظاہر کا علاقائی تنوع ہے جو اسلام کو ایک بھرپور، اہم اور عظیم تہذیب بناتا ہے۔ یہ اس کے بنیادی مذہبی اصولوں، زمان و مکان کی ضرورت، خیال اور حقیقت اور تغیر و ثبات کے درمیان تعامل کے تخلیقی طریقہ کار ہیں، جس نے اس تہذیب کو حتی الیوم زندہ، تاباں و دلکش اور فعال رکھا ہے۔ جب اس کا پیغام قدیم دنیا کے دور دراز کونوں میں پھیلنا شروع ہوا، تو اسلام کو دو تحدیاتی امور کا سامنا تھا: اجتماع ضدین <annotation lang="en">(Sycretion)</annotation> اورعلاقائی اظہار <annotation lang="en">(Indigenization)</annotation>۔ اگرچہ سوئِ فہم کی بنیاد پر اکثران کو مترادف تصور کر لیا جاتا ہے، لیکن کسی حد تک ان دو الفاظ کامختلف معنوی پس منظر ہے۔ علاقائی اظہار کے عمل میں جہاں بیرونی عناصر اپنے اظہار میں مقامی خصوصیات کو ڈھونڈتے ہیں، وہاں اجتماع ضدین کی اصطلاح تاریخی تناظر میں ایک عیسائی اصطلاح سے نکلی ہے، جس کا اطلاق خاص کر مخلوط زبان کی شکل میں غیر منطقی ملاپ اور متضاد عقائد کی موافقت اور معرض گفتگو میں مذکور لوگوں کی جانب سے ان کی بلا تنقید قبولیت پر ہوتا ہے۔</p> <p>مختلف لوگوں اور گروہوں کے اسلام قبول کرنے کے عمل میں علاقائی اظہار کا ایک خاص کردار ہے جو اسلامی دنیا میں ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے، اور بنگال اس سلسلے میں مستثنیٰ نہیں ہے۔ بنگال درحقیقت باقی امت سے اپنا مضبوط بندھن قائم رکھتے ہوئے اسلامی معاشرے کی علاقائی تشکیل و تنظیم کا ایک شاندار مثالی نمونہ پیش کرتا ہے۔ علما اور صوفی شیوخ نے عمومی طور پر علاقائی اظہار کی حوصلہ افزائی کی جو کہ کسی حد تک اسلامی دعوت کو عوام کی اکثریت میں مقبول بنانے میں مددگار تھی۔ زندہ اور مقبول زبان میں مقامی گروہوں کو اسلام پیش کرنے کی کوشش میں مقامی نظام سے توافق پیدا کرنے کے لیے وہ بعض اوقات ایک خاص حد تک لچک بھی بروئے کار لائے، جس حد تک وہ بنیادی اسلامی روح کے ساتھ ہم آہنگی رکھتا تھا۔</p> <p>س کے برعکس اجتماعِ ضدین کبھی بھی علما اور صوفی شیوخ کے ہاں اس بنا پر قابلِ قبول نہیں ہوئی کہ یہ شریعت سے میل نہیں کھاتی۔ مگر وقتاً فوقتاً اس نے مقتدر مسلمان اشرافیہ کی متضمن حمایت پائی، جن میں سے اکثر بذاتِ خود وسطی ایشیاکی ساسانی بادشاہی میراث کی مخلوط روایت کے علمبردار تھے۔ لیکن جس چیز نے اجتماع ضدین نیز مخلوط روایات کو وقتاً فوقتاً مقبول بنایا، وہ پیر اور مُلا(اور دیگر مختلف ناموں سے معروف مثلاً :سابقی یا روایت پسند، بے شرع یا شریعت کے غیر مقلد، اباحی یا بے لگام)کے ایک خاص طبقے کی مصلحت پسندی کی سیاست تھی۔ ان کے اپنے ذاتی سماجی اور معاشی مفادات کے باعث وہ ہمیشہ عصری صورتحال کے دفاع کے لیے بے تاب رہتے تھے۔ یہاں اس بات کی نشان دہی اہم ہے کہ صوفی، شیخ اور پیر یا مثال کے طور پر عالم اور مُلا کے الفاظ کے معروف اور محاوراتی استعمال میں کوئی خاص فرق نہیں ہے اور اکثر یہ ایک دوسرے کے متبادل و مترادف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ بایں ہمہ اِن دو علاحدہ علاحدہ سماجی طبقوں کا وجود بنگال میں ہمیشہ رہا، جنھوں نے اِس خطے کے عوام الناس کی مذہبی روایت پر گہرا اثر چھوڑا۔ جہاں صوفی شیوخ، اولیا اور علماکے ایک گروہ نے ہمیشہ شریعت کی پیروی کی پرزور حمایت کی، وہاں دوسرے گروہ (پیر، درویش اور مُلا کے نام سے مشہور)نے مخلوط ثقافت کے علم برداروں کی خدمت سرانجام دی۔ ایسی صورت حال میں شریعت پسند صوفیوں، شیوخ اور علما کے اوراجتماع ضدین اورپرانی روایات کا دفاع کرنے والے پیروں اور ملاؤں کے درمیان موجود مستقل تناؤ باعثِ حیرت نہیں۔</p> <p>مختلف سلاسل(روحانی سلسلوں)کے صوفی شیوخ نے علما (منشی، مولانااور مولوی کے نام سے معروف) کی علمی قیادت کے دوش بدوش روحانی قیادت فراہم کی جن کو عموماً مذہبی پرہیزگاری اور قابلیت کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا تھا۔ روایتی پیروں نے اس کے برخلاف ایک قسم کے مذہبی پیشواؤں کے طبقے (برہمن کے مماثل) کو جنم دیا جہاں پیشرویت موروثی ہوا کرتی تھی۔ خاندانی سلسلے پر مبنی قدامت پسند پیروں اورملاؤں نے بعد کے دنوں میں ترقی پسند صوفیہ اور علما کے زیرِ سرپرستی چلائی جانے والی اصلاحی تحریکات کی مزاحمت کی۔ مثال کے طور پر وہ تیتومیر کے زیرِ سرپرستی کسانوںکی اپنی بنیادی انسانی حقوق کے لیے جدوجہد اور آخر کار انگریز استعماری قوت کے ساتھ ٹکراؤ اور علما کی ہمہ گیر مساوات کے قیام کی تحریکات(ابتدائی نوآبادیاتی مصنفوں کے یہاں اکثر مولوی تحریک کے نام سے مذکور)کے خلاف کھڑے ہوئے۔</p> <p>مسلمانوں نے اس علاقے میں جیسے جیسے ایک معاشرتی اجتماع کے طور پر وسعت پکڑنی شروع کی ویسے ویسے صوفیہ کی پیشرو نسلوں کی اکثریت کی ترجیحات آہستہ آہستہ اپنے بنیادی روحانی مقصدِ اولیٰ یعنی سادہ زندگی گزارنے اور روحانی ترقی کے ہدف سے ہٹتی چلی گئیں۔ درگاہ، روضہ اور مزار کے نام سے مشہور اداروںکی بڑھتی ہوئی تعداد بنگال میں ابھرنا شروع ہوئی، جبکہ صوفیوں اور خانقاہوں کا اصلی فریضہ بالفاظ دیگر دعوت یا اسلامی پیغامات کی تبلیغ بتدریج مدھم پڑنا شروع ہو گئی۔ وقت کے ساتھ یہ درگاہیں اجتماع ضدین اور مخلوط روایات کی مشہور آماجگاہ بن گئیں، جنھوں نے عام لوگوں کو بزرگوں کی تعظیم اور مزاروں پر سجدہ ریزی کی طرف مائل کیا۔ مقتدر طبقہ اکثرمشہور بزرگوں کی قبروں پر شاندار مقبرے تعمیر کرنے کا عادی تھا، تاکہ ان کو مشہور درگاہوں میں تبدیل کر کے مقبولیتِ عام حاصل کر سکے۔ یہ درگاہیں بعدازاں ان کے انتظام و انصرام پر مامور لوگوں کی آمدنی کا ایک سود مند ذریعہ بن گئیں۔ بِہار میں مونگیر قلعہ کے جنوبی داخلے کے نزدیک شاہ نافہ کے مقبرے کی مشرقی دیوار پر نصب ایک کتبہ اشارہ دیتا ہے کہ سلطان حسین شاہ نے بزرگ کی قبر پر ایک یادگار گنبد ۹۰۳ھ؍۱۴۹۷ئ ۱۴۹۸ئ میں تعمیر کیا۔</p> <p>اس عمل میں صوفی روایات کی اکثریت نے اخلاقی فضیلتوں اور نفس کشی کی روحانی تربیت اور ساتھ ساتھ نفسِ بہیمی اور شہوانی خواہشات پر قابو پانے (ضبطِ نفس) پر اپنی توجہ و اصرار کھو دیا۔ بالآخر مسلمان بزرگوں کا ایک نیا طبقہ (یعنی پیر) آہستہ آہستہ نمودار ہونا شروع ہوا۔ انھوں نے اَن پڑھ دیہی طبقے سے رضاکار تلاش کیے، جن کے نزدیک اسلام کا تصور زیادہ تر وحدت الوجود یا ہمہ اوست کی ایک بگڑی ہوئی شکل کا تھا۔ کئی درگاہیں فی الحقیقت پیروں کے لیے نفع بخش ذریعہ آمدنی میں بدل گئیں۔ اس نئے طبقے کو خانقاہ کی سطح سے گزر کر ’طریقۃ‘ (روحانی بھائی چارے) کے مرحلے میں جانے اور بالآخر ’طائفۃ‘ (فرقوں) تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ ان میں سے اکثر تبدیلیاں پیروں کے حکومتی انتظامیہ سے گہرے مراسم کی وجہ سے رونما ہوئیں، کیونکہ انھوں نے اپنے خودمختار مقام کی قربانی دے کر ریاست کی طرف سے ملنے والی مختلف معاشی عنایات مثلاً انعامات یا مددِ معاش (زمینوں کی ملکیت) حاصل کیں۔</p> <p>گویا ہمیں اصلاح پسند صوفیہ ؍علما اور روایت پسند درویش یا پیروں کے مابین بدستور تاریخی نزاع کے تاریخی شواہد کثرت سے ملتے ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے گئے۔ ابتدائی صوفیہ نے عوام الناس پر زیادہ اور مقتدر طبقہ پر نسبتاً کم اعتماد کیا؛ جبکہ بعد کے ادوار میں پیر بذاتِ خود مقامی روایات بالفاظِ دیگر علاقائی مذہبی رواجوں اور روایتوں (مثلاً: بھکتی تحریکات، ہندو آشرم، مٹھ)اور ہندو مت کے گرو شاگرد کے تعلق سے متاثر ہوتے رہے۔ چند ادنیٰ طریقوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً ایک عوامی تائید یافتہ نظریۂ صلح کل (سب کے ساتھ امن ؍ ہرنظریہ و مذہب سے ہم آہنگی)کوجواز بناتے ہوئے بعض پیروں نے کئی ایسے مقامی غیر مسلم طریقوں اور روایتوں کو جذب کر نا شروع کر دیا، جنھوں نے بالآخر مختلف مسلکوں اور گروہوں کی شکل اختیار کر کے اسلامی تصوف کا اصل چہرہ چھپا دیا۔ اسی طرح بزرگوں کی تعظیم و توقیر کی اس نئی طرز کی مخلوط روایت نے صوفیہ کی جانب سے تزکیۂ نفس اور دینی پختگی جیسے انتہائی اہم کام کی اہمیت کو پس پشت ڈال دیا۔</p> <p>خاصی دلچسپ بات یہ ہے کہ اجتماع ضدین اور مخلوط روایات ہندو اور مسلمان معاشروں کو ذرا بھی مزید قریب نہیں لائیں، جتنے وہ حقیقت میں تھے۔ مشہور بنگالی افسانہ نگار اور ادیب شرت چندرا چٹاپدھائے نے بڑے پیمانے پر پڑھے جانے والے اپنے ناولوں اور کہانیوں میں ابتدائی بیسویں صدی کے بنگالی گاؤں کے سماجی میل جول کی روایت کا المناک نقشہ کھینچا ہے جہاں اگرچہ ہندو اور مسلمان ایک ہی جگہ اور فضا میں صدیوں سے بستے رہے، لیکن اس یک جائی کے باوجود ان کے درمیان ایک نفسیاتی خطِ امتیاز ہمیشہ کھنچا رہا، جس نے ان کی مذہبی اور ثقافتی زندگی کو الگ الگ رکھا۔ اس کے باوجود چند سطحوں پر باہمی تعلق و تعامل بھی وقتاً فوقتاً ہوتا رہا۔</p> <p>دیہی بنگال میں خانقاہ عام لوگوں پر گہرا اثر رکھتی تھی۔ خانقاہ سے وابستہ افراد بشمول غریب عوام کے، جو خانقاہ کے قرب و جوار میں رہائش پذیر تھی، بذریعۂ اوقاف بالخصوص مدد معاش (دیکھیے: بہرام سقا کتبہ بتاریخ ۱۰۱۵ھ ؍ ۰۷۔۱۶۰۶ئ) کے نام سے معروف طریقے سے سہارا پاتی تھی۔ چند خانقاہوں کے ساتھ عوامی سہولیات بھی میسر تھیں جیسے لنگرخانہ اور مفت ہسپتال وغیرہ۔ پس خانقاہوں نے مشرقی اورجنوبی بنگال کے زیریں ڈیلٹا میںنئے مسلمان گاؤںاور بستیوں کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کیا۔</p> </section> </body>
0021.xml
<meta> <title>اردو صحافت کا انقلاب آفریں نمائندہ: روزنامہ ”انقلاب“ اور اس کا سیاسی کردار</title> <author> <name>محمد حمزہ فاروقی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 4</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/4_m_hamza_farooqi_bunyad_2013.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>8574</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
اردو صحافت کا انقلاب آفریں نمائندہ: روزنامہ ”انقلاب“ اور اس کا سیاسی کردار
8,574
Yes
<body> <section> <p>عبدالمجید سالک نے ۱۹۱۲ئ میں اور مو لانا غلام رسول مہر نے فروری ۱۹۲۲ئ میںزمیندار کی ادارت سنبھالی۔ یہ تحریکِِ خلافت کا زمانہ تھا اور دونوں حضرات نظریاتی اور عملی اعتبار سے ’ترکِِ موالات‘ اور ’تحریکِِ خلافت‘ سے وابستہ تھے۔ زمینداراور اس کے مالک و مدیر مو لانا ظفر علی خاں ان تحریکات میں پیش پیش تھے۔ ظفر علی خاں تو اس تحریک میں حصہ لینے کی پاداش میں پانچ سال کے لیے قید کر لیے گئے۔ نو مبر ۱۹۲۱ئ میں سالک بھی ایک سال کے لیے داخلِ زنداں ہو ئے۔ مہر اور سالک نے جد و جہدِ آزادی اور تحریکِ خلافت میں بھر پور حصہ لیا۔ پھر ایسے حالات درپیش ہو ئے کہ یہ دونوں حضرات مارچ ۱۹۲۷ئ میں عملۂ زمیندار کے ساتھ مُستعفی ہو گئے۔</p> <p>مہر کی دیرینہ خواہش تھی کہ اپنا اخبار نکا لیں اور قومی خدمت سے متعلق جذبات و خیالات کا آزادانہ اظہار کریں۔ تربیت یا فتہ عملہ ان کے ساتھ تھا۔ گذشتہ بر سوں میں ان کا حلقۂ احباب خا صا وسیع ہو چکا تھا اور ان سے تعلقات کی نو عیت ایسی تھی کہ وہ اخبار کے لیے قر ضِ حسنہ دے سکیں۔ انھیں بر سر اقتدار یو نینسٹ پا رٹی کی آشیر باد اور مالی تعاون بھی میسر تھا۔ چناںچہ ۲ اپریل ۱۹۲۷ئ کو انقلاب عالمِ وجودمیں آیا۔</p> <p>مہر اور سالک کے درمیان دورِ زمینداری میں دوستی کی بنیاد پڑی۔ اس کی بنیادی وجوہ یہ تھیں۔ دونوں تقریباً ہم عمر تھے۔ فارسی شعرو ادب کا ذوق دونوں میں مشترک تھا۔ دونوں کا سیاسی مسلک بھی یکساں تھا۔ دونوں میں اشتراکِ فکرو عمل اس قدر تھا کہ زمیندار اور انقلاب کے اٹھا ئیس سالہ دور میں کبھی اختلاف کی نو بت نہ آئی۔ سالک بے پناہ متحمل مزاج تھے۔ مہر کا انقلاب کے ادارتی امور سے تعلق تھا جبکہ سالک انتظامی امور کے نگران تھے۔ مہر اداریہ نویس تھے اور سالک فکاہیہ کالم’’افکار و حوادث‘‘لکھا کرتے تھے۔</p> <p>انقلاب کے ابتدائی دور میں پنجاب میں ہندو اور سکھ تجارت، صنعت اور سرکاری ملازمتوں میں چھائے ہو ئے تھے۔ مسلمان زیادہ تر زراعت سے وابستہ تھے اور ہندو سا ہو کار گراں قدر شرح سود کے ذریعے ان کی زمینیں ہتھیانے کے درپے تھے۔ پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن ۱۹۱۶ئ کے معا ہدۂ لکھنٔو کے ذریعے مسلما نوں کو جداگانہ طر زِ انتخاب تو میسر آیا لیکن بنگال اور پنجاب میںانھیں آبادی کے تناسب سے حقِ تناسب نہ مل سکا۔ پنجاب میں مسلمان ۵۶ فی صد تھے اور بنگال میں ۵۵ فی صد لیکن انھیں قانون سازی اور بلدیاتی اداروں میں ۵۰ اور ۴۰ فی صد نیابت ملی۔ اس زمانے میں ووٹنگ جا ئیداد اور تعلیم سے مشروط تھی۔ مسلمان، ہندوؤں اور سکھوں کی نسبت زیادہ غریب، پسماندہ اور غیر تعلیم یا فتہ تھے۔ اس لیے ان کے اصل نمائندے منتخب نہ ہو پاتے اور ان اداروں میں جا گیردار یا زمیندار منتخب ہو تے جنھیں قومی مفاد سے زیا دہ نام و نمود اور ترقی عزیز تھی۔</p> <p>انقلاب مسلم حقوق کے چمپئن کے طور پر اُبھرا۔ اُس نے آبادی کے تناسب سے نما ئندگی اور سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے مسلسل جہاد جاری رکھا۔ مدیرانِ انقلاب نے جدا گانہ طرزِ انتخاب کی حمایت جاری رکھیجو مسلمانا نِ ہند کے منفرد سیاسی حقوق کا ضا من تھا اور ہندو قو میت کے سیلاب کے آگے بند کا کام دیتا رہا۔ ۲۸-۱۹۲۷ئ میں جب قا ئد اعظم محمد علی جناح چند آئینی تحفظات کے ساتھ مخلوط انتخاب قبول کر نے پر آمادہ تھے تو سر محمد شفیع نے اس سے اختلاف کیا اور طریقِ انتخاب کے سوال پر لیگ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ مدیرانِ انقلابنے اس وقت شفیع لیگ کا ساتھ دیاتھا۔ شفیع لیگ میں اقبال بھی شامل تھے اور اس جماعت نے ہندوستان کی دیگر جما عتوں کے بر عکس سائمن کمیشن سے تعاون کیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ آنے والی آئینی اصطلاحات میں مسلما نوں کے سیاسی اور سماجی حقوق کی حفاظت کی جا سکے اور ان کی تہذیب و ثقافت کو ہندو تہذیب و ثقافت اور زبان کے غلبے سے بچا یا جا سکے۔</p> <p>انقلابساڑھے با ئیس برس کے عر صے میں عروج و زوال کی منا زل سے گزرا۔ ان عوامل کا تجزیہ اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس اخبار کی زندگی کے اُتار چڑھا ؤ پنجاب کی سیاسی تا ریخ کے مد و جزر سے وابستہ رہے۔ انقلابکا جب آغاز ہوا تو اسے اقبال کی فکری رہنما ئی اور اخلاقی تا ئید میسر تھی، لیکن اسے مالی اور سیاسی استحکام یو نینسٹ پارٹی نے فراہم کیا تھا۔ پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن معا ہدۂ لکھنٔو سے ان کی اکثریت بے اثر ہو گئی۔ پنجاب میں اقتصادی، سیاسی اداروں اور مختلف شعبوں میں ہندو اور سکھ اقلیتوں کی بالا دستی تھی اور وہ مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رُکاوٹ تھی۔ انقلابنے ابتدا ہی سے مسلمانوں کے حقوق کی جنگ لڑی اور مقبولیت حا صل کی۔</p> <p>کا نگرس قا ئدین نے سا ئمن کمیشن کے مقابلے میں ۱۹ مئی ۱۹۲۸ئ کو بمبئی میں آل پا رٹیز کا نفرنس منعقد کی جس میں ہندوستان کا آئندہ دستور وضع کرنے کے لیے ایک ذیلی جما عت مر تب کی۔ اس کے صدر موتی لال نہروتھے اوردیگرارکان میں سر علی امام، شعیب قریشی، ایم۔ ایس آنپے، ایم۔ آرجیکر، جی۔ آرپردھان، سردار منگل سنگھ، سر تیج بہادر سیرو، ایم۔ این جوشی اور سبھاش چندر بوس تھے۔</p> <p>انقلاب نے ۱۲ اگست ۱۹۲۸ئ کو ایک خاص نمبر شائع کیا جس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مفا ہمتی تجا ویز پر سیر حا صل گفتگو کی گئی تھی۔ اس نمبر میں میثا قِ لکھنؤ، میثا قِ بنگال، میثا قِ لا جیت اور انصاری اور مختلف ادوار میں پیش کی گئی مسلم رہنماؤں کی تجا ویز شامل تھیں۔ </p> <p>۱۵ اگست ۱۹۲۸ئ میں جب نہرو رپورٹ منظرِ عام پر آئی تو وہ مسلمانا نِ ہند کی توقعات پر پوری نہ اُتری اوردر حقیقت نہرو رپورٹ کے ذریعے ہندو اکثریت کے غلبے کا آئینی خاکہ وضع کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے اہم نکات درج ذیل ہیں:</p> <list> <li>ملک بھر میں بلا امتیاز مخلوط انتخاب رائج کرنے پر زور دیا گیا۔</li> <li>سندھ کی بمبئی سے علیحدگی اور الگ صوبہ بنا نے کی تا ئید کی گئی بشرطیکہ مجوزہ صوبہ اپنا اقتصادی بو جھ اُٹھانے والا ہو۔</li> <li>بنگال اور پنجاب میں مسلمانوں کو آبادی کے تنا سب سے نما ئندگی دینے سے انکار کیا گیا۔</li> <li>ملک میں وفاقی طرز کی بجا ئے وحدانی طر زِ حکومت کی سفارش کی گئی۔</li> <li>کامل آزادی کی بجا ئے درجۂ مستعمرات کے حصول کو نصب العین قراردیااور عورتوں کو نمائندگی کا حق دیا گیا۔</li> </list> <p>کا نگرس کے مجوزہ آئینی خاکے میں نام نہاد ہندی قو میت پر اس قدر زور دیا گیا تھا کہ مسلمانوں کے منفرد سیا سی حقوق کی سرے سے گنجا ئش نہ تھی۔ پنجاب کے خلافتی اور قو میت پرست رہنماؤں نے ۲۸ اگست کو لکھنؤ میں آل پا رٹیز کانفرنس میں شرکت کی اور نہرو رپورٹ کو تسلیم کر لیا۔ مسلم قا ئدین کا معتدل مزاج طبقہ جن میں مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی جوہر، مو لانا شفیع داؤدی، شعیب قریشی اور جمعیت مر کزیہ خلافت اور جمعیتُ العلما کے اکابر شامل تھے، نہرو رپورٹ کے مخالف تھے۔</p> <p>مہر نے اس وقت نہرو رپورٹ کے خلاف اداریے لکھے۔ مدلل اور منطقی انداز سے اس کے مسلم ضرررساں پہلوؤںکا جا ئزہ لیا اور مسلم رائے عامہ کو بیدار کیا۔ انھوں نے اعداد و شمار کا سہارا لے کر رپورٹ کی مسلم دُشمنی کو آشکار کیا۔</p> <p>مسلم قیادت کا ایک حصہ، جس میں جناح اور مولانا محمد علی شامل تھے، رپورٹ میں آئینی ترامیم کے ذریعے مسلم مفادات کی تحفیظ کے ساتھ مخلوط انتخاب قبول کرنے پر آمادہ تھا، لیکن کا نگرس اور ہندو مہا سبھا اس رپورٹ کو حر فِ آخر تصور کرتی تھی اور کسی ترمیم کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھی۔</p> <p>مہر نے اس دور میں تا ریخ ساز کردار انجام دیا۔ آپ کے نزدیک مخلوط انتخاب کسی صورت میں بھی قابلِ قبول نہ تھا۔ اس کے علاوہ آپ نے اپنے اداریوں اور مضا مین میں رپورٹ کا تا رو پود بکھیر کر رکھ دیا۔ نہرو رپورٹ کی مخالفت نے انقلابکی ساکھ جما ئی اور مقبولیت میں اضافہ کیا۔</p> <p>نہرو رپورٹ کے متعلق مو لانا محمد علی نے ۱۰ دسمبر ۱۹۲۸ئ کو پٹنہ کے ایک جلسہ میں فرمایا: </p> <blockquote> <p>ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد میں جب منادی دی جا تی تھی تو مناد پکارتا تھا کہ خلقت خدا کی، ملک با دشاہ کا، حکم کمپنی بہادر کا لیکن نہرو رپورٹ کا ملخص یہ ہے کہ خلقت خدا کی، ملک وائسرائے کا یا پارلیمنٹ کا اور حکم ہندو مہا سبھا کا۔ درجۂ مستعمرات تسلیم کر لینے اور اس میں بھی مسلما نوں کے تحفظِ حقوق سے انکار کر دینے کے بھی وہی معنی ہیں۔</p> </blockquote> <p>نہرو رپورٹ کی اشاعت کے بعدانقلابمیں مسلما نوں کا ردِعمل مختلف انداز میں ظا ہر ہوا۔ مرتضیٰ احمد خاں مے کش نے دسمبر ۱۹۲۸ئ میںانقلابمیں ایک سلسلۂ مضا مین، ”ہندی مسلما نوں کے لیے الگ وطن“، کے عنوان سے شائع کیا۔ ان مضامین میں انھوں نے شمال مغربی مسلم اکثریتی صو بوں پر مبنی مسلم مملکت کے قیام پر زور دیا۔ مے کش نے ۱۹ دسمبر ۱۹۲۸ئ کے انقلاب میں لکھا:</p> <blockquote> <p>ان حا لات کے اندر یہ اشد ضروری ہے کہ مسلمانا نِ ہند کے لیے بھی ایک ایسا وطن پیدا کیا جائے جسے وہ اپنا گھر سمجھیں اور جہاں رہ کر وہ اپنی تہذیب، اپنے افکار اور اپنے تمدن و معاشرت کو اپنی منشا اور خوا ہشات کے مطا بق ترقی دے سکیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہندو ستان کے مسلما نوں کو بھی اس سر زمین میں ایک الگ وطن نہ دیا جا ئے۔ مسلما نا نِ ہند کے لیے وطن پیدا کرنے کے واسطے کسی بڑی جستجو کی ضرورت نہیں۔ صرف صوبہ پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان کو یک جا تصور کر کے مسلما نا نِ ہند کے لیے ایک بنا بنا یا وطن مل سکتا ہے۔</p> </blockquote> <p>اقبال نے ۳۰ دسمبر ۱۹۳۰ئ کو خطبۂ الٰہ آباد پیش کیا تو اس کا اردو ترجمہ مہر نے کیا تھا اور مو لوی محمد یعقوب ایم ایل اے سکریٹری مسلم لیگ نے حا ضرین کو اردو ترجمہ سنا یا۔ یہ ترجمہ ۲ جنوری ۱۹۳۱ئ کوانقلاب میں شائع ہوا۔</p> <p>اقبال نے فر ما یا تھا:</p> <blockquote> <p>میں پنجاب، شمال مغربی صوبۂ سر حد، سندھ اور بلو چستان کو ایک ریاست میں ضم ہو تے دیکھنا چاہتا ہوں۔ خود اختیاری حکومت یا تو سلطنتِ بر طا نیہ کے اندر ہو یا سلطنتِ بر طا نیہ کی حدود سے با ہر ہو، شمال مغربی ہند میں مسلما نوں کی آخری منزل نظر آ تی ہے۔</p> </blockquote> <p>اقبال کی مجوزہ ریاست میں بنگال شامل نہ تھا۔ آپ نے فرمایا:</p> <blockquote> <p>قسمتِ انبالہ اور چند ایسے اضلاع جہاں غیر مسلم اکثریت، نکال دینے سے یہ کم وسعت اور زیادہ مسلم آبادی کا علاقہ بن جا ئے گا۔ مجوزہ انتظام سے غیر مسلم اقلیتوں کی حفاظت کا بہتر انتظام ممکن ہو گا۔ اس تصور سے ہندوؤں یا انگریزوں کو پریشان ہو نے کی ضرورت نہیں۔</p> </blockquote> <p>سندھ کی بمبئی پر یذیڈنسی سے الگ ہونے کے بارے میں اقبال نے اسی خطبے میں فرمایا:</p> <blockquote> <p>سندھ کی پشت ہند کی جانب اور چہرہ وسط ایشیا کی طرف ہے۔ مزید یہ کہ اس کے زرعی مسائل، جن سے حکومتِ بمبئی کو کوئی ہمدردی نہیں اور لا محدود تجارتی امکانات کے پیشِ نظر کراچی ترقی پا کرہند کا دوسرا دارا لحکومت بن جا ئے گا۔ میں اسے غیر منا سب سمجھتا ہوں کہ اسے (سندھ)ایک ایسی پر یزیڈنسی سے وابستہ رکھا جا ئے جس کا رویہ آج تو دوستانہ ہے لیکن تھوڑے عرصے ہی بعد اس کا رویہ مخا صمانہ ہو نے کا امکان ہے۔</p> </blockquote> <p>اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد سے مسلما نوں پر تو کو ئی خاص اثر نہ ہوا لیکن ہندو سیا ست دانوں اور اخبارات نے اس کی مخا لفت میں ایک طو فان کھڑا کر دیا۔ شمال مغربی ہند میں مسلما نوں کی الگ ریاست کا تصور ہند وؤں کے لیے نا قا بلِ بر داشت تھا۔ یہ نام نہاد ہندی قو میت کے منا فی تھا اور بھا رت ما تا کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کے مترادف تھا۔ ہندو اخبارات اور معتر ضین کے جواب کے لیے انقلابکے صفحات تھے۔ مہر نے ۲۲ جنوری ۱۹۳۱ئ کے ایک اداریے میں لکھا:</p> <blockquote> <p>اگر مسلما نوں کے مطا لبات جو اقلِ قلیل ہیں، منظور کر لیے جا ئیںتو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ پنجاب، صوبۂ سرحد، بلو چستان اور سندھ میں وہ اپنی اکثریت کی وجہ سے غالب رہیں گے اور ہندو ستان بھر کی ہندو اکثریت ان کے اس غلبہ و اقتدار میں دست اندازی نہ کر سکے گی۔ علامہ اقبال بھی اس کے سوا اور کچھ نہیں چا ہتے۔ انھوں نے صرف اتنا اضا فہ فر ما یاہے کہ یہ اسلامی صوبے متحد ہو کر ایک اسلامی سلطنت کے قیام کا نصب العین کسی بھی طرح غیر حق بجانب قرار نہیں دیا جا سکتا۔</p> </blockquote> <p>انقلابکے ۱۵ جنوری ۱۹۳۱ئ کے اداریے میں مہر نے لکھا:</p> <blockquote> <p>ہندو چا ہتے تھے کہ مسلمان ’قو میت و جمہوریت‘ کے ان فریب کارانہ دعا وی کے ’حشیش‘ سے مد ہوش رہیں جو ہر ہندو کی زبان کا ما یۂ گفتار ہے۔ وہ چا ہتے تھے کہ مسلمان ہندوستان میں اپنی قومی تقدیر سے آشنا نہ ہوں۔ ہندوؤں کے گا نٹھے ہو ئے منصوبوں کے نتائج و عواقب سے آشنا نہ ہوں۔ سمجھتے ہیں کہ ہندو قوم جو کچھ کر رہی ہے ’قومیت و جمہوریت. کے لیے کر رہی ہے اور اسی طرح چپ چاپ ہندوستان میں ہندو راج قائم ہو جا ئے گا لیکن حضرت علامہ اقبال کی حق پرست آواز نے ہندو سلطنت، ہندو راج اور ہندو حکومت کے حصار کا طلسمِ با طل توڑ ڈالاہے۔</p> </blockquote> <p>مہر نے ایک اداریے میں شمال مغربی صو بوں کی مردم شماری کے ذریعے مسلم اور غیر مسلم آبادی کا تعین کیا اور یہ ثابت کیا کہ ضلع انبالہ کی عدم شمولیت کے نتیجے میں مسلم آبادی اس خطے میں ۶۲فی صد سے بڑھ کر ۶۷ فی صد ہو تی اور ہندو آبادی کی شرح ۲۸ فی صد سے کم ہو کر ۲۲ فی صد رہ جاتی جبکہ سکھ آبادی ۱۰ فی صد رہتی۔ اگر دریائے ستلج کو پنجاب کی آخری حد قرار دیا جاتا جیسا کہ سکھ عہدمیں تھا تو مسلم آبادی کا تناسب بڑھ جا تا اور پنجاب کو قدرتی سر حد میسر آتی۔</p> <p>آل انڈیا مسلم کانفرنس ۳۱ دسمبر ۱۹۲۸ئ کو وجود میں آئی۔ اس کی تاسیس میں میاں فضل حسین کا ہاتھ تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے غیر مو ٔثر ہونے کی بنا پر مسلم کانفرنس نے سیاسی خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی لیکن یہ ان معنوں میں سیاسی جما عت نہ تھی جیسی کا نگر س یا مسلم لیگ تھیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ ان ہم خیال مسلم اشرافیہ کا گروہ تھا جو مسلم مفادات کے تحفظ کے لیے مسلم کا نفرنس کے پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے تھے۔ میاں فضل حسین سیاست میں عوام کی شمولیت کے قائل نہ تھے۔ ان کے نزدیک سیاست شطرنج کے کھیل کی مانند تھی۔ پنجاب میں یو نینسٹ پارٹی بھی عوامی جما عت نہ تھی اور پنجاب اسمبلی کے با ہر اس کا وجود نہ تھا۔ جنوری ۱۹۳۲ئ میں اقبال مسلم کانفرنس کے صدر منتخب ہوئے۔</p> <p>آل انڈیا مسلم کا نفرنس کا سالانہ اجلاس مارچ ۱۹۳۲ئ میں لاہورمیں ہونے والا تھا۔ مہر نے انقلاب کے اداریوں میں اقبال کی حما یت کی اور ان کی سر کر دگی میں مسلما نوں کے سیاسی مسائل کے حل پر زور دیا۔ مہر نے ۱۶ جنوری ۱۹۳۲ئ کے اداریے میں لکھا:</p> <blockquote> <p>خوش قسمتی سے ہمیں کا نفرنس کے اجلاس کی صدارت کے لیے حضرت علامہ اقبال کی سی شخصیت میسر آگئی ہے اور ہمیں کامل اُمید ہے کہ حضرت ممدوح اس نازک وقت میں مسلمانوں کی صحیح رہنما ئی فر مائیں گے اور آپ کا پیغامِ عمل مسلمان نوجوانوں کی رگوں میں خونِ تازہ کی لہر دوڑا دے گا۔ مسلما نانِ ہند کو چا ہیے کہ اس کانفرنس کو کا میاب بنا نے میں کو ئی کسر اُٹھا نہ رکھیں۔</p> </blockquote> <p>مہر نے ۱۰ مارچ ۱۹۳۲ئ کو مجوزہ کانفرنس کے بارے میں اداریے میں لکھا:</p> <blockquote> <p>قارئین کرام کو معلوم ہے کہ اس کانفرنس کی صدارت حضرت علامہ اقبال نے منظور فر ما ئی ہے۔ الٰہ آباد مسلم لیگ کے بعد یہ دوسرا مو قع ہے کہ مسلما نانِ ہند کو حضرت علامہ کے پا کیزہ خیالات سننے کا فخر حا صل ہو گا۔ آپ کانفرنس کا خطبہ تحریر فرما رہے ہیں جس میں آپ مسلمانوں کے لیے ایک صاف اور واضح را ہِ عمل کی تلقین فر مائیں گے۔ اس کے علاوہ ہندوستان بھر کے مسلمان اکابرین اس موقع پر جمع ہو کر اپنے اپنے خیالات مسلمانوں کے سامنے پیش کریں گے۔ ملتِ اسلامیہ آج کل انتہا ئی ہیجان و اضطراب میں مبتلا ہے۔ نہ کانگرس نے اس کے حقوق تسلیم کیے ہیں نہ حکومت نے ان کے حق میں کو ئی اعلان کیا ہے۔ ایسی صورت میں اس کے سوا کو ئی چارہ نہیں کہ ہر خیال اور ہر عقیدے کے مسلمان متحد ہو کر بیٹھیں اور اپنی ایک تنظیم کا لو ہا حکومت اور ہنود دونوں سے منوا سکیں۔</p> </blockquote> <p>ارچ ۱۹۳۲ئ کو مسلم کانفرنس کا سالانہ جلسہ ہوا۔ مہر نے اقبال کے خطبۂ صدارت کے متعلق ۲۴ مارچ ۱۹۳۲ئ کے اداریے میں لکھا:</p> <blockquote> <p>حضرت علامہ اقبال نے مسلم کا نفرنس کے صدر کی حیثیت میں جو خطبہ ارشاد فر مایا، وہ حضرتِ ممدوح کے خطبۂ لیگ کی طرح خطباتِ صدارت کی تاریخ میں با لکل یگانہ حیثیت رکھتا ہے اور حضرت علامہ کی ذاتِ گرامی سے ہر مسلمان کو ایسے ہی خطبے کی توقع تھی۔ خطبے کے مختلف پہلوؤں پر مفصل بحث کا یہ مو قع نہیں۔ اس کا ہر حصہ ضروری ہے۔ سیاسی صورتِ حالات، سرحد، کشمیراور تنظیمِ ملی کا پروگرام، خطبے کے یہ چار اجزا ہیں۔ اول الذکر تین اجزا کے متعلق تمام ضروری امور انتہا ئی صفائی کے ساتھ پیش کر دیے گئے ہیں۔ ذمہ دارانِ انتظام کی غلطیاں، مسلما نوں کے ترجما نوں کی لغزشیں اور عام مسلما نوں کے جذبات و احساسات۔</p> </blockquote> <p>مہر نے خطبۂ اقبال کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کیا تھا:</p> <blockquote> <p>ہما رے نزدیک حضرت علامہ کے خطبے کا ایک اہم حصہ وہ ہے جس میں حضرت مو صوف نے مو جودہ سیاسی صور تِ حال کی بحث کے نتا ئج پیش کیے ہیں مثلاً یہ کہ:</p> <list> <li>مسلمان برطانیہ کے اوضاع و اطوار سے بد ظن ہو رہے ہیں۔</li> <li>اکثر اشخاص کے دل میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا مسلم اقلیت کے لیے تیسری پارٹی کا وجود عناد کیش اکثریت کے خلاف کو ئی حقیقی تحفظ ہے؟</li> <li>انگلستان کا نظامِ حکومت پار ٹیوں کی اکثریت و اقلیت پر مبنی ہے، جو لوگ حکومت کے مصیبت خیز اوقات میں تعاون کرتے ہیں انھیں ہر لحظہ شبہ رہتا ہے کہ اگر اس مدت کے گزر جانے کے بعد انگلستان میں دوسری پارٹی بر سر اقتدار آئے گی تو وہ اس تعاون کو قا بلِ قدر سمجھے گی یا نہیں۔</li> <li>مسلما نوں کو کسی ایک پارٹی پر بھروسہ نہیں کرنا چا ہیے بلکہ ایک ایسی پا لیسی وضع کرنی چاہیے جو بالغ نظرانہ اسلامی مفاد پر مبنی ہو اور جس سے بر طانیہ کے تمام باشندوںپر اثر پڑے۔</li> <li>حکومتِ بر طانیہ کا دعویٰ ہمیشہ یہ رہا کہ وہ ہندوستان میں توازن قائم رکھنے کے لیے مو جود ہے لیکن موجودہ رویے سے ظاہر ہو تا ہے کہ ایک غیر جانبدار ثالث کی حیثیت سے رہنے کی نیت نہیں رکھتی۔ </li> <li>اکثریت ہما رے پیش کردہ تحفظات کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ حکومت کی روش سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قدیم بر طانوی جرأت و دیانت کی جگہ متزلزل و غیر مستقل حکمتِ عملی پر آگئی ہے جس پر کوئی اعتماد نہیںکر سکتا۔</li> <li>مسلمان یہ غور کرنے پر مجبور ہو گئے کہ ان کی مو جودہ پا لیسی سے انگریز وں کی مشکلات تو دور ہو گئیں لیکن مسلمانوں کے لیے کو ئی مفید نتیجہ مرتب نہ ہو سکا۔</li> </list> </blockquote> <p>آخر میں حضرت ممدوح نے فرمایا:</p> <blockquote> <p>اگر تم موجودہ حکمتِ عملی کو ترک کر دینے کا فیصلہ کرو تو تمھارا قومی فرض ہو گا کہ ساری قوم کو ایثار کے لیے تیارکردو، جس کے بغیر کوئی خوددار قوم عزت کی زندگی بسر نہیں کر سکتی۔ ہندوستان کے مسلما نوں کی تاریخ میں نازُک وقت آپہنچاہے، اپنا فرض ادا کرو یا مٹ جاؤ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا کانفرنس ادائے فرض کے لیے اُٹھے گی؟</p> </blockquote> <p>انقلاب نے مسلم کا نفرنس کے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ ۲۱ مارچ ۱۹۳۲ئ کو اخبار کا خصوصی شمارہ چھپا جس میں اقبال کا خطبۂ صدارت اور آل انڈیا مسلم یو تھ کا نفرنس کے صدر حاجی عبدللہ ہارون کا خطبہ شامل تھا۔</p> <p>اس زمانے میں اقبال مہرو سالک کے سیاسی و فکری مرشد تھے لیکن ان کے مالی مفادات یو نینسٹ پارٹی سے منسلک تھے اور اس پارٹی کی قیادت کے مسلم لیگ سے اختلافات کھل کر سامنے نہ آئے تھے اس لیے مہر اور سالک مسلمانوں کے عمومی مسائل کے حل کے لیے مسلم لیگ کی حما یت کر تے تھے۔ تاہم دو باتوں میں وہ میاں فضل حسین کے ہم نوا تھے اور اس پر کسی انحراف پر آمادہ نہ تھے۔ ایک جدا گانہ انتخاب اور دوسرابنگال اور پنجاب میں آبادی کے تناسب سے مجالسِ قانون ساز میں نما ئندگی کا مسئلہ تھا۔ دوسری گول میز کا نفرنس کے بعد میاں فضل حسین کی در پردہ کو شش کے نتیجے میں بر طانوی وزیرِ اعظم ریمزے میکڈونلڈ نے پنجاب اور بنگال میں مسلم اکثریت تسلیم کر لی تھی لیکن یہ اکثریت ان کی آبادی کے تناسب سے نہ تھی۔ پنجاب میںسکھوں کو ان کی آبادی سے زیادہ حقِ نما ئندگی میسر تھا اور یہ مسلمانوں کے لیے پریشان کن صورتِ حال تھی۔ پنجاب اسمبلی میں مسلمانوں کی معمولی اکثریت نے یو نینسٹ پارٹی کے قدم جما دیے اور انھوں نے نہ تو شہروں سے اُبھرنے والے متوسط طبقے کے سماجی اور سیاسی شعور کو پھلنے پھولنے دیا اور نہ ہی سیاسی بیداری کو اُبھرنے دیا۔</p> <p>یو نینسٹ پارٹی اقتدار پرست، رجعت پسندزمیندد اروں اور جا گیرداروں کا سیاسی گروہ تھا جو اقتدار میں رہنے کے لیے انگریزوں کی سر پرستی کا محتاج تھا۔ انھیں ہم خیال ہندو اور سکھ قا ئدین کا تعاون میسر تھا جن کی مدد سے انھوں نے پنجاب اسمبلی میں اکثریت حا صل کر لی تھی۔</p> <p>قا ئدِ اعظم اپریل ۱۹۳۶ئ میں جب لا ہور تشریف لائے تو ان کے پیشِ نظر ۱۹۳۷ئ کے انتخابات تھے جو ۱۹۳۵ئ کی دستوری اصلا حات کے بعد منعقد ہونے والے تھے۔ لاہور میں جناح نے میاں فضل حسین سے ملاقات کی اور مجوزہ انتخابات میں تعاون کے طلب گار ہوئے۔ میاں صا حب نے مسلم لیگ کی پنجاب میں انتخابی عمل میں شمو لیت کی شدید مخالفت کی اور انتخابی تعاون سے انکار کیا۔ جناح، یکم مئی ۱۹۳۶ئ کواقبال سے ملے تو آپ نے نہ صرف جناح کی قیادت کو قبول کر لیا بلکہ مسلم لیگ سے بھر پور تعاون کیا۔ مو لانا ظفر علی خان نے بھی مسلم لیگ کا ساتھ دیا اور نیلی پوش تنظیم کو مسلم لیگ میں ضم کر دیا۔</p> <p>یونینسٹ پارٹی کی قیادت جب تک مسلم لیگ کی مخا لفت میں کھل کر سامنے نہ آئی مدیرانقلاب منقار زیرِ پر رہے لیکن مخالفت کا آغاز ہو تے ہی مدیرانِ انقلاب یو نینسٹ پارٹی کا حقِ نمک ادا کرنے کے لیے میدان میں کُود پڑے۔ ۱۲ مئی ۱۹۳۶ئ کو اقبال نے ایک بیان میں یونینسٹ پارٹی کی رجعت پسندی اور منافقت کو طشت از بام کیا تو انقلاب نے اس بیان کو شائع تک نہ کیا۔ ۱۸ مدیرانِ انقلاب اقبال کو اپنا سیاسی اور فکری مرشد تسلیم کرتے تھے لیکن انہوں نے اس بیان کو انقلابکے صفحات میں جگہ تک نہ دی۔ مہر نے ۱۵ مئی،۱۷ مئی اور ۲۴ مئی ۱۹۳۶ئ کے اداریوں میں اس کا جواب لکھا۔</p> <p>ان کے نزدیک مسلم لیگ کی آنے والے انتخابات میں شمولیت اور یو نینسٹ پارٹی کی مخالفت ”مسٹر جناح کی سعی کو عناصرِ افتراق کی تقویت کے سوا اور کیا قرار دے سکتے ہیں“۔ مسلم لیگ کی تنظیمِِ نو اور مسلمانانِ ہند کو متحد و منظم کرنے کے متعلق مہر کا تبصرہ یہ تھا کہ ”داخلی کش مکش بر پا کریں اور ایک دوسرے سے لڑائی چھیڑ کر اپنی قوتوں اور مسلمانوں کے مستقبل کو نقصان پہنچائیں“۔</p> <p>مسلم لیگ کی تنظیمِ نَو مسلمانا نِ ہند کی سیاست میں نئے دور کا آغاز تھا۔ یو نینسٹ پارٹی زمانے کے بدلتے منا ظر میں اپنی افادیت کھو رہی تھی۔ عوام کے سیاسی شعور کی بیداری اور کاروبارِ سیاست میں ان کی شمولیت وقت کی اہم ضرورت تھی۔ ہندو ستان میں بر طانوی اقتدار سیاسی تحریکات اورآئینی اصلاحات کے نفاذ کے بعد کمزور ہو رہا تھا۔ اس وقت مسلمانوں کو ایک ملک گیر سیاسی تنظیم کی ضرورت تھی جو کا نگرس اور دیگر ہندو فرقہ پرست تنظیموں کا مقابلہ کرتی اور اکھنڈ بھارت کے خواب کو پریشان کرتی۔ اگر وہ علا قائی تنظیموں کے زیرِ سایہ منتشر و درماندہ رہتے تو بر طانوی سامراج اور ’’ہندو کانگرس ‘‘کے طا غوتی عزائم کا مقابلہ نہ کر پاتے۔</p> <p>میاں فضل حسین ۹ جو لائی ۱۹۳۶ئ کو انتقال کر گئے۔ انتقال سے قبل میاں صاحب آئندہ انتخابات کے لیے یو نینسٹ پا رٹی کی قیادت تیار کر چکے تھے۔ ان کے جانشین سردار سکندر حیات مختلف ڈھب کے آدمی تھے۔ ۱۹۳۷ئ کے انتخابات یو نینسٹ پارٹی کا نقطۂ عروج تھے۔ پنجاب اسمبلی میں یہ اکثریتی جماعت بن کر اُبھری۔ مدیرانِ انقلاب نے بھی خوب حقِ نمک ادا کیا۔ پنجاب میں مسلم لیگ بے سرو سا مانی کے عالم میں تھی اور مدیرانِ انقلاب کی پھبتیوں اور تنقید کی سزا وار ٹھہری۔</p> <p>جنوری ۱۹۳۷ئ کے انتخا بات میں کانگرس نے چھ صوبوں میں واضح اکثریت حا صل کی۔ مسلم لیگ مسلم اقلیتی صو بوں میں خا صی کامیاب رہی لیکن مسلم اکثریتی صوبوں میں نا کام رہی۔ انتخا بات جیتنے کے بعد کانگرس کے صدر جوا ہر لال نہرو نے جا رحا نہ رویہ اپنایا اور اس کا اظہار مختلف سطحوںپر ہوا۔ نہرو مسلمانوں کے منفرد سیاسی حقوق اور جدا گانہ تشخص کے مخا لف تھے۔ وہ ہندی قو میت، مغربی جمہو ریت اور سو شلزم پر یقین رکھتے تھے۔ مغربی طر زِ جمہوریت کے وہ اس لیے خوا ہاں تھے کہ اس کے بلا امتیاز نفاذ سے ہندو غلبے کی راہ ہموار ہوتی تھی۔ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مذہبی، لسانی اور نسلی اختلافات بہت نما یاں تھے، وہاں نہ تو ہندی قومیت کا تصور کامیاب ہو سکتا تھا اور نہ ہی مغربی جمہوریت کا بلا ترمیم نفاذ کا میابی کا ضا من بن سکتا تھا۔</p> <p>صوبۂ سر حد میں کانگرس اقلیتی پار ٹی تھی لیکن وہاں کانگرس خان برادران کے تعاون سے جوڑ توڑ کے ذریعے اپنی حکومت بنانے میں کا میاب ہو گئی۔ کانگرس کی نظریں سندھ پر تھیں اور سندھ میں ریشہ دوانیوں کا سلسلہ جا ری تھا۔ کانگرس نے مسلم لیگ کو نظر انداز کرتے ہوئے مسلم را بطۂ عوام مہم شروع کی۔ کانگرس کی جا رحیت اور مسلما نوں کے خلاف یلغار نے مسلم اکثریتی صو بوں کی قیادت کو مسلم لیگ کی چھتری تلے پناہ لینے پر مجبور کیا۔ چنا نچہ ۱۴ اکتوبر ۱۹۳۷ئ کے مسلم لیگ کے سا لانہ اجلاس منعقدہ لکھنؤ میں بنگال آسام اور پنجاب کے وزرائے اعظم نے نہ صرف شرکت کی بلکہ مسلم لیگ میں شمو لیت کا بھی اعلان کیا۔ مو لوی ابوالقاسم فضل حق، سرسعد اللہ خان اور سر سکندر حیات نے جناح اور لیگ کو بے پناہ تقویت بخشی۔ پرانے خلا فتی رہنما مو لانا شوکت علی اور ظفر علی خان بھی لیگ میں شامل ہو گئے۔</p> <p>سکندر حیات خان جناح کی عوامی مقبولیت اور مسلمانانِ ہند پر ان کے اثرو رسوخ سے بخوبی واقف تھے اور جناح سے بنا ئے رکھنے میں ہی عا فیت جانتے تھے۔ انھوں نے کا نگرسی یلغار کا مقابلہ کر نے کے لیے ”سکندر جناح پیکٹ“ کاسہارا لیا تھا لیکن وہ مسلم لیگ سے مخلص نہ تھے اور نہ ہی پنجاب میںمسلم لیگ کو فعال دیکھنا چا ہتے تھے۔ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ کے واحد نما ئندے سے ان کی مخا صمت تھی۔ وہ ہر حال میں یونینسٹوں کی بالا دستی اور اقتدار کے خوا ہاں تھے۔</p> <p>جناح اس صورتِ حال سے بخوبی واقف تھے۔ لیکن کا نگرس کا مقابلہ اور بر طانیہ سے آزادی کی جنگ میں اپنی قوت مقامی مسلم قیادت سے ٹکرا کر بر باد نہیں کرنا چا ہتے تھے۔ وہ پنجاب اور بنگال کے مسلمان ووٹروں کی اہمیت سے بھی آگاہ تھے۔ انھیں آئندہ سیاسی جنگ میں بہر حال ان دو صو بوں کے عوام کو ساتھ ملانا تھا۔ پنجاب میں یو نینسٹوں سے برا ہِ راست ٹکرا ؤ کے بغیر وہ رفتہ رفتہ مسلم لیگ کی سیاسی قوت میں اضافہ اور اثرونفوذ بڑھا تے گئے۔ دوسری جنگِ عظیم کی وجہ سے مقررہ وقت پر انتخا بات تو نہ ہوئے لیکن لیگ ضمنی انتخابات میں مو ٔثر قوت بن کر اُبھرتی رہی۔</p> <p>اکتوبر ۱۹۳۷ئ سر سکندر حیات اور جناح کے در میان جو معا ہدہ ہوا تھا، اس کی ایک شق یہ تھی:</p> <blockquote> <p>سر سکندر حیات خان واپس پنجاب جا کراپنی پا رٹی کا ایک خاص اجلاس منعقد کریں گے جس میں پارٹی کے تمام مسلمان ممبروں کو جو ابھی تک مسلم لیگ کے ممبر نہیں بنے، ہدایت کریں گے کہ وہ سب مسلم لیگ کے حلف نامے پر دستخط کر کے مسلم لیگ میں شامل ہو جا ئیں۔ اندریں حالات وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے مر کزی اور صو بائی بو رڈوں کے قواعد و ضوابط کی پا بندی کریں گے، لیکن یہ معا ہدہ یو نینسٹ پار ٹی کی مو جودہ کو لیشن پر اثر انداز نہیں ہو گا۔</p> </blockquote> <p>اس معاہدہ پر کسی دور میں بھی عمل نہیں ہوا۔ جب تک سر سکندر حیات زندہ رہے، انھوں نے معمولی اختلافات کے با وجود لیگی قیادت سے بنا ئے رکھی۔ لیکن معا ہدے کی مندرجہ بالا شق ایسا ٹائم بم تھی جس نے کسی مر حلے پر پھٹنا تھا اور لیگ اور یو نینسٹ پا رٹی کی راہیں جدا کرنا تھا۔</p> <p>پنجاب کی سیاسی تاریخ میں مسجد شہید گنج کا واقعہ ایسا تھاجس کے اثرات بر سوں پنجاب کی سیاست پر رہے۔ ۱۹۳۵ئ میں مسجد شہید گنج کا سکھوں کے ہا تھوں شہید ہونا اور یو نینسٹوں کی سکھوں کو اس اقدام سے روکنے میں ناکامی، یو نینسٹ پارٹی کی مسلما نوں میں غیر مقبولیت کا سبب بنی۔ مجلسِ احرارِ اسلام بھی مسجد شہید گنج کے ملبے تلے دب گئی اور ایک مقبول سیاسی جما عت کی حیثیت سے دوبارہ نہ اُبھر سکی۔</p> <p>دوسرا اہم واقعہ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ئ کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ جلسے منعقدہ لا ہور میں قرار دادِ پاکستان کا منظور ہو نا تھا۔ اس کے بعد مسلم لیگ پنجاب میں مقبول اور مؤ ثر ہو تی گئی اور یو نینسٹ پا رٹی نمک کے تودے کی مانند سیاست کے دریا میں پگھلتی چلی گئی۔ دسمبر ۱۹۴۲ئ میں سر سکندر حیات خان کی اچانک موت یونینسٹ پارٹی کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ ان کے جانشین سر خضر حیات ٹوانہ نہ تو عوام میں اس قدر مقبول تھے اور نہ انھیں اپنے پیشرو جیسا تدبر، سیاسی بصیرت اور دور اندیشی میسر تھی۔ انھوں نے ظاہری احتیاط کے تقا ضوں کو بالائے طاق رکھ کر آویزش کی راہ اپنائی۔ انھیں اندازہ نہ تھا کہ مسلم لیگ پنجاب میں ۳۷-۱۹۳۶ئ کے دورِ کسمپرسی سے نکل کر ایک مضبوط اور توانا جما عت بن چکی تھی۔</p> <p> کے آغاز میں جناح نے مناسب سمجھا کہ یو نینسٹ پا رٹی کی منا فقت کا پردہ چاک کیا جا ئے اور سکندر جناح معا ہدے کے تحت مسلمان یو نینسٹ اراکینِ پنجاب اسمبلی کو مسلم لیگ میں شامل کیا جائے۔ جناح نے فر ما یا کہ کو ئی شخص بیک وقت دو جما عتوں کا وفادار نہیں رہ سکتا۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ یو نینسٹ پا رٹی کا نام ترک کے ’’مسلم لیگ کو لیشن پارٹی ‘‘ کا نام اختیار کیا جا ئے۔</p> <p>خضر حیات نے سکندر جناح معا ہدے کا سہارا لیتے ہو ئے دعویٰ کیا کہ وہ بیک وقت یونینسٹ اور مسلم لیگی تھے۔ انھوں فر مایا کہ معاہدے کی رُو سے پنجاب وزارت یو نینسٹ کا لاحقہ بر قرار رکھے گی اور جناح صوبا ئی معا ملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ خضر حیات نے جس معا ہدے کا سہارا لیا تھا، اس پر سکندر حیات کے دور سے اس وقت تک عمل ہی نہیں ہوا تھا۔ جناح کو بجا طور پر خضر حیات خان کی بیان کردہ تعبیر سے اختلاف تھا۔ انھوں نے فر ما یا تھا کہ معا ہدہ برابر کی سطح کے لوگوں کے لوگوں کے درمیان ہو تا ہے۔ ”کسی لیڈر اور اس کے تابع فرمان کے درمیان کیسے معا ہدہ ممکن تھا“۔</p> <p>۱۹۴۴ئ میں پنجاب مسلم لیگ اس قدر توانا ہو چکی تھی کہ یو نینسٹ پارٹی کی با لا دستی اور اقتدار کو چیلنج کر سکے۔ وہ ایک خوابیدہ جما عت سے اُبھر کر عوامی تحریک کا رُوپ دھار چکی تھی۔ حصولِ پاکستان کے لیے یو نینسٹ پارٹی کی رفاقت کا بوجھ اُتارنے پر آمادہ تھی جو اس کے مقاصد کی راہ میں بڑی رُکاوٹ تھی۔ اس کے علاوہ مجوزہ مسلم ریاست میں پنجاب ایک اہم اکائی تھا۔ پنجابی مسلما نوں کی تا ئید و حما یت کے بغیر پا کستان کا قیام ممکن نہ تھا۔</p> <p>جناح کو بخوبی اندازہ تھا کہ یو نینسٹ پارٹی کی قیادت سے ٹکرا ؤ مسلم لیگ کے لیے سود مند ہو گا۔ یونینسٹ پارٹی اپنے تضادات، رجعت پسندی اور بر طانوی حکمرانوں پر انحصار کرنے کی بنا پر زوال پذیر ہوگی۔ ۲۰ اپریل ۱۹۴۴ئ کو جناح اور خضر حیات لا ہور میں ملے، لیکن جناح خضر کو قائل نہ کر سکے۔ مئی ۱۹۴۴ئ خضر حیات ٹوانہ مسلم لیگ سے نکال دیے گئے۔ اور عملاًسکندر جناح معا ہدہ ختم ہو گیا۔</p> <p>اس واقعہ کے بعد یو نینسٹ پارٹی تیزی سے زوال پذیر ہو ئی۔ اس کے ارکان مسلم لیگ میں شامل ہوتے گئے۔ یو نینسٹ پارٹی کو سر چھوٹو رام نے سہارا دیا تھا۔ یہ ہندو جاٹوں کے نما ئندہ تھے۔ وہ جب تک زندہ رہے یو نینسٹ پا رٹی کی پُر جوش وکالت کرتے رہے۔ جنوری ۱۹۴۵ئ میں ان کی وفات سے پارٹی کو شدید نقصان پہنچا۔</p> <p>انقلاب نے خضر اور لیگ تنا زعہ کے دوران خضر حیات کا ساتھ دیا اور اس طرح وہ خضر حیات اور یونینسٹوں کی عوام میں غیر مقبولیت کا بھی حصہ دار بنا۔ مہر نے یو نینسٹوں کے دفاع میں لکھا :</p> <blockquote> <p>تمام یو نینسٹ مسلمان پاکستان کو مسلمہ قومی نصب العین سمجھتے ہیں۔ وہ صوبے میں ایک پائیدار اور مو ٔثر وزارت بنا نا چا ہتے ہیں اور ایسی وزارت ان غیر مسلم عنا صر کے اشتراک ہی سے بن سکتی ہے جن کے مفاد مسلما نوں سے ملتے جلتے ہوں۔</p> <p>ملک خضر حیات خان اور ان کے ساتھی خود اس نظام سے با ہر نہیں ہوئے بلکہ انھیں زبر دستی نکالا گیااور علت یہ نہیں تھی وہ پاکستان کے قومی نصب العین سے یا قومی تنظیم کی کسی اصل سے منحرف ہو گئے تھے۔ علت محض یہ تھی کہ وزارتی پارٹی کا نام ’’مسلم لیگ کو لیشن پارٹی‘‘ہو۔ یہ بھی نہیں کہ ملک خضر حیات خان کو اس نام سے اختلاف تھا۔ عذر محض یہ تھا کہ جو غیر مسلم عنا صر اس کولیشن میں شریک نہیں وہ اس نام کو نہیں مانتے۔</p> </blockquote> <p>پنجاب کی صور تِ حال مہر کے بیان کے مطابق اس قدر سادہ نہ تھی۔ دو نوں جما عتوں کے مقا صد میں جو اختلافات تھے وہ کسی نہ کسی مر حلے پر راستوں کی جدائی پر منتج ہوتے تھے۔ مدیرانِ انقلاب کی یو نینسٹ جماعت کی حمایت اس پارٹی کے لیے تو کیا سود مند ہوتی خود انقلابکے لیے نہا یت ضرر ساں ثابت ہوئی۔ اخبار کی اشاعت کم ہو تی گئی۔ مہر و سالک کی سیاسی بصیرت ایسی کشتی کو بچانے میں صرف ہوئی جس کا کھیون ہار اسے بیچ منجدھار ڈبونے کے درپے تھا۔ </p> <p>مہر پاکستان بننے کے مخالف نہ تھے۔ آپ نے مر غوب صدیقی کے خط کا ۱۹۶۶ئ کے غیر مطبوعہ خط میں جواب دیتے ہوئے لکھا:</p> <blockquote> <p>پاکستان کا مسئلہ معین صورت میں مارچ ۱۹۴۰ئ سے پیشِ نظر ہے۔ اس سے بیس سال پیشتر بیسیوں قومی، ملکی اور ملی مسا ئل سا منے آئے۔ مجھے یقین ہے کہ میرے مر جانے کے بعد بھی پاک و ہند کے مختلف گو شوں سے میرے کام کی شہادتیں ملیں گی۔ میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ خود پاکستان کے لیے کسی نے سب سے بڑھ کر کام کیا تو وہ میں ہوں، اس لیے کہ میرے اخبار میں یہ صدا پہلے پہل ۱۹۲۸ئ میں بلند ہو ئی تھی۔ پھر جب حضرت علامہ اقبال کا خطبۂ صدارت شائع ہوا تھا اور اس کے خلاف طو فان بر پا ہوا تھا، غیروں کا بھی اپنوں کا بھی، تو آپ نے اس طوفان کا مقابلہ نہیں کیا تھا، کیو نکہ آپ کا تو وجود بھی اس وقت نہ تھا۔</p> <p>پھر ۱۹۳۰ئ سے ۱۹۴۰ئ تک یہ سفینہ جن طوفانوں اور گر دابوں سے گزرا، اگر آپ سے پو چھا جائے تو ان کے بارے آپ کیا بتا ئیں گے۔ اکتوبر ۱۹۳۸ئ میں سندھ مسلم لیگ کا نفرنس کے خطبۂ استقبالیہ میں حاجی سیٹھ عبداللہ ہارون نے یہ صدا بلند کی تھی ۲۶ پھر آل انڈیا مسلم لیگ کمیٹی کی فارن کمیٹی جس کے صدر سیٹھ صا حب مر حوم تھے، پاکستان کا پہلا معین جغرا فیائی منصوبہ اس کمیٹی نے تیار کیا تھا، جس کے بعد اس معا ملے نے محسوس و مشہود عملی شکل اختیار کی۔ میں نے یہ داستان کبھی نہیں سنائی۔ جب کو ئی بالغ نظر شخص پا کستان کی تا ریخ لکھے گا اور وہ کم ازکم ۱۹۳۰ئ سے منظو ریِ قرارداد کی سر گذشت سامنے لا ئے گاتو اسے نظر اندز نہیں کر سکے گا۔</p> </blockquote> <p>مہر نے نو مبر ۱۹۳۸ئ سے فروری ۱۹۴۰ئ تک سر عبدللہ ہارون اور علی محمد راشدی کے ساتھ پاکستان اسکیمکی تدوین و ترتیب میں حصہ لیا تھا۔ مہر کی مرتب کردہ رپورٹ کی بنیاد پر مسلم لیگ کی مر کزی مجلسِ عاملہ نے مارچ ۱۹۴۰ئ میں قراردادِ پاکستان مرتب کی تھی۔</p> <p>انقلاب نے ۱۹۳۷ئ اور ۱۹۳۸ئ کے دوران پا کستان کی حمایت میں متعدد مضامین شائع کیے۔ ۱۱ جولائی ۱۹۳۹ئ کو مہر نے عبدللہ ہارون کے مالی تعاون سے ایک رسالہ بعنوان سیاسیاتِ اسلامیانِ ہندشائع کیا۔ اس کا مقصد بیرونِ ہند مسلم لیگ کا پیغام پھیلانا تھا۔ اس کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور اسلامی مما لک میں تقسیم کیا گیا۔</p> <p>مہر نے سیاسیات اسلامیانِ ہندکے متعلق مئی ۱۹۶۵ئ خط بنام محمد عالم مختارِ حق میں لکھا: سیا سیا تِ اسلامیانِ ہند با لکل غیر ممکن ہے کہ مل جا ئے۔ یہ میں نے ۱۹۴۰ئ میں لکھی تھی۔ مسلم لیگ کے شعبۂ خارجہ نے چھا پی۔ اب وہ نہ لیگ رہی، نہ اس کا شعبۂ خارجہ۔ کہاں سے ملے گی۔</p> <p>مہر نے اسے ۱۱ جولائی ۱۹۳۶ئ کو دفترِ امورِ خارجہ آل انڈیا مسلم لیگ (کراچی) کے تعاون سے چھپوایا تھا۔ مہر نے ابتدا میں اختصار کے ساتھ مسلما نوں کے عروج و زوال کی داستان بیان کی تھی۔ فصلِ دوم اور سوم میں آپ نے ان عوامل سے بحث کی تھی جو ہندوؤں اور مسلما نوں کی سیاسی راہیں جدا کرنے کا موجب بنے۔ ان ابواب میں آپ نے ہندوؤں کی تنگ نظری اور مہا تما گا ندھی کی منا فقانہ پالیسی کو مو ردِ الزام ٹھہرایا۔ فصلِ چہارم میں تحریکِ خلافت کے دوران مسلمانوں کی قر با نیوں اور سر فروشانہ جدو جہد کا ذکر کیا تھا۔ مہر کو ہمیشہ یہ رنج رہا کہ جب تحریک کامیابی کے نزدیک پہنچی تو پنڈت مدن مو ہن مالویہ اور گاندھی جی نے اس کا خاتمہ کر کے اس کو نا قا بلِ تلافی نقصان پہنچایا۔</p> <p>فصلِ پنجم میں ۱۹۳۷ئ سے ۱۹۳۹ئ تک کے کا نگرسی راج میں مسلم تہذیب و ثقافت کو جو نقصانات ہوئے اور ہندو تہذیب و روایات کے احیائ کے لیے جو اقدامات کیے گئے ان کا جا ئزہ لیا۔ مہر نے بد لائل یہ ثابت کیا کہ کانگرس کا اقتدار عملاً ہندو راج تھا جس میں مسلمان دوسرے یا تیسرے درجے کے شہری تھے۔ اس میں مسلما نوں کے وقار، سیاسی اور تہذیبی وجود کی گنجائش نہ تھی۔ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک نے مسلمانوں کی اکثریت کو قو میت کے تصور سے بر گشتہ کیا تھا۔</p> <p>مہر نے تحریکِ پاکستان کے سلسلے میں اپنی خدمات گنوانے کے لیے ۱۵ جون ۱۹۶۷ئ کے ایک غیر مطبوعہ خط بنام بشیر احمد ڈار میں لکھا:</p> <blockquote> <p>ان تمام مدعیانِ چراغ افروز یِ پا کستان کو یہ بھی خبر نہیں کہ میری زندگی کب سے اس جہاد کے لیے وقف ہو ئی اور معا ملہ کہاں تک پہنچ کر اتمام کو پہنچا۔ کیا یہ حقیقت کسی کو معلوم ہے کہ ۱۹۳۹ئ میں جب مسلم لیگ کی خارجہ کمیٹی بنی تھی اور دنیاے اسلام میں مسلما نانِ ہند کی حقیقی پو زیشن واضح کرنے کی ضرورت پیش آئی تو سب سے پہلا رسالہ مجھ سے ہی لکھوا یا گیا تھا۔ وہ چھپا ہوا مو جود ہے۔ کیا یہ معلوم ہے پاکستان کی پہلی اسکیم میری ہی کوشش سے تیار ہوئی تھی جس کا مسودہ اب بھی سید علی محمد راشدی کے پاس مو جود ہے۔ اسی کو دیکھ کر قا ئدِ اعظم اس طرف مائل ہوئے تھے۔ باقی رہا یہ امر کہ اس جہاد کو اتمام پر پہنچا کر میں نے تقسیمِ پنجاب و بنگال کی مخالفت ضرور کی۔ وہ پاکستان کی مخالفت نہ تھی۔ اور کوئی تھا ہی نہیں جو یہ کام انجام دے سکتا۔ نوائے وقت ۱۹۴۴ئ میں نکلا، ڈان ۱۹۴۶ئ میں، پاکستان ٹائمز ۱۹۴۷ئ میں، امروز ۱۹۴۸ئ میں۔</p> </blockquote> <p>مہر کی مسلم لیگ سے قربت سر عبداللہ ہارون کے دم سے تھی۔ عبداللہ ہارون اور سر سکندر حیات خان، مہر کے قدر دان تھے اور ان کی سیا سی بصیرت کے نہ صرف قائل تھے بلکہ وقتاً فوقتاً ان کی بصیرت اور ذہانت سے مستفید ہوتے تھے۔ ان حضرات کے انتقال کے بعد پنجاب کی مسلم لیگی قیادت سے مہر کے اختلافات بڑھتے رہے اور آپ سر خضر حیات ٹوانہ اور یونینسٹ پارٹی کے قریب تر ہوتے گئے۔ مہر نے جب مقامی مسلم لیگی قیادت جسے آپ’’ہمہ گیر نا لائق‘‘ قیادت قرار دیتے تھے، پر تنقید کی تو انھوںنے انقلاب کو پاکستان کا دشمن اور یونینسٹوں کا حاشیہ بر دار قرار دیا۔</p> <p>حکومتِ وقت کی مدح سرائی سے اخبار مالی فوائد تو سمیٹ لیتا ہے لیکن عوام میں مقبولیت کھو بیٹھتا ہے۔ پھر یو نینسٹ پا رٹی تو آزدی سے چند سال قبل ڈوبتا ہوا سورج تھی جس کی پوجا مہر و سالک کر رہے تھے۔ چناںچہ انقلاباور مہر نے حصولِ پاکستان کے لیے جو قابلِ قدر خدمات انجام دی تھیں وہ مخالفانہ پروپیگنڈے میں گہنا گئیں اور یو نینسٹوں کی حمایت نے انھیں عوام میں معتوب کر دیا۔</p> <p>دوسری جنگِ عظیم کے بعد برِ صغیر پاک و ہند میں جو سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں ان میںدو باتیں ناگزیر تھیں۔ ایک یہ کہ بر طانوی سا مراج کے دن گنے جا چکے تھے اور حکومتِ بر طانیہ ہندو ستان پر حکمرانی کے لائق نہ رہی تھی۔ جنگ میں انگلستان فا تح بن کر اُبھرا تھا لیکن عالمی جنگ نے اس کا تمام کس بل نکال دیا تھا۔ معاشی اور سیاسی عوامل کی بنا پر ہندوستان پر حکمرانی اس کے بس کا روگ نہ تھا۔ دوسرا امر یہ تھا کہ پاکستان کا قیام نا گزیر تھا۔ تصو رِ پا کستان مسلما نا نِ ہند کی دلوں کی دھڑکن میں جا گزیں تھا اور ان کی امنگوں اور آرزوؤں کا محور تھا۔ اس سے رُو گر دانی نہ کا نگرسی قیادت کے بس میں تھی اور نہ بر طانوی حکمران اسے ٹال سکتے تھے۔ سر خضر حیات ٹوانہ کے نزدیک مستقبل قریب میں نہ تو بر طانوی اقتدار ختم ہونے والا تھا اور نہ پا کستان کا قیام ممکن تھا۔ وہ خود فریبی کے حصار میں گھرے ہوئے اور بر طانوی مفا دات کی پا سداری میں اس قدر مگن تھے کہ زمینی حقائق ان کی نگا ہوں سے اوجھل تھے۔</p> <p>مسلم لیگ نے ۴۶۔۱۹۴۵ئ کے الیکشن پاکستان کے حصول کے نام پر لڑے تھے اور اس میں اسے فقید المثال کا میا بی نصیب ہو ئی۔ پنجاب میں مسلم لیگ کو ۱۷۵ کے ایوان میں ۷۹ نشستیں حا صل ہو ئیں اور یونینسٹوں کے ۱۰ ارکان تھے۔ ان میں سے بیشتر ارکان مسلم لیگ سے ملنے کے لیے تیار تھے۔ غیر مسلم ارکان بھی یونینسٹ پارٹی کو داغِ مفا رقت دے چکے تھے۔ اس طرح بھان متی کا کنبہ بکھرنے والا تھا۔ اس شکست کے بعد سرخضر حیات ٹوانہ کو وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہو جا نا چا ہیے تھا۔ وہ نہ صرف وزارتِ عظمیٰ سے چمٹے رہے بلکہ کانگرس اور اکا لی دل کے ساتھ مل کر انھوں نے نئی وزارت تشکیل دی۔ مہر کے نزدیک اس مسئلے کا حل یہ تھا:</p> <blockquote> <p>لیگ پا رٹی اصولاً وزارت بنا نے کی سب سے بڑھ کر حق دار ہے اس لیے کہ وہ اسمبلی کی سب سے بڑی پارٹی ہے اور اکثریت کی نما ئندہ ہے۔ باقی رہا دوسری پا رٹیوں سے گفتگو کا معا ملہ تو ہما رے نزدیک مسلما نوںکے نقطۂ نگاہ سے بہترین صورت یہ ہے کہ لیگ پا رٹی اور یو نینسٹ مسلمان مل جا ئیں اس لیے کہ اسلامی تنظیم کے اصول و مقا صد کے اعتبار سے ان میں کو ئی اختلاف نہیں۔ اس حالت میں دوسری غیر مسلم یا سیاسی پا رٹیوں سے جو گفت و شنید ہو گی اس میں مسلما نوں کے واضح مقا صد اور حیثیتِ کا رفرمائی ہر خطرے اور ہر خلا سے محفوظ رہے گی۔</p> </blockquote> <p>مسلم لیگ نے وزارت سازی کے لیے اکالی پا رٹی کے سردار اجل سنگھ اور گیا نی کرتار سنگھ سے مذاکرات کیے لیکن وہ کا میاب نہ ہو سکے۔ پنجاب کے اچھوت ارکان، عیسائی اور آزاد ارکان وزارت سازی کے لیے مسلم لیگ سے ملنے پر آمادہ تھے اور مسلم لیگ مطلوبہ اکثریت بھی حا صل کر لیتی لیکن انگریز گورنر نے مسلم لیگ کی وزارت نہ بننے دی۔ خضر حیات کو گورنر سر بر ٹرینڈ گلینسیِ <annotation lang="en">(Bertrand James Glancy)</annotation> کی آشیر باد حاصل تھی۔</p> <p>۵ مارچ ۱۹۴۶ئ کو یو نینسٹ پارٹی نے اکالی دل اور کا نگرس کے ساتھ مل کر وزارت تشکیل دی۔ مو لانا ابو الکلام آزاد کو بخوبی اندازہ تھا کہ خضر حیات ٹوانہ اور یو نینسٹ پارٹی مسلما نوں کا مسترد شدہ گروہ تھا۔ کانگرس، اکالی دل اور خضر حیات کے سا تھیوں میں صرف مسلم لیگ دشمنی کی قدر مشترک تھی۔ نہ ان کے سیاسی مقا صد ایک تھے نہ ہی ان کے اقتصادی منصو بوں میں اشتراک تھا۔</p> <p>مہر نے اس مو قع پر لکھا تھا:</p> <blockquote> <p>پنجاب میں جو وزارت بنی ہے اسے اس کا بڑے سے بڑا حامی بھی صحیح اور نما ئندہ قرار نہیں دے سکتا اس لیے کہ مسلما نوں کی ایک بڑی جما عت جس وزارت سے الگ ہو وہ کسی بھی حق دوست انسان کے نزدیک صحیح وزارت نہیں ہو سکتی۔ پنجاب میں مو جودہ دستور کے تحت اس قسم کی غیر طبعی حالت پہلی مر تبہ پیدا ہوئی ہے اور اس پر مسلما نوں میں تشویش و اضطراب یا غم و غصے کے جذبات پیدا ہو ئے ہیں تو انھیں کو ئی شخص نا واجب قرار نہیں دے سکتا۔</p> </blockquote> <p>مارچ ۱۹۴۶ئ میں قائم ہو نے والی وزارت سراسر کا نگرس اور اکالی دل کے رحم و کرم پر قائم تھی اور خضر حیات خان اور ان کے رفقا نہ صرف بے اثر ہو ئے بلکہ عملاً کا نگرس کے مر غانِ دست آموز ثابت ہو ئے۔ اس دور میں انتظا میہ کمزور ہو ئی اور قا نون شکنی عام ہو ئی۔ ہندو ؤ ں، سکھوں اور مسلمانوں نے بڑے پیما نے پر اسلحہ جمع کیا اور آئندہ فسادات کی تیا ریاں کیں۔</p> <p>جنوری ۱۹۴۷ئ خضر حکومت نے جلسے، جلوس اور سیاسی اجتما عات پر پا بندی عا ئد کی۔ پنجاب کے مسلمان جو پہلے ہی اس حکومت سے بیزار تھے، سول نا فر مانی پر اُتر آئے۔ حکومت نے مسلم لیگ نیشنل گارڈز اور راشٹریا سیوک سنگھ کو غیر قانونی قرار دیا۔ ان جما عتوں کو جنگِ عظیم دوم سے قبل کی فاشسٹ اور نازی جما عتوں سے مشا بہت دی گئی۔ مسلم لیگ نے خضر وزارت کے خلاف’’راست اقدام‘‘کیا۔ لا کھوں مسلمان مظاہروں میں شریک ہو ئے اور ہزاروں نے گر فتاریاں پیش کیں۔ آخر حکومت کے پر ان جواب دے گئے اور ۲۸ جنوری ۱۹۴۷ ئ کو مسلم لیگ نیشنل گارڈز اور راشٹریا سیوک سنگھ پر پا بندی ختم کر دی گئی اور لیگی رہنما رہا کر دیے گئے۔</p> <p>پنجاب حکومت نے جلسوں اور سیاسی اجتما عات پر پا بندی بر قرار رکھی لیکن ایک زوال آمادہ وزارت ان پا بندیوں سے معا شرے میں انتشار اور خود اپنی بر بادی کا سامان فراہم کر رہی تھی۔ ان سو ختہ سا ما نوں کو آنے والے دور کی خانہ جنگی اور صوبۂ پنجاب کی بر بادی کا کو ئی انداز ہ نہ تھا۔ سیاسی محاذ آرائی سے مسلم لیگ کی مقبو لیت میں اضافہ ہوا اور مطا لبۂ پا کستان نے شدت اختیار کرلی۔ ۲۶ فروری ۱۹۴۷ئ کو خضر حیات ٹوانہ نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد بر طا نوی گورنر نے دفعہ ۹۳ کا سہارا لے کر صوبے میں گورنر راج قائم کر دیا۔</p> <p>انقلاب نے اپریل ۱۹۲۲ئ سے ۱۷ اکتوبر ۱۹۴۹ئ کے عر صے میں پنجاب میں مسلم حقوق کی با زیابی کے لیے بھر پور جہاد کیا۔ ملک اور صوبے میں ہندوؤں کے سیاسی اور معا شی اور تہذیبی غلبے کے خلاف مسلسل جدجہد کی، کیونکہ ہندوؤں کا غلبہ مسلما نوں کی سیاسی، معا شرتی اور ثقافتی تبا ہی کے ساتھ مشروط تھا۔ یہ کا وشیں بالآخر مسلما نوں کے لیے الگ وطن کے مطا لبے پر منتج ہو ئیں۔ انقلابجنوری ۱۹۳۱ئ سے حصولِ پا کستان کے لیے کو شاں تھا۔ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ئ کو مسلم لیگ کی قراردادِ پاکستان کی تدوین میں مہر کا دخل تھا۔ ان خدمات کے باوجود مہر کی خدمات کا نظر انداز کیا جانادر حقیقت مدیرانِ انقلاب کی کرنی کا پھل تھا۔ وہ مسلم لیگ اور یو نینسٹ کی کش مکش کے دوران یو نینسٹوں کا ساتھ دینے میں حد سے تجا وز کر گئے۔ اور بدلتے ہو ئے سیاسی موسم کے ادراک میں نا کام رہے۔</p> <p>مدیرانِ انقلاب کو بنگال اور پنجاب کی تقسیم کا بے حد دکھ تھا اور وہ اس غم کو آخر تک بھلا نہ پا ئے۔ وہ ان صو بوں کی تقسیم کا ذمہ دار مسلم لیگی قیادت کو تصور کرتے تھے حال آنکہ مسلم لیگ آخری وقت تک ان صوبوں کی تقسیم کی مخالف رہی۔ ان کی غیر منصفانہ تقسیم کی ذمہ دار بر طانوی حکومت اور کانگرسی قیادت تھی۔ دونوں قوتیں ہندوستان کی تقسیم کی مخالف تھیں۔ حا لات کے جبر کے تحت وہ بادلِ نخواستہ اس پر راضی بھی ہو ئیں تو حتی الامکان پاکستان کو نقصان پہنچا یا۔</p> <p>پاکستان بننے کے بعدانقلاباپنے حلقۂ قارئین کے بڑے حصے سے محروم ہوا۔ مدیرانِ انقلاب کا بر سوں کا جمع شدہ سر ما یہ اور جا ئیدا دیں مشرقی پنجاب میں غارت ہو ئیں۔ معا شی بنیا دیں متزلزل ہو نے کے بعد زوال آمادہ انقلابکا دوبارہ پنپنا محال تھا۔ قیام پاکستان کے بعد انقلابنے مسلم لیگی قیادت کی بد انتظامی پر کڑی نکتہ چینی کی اور متروکہ املاک کی بندر بانٹ پر انھیں آڑے ہا تھوں لیا۔ صو با ئی حکومت نے اخبار کے اشتہارات اور نیوز پرنٹ کا کو ٹہ بند کر دیا۔ انقلابکو مہنگے داموں بازار سے کاغذ خریدنا پڑا۔</p> <p>مہر نے اپنے اداریے میں صوبۂ سر حد کے وزیرِ اعظم خان عبد القیوم خاں کے آمرانہ ہتھکنڈوں کی شدید مذمت کی۔ حکومتِ سر حد نے صوبۂ سر حد میںانقلاب کے داخلے پر پا بندی عا ئد کر دی۔ انقلابڈھا ئی تین سال سے معا شی مشکلات میں مبتلا تھا۔ مہر اور سالک کے دو ستوں کے قرض نے اسے مالی سہارا دیا تھالیکن ڈوبتے اخبار کے لیے یہ تنکے کا سہارا تھا۔ آخر مسلسل نقصان اُٹھانے کے بعد مہر اور سالک نے ۱۷ اکتوبر ۱۹۴۹ئ کو انقلاببند کر دینے کا فیصلہ کیا۔</p> </section> </body>
0022.xml
<meta> <title>اردو میں شکنتلا کی تقلیب: نمائندہ متون کا تحقیقی مطالعہ</title> <author> <name>جاوید احمد خورشید</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 4</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/6_javed_ahmed_khursheed_bunyad_2013.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>3154</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
اردو میں شکنتلا کی تقلیب: نمائندہ متون کا تحقیقی مطالعہ
3,154
Yes
<body> <section> <p>ادبی تقلیب <annotation lang="en">(Literary Adaptation)</annotation> اور ادبی تطبیق <annotation lang="en">(Literary Appropriation)</annotation> کی شعریات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ کالی داس کی شکنتلا یا سکنتلا (کہانی)۳ خود ایک ادبی تقلیب کی صورت ہے۔ کیوں کہ شکنتلا کالی داس کے تخیل کی اُپج نہیں ہے۔ یہ ڈراما، رزمیہ داستان۴ مہا بھارت کے ایک قصے سے ماخوذ ہے۔ کالی داس کے اس ڈرامے کو ادبی تقلیب اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اس میں تقلیب کار <annotation lang="en">(adapter)</annotation> نے ماخذ متن <annotation lang="en">(source text)</annotation> کو بطور حوالہ استعمال کرتے ہوئے صنف ِ رزمیہ سے ڈرامے کے قالب میں ڈھالا ہے۔ کالی داس کی یہ کہانی نئی اور تمام تر طبع زاد نہیں ہے۔ اس کا موادمہابھارت کی ایک ضمنی کہانی سے حاصل کیا گیا ہے۔ البتہ اس کہانی میں اس نے تھوڑا سا ردوبدل اورترمیم و اضافہ کر کے کچھ نئی ترتیب کے ساتھ اس کو اس طرح پیش کیا ہے کہ اچھوتی اور طبع زاد معلوم ہوتی ہے۔۶ کالی داس نے اس کہانی کو اپنے ڈرامے کی بنیاد بنایا لیکن اس میں، جیسا کہ اس کی کہانی سے ظاہر ہے، بعض اضافے بھی کیے ہیں اور اس کو بالکل نئی شکل دے دی ہے۔ ڈرامے اور کہانی میںجو مواقع بالکل مماثلت رکھتے ہیں وہاں دونوں میں سیرت کے رنگ اور جذبات کے آہنگ کے اظہار میں نمایاں اختلاف رونما ہوتا ہے۔ اس ڈرامے کی شہرت و مقبولیت میں کچھ حصہ کالی داس کے سحر و اعجاز کا بھی ہے۔ مہاکوی کالی داس نے اس سیدھی سادی کہانی میں قدرے تبدیلی کر کے اپنے ڈرامے شکنتلا کا موضوع بنایا۔ کہانی کے واقعات، پلاٹ کی ترتیب، مناظر کی پیش کش اور صورت حال کے انداز بیان میں فرق رونما ہوا ہے۔ پیش کردہ افراد کی سیرتوں میں بھی تبدیلی پیدا ہو گئی ہے۔ مثال کے طور پرراجا کا کردار ایسا ہے جس میں اسے مذہب پسند دکھایاگیا ہے، وہ سادھوئوں کا احترام کرتا ہے، اسے ان کی بات کا پاس ہے، آشرم اس کے لیے پاکیزہ اور مقدس جگہ ہے جسے ایک نظر دیکھنے ہی سے انسان کے پاپ دھلتے ہیں۔ راجا کی سیرت کا یہ پہلومرزاکاظم علی جو ان (م۔۱۸۱۶ئ) کی کہانی کے راجا میں نہیں ہے۔ چناں چہ اس کی سیرت ادھوری اور یک رخی ہو کر رہ گئی ہے۔ ماخذ متن میں تقلیب کار کی جانب سے ان تبدیلیوںسے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ تقلیب کار ماخذ متن کو اپنے انداز میں پیش کرنے کاخواہش مند تھا۔ یہی وہ عنصر ہے جو تقلیب کار اور تطبیق کار میں حدِ فاصل کھینچتا ہے۔ تطبیق کار <annotation lang="en">(appropriater)</annotation> قالب کی تبدیلی کے ساتھ ماخذمتن سے ممکنہ حد تک قریب (faithful)رہتا ہے۔ تطبیق کار کی نسبت تقلیب کار ماخذ متن کی تعبیرِ نو <annotation lang="en">(re-interpret)</annotation> ہی نہیں کرتا بلکہ تخلیقِ نو <annotation lang="en">(re-create)</annotation> بھی کرتا ہے۔ عصری رائے یہ ہے:</p> <blockquote> <p>مہا کوی کالی داس نے اس سیدھی سادی کہانی میں قدرے تبدیلی کر کے اپنے ڈرامے شکنتلا کا موضوع بنا یا ہے۔ مہابھارت کی کہانی میں راجا دشنیت ایک عیش پسند راجا معلوم ہوتا ہے جو ایک بھولی بھالی لڑ کی کو اپنے دام ہوس میں پھنسا کر اس سے شادی کر لیتا ہے اور پھر اسے پہچاننے اور اپنے پاس رکھنے سے انکار کر دیتا ہے۔ کالی داس نے اس کہانی میں بنیادی تبدیلی یہ کی ہے کہ راجے کی بھول کو ایک بگڑے دل سادھو درواسا کی بددعا پر محمول کیا ہے۔ [قصہ یہ ہے کہ] ایک دفعہ درواسا آشرم میں سکنتلا کے پاس آتا ہے۔ سکنتلا اپنے محبوب کے دھیان میں اس قدرمگن ہوتی ہے کہ اسے کسی کے آنے اور صدا دینے کی خبر تک نہیں ہوتی۔ سادھو بگڑ کر وہاں سے چل دیتا ہے اور یہ بددعا دیتا ہے کہ جس کے خیال میں تو ایسی ڈوبی ہے کہ کسی کی سدھ نہیں، وہ بھی تجھے ایسا بھول جائے کہ یاد دلانے پر بھی نہ پہچانے۔ سکتنلا کی سکھی پریم ودا جب یہ سنتی ہے تو سادھو کے پیچھے بھاگتی ہے اسے راضی کرنا چاہتی ہے۔ پریم ودا کی منت سماجت سے وہ اس قدر کہتا ہے کہ نشانی کی انگوٹھی دیکھنے کے بعد بددعا کا اثر جاتا رہے گا۔ کالی داس نے اس واقعے اور انگوٹھی کے گم ہونے کے قصے کو شامل کر کے کہانی میں جان ڈال دی ہے اور راجا کے کردار کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ مہابھارت کی کہانی اور کالی داس کی کہانی میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ اصل کہانی میں سکنتلا بچے کی ولادت کے بعد راجا کے دربار میں پہنچتی ہے اور بچے کو ساتھ لے کر جاتی ہے لیکن کالی داس کے یہاں بچے کی ولادت بعد میںہیم کوٹ کے پہاڑ پر کشیب رشی کے آشرم میں ہوتی ہے۔ کالی داس نے ڈرامے کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے مناظر کی پیش کش میںاور بھی اضافے کیے ہیں جن کی اصل منظوم کہانی میں گنجائش نہ تھی۔</p> </blockquote> <p>اٹھارویں صدی کے آخر میں جب سر ولیم جونس (۱۷۴۶ئ-۱۷۹۴ئ) نے انگریزی میںشکنتلا کا ترجمہ کیا تو یورپ میں اسے مقبولیت حاصل ہوئی جس کے بعد وہاں کی اور ہندوستان کی تمام ادبی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے۔ انگریزی، فرانسیسی، جرمنی وغیرہ کے علاوہ فارسی اور عربی زبان میں بھی اس ڈرامے کانثری یا شعری ترجمہ ہو چکا ہے۔ اردو میں بھی کالی داس کی اس تخلیق کو مختلف قالبوں میں ڈھالا گیا ہے: مرزا کاظم علی جو ان نے کہانی کے قالب میں، حافظ محمد عبداللہ نے غنائیہ ناٹک کی صنف میں سید محمد تقی اور اقبال ورما سحر ہت گامی (م۔۱۹۴۲ئ) نے ۱۹۱۰ئ میںمثنوی کے قالب میں موسوم بہ رشکِ گلزار اورمثنوی سحر بالترتیب پیش کیا ہے۔ اس ڈرامے کو ناول کے قالب میں بھی پیش کیا گیا ہے۔ رابندرناتھ ٹیگور (۱۸۶۱ئ-۱۹۴۱ئ) نے شکنتلا کے قصے کو بچوں کے لیے بنگالی زبان میں تحریر کیا۔ پریم چند کا بیان شکنتلا کی ناول کی صنف میں تقلیب کے تعلق سے اہم ہو سکتا ہے:</p> <blockquote> <p>لکھنے والا تخیل یا فکری قوت کی کمی کے سبب سے قدیم کہانیوں کا سہارا نہیں لیتا بلکہ نئے قصوں میں وہ ’رس‘ اور دل فریبی نہیں جو پرانے قصوں میں پائی جاتی ہے۔ ان پرانے قصوں کو ایک نئے قالب میں ہونا چاہیے۔ شکنتلا پر اگر کوئی ناول لکھا جائے تو وہ کتنا دل آویز اور دلچسپ ہوگا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔</p> </blockquote> <p>چوں کہ زیرِ نظر مطالعے کا تعلق انیسویں صدی کی تقلیبات سے ہے اس لیے صرف ان تقلیبات کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے گا جن کا تعلق انیسویں صدی سے ہے۔ شکنتلا کو اردو سے روشناس کرانے کا سہرا مرزا کاظم علی جو ان کے سر ہے۔ انھوں نے ڈاکٹر جان گل کرسٹ کی فرمائش پر ۱۸۰۱ئ میں کہانی کے قالب کو اردو کا جامہ پہنایا۔ جو ان کی لکھی ہوئی شکنتلا کا کالی داس کی شکنتلاسے مقابلہ کرنا عبث ہے۔ جو ان کی شکنتلا اصل ناٹک کے مقابلے میں محض ایک بعیدپرتو ہے البتہ قصہ سمجھنے اور اس کے مضامین پر اطلاع پانے کے لیے ایک تمہید کا کام خوب دے سکتی ہے۔</p> <p>انیسویں صدی کے وسط تک اردو میں منظوم افسانوی ڈرامے بالعموم مثنوی کے قالب میں لکھے گئے۔ منظوم ڈراموں میں بے نظیر بدرمنیر، جہاںگیر شاہ گوہر، چھل بٹاو موہنا ر انی، شکنتلا، پدماوت اورلیلیٰ مجنوں آرام کے مشہور ڈرامے ہیں۔ اسی طرح حافظ محمد عبداللہ نے شکنتلا کے متن کو اپنی قائم کردہ ”دی انڈین امپیریل تھیئٹریکل کمپنی آف انڈیا“ (۱۸۸۱ئ-۱۸۸۲ئ)۲۵کے لیے غنائیہ ناٹک کی صورت میںڈھالا۔ حافظ عبداللہ کے اس ڈرامے کا آغاز یعنی پہلا سین ’اِندر کے دربار‘ سے ہوتا ہے اس میں راجا اِندر اپنے خوف کا اظہار کرتا ہے کہ بسوا متر کوجب سے جانا ہے حال دل میں کھٹکا ہے مرادیہ کہ ہر دم خارِ ملال۔ اسی منظو م اظہار میں اِندر نے اپنے دل میں پیدا ہونے والے خدشے کے سدباب کا بھی بیان کیا ہے کہ یہ کھٹکا اور سوگ اسی صورت مٹ سکتا ہے کہ کوئی پری اس کا جوگ توڑ دے۔ جب کہ سنسکرت ڈرامے کے قدیم رواج کے مطابق اصل ڈراما ناندی یعنی حمد سے شروع ہوتا ہے۔ پھر سوتردھار (ہدایت کار)کی تمہید کے بعد پہلا انک (ایکٹ) شروع ہوتا ہے۔ اس میں راجا کو شکار کے دوران میں ہرن کا پیچھا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہاں راجا اور رتھ بان کا مکالمہ پیش ہوتا ہے۔ پھر راجا آشرم میں پہنچتا ہے اور شکنتلا اور اس کی سکھیوں سے ملتا ہے۔ اور راجا شکنتلا کے عشق میں گرفتا ر ہو جاتا ہے۔ حافظ عبداللہ کی اس منظوم تقلیب پر نہ صرف تقلیب کار کا ناصحانہ اندازِ فکر غالب ہے بلکہ متعدد جگہوں پر تقلیب کار نے ڈرامے میں موجود سنسکرت روایت کے ساتھ ساتھ وہ لفظیات اور طرزفکر پیش کیا ہے جس سے ماخذ متن اپنی سنسکرت روایت سے دور اور اسلامی روایت سے قریب ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ اس ڈرامے کی انیسویں صدی کی ایک قدیم طباعت کے آخر میںشائع کردہ ایک اشتہار میں بھی ”دی انڈین امپیریل تھیٹریکل کمپنی آف انڈیا“ نے اپنی پالیسی کا بین اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:</p> <blockquote> <verse> بشر کرتے ہیں جو کچھ نیک و بد کام دکھا دیتے ہیں ہم ہر اک کا انجام </verse> <p>اس کمپنی کے تقرر کا یہ منشا رہا ہے کہ اہلِ ہند کو افعالِ قبیحہ کے بد نتائج اور اعمالِ حسنہ کی نیک ثمری بذریعہ فن ناٹک نصیحتاً دکھلائی جائیں۔ اس کمپنی نے اکثر ایسے ہی تماشے جو عمدہ نتیجہ بخش مشہور و معروف حکایتوں سے لیے ہیں اور ان کے مضامین عربی، ہندی، انگریزی عروض کی مختلف بحروں میں بہ زبانِ فصیح اردو نظم کیے ہیں۔ یہ کمپنی ہر شب میں ایک جدید شاہانہ تماشا گوناگوں پردوں، زرق برق پوشاکوں اور عجیب و غریب شعبدوں سے عمدہ سازو سامان کے ساتھ دلکش راگ میں بہ کمال خوبی و خوش اسلوبی دکھاتی ہے۔ تماشوں کے بعد بڑی دل لگی کی ایک نقل بھی دکھائی جاتی ہے۔ اور اثناے تماشا میں فرصت کے موقع پر پیانو، میوزیکل بکس، آرگن، ہارمونیم وغیرہ کی اقسام سے کوئی باجا سناتی ہے۔ ہر ایک تماشے کے دن ا شتہارات شرائط جلسہ مع خلاصہ مضمون تماشا تقسیم کیے جاتے ہیںجن کے پیشِ نظر ہونے سے مطالب تماشا ہر شخص کی سمجھ میں بخوبی آجاتے ہیں۔ یہ کمپنی عموماً ٹکٹ پرتماشا دکھلاتی ہے مگر طلب فرمانے سے امراے نامدار کے درِ دولت پر بھی جاتی ہے۔ انگریز عمل داری ریلوے سفر میں بااستثنا میلوں کے اخراجات طلبی کمپنی بابت تیاری اسٹیج پانچ سو روپیہ اور بابت کرایہ سواری و بار برداری فی میل پانچ روپیہ اور تاریخ روانگی سے واپسی تک با استثنا تعطیل یکشنبہ جن راتوں میں تماشا نہ ہو سکے فی شب پچاس روپیہ مقرر ہے اور معمولی اجرت تماشا چار تماشوں کے لیے ایک ہزار روپیہ۔ انھیں تماشوں کے لیے ڈیڑھ ہزار روپیہ بعد فی تماشا سوروپیہ کے اور انعام و اکرام رئیس کی ہمت و قدردانی پر منحصر ہے۔</p> </blockquote> <p>مذکورہ منظو م ناٹک میں متعد د مقامات پر ایسی تراکیب، تشبیہات اور ا لفاظ استعمال کیے ہیں جس سے قاری شکنتلا کی اصل سنسکرت روایت سے دور ہوتا نظرآتا ہے۔ جن و بشر، حور وغلمان، یادِ خدا، آنکھوںکا نور، خداحافظ، مہِ کنعانی، فضلِ باری، مالک و شہِ ہر دو جہان، خالق نے حسن و خوبی کی تمام صفات اس کی ذات میں۔۔۔، ماشائ اللہ، اس جیسی متعدد لفظیات اس تقلیب کا حصہ ہیں۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تقلیب کار کے ناظرین وہ لوگ ہیں جو فارسی اور عربی الفاظ سے بھی واقفیت رکھتے ہوں گے۔ کالی داس کی شکنتلا کو منظوم ڈراموں میں پیش کرنے کی اہم وجوہات میں سے ایک شکنتلا میں کہانی کا دلچسپ انداز میں آگے بڑھنا اور اس کا اختتام طرب انگیز ہونا ہے۔</p> <p>شکنتلاکے ڈرامے کو مختلف اصناف میں پیش کرنے کا اہم محرک یہی رہا ہے کہ سنسکرت ڈراموں میں جذبات نگاری کی مکمل تصویریں نظر آتی ہیں۔ اس ڈرامے میں شاید ہی کوئی ایسا مقام ہو، جہاںڈراما کہیں پس منظر میں چلا گیا ہو اور خصوصیاتِ شاعری نمایاں ہو گئی ہوں۔ ساغر نظامی نے، جنھوں نے اختر حسین رائے پوری کے بعد اس ڈرامے کو نظم کے قالب میں سمویا، کہا ہے کہ سنسکرت ڈرامے کے سلسلے میں انھوں نے جن چار بنیادی باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے، وہ یہ ہیں: (۱)زندگی کے کسی پہلو کے کسی تخیلی نقش کو پیش کرنے کے بجاے جذبات کی مصوری۔ (۲) شخصی کرداروںکے بجائے تمثیلی کرداروںکی موجودگی۔ (۳) پلاٹ اہرام <annotation lang="en">[pyramid]</annotation> کی صورت آگے بڑھتا ہے۔ اور (۴)المیہ اور طربیہ کا امتیاز مصنوعی تسلیم کیا جاتا ہے۔ سنسکرت جیسی شائستہ زبان کے ادبی حسن اور کالی داس کے مرتعش اور اچھوتے تخیل کو اردو زبان میں اس طرح سمو دینا کہ ترجمے میں اصل کا حسن جھلک اٹھے، بہت جان جوکھم کا کا م تھا۔ پارسیوں کے ان منظوم ڈراموں کے ناظرین عام طور پر عوام کے طبقات سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا شاعرانہ ذوق بھی اعلیٰ یا تربیت یافتہ نہیں ہوتا تھا اس لیے انھیں ایسے شاعرانہ اسلوب میں پیغام دیا جاتا تھا جو سمجھنے میں سہل ہو۔ یہ پہلو بھی حافظ کے منظوم ڈرامے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ تقلیب میں اس پہلو کو ایک انحراف کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ کالی داس نے جس وقت اس ڈرامے کو تخلیق کیا تھا اس وقت اس کے ناظرین یقینی طور پر عوام کے طبقات نہ ہوں گے۔ تقلیب کا یہ پہلو عام طور پر ماخذ متن کو ایک نئی شکل دے دیتا ہے۔ بہت سے ماخذ متن اپنے تاریخی تناظر اور ثقافتی ماحول میں تخلیق کیے جاتے ہیں۔ اگر ان موضوعات کو کسی اجنبی ماحول میں پیش کیا جائے تو تقلیب کار کے پاس ماخذ متن سے انحراف کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہوتا ہے۔ وکٹرہیوگو (۱۸۰۲ئ-۱۸۸۵ئ) کے مشہورِ زمانہ ناول لامیزرابیل کو جس انداز میں محمد عمر مہاجر (۱۹۱۷ئ-۱۹۷۷ئ) نے ریڈیو ڈرامے مجرم کون میں تقلیب کیا ہے، اس سے تقلیب کار کی ذہانت کی داد دینی پڑتی ہے کہ انھوں نے ایک ایسے متن کو جو فرانس کے ادبی، تاریخی اور سیاسی ماحول سے آگاہی کے بغیر سمجھا نہیں جا سکتا تھا، ایک ایسی دنیا میں کامیابی کے ساتھ ریڈیو ڈرامے میں منقلب کیا جہاں سامعین فرانس کی ادبی، تاریخی، سیاسی اور انقلاب کی تاریخ سے قدرے کم آگاہ ہیں۔</p> <p>حافظ عبداللہ کے منظوم ناٹک میں ناصحانہ انداز ڈرامے کی پوری فضا پر غالب ہے۔ مذکورہ ڈراما نگار یا تقلیب کار اپنے ماخذ متن کو ایک خاص انداز میں پیش کرنے کا متمنی بھی ہے ؛ جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ان کی ڈراما کمپنی ”دی انڈین امپیریل تھیٹریکل کمپنی آف انڈیا“ کا منشا یہ ہے کہ ’۔۔۔ اہلِ ہند کو افعالِ قبیحہ کے بد نتائج اور اعمالِ حسنہ کی نیک ثمری بذریعہ فن ناٹک نصیحتاً دکھلائی جائیں۔۔۔‘ اس کے برعکس کالی داس کی شکنتلا کے بارے میں مختلف شارحین نے اس تخلیق کو سنگاررس <annotation lang="en">(erotic sentiments)</annotation> کا ناٹک کہا ہے جب کہ پنڈت ونشی دھردیالنکار (۱۹۰۰ئ۔ ؟) کا اس ڈرامے کے موضوع کے تعلق سے یہ کہنا ہے کہ یہ ڈراما المی [یا المیہ] جذبات <annotation lang="en">(pathos)</annotation> کی تمثیل ہے۔ عام طور پر تقلیب کار شعوری طور پر اپنے ماخذ متن کو جدید اور علاقائی ر جحانات کے تحت نہ صرف تبدیل کرتے ہیں بلکہ اس ماخذ متن کو ایک حوالہ <annotation lang="en">(as a reference point)</annotation> کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس کی تعبیر نو بھی کرتے ہیں، جو عام طور پر ناظرین یاقارئین میں مقبولیت کا درجہ بھی حاصل کرتی ہے۔ اردو ادب کی ایسی سینکڑوں مثنویاں ہیں جو اپنے ڈرامائی اسلوب کی با بت اپنے اندر تعبیر نو یا تخلیق نو کی وسعت رکھتی ہیں۔ ان متون کو ریڈیو ڈراموں میں پیش بھی کیا گیا ہے۔ اردو ادب کے معروف افسانہ نگار وں کی تخلیق کو نہ صرف دوسرے قالبوں میں پیش کیا گیا ہے بلکہ ان کہانیوں میں کچھ کردار اپنی وسعت کے اعتبارسے ایسے ہیں جو ناول کے لیے بھی مواد فراہم کر سکتے ہیں۔ اسد محمد خاں کی ایک معروف کہانی دربدا اپنے اندر ناول کا چولا پہننے کے امکانات رکھتی ہے۔ اسد محمد خاںنے اپنی ایک کہانی کے بارے میںلکھا ہے کہ ’۔۔۔ ادیبوں کو لکھے گئے تین خط ہیں، سال ۷۶، ۸۵ اور ۹۱ کے، اور اگست، ستمبر ۲۰۰۴ئ کی تین ای میلز ہیں جو میری ایک مجوزہ کہانی مہا مائی کا ہریاکی صورت گری کے مراحل بیان کرتی ہیں اور یہ دکھاتی ہیں کہ کس طرح اس کہانی نے آخر کار ایک مجوزہ ناول کا چولا پہننا شروع کیا‘۔</p> <p>حافظ عبداللہ نے بھی دیگر تقلیب کاروں کی طرح اپنی اس منظوم تقلیب میں راجا یعنی دشنیت کے کردار کومہابھارت کے برعکس پیش کیا ہے۔ جس سے راجا کے بارے میں قاری کے ذہن میں ایک رحم دل راجا کے خیالات ابھرتے ہیں۔ مہابھارت پڑھنے سے دشنیت قصوروار معلوم ہوتا ہے۔ مہابھارت میں لکھا ہے کہ دشنیت، شکنتلا کو پہچان گیا تھا اور انجان بنا بیٹھا رہا۔ جب کہ منظوم ناٹک کے دشنیت کاکردار مختلف ہے اور وہ شکنتلا کو جس وقت وہ اس کے سامنے پیش ہوتی ہے سرے سے پہچانتا ہی نہیں۔ اوربعد میں اسے کچھ شہادتیں ملتی ہیں تو پشیمان دکھائی دیتا ہے۔</p> <p>تھامس لیچ <annotation lang="en">(Thomas Leitch)</annotation> نے اپنے ایک مضمون <annotation lang="en">”Adaptation Studies at a Crossroads“</annotation> میں رابرٹ اسٹیم <annotation lang="en">(Robert Steam)</annotation> کی تین جلدوں پر مبنی کام، جن میں سے دو کو ۲۰۰۴ئ اور ۲۰۰۵ئ میں ایلیسینڈرا رائینگو <annotation lang="en">(Alessandra Raengo)</annotation> کی معاونت میں ترتیب دیا تھا، کا ذکر کیا ہے۔ اس میں رابرٹ اسٹیم نے کم و بیش ایک عشرے پر مبنی برائن میک فرلین <annotation lang="en">(Brian McFarlane)</annotation>، ڈی بورا کارٹ میل <annotation lang="en">(Deborah Cartmell)</annotation>، امیلڈا ویلی ہین <annotation lang="en">(Imelda Whelehan)</annotation>، جیمز نیری مور <annotation lang="en">(James Naremore)</annotation> اور سارا کارڈویل <annotation lang="en">(Sarah Cardwell)</annotation> کے فلمی تقلیب اور اس کے ادبی ماخذ کے تعلق سے اولین کام کو تفصیل سے پیش کیا ہے۔ مذکورہ مضمون میں ان نظریہ سازوں نے جو سوالات دراسات تقلیب <annotation lang="en">(Adaptation Studies)</annotation> کے تعلق سے اٹھائے ہیں، فلمی تقلیب کے ساتھ ساتھ تقلیب کے ان نمونوں پر بھی ان سوالات کا اطلاق ہوتا ہے، جن میں صفحے سے صضحے پر <annotation lang="en">(from page to page)</annotation> تقلیب کی گئی ہے، یعنی جس میں ماخذ اور تقلیب دونوں ادب کا نمونہ ہیں۔ ان اساسی سوالات کو یہاں ر قم کیا جاتا ہے: کیا تقلیب نے اپنے ادبی ماخذ سے انحراف (depart)کیا ہے؟ کیا تقلیب خود اپنے ماخذ متن کی تعبیرِ نو <annotation lang="en">(re-interpret)</annotation> کرنے کی کوشش کرتی ہے؟ کیا تقلیب کسی نئے تاریخی تناظر کی بابت اپنے ماخذسے انحراف کی مرتکب ہوئی ہے؟اگر کوئی متن اپنے اصل ادبی ماخذسے ہٹ گیا ہے تو کیا وہ ماخذ جو تقلیب کی بابت پس منظر میں چلا گیا ہے اپنے دلچسپ ہونے کی بابت عمیق مطالعے کا مستحق ہے؟ کیا کسی تقلیب کے لیے ممکن ہے کہ وہ اپنے ماخذ کی تخلیقِ نو <annotation lang="en">(re-create)</annotation> کر سکتی ہے؟کیا تقلیب اور اس کا ماخذ اپنے اپنے ثقافتی اور تاریخی تناظر سے مشروط ہوتا ہے؟ تقلیب میں ہو بہو مشابہت <annotation lang="en">(fidelity)</annotation> کے تعلق سے وہ کو ن سے سوالات ہیں جو ادبی متون کے علاوہ دیگر متون کی تقلیب کے دوران قابلِ ذکر ہیں؟ وہ تقلیبات کس نوعیت کی ہیں جن کا تعلق خالص ادبی کاموں سے نہیں ہوتا ہے اور وہ کس طرح دراسات ِ تقلیب کے نظریہ سازوں کی تنگ نظری کو ظاہر کرتی ہیں جو اپنے لیے واحد معیار ادب یا فکشن کو بناتے ہیں؟ اپنی متنی حکمتِ عملی کی بابت تقلیبات کے وہ نمونے کس معیار کے ہیں جو اپنے اصل ماخذ کے بجائے معروف ماخذ پرمبنی ہیں؟ بحیثیت ایک فن پار ہ جب تقلیب اپنے بارے میں کچھ سوالات اٹھاتی ہے تو ان سوالات کی نوعیت کیا ہو سکتی ہے؟ تقلیب میں وہ کون سے مظاہر ہیں جو عام طور پربین المتونیت کے تعلق سے سوالات اٹھاتے ہیں؟ تقلیب کے وہ کون سے نظریات ہیں جو عالمی تبدیلی کے تعلق سے قومی اور ثقافتی شناخت کے باوجود اپنی حد پار کر جاتے ہیں؟تقلیب کے ان نمونوں کو کس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے جو تقلیب سازوں کے لیے ہمیشہ سے پسندیدہ رہے ہیں؟ مثال کے طور پر ناول کوعام طور پر فلم کے لیے تقلیب کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اردوادب کے کلاسیکی دور میں مثنویوں کوبطور ماخذ متن داستان، کہانی اور ڈرامے کی صنف میںتقلیب کیا گیا ہے۔</p> <p> تقلیب کے تعلق سے جہاں ان مذکورہ سوالات کی اہمیت ہے وہاں لنڈا ہچن <annotation lang="en">(Linda Hutcheon)</annotation> کی کتاب <annotation lang="en">A Theory of Adaptation</annotation> (۲۰۰۶ئ) میں کسی تقلیب کا تجزیہ کرنے کا جو استفہامیہ اسلوب واضح کیا ہے وہ اہمیت کا حامل ہے: کیا <annotation lang="en">(what)</annotation>؟ (ہیئت)، کون <annotation lang="en">(who)</annotation>؟ کیوں <annotation lang="en">(why)</annotation>؟ (تقلیب کار)، کیسے <annotation lang="en">(how)</annotation>؟(قارئین، ناظرین یا سامعین)، کہاں <annotation lang="en">(where)</annotation>؟ کب <annotation lang="en">(when)</annotation>؟(تناظر)۔</p> <p>اس استفہامیے میںہر پہلو تقلیب کو سمجھنے میں معاون و مدد گار ہے۔ کالی داس نے اپنی تخلیق شکنتلا کو ڈرامے یا ناٹک۳۷ کی صنف میں پیش کیا ہے لیکن مرزا کاظم علی جو ان نے نہ صرف انیسویں صدی کے بالکل آغاز میں کالی داس کی اس تخلیق کو داستان کے قالب میں منتقل کیا بلکہ ان تمام لوازم کو بھی اختیار کیا جو کسی تحریر کو داستان بناتے ہیں۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی نے شکنتلا کے جس متن کو مرتب کیا ہے اسے بارہ مختصر حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ دوسرے حصے کے آغاز میں مرزا کاظم علی جو ان اپنی اس کوشش کو خودداستان کہتے ہیں۔ رقم کرتے ہیں کہ ’اب آگے داستان کا یوں بیان ہے کہ۔۔۔‘ اس انداز سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مرزا کاظم علی جو ان کے سامنے بھی شکنتلا ناٹک کو داستان کی صنف میں منقلب کرنا تھا۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ لنڈا ہچن کے سوال ’کیا‘ کو پیشِ نظر رکھا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ مرزا کاظم علی جو ان نے اس ناٹک کو داستان کے پیرائے میں بیان کیا ہے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کاظم علی جو ان نے اپنے ماخذ متن میں جو تبدیلیاں یا اضافے کیے ہیں اس کی اہم وجوہات میں سے ایک وجہ داستان کا پیر ایہ اظہار بھی ہے۔ جو ان کی کہانی کا راجا اردو داستانوں کے روایتی ہیر و جیسے خصائل کا مالک نظر آتا ہے۔ جب راجا نے شکنتلا کو پہلی بار دیکھا تو وہ ایسا محوِ دیدار ہوا کہ بے خود ہو کر خاک پر گرا اور اپنے تن بدن کی کچھ خبر نہ رہی۔ ڈرامے کا راجا جب بھونرے کوشکنتلا کے گرد منڈلاتے دیکھتا ہے توبڑے لطیف جذبات کا اظہار کرتا ہے جب کہ کہانی کا راجا بھونرے کو ہوس ناک نظروں سے دیکھتا ہے اور رشک و رقابت میں جلا جاتا ہے۔ راجا کی محبت کا عامیانہ انداز اردو داستانوں کاخاصہ رہا ہے۔ رعایا پروری ڈرامے کے راجا کی بڑی خصوصیت ہے۔ راجا کے یہ خصائل جو ان کی کہانی میں نہیں ہیں۔ اس کہانی میں راجا کو شروع سے آخر تک محبت میں دیوانہ اورشکنتلا کے حسن کا پروانہ دکھایا ہے۔ اس کہانی میں راجا کے علاوہ شکنتلا کا کردار بھی کسی قدر بدلا ہوا ہے لیکن یہاں سیرت کا فرق راجا کی نسبت کم ہے۔ اس کہانی کو پیش کرتے ہوئے ہر تخلیق کار کا مذاق تقلیب میں کہیں نہ کہیں راہ پا گیا ہے۔ اس کی وجوہات میں جہاں اس کہانی کی اثر انگیزی ہے وہاں اس کہانی کے اساسی نسخوں میں بھی فرق پا یا جاتا ہے۔ عام طور پر شکنتلا کے دو نسخوں کا ذکر ملتا ہے۔ ایک تو شمالی ہند کا نسخہ ہے جسے عام طور پر بنگالی نسخہ کہا جاتا ہے اور جس کا ترجمہ اٹھارویں صدی کے اواخر میں ولسن (۱۷۸۶ئ-۱۸۶۰ئ)نے کیا تھا۔ یہی وہ نسخہ تھا جو گوئٹے (۱۷۴۹ئ-۱۸۳۲ئ) کی نظر سے گذرا۔ دوسرا نسخہ جنوبی ہند کا ہے جو اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ اس ڈرامے کا قصہ رامائن کے قصے سے قریبی مشابہت رکھتا ہے۔ ان دونوں نسخوں کا تقابلی مطالعہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ شمالی ہند کے نسخے میںڈرامے کا تیسرا ایکٹ طویل تر ہے اور اس میںدشنیت اور شکنتلا کی دوسری ملاقات کے سلسلے میں دشنیت اور شکنتلا کے وصل کا مقام اور وقت بتا کے ایک طرح سے ڈرامے کی نفیس تر خصوصیت ضبط و تحمل کو کھودیا ہے۔ جنوبی ہند کے نسخے میں یہ جاننیکے بعد کہ راجا کو بھی شکنتلا سے محبت ہے شکنتلا کو سہیلیاں (انسویا) اسے صرف خط لکھنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ راجہ جو جھاڑیوں کی اوٹ میں سے ان کی باتیں سن رہا ہوتا ہے سامنے آ جاتا ہے اور سہیلیاں وہاں سے چلی جاتی ہیں۔ راجا اور شکنتلا کی گفتگو شروع ہوتی ہے کہ گوتمی کی آواز کی بھنک پا کر شکنتلا گھبرائی ہوئی چلی جاتی ہے۔ اور پھر ان کی ملاقات کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ لیکن بنگالی نسخے میں راجا کی گندھروا بیاہ کی تجویز اور شکنتلا کی شرائط (اس کے لڑکے کا وارث تخت و تاج اور شکنتلا کا راج رانی ہونا) کی تفصیلات کا ذکر ہے۔ جنوبی ہند کے نسخے میں شکنتلا سرِ دربار راجا سے بحث بھی نہیں کرتی بلکہ راجا کے انکار کے ساتھ ہی اس کی ماں منیکااسے وہاں سے لے جاتی ہے۔ رامائن سے ماخوذ قصو ں کی نوعیت عام طور پر مذہبی ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں جب فلمیں بنائی جاتی تھیں تو مذہبی موضوعات کو بھی ترجیح دی جاتی تھی۔ اس دور میں فلمیںپراسرار موضوعات پر بھی بنائی جاتی تھیں۔ اسی طرح ’ستی ساوتری‘، ’شکنتلا‘، ’تارامنی‘، ’عرب کا چاند‘ کے عنوان سے فلمیں بنائی جاتی تھیں۔ ان فلموںمیںعورت کے کردارکوایک مثالی عورت کے روپ میںپیش کیاجاتاتھا۔</p> <p>لنڈا ہچن کے قائم کردہ سوالات میں ’کون‘ اور ’کیوں‘ بھی شامل ہیں۔ جس سے مرادیہ ہے کہ تقلیب کار کون ہے اور اس کا انتخاب کیوں کیا گیا ہے۔ کسی تقلیب کو سمجھنے کے لیے تقلیب کار کی افتادِ طبع اور طبعی میلانات کا معلوم ہونا بھی ناگزیر ہے۔ مرزا کاظم علی جو ان، دلی کے رہنے والے تھے۔ نواب علی ابراہیم خان خلیل (م۔۱۷۹۳ئ) نے گلزارِ ابراہیم میں، بینی نرائن جہاںنے دیوانِ جہاں میں، اور کریم الدین نے طبقات شعرائے ہند میں ان کا ذکراختصار کے ساتھ کیا ہے اور ان کے کچھ اشعار بھی ان مذکورہ تذکروں میں درج ہیں۔ نثر نگار کی نسبت شاعر جب کسی ماخذ کو منقلب کرتا ہے تو اپنے متن سے نہ صرف دانستہ انحراف کرتا ہے بلکہ اپنے ماخذ کی تخلیق نو کو بھی اپنے لیے وجہ افتخار تصور کرتا ہے۔ محمد حسن عسکری (۱۹۲۱ئ-۱۹۷۸ئ) اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ”ایذراپائونڈ کی تقلید کرتے ہوئے میں اچھا ترجمہ اس کو سمجھتا ہوں جس میںچاہے کتاب [ماخذ متن] کی اصل روح برقرار نہ رہے لیکن وہ کچھ نہ کچھ بن ضرور جائے۔ سرشار (۱۸۴۶ئ-۱۹۰۳ئ) نے بھی بالکل ایسا ہی کیا ہے۔“ سرشار جیسے ناول نگار نے ڈان کوٹکزٹکا ترجمہ کیا۔ سروالٹیر (۱۷۷۱ئ-۱۸۳۲ئ) کے طفیل اردو میں کم از کم دو ناول وجود میں آئے۔ ایک توفسانہ آزاد اور دوسراحاجی بغلول۔ سرشار کی تخلیق اور ان کے ترجمے میں بہت گہرا رشتہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خدائی فوج دار ترجمے کے لحاظ سے کیسا ہے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ سرشار نے ترجمہ کیا ہی نہیں۔ بلکہ اصل کہانی کو دیسی لباس پہنایا ہے۔ اس میں انھیں کھینچ تان بھی کرنی پڑی ہے اور ٹھونس ٹھانس بھی۔ ترجمے کی بدولت ہمیں ایسا تخلیقی جذبہ نہیں ملتا جیسا کہ سرشار کو مل گیا تھا۔ اس تعلق سے سوال ’کون‘ اہم ہے یعنی تقلیب کار کون ہے؟ وہ کس ادبی روایت کا حامل ہے؟ اس ادبی روایت میں تراجم یاماخذ متن کو دوسری اصناف میں ڈھالنے کے کیا معیارات ہیں؟ اس تعلق سے دیکھا جائے تو فورٹ ولیم کالج اور دہلی کالج میں جن کاموں کو آج تراجم کہا جاتا ہے وہ اصل میں دراساتِ تقلیب کے ذیل میں آتے ہیں۔ اور ان متون کو ازسرِ نو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ ان تراجم میں سے بیشتر ایسے ہیں جس میں ماخذ متن سے انحراف کیا گیا ہے۔ ماخذ متن کی تشکیلِ نو یا تخلیقِ نو کی گئی ہے۔ تقلیب کار نے اپنی ادبی روایات اور اریخی تناظر کو ہی اہم تصو ر نہیں کیا بلکہ اپنے قارئین کے مذاق کو بھی اہم جانا ہے۔ جو ان کا شکنتلا میں اندازِ تحریر سلیس و رنگین و لکش ہے۔ شاعر بھی تھے اور انھوں نے کہیں کہیں شعر بھی لکھے ہیں۔ انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ انھیں نثر لکھنے کی پہلے سے مشق نہ تھی۔ مگر اہل زبان تھے۔ ان کی نثر مستند محاوروں اور روزمرہ سے مالا مال ہے۔ داستان سرائی میں عرصے سے مقفٰی عبارتوں کا رواج تھا۔ باوجود سادہ زبان لکھنے کے یہ تکلف جو ان نے بھی اختیار کیا ہے۔</p> <p>ایک اور سوال ’کیسے‘ کے ذیل میں جو پہلو آتا ہے وہ تقلیب کار کے قارئین ہیں۔ جن کے لیے تقلیب کار ماخذ متن کو پیش کرتا ہے۔ قارئین کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ہے کیوں کہ دراساتِ تقلیب میں قارئین، سامعین یا ناظرین کو اس لیے اساسی اہمیت حاصل ہے کہ قارئین کے مزاج یا مذاق میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جو تبدیلیاں صنعت و حرفت کے باعث رونما ہوئی ہیں جس کے باعث قدیم موضوعات یا کلاسیکی متون کومقامی لباس میں نہ صرف پیش کیا جاتا ہے بلکہ اس کے لیے مقبول ذرائع <annotation lang="en">(media)</annotation> بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ مرزا کاظم علی جو ان کی اس تقلیب کے تعلق سے آج یہ کہا جاسکتا ہے کہ کالی داس کے شکنتلا ناٹک کے بارے میں، کرنیل اسکاٹ کی جانب سے مرزا کاظم علی جو ان کو جو ہدایت ملی اس کے محرکات ادبی ہونے سے زیادہ سیاسی تھے۔ کرنیل اسکاٹ چاہتے تھے کہ انگریز نوواردان ہند کو وہاں کے کلاسیکی ادب سے متعارف کرایا جائے بلکہ ایسی سلیس زبان کا بھی بیج بویا جائے جس سے اردو اپنے روایتی انداز سے بھی دور ہو جائے۔ کرنیل اسکاٹ، جو لکھنؤ کے بڑے صاحب تھے، انھوں نے حسب الطلب گورنر بہادر دام ملکہ کے، ۱۸۰۰ئ میں کتنے ہی شاعروں کو سرکار عالی کے ملازموں میں سرفراز فرماکر اشرف البلاد کلکتہ کو روانہ کیا۔ مرزا کاظم علی جو ان ’دیباچہ مولف‘ لکھتے ہیں کہ انھی میں احقر بھی یہاں وارد ہوا۔ اور موافقِ حکم حضور خدمت میں مدرس مدرسہ ہندی کے جو صاحب والا گلکرسٹ (۱۷۵۹ئ-۱۸۴۱ئ) صاحب بہادر دام اقبال میں اندوز ہوا۔ دوسرے ہی دن انھوں نے نہایت مہربانی و الطاف سے ارشاد فرمایا کہ شکنتلا ناٹک کا ترجمہ اپنی زبان کے موافق کر اور للو جی لال کو حکم کیا کہ بلاناغہ لکھا یا کرے۔ اردو نثر کی کتابیں نووارد انگریزوں کے نصاب کے لیے لکھوائی گئی تھیں۔ اسی لیے شکنتلا کا پہلا ایڈیشن رومن حروف میں ۱۸۰۴ئ میں شائع کیا گیا تھا۔ اس دور میں اردو زبان میں سلیس نثر کے ادب پارے بہت کم تھے۔ زیادہ تر شاعر اور ادیب نثر بھی مقفٰی اور مسجع لکھا کرتے تھے۔ ایسے قارئین جو اردو زبان وبیان پر معمولی شد بد رکھتے ہوں، ان کو کسی ادب پارے سے متعارف کرانے کے لیے ایک شاعر کا انتخاب بھی اس پہلو پر دال ہے کہ اس وقت نثر لکھنے والے کم تھے۔ مرزا کاظم علی جو ان خود لکھتے ہیں کہ ”سوا نظم کے نثر کی مشق نہ تھی۔۔۔“ حال آنکہ فورٹ ولیم کالج کے قائم ہونے کے بعد یہاں بھی علم و ادب کا ماحول پیدا ہو گیا تھا۔ اس وقت کے بہت سے لکھنے والے یہاں جمع تھے۔ میرامن (م۔۱۸۰۹ئ)، میرشیرعلی افسوس (۱۷۴۶ئ-۱۸۰۹ئ)، میر بہادر علی حسینی، سید حیدر بخش حیدری (۱۷۶۰ئ-۱۸۲۳ئ)، مظہر علی خاں ولا (م۔۱۸۰۴ئ)، مرزاجاں طپش (۱۷۶۸ئ-۱۸۱۷ئ)، مرزا علی لطف (۱۷۶۲ئ-۱۸۲۲ئ)، مولوی امانت اللہ، مولوی اکرام علی (۱۷۸۲ئ-۱۸۳۸ئ)، حفیظ الدین احمد، بینی نرائن جہاں، للو جی لال (۱۷۶۲ئ-۱۸۲۵ئ) اور نہال چند لاہوری کے نام اہم ہیں۔ اس تقلیب میں زبان و بیان کے تعلق سے ایسے متعدد مقامات ہیں جس میں مرزا کاظم علی جو ان کے شاعر ہونے کے باعث متن دقیق ہو گیا ہے۔ بہت سی شاعرانہ تلمیحات، تراکیب، تشبیہات اپنی فارسی اور اردو روایات کے باعث سنسکرت کی اس تخلیق سے لگا نہیں کھاتیں، جس کے باعث بین المتونیت کا پہلو در آیا ہے۔ کیوں کہ ماخذ متن اورجوان کی اس تقلیب میں دو مختلف تاریخی تناظر ات کو دیکھا جاسکتا ہے۔</p> </section> </body>
0023.xml
<meta> <title>اُردو کا پہلا نثری رسالہ اور اس کا مصنف</title> <author> <name>محمد علی اثر</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 4</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/3_m_ali_asar_bunyad_2013.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>3178</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
اُردو کا پہلا نثری رسالہ اور اس کا مصنف
3,178
No
<body> <section> <p>اُردو زبان وادب کی تاریخ میں یہ مسئلہ ایک طویل عرصے سے زیر بحث رہا ہے کہ اُردو کے پہلے نثری رسالے اور اُس کے مصنف کا نام کیا ہے؟ جس طرح اردو شاعری کے فروغ وارتقا اور سرپرستی کے سلسلے میں عادل شاہی اور قطب شاہی حکمرانوں کو امتیازی حیثیت حاصل ہے بالکل اُسی طرح قدیم اردو نثر کی ترویج واشاعت میں سلاطینِ دکن سے زیادہ روحانی تاج داروں اور مذہبی پیشوائوں کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ نیز دبستانِ گولکنڈہ کے مقابلے میں دبستانِ بیجاپور کے صوفیاے عظام اور خصوصاََ خانوادۂ میراں جی شمس العشاق کے مذہبی رہنمائوں کو سبقت اور فضیلت حاصل ہے۔ ان بندگانِ خدانے سرزمین ِبیجاپور میںکم وبیش تین صدیوں تک، مختلف صوفیانہ افکار، شرعی احکام اور مذہبی مسائل کے موضوع پر دکنی نثر میں، متعدد رسائل اور کتابیں تصنیف کر کے یہاں کے عوام وخواص کے دلوں پر حکمرانی کی۔</p> <p>اُردو میں نثری رسائل اور کتابوں کی باقاعدہ تصنیف وتالیف سے قبل مختلف اہل اللہ اور مذہبی مبلغین کے ملفوظات میں بار پانے والے اردو فقرے اور جملے درحقیقت اردو نثر کی خشتِ اول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان ہی مختصر اقوال اور جملوں کی بنیادپر مستقبل میں اردو نثری تصانیف کی عمارت استوار کی گئی۔ ڈاکٹر گیان چند نے اپنی مؤلفہ شراکتی تاریخ ادب اردو ۱۷۰۰ئ تکمیں ـ ”اردو نثر ۱۶۰۰ئ تک“ کے عنوان سے اردو نثر کے اولین نمونوں کی نشاندہی کی ہے۔ اور چوبیس اولیاے کرام اور صوفیوں کے ملفوظات سے متعدد اقوال اور فقرے نقل کیے ہیں۔</p> <p>پروفیسر حامد حسن قادری کا خیال ہے کہ سید اشرف جہا نگیر سمنانی (م۔۸۰۰ئ) کا ایک رسالۂ تصوف اردو کی پہلی نثری کتاب ہے۔</p> <p>حضرت اشرف ایک صوفی بزرگ تھے۔ انھوں نے ۲۳ سال کی عمر میں سمنان کی بادشاہت کو خیر باد کہہ کر درویشی اختیار کرلی تھی۔ ہندوستان میں آپ نے کچھو چھہ (اودھ) کے مقام پر سکونت اختیار کی۔ اور یہاں کے علماے دین اور روحانی پیشوائوں سے ظاہری علوم اور باطنی فیوض وبرکات حاصل کیں۔ حامد حسن قادری نے اپنی کتاب داستان تاریخ اردو میں اپنے اس دعوے کی دلیل میر نذرعلی درد کاکوروی کے ایک مقالے ”اردو اور شمالی ہند“ پر قائم کی، جولاہور کے رسالے یاد گار میں شائع ہواتھا۔ میرنذر علی نے لکھا ہے کہ اشرف جہانگیر کا مذکورہ رسالہ انھوں نے اورنگ آباد میں آستانۂ شاہ قادر اولیا کے ایک خدمت گزار محبوب علی شاہ کے یہاں دیکھا تھا، جس کا انھوں نے صرف دوسطری اقتباس پیش کیا ہے۔ اس اقتباس کی زبان قدیم معلوم نہیں ہوتی اور اب یہ کتاب ناپید ہے۔ اردو کی اولین تصنیف ہونے کے سلسلے میں اس رسالے کے بابت پیش کیے گئے سارے دلائل بھی ضعیف ہیں۔ باباے اردو نے اس رسالے کے اصلی ہونے میں بھی شک وشبہے کا اظہار کیا ہے۔ لہٰذایہ رسالہ اردو نثر کی پہلی تصنیف نہیں ہو سکتا۔</p> <p>حکیم شمس اللہ قادری نے شیخ عین الدین گنج العلم (۷۰۶ تا ۷۹۹ھ) کو اردو کا پہلا نثر نگار قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت نے دکنی میں کئی چھوٹے بڑے رسالے لکھے تھے، جو ایک جلد میں فورٹ جارج کالج کے کتب خانے میں موجود تھے۔ جملۂ دکنی میںچالیس اوراق پر مشتمل اس مخطوطے میں تین رسالے تحریر کیے گئے تھے، جن میں فرائض وسُنن کے مطابق احکام ومسائل قلمبند کیے گئے تھے۔</p> <p>شیخ عین الدین دہلی کے متوطن تھے۔ روحانی علوم کی تکمیل کے سلسلے میں گجرات اور دولت آباد کا سفر کیا۔ اور پھر ۷۷۳ھ میں بیجاپور میں مقیم ہوگئے۔ شمس اللہ قادری کا محولہ بالا بیان اس لیے نا قابل قبول ہے کہ موصوف نے گنج العلم کی تحریر کا کوئی نمونہ پیش کیا ہے اور نہ ان رسائل کے سنہ تصنیف کی واضح طور پر نشان دہی کی۔ اب ان رسائل کا وجود بھی نہیں۔ بقول ڈاکٹررفیعہ سلطانہ، حکیم صاحب نے انھیںیہ بات بتائی کہ یہ رسائل ۷۲۵ھ کی تحریر ہیں۔</p> <p>مولوی عبدالحق نے خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ سے منسوب رسالے معراج العاشقین کو حضرت کی تصنیف مان کراسے پہلی بار ۱۹۲۴ئ میں اپنے مقدمہ کے ساتھ شائع کیا تھا۔ باباے اردو کے بعد اس کتاب کو گوپی چندنارنگ اور خلیق انجم نے بھی مرتب وشائع کیا۔ یہ کتاب ایک عرصے تک ہندوستان بھر کی مختلف جامعات میں شامل ِنصاب رہی۔ ۱۹۶۸ئ میں جامعہ عثمانیہ کے مشہور محقق اور نقاد ڈاکٹر حفیظ قتیل نے معراج العاشقین اور اس کا مصنف کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی جس میں ڈاکٹر قتیل نے معراج العاشقین کے خواجہ صاحب سے انتساب کی مدلل طور پر تغلیط کرتے ہوئے اس کتاب کو حضرت مخدوم شاہ حسینی بیجاپوری کے نثری رسالے تلاوت الوجودکی نامکمل تلخیص قرار دیا۔ معراج العاشقین کے علاوہ اردو ادب کی تواریخ میں خواجہ صاحب سے منسوب اور بھی نثری رسالوں کے نام ملتے ہیں۔ جیسے شکار نامہ، سہ بارہ، دُرالاسرار، ہدایت نامہ، تشریح کلمۂ طیبہ، تلاوت المعراج، تمثیل نامہ، ہشت مسائل وغیرہ۔ ان میں سے اول الذکر رسالے شکار نامہ کو ڈاکٹر ثمینہ شوکت اور ڈاکٹر مبارزالدین رفعت نے خواجہ صاحب کی تصنیف مان کر ۱۹۶۲ئ میں علاحدہ علاحدہ طور پر شائع کیا۔ بقول ڈاکٹر گیان چند شکارنامہ اب تک چار بار چھپ چکا ہے۔</p> <p>معراج العاشقین کی طرح خواجہ صاحب سے منسوب یہ دوسرا اہم اور مقبول نثری رسالہ تھا۔ جس کے متعلق زور صاحب نے لکھا تھا کہ ”معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسالہ (شکار نامہ) بندہ نواز نے اردو میں نہیں لکھا؛ بلکہ ان کے مرید یا معتقد نے قلمبند کیا“۔</p> <p>ڈاکٹر حسینی شاہد نے اس رسالے کی اندرونی شہادتوں کی مدد سے خواجہ صاحب سے اس کے انتساب کو غلط قراردیتے ہوئے لکھا ہے: ”شکار نامہ کا بندہ نواز سے انتساب معراج العاشقین کے انتساب سے زیادہ کم زور ہے“۔ شاہد صاحب کے خیال میں فارسی شکار نامے کے مترجم بندہ نواز نہیں بلکہ شاہ معظم ہیں۔</p> <p>جہاں تک بندہ نواز سے منسوب دیگر تمام رسائل کا تعلق ہے۔ حضرت کے مرید سید محمد علی سامانی نے اپنی تصنیف سیر محمدی میں خواجہ صاحب کی فارسی اور عربی چھتیس تصانیف کی فہرست دی ہے۔ جن میںسے کوئی بھی کتاب دکنی اردو میں نہیں۔ نیز بندہ نواز کے پوتے سید ید اللہ حسینی کی روایت سے بدالعزیز بن شیخ ملک نے تاریخ حبیبی وتذکرۂ مرشدی تصنیف کی تھی، جس میں موصوف نے حضرت گیسودرازؒ کی سوانح حیات تحریر کی ہے۔ اس میں بھی حضرت کی کسی دکنی تصنیف کا ذکر نہیں ملتا۔ اگر ہم خواجہ بندہ نواز ؒسے منسوب سارے نثری رسائل کونظر انداز کر دیں تو بھی بحیثیت شاعرآپ کے مقام و مرتبے سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ بحیثیت دکنی اردو کے اولین شاعر خواجہ صاحب کی ادبی شخصیت کل بھی مسلّم تھی اور آج بھی ناقابل تردید ہے۔</p> <p>حکیم شمس اللہ قادری اور چنددوسرے ادبی مورخین نے بیجاپور کے اولین صوفی شاعر حضرت شمس العشاق کو بھی قدیم دکنی کے اولین نثرنگار اور شاعر قرار دیا ہے۔ چناں چہ حکیم صاحب نے حضرت میراں جی کے دونثری رسالے جلترنگاور گل باس کا تذکرہ ان کی مختلف صوفیانہ اور عارفانہ نظموں کے ساتھ کیا ہے۔ اس کے علاوہ شرح مرغوب القلوب، سب رس اورسبع صفات نامی رسائل کو بھی شمس العشاق سے منسوب کیا ہے۔ لیکن جدید تحقیق کے بموجب اولین دو رسائل ناپید ہیں اور آخر الذکرکتاب بھی شمس العشاق کی تصنیف نہیں۔</p> <p>جدید تحقیق کی روشنی میں حضرت میراں جی شمس العشاق کے فرزند اکبر اور خلیفہ شاہ برہان الدین جانم دکنی اردو کے سب سے پہلے اور مستند نثر نگار ہیں۔ حضرت کے رسالے کلمۃ الحقائق کو اردو کی سب سے پہلی نثری تصنیف کاشرف حاصل ہے۔ آپ کا سلسلہ رُشدوہدایت دکن کے مشہور صوفی اور بلندپا یہ عالم حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز ؒسے ملتا ہے۔</p> <p>جہاں تک جانمؔ کی دیگر نثری تصانیف کا تعلق ہے، اس موضوع پر اظہار کرنے والوں میں، محمد اکبر الدین صدیقی، ڈاکٹررفیعہ سلطانہ، ڈاکٹر نذیر احمد، ڈاکٹر جمیل جالبی اور ڈاکٹر گیان چند کے نام قابل ذکر ہیں۔ محمد اکبر الدین صدیقی نے جانمؔ کے نثری رسالے کلمۃ الحقائق کو ۱۹۶۱ئ میں مرتب کر کے شائع کیا تھا۔ اس کتاب کے مقدمے میں انھوں نے جانمؔ کی دیگر تصانیف کی نشان دہی نہیںکی۔ البتہ ۱۹۷۱ئ میں جب انھوں نے جانمؔ کی ایک اور منظوم تصنیف ارشاد نامہ شائع کی تو اس میں جانمؔ کے درجِ ذیل نثری رسائل کے نام لکھے ہیں:</p> <list> <li>مقصودابتدائی</li> <li>کلمتہ الاسرار</li> <li>ذکر جلی (نثری ارشاد نامہ)</li> <li>معرفت القلوب</li> <li>ہشت مسائل</li> <li>کلمۃ الحقائق</li> </list> <p>کلمۃ الحقائق کو ڈاکٹررفیعہ سلطانہ نے بھی ۱۹۶۱ئ ہی میں شائع کیا، جس کے مقدمے میں انھوں نے اکبر الدین صدیقی کی دی ہوئی فہرست کے مقابلے میں ایک نثری رسالے رسالۂ تصوفکا اضافہ کیا ہے۔ ڈاکٹر نذیر احمد نے اپنے مقالے ”اردو ادب عادل شاہی دور میں“ مشمولہ علی گڑھ تاریخ ادب اردو جلد اول (۱۹۶۲ئ) میں شاہ برہان کے پانچ نثری رسائل کی نشاندہی کی ہے، جن میں کلمۃ الاسرار شامل نہیں۔ البتہ ایک اور نثری رسالے مجموعۃ الاشیا کا نام شامل ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے تاریخ ادب اردو کی پہلی جلد(۱۹۷۵ئ) میں حضرت جانمؔ کے صرف دونثری رسائل کلمتہ الحقائق اور رسالہ وجودیہکا تذکرہ کیا ہے۔</p> <p>ڈاکٹر گیان چند نے تاریخ ادب اردو ۱۷۰۰ئ تک کی دوسری جلد (۱۹۹۸ئ) میں حضرت جانمؔ سے منسوب مذکورہ بالا تمام نثری رسائل کا تحقیقی جائزہ لیتے ہوئے کلمۃ الحقائق کو بالیقین سوفیصدی جانمؔ کی تصنیف مانا ہے۔ ان کے خیال میں ارشادنامہ نثر (ذکر جلی)، مقصود ابتدائی اور مجموعۃ الاشیاکو جانمؔ کی تصانیف تسلیم کرنے میں ٹھوس دلائل موجود ہیں اور کلمۃ الاسرار ’رسالہ وجودیہ‘ ہشت مسائل اورر سالۂ تصوف بالیقین جانم کے رسائل نہیں ہیں۔</p> <p>کلمۃ الحقائق: اس رسالے کے درج ذیل تمہیدی جملوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسے جانمؔ کے کسی مرید یاعقیدت مند نے خاص اہتمام سے مرتب کر دیا تھا۔</p> <blockquote> <p>ایں کتاب کلمتہ الحقائق گفتار حضرت شاہ برہان صاحب قدس سرۂ العزیز تصنیف کردہ است۔</p> <p>ہذا کتاب قطب الاقطاب حضرت شاہ برہان العارفین قدس اللہ سرۂ العزیز تصنیف کردہ اند۔</p> </blockquote> <p>کلمۃ الحقائق میں تصوف وعرفان کے دقیق مسائل سیدھی سادی زبان اور عام فہم الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں۔ مثلاََ خدا کی ذات وصفات، ابتداوانتہا، تقدیر وتدبیر، فناو بقا اور دوسرے متصوفانہ مسائل پر سوال وجواب کی شکل میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ برہان الدین جانمؔ نے اس میں جگہ جگہ آیاتِ قرآنی اور احادیث بھی نقل کی ہیں اور مطالب کی تشریح کے سلسلے میں مشہور صوفیہ، مولانا رومی اور ابوبکر شبلی کے اقوال بھی درج کیے ہیںاورکہیں کہیں سنسکرت اورہندی الفاظ بھی استعمال کیے ہیں اور ہندو فلسفے کی اصطلاحوں کو اسلامی فلسفے سے ملانے کی کوشش بھی کی ہے۔ مرید سوال پوچھتا ہے اور مرشداس کا جواب دیتے ہیں۔ دکنی اور فارسی جملوں کا امتزاج سوال اور جواب دونوں میں نظر آتا ہے۔ مصنف دکنی عبارت لکھتے لکھتے فارسی جملے تحریر کرنے لگتا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسے دکنی کے مقابلے میں فارسی زبان پر زیادہ عبور حاصل ہے۔ اس لیے کہیں ایک جملہ اردو میں ہو تاہے تو اس کے آگے کی عبارت فارسی میں۔ کہیں جملے کی ابتدافارسی سے ہوتی ہے اور اختتام اردو میں جیسے</p> <blockquote> <verse> در منزل ملکوت حال کیوں دسے گا ایں نام بر ہریک صفت تعلق دھرتا ہے </verse> <p>اسی طرح کہیں جملے کا آغاز دکنی میں ہوتا ہے اور اختتام فارسی میں </p> <p>ان کے سیوک میں رنگ لال پیدا شدوہاں کا مراقبہ و مشاہدہ چیستاس دل کی بزرگی کے را نہایت نہ رسد</p> </blockquote> <p>کلمۃ الحقائق کو دکنی نثر کی تاریخ میں کئی امتیازات حاصل ہیں۔ اس کا اوّلین وصف یہ ہے کہ یہ دکنی نثر کا سب سے پہلا اور ایک ایسا مستند رسالہ ہے، جس کے مصنف کے بارے میں اشتباہ کی گنجائش نہیں۔ جدید تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ معراج العاشقینخواجہ بندہ نوازؒ کی تصنیف نہیں بلکہ بارھویں صدی ہجری کے ایک اور صوفی بزرگ مخدوم شاہ حسینی بیجاپوری کی تلاوت الوجودکا خلاصہ ہے۔ دوسرے یہ کہ خواجہ بندہ نوازؒ سے امین الدین اعلیٰ(۸۰۱ھ-۱۰۸۶ھ) تک جتنے نثری رسائل تصنیف کیے گئے ہیں ان میں کلمۃ الحقائق سب سے ضخیم ہے۔ محمد اکبر الدین صدیقی کا مرتبہ متن کراون سائز کے ۸۲ صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ تیسرے یہ کہ قدیم دکنی کے دیگر رسائل کے مقابلے میںکلمۃ الحقائق کے تمام نسخوں میں کوئی ایسا اہم اختلاف نظر نہیں آتا جس سے اس کے متن کی صوری ومعنوی حیثیت میں کوئی تغیر وتبدل وقوع پذیر ہو۔</p> <p>کلمتہ الحقائق کو محمد اکبر الدین صدیقی اور ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نے جولائی ۱۹۶۱ئ میں بالترتیب ادارۂ ادبیات اردو اور مجلس تحقیقات اردو حیدرآباد کی جانب سے شائع کیا۔ صدیقی صاحب کی مرتبہ کلمۃ الحقائق کو رفیعہ سلطانہ کی کتاب سے صرف دودن کا تقدم حاصل ہے۔ دونوں مرتبین کے پیش نظر اس رسالے کے چار چار قلمی نسخے رہے ہیں۔ جن میں کتب خانۂ جامعہ عثمانیہ اور ادارۂ ادبیات اردو کے نسخے مشترک ہیں۔ ڈاکٹر حسینی شاہد نے اس رسالے کے مزید چار نسخوں کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھا ہے:</p> <blockquote> <p>دونوں متن رواروی میں مرتب ہوئے ہیں اور ان میں متنی تنقید کے بنیادی اصولوں کی پابندی نہیں کی گئی ہے۔</p> </blockquote> <p>کلمۃ الحقائق کے سنہ تصنیف کے بارے میں برہان الدین جانم نے کوئی اشارہ نہیں کیا۔ تاہم اس کے مطالعہ سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ یہ ارشادنامہ (۹۹۰ھ) کے بعد کی تصنیف ہے کیوں کہ اس میں جگہ جگہ ارشادنامہ کے اشعار نقل کیے گئے ہیں اور متعدد اشعار کونثر کر کے لکھا گیا ہے۔ جو مسائل اور موضوعات ارشادنامہ میں جس اندازمیں نظم کیے گئے ہیں انھیں کلمۃ الحقائق میں اسی انداز میں منثور کر کے پیش کیا گیا ہے۔ مثال کے طورپرکلمۃ الحقائق کی ابتداہی میں یہ عبارت ملتی ہے۔</p> <blockquote> <p>اللہ کرے سوہوے کہ قادر توانا توے کہ اوقدیم القدیم اس قدیمی کا بھی کرنہار سہج سہج سو تیر اٹھاروسہج توج تھے بار۔ جدہاں کچھ نہ تھا بھی تمہیں دوجا شریک کوئی نہیں۔ ایسا حال سمجھنا خدا تھے خدا کو ں(کوے) جس پر کرم خدا کا ہوے۔ سبب یوزبان گجری نام ایں کتاب کلمۃ الحقائق خلاصہ بیان۔</p> </blockquote> <p>یہ عبارت دراصل مثنوی ارشاد نامہ کے درج ذیل اشعار کا دوایک لفظوں کی تبدیلی کے بعد نثری روپ ہے۔</p> <blockquote> <verse> پہلے اس پر لیاوے ایمان اللہ کرے سو ہوے جان قدیم القدیم آچھے وو بعداز رچنا رچے وو قدیم جدید ہے اس تھے سب ایسا قدرت کیرا رب سہج سہج سو اس کا ٹھار سہج ہوا ہے اس تھے بار جد کچھ نہ تھا، تھا وو ہی شریک نا اس دوجا کوئی ایسا حال جے سمجے کوے جس پر کرم خدا کا ہوے یہ سب گجری کیا بیان کریہ آئینہ دین نمان کلمہ حق سب کیا بیاں دیکھ خلاصہ ہوے عیاں </verse> </blockquote> <p>کلمۃ الحقائق چوں کہ اردو نثر کا اولین رسالہ ہے اور اس کے مصنف کے سامنے دکنی نثر کا کوئی نمونہ نہیں ہے اس لیے جگہ جگہ وہ اس کی عبارت کو منظوم ارشاد نامہ کی مدد سے آگے بڑھاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ نثر کے درمیان باربار موزوں فقرے بھی آجاتے ہیں۔ جیسے</p> <blockquote> <verse> اس جان پنے کوں مرگ نہیں تو یہ سکت کیا تیری ہے </verse> </blockquote> <p>دکنی اور فارسی نظم ونثر کے امتزاج، قرانی آیات واحادیث، اقوال، دوہے اور اشعار کی شمولیت ونیز سنسکرت کے ادق الفاظ اور ہندو فلسفے کی اصطلاحوں کے استعمال کی وجہ سے کلمۃ الحقائق کی زبان گنجلک اور عسیر الفہم ہے۔ لیکن جانمؔ نے بعض مقامات پر عبارت میں زور پیدا کرنے کے لیے مقفٰی جملے بھی تحریر کیے ہیں، جو بہت ہی خوب صورت اور خوش آہنگ ہیں۔ بقول اکبر الدین صدیقی مصری کی ڈلیاں معلوم ہوتے ہیں۔ جیسے:</p> <blockquote> <p>نہ آکار، نہ نرنکار، نہ جلال نہ جمال، نہ شوق نہ ذوق، نہ رنج نہ گنج، نہ جان نہ انجان، ولیکن جسے خدا لوڑے اسے راہ دیوے آفتاب تھے پڑے آگ یوں قدرت تھے عالم اٹھے جاگ جے کچھ ہمارے دل آوتا سواسی کا قدیم بھاوتا جہاں تھے سماد روپ سب میں وہی سروپ</p> </blockquote> <p>جہاں تک جانمؔ کی زبان کا تعلق ہے ‘انھوں نے اپنی زبان کو گجری کہا ہے:</p> <blockquote> <verse> سبب یوزبان گجری نام ایں کتاب کلمتہ الحقائق یہ سب گجری کیا بیان کریہ آئینہ دیا نمان </verse> <p>(ارشادنامہ)</p> </blockquote> <p>چوں کہ جانمؔ نے گجری کا لفظ زبان کے معنی میں استعمال کیا ہے جس سے بعض محققین نے یہ نتیجہ اخذکیا ہے کہ جانمؔ یا ان کے خاندان کا تعلق گجرات سے رہا ہے اور اسی نسبت سے انھوں نے اپنی زبان کو گجری کہا ہے۔ چناں چہ پروفیسر محمود شیرانی کہتے ہیں:</p> <blockquote> <p>وہ تمام دکنی علمائ جو اپنی زبان کو گجری کہتے تھے درحقیقت گجرات ہی کے باشندے یا ان کے اولاد میں تھے، جنھوں نے دکن میں آکر بودو باش اختیار کی۔</p> </blockquote> <p>مولوی عبدالحق، نجیب اشرف ندوی اور بعض دوسرے علمائ بھی پروفیسر شیرانی کے ہم خیال معلوم ہوتے ہیں لیکن جانمؔ نے اپنی زبان کو ”گجری کے علاوہ“ ہندی بھی کہا ہے</p> <blockquote> <verse> یہ سب بولوں ہندی بول پر تو انبھو سیتی کھول عیب نہ راکھیں ہندی بول معنی تو چمک دیکھیں کھول ہندی بولوں کیا بکھان جے گرپرساد تھا منجھ گیان </verse> <p>(ارشادنامہ)</p> </blockquote> <p>جانمؔ اگر گجرات سے اپنے اجداد کے تعلق کو ظاہر کرنے کے لیے اپنی زبان کو ”گجری“ کہتے ہیں تو پھر زبان ہی کے معنی میں ”ہندی“ کالفظ استعمال نہیں کرتے۔ گجری کا لفظ دراصل قدیم اردو کے مختلف ناموں جیسے ہندوی، ہندوستانی، زبان ہندوستان، ہندی، دہلوی، دکنی میں سے ایک ہے۔۱۷ اس کا گجرات سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر زور کا یہ بیان کافی اہمیت رکھتا ہے کہ:</p> <blockquote> <p>اس عہد کی تواریخ دکن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ گجرات سے بہت سے ادیب اور عالم بیجاپور آیا کرتے تھے۔ وہاں کی سلطنت کے زوال پر ابراہیم عادل شاہ نے وہاں کے تمام ادیبوں کو اپنے دربار میں بلایا۔ چناں چہ گجرات کے ان پناہ گزینوں نے دکن میں اردو کا ادبی ذوق بڑھانے میں حصہ لیا اور غالباََ یہی وجہ ہے کہ بیجاپور کے بعض اردو مصنفین جیسے شاہ برہان اپنی زبان کو گجری کہتے ہیں۔</p> </blockquote> <p>جانمؔ نے اپنی زبان کو گجری اس لیے بھی کہا ہوگا کہ ان کے والد شمس العشاق اور دوسرے قدیم مصنفین کے ہاں زبان کے لیے ”دکنی“ کی اصطلاح عام نہیں ہوئی تھی۔ بقول پروفیسر مسعود حسین خاں:</p> <blockquote> <p>اردو زبان کا دکنی نام بہت زیادہ قدیم نہیں عہد بہمنی کے کسی مصنف نے اپنی زبان کو دکنی کے نام سے نہیں پکارا۔ اس کے ہندی‘ہندوی اور گجری نام زیادہ قدیم ہیں۔</p> </blockquote> <p>لسانی خصوصیات: جانمؔ کے کم وبیش سبھی نقادوں نے ان کی تصانیف کا لسانی جائزہ بھی لیا ہے۔ تفصیل میں جائے بغیر یہاں چند لسانی خصوصیات پر روشنی ڈالی جاتی ہے:</p> <list> <li>دکنی کی عام لسانی خصوصیت حرفِ تخصیص ”چ“ یا ”چہ“ کا بکثرت استعمال جانمؔ کے یہاں بھی موجود ہے۔ جیسے تو نچ(توہی) وھیچ (وہی) ایکچچ(ایک ہی)۔</li> <li>لفظوں کی جمع ”اں“ کے اضافے سے بنائی جاتی ہے جیسے: لوگاں، باتاں، کاماں، بندیاں (بندے کی جمع) بعضیاں (بعضے کی جمع)وغیرہ۔</li> <li>”پنا“ کے لاحقے سے اسم مصدر کی مثالیں بھی بکثرت نظر آتی ہیں جیسے: جیوپنا، خداپنا، بندہ پنا، میں پنا، جان پنا وغیرہ۔</li> <li>اسم فاعل کے لیے ہارا اور ہار کے لاحقے کا بکثرت استعمال جیسے: سرجنہارا، سرجنہار، بھوگنہارا، بھوگنہار، دیکھنہارا، بوجھنہارا وغیرہ۔</li> <li>ماضی مطلق بنانے کے لیے علامت مصدر ”نا“ حذف کر کے ”یا“ کا اضافہ جیسے: کریا(کرنا) دیکھیا (دیکھنا) اٹھیا (اٹھنا)۔</li> <li>ہندی الفاظ اور جملوں کوواوِ عطف سے جوڑنا جیسے: پھل وپھول وکانٹا</li> <li>واو عطف والے الفاظ میں عموماََ پہلے حرف پر ”بے“ یا ”لا“ کا اضافہ کیا جاتا ہے لیکن جانم نے دونوں لفظوں پر اس کا اضافہ کیا ہے۔ جیسے: بے چوں وبے چگونہ، لاشک ولاشبہ۔</li> <li>ایک حرف ربط کی جگہ دوسرے کا استعمال: جیسے: جامۂ پاکیزہ کرکر سکالینا بھی میلا کرنا (پھر کے بجائے بھی)۔</li> </list> </section> </body>
0024.xml
<meta> <title>قرار اللغات: امیر اللغات کا تکملہ؟</title> <author> <name>رؤف پاریکھ</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 4</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/5_rauf_parekh_bunyad_2013.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>4061</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
قرار اللغات: امیر اللغات کا تکملہ؟
4,061
Yes
<body> <section> <p>زیر نظر مقالے میں ہم اردوکا ایک غیر معروف اور کم یاب لغت قرار اللغات کا تعارف پیش کریں گے اور اس کی اہمیت اور قدر وقیمت کا اندازہ لگانے کے علاوہ مؤلف کے اس دعوے کو بھی پرکھنے کی کوشش کریں گے جس میں اس نے کہا ہے کہقرار اللغات امیر مینائیکے معروف لغت امیر اللغاتکی تکمیل ہے۔</p> <heading>تعارف</heading> <p>قرار اللغات ایک اردو بہ اردو لغت ہے۔ اس کا پورا نام قرار اللغات یعنی اردو محاوراتہے اور اس کے مؤلف سید تصدق حسین شاہجہاں پوری المتخلص بہ قرارؔ ہیں۔ قرار اللغات ایک کم یاب لغت ہے اور کم ہی لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس کا ذکرلغات اور لغت نویسی کے موضوع پر کیے گئے تحقیقی و تنقیدی کاموں میں بھی نہیں ملتا۔ صرف ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہاں پوری اور لیلیٰ عبدی خجستہ نے اس کا ذکر کیا ہے (لیکن خجستہ صاحبہ کے اس مقالے کا ذکر ذرا آگے آئے گا)۔ قرار اللغات کا ایک مطبوعہ نسخہ اردو لغت بورڈ(کراچی) کے کتب خانے میں موجود ہے اور راقم کو اسے وہیں دیکھنے کا موقع ملا۔ نسخہ یوں تو اچھی حالت میںہے لیکن لوح اور طباعتی تفصیلات پر مبنی اس کے ابتدائی چند صفحات ناپید ہیںچناںچہ اس مطبوعہ نسخے سے سالِ اشاعت اور ناشر کی تفصیلات کا علم نہیں ہوتا۔ البتہ بورڈ کے کارکنان نے حوالے کی سہولت کے لیے اس پرسالِ طباعت۱۹۱۹ئ لکھ رکھا ہے۔ ابو سلمان صاحب نے اس کا سالِ اشاعت نہیں دیا لیکن اس کے ناشر کا نام ”گلشنِ ابراہیم، لکھنؤ“ درج کیا ہے۔ انھوں نے لغت کا پورا نام قرار اللغات یعنی اردو محاورات دیا ہے۔</p> <p>لغت کے آخر میں دو اعلانات ہیں جو بعض اہم معلومات دیتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ قرار شاہجہاں پوری یعنی اس لغت کے مؤلف معروف شاعر منشی امیر احمد مینائی کے شاگرد تھے۔ نیز یہ کہ قرار کے والد کا نام سید اصغر حسین شاہ چشتی تھا اور کتاب کی اشاعت کے زمانے میں قرار شاہ جہاں پور سے لکھنؤ آئے ہوئے تھے۔ ان اعلانات میں سے پہلاگویا ایک اشتہار ہے جو ”اردو کی مستند کتابیں“ کے عنوان سے ہے جس میںخواجہ عبدالرئوف عشرت لکھنوی کی کتابوں کی فہرست ہے اور المشتہر کے تحت ”خواجہ عبدالرئوف عشرت احاطہ خانساماں، لکھنؤ“ درج ہے۔</p> <p>دوسرا اعلان قرار اللغات کے عقبی سرِوَرَق پرہے جس میں ”اطلاع“ کی سرخی کے تحت یہ عبارت دی گئی ہے:</p> <blockquote> <p>میں نے اس کتاب قرار اللغات کا حق تصنیف کسی کو نہیں دیا ہیکوئی صاحب بغیر میری باضابطہ اجازت کے چھاپنے یاچھپوانے کا قصد نکریں [نہ کریں] ورنہ نفع کے عوض نقصان اٹھانا ہوگا اور حسب ضابطہ ہرجہ و نقصان کے دیندار ہوں گے۔</p> <p>العبد و [ا] لمشتہر: سید تصدق حسین قرار ولد سید اصغر حسین شاہ چشتی، ساکن شاہجہانپور وارد حال لکھنؤ، تلمیذ حضرت امیر مینائی لکھنوی</p> </blockquote> <p>کتاب کی ابتدا میں ”گزارش“ کے عنوان سے ایک صفحے میں مؤلف نے بتایا ہے کہ کوئی تیس (۳۰) سال قبل ان کے استاد امیر مینائی نے نواب کلب علی خان والیِ رام پور کی فرمائش پر اردو محاورات کی جانب توجہ مبذول کی تھی لیکن ان کا یہ لغت جس کا نام امیراللغات تھا نامکمل رہا۔ بقولِ مؤلف امیر کے جانشینوں میں سے حافظ جلیل حسن جلیل [مانک پوری] اور پھر حکیم محمد ضمیر حسن خان دل شاہ جہاں پوری سے امیدیں تھیں کہ وہ امیر کے اس کام کو تکمیل تک پہنچا کر ملک پر احسان کریں گے لیکن انھوں نے ”امیر اللغات کو تمام کرنے کی ہمت نہ کی“۔ اس کے بعد مؤلف نے، بقول خود ان کے، اپنی ”ناقابلیت اور عدم واقفیت“ کے باوجود اس کام کو ”جوں توں تکمیل تک پہنچایا“۔ لیکن مؤلف کے دل میں یہ خیال تھا کہ ”امیر اللغات کے طرز پر لکھنا تو ٹیڑھی کھیر“ ہے اس لیے ”اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانا چاہیے“۔ پھر اپنے استاد امیر مینائی کا یہ شعر درج کیا ہے:</p> <blockquote> <verse> نگاہِ مست ساقی نے دکھا کر کہا لو پھول کی جا پنکھڑی ہے </verse> </blockquote> <p>اس کے بعد بتایا ہے کہ ”اس لغت کا دیگر لغات سے کچھ انداز ہی نرالا ہے“ اور اس کی وضاحت یوں کی ہے کہ اس میں مرکب اور مفرد محاورات کی تفصیل الگ الگ تحریر کی گئی ہے، ”تمامی محاورات“ کے ہر معنی کے ثبوت میں اساتذہ کے اشعار لکھے گئے ہیں اور آخرمیں مثلیں اور کہاوتیں بھی درج کی گئی ہیں۔</p> <p>اس کے بعد تین صفحات میں ان شعرا کے نام دیے ہیں ”جن کا کلام محاورات کے ثبوت میںتحریر کیا“۔ ان میں کچھ نام یہ ہیں: امیرؔ مینائی، میر انیسؔ، آتشؔ، انشائؔ، جرأتؔ، جانؔ صاحب، جلیلؔ مانک پوری، حالیؔ، داغؔ، ذوقؔ، رندؔ، رشکؔ، ریاضؔ خیر آبادی، سوداؔ، شیفتہؔ، غالبؔ، قلقؔ، خود مؤلف یعنی قرار، پنڈت دیا شنکر نسیمؔ، میرتقی میرؔ، میر حسنؔ، مومنؔ، منیرؔ شکوہ آبادی، ناسخؔ، نوحؔ ناروی وغیرہ۔</p> <p>مولف کا امیر اللغات کے بارے میں یہ لکھنا کہ ”تخمیناً تیس سال کا زمانہ ہوا“ نواب کلب علی خاں نے امیر مینائی کی توجہ لغت کی تالیف کی جانب مبذول کرائی تھی، قرار اللغات کے سالِ تا لیف کے بارے میں ہماری رہنمائی کر سکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ الفرڈ لائل نے نواب کلب علی خاں سے اردو کے ایک جامع لغت کی فرمائش ۱۸۸۴ئ میں کی تھی اورنواب نے امیر مینائی کو لغت کی تیاری کا حکم دیا۔ ۱۸۸۴ئ میں تیس سال جمع کیے جائیں تو گویاقرار اللغات کی تالیف ۱۹۱۴ئ کے لگ بھگ ہوئی۔ لہٰذا سال ۱۹۱۹ئ میں طباعت و اشاعت قرینِ قیاس ہے۔</p> <p>قرار اللغات کا غالباً ایک ہی ایڈیشن شائع ہوا۔ کم از کم ہماری معلومات کی حد تک اس کا دوسرا ایڈیشن نہیں چھپا۔ اس ایڈیشن کے کُل تین سو سولہ (۳۱۶) صفحات ہیں۔ یہ ایڈیشن پانچ انچ ضرب آٹھ انچ کے مسطر پر چھپا ہے۔ ہر صفحے پر دو کالم ہیں اور ہر کالم ڈھائی ڈھائی انچ چوڑا اور آٹھ آٹھ انچ لمبا ہے۔ ہر کالم میں تیئیس (۲۳)سطریں ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، صفحہ ایک پر ”گزارش“ اور اگلے تین صفحات پر شعرا کے نام ہیں۔ پانچویں صفحے پر، جہاں سے لغت شروع ہوتا ہے، ”مرکب محاورات جو فصیح ہونے کی وجہ سے عموماً نظم میں استعمال کیے جاتے ہیں“ کا عنوان قائم کیا گیا ہے۔ اس پہلے صفحے(یعنی صفحہ ۵ پر) پر پہلا اندراج ”آب آب کرنا“ کا ہے۔ معنی دیے ہیں: ”شرمندہ کرنا“۔ اس کے بعد جلیل ؔکا یہ شعر سند میں دیا ہے:</p> <blockquote> <verse> چھلک چھلک کے ترے جامِ مے نے اے ساقی ستم کیا مری توبہ کو آب آب کیا </verse> </blockquote> <p>اس ابتدائی عنوان کے تحت مندرج محاورات (الف تا ی) صفحہ دو سو انہتر (۲۶۹)تک چلے گئے ہیں اور اس حصے میں آخری اندراج ”یوہیں ہونا“ [یونہی ہونا] کا ہے(ص۲۶۹) اور اس کے معنی دیے ہیں ”اسی طرح ہونا“ اور سند میں امیرؔ کا یہ شعر ہے:</p> <blockquote> <verse> شیخ جی یونہی جو مے پینے کی عادت ہوگی ایک دن رہن یہ دستارِ فضیلت ہوگی </verse> </blockquote> <p>صفحہ دوسو ستر(۲۷۰) سے دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے جس کا عنوان ہے: ”تفصیلِ اسمائِ فصیح جو عموماً نظم میں استعمال ہوتے ہیں“۔ اس صفحے پر ”الف“ کے تحت پہلااندراج ”آستین کا سانپ“ کا ہے اور یہ معنی درج ہیں: ”خفیہ دشمن“۔ اس کے بعد بطور سند بحرؔ کا یہ شعر دیا ہے:</p> <blockquote> <verse> چلو بلا سے اگر ہے یہ آستیں کا سانپ بغل میں پال کے میں کیا کروں گِلا دل کا </verse> </blockquote> <p>یہ حصہ صفحہ دوسوبیاسی (۲۸۲) پر اختتام پذیر ہوتا ہے جس پر آخری اندراج ”یارِ غار“ کا ہے۔ معنی یوں لکھے ہیں: ”دلی دوست، سچا غم خوار“۔ سند میں دو شعر ہیں۔ پہلے صفدرؔکا یہ شعر دیا ہے:</p> <blockquote> <verse> محشر پہ کیوں رہے یہیں ہو جائے امتحاں سنتا ہوں غیر ان کا بڑا یارِ غار ہے </verse> </blockquote> <p>پھر شاد ؔکا یہ شعر درج کیا ہے: </p> <blockquote> <verse> اے شادؔ مرگئے پہ کسی نے دیا نہ ساتھ جو حد کا یارِ غار ہوا گور تک گیا </verse> </blockquote> <p>صفحہ دوسو تراسی (۲۸۳) سے تیسرا حصہ شروع ہوتا ہے جس کا عنوان ہے: ”مثلیں اور کہاوتیںجو عموماً نثر میں مثالاً بولی جاتی ہیں اور بعض جگہ نظم میں بھی استعمال کی جاتی ہیں“۔ اس میں پہلا اندراج ”آپ ڈوبے جگ ڈوبا“ کا ہے اور یہ معنی دیے ہیں: ”جب ہمیِں نہ ہوں گے تو کسی سے کیا غرض“۔ یہ حصہ صفحہ تین سو دس (۳۱۰) تک جاتا ہے جس پر آخری اندراج ”یہ منھ اور مسور کی دال“ کا ہے جس کے معنی یوںدیے ہیں: ”تم اس کام کے لائق نہیں ہو“۔</p> <p>چوتھااور آخری حصہ (یا یوں کہہ لیجیے کہ تیسرے یا کہاوتوں کے حصے کا ایک ذیلی باب )صفحہ تین سو گیارہ (۳۱۱) سے شروع ہوکرلغت کے آخری صفحے یعنی صفحہ تین سو سولہ (۳۱۶) تک جاتا ہے۔ اس حصے کا عنوان ہے ”فارسی کے جملے جو مثلوں کی جگہ استعمال کیے جاتے ہیں“۔ صفحہ ۳۱۱پرپہلا اندراج ”آب آمد تیمم برخاست“ کا ہے اور اس کے یہ معنی درج ہیں: ”بڑوں کے آگے چھوٹوں کی نہیں چلتی“۔ اس حصے کا آخری اندراج، جو لغت کا بھی آخری اندراج ہے، ”یک نہ شد دو شد“ کا ہے اور معنی لکھے ہیں: ”ایک بلا تھی دوسری اور نازل ہوئی“ (ص۳۱۶)۔</p> <heading>اندراجات کی نوعیت اور قدر وقیمت</heading> <p>اس تعارف کے بعد ہم قرار اللغات کے اندراجات پر ایک نظر ڈالتے ہیںکہ ان کی نوعیت اورمعیار کیا ہے؟</p> <p>اگر قرار اللغات کے اندراجات کی تعداد کو دیکھا جائے تو اتنی کم ضخامت کے لغت میں اندراجات کی تعداد بہت زیادہ ہونے کی توقع کی بھی نہیں جاسکتی تھی نیز چھوٹی تقطیع(جیسا کہ سطورِ بالا میں عرض کیا گیا، پانچ ضرب آٹھ انچ)کی اس لغت میں ایک کالم میں اوسطاً سات یا آٹھ اندراجات ہیں جو فی صفحہ اوسطاًپندرہ بنتے ہیں اور اس کے صفحات کی تعدادکے پیش نظر اس کے اندراجات کی کُل تعداد ہمارے محتاط اندازے کے مطابق ساڑھے چار ہزار کے لگ بھگ ہو گی۔ اس میں مفرد الفاظ کو بطور ”بنیادی مفرداندراج“ (جس کو انگریزی لغت نویسی کی اصطلاح میں <annotation lang="en">headword</annotation> کہا جاتا ہے) بہت کم لیا گیا اور نوے فی صد بلکہ اس سے بھی زیادہ اندراجات مرکبات اور محاورات کے ہیں۔ اس کے اس حصے میں جسے ”تفصیلِاسماے فصیح“ کا نام دیا گیا ہے اور جو بمشکل تیرہ چودہ صفحات پر مبنی ہے، زیادہ تر مفرد الفاظ درج ہیں لیکن درمیان میں کہیں کہیں مرکبات و محاورات بھی موجود ہیں۔ مفرد الفاظ کے بھی مجازی یا مرادی معنوں پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قراراللغات بنیادی طور پر محاورات کا لغت ہے اور مؤلف کا منشا محاورات یا مجازی و مرادی استعمال کے معنی کی وضاحت ہے (جیسا کہ ابو سلمان صاحب کے بیان کردہ لغت کے مکمل نام سے بھی ظاہر ہے مولف نے اردو محاورات کا لغت ترتیب دیا ہے)۔ لیکن کہیں کہیں مفرد الفاظ کے لغوی معنی دے دیے گئے ہیں اور مرادی معنی چھوڑدیے ہیں، مثلاً لفظ ”حراف“ کے لغوی معنی ”تیز، چالاک“ درج ہیں (ص۲۷۵) لیکن اس کے مجازی معنی (یعنی معشوق) نہیں لکھے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ مؤلف ایک اصول قائم کرتے اور اس لغت کو یا تو صرف مرکبات تک محدود رکھتے اور اگر مفرد الفاظ درج کرنے ہی تھے تو ان کے وضعی یا لغوی معنی کے ساتھ مرادی یا مجازی معنی بھی ساتھ میں دے دیتے۔</p> <p>معنی میں زیادہ وضاحت اور تفصیل سے کام نہیں لیا گیا ہے اور بالعموم وہ معنی ہی دیے گئے ہیںجو مجازاً یا مراداً یا کنایتہً آتے ہیں۔ لیکن اس میںبھی نہایت اختصار اور کفایت سے کام لیا گیا ہے لہٰذا اکثر مقامات پر تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ مثلاً لفظ ”اُلّو“ کے صرف ایک معنی ”بے وقوف“ دیے ہیں جو مرادی معنی ہیں (ص۲۷۰)، لغوی معنی نہیں دیے۔ جبکہ امیر مینائی کا لغت، جس کی تکمیل کا مؤلف نے ارادہ ظاہر کیا ہے، میں الّو کے دونوں معنی یعنی لغوی اور مجازی باقاعدہ الگ الگ شقوں میں دیے گئے ہیں۔ امیر نے ایسے مواقع پر مختلف معنی کی شقوں کو نمبر دیے ہیں۔ امیر اللغات کی تیسری جلد میں ان نمبروں کا بطور خاص اہتمام ہے۔ جبکہ قرار اللغات کے مولف نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ بلکہ اگر کہیں ایک سے زیادہ مجازی معنی دیے بھی ہیں تو انھیں ایک ساتھ لکھ دیا ہے مثلاً ”دم دینا“ کے معنی ”فریب کرنا، جان دینا، محبت کرنا“ کسی شق کی نشان دہی کے بغیر ایک ساتھ لکھ دیے ہیںاورمعنی کے بعد تین اسناد بھی ایک ساتھ لکھ دی ہیں (ص۱۳۸)۔ غنیمت یہ ہے کہ یہ تین اسناد اسی ترتیب سے درج ہیں جس ترتیب سے معنی لکھے ہیں یعنی پہلے درج کیا گیاداغ کا شعر</p> <blockquote> <verse> وعدہ کرنے کو وہ تیار تھے سچے دل سے میں نے کم بخت یہ جانا مجھے دم دیتے ہیں </verse> </blockquote> <p>پہلے معنی (فریب کرنا )کی سند میں ہے، دوسرا شعر بھی داغ کا ہے جو یہ ہے:</p> <blockquote> <verse> مجھ سے وہ کہتے ہیں پروانے کو دیکھا تو نے دیکھ یوں جلتے ہیں اس طرح سے دم دیتے ہیں </verse> </blockquote> <p>یہ دوسرے معنی (جان دینا) کی سند ہے۔ تیسرا شعر انیس کا ہے جو تیسرے معنی (محبت کرنا) کی سند میں ہے، یہ ہے:</p> <blockquote> <verse> دم دیتے ہیں وہ اس پہ، جو ہیں صاحبِ ایمان اس بینیٔ نازک پہ، ان آنکھوں پہ کرو دھیان </verse> </blockquote> <p>گویا یہ ترتیب درست ہے لیکن اصولاً معنی شق واردینے چاہئیں اورسند معنی کے فوراً بعد آنی چاہیے۔</p> <p>قرار اللغات کے بعض اندراج معنی کے لحاظ سے بہت تشنہ معلوم ہوتے ہیں۔ نیز جب مؤلف نے لغوی یا حقیقی معنی کی بجاے مرادی یا مجازی معنی پر زور دیا ہے تو اسے تمام مجازی معنی شق وار بیان کرنے چاہئیں تھے، مثلاً ”یارِ غار“ کے معنی میں ”دلی دوست، سچا غم خوار“ لکھا ہے (ص۲۸۲) لیکن اس کے ایک اور مرادی معنی یعنی ”حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ“ نہیں دیے۔ اسی طرح یارِغار کے ایک اور مجازی یا مرادی معنی ”اصحابِ کہف“ بھی ہیں اور یہ فرہنگِ آصفیہ میں بھی درج ہیں۔</p> <p>بعض مقامات پر اندراجات کی تسوید میں ترتیبِ حروفِ تہجی کاخیال نہیں کیا، مثال کے طور پر ”جھوٹے منھ نہ پوچھنا“ کے بعد ”جھوٹی سچی اوڑانا [اُڑانا] کا اندراج ہے جبکہ ترتیب میں ”جھوٹی“ سے شروع ہونے والے مرکبات کا اندراج ”جھوٹے“ سے شروع ہونے والے اندراجات سے پہلے ہوناچاہیے کیونکہ ”جھوٹی“ میں یاے معروف ہے جو لغت میں ترتیب کے لحاظ سے پہلے آنی چاہیے۔ اگر یہ فرض کیا جائے کہ یاے معروف اور مجہول کے فرق کوبعض قدیم لغات کے تتبع میں اس لغت میں نظر انداز کیا گیا ہے تو پھر بھی بات نہیں بنتی کیونکہ اگلا اندراج ”جھوٹے کو حد تک پہونچانا [پہنچانا]“ کا ہے اور اس میں پھر یاے معروف کی بجاے مجہول ہے (ص۱۰۲)۔</p> <p>مندرجہ بالا مثالوں سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مؤلف کا املا اپنے دور کے لحاظ سے بھی خاصے قدیم انداز کا ہے جبکہ اس معاملے میں امیرؔ بہت محتاط تھے اور ان کا املا ان کے دور کی حد تک جدید ہے۔ بلکہ امیرؔ نے املا اور صحتِ زبان کا خاص خیال رکھا ہے اور کہیں کہیں ترجیح کی وضاحت بھی کی ہے۔ قرار کا ”اڑتی“ کو ”اوڑتی“ اور “بے راہ قدم اٹھنا“ کو “بیراہ قدم اوٹھنا“ لکھنا اس کے املا کے اصولوں سے بے نیازی کے ثبوت ہیں۔ مؤلف کے املا کا یہ عالم ہے (گو اسے کاتب کے کھاتے میں بھی ڈالا جاسکتا ہے) کہ وہ اردو املا کے اس مسلمہ اصول کہ مصدر میں آنے والی نون کی مشدد آواز کو تشدید سے ظاہر نہیں کیا جاتا بلکہ اس حرف (یعنی نون )کو دو بار لکھا جاتا ہے (جیسے بننا، گننا، تننا، جننا، سننا وغیرہ) کو کہیں کہیںنظر انداز کر دیتا ہے اور مثلاً ”کان دھر کے سننا“ میں ”سننا“ کو ”سنا“ لکھتا ہے (ص۱۹۳)۔ (یہاں کاتب نے سین پر پیش اور نون پر تشدیدکا اہتمام کیا ہے لہٰذااسے کاتب کے کھاتے میں ڈالنا بھی مشکل ہے)۔</p> <p>بعض مقامات پر اسناد پیش کرنے میں احتیاط نہیں کی گئی، جیسے ”دن منانا“ بمعنی ”امیدواری کرنا“ کی سند میں صفحہ ۱۴۱ پر عاشق ؔ کا جو شعر دیا ہے وہ یہ ہے:</p> <blockquote> <verse> خالق نے یہ روزِ خوش دکھایا جس دن کو مناتے تھے وہ آیا </verse> </blockquote> <p>حالانکہ یہ ”دن منانا“ کی نہیں بلکہ ”دن کو منانا“ کی سند ہے۔ جبکہ محاورہ دن منانا ہے نہ کہ دن کو منانا اور نور اللغات میں اسی سند کے ساتھ موجود ہے۔ نوراللغات کے مطابق اس کے معنی ہیں دن کی تمنا کرنا۔ گویامحاورے کے اصل الفاظ میں بھی اور مفہوم میں بھی کچھ کمی رہ گئی ہے۔ بظاہرذرا سا فرق ہے لیکن لغت نویسی کے اصولوں میں اس طرح کے فرق کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اور ویسے بھی محاورے کے الفاظ میں تبدیلی جائز نہیں سمجھی جاتی۔</p> <p>بعض اندراجات کے معنی مشکوک بلکہ غلط ہیں۔ مثال کے طور پر ”دور کی سوجھنا“ کے معنی لکھے ہیں : تہہ کوپہونچنا [پہنچنا] (ص۱۴۲)۔ لیکن فرہنگ آصفیہ اور نوراللغات میںدور کی سوجھنا کے جو معنی درج ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کے معنی ہیں: گہرا خیال آنا، باریک اور نادر بات خیال میں آنا نیز دور اندیش ہونا۔ اردو لغت بورڈ کے تاریخی اصولوں پر مرتبہ لغت میں بھی یہی معنی دیے گئے ہیں۔ صاحبِ قرار اللغات نے سند میں امیر مینائی کا جو شعر دیا ہے اس سے بھی ”تہہ کو پہنچنا“ کے معنی نہیں نکلتے، بلکہ آصفیہ، نوراور بورڈ کے لغت میں دیے گئے معنی کی تصدیق ہوتی ہے، ملاحظہ ہو:</p> <blockquote> <verse> یہ آتا ہے جی میں کہ کوثر کو چلیے خرابات میں دور کی سوجھتی ہے </verse> </blockquote> <p>اسی طرح قرار نے ”بازار کی مٹھائی“ کے معنی لکھے ہیں ”آسان“ (ص۴۱)۔ جبکہ اس کے معنی فرہنگ آصفیہ کے مطابق یہ ہیں: وہ چیز جو ہر ایک شخص اپنے استعمال میں لاسکے، (مجازاً) کسبی۔ صاحبِ نور اللغات نے آصفیہ کے الفاظ کو دہرادیا ہے۔ لغت بورڈ نے بازار کی مٹھائی کے معنی یوں دیے ہیں: ”(لفظاً) وہ چیز جو ہر شخص کو آسانی سے مل سکے، (مراداً) کسبی، طوائف، رنڈی“۔ اس اندراج یعنی بازار کی مٹھائی کی سند میں مؤلفِ قرار اللغات نے خود اپنا جو شعر دیا ہے اس سے بھی ”آسان“ کی بجاے ”جسے ہر کوئی حاصل کر سکے“ کے مرادی معنی نکلتے ہیں، ملاحظہ ہو:</p> <blockquote> <verse> یار کا بوسۂ لبِ شیریں کوئی بازار کی مٹھائی ہے </verse> </blockquote> <p>امیر اللغات میں بھی ”بازار کی مٹھائی“ کے معنی ”وہ چیز جو علی العموم سب کو مل سکے“ درج ہیں لیکن امیر نے اس سے اگلا اندراج ”بازار کی مٹھائی جس نے پائی اس نے کھائی“ کا کیا ہے اور معنی لکھے ہیں: مذاق سے کسبیوں کی نسبت کہتے ہیں۔ گویا مؤلف کے نزدیک ”آسان“ اور ”جسے ہر کوئی آسانی سے حاصل کر سکے“ کے معنی میں کوئی فرق نہیں۔ اس سے ان کی لغت نویسی کی مہارت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔</p> <p>مؤلف نے بعض الفاظ یا مرکبات کے معنی یہ دیکھے بغیر لکھ دیے ہیں کہ آیا سند سے وہ معنی برآمد ہو بھی رہے ہیں یا نہیں۔ مثال کے طور پر لفظ ”بازاری“ کے معنی درج ہیں ”معمولی“ (ص۲۷۱)۔ اصولاً یہ معنی درست ہیں لیکن ”بازاری“ کے کئی اورمعنی بھی ہیں( جو اردو کے مستند لغات میں دیکھے جاسکتے ہیں، یہاں انھیں دہرایا نہیں جارہا)۔ سرِ دست ”بازاری“ کے دیگر معنی کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ سند دیکھتے ہیں جو مؤلف نے اپنی دانست میں ”بازاری“ کے معنی کے لیے دی ہے۔ سندرندؔ کے شعر سے ہے جس کا دوسرا مصرع ہے :</p> <blockquote> <verse> خانگی ہے مرا محبوب، وہ بازاری ہے </verse> </blockquote> <p>حالانکہ یہ مصرع ”بازاری عورت، طوائف، رنڈی، کسبی“ کے معنی میں ہے نہ کہ ”معمولی“ کے معنی میں۔ بازاری کے ایک معنی ”کسبی، پیشہ کرنے والی عورت“ بھی ہیں اور اردو لغت بورڈ کے لغت میں اس کی اسناد بھی موجود ہیں۔ رندؔ کے مصرعے میں یہی معنی مراد ہیں۔ دراصل رندؔ نے طوائفوں کی دو قسموں یعنی بازاری اور خانگی کا موازنہ کیا ہے۔ خانگی کے دیگر معنی سے قطعِ نظر، خانگی وہ طوائف ہوتی ہے جو پردہ نشین ہو اور چھپ کر پیشہ کرتی ہو۔”خانگی“ کے یہ معنی آصفیہ اور نور دونوں نے دیے ہیں اور سند میں دونوں نے آتشؔ کا یہ شعر دیا ہے:</p> <blockquote> <verse> دنیا سی خانگی کوئی ہوگی نہ بیسوا شوہر سے اپنے رہتی نہ دیکھی یہ زن درست </verse> </blockquote> <p>بورڈنے بھی یہ معنی دیے ہیں اور دو نثری اسناد بھی دی ہیں۔</p> <p>پھر اپنے لغت کو مختلف حصوں میں مختلف عنوانات کے تحت تقسیم کرنے کا کوئی جوازقرار اللغات کے مؤلف نہیں پیش کر سکے ہیں اور نہ ہی ”تمامی محاورات“ کی کوئی وضاحت انھوں نے کی ہے۔ موجودہ صورت میںلغت میں کسی خاص اندراج کو تلاش کرنے میں دقت ہوتی ہے کیونکہ باری باری تمام حصے دیکھنے پڑتے ہیں۔ ان معروضات کی روشنی میں مجبوراً ہمیں یہ رائے قائم کرنی پڑتی ہے کہ قرار اللغات کوئی بہت معیاری لغت نہیں ہے۔ محاورات کے کچھ لغات اس سے پہلے موجود تھے۔ مؤلف کو چاہیے تھا کہ ان میں کچھ اضافہ کرتے یا ان سے کچھ اختلاف کرتے۔ ان کے اس کام سے اردو محاورات یا الفاظ کے ضمن میںیا لغت نویسی کے باب میں بہت کم اضافہ ہوا۔</p> <heading>اردو لغات اور شعری متون سے استناد</heading> <p>البتہ ایک میدان ایسا ہے جس کی وجہ سے قرار اللغات کی کچھ اہمیت سامنے آتی ہے اور وہ ہے الفاظ کے معنوں کے ساتھ شعر ی متون سے استناد۔</p> <p>شعری متون سے لغت میںاسناد پیش کرنے کے ضمن میں راقم الحروف ضروری سمجھتا ہے کہ اردو لغت نویسی کے موضوع پر کیے گئے ایک غیر مطبوعہ لیکن بہت وقیع اور اہم کام کا ذکر کرے۔ یہ ایک مقالہ ہے جو ایک ایرانی طالبہ لیلیٰ عبدی خجستہ نے پروفیسر ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب کی نگرانی میں اردو لغت نویسی میں ادبی ذوق کے شواہد کے عنوان سے تحریر کیا تھا۔ مقالے میں انھوں نے اس امر کا بطور خاص جائزہ لیا ہے کہ اردو کے کن کن لغات میں کون کون سے شعرا کے اشعار درج کیے گئے ہیں اور کن شعرا کے اشعار زیادہ تعداد میں بطورسند آئے ہیں۔</p> <p>اس ضمن میں خجستہ صاحبہ نے قرار اللغات کا بھی جائزہ لیا اور اس میں دی گئی شعری اسناد کا تجزیہ بھی کیا۔ انھوں نے قراراللغات میں مختلف شعرا کی پیش کی گئی شعری اسناد کو باقاعدہ شمار کر کے ان کی جو تفصیلات دی ہیں وہ یہاں درج کی جارہی ہیں:</p> <table> <tr> <td>شاعر</td> <td>تعدادِ اشعار</td> </tr> <tr> <td>داغ</td> <td>۷۹۴</td> </tr> <tr> <td>امیر</td> <td>۶۴۹</td> </tr> <tr> <td>شوق</td> <td>۴۰۲</td> </tr> <tr> <td>قرار [یعنی خود موؔلف]</td> <td>۳۲۰</td> </tr> <tr> <td>جلیل</td> <td>۳۰۸</td> </tr> <tr> <td>عاشق</td> <td>۱۹۲</td> </tr> <tr> <td>شاد</td> <td>۱۷۵</td> </tr> <tr> <td>قلق</td> <td>۱۵۸</td> </tr> <tr> <td>جلال</td> <td>۱۴۷</td> </tr> <tr> <td>دل</td> <td>۱۱۰</td> </tr> <tr> <td>بحر</td> <td>۷۸</td> </tr> <tr> <td>حالی</td> <td>۳۵</td> </tr> <tr> <td>صفدر</td> <td>۳۴</td> </tr> <tr> <td>میر</td> <td>۳۴</td> </tr> </table> <p>اس فہرست میں جہاں بعض بڑے اور اہم ناموں مثلاً غالبؔ کی عدم موجودگی کھٹکتی ہے وہاں یہ بھی غور طلب ہے کہ بعض شعرا کی مثالیں بہت زیادہ اور بعض کی بہت کم ہیں۔ اس کی وجوہات پر بحث فی الحال ہمارے موضوع سے بہت دور ہے۔ لیکن ہم یہ ضرور کہیں گے کہ مؤلف نے خوداپنے اشعار بطور سند اچھی خاصی تعداد میں پیش کر دیے ہیں۔</p> <p> بہرحال، اس لغت میں شامل بعض اسناد اہم ہیں اور کچھ تو ایسی ہیں کہ نسبتاً کم معروف شعرا کے کلام سے لی گئی ہیں اور ان میں سے کچھ کا کلام اب آسانی سے دستیاب بھی نہیں۔ بظاہرایسا لگتا ہے کہ اس کے بعد تالیف ہونے والے لغات (مثلاً نور اللغات) کے مؤلفین کو بالخصوص اسناد کے ذیل میں اس سے کچھ نہ کچھ مدد ضرور ملی ہوگی لیکن تحقیق اور عمیق مطالعے کے بغیر اس امر کو یقینی نہیں کہا جاسکتا۔ یہ ضرور ہے کہ اردو لغت نویسی میں استفادے (بلکہ نقل در نقل )کی روایت بھی کسی دلچسپ تحقیقی مطالعے کا موضوع ہو سکتی ہے(بشرطے کہ ہمارے محترم اساتذہ اور طلبہ و طالبات کو تیسرے درجے کے زندہ اہل قلم پر ”حیات و خدمات“ اور ”احوال و آثار“ جیسے غیر اہم اور گھسے پٹے موضوعات سے کچھ فراغت نصیب ہو)۔</p> <p>ان اسناد کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن قرار اللغات کی اہمیت زیادہ ترتاریخی ہے۔ اسے اردو لغت نویسی کی تاریخ میں کوئی اہم سنگِ میل قرار نہیں دیا جاسکتا اور اس کی جانب توجہ بھی اس لیے مبذول ہوتی ہے کہ مؤلف کے بقول یہ امیر اللغات کی تکمیل ہے۔</p> <heading>امیر اللغات کاتکملہ؟</heading> <p>مؤلف کا یہ کہنا کہ انھوں نے اس لغت کی صورت میں امیر کے کام کو تکمیل تک پہنچایا ہے کئی وجوہ کی بنا پر درست نہیں۔</p> <p>جہاں تک امیرؔ مینائی کے نقشِ قدم پر چلنے کا سوال ہے تو امیرؔ کا تتبع اگر مؤلف صحیح معنی میں کرتے تو سند میں اپنا کوئی شعر نہ دیتے جیسا کہ امیراللغات میں امیرؔ نے کیا ہے۔ گو امیرؔ کی قادر الکلامی سے یہ توقع بے جا نہیں کہ وہ جس لفظ کی سند چاہتے اسی وقت ایک شعر کہہ کر اسے باندھ لیتے۔ لیکن امیرؔ نے بوجوہ ایسا نہیں کیا۔</p> <p>پھر امیرؔ نے لغت نویسی کا کام جتنے بڑے پیمانے پر شروع کیا تھا اور جس طرح اس کے لیے باقاعدہ دفتر اور عملہ فراہم کیا تھا، اس کا عشر عشیر بھی قرار کے ہاں نظر نہیں آتا۔ امیرؔ کے لغت کی ضخامت کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ الف ممدودہ اور الف مقصورہ کے الفاظ امیر اللغات کی دو جلدوں میں سمائے اور تیسری جلد صرف ”ب“ سے شروع ہونے والے الفاظ پر مبنی ہے۔ ضخامت اور اندراجات کی تعداد کے لحاظ سے کُل ۳۱۶ صفحات پر مشتمل لغت کو امیر اللغات کا تکملہ قرار دینا عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔ امیر اللغات اگر مکمل ہوتا تو اس کی کئی جلدیں ہوتیں، کم از کم آٹھ جلدوں تک کا منصوبہ تو امیر کے ذہن میں تھا۔</p> <p>تعداداور مقدارسے قطع نظر اگر اصول لغت نویسی کے لحاظ سے دیکھا جائے تب بھی قرار اللغات، امیر اللغات کے معیارسے بہت پیچھے ہے جیسا کہ سطورِ بالا میں مذکور ہوا۔ لیکن ایک اچھی بات اس دعوے کے ساتھ یہ ہے کہ خود مؤلف کو بھی احساس ہے کہ یہ امیر اللغات کی تکمیل نہیں ہے اور وہ ایک طرح سے تکملے کے دعوے سے یہ کہہ کر ابتدا ہی میں دست بردار ہو گیا ہے کہ امیر اللغات کے انداز میں لکھنا تو ٹیڑھی کھیر ہے اوراپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانی چاہیے، نیز یہ کہ ”کہا لو پھول کی جا پنکھڑی ہے“۔</p> <p>اس طرح ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قرار اللغات، امیر اللغات کا تکملہ تو نہیں ہے اور یہ مقدار اور معیار دونوں لحاظ سے امیر اللغات کو نہیں پہنچتا لیکن اس کی بعض اسناد اہم اور دلچسپ ہیں اور یہ لغت اردو لغت نویسی کے طویل سفر میں کوئی اہم سنگِ میل نہ سہی بہرحال ایک سنگِ میل ضرور ہے جس کے مطالعے سے کچھ نہ کچھ اخذ کیا جاسکتا ہے۔</p> </section> </body>
0025.xml
<meta> <title>اردو مصنفین اور تحریکِ اتحادِ اسلامی (مولوی عبدالحق کی ایک نادر تحریر)</title> <author> <name>خالد امین</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 4</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/7_khalid_amin_bunyad_2013.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>1285</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
اردو مصنفین اور تحریکِ اتحادِ اسلامی (مولوی عبدالحق کی ایک نادر تحریر)
1,285
Yes
<body> <section> <p>مولوی عبدا لحق (۱۸۷۰ئ-۱۹۶۱ئ) اردو کے بڑے محقق، نقا د، خا کہ نگار اور خطبہ و مقدمہ نگار تھے۔ انھوں نے اردو کی ادبی تاریخ کے کئی گم نام گوشوں کو حیات جاوداں عطا کی۔ سر سید (۱۸۱۷ئ-۱۸۹۸ئ) وحالی (۱۸۳۷ئ-۱۹۱۴ئ) کی قائم کردہ نثری روایت کو عبدالحق نے ایک نئی تازگی عطا کی۔ ان کی نثر نہایت سادہ، دلکش، بامعنی ہے۔ مگر کچھ مضامین ایسے بھی ہیں جو کم یاب رسائل میں ہونے کے باعث مولوی عبدالحق کی مرتبہ کتابوں میں شامل نہیں ہیں، جیسے مولو یصاحب نے علی گڑھ منتھلی میں ایک مضمون ”ختنے کی تاریخ اور اس کے فوائد“ پر جون ۱۹۰۵ئ میں تحریر کیا تھا۔ اسی طرح مولوی عبدالحق کا ایک نادر مضمون ”مصطفی کامل پاشا“ جو رسالہ دکن ریویو میں ۱۹۰۸ئ میں شائع ہوا تھا تاحال غیر مدون اور غیر معروف ہے۔</p> <p>یہ مضمون ایک خاص پس منظر میں لکھا گیا تھا۔ انیسویں صدی کے وسط میں عالم اسلام کو یورپی طاقتوں کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا، اور بیشتر اسلامی ممالک یورپی طاقتوں کی نوآبادیات میں تبدیل ہو کررہ گئے۔ اس صورتحال میں عالم اسلام کو ایک مرکز پر متحد کرنے کے لیے سلطنتِ عثمانیہ اور عالم اسلام کے سر کردہ رہنمایانِ کرام نے، جن میں جمال الدین افغا نی (۱۸۳۸ئ-۱۸۹۷ئ) پیش پیش تھے، ایک تحریک برپا کی جسے ”تحریکِ اتحادِ اسلامی“ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے اہم مقاصد میں یہ بات شامل تھی کہ تمام مسلم ممالک اپنی آواز کو دنیا کے سامنے مشترکہ طور پر پیش کریں تاکہ ان پر کی جانے والی جارحیت کا مداوا کیا جا سکے۔</p> <p>ہندوستانی مسلمان بھی برطانیہ کی نوآبادیات کا حصہ تھے لہٰذا اس خطے میں بھی اس تحریک کے پنپنے اور پھلنے پھولنے کے امکانات بےپناہ تھے اور ان امکانات کو پروان چڑھانے کے لیے جمال الدین افغانی نے ہندوستان کی سرزمین کا بھی انتخاب کیا اور تحریک اتحاد اسلامی کے تعلق سے حیدرآباد دکن میں کئی لیکچر دیے، جس کے خاطر خواہ اثرات ہندوستان کے علمی و ادبی حلقوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس تحریک کے حوالے سے کئی علمی اور ادبی مضامین بھی منصہ شہود پر آئے۔ اردو کے ادیبوں نے یورپ کی جارحانہ پالیسی کا جائزہ لیا، اور اس وقت کی بڑی علمی و ادبی شخصیات پر مضامین لکھے گئے۔ خصوصاًــــجمال الدین افغانی (۹؍۱۸۳۸۔۱۸۹۷)، مصطفی کمال پاشا (۱۸۸۱-۱۹۳۸ئ)، سلطان عبدالحمید (۱۸۴۲-۱۹۱۸ئ)، مصطفیٰ کامل پاشا (۱۸۷۴-۱۹۰۸ئ) وغیرہ پر اردو زبان میں سوانحی مضامین کی کثرت نظر آتی ہے۔ مولوی انشائ اللہ خان (۱۸۷۰ئ-۱۹۲۸ئ) نے حمیدیہ سٹیم پریس لاہور سے جس کے وہ خود بانی بھی تھے، اور ایک اخبار وطن بھی نکالتے تھے، ”تحریک اتحاد اسلامی“ سے وابستہ شخصیات اور ان کے کاموں کو نمایاں انداز میں شائع کیا۔ عربی زبان میں محمد علی پاشا (۱۷۶۹ئ-۱۸۴۹ئ) پر نسیب آفندی نے ناول لکھا، اس کا ترجمہ کروا کے انھوں نے اپنے پریس سے شائع کروایا، مگر اس پر تاریخ اشاعت موجود نہیں۔ علاوہ ازیں ایک اہم کتاب کا ترجمہ سلطان عبدالحمید (۱۸۴۲ئ-۱۹۱۸ئ) کے حوالے سے مولوی انشائ اللہ خان نے خود کیا ہے۔ مولوی صاحب کے بقول یہ کتاب ایک یورپی شہزادی این ڈی لوسگنان <annotation lang="en">(Anne de Losignan)</annotation> نے سلطنت عثمانیہ میں کئی برس رہنے کے بعد ۱۸۸۸ئ میں تصنیف کی تھی۔ اس کتاب میں سلطان عبدالحمید کے عہد حکومت کے پہلے بارہ برسوں کے حالات درج ہیں۔ اس کا مطالعہ یورپ اور ترکی کے پیچیدہ معاملات کی تفہیم کے لیے بنیادی ماخذ ہے۔ مولوی انشائ اللہ خان نے اس کتاب میں ترجمہ کے علاوہ حواشی و تعلیقات کا اضافہ بھی کیا ہے۔ یہ کتاب سلطان کی زندگی اور برطانیہ کے ترکی کے ساتھ تناقضات کا صحیح منظر پیش کرتی ہے۔ مولوی انشأ اللہ خان نے اس کتاب کے علاوہ بھی ترکی اور ”تحریک اتحاد اسلامی“ کے تعلق سے کئی اہم کتابوں کا ترجمہ اور کئی کتابوں کو مرتب بھی کیا ہے ان میں ایک ترک کا روزنامچہ، واقعات روم، مفر و ضہ مظالم آر مینیا و دول ثلاثہ، وہ کتابیں ہیں جو نادر ہونے کے علاوہ ترک اور اسلامی دنیا کے حالات کو جاننے کے لیے اور ”تحریکِ اتحاد اسلامی“ کے اردو ادب پر اثرات کو سمجھنے کے لیے اہم ماخذ کا کام دیں گی۔</p> <p>۱۸۵۷ئ سے ۱۹۱۴ئ تک اردو کے کئی رسالے ایسے ہیں جو صرف ترکی اور خلافت عثمانیہ اور عالم اسلام میں برپا تحریکوں کے لیے وقف تھے اور ان رسائل کے ذریعے اردو ادب میں نظم و نثر کا سرمایہ وسیع ہوا۔ انھیں رسالوں میں ایک رسالہ معارف بھی تھا، جو دہلی سے نکلتا تھا اس کے مدی رحاجی محمد اسماعیل خان تھے اس رسالے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں سب سے پہلے حیات جاوید حالی کی لکھی ہوئی سید احمد کی سوانح عمری، قسطوار شائع ہوئی۔ اردو کے انشأ پرداز سجا دحیدر یلدرم (۱۸۸۸ئ-۱۹۵۰ئ) کے مضامین بھی اس رسالے میں پہلی بار شائع ہوئے۔ اس رسالے میں ترکی کے مشہور اور مقبول ناول نگار ”احمد مدحت“ کے ایک ناول سرکیشیا کا ترجمہ سجاد حیدر یلدرم نے اردو زبان میں کیا۔ یہ ناول کوہ قاف اور سرکیشیا کے رسم و رواج اور وہاں کے عجیب و غریب مناظر کے ذکر سے بھرپور ہے۔ احمد مدحت کا یہ ناول ترکوں کی ناول نگاری کی قابلیت کا خوبصورت ترین اظہار بھی ہے۔ اس ناول میں عالم اسلام سے دلی لگا ئو اور وابستگی کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔</p> <p>صبحی خانم تعلیم یافتہ اور روشن خیال خاتون تھیں۔ انھوں نے ترک عورتوں پر اپنے خیالات کے گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ ان کا ایک مضمون ”ایک ترکی خاندان اور اس کی گذشتہ و موجودہ حالت“ ترکوں کی معاشرتی تبدیلی کو سمجھنے کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس مضمون کا ترجمہ اردو زبان میں کیا گیا۔ اس مضمون سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم روایات کو ترک کر کے جدید رجحانات کس طرح کسی معاشرے میں پروان چڑھتے ہیں۔</p> <p>رسالہ معارف، دہلی میںتر کی زبان کے ایک شاعر ”نامق کمال بے“ (۱۸۴۰ئ-۱۸۸۸ ئ) کی سوانح عمری بھی موجود ہے جس کو عبدالعلی خان نے مرتب کیا ہے۔ نامق کمال بے خاندانی لحاظ سے ایک شاعر کے گھر میں پیدا ہوئے، ان کے دادا احمد راتب پاشا بھی ترکی زبان کے نامور شعرا میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں تصوف کی جھلک پائی جاتی ہے۔ نامق کمال بے شاعری اور نثر نگاری دونوں میدانوں کے شہسوار تھے۔ الطاف حسین حالی (۱۸۳۷ئ-۱۹۱۴ئ) پر نامق کمال بے کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ کیوںکہ حیاتِ جاوید کا آغاز بھی نامق کمال بے کے ایک پیرا سے ہوتا ہے۔ حالی لکھتے ہیں کہ ترکی زبان کے نامور شاعر نامق کمال بے نے اپنے چند اشعار میں یہ مضمون درج کیا ہے کہ:</p> <blockquote> <p>ایک انسان کی زندگی دوسرے انسان کے لیے روشنی کے مینار کی طرح ہے جو سمندر کے کنارے ڈولتے جہازوں کو اشارہ کرتا ہے کہ جلد بھنور سے نکل جائو۔ مبارک ہیں وہ جو اس اشارے کو سمجھتے ہیں اور اپنی زندگی کے جہاز کو چٹانوں سے بچا کر نکل جا تے ہیں۔</p> </blockquote> <p>مار ماڈیوک پکھتال (۱۸۷۵ئ-۱۹۳۶ئ) بھی کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ انھوں نے جنگِ عظیم اوّل کے حوالے سے کئی ناول لکھے ہیں۔ ان کا ایک ناول <annotation lang="en">Early Our's</annotation> کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کا ترجمہ مظہرالدین مالک دائرہ علمیہ الامان، دہلی نے صبحِ ترکی کے نام سے کیا ہے۔ تر کی، مصر و شام کے طویل سفر، مسلمانوں کی زندگی کے عمیق مطالعہ اور ان میں موجود سیاسی، سماجی اور نفسیاتی کیفیات جو نوآبادیات کے تسلط کی وجہ سے ان کے ذہنوں پر قائم ہوئیں، ان تمام مشاہدات و تاثرات کا خاکہ اس ناول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ترجمے سے اردو زبان و ادب میں اس تحریک کے بھرپور رجحانات کا پتا چلتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تحریروں کو دوبارہ اہلِ نظر کے سامنے پیش کیا جائے۔</p> <p>مصطفی کامل پاشا مصر کے قوم پر ست رہ نما تھے۔ ۱۴ اگست ۱۸۷۴ئ میں پیدا ہوئے اور فروری ۱۹۰۸ئ میں ان کاانتقال ہو گیا۔ فرانس میں قانون دانی کی ڈگری حاصل کی، اور خد یو رفیق پاشا کے معاونِ کار کی حیثیت سے مصر کی عملی سیاست میں حصہ لیا۔ عالم اسلام میں ان کو نہایت اچھی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ مصطفی کامل پاشا نے صحافی کی حیثیت سے بھی اپنا لوہا منوایا، اور ۱۹۰۰ئ میں ایک رسالہ اللیوا جاری کیا۔</p> <p>رسالہ دکن ریویو کے مدیر مولانا ظفر علی خاں (۱۸۷۳ئ-۱۹۵۶ئ) نے اس رسالے میں اردو زبان و ادب کے مشاہیر کے علاوہ اسلامی تحریکوں سے وابستہ اصحاب پر مضامین شائع کیے۔ مولوی عبدالحق کے مضمون کے اختتام پر ظفر علی خاں نے ”رحلت مصطفی کامل پاشا“ نظم بھی لکھی ہے۔ ترکی کی خلافت اور عالم اسلام پر یور پی جارحیت کے سیاسی نتائج خواہ کچھ بھی ہوں مگر اردو ادب پر اس کے اثرات نہایت گہرے مرتسم ہوئے ہیں، جس کا مطالعہ کئی حوالوں سے کیا جانا چاہیے۔ اس کی ایک مثال رتن ناتھ سرشارؔ (۱۸۴۶ئ-۱۹۰۳ئ) کے ناول میں اس کا ہیرو ”آزاد“ جنگ بلقان میں باقاعدہ شریک ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ علاوہ ازیں قرۃالعین حیدر (۱۹۲۸ئ-۲۰۰۷ئ) کے ناولوں میں جابجا ترکی اور خلافت تحریک کے حوالوں سے مثالیں ملتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ خصوصًا چاند نی بیگم میں قنبر صاحب کے حالات کو بیان کرتے ہوئے ایک بھائی کے ذکر میں یہ مذکور ہے کہ وہ ترکی کی خلافت تحریک سے اتنے متاثر ہوئے کہ ”جنگ سمرنا“ میں شریک ہونے کے لیے ترکی چلے گئے۔ یہ وہ چند مثالیں ہیں جن کا تفصیلی مطالعہ کیا جانا ضروری ہے۔ تاکہ اردو ادب میں ان قوی رجحانات کا درست پس منظر و پیش منظر سامنے آسکے۔</p> </section> </body>
0026.xml
<meta> <title>عبدالستار صدیقی: نامور ماہرِ لسانیات، تہہرس محقّق</title> <author> <name>تحسین فراقی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 4</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/8_tehsin_firaqi_bunyad_2013.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>11285</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
عبدالستار صدیقی: نامور ماہرِ لسانیات، تہہرس محقّق
11,285
Yes
<body> <section> <p>عبدالستار صدیقی (۱۸۸۵ئ-۱۹۷۲ئ) اردو کے ان نامور محققوں میں شمار کیے جاسکتے ہیں جن پر ”یک در گیر ومحکم در گیر“ کے قول کا بڑی خوبی سے اطلاق ہوتا ہے۔ انھوں نے زندگی طویل پائی مگر مقابلۃً کم لکھا تاہم جتنا لکھا اس پر ”قدرِ اول“ کی مہر ثبت کیے بغیر چارہ نہیں۔ ان کی تحریری تگ و تاز کا اصل میدان تاریخی و تقابلی لسانیات تھا اور اس باب میں ان کے علمی حاصلات ایک مدت تک اہلِ نظر سے خراجِ توصیف وصول کرتے رہیں گے۔ انھوں نے تاریخ کو تحقیق سے مربوط کیا۔ ان کا تحقیقی طریقِ کار گہرا تعقلاتی تھا، جذبات اور جذباتیت سے خالی اور خالصتہً علمی۔ تاریخی لسانیات پر ان کی نظر قابلِ رشک تھی۔ وہ عربی، فارسی، ہندی، پہلوی، سنسکرت اور انگریزی سے گہری آگاہی رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں عبرانی، سریانی اور ترکی سے بھی کسی قدر واقفیت بہم پہنچائی۔ ارد و، فارسی اور عربی کے لسانی امور ہی نہیں، ان زبانوں کے ادبیات سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ دراصل عبدالستار صدیقی کے پاے کے علما اردو میں شاذ کے حکم میں داخل ہیں۔ مقالات صدیقی (پہلا حصہ)، معرّباتِ رشیدی (ترتیب) اور دیگر متعدد تحریروں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عبدالستار صدیقی کو لفظوں کی عہد بہ عہد موجودگی اور ان کے اوضاع و تغیرات، فرہنگوں کی صحت و سقم، اپنی مخصوص علمی و لسانی اقلیم میں ہر دور کے لفظی و لسانی نظائر اور وضعِ اصطلاحات کے بصیرت افروز نکتوں کا کیسا گہرا شعور تھا۔ ان کے بعض مقالات لسانی معلومات کی کان ہیں۔ ان کے معاصرین میں یہ لسانی ذوق اور گہرا لسانی شعور حافظ محمود شیرانی، وحید الدین سلیم، سید سلیمان ندوی، احمد دین، مولانا سلیمان اشرف، پنڈت کیفی، شوکت سبزواری اور چند ہی اور انے گنے لوگوں میں تھا۔ پیشروؤں میں اس کی مثالیں سراج الدین آرزوؔ، انشا اللہ خاں انشاؔ اور محمد حسین آزادؔ کی صورت میں نظر آتی ہیں۔ تقابلی لسانیات کے اولیں شواہد برعظیم میں آرزوؔ اور انشاؔ ہی کے ہاں ملتے ہیں۔</p> <p>عبدالستار صدیقی کے معاصرین مثلاً حافظ محمود شیرانی، سید سلیمان ندوی، عبدالماجد دریا بادی اور متعدد دیگر حضرات ان کی لسانی خدمات اور اس باب میں ان کے تبحّر کا لوہا مانتے تھے۔ سید سلیمان ندوی نے معارف کے مارچ ۱۹۳۰ئ کے شمارے میں ان کے بارے میں بالکل درست لکھا تھا:</p> <blockquote> <p>موصوف ہندوستان کے موجودہ مغربی سند یافتگانِ السنۂ شرقیہ میں ممتاز درجہ رکھتے ہیں اور خصوصیت کے ساتھ عربی زبان کے فقہ اللغہ (فیلالوجی) اور عربی اور سامی اور فارسی زبانوں کے باہمی تعلقات پر ان کو عبورِ کامل ہے۔</p> </blockquote> <p>چونکہ عبدالستار صدیقی نے اپنی متعدد انتظامی مصروفیات اور طلبہ و احباب کی علمی رہنمائی اور معاونت میں وقت کے کثیر حصے کے صرف کے باعث کم لکھا، اسی لیے ایک دوسرے موقع پر جب سید سلیمان ندوی نے ۱۹۳۹ئ میںمعارف اورہندستانی میں ”بعض پرانے لفظوں کی نئی تحقیق اور تہنید“ کے زیر عنوان دو قسطیں شائع کیں اور صدیقی صاحب نے ان پر استدراک رقم کیا تو سید صاحب نے دلچسپ انداز میں لکھا:</p> <blockquote> <p>علم میں خیّام کی طرح بخیل ہیں اور قلم کو بہت کم حرکت دیتے ہیں۔</p> </blockquote> <p>صدیقی صاحب نے سید سلیمان ندوی کے مذکورہ مقالے پر استدراک ہی نہیں لکھا، سید صاحب سے اختلاف کرتے ہوئے ان کے نام ایک دلچسپ خط میں ان کے اس خیال سے اختلاف بھی کیا کہ ایک زبان میں درآنے والے دخیل الفاظ کو اُس زبان کے برتنے والے ”بگاڑ“ دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>میں دل سے ڈرتا ہوں کہ کہیں آپ برا نہ مان جائیں مگر زبان کم بخت مانتی نہیں۔ ”بوتام“ ہمارا بڑا اچھا لفظ ہے، اسے ”بگاڑ“ کہنا تو کجا میں سُن نہیں سکتا۔ ہم جس لفظ کو اپنی زبان میں لیتے ہیں، اپنی زبان کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ”بناتے“ ہیں یعنی ہماری زبان اسے اپنے ڈھب کا بنا لیتی ہے۔ اسے بگاڑنا کیونکر کہیے گا؟ اور ”بوتام“ میں تو یہ بھی نہیں۔ جس زمانے میں فرانسیسی ہندستان آئے، ان کی زبان سے پہلے پہلے (شاید ہندستانی سپاہیوں نے) بُوتون سنا۔ ’بٹن‘ بہت بعد کو انگریز لوگ لائے۔ اسی طرح ایک اور لفظ ہے ”کارتوس“، انگریزی میں ”کارٹ رِج“ اس سے ہمارا ”کارتوس“ ہرگز نہیں بنا۔ فرانسیسیوں سے ”کارتوش“ سن کر ہمارے سپاہیوں نے ”کارتوس“ تلفظ کیا۔ جیسے ”دیش“ سے ”دیس“ ہوا، ”کارتوش“ سے کارتوس ہوا۔ انگریز ”کمانڈانٹ“ بولتا ہے۔ اس کو فرانسیسی ”کوماں داں“ بولتا ہے۔ ”کمیدان“ کہا تو ہم نے اس کا کیا بگاڑا؟</p> </blockquote> <p>آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ایک منجھے ہوئے ماہرلسانیات نے کتنے اہم لسانی اصول کی نشان دہی کیسے سلیقے اور کس علمی شان سے کی۔ اس اقتباس سے خوب اندازہ ہوتا ہے کہ صدیقی صاحب تاریخی اور تقابلی لسانیات پر کیسی اچھی نظر رکھتے تھے۔</p> <p>تاریخی اور تقابلی لسانیات سے صدیقی صاحب کی اطمینان بخش بلکہ حیران کن آگاہی کے شواہد مقالاتِ صدیقی اور متعدد دیگر تحریروں میں قدم قدم پر نظر آتے ہیں۔ دخیل الفاظ کے موضوع سے انھیں خصوصی دلچسپی تھی۔ ۱۹۱۲ئ سے ۱۹۱۹ئ تک کم و بیش سات برس انھوں نے یورپ اور خصوصاً جرمنی میں گزارے تھے اورکلاسیکی عربی میں فارسی کے مستعار (دخیل) الفاظ کے زیر عنوان جرمن زبان میں ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا تھا جو ۱۹۱۹ئ ہی میں جرمنی سے شائع ہوا تھا۔ اپنی اس کتاب اور بعض دیگر اہم تحریروں کا ذکر کرتے ہوئے مولانا امتیاز علی عرشی کے نام ۲۵ اپریل ۱۹۴۴ئ کے ایک خط میں لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>۱۹۱۹ئ میں میری کتاب جرمانی زبان میں (جرمانیا کے شہر گوئِ ٹنگن سے) شائع ہوئی تھی۔ اس کا نام انگریزی زبان میں ترجمہ کر کے لکھتا ہوں: <annotation lang="en">Studies in Persian Loan-words in Classical Arabic</annotation>۔ اس میں ان فارسی الاصل لفظوں پر بحث ہے جو جاہلیت کے زمانے سے لے کر اسلام کے ابتدائی زمانے تک فارسی سے عربی میں داخل ہو چکے تھے۔ اس مقالے میں فرداً فرداً لفظوں سے بحث نہیں کی گئی بلکہ تعریب وغیرہ کے اصول سے بحث ہے۔۔۔ اگر آپ وہ بڑودے والی کتاب میرے لیے بھیج دیںتو ضرور آرامی اور عبرانی وغیرہ لفظوں کا تلفظ لکھ بھیجوں گا۔ وہ جرمانی کتاب آپ کو دیکھنے کو بھیج دیتا لیکن وہ آپ کے کس کام کی؟ ۱۹۳۰ئ میں ایک مقالہ ابنِ دُرَید اور اس کے معرّبات پر شائع کیا تھا۔ اس کا ایک نسخہ بھیجتا ہوں۔۔۔ اُسی سال مولوی سید سلیمان اشرف مرحوم کی کتاب المبین پر میں نے ایک تبصرہ رسالہ معارف میں لکھا تھا۔ اس کے کچھ نسخے الگ بھی چھپ گئے تھے جو بٹ گئے۔ یہ نسخہ اس خیال سے آپ کو بھیجتا ہوں کہ شاید معارف کی جلدوں میں ڈھونڈنا زحمت کا باعث ہو۔۔۔</p> <p>عربی مبین پر حرف آنے کا طوفان ہمارے بزرگوں ہی نے اٹھایا تھا۔ اگرچہ اسی زمانے میں بعضے محققوں نے اس کی تردید کر دی تھی مگر وہ بات جو مذہبی عصبیت کی لَے میں ایک بار کہہ دی گئی تھی، لوگوں کے دلوں میں جم گئی۔ اُس کی تردید کو کوئی سمجھا کوئی نہ سمجھا۔</p> </blockquote> <p>یہ درست ہے کہ صدیقی صاحب نے زندگی میں کم نویسی کو اپنا شعار بنائے رکھا مگر بدقسمتی یہ ہے کہ جو لکھا ان تحریروں کی بھی صرف ایک جلد اب تک منظر عام پر آسکی حال آں کہ بقول مرتب مقالات کی تعداد اتنی تھی کہ دو مزید جلدیں شائع ہو سکتی تھیں مگر نہ ہوسکیں۔</p> <p>زیرِ نظر مقالے میں ان کے مضامین کی جلد اول اور بعض دیگر مقالوں سے، جو رسائل و جرائد سے حاصل ہو سکے، اعتنا کیا گیا ہے۔ ان تحریروں سے صدیقی صاحب کی گہری نظر اور غیرمعمولی تعمّق و تبحرّ کا بہ سہولت اندازہ ہوتا ہے۔ ان تحریروں میں اگر مشاہیر کے نام ان کے علمی مکتوبات بھی شامل کر لیے جائیں تو ان کے علم و فضل کی زیادہ مکمل تصویر سامنے آتی ہے۔ سو میں نے ان کے غیرمعمولی علمی مقام کے تعیّن میں ان مکتوبات سے بھی جابجا مدد لی ہے۔ حق یہ ہے کہ رشید حسن خاں نے اگر عبدالستار صدیقی کو ”اساطینِ ادب“ میں شمار کیا ہے تو کسی مبالغے سے کام نہیں لیا اور اگر ڈاکٹر سید عبداللہ نے لکھا ہے کہ ان کے بے مثال علمی و لسانی مباحث کے حامل مکتوبات پڑھ کر اصمعی، ابنِ سلّام، ابنِ سیدہ اور ابنِ دُرَید کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، تو ایک بدیہی صداقت کے سوا کچھ نہیں۔</p> <p>مقالاتِ صدیقی میں صدیقی صاحب کی ۱۹۱۰ئ سے لے کر ۱۹۶۱ئ تک کی تحریروں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ جلد زیادہ تر لسانی مباحث پر مشتمل ہے مگر اس میں ایسے ایسے چشم کشا لسانی موضوعات کو زیربحث لایا گیا ہے کہ اُن کی داد نہ دینا ظلم ہوگا۔ ہندوستان بغیر واؤ کے، بغداد کی وجہِ تسمیہ، لفظ سُغد کی تحقیق، ذال معجمہ فارسی میں، ولیؔ کی زبان، اردو املا، بعض پرانے لفظوں کی نئی تحقیق اور ان کے علاوہ افسوس (لفظ کا ایک بھولا ہوا مفہوم) معرّب لفظوں میں حرف ”ق“ کی حیثیت، تماہی کی ترکیب، وضع اصطلاحات پر تبصرہ اور معائبِ سخن کلامِ حافظؔ کے آئینے میں وغیرہ کے مطالعے سے صدیقی صاحب ایک ایسے عالم لسانیات کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں جو شاید لفظ و لغات سے ہمہ وقت محوِ مکالمہ رہتے ہوں اور انھی سے ربط و ضبط کو اپنا حاصلِ حیات سمجھتے ہوں۔ تماہی کی ترکیب کو درست ثابت کرنے کے لیے وہ اردو میں مستعمل ایسے لفظوں کا انبار لگا دیتے ہیں جو ایسی ہی تراکیب کے مماثل ہیں یعنی ایسی ترکیبیں جن میں ہندی اور فارسی یا عربی الفاظ کو مرکبات کی صورت میں ڈھالا گیا ہے۔ ”بارہ دری“، ”بارہ گزی“، ”تیس ہزاری باغ“، تپائی، تراہا، دوغزلا، تغزلا، ست خصمی، چھ ماہی، دُفصلا (جو درخت سال میں دو بار پھلتا ہے) وغیرہ وغیرہ۔ اس ساری بحث میں صدیقی صاحب کا طریق کار ایک بردبار اور حلیم الطبع عالم کا ہے جو بغیر کسی جھنجھلاہٹ یا خشونَت کے بڑی نرمی لیکن کمال ثبات کے ساتھ دلیلوں پر دلیلیں دیے چلا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک اردو کے مجتہد فصیحوں نے نہایت بے تکلفی اور بے باکی سے فارسی اردو اجزا کو باہم ملایا ہے مثلاً سوداؔ نے برفاب، غرقاب کے وزن پر ”چھڑکاب“ بنا لیا۔ صدیقی نے اسے سندِ ثقاہت عطا کر دی۔</p> <p>تاریخی لسانیات سے صدیقی صاحب کے لگاؤ کے شواہدان کی تحریروں میں جابجا نظر آتے ہیں۔ ان کے مقالے ”ہندوستان بغیر واؤ کے صحیح ہے“ کے مطالعے سے یہ امر بڑی صراحت سے آئینہ ہو جاتا ہے کہ ”ہندوستان“ کے مقابلے میں ”ہندستان“ (بغیر واؤ) کے زیادہ رائج رہا ہے۔ ایران کے متقدم شعرا ابوالفرج رونیؔ، مسعود سعد سلمان، فرخیؔ، عثمان مختاری، نظامیؔ اور رومیؔ وغیرہ سے لے کر متاخّر شعرا مثلاً جامیؔ تک کے یہاں ”ہندستان“ ہی مستعمل رہا ہے۔ پھر فرہنگِ انجمن آراے جہانگیری میں رضا قلی خاں ہدایت نے ”ہندستان“ ہی کو مستقل لفظ کی حیثیت میں جگہ دی ہے۔ ڈاکٹر صدیقی بے شمار مثالوں سے ثابت کرتے ہیں کہ لفظ ”ہندستان“ کی وہی حیثیت ہے جو بغداد (باغِ داد)، پرستان (پری ستان)، دشمن (دشت من)، دشنام (دشت نام) اور ناخدا (ناوخدا) وغیرہ کی تھی۔ پھر معاملہ محض فارسی زبان تک نہیں رہا، عربی اور ترکی میں بھی ’ہندستان‘ بغیر واو کے مستعمل رہا ہے۔ خود اردو شاعری میں وجہیؔ، ولیؔ، سوداؔ، میرؔ، آتشؔ، مصحفیؔ، ناسخؔ، جرأتؔ، قدرؔ بلگرامی، اِسماعیلؔ میرٹھی وغیرہ کے یہاں ”ہندستان“ ہی مستعمل رہا ہے۔ میرے خیال میں بعض مستثنیات بھی ہیں جن کی طرف صدیقی صاحب نے اشارہ نہیں کیا مثلاً مصحفیؔ کا یہ مشہورشعر کیسے نظر اندازکیا جاسکتا ہے:</p> <blockquote> <verse> ہندوستاں کی دولت و حشمت جو کچھ کہ تھی ظالم فرنگیوں نے بہ تدبیر کھینچ لی! </verse> </blockquote> <p>بہرحال صدیقی صاحب کے نزدیک فصحا کی زبان پر ”ہندستان“ اور ”ہندستانی“ ہی ہے اور یہی قابلِ ترجیح ہے۔ اس کے باوجود صدیقی صاحب ہندوستان اور ہندوستانی کو بھی غلط نہیں کہتے اور یہ ان کی سلامتیِ طبع کی دلیل ہے۔</p> <p>س مقالے میں ایک مقام پر صدیقی صاحب نے لکھا ہے کہ ”ہندستان“ کی مزید تخفیف ”ہندساں“ کی صورت میں بھی ملتی ہے۔ وہ اس ضمن میں فرہنگِ جہانگیری اور بہارِ عجم کی عبارتیں نقل کرتے ہیں جہاں ”ہندوستان“ کی ایک شکل ”ہندستاں“ نقل ہوئی ہے مگر وہاں فرّخی کا جو شعر درج ہوا ہے اس میں ”ہندستاں“ کے بجاے ”ہندساں“ ہے، شعر یہ ہے</p> <blockquote> <verse> گر ز جُودِ تو نسیمی بگذرد بر زنگبار! ور ز خشم تو سمومی دروزد بر ہندساں </verse> </blockquote> <p>چونکہ دونو فرہنگوں کی نثری عبارت اور شعر میں مستعمل نظیروں (ہندستاں/ ہندساں) میں فرق ہے لہٰذا اب برہانِ قاطعسے سند لاتے ہیں جہاں لکھا ہے: ”ہندساں“ باسینِ بے نقطہ بروزنِ ہندواں“۔۔۔ پھر لکھتے ہیں کہ برہانِ قاطع کی اس تشریح سے جہانگیری اوربہار کی عبارتیں صاف ہو گئیں اور ”اب پورے یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ استاد فرّخیؔ کے شعر میں ’ہندساں‘ ہی ہے ’ہندستاں‘ نہیں۔ ’ہندساں‘ شاعروں کے کلام میں زیادہ نہیں ملتا مگر اس کا تو یقین ہو گیا کہ چوتھی صدی ہجری میں ”ہندساں“ زبان میں داخل ہو چکا تھا (مقالات صدیقی ص۴۱)۔ اس مختصر عبارت سے جہاں اس امر کا اندازہ ہوتا ہے کہ صدیقی صاحب لفظوں کے عہد بہ عہد متغیر اوضاع پر غیرمعمولی نظر رکھتے تھے وہاں اس عبارت پر تھوڑی سی حیرت بھی ہوئی: ”اب پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ استاد فرّخیؔ کے شعر میں ”ہندساں“ ہی ہے ’ہندستاں‘ نہیں“۔ حیرت اس امر پر ہے کہ عروض اور معاملاتِ عروض پر گہری نظر رکھنے والے محقق کو یہ لکھنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی۔ فرّخیؔ کا شعر جس بحر میں (فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلات =رمل مثمن مقصور/ محذوف)ہے، اس میں ’ہندستاں‘ سماہی نہیں سکتا۔ وہاں تو ”فاعلات“ کے وزن پر کوئی لفظ ہی آسکتا تھا اور وہ ”ہندساں“ کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا، اس لیے بھی کہ زنگبار اور ہندساں میں رعایت معنوی ہے کہ دونوں میں ”سیاہی“ کا عنصر موجود ہے۔</p> <p>اوپر ذکر ہوا کہ صدیقی لفظوں کے عہد بہ عہد متغیر اوضاع پر غیر معمولی نظر رکھتے تھے۔ اس کے شواہدان کے مقالات اور دیگر تحریروں میں جگہ جگہ ملتے ہیں مثلاً ”بغداد“ کی وجہ تسمیہ “نامی معروف مضمون میں بغداد کے ایک توضیحی مترادف ”باغ داد” کے ضمن میں بتاتے ہیں کہ بعض کے خیال میں ”بغ“ کے معنی بستاں کے ہیں اور داد“ عطا کیا۔ چونکہ کسریٰ (ساسانی بادشاہ) نے یہ باغ ایک خواجہ سرا کو دے دیا تھا لہٰذا ”بغ داد“ کہلایا۔ پھرداد تحقیق دیتے ہوئے لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>اگر یوں لیجیے تو پھر اس باغ کا نام ’باغِ دادہ‘ ہونا چاہیے تھا مگر ’دادہ‘ کی صورت ساسانی عہد کی زبان میں ’داذک‘ یا ’دازگ‘ تھی۔ یہ معرّب ہو کر (اگر پہلے الف کا حذف ہو جانا بھی مان لیا جائے تو) ’بغداذق‘ یا ’بغداذخ‘ ہو گیا ہوتا جیسے ”بَیذق“ اور ”ساذج“ اور موجودہ فارسی میں ”بغدادہ“ ہوتا مگر ان صورتوں میں سے ایک بھی نہیں ملتی۔</p> </blockquote> <p>اسی مقالے میں آگے چل کر ”باغ داد“ یا ”باغِ داد“ کی تخئیلی اڑان کو رد کرتے ہوئے صدیقی بغداد کے پہلے حصے ”بغ“ کی معنویت اجاگر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس کی صورت اوِستا میں بَغَ اور بَگَ، میخی کتبوں میں بَغَ ہے اور اس کے معنی خدا/ دیوتا کے ہیں۔ ان کے خیال میں سنسکرت کے بھگوان یا بھگوت وغیرہ کا پہلا جز ”بھگ“ اور ”بَغ“ ایک ہی لفظ ہے۔ ایران میں یہ لفظ زردشتیت سے پہلے موجود تھا جب وہاں بتوں کی پوجا ہوتی تھی۔ اسی طرح چند صفحات کے بعد صدیقی صاحب نے ”بے ستون“ کے ضمن میں تاریخی لسانیات کی روایت کو کام میں لاتے ہوئے جس گہرائی کے ساتھ اس کے اجزا کی مختلف وضعوں کی توضیح کی ہے، اس کی کیفیت لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتی۔ بس، آبگینہ تندیِ صہبا سے پگھلا جائے ہے، کی صورت ہے۔ مقالے کے آخر میں صدیقی صاحب نے اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھایا ہے کہ اسما و القاب کی کس طرح اپنی نہاد میں کسی عقیدے، ایقان یا اعتقاد کو چھپائے ہوتے ہیں جن تک نگاہ گہرے لسانی تاریخی شعور کے بغیر نہیں پہنچ پاتی۔ فغفور (بغپور) فَغ= خدا، دیوتا، پور = بیٹا، کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے جو کچھ لکھا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تاریخی اور تقابلی لسانیات بہت سے قدیم مذہبی و معتقداتی تصورات کی بھی پردہ کشا ہے۔ لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>”بغپور“ چبن کے شہزادوں کا لقب ہرگز نہ تھا۔۔۔ چین کے بادشاہ کو کہتے تھے اور اسے ویسا ہی استعارہ سمجھنا چاہیے جیسا ”ظل اللہ“ میں ہے۔ بادشاہ کے ربّانی حقوق کو پورب ہی نہیں پچھّم کی قومیں بھی آج سے چند ہی صدی پہلے تک مانتی رہی تھیں۔ خوارزمی کا خیال ادھر نہیں گیا، نہیں تو یہ فقرہ مفاتیح العلوم میں جگہ نہ پاتا: وَلَعَلّ بغدادُ ھی عَطِیّۃ الملِک(اور شاید بغداد سے مراد ہو: بادشاہ کا عطیہ)۔</p> </blockquote> <p>دراصل لسانیات کی باقاعدہ سالہا سال کی تحصیل، ایک مدت کے تعمق اور مشرقی زبانوں اور ان کے ادبیات کے ساتھ گہری فکری و ذہنی وابستگی نے صدیقی صاحب کو غیرمعمولی لسانی بصیرت عطا کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سطحی لسانی یا صوتی تماثلات کو بے اصولی گردانتے تھے۔ ان کا بالکل صحیح موقف تھا کہ لسانیات کی حالت اور حیثیت ریاضیات کی سی ہے۔ مختارالدین احمد کے نام اپنے ایک خط میں نہایت پتے کی باتیں کرتے ہوئے لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>آپ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ چند آوازوں اور ان کے مجموعوں (لفظوں) کو جان لینا اور بغیر کسی ترتیب اور نظام کے لکھ دینا لسانیات سے بہت دور ہے۔ لسانیات ایک <annotation lang="en">Accurate Science</annotation> ہے۔</p> <p>۲- لسانی بحث کے لیے نہایت ضروری ہے کہ آپ لفظوں کی تاریخ معلوم کریں اور ہر قدم پر یہ دیکھیں کہ میں کچھ تاریخ کے خلاف تو نہیں کہہ رہا ہوں۔</p> </blockquote> <p>یہ فہمائش صدیقی صاحب کو اس لیے کرنا پڑی تھی کہ مختارالدین احمد نے اپنے ایک مضمون میں بعض انگریزی اور عربی لفظوں کی مماثلت دکھائی تھی۔ انھوں نے نہ صرف <annotation lang="en">Navel</annotation> کو ناف سے جاملایا تھا بلکہ ناف کو عربی قرار دے ڈالا تھا۔ چنانچہ صدیقی صاحب کو وضاحت کرنا پڑی کہ ”ناف“ عربی نہیں فارسی ہے۔ عربی میں اسے ”سرہ“ کہتے ہیں۔ انھوں نے اس طرح کی بے جوڑ لسانی مماثلتوں کو ”انتقال“ اور ”انت کال“ کی سی لسانی بوالعجبی قرار دیا تھا۔ ان کے خیال میں آریائی اور سامی زبانوں کو آپس میں جوڑنا سعیِ لاحاصل ہے۔ دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ صدیقی صاحب کے اس موقف کی تائید ان کے سینئر معاصر احمد دین کی سرگذشتِ الفاظسے بھی ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ احمد دین کی مذکورہ کتاب پہلی بار ۱۹۲۳ئ میں شائع ہوئی تھی۔ احمد دین نے لکھا تھا:</p> <blockquote> <p>انتقال عربی الاصل ہے، نقل سے مشتق ہے۔ اسے سنسکرت انتسا (موت) اور کال (وقت) سے ملانا بے جوڑ بات ہے۔ اسی طرح ”انتہا“ بھی عربی ہے، سنسکرت ”ان تھاہ“ یعنی جس کی تھاہ نہ ملے، بیان کرنا سراسر غلطی ہے۔</p> </blockquote> <p>لسانیات ہی کے ضمن میں عبدالستار صدیقی کا ایک قابلِ قدر مقالہ <annotation lang="en">”Ibn Duraid and His Treatment of Loan Words“</annotation> ہے۔ اس مقالے میں صدیقی صاحب نے عربی لسانیات کے دبستان بصرہ کے آخری سب سے بڑے عالم پر ایک مفصل مقالہ لکھا تھا۔ ابنِ درید نے پچانوے چھیانوے برس عمر پائی اور اب اس کی ولادت پر ۱۱۷۵ برس ہو چکے۔ اس کی ضخیم تصنیف جمھرۃ اللغہہے۔ ابنِ درید خلیج فارس اور ایران میں ایک مدّت تک مقیم رہا۔ دلچسپ بات ہے کہ وہ عالموں میں شاعر اور شاعروں میں عالم مشہور تھا۔ ابنِ درید نے عربی میں مستعار الفاظ کی نشان دہی وسیع پیمانے پر کی تھی۔ جوالیقی نے اپنی معرّب میں ابنِ درید سے جابجا استفادہ کیا تھا بالکل اسی طرح جیسے خود ابنِ درید نے الخلیل کی کتاب العین سے فیض اٹھایا تھا۔ ابنِ درید نے اپنی کتاب میں کتاب العین سے فیض اندوزی کا اعتراف بھی کیا ہے اور اپنی تالیف میں برتے گئے طریق کار کی وضاحت بھی کی ہے۔ ابنِ درید نے عربی حروف تہجی اور ان کی اصوات پر بھی بصیرت افروز بحث کی ہے۔</p> <p>یہاں اس امر کا اظہار بے محل نہ ہوگا کہ جس زمانے میں عبدالستار صدیقی گوئِ ٹنگن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے تھے، اپنے تحقیقی مقالے کی تکمیل تک ابنِ درید کی جمھرۃ اللغہکا ضخیم مخطوطہ نہ دیکھ پائے تھے تاہم اس کے باوجود ابنِ سِیدہ کی مخصَّصاور جوالیقی کی معرّب کے مطالعے سے وہ اس صحیح نتیجے تک پہنچ گئے تھے کہ یہ ابنِ درید ہی تھا جس نے عربی میں مستعار الفاظ کی بڑی تعداد میں نشان دہی کی تھی۔ پی ایچ ڈی کے مقالے کے شائع ہونے کے بعد جب صدیقی صاحب کو ہالینڈ کی لائیڈن لائبریری میں ابنِ درید کی ضخیم لغات جمھرۃ اللغہ کو دیکھنے کا موقع ملا تو ان کا سابقہ قیاس بالکل درست نکلا۔</p> <p>ابنِ درید کمال درجے کی مجتہدانہ بصیرت کا حامل تھا۔ یہی سبب ہے کہ وہ متعدد مقامات پر اپنے نامور پیشروؤں مثلاً الخلیل، سیبویہ، الاصمعی اور ابو عبیدہ کی تعبیرات سے اختلاف رکھتا تھا۔ صدیقی لکھتے ہیں کہ ”سِجِلّاط“ کے باب میں ابنِ درید، الاصمعی کے اس خیال سے متفق نہیں تھا کہ یہ لفظ فارسی سے مستعار ہے۔ اس کے تجسس نے اسے مجبور کیا اور اس نے ایک یونانی خاتون کو مذکورہ لفظ (سِجِلّاط دراصل ایک طرح کا کپڑا تھا) کی تفصیل بتا کر اس سے پوچھا کہ اسے یونانی (بازنطینی) کس نام سے پکارتے ہیں۔ خاتون نے جواباً کہا: سِجِلّاطس <annotation lang="en">(Sigillatus)</annotation>۔ ابنِ درید کی وسعتِ نظر اور لسانی تگ و تاز کا ذکر کرتے ہوئے صدیقی لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>He not only tries to sort out provincial and dialectical words and indicates the localities where they were in use originally, but also distinguishes sharply between the varions dialects of Arabic on one hand and the other semitic languages on the other, and it is only in respect of words from the latter, or, of course, from non-semitic languages that he uses the term معرّب ”Arabicized". A number of his statements show that Ibn Duraid had a clear idea as to from what sources and in what way loan-words came into Arabic.</p> </blockquote> <p>صدیقی صاحب چونکہ خودممتاز اور صاحب نظر محقق ہیں لہٰذا اُنھوں نے ابنِ درید کی غیرمعمولی لسانی بصیرت کے اعتراف کے باوجود لکھا ہے کہ عربی میں مستعار الفاظ کے باب میں بعض صورتوں میں اس سے اتفاق کرنا ممکن نہیں تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا طریقِ کار درست تھا۔ مقالے کے اخیر میں صدیقی صاحب نے ابنِ درید کی کتاب کی تیسری جلد کا وہ باب نقل کیا ہے جس میں مستعار الفاظ سے بحث کی گئی ہے اور وہ اقتباسات درج کیے ہیں جو مستعار الفاظ سے متعلق ہیں اور پوری کتاب میں جابجا موجود ہیں۔</p> <p>یہ بات معلوم ہے کہ تاریخی لسانیات کی مقتضیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس منہاج سے استفادہ کرنے والے کی عہد بہ عہد تاریخ اور جغرافیہ اور دیگر متعلقات پر بھی کافی ووافی نظر ہونی چاہیے۔ صدیقی ان تقاضوں سے خوب آگاہ تھے چنانچہ ان کی تحریروں سے جابجا تاریخی اور جغرافیائی معلومات پھوٹی پڑتی ہیں۔ وہ ’بغداد‘ کے نام کے پہلے حصے ”بغ“ کا ذکر کرتے ہوئے نہیں بھولتے کہ اور بھی کئی قریے ایسے ہیں جن کا سابق ’بغ‘ ہے مثلاً ہرات اور مَرۡو کے درمیان ایک قصبہ بَغشُور (جسے صرف بَغ بھی کہتے ہیں)، ارمینیا میں ایک بغاوَند، ایک بَغرَوند۔ یہ اور اس طرح کے دیگر متعدد پیش کردہ نظائر سے اندازہ ہوتا ہے کہ صدیقی صاحب لسانیات کے بین العلومی منہاج سے خوب واقف تھے۔ وہ عہدِ وسطیٰ کے مسلم مورخین و ادبا مسعودی، احمد ابن یحییٰ بلاذری، البیرونی اور یاقوت حموی وغیرہ کے علمی آثار سے استفادہ کر کے اپنی لسانی تحقیقات کو استوار کرتے تھے۔</p> <p>ابھی اوپر دبستانِ بصرہ کے نامور عالم ابنِ درید کیجمھرۃ اللغہ اور اس کے ان مباحث کا ذکر ہوا جو معرّبات سے متعلق تھے۔ خود معرّبات سے صدیقی صاحب کی دلچسپی قرار ناآشنا تھی اور اگر یہ کہا جائے کہ آخروقت تک رہی تو غلط نہ ہوگا۔ ”معرّب لفظوں میں حرفِ ”ق“ کی حیثیت“ انھوں نے اپنی عمر کے آخری حصے (۱۹۶۱ئ) میں لکھا اور یہاں بھی تاریخی اور تقابلی تحقیق کا حق ادا کر دیا مثلاً اس مقالے کے آغاز ہی میں انھوں نے اپنے وسیع لسانی مطالعے کا ثبوت دیتے ہوئے لکھا کہ ”ق“ جس آواز کی نیابت کرتا ہے وہ تمام سامی زبانوں میں پائی جاتی ہے۔ آریائی زبانیں اس حرف سے خالی ہیں تاہم ترکی اس سے مستثنیٰ ہے کہ غیر سامی ہونے کے باوجود اس میں ”ق“ کی صَوت موجود ہے (واضح رہے کہ ترکی بقول صدیقی نہ سامی زبان ہے نہ آریائی بلکہ تاتاری ہے)۔ اس مقالے سے اس دلچسپ حقیقت کا بھی پتا چلا کہ بعض اوقات کسی زبان کے متغیر ہوجانے والے لفظوں اور آوازوں کی محافظت ان کی اصل صورت میں کسی اور علاقے یا جغرافیائی خطّے کی زبان بھی کرتی ہے جیسے مثلاً ارمنی زبان میں فارسی لفظوں کی پرانی شکلیں محفوظ ہیں۔ ارمنی ایرانی زبان نہیں بلکہ اس علاقے کی زبان ہے جو ایران کے شمال مغرب میں آذر بائیجان سے ملحق ہے۔ صدیقی لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>فارسی زبان کے محققوں کو ارمنی سے بہت مدد ملی اور بہت سی کھوئی ہوئی کڑیاں مل گئیں چنانچہ جن لفظوں میں ’ک‘ یا ’گ‘ باقی نہیں رہا تھا ارمنی سے اس کا وجود یقینی ہو گیا۔ جو ’ک‘ سامی زبانوں میں ’ق‘ ہو گیا ہے وہ ارمنی میں ’ک‘ ہے اور جس ’گ‘ نے سامی میں ’ج‘ کا تلفظ اختیار کیا، ارمنی میں وہ اب بھی ’گ‘ ہے۔</p> </blockquote> <p>”معرّبات“ سے اسی غیرمعمولی لگاؤ کے پیش نظر صدیقی صاحب نے معرّباتِ عبدالرشید تتوی(م۔۱۰۷۷ھ) کا ایک قلمی نسخہ رام پور اسٹیٹ لائبریری سے ڈھونڈ نکالا۔ حیدرآباد دکن والا نسخہ ان کا اپنا مملوکہ تھا۔ انھوں نے اس کی ترتیب کا کام بقول ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی بیسویں صدی کے چھٹے عشرے کی ابتدائ میں شروع کر دیا تھا(رسالہ معرّباتِ رشیدی، کراچی، ص۷)۔</p> <p>معرّباتِ رشیدی کی تدوینِ نو (۲۰۰۳ئ، مرتّبِ ثانی: ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی) کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ مرحوم صدیقی صاحب نے معرّباتِ رشیدی کو نسخۂ حیدرآباد (جو ان کا ذاتی نسخہ تھا اور ۱۹۲۱ئ میں اپنے قیام حیدرآباد کے زمانے میں انھیں ملا تھا) اور نسخۂ اسٹیٹ لائبریری رامپور کے تقابل کے بعد مدوّن کیا تھا۔ موخرالذکر نسخہ انھیں ۱۹۴۶ئ میں ملا تھا۔ انھوں نے اپنے حیدرآبادی نسخے کو اساسی نسخہ قرار دیا تھا مگر اسے بھی محققانۂ ژرف نگاہی سے جانچا اور آنکا تھا۔ ڈاکٹر شیرانی لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>انھوں نے نسخۂ ب (حیدرآبادی نسخہ) کو اساسی نسخہ قرار دیا لیکن آنکھیں بندکرکے اس پر اعتماد نہیں کیا۔ چنانچہ پاورقی (کذا) میں دونو نسخوں کے متن کا فرق دکھایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں مختصر حواشی اور بعض کتابوں کے حوالے بھی درج کیے گئے ہیں۔ رسالہ ہٰذا کی تشریحی زبان فارسی ہے اس لیے مرتب نے حواشی بھی فارسی میں دیے ہیں۔ صرف ۲۹ صفحہ پرمعجم البلدان کا ایک مختصر اقتباس عربی میں ہے۔</p> </blockquote> <p>معرّباتِ رشیدی ۱۹۵۵ئ میں شائع ہوئی۔ اس میں وہ انگریزی دیباچہ شامل نہیں جو لکھا تو گیا مگر صدیقی صاحب کی غیرمعمولی مثالیت پسندی کے باعث خود ان کے لیے موجبِ اطمینان نہیں رہا تھا۔ اس کے کم و بیش دوبرس بعد آقاے محمد عباسی نے تہران سے فرہنگِ رشیدی شائع کر دی جس کے دوسرے حصے کے آخر میں انھوں نے اضافہ شدہ رسالہ معرّبات رشیدی بھی شامل کر دیا جو انھیں مخطوطے کی صورت میں دستیاب ہوا تھا۔ نسخۂ تہران کی اس اشاعت کے باعث صدیقی صاحب کو اپنے مطبوعہ نسخے پر نظرثانی کرنا پڑی چنانچہ انھوں نے اپنے نسخے پر نسخۂ تہران کی روشنی میں کچھ حواشی لکھے لیکن اپنی گوناگوں مصروفیات اور گرتی ہوئی صحت کے باعث وہ اُس نسخے کا اپنے نسخوں سے متنی تقابل کرنے کا حق ادا نہ کرپائے۔ یہ کام مرحوم مشفق خواجہ کے ایما پر جناب مظہر محمود شیرانی نے کیا اور حق یہ ہے کہ ان کی مساعی سے معرّباتِ رشیدی کی ایک اطمینان بخش تدوین اہلِ علم کے ہاتھ آئی۔ شیرانی صاحب نے صدیقی صاحب کے انگریزی دیباچے کا اردو ترجمہ بھی اپنی تدوین میں شامل کیا اور مرحوم کے جملہ حواشی بھی اپنے حاشیوں کے اضافے کے ساتھ شامل تدوین کیے۔</p> <p>معرّباتِ رشیدی مرتّبہ عبدالستار صدیقی کے مختصات کیا ہیں اور انھوں نے مؤلف عبدالرشید تتوی کے حالات اور اس کے علمی کارناموں کی تفصیل کے ضمن میں کیا لکھا اور اس پر مرتب ثانی نے کیا کیا اضافے کیے اس کی تفصیل کا یہ محل نہیں مگر اتنی بات اطمینان سے کہی جاسکتی ہے کہ مرتب ثانی کی غیر معمولی تحقیقی کاوش جتنی بھی قابلِ داد سہی اس کی بنیاد گذاری بہرحال عبدالستار صدیقی ہی کے مبارک ہاتھوں سے ہوئی۔</p> <p>لفظ و لسان سے ڈاکٹر صدیقی کے عشق و انسلاک کے متعدد مظاہر ان کی اور بہت سی تحریروں میں بھی بخوبی دیکھے جاسکتے ہیں۔ مختلف فرہنگوں کے صحت و سقم پر بھی ان کی گہری نظر تھی اور یہ گہری نظر دراصل متعدد زبانوں کے عمیق مطالعے کا حاصل تھی۔ ”ہندستان بغیر واؤ کے صحیح ہے“ نامی مقالے میں، جس سے پہلے بھی استشہاد کیا جاچکا ہے، ایک جگہ تین بڑی اہم فارسی فرہنگوں فرہنگِ جہانگیری، برہانِ قاطع اور بہار عجم کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ انھیں مستند مانتے ہیں مگر ان کے بعض مشمولات کو قابلِ اصلاح سمجھتے ہیں۔ لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>فرہنگ جہانگیری کی فروگذاشتوں کی تلافی کی غرض سے فرہنگِ رشیدی تصنیف ہوئی۔ برہانِ قاطع پر غالبؔ نے اعتراضوں بلکہ خوردہ گیریوں کی بوچھار کی۔ کتنے جواب اور جواب الجواب لکھے گئے۔۔۔ ناصرالدین شاہ قاچار کے عہد میں رضاقلی خاں ہدایتؔ (صاحبِ تذکرۂ مجمع الفصحا) نے یہ کوشش کی کہ ٹکسالی فارسی کا ایک لغت ترتیب دے۔ اسی کوشش کا نتیجہ ہے فرہنگِ انجمن آراے ناصری۔ کتاب کے طویل مقدمے میں مصنف نے اپنے پیشرولغت نویسوں کی غلطیاں چُن چُن کر گنائی ہیں اور فرہنگ کے متن میں بھی جابجا اَوروں کی لغزشوں کا ذکر کیا ہے۔ رضاقلی خاں کی کتاب اس لحاظ سے زیادہ مستند خیال کی جاتی ہے کہ اس کے پیشِ نظر متقدمین، متوسّطین اور متاخّرین کی تصنیفوں کا بیش قرار ذخیرہ تھا اور اس نے ایران میں بیٹھ کر فارسی کا لغت لکھا جو اس کی زندگی ہی میں چھپ بھی گیا۔</p> </blockquote> <p>جس زمانے میں ڈاکٹر سید عبداللہ نوادرالالفاظ (آرزوؔ) کی تدوین کر رہے تھے، ڈاکٹر صدیقی نے جس اخلاص اور جانکاہی سے سید صاحب کی رہنمائی کی اس کی تفصیل خود سید عبداللہ نے نوادرالمکاتیب کی تمہید میں فراہم کر دی ہے۔ نوادرالالفاظ کے متنازع فیہ الفاظ کی ترتیب دادہ فہرست کے اُن الفاظ کے تلفظ اور ان کے متروک اور مروّج معانی کی صدیقی صاحب نے غیر معمولی تحقیق کی اور اس ضمن میں متعدد پیشہ وروں سے مل کر ان الفاظ کی گرہیں کھولیں۔ نوادرالالفاظ کے مقدمے میں سید عبداللہ کے اس اعتراف میں کوئی مبالغہ نہیں سمجھنا چاہیے جب انھوں نے لکھا کہ عبدالستار صدیقی (اور عرشی) کی مراسلتیں اگر شائع کر دی جائیں تو اہلِ علم کے لیے یہ مراسلتیں بجاے خود غرائب اللغات اور نوادرالالفاظ بن جائیں۔ بعدازاں جب سید صاحب نے نوادرالمکاتیب کے زیر عنوان ان خطوں کا ایک حصہ اردو نامہ، کراچی میں شائع کر دیا تو واقعی ان کے مذکورہ قول کی تصدیق ہو گئی۔ صرف چند ایسے مقامات ملاحظہ فرمائیے:</p> <blockquote> <list> <li>کباب کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ بڑی قسمیں دو ہیں۔ ایک وہ جو سیخ پر بھونے جاتے ہیں یعنی قیمے کو مہین پیس کر اور نمک اور مسالہ لگا کر سیخ پر لپیٹ دیتے ہیں اور پھر سیخ کو آگ دکھاتے جاتے ہیں اور پھریری سے تھوڑا تھوڑا گھی چپڑتے جاتے ہیں۔ دوسرے وہ جو کڑھائی میں ڈال کر تلے جاتے ہیں یعنی شامی کباب، شکم پر کباب وغیرہ۔ اس دوسری قسم کے کباب کو الٹنے کے لیے ایک آلہ استعمال ہوتا ہے جس کی شکل ارّے کی سی ہوتی ہے۔ فرق صرف یہ کہ ڈنڈی چھوٹی ہوتی ہے۔ شکل کی مناسبت سے قرینِ قیاس ہے کہ اسے بھی اس زمانے میں ارّا کہتے ہوں (اور فارسی کتابت کے اثر سے ”ارّہ“ لکھتے ہوں)۔</li> <li>میں نے لکھنؤ سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہاں کے نانبائی تنور میں سے روٹی نکالنے کے دونوں آلوں کو جو ایک ساتھ استعمال ہوتے ہیں ”جوڑی“ کہتے ہیں۔ وہ سیخ جس کا ایک سرا چپٹا (کھرپی کی شکل کا) ہوتا ہے ”ارّا“ کہلاتی ہے اور دوسری سیخ جس (کی) نوک مڑی ہوئی ہوتی ہے ”طوطا“ (یعنی توتا) کے نام سے پکاری جاتی ہے۔ یہ تو نانبائیوں کی اصطلاحیں ہوئیں۔ بسکٹ بنانے والوں سے دریافت کیا گیا۔ میرا پرچہ نویس لکھتا ہے کہ بسکٹ والوں کے ہاں ایک آلہ ہے جسے ”ارا“ (بلاتشدید) کہتے ہیں مگر اس آلے سے جلانے کی لکڑی تنور میں ڈالتے ہیں۔ ظاہر ہے بسکٹ پکانے والوں کی اصطلاحیں مستحدث ہوںگی۔ اصل وہی نانبائیوں کی اصطلاحیں ہیں۔</li> <li> ”پٹا دینا“۔ اس زمانے میں ”پٹی دینا“ ورغلانے یا دھوکا دینے کے لیے بولا جاتا ہے۔ اگلے زمانے میں ”پٹّا“ ہوگا۔ لفظ وہی ہے۔ ”پٹی پڑھانا“ بھی بولتے ہیں۔</li> <li> ”پھرت“، وہ چیز جو پھردی جائے۔ زرِ ناسرہ بھی صرّاف پھیر دیتا ہے، قبول نہیں کرتا۔ </li> <li> ”پتا دیولی“، اسی طرح لکھا ہے۔ اس کے دو مرادف (فارسی) لکھے ہیں ایک پِرِستُوک (اور پِرِ ستُواور پِرِ ستُک) دوسرا بادخورک۔ اصل عبارت یہاں نقل کرتاہوں: ”پتادیولی مرغکِ سیاہ کہ پیوستہ درپرواز باشد و آنرا پاپیل (کذا) نیز گویند بادخورک ببائِ موحدہ و پرستوک و پرستووپرستک ہرسہ ببای فارسی و سینِ مہملہ و(ضمِ) فوقانی“ ”پاپیل“ ظاہرا ”ابابیل“ کی تصحیف ہے۔ عربی لفظ ابابیل کو ہندستانیوں نے غلط طور پر ایک خاص پرندہ سمجھا اور اردو میں پرستوک (=وطواط = <annotation lang="en">Swallow</annotation>) کو ابابیل کہنے لگے۔ بادخورک وہ سیاہ پرندہ ہے جو ہوا میں رہتا ہے اور ہوا ہی اس کی خورش ہے۔ فارسی فرہنگ نویسوں نے اکثر پرستوک اور بادخورک کو ایک جانا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بادخورک ایک افسانوی پرندہ ہے اور اسی لیے بعضے فرہنگ نگاروں نے اسے ’ہما‘ کا مرادف قرار دیا ہے۔ </li> </list> </blockquote> <p>اوپر کے اقتباسات سے بہ آسانی اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صدیقی لفظ و لغت کے کھوج میں کتنا لمبا سفر کرنے کے قائل تھے۔ ”پتادیولی“ کی تشریح میں وہ فارسی فرہنگوں سے استشہاد کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ کم و بیش سارے ہی فارسی فرہنگ نویس پرستوک / پرستو اور بادخورک /بادخور کو ایک جانتے ہیں تاہم یہ معلوم نہیں ہو پایا کہ کون سے فرہنگ نگاروں نے بادخورک کو ’ہما‘ کا مرادف قرار دیا ہے۔ برہانِ قاطع، غیاث اللغات، فرہنگِ معین اور لغت نامۂ دھخدا، سے لے کر فرہنگِ عمید اور تازہ ترین قابلِ قدر فرہنگ یعنی فرہنگ بزرگِ سخن (دکتر حسن انوری) تک دیکھ جائیے پرستو/پرستوک/ بادخورک کے حوالے سے متعدد حیران کن تفصیلات ملیں گی مگر کہیں یہ نظر نہ آئے گا کہ بادخورک ’ھما‘ کے مترادف ہے۔ لغت نامۂ دھخدا تو دراصل تمام اہم لغات کا جامع ہے مگر اس میں بھی مذکورہ حوالہ نہ مل پایا۔ علاوہ ازیں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ پرستو/پرستوک میں ’پ‘ اور ’ر‘ کو لغت نویسوں نے کسرہ اور فتحہ دونوں سے لکھا ہے۔ بے محل نہ ہوگا اگر چند اہم فرہنگوں سے مذکورہ الفاظ کے معانی درج کر دیے جائیں:</p> <blockquote> <list> <li>ادخورک: مرغکی است سیاہ و کوچک واو پیوسہ در پروازمی باشد، گویند غذای او باداست و اگر در جای نشیند دیگر نتواند برخاست و بعضی گویند ابابیل ھمان است“۔ برہانِ قاطع، ص۱۴۴۔</li> <li>پرستو: بکسرِ اول و ثانی و سکون ثالث و ضمِ فوقانی و واوِ ساکن۔ بمعنی پرستک است کہ خطّاف باشد و بعضی گویند پرستو و طواط است کہ آن خطافِ کوھی باشد“ __ برہانِ قاطع، ص۲۴۸۔</li> </list> </blockquote> <p>اسی لغت میں پرستو کے بعد پرستوک کے تحت اوپر کے معانی درج کرنے کے بعد اس پرندے کے بارے میں کچھ محیرّالعقول باتیں لکھی ہیں جنھیں اُسطور کا درجہ دیا جاسکتا ہے مثلاً لکھا ہے کہ جب چاند بڑھ رہا ہو اور پرستو کے پہلے بچے کو پکڑ کر اس کا پیٹ چاک کریں تو اس میں سے دو سنگریزے نکلیں گے۔ ایک تو یک رنگ اور دوسرا رنگا رنگ۔ جب اسے (یا انھیں) بچھڑے یا پہاڑی بکرے کی کھال میں لپیٹ کر (اس پر گرد و غبار پڑنے سے پہلے) کسی مصروع (مرگی کے دورے میں مبتلا) کے بازو پر باندھ دیں یا اس کی گردن میں حمائل کر دیں تو مرگی کا مرض جاتا رہے گا اور کہتے ہیں کہ اگر دو ابابیلیں (پرستوک) ایک نر ایک مادہ پکڑ کر ان کے سر آگ میں جلا کر شراب میں ڈال دیں تو جو بھی وہ شراب پیے گا ہرگز مست نہ ہوگا اور اگر اس کا خون عورتوں کی خوراک میں شامل کر کے انھیں کھلا دیا جائے تو ان کی شہوت جاتی رہے گی۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ ص۲۴۸</p> <blockquote> <list> <li> پرستُو /پِرِسۡتُگ: طائر یست کوچک و سیاہ کہ در سقف و عمارات پختہ (؟) از پرھا آشیانہ سازد و باسمِ ابابیل شھرت دارد“ غیاث اللغات، ص۱۶۸ (بحوالۂ برہان و جہانگیری)</li> <li>باد خورک کی وضاحت میں لغت نامہ دھخدا میں لکھا ہے کہ اس کا ایک نام زازال بھی ہے (بحوالۂ ناظم الاطبا، ص۲۲۴)۔ ایک مترادف بادخوار بھی دیا ہے اور دوسرا پرستو۔ پرستو کی وضاحت میں دھخدا میں وہ طویل عبارت لفظاً لفظاً درج کر دی گئی ہے جو برہان میں ہے اور پھر جہانگیری سے دو شعر بھی نقل کیے ہیں جن میں دوسرے کا مفہوم برہان نے بھی بیان کیا ہے۔ شعر یہ ہیں: <blockquote> <verse> از پرستوک اگر خوری لحمش دیدہ را روشنی کند (شود؟) حاصل خون اورا، چوزن بیاشامد شہوتِ زن ہمہ کند زایل </verse> </blockquote> ص۲۱۴۔</li> <li>رستو: فرہنگِ معین میں اس کے کئی قدیم مترادف بھی دیے ہیں یعنی پرستوک، پرستک، فرستک، فراستوک، فراشتوک فراشتر، فراشتروک۔ ان کے علاوہ دیگر مترادفات میں چلچلہ، زازال، ابابیل، بلوایہ، پیلوایہ اور خطاف بھی گنوائے گئے ہیں، جلد اول، ص۷۴۱۔ واضح رہے کہ فرہنگ معین میں بادخورک کو پرستو کے مرادف یا مترادف قرار نہیں دیا گیا۔</li> <li>فرہنگِ عمید میں پرستو کے کچھ اور مترادفات مثلاً فرشتوک، بلسک، بالوایہ، بالوانہ، پالوانہ، پیلوانہ، دالیوز اور باسیچ بھی دیے گئے ہیں ___ فرہنگ عمید جلد اول، ص۴۵۱۔</li> </list> </blockquote> <p>اس قدر تفصیل میں جانے اور قارئین کی ”چشم خراشی“ پر معذرت!</p> <p>لفظ و فرہنگ سے ڈاکٹر صدیقی کی وسیع دلچسپی کے ذیل میں دو اقتباسات مزید ملاحظہ فرمائیے:</p> <blockquote> <list> <li> ابھی تک اتنی فرصت نہیں ملی کہ انشا کی ترکی کی گتھیاںسلجھانے کی کوشش کروں۔ وہ جو ملّاحوں کی بولی کی نقل اتاری ہے وہ بنگال کے ملاحوں کی نقل ہے۔ بنگالی زبان کی بہت ہی عام چیز یہ ہے کہ آپ کا ہر فتحہ ان کے ہاں ضمّہ ہو جاتا ہے اور اکثر کسی قدر اِشباع کے ساتھ اور کبھی پورا و ہو کر ان کی زبان سے نکلتا ہے جیسے گھر کو گھور اور گنگا کو گونگا کہتے ہیں۔ انشا پیدا ہی بنگال میں ہوئے تھے۔ ملاحی کا پیشہ کرنے والے بنگال میں مسلمان ہی ہیں اس لیے یہ بہت قرینِ قیاس ہے کہ بنگال کے ملاح مراد ہیں۔</li> <li>کھانے سب تو نہیں جو سامنے تھے ہو چکے۔ ایک لذیذ چیز رہ گئی۔ اودھ کے قصبوں میں ”جھجلے“ پکتے ہیں اور اودھ ہی میں کہیں کہیں ان کو ”شیرازے“ بھی کہتے ہیں۔ عربی میں پانی نچوڑے ہوئے دہی یا پنیر کو ”شیراز“ کہتے ہیں اور جمع دو طرح پر آتی ہے ”شراریز“ اور ”شواریز“۔ برہانِ قاطع میں لکھا ہے کہ بعضوں نے اس لفظ کو عربی بتایا ہے۔ عربی لغت کی کتابوں میں اسے فارسی بتایا ہے اور یہی صحیح ہے۔ فارسی میں علاوہ پنیر کے بعض مٹھائیوں، مربّے اور اچار کو بھی کہتے ہیں۔ ”جھجلے“ بھی میٹھی چیز ہے۔ معلوم نہیں ایران کی کس خاص مٹھائی کی مشابہت سے ”شیرازے“ نام پڑا۔</li> </list> </blockquote> <p>”جھجلے“ کی کچھ اور دلچسپ تفصیل صدیقی صاحب نے اپنے بہت معلومات افزا مضمون ”کچھ بکھرے ہوئے ورق“ مشمولہ ہندستانی میں بھی دی ہے۔ یہ تفصیل لطیف احمد عثمانی بلگرامی کی مختصر سوانح کے ذیل میں دی گئی ہے جو غالب سے اپنے کلام پر اصلاح لیتے تھے۔ صدیقی لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>ایک روایت یہ بھی مشہور ہے کہ لطیف ایک بار اپنے استاد( غالبؔ) سے ملنے دلی گئے تو ان کے لیے بلگرام سے ”جھجلے“ پکوا کر ساتھ لے گئے۔ غالبؔ کو یہ مزیدار چیز ایسی پسند آئی کہ سولہ سترہ شعر اس کی تعریف میں کہہ ڈالے جن میں سے صرف ایک ہی اب لوگوں کو یاد رہ گیا ہے: خوشا لذتِ جھجلۂ بلگرام۔ کہ شبنم از و تازگی کردوام</p> </blockquote> <p>گمان ہے کہ ”جھجلے“ کی لذت کے اسیر غالبؔ ہی نہیں صدیقی صاحب بھی تھے۔ تبھی تو مذکورہ اقتباس کے حاشیے میں اس کے اجزائے ترکیبی اور اس کے بنانے کا طریقہ تک بیان کر دیا:</p> <blockquote> <p>یہ لذیذ پکوان اودھ کے اکثر قصبات میں عام ہے۔ ماش کی دال کو سِل پر پیستے اور چھان پھینٹ کر اس کے چھوٹے چھوٹے گلگلے بناتے ہیں اور انھیں گھی میں تل کے قوام یا دودھ میں ڈال دیتے ہیں۔ بعض مقامات پر ان کو ”شیرازے“ اور کہیں ”نازکیاں“ بھی کہتے ہیں۔</p> <p>(حاشیہ ہندستانی، ص۴۸۲)</p> </blockquote> <p>کیا معلوم کہ جب میرؔ نے ذیل کا شعر کہا ہوگا تو اس میں ”نازکی“ کے لفظ میں شیرینی لب کے ساتھ ساتھ ”شیرازے“ کی شیرینی اور لذت بخشی کا ایہام بھی رکھا ہو (آخر عمر کا طویل حصہ اُنھوں نے اودھ ہی میں بسر کیا تھا):</p> <blockquote> <verse> ناز کی اس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے </verse> </blockquote> <p>قابلِ مبارک باد ہیں ڈاکٹر صدیقی جیسے زبان شناس جنھوں نے اردو کے کتنے ہی گم شدہ خوابیدہ الفاظ کو قم باذن اللہ کہہ کر جگایا اور ہماری تہذیبی توسیع کا سروسامان کیا! کیا ہم ’مشکل خواں‘، ’چاشنی گیر‘ (نمونہ گیر) ’سود اور‘ (سوداگر)، ٹاٹ بافی، ’میدہ سالار‘، ’مائدہ سالار‘ (چاشنی گیر)، ’جھجلے‘ اور ’شیرازے‘ ایسے غیر معمولی الفاظ کو بھول نہیں گئے تھے؟</p> <p>املا اور صحتِ املا کے باب میں بھی ڈاکٹر صدیقی کی کاوشیں قابل داد ہیں۔ صحتِ املا کے ضمن میں وہ ان اصحاب میں سے ہیں جن پر سابقون الاوّلون کی ترکیب کا اطلاق ہوتا ہے۔ وہ اس خیال کے زبردست علمبردار تھے کہ اردو املا کی معیار بندی ضروری ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ہر معاشرے میں بڑا گروہ مقلدوں اور عادت کے بندوں کا ہوتا ہے اور تدارک یا اصلاح کی ذمہ داری اہلِ تحقیق پر عائد ہوتی ہے۔ وہ اس خیال کے مؤیّد تھے کہ اہلِ تحقیق املا کے لیے قواعد سازی کریں۔ اس ضمن میں انھوں نے جو نہایت اہم تجاویز پیش کیں وہ ان کے ایک قابلِ قدر مقالے ”اردو املا“ اور بعض دیگر تحریروں میں موجود ہیں۔ انھوں نے بجا طور پر اس امر پر اصرار کیا کہ ہندی لفظ ہو تو اسے ہ کے بجائے الف پر ختم ہونا چاہیے سواے مقاموں کے ناموں کے مثلاً پٹنہ، آگرہ وغیرہ۔ اسی طرح ان لفظوں کے آخر میں بھی الف لکھا جانا چاہیے جو ایک اردو اور ایک فارسی یا عربی جُز سے بنے ہوں جیسے تماہا، پچرنگا، وغیرہ۔ وہ اسم جو اِفتِعال یا استفعال کے وزن پر مصدر ہیں اور ان کے آخر میں الف کے بعد ہمزہ ہے، یہ فارسی اور اردو میں گر جاتا ہے اور ایسے لفظوں کو مندرجہ ذیل صورت میں لکھا جانا چاہیے: ابتدا، ارتقا، اِقتدا، اِسۡتِقرا، استقصا وغیرہ۔</p> <p>صحت املا کے ضمن میں ڈاکٹر صدیقی کی ایک اور اہم تجویز یہ تھی کہ مختفی ہ پر ختم ہونے والے مذکر اسم جب واحد محرف حالت میںہوں تب بھی ان کا تلفظ وہی ہوتا ہے جو جمع قائم کی حالت میں ہوتا ہے ایسی صورت میں ”میں مدرسہ جاتا ہوں“، ”شیر کے پنجہ میں بڑی طاقت ہوتی ہے“ کے بجاے یوں لکھنا قرین صحت ہوگا: ”میں مدرسے جاتا ہوں“، شیر کے پنجے میں بڑی طاقت ہوتی ہے“ وغیرہ۔</p> <p>ہمزے کے سلسلے میں صدیقی صاحب کا موقف یہ تھا اور بالکل درست تھا کہ اردو میں ہمزہ الف کا قائم مقام ہے لہٰذا جب دو حروفِ علت اپنی الگ الگ آواز دیں تو ان کے درمیان ہمزہ آتا ہے جیسے آئو، جائو، گائ و، مگر بھاو تاو، کھاو، کڑھاو میں ہمزہ غیر ضروری ہے۔ اسی طرح لیے، دیے، کیے میں بھی ہمزہ غیر ضروری ہے۔ صدیقی صاحب تمام عمر اپنی تحریروں میں الگ الگ آواز دینے والے دو حروفِ علت کے درمیان ہمزہ لکھتے رہے جیسے تم آئ و تو آم لیتے آئ و، وغیرہ مگر اردو دنیا نے ان کے اس صحیح موقف کو قابل قبول نہ سمجھا اور ہمزے کو ہمیشہ و کے اوپر علامت کے طور پر استعمال کیا یعنی تم آؤ تو آم لیتے آؤ۔ جب جاؤ مجھے بتا کر جاؤ وغیرہ۔</p> <p>ہمزے ہی کے ضمن میں ان کا یہ قول بھی صحیح تھا کہ ایرانیوں کے یہاں ہمزہ بہت کم استعمال ہوتا ہے اور وہ معمولاً ہمزے کی جگہ ی استعمال کرتے ہیں۔ چونکہ اردو زبان میں ہمزے کا چلن بہت ہے لہٰذا ایرانیوں کی پیروی کے بجاے عربی لفظوں کو جواردو میں مستعمل ہوتے ہیں، ہمزے سے لکھنا چاہیے جیسے تائب، قائل، سائل، حقائق، خائن، شائع وغیرہ۔ ان کا یہ کہنا بھی اپنے اندر بڑا وزن اور صداقت رکھتا تھا کہ راے، جاے، خداے وغیرہ پر ہمزہ نہیں آنا چاہیے۔ علاوہ ازیں جب کسی لفظ کے آخر میں ہاے مختفی آئے اور وہ لفظ کسی دوسرے لفظ سے مل کر مرکب بنا رہا ہو تو ہاے مختفی پر ہمزہ لانا چاہیے نہ کہ کسرہ جیسے مثلاً درجۂ عالی، تودۂ خاک وغیرہ۔</p> <p>رشید حسن خاں نے اپنی کتاب اُردو املا میں جابجا عبدالستار صدیقی کی لسانی بالغ نظری اور اُردو املا کے باب میں ان کے مجتہدانہ مگر متوازن نقطۂ نظر کی توصیف کی ہے۔ ان کی اُردو املا پر جگہ جگہ صدیقی صاحب کا فیضان کارفرما نظر آتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے اس کتاب کا انتساب بھی صدیقی صاحب ہی کے نام کیا۔ اُنھوں نے اس کتاب میں کئی مقامات پر عبدالستار صدیقی کی اُردو املا کی معیار بندی کے سلسلے کی خدمات کا کھل کر اعتراف کیا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>اس زمانے میں ڈاکٹر عبدالستار صدیقی مرحوم واحد شخص تھے جنھوں نے اس موضوع کا مستقل موضوع کی حیثیت سے مطالعہ کیا اور بار بار لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کرائی۔ رسالہ ہندستانی، رسالہ اردو، رسالہ معیار میں ان کے نہایت اہم مضامین محفوظ ہیں۔ ان کے علاوہ مختلف کتابوں کے تبصروں اور مقدموں میں بھی وہ ان مسائل کا بار بار ذکرکرتے رہے۔ ان میں مقدمۂ کلیاتِ ولیؔ، مقدمۂ خطوطِ غالبؔ (مرتّبہ منشی مہیش پرشاد) تبصرۂ مکاتیبِ غالبؔ (مرتّبہ عرشی۔۔۔) خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے خطوں میں انھوں نے املا کے مسائل و اغلاط کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا۲۷۔۔۔ انجمن ترقیِ اُردو نے اصلاح املا کی تجاویز کو جس انداز سے مرتب کیا تھا۔۔۔ اور جس طرح اس موضوع کو اہمیت دی تھی، اس میں ڈاکٹر صاحب مرحوم کی کاوشوں کو بہت زیادہ دخل تھا۔</p> </blockquote> <p>یہ وہ زمانہ تھا جب اردو املا کے سلسلے میں بعض نہایت مضحکہ خیز تجاویز (مثلاً یہ کہ اردو میں ایک آواز کے لیے ایک ہی حرف ہونا چاہیے، س، ث، ص ان تین حرفوں میں سے س کو باقی رکھا جائے وغیرہ وغیرہ) انقلابی تجاویز کے طور پر سامنے لائی جارہی تھیں۔ رشید حسن خاں اعتراف کرتے ہیں ایک زمانے میں وہ خود ان تجاویز کے پھیر میں آچکے تھے مگر ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کی ”فہمائش اور تعلیم نے اُس ’جہادِ کم نظری‘ کے پیچ و خم سے نجات دلائی“ (اردو ملا، ص۲۹)۔ خان صاحب نے صدیقی صاحب کو املا کے موضوع پر ”استادِ کل“ قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو املا کے سلسلے میں ڈاکٹر عبدالستار صدیقی اور ان سے کچھ پہلے احسنؔ مارہروی کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہ البتہ اُردُو دنیا کی بدقسمتی ہے کہ املا کے سلسلے میں وہ اب تک دوعملی کا شکار ہے۔</p> <p>یہ بات معلوم ہے کہ ڈاکٹر صدیقی بنیادی طور پر عربی زبان و ادب کے آدمی تھے۔ عربی زبان و لسانیات سے انسلاک کے باوجود وہ اردو زبان و ادب سے بھی اٹوٹ وابستگی رکھتے تھے اور اردو زبان کے الگ اور منفرد تشخص کے نہ صرف قائل تھے بلکہ اس پر اصرار بھی کرتے تھے۔ اس ضمن میں منجملہ اور موارد کے وحید الدین سلیم کی وضعِ اصطلاحات پر ان کا نہایت مفصل ریویو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے جس میں وہ اردو کو ترقی دینے کے لیے جو تجاویز دیتے ہیں ان میں کتابوں کے ناموں، بابوں اور فصلوں کے عنوانوں کے لیے اردو تراکیب کے استعمال کی ترغیب دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کتاب کے ابواب کی گنتی بابِ دوم بابِ سوم وغیرہ کے بجائے دوسرا باب تیسرا باب کی صورت میں ہونی چاہیے تاکہ اُردو کے اُردو پن کو نہ صرف برقرار رکھا جا سکے بلکہ اسے تسلسل دیا جا سکے۔ ”بعض پرانے لفظوں کی نئی تحقیق“ کے زیرعنوان اپنے معروف مضمون کے آخر میں زیرِسطح وہ ان حضرات سے ناخوش نظر آتے ہیں جو نہ صرف یہ کہ اُردو الفاظ و تراکیب استعمال نہیں کرتے بلکہ ایسے الفاظ و محاورات کی تعریب بھی کرڈالتے ہیں۔ لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>بنگال کے بعض مسلمان بزرگوں کو میں نے ’غول مال‘ بولتے سنا ہے۔ گول مال کی شاید تعریب فرمائی ہے۔ دور کیوں جائیے خود ہمارے ہاں ایسے لوگ ابھی موجود ہیں جو ’بیگم‘ کو ’بیغم‘ اور ’کاغذ‘ کو ’قاغذ‘ بولتے ہیں۔</p> </blockquote> <p>اُردو کے اردو پن پر اسی اصرار کے باعث وہ مکتوب الیہم کو ”مکتوب الیہوں“ (”مکتوب الیہوں کے حالات جمع کر کے شائع کیے جائیں“۔ تحقیق شمارہ ۱۲،۱۳: ص۳۳۷) لکھتے ہیں اور فارسی اور عربی کے ان لفظوں کو جو سہ حرفی ہیں اور درمیان کے حرف کے سکون کے ساتھ ہیں مثلاً فِکۡر، شَمۡع، تحۡت، شہر وغیرہ، ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ لفظ بچلے حرف کی حرکت کے ساتھ فصیحوں کی زبان پر جاری ہیں اور یہی صحیح ہیں۔ یوں کہہ کر وہ ولی کے اس طرح کے تلفظ کردہ لفظوں کا دفاع کرتے ہیں اور اس ضمن میں ناصرؔ علی سرہندی کا ایک مصرع بطور حوالہ درج فرماتے ہیں:</p> <blockquote> <verse> بتِ فرنگی بہ قتلِ ہمنا رکھے جو پُر چیں جبیں دمادم </verse> </blockquote> <p>اور عربی لفظ کی ہندی لفظ سے ترکیب دینے پر مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ میرے نزدیک یہاں دو امور کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ زبان کے تشکیلی دور کے شعرا، آج جب اردو زبان بہت منجھ چکی ہے، ہمارے لیے سند نہیں بن سکتے۔ دوسرے یہ کہ سہ حرفی لفظوں مثلاً عقل، شہر، تحت وغیرہ کا درمیانی حرف کی حرکت کے ساتھ فصحا کی زبانوں پرجاری ہونے کا دعویٰ بھی محل نظر ہے اور اگر ایساہے بھی تو یہ اس امر کی دلیل نہیں کہ ان الفاظ کو حرکت کے ساتھ ہی قبول کر لیا جائے۔ تقریر کی زبان اور تحریر کی زبان میں یوں بھی فرق ہوتا ہے اور ہمیشہ رہا ہے۔ اگر ولیؔ دکنی، ناصرؔ علی سرہندی یا تشکیلی دور کے دیگر شعرا کے نظائر ہمارے لیے سند ہو سکتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ممتاز لغت نگاروں (مثلاً سید احمد دہلوی، نورالحسن نیّر کاکوروی یا صاحبِ فرہنگِ شفق) نے انھیں بطور مثبت امثال و نظائر کے برتا ہے؟ میرے خیال میں اس کا جواب نفی میں ہے۔ اگر برتا بھی ہو تو یہ لکھ دینے کا اہتمام ضرور موجود ہے کہ اب یہ لفظ یا ترکیب متروک ہے یا قوسین میں وضاحت موجود ہے کہ غلط العوام ہے جیسا مثلاً فوق البھڑک وغیرہ۔</p> <p>ڈاکٹر صدیقی کو اردو زبان اور اس کے لسانی مسائل و معاملات کے ساتھ ساتھ اس کے ادبیات سے جو غیرمعمولی ربط و تعلق تھا، امتیاز علی عرشی کے نام ان کے بعض مکاتیب اس پر شاہد ہیں مثلاً ایک خط میں خواجہ احسن اللہ دہلوی بیانؔ (یا بہ روایت دیگر خواجہ احسن الدین خان بیانؔ)کے مختصر دیوان کا ذکر کرتے ہیں جس میں شامل دو مثنویاں ”چپک نامہ“ اور ”تعریف چاہِ مومن خاں“ کلیاتِ سوداؔ کے نولکشوری ایڈیشن میں بھی الحاقی طور پر شامل ہیں۔ صدیقی صاحب کے پاس مذکورہ دیوان کا وہ نسخہ تھا جو خود شاعر کا اصلاح کردہ تھا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ نسخہ کس قدر اہم تھا۔ افسوس صدیقی صاحب اس کی تدوین نہ کر سکے۔</p> <p>اردو ادب ہی کے ایک زندہ اسم اسد اللہ خاں غالبؔ سے بھی صدیقی صاحب کو گہرا لگاؤ تھا۔ انھوں نے غالب کی بعض نایاب تحریریں اپنے مقالے ”کچھ بکھرے ہوئے ورق“ میں شائع کی تھیں۔ اس مقالے میں منجملہ اور تحریروں کے غالب کے بعض اہم خط اور فسانۂ عجائب پر ان کی تقریظ شامل تھی۔ صدیقی صاحب نے ان تحریروں پر بہت عمدہ حواشی بھی لکھے تھے۔ انھوں نے خطوطِ غالبؔ مرتّبہ مہیش پرشاد کی جلد اول پر نظر ثانی بھی کی تھی اور اس پر مقدمہ بھی لکھا تھا۔ علاوہ ازیںانشاے غالبؔ پر اُن کے مفصل اور مفید حواشی ”کچھ اور بکھرے ورق“، ”غالبؔ کے خطوں کے لفافے“ مکاتیبِ غالبؔ (مرتبہ امتیاز علی عرشی) پر مفصل تجزیاتی مقالہ، ”دہلی سوسائٹی اور مرزا غالبؔ“ ___ یہ سب غالبیات میں نادر اضافوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور غالب کی شخصیت و فکر کے تہہ رس مطالعات کی برہان مہیا کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں اپنے کچھ مکاتیب میں بھی صدیقی صاحب نے غالب کے بعض لسانی معتقدات کے باب میں اپنا زاویۂ نگاہ بڑی صراحت سے بہ دلائل بیان کیا ہے۔ غالبؔ پر ان تحریروں کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ صدیقی صاحب نے اُن کے باب میں کیسے کیسے اہم جزئیوں کو اِن تحریروں میں محفوظ کر لیا ہے مثلاً ”کچھ اور بکھرے ورق“ میں غالب کے ایسے مکاتیب شائع کیے گئے جو اب تک غیر مطبوعہ تھے۔ ان مکاتیب کے اصل متن خود غالبؔ کے اتھ کے لکھے ہوئے تھے جو صدیقی صاحب کے ہاتھ آئے۔ ”غالبؔ کے خطوں کے لفافے“ بظاہر ایک غیر اہم موضوع ہے لیکن اس سے بھی صدیقی صاحب نے کتنے اہم نکتے نکالے ہیں مثلاً یہی کہ ان لفافوں کو دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ غالبؔ نے جس طرح اپنی مکتوباتی تحریروں میں زوائد کو ترک کر دیا تھا، لفافوں پر پتے کی عبارت میں بھی رفتہ رفتہ اختصار پیدا کر لیا تھا۔ پھر اپنے زمانے کے عام دستور کے خلاف غالبؔ بعض اوقات بجاے فارسی کے اردو میں پتے لکھا کرتے تھے وغیرہ۔ مکاتیبِ غالبؔ پر صدیقی صاحب کا مفصل ریویو پڑھنے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے معاصرین کی تحریروں کو بھی کیسی عمیق تنقیدی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کے محاسن کے دوش بدوش ان کی خامیوں اور کوتاہیوں سے بھی صرفِ نظر نہیں کرتے تھے۔ یہ مفصل تبصرہ بتاتا ہے کہ معیاری تدوین کے تقاضے کیا ہوتے ہیں، املا میں کن اصولوں کی پاسداری کرنی چاہیے، واقعاتی غلطیوں سے کیسے بچا جاسکتا ہے، حواشی کی طوالت کتنی ہونی چاہیے، بعض خاص اسما (معرفہ) کے سابقے کے سلسلے میں کیا احتیاط ملحوظ رکھنی چاہیے۔ صدیقی صاحب نے اپنے بڑے دلچسپ اور نہایت معلومات افزا مضمون ”دہلی سوسائٹی اور مرزا غالبؔ“ میں بتایا ہے کہ اُنیسویں صدی کے دوسرے نصف میں سانحۂ ستاون کے چند برس بعد جو بہت سی علمی انجمنیں وجود میں آئی تھیں ان میں ایک دہلی سوسائٹی بھی تھی۔ اس کے بارے میں معلومات کا واحد ماخذگار سیں دتاسی کی تحریریں تھیں مگر ان میں سوسائٹی کے بارے میں معلومات بیشتر تشنہ اور کہیں کہیں غلط تھیں۔ خوش قسمتی سے پنڈت کیفی کے توسط سے صدیقی صاحب کو سوسائٹی کے شائع کردہ چار شمارے دیکھنے کو مل گئے جن میں سوسائٹی کی سرگرمیوں کی تفصیلات اور بعض تحریریں چھپی تھیں جو اس سوسائٹی میں پڑھی گئی تھیں۔ سوسائٹی کی بنیاد اس زمانے کے دلی کے کمشنر کرنل ہملٹن کی تحریک سے پڑی اور اس کے ارکان میں ایک غالبؔ بھی تھے۔ انھوں نے سوسائٹی کے ایک جلسے منعقدہ ۱۱ اگست ۱۸۶۵ئ میں ایک مضمون پڑھا تھا جو سوسائٹی کے پہلے شمارے میں شائع ہوا۔ صدیقی صاحب نے اس کا متن رسالے سے نقل کر کے اپنے مقالے میں شائع کیا۔ اس مضمون کے علاوہ غالب سے متعلق کئی اہم معلومات اس مقالے میں یکجا کر دی گئی ہیں جو حیاتِ غالبؔ کے ضمن میں بنیادی مآخذ کا درجہ رکھتی ہیں۔</p> <p>مطالعاتِ غالبؔ کے ضمن میں ایک مبحث ’ز‘ اور ’ذ‘ کا بھی ہے۔ مراد یہ ہے کہ آیاگذشتن، پذیرفتن کو ’ذ‘ سے لکھنا چاہیے یا ’ز‘ سے۔ اس بحث کا آغاز غالبؔ کے اس مؤقف سے ہوا کہ فارسی زبان میں ذالِ معجمہ نہیں دادمہملہ ہے۔ صدیقی صاحب نے ”ذال معجمہ فارسی میں“ کے عنوان سے غالبؔ کے مؤقف کے برخلاف کثیر و قوی دلائل سے ثابت کیا کہ فارسی میں ذال معجمہ موجود رہی ہے۔ صدیقی صاحب غالبؔ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ موصوف کہتے تھے کہ ”ذ“ کا فارسی نہ ہونا ان کا اپنا نہیں ان کے نام نہاد آموز گار ”ہرمزد پارسی نژاد“ کا قول ہے جبکہ قصہ یہ ہے کہ غالبؔ کے اصل مآخذ فرہنگِ جہانگیری و رشیدی ہیں (مقالاتِ صدیقی، ص۸۸)۔ یہی بات صدیقی صاحب نے عرشی کے نام ایک مکتوب میں بھی لکھی: ”غالبؔ علیہ رحمہ نے یہ خیال رشید ٹھٹھوی سے اخذ کیا ہے کہ ذال معجمہ فارسی میں نہیں ہے لیکن خان آرزوؔ نے ٹھٹھوی کے اس خیال پر اعتراض کیا ہے“ (نقوش بحوالۂ سابقہ:ص۷۱)۔ فارسی ادبیات و لسانیات کے نامور عالم ڈاکٹر نذیر احمد کو بھی صدیقی صاحب کے موقف سے کامل اتفاق تھا۔ نقدِ قاطعِ برہان میں لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>غالبؔ ذال فارسی کے منکر تھے حال آں کہ اس کے وجود سے انکار گویا بدیہیات سے انکار کے مترادف ہے۔ متعدد فاضلوں نے اس ضمن میں تفصیل سے مضامین لکھے ہیں۔ ہندوستان کے دو اہم دانش مندوں نے بھی اس موضوع پر مفصل گفتگو کی ہے۔ میری مراد ڈاکٹر عبدالستار صدیقی صاحب مرحوم اور قاضی عبدالودود صاحب سے ہے۔ </p> </blockquote> <p>تاہم ڈاکٹر نذیر احمد کو صدیقی صاحب سے اس امر میں اختلاف تھا کہ آٹھویں صدی عیسوی کے ختم ہونے تک ’د‘ نے ’ذ‘ کو پوری طرح بے دخل کر دیا تھا۔ انھوں نے عبدالوہاب قزوینی کے ایک قول سے استشہاد کرتے ہوئے لکھا کہ آٹھویں صدی کے بعد بھی ذالِ معجمہ ملتی ہے گو آہستہ آہستہ اس کا استعمال کم ہوتا گیا۔ نذیر احمد کے خیال میں نویں صدی کے وسط کے بعد تک ایسے نسخے ملتے ہیں جن میں ذال کا استعمال برابر نظر آتا ہے۔</p> <p>صدیقی صاحب کا غالبؔ سے ربط و تعلق ایک مقلّد کا نہیں مجتہدانہ نظر رکھنے والے عالم کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں غالبؔ سے اتفاق و اختلاف کی متعدد صورتیں نظر آتی ہیں۔ عبدالصمد پارسی والے قصے کو وہ غالب کی گھڑنت سمجھتے تھے اور برہانِ قاطع والے مباحث کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ ان سب کو یکجا شائع ہونا چاہیے۔ انھیں غالبؔ کے اس خیال سے شدید اختلاف تھا کہ ہندستان کے فضلا خان آرزوؔ، غیاث الدین رامپوری (صاحب غیاث اللغات) اور رشید تتوی (صاحبِ فرہنگ رشیدی و معرّبات) تو منہ لگانے کے قابل نہیں مگر ”فضلاے کلکتہ“ (جنھوں نے برہان کی لغزشوں کو مانا تھا) بقول صدیقی ”گویا سیدھے ایران سے تشریف لائے تھے“ (نقوش بحوالۂ سابقہ: ص۲۸) میرا خیال ہے کہ اس باب میں غالبؔ شدید دو عملی کا شکار رہے۔ معاملہ صرف یہیں تک نہیں۔ وہ غنیمتؔ کنجاہی کا ذکر بھی جابجا حقارت سے کرتے ہیں مگر اپنی مثنوی ”چراغِ دَیر“ میں کئی مصرعے اور ترکیبیں غنیمتؔ کی مثنوی نیرنگِ عشق سے اڑا لیتے ہیں۔ ایک زمانے میں صدیقی تیغِ تیز اوربرہانِ قاطع کے مباحث کو خود مرتب کر کے شائع کرنا چاہتے تھے مگر اے بسا آرزو۔۔۔ ان کی اس آرزو کو ڈاکٹر نذیر احمد اور قاضی عبدالودود نے عملی جامہ پہنایا۔</p> <p>چونکہ صدیقی صاحب بنیادی طور پر لسانی تحقیق کے آدمی تھے، ان کی عملی تنقید بھی لسانیات کی چاردیواری ہی میں اپنا روپ رس دکھاتی ہے۔ ان کی عملی تنقید کا ایک نمونہ تومکاتیبِ غالبؔ پر مفصل محاکمے کی صورت میں قبل ازیں زیربحث آچکا ہے۔ دیگر دو قابلِ توجہ اور دیر تک یاد رکھے جانے والے تنقیدی، لسانی مقالات وضعِ اصطلاحات (وحید الدین سلیم) اور المبین (سید سلیمان اشرف) پر مفصل تجزیوں کی صورت میں لکھے گئے۔ مؤخّرالذکر مقالہ معلوم نہیں کیوںمقالاتِ صدیقی میں جگہ نہ پاسکا۔ پہلے ہم وضعِ اصطلاحات پر ان کے افادات کا اجمالی ذکر کرتے ہیں۔</p> <p>ڈاکٹر صدیقی نے وحید الدین سلیم کی وضع اصطلاحات پر تبصرہ خود سلیم کی دعوت پر ۱۹۲۶ئ میں لکھا۔ وحید الدین سلیم نے اس تبصرے کو بہت سراہا۔ صدیقی صاحب نے اس تبصرے میں چند بڑی قابلِ بحث اور توجہ طلب باتیں لکھی ہیں۔ دیگر بہت سارے جدید ماہرین لسانیات کی طرح صدیقی صاحب بھی اس نظریے کے مؤیّد تھے کہ زبان انسان کے ساتھ ہی وجود میں آئی۔ گو کہ ان ابتدائی مدارج میں ذخیرۂ الفاظ بہت کم تھا۔ انھوں نے لفظ آسمان کے بارے میں لکھا کہ انسان کی ابتدائی تاریخ اس قیاس کو جنم دیتی ہے کہ اسے پہلے آسمان نظر آیا۔ چکی (آسیا) بنانے کی نوبت تو بہت بعد میں آئی ہوگی سو ایسا نہیں کہ آسیا سے لفظ آسمان بنا ہو۔ پھر یہ بھی کہ قدیم فارسی میں آسمان دراصل اَسۡمَن تھا، پہلوی میں آکر آسمان بنا۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ مان (جو حقیقت میں من تھا) مانند کے معنی نہیں رکھتا۔ آس مخفف ہے آسیا یا آسیاو کا۔ صدیقی صاحب کے نزدیک ”آسیاو“ صرف پہلوی میں ملتا ہے۔ اسی طرح انھوں نے سلیم کے اس خیال سے بھی اتفاق نہیں کیا کہ ”خر“ والے مرکبات میں خر ”بزرگ“ کے معنی میں آتا ہے۔ ان کے خیال میں ”خر“ خُرّہ یا خَرَہ کی ایک صورت تھی جس کے معنی جاہ و جلال اور شان و شوکت کے ہیں لہٰذا خرگاہ سے مراد بڑا خیمہ نہیں، شان و شوکت والی جگہ ہے۔ انھوں نے اس وسیع طور پر پھیلے ہوئے خیال کی بھی تغلیط کی کہ ”زند“ کوئی زبان ہے۔ ”زند“ دراصل ”اوستا“ کے متن کا کئی صدی بعد ترجمہ ہے۔۔۔ لوگ غلطی سے زند اور پازند دونوں کو زبانیں سمجھ بیٹھے (مقالات صدیقی، ص۲۶۳)۔ ان کے نزدیک یہ غلط فہمی سب سے پہلے یورپی محققوں نے پھیلائی۔ انھوں نے شہاب الدین احمد خفاجی کے حوالے سے اس قیاس آرائی کی بھی تردید کی کہ ”ہیولیٰ“ ”ہیئتِ اُولیٰ“ کا مخفّف ہے۔</p> <p>۱۹۲۹ئ میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے ممتاز استاد سید سلیمان اشرف نے المبینکے نام سے ایک عمدہ اور مباحث خیز کتاب لکھی۔ اس کی تسوید کا بڑا محرک یہودی مستشرق جرجی زیدان کی کتاب فلسفۃ اللغۃ العربیہ بنی جس میں اس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ عربی زبان مختلف زبانوں سے مستعار الفاظ کا ملغوبہ ہے۔ عربی میں مادہ ثنائی ہے ثلاثی نہیں اور تیسرا حرف جو زائد ہوتا ہے اس کا مقام متعین نہیں وہ اول، آخر، اوسط کہیں کا بھی ہو سکتا ہے۔ نیز عربوں نے ایک لفظ کہیں سے پاکر اس کے معنی سیکھ لیے اور پھر اسی ایک لفظ کو الٹ پلٹ کرتے چلے گئے تاآنکہ عربی زبان میں الفاظ کی کثرت نظر آنے لگی۔ سلیمان اشرف صاحب نے جرجی زیدان کے ان خیالات کی تردید کی اور عربی زبان کے فضائل، عربی زبان کا حیرت انگیز کمال گویائی، فلسفۂ ارتقائے زبان اور فلسفۂ اشتقاق جیسے موضوعات پر لکھ کر یہ ثابت کرنے کی سعی کی کہ ”عربی زبان میں جب کوئی لفظ موضوع قرار پاتا ہے تو اس کا بامعنی ہونا ایسا مستحکم و مضبوط ہوتا ہے کہ جس پہلو سے اس کو لوٹا پھیرا جائے وہ موضوع ہی رہتا ہے (یعنی مہمل نہیں ہوتا)۔ ایک صورت سے دوسری صورت کی طرف منتقل ہونے پر بھی معنی کا ساتھ نہیں چھوٹتا۔“ (المبین، ص۴۷) گویا جب کسی موضوع لفظ کو اس کی ساری ممکنہ ہئیتوں (جو چھے سے زیادہ نہیں ہوسکتیں) کی طرف تبدیل کرتے جائیں اور ہر تبدیلی میں وہ لفظ بامعنی رہے تو اسے اشتقاقِ کبیر کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد صاحبِ المبین نے ق م ر (قمر) سے اشتقاقِ کبیر کی مثالیں دی ہیں جو نظر بہ ظاہر بہت حیران کن لسانی صورتِ حال کا باعث بنتی ہیں۔ مصنف نے اسی عمل کو اشکالِ ستّہ کے ذریعے بتیس مثالوںتک پھیلا دیا ہے!</p> <p>ڈاکٹر صدیقی نے اس کتاب پر ”المبین پر تعقب و تبصرہ“ کے زیر عنوان معارف کے ۲۵ صفحات پر مشتمل ایک مفصل تجزیاتی مقالہ لکھا اور مصنف کے بعض دعاوی کو دلائل اور متانت سے ردّ کیا۔ ان کے خیال میں عربی زبان کے محققوں میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ عربی اور عجمی میں وہی نسبت ہے جو عجمی زبانوں اور جانوروں کی آوازوں میں ہے۔ ان کے مقالے کے دیگر اہم نکات کچھ یوں تھے:</p> <list> <li>روف تہجّی کے مخرج کا تعین کرنا صوتیات کے ماہروں کا کام ہے نہ کہ خود زبان کا۔</li> <li>ایسی زبان کا وجود محال ہے جس میں یہ آزادی ہو کہ بولنے والا کسی آواز کو جہاں سے اس کا جی چاہے ادا کرے۔</li> <li>مصنف کی ساری کوشش عربی زبان کو افضل ترین زبان ثابت کرنا ہے مگر یہ راہ تو سیدھی ترکستان کو گئی ہے۔</li> <li>مصنف المبین نے نہ صرف تاریخی ملاحظات کو بالاے طاق رکھا بلکہ السنہ کے اثریات اور تاریخی مواد کا مطالعہ کرنے والوں کی تضحیک کی۔</li> <li>جب کسی لفظ کی اصل کی تحقیق کی جاتی ہے تو اس کے ابتدائی مفہوم سے بحث کی جاتی ہے اور مرادی یا تشبیہی معنی یا وہ معنی جو بعد کو پیدا ہوئے، بحث سے قطعاً خارج کر دیے جاتے ہیں۔</li> <li>مصنف نے بعض لفظوں کے معانی نکالنے میں بہت کھینچ تان کی ہے۔</li> <li>مستشرقین کا ماخذ جرجی زیدان یا فون ڈائک کی تصانیف نہیں، ان کا ماخذ انھی بزرگوں کی تصانیف ہیں جنھوں نے اسلام کے عہدِ زرّیں میں علومِ عرب کی بنیاد رکھی تھی۔</li> <li>عربی کے اندر مادّہ بلاشبہہ سہ حرفی ہے، اس کے دو حرفی ہونے کی بحث محض عربی سے متعلق نہیں بلکہ اس قدیم سامی زبان سے متعلق ہے جس سے تمام سامی زبانیں (عربی، آرامی، عبرانی وغیرہ) نکلی ہیں۔ یہ بات صاحبِ المبین کی نظر میں اس لیے نہیں آسکی کہ وہ تاریخ سے بحث کرنا جائز نہیں سمجھتے۔</li> <li>المبینکی بنیاد فلسفۂ اشتقاق پر رکھی گئی ہے مگر اہلِ لغت ”اشتقاقِ کبیر“ کو تسلیم نہیں کرتے۔</li> <li>سیوطی کے نزدیک صرف ”اشتقاقِ اصغر“ مستند ہے۔ ”اشتقاقِ اکبر“ محققوں کی نگاہ میں کوئی چیز نہیں۔ یہ زبان میں موجبِ فساد ہے۔ </li> <li>لسانیات کا غیر جانبدار فن ایک زبان کی دوسری زبان پر برتری ثابت کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔</li> <li>مصنف کا یہ خیال کہ یورپ کے علما کی رائے میں عربی کوئی مستقل زبان نہیں، سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے مستشرق یا غیر مستشرق کسی نے یہ خیال ظاہر نہیں کیا۔</li> </list> <p>ڈاکٹر صدیقی کے اس تجزیے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ المبین پر بڑی حد تک ایک عالمانہ تبصرہ ہے اور ہر عہد کے مستند مصنفین اور ماہرین السنہ کے دلائل سے پوری طرح لَیس۔ اس تبصرے کے جواب میں مولانا اکرام اللہ خان ندوی اور مفتی عبداللطیف صاحب پروفیسر جامعہ عثمانیہ کے استدراک معارف ہی کے بعد کے شماروں میں شائع ہوئے۔ ان میں اول الذکر کا جواب زیادہ قابلِ توجہ ہے کیونکہ اس میں صدیقی صاحب کے بعض نکات کا رد اس بنیاد پر کیا ہے کہ انھوں نے المبین کے بعض مباحث کا غور سے مطالعہ نہیں کیا۔ اکرام اللہ صاحب نے بعض بہت عمدہ لُغوی بحثیں کی ہیں مگر اوراق کی تنگ دامانی ان کے ذکر سے مانع ہے۔ لازم ہے کہ ان مباحث کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تاکہ اور کئی علمی نکات سامنے آسکیں۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اگر صاحبِ المبین اپنے مباحث کو محض مادّے کے ثنائی ہونے کے رد تک محدود رکھتے اور ”اشتقاق کبیر“ کے پھیر میں نہ آتے تو ان کی کتاب زیادہ مؤثر اور بامعنی ہوتی۔</p> <p>ڈاکٹر صدیقی صاحب کی، لسانی مباحث کی حامل تحریروں سے ہٹ کر بھی کچھ ایسے مضامین ہیں جو لائقِ توجہ ہیں جیسے مثلاً حافظ محمود شیرانی کی وفات پر ان کا مضمون جس میں انھوں نے حضور اکرمؐ پر ڈاکٹر ہنری سٹب Stubbe کی پردۂ خفا میں کئی صدیوں سے مستور کتاب کو منظرِ عام پر لا کر اس کی حیاتِ نو کا اہتمام کرنے پرشیرانی کو داد دی اور اسے ان کا پہلا شان دار علمی کام قرار دیا۔ اسی طرح وحید الدین سلیم پانی پتی اور ڈاکٹر اشپرنگر پر ان کے مضامین بھی بہت سے شخصی اور علمی نکات کو آئینہ کرتے ہیں۔ مؤخرالذکر شخصیت پر ان کا مقالہ خاص طور پر چشم کشا اور انکشاف خیز ہے خصوصاً اس کے وہ اقتباسات جو صدیقی صاحب نے اشپرنگر کی حضور اکرمؐ پر جرمن کتاب سے براہ راست ترجمہ کر کے شاملِ مضمون کیے۔ اسی طرح صدیقی صاحب کے مقالے ”معائبِ سخن کلامِ حافظؔ کے آئینے میں“ اور ”شاہجہان کی ایک منبّت کار تصویر“ (مطبوعہ آج کل، دہلی، ستمبر ۱۹۵۰ئ) بھی دامنِ دل کھینچتے ہیں۔</p> <p>وسعت مطالعہ، عمق نگاہی اور آرائش و زیبائش سے پاک علمی اسلوب کی حامل ڈاکٹر صدیقی کی تحریریں ایک مستقل حوالے کی چیز ہیں۔ وہ علم و لسان کو آب بند خانوں میں اسیر کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ بہت کم مقامات ہیں جہاں ان کی تحریروں سے اختلاف کی ضرورت محسوس ہوتی ہے مگر بہرحال ایسے مقامات ہیں ضرور۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر شوکت سبزواری نے ”عبدالستار صدیقی مرحوم اور ان کی لسانی تحقیقات“ میں بعض لسانی امور پر ڈاکٹر صدیقی سے جائز اختلاف کیا ہے مثلاً لفظ ”کھیدا“ ہاتھی کو پکڑنے کا گڑھا نہیں، ہاتھی کو گھیر کر (یعنی ہانکا کر کے) قید کرنے کے معنوں میں ہے۔ انھیں اس سے بھی اتفاق نہیں کہ ”سِکرّر“ ”مکرر“ کا تابع مہمل ہے۔ خود شوکت سبزواری سے بھی اس مضمون میں ایک سہو ہوا ہے جہاں انھوں نے صدیقی صاحب کی علمی تحصیلات کے ضمن میں لکھا ہے کہ انھوں نے سیبویہ کی الکتاب پر تحقیقی کام کر کے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی تھی، درآں حالیکہ صدیقی صاحب کا پی ایچ ڈی کا موضوع تھا:کلاسیکی عربی میں فارسی کے مستعار الفاظ۔ مقالہ جرمن زبان میں لکھا گیا تھا۔</p> <p>ابنِ درید پر انگریزی میں لکھے گئے عالمانہ مقالے کے آخر میں صدیقی صاحب نے جمھرۃ اللغہ کا مستعار الفاظ والا باب درج کیا ہے۔ اس میں ایک مقام پر ابنِ درید نے لفظِ ”برجیس“ کی تشریح میں لکھا ہے:</p> <blockquote> <p><annotation lang="ar">والبِرجیس ویقال البِرجیس نجم من نجوم السمآئ و یقال ہو بہرام</annotation></p> </blockquote> <p>ابن درید کا یہ کہنا کہ ”برجیس“ کو ”بہرام“ بھی کہا جاتا ہے درست نہیں۔ برجیس فلکِ ششم کا سیّارہ ہے اور سعد ہے جبکہ بہرام فلکِ پنجم کا سیّارہ ہے اور مِرّیخ کہلاتا ہے۔ اس کا رنگ سرخ ہے سو اسی نسبت سے اسے جلّادِ فلک بھی کہتے ہیں۔ یہ نحۡس ہے، چنانچہ مِرّیخ (بہرام) و زُحَل ایک برج میں آئیں تو اسے ”قِران النَحۡسَین“ کہتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ ابنِ دُرَید کے اس سہو پر ڈاکٹر صدیقی کو حاشیہ لکھنا چاہیے تھا۔</p> <p>اِسی طرح اپنے مقالے ”اُردو املا“ میں ایک جگہ صدیقی ذرّہ اور ذرا کو زیر بحث لا کر لکھتے ہیں کہ ذرّہ تشدید کے ساتھ ”کسی چیز کا بہت چھوٹا ٹکڑا“ کے معنوں میں آتا ہے جبکہ ذرا معنوی طور پرذرّہ سے مختلف ہے لہٰذا اسے ذرا کے بجاے زرا لکھنا چاہیے۔ قیاس چاہتا ہے کہ ذرا کے پیدا ہونے کا باعث ذرّہ ہی ہے تو پھر اس کو ذال کے بجاے ز سے لکھنے پر اصرار کیوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لفظ فارسی میں انھی معنوں میں آتا ہے جیسے اردو میں یعنی بہت کم۔ تھوڑا۔ ایرانی کہے گا: معنیِ رحم ذرّہ ای دردل اونیست یا ذرہ ای سود نہ بخشید (یعنی ذرا بھی فائدہ نہ ہوا)۔ فارسی میں یہ ذرا کے معنی ہی میں مستعمل ہے اور ذال ہی سے لکھا جاتا ہے۔ خود اردو میں اس کا املا ذال ہی سے رہا ہے اور ہے۔ جب مستند اہلِ علم تک اسے ذال سے لکھتے ہیں تو پھر اسی املا کو فصیح اور معتبر سمجھنا چاہیے۔ علاوہ ازیں اردو شعرا میں بھی خال خال ذرّہ بمعنی ذرا استعمال ہوا ہے۔ صبا کا شعر ہے:</p> <blockquote> <verse> ذرّہ بھی نہیں ہے زرِ قاروں کی یہاں قدر دنیا کو سمجھتے ہیں ترے در کی گدا خاک </verse> </blockquote> <p>ڈاکٹر صدیقی کی گہری، ہمہ گیر اور وسعتِ نظر کی حامل لسانی اور دیگر تحریریں اس کی متقاضی تھیں کہ ان پر تفصیل سے لکھا جاتا مگر افسوس ہے کہ ان کی عظمت کا بہت کم اعتراف کیا گیا۔ عبدالستّار دلوی کا مقالہ ”اردو میں لسانی تحقیق کی اہمیت“ تحقیق پر شائع ہونے والے کئی منتخبات کا حصہ بنا مگر مرتبین میں سے کسی نے پلٹ کر نہ پوچھا کہ اس میں عبدالستار صدیقی کے عدم شمول کا سبب کیا ہے؟</p> <p>اہلِ علم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ تاریخی لسانیات بنیادی طور پر حرکی مزاج کی حامل ہے۔ یہ زبان کا مطالعہ اس میں ہونے والے تغیرات کے حوالے سے کرتی ہے۔ ایسے تغیرات جو زبان میں زمان و مکان دونوں حوالوں سے آتے ہیں۔ ان تغیرات کا تعلق تاریخی عناصر سے ہوتا ہے۔ تاریخی لسانیات سے کام لینے والے، کتبوں اور قدیم و عہدِ وسطیٰ کی تحریروں اور آثار سے مدد لیتے ہیں۔ تاریخی لسانیات اپنی بنیاد تحریری شہادتوں پر رکھتی ہے۔ پھر یہ بھی دیکھتی ہے کہ خاص زبانوں کے مابین تاریخی رشتے کیا ہیں۔ یوں اس کے ڈانڈے تقابلی لسانیات سے جا ملتے ہیں۔ پھر کوئی زبان یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ اس میں مستعار الفاظ کا ذخیرہ نہیں۔ لسانیات کے محققوں مثلاً ماریوپائی وغیرہ کا خیال ہے کہ انگریزی زبان کا اپنا اینگلوسیکسن ذخیرہ ۲۵ فیصد سے زیادہ نہیں۔ پچھتّرفی صد ذخیرۂ الفاظ مستعار ہے۔ مستعار لینے والی زبان یا تو اُس لفظ کو اپنے صوتی و صورتی نظم پر ڈھال لیتی ہے جیسے پرانی فرانسیسی کا لفظ <annotation lang="en">”Verai“</annotation> انگریزی کے <annotation lang="en">”Very“</annotation> میں ڈھل گیا یا پھر یہ کہ مستعار لینے والی زبان اُس لفظ کو اپنی زبان میں ترجمہ کرلیتی ہے۔ یہ اور اس طرح کے متعدد لسانی حقائق تھے جن سے ڈاکٹر عبدالستار صدیقی اپنی انگلیوں کی آخری پوروں تک آگاہ تھے۔ یہ درست ہے کہ انھوں نے اپنی تحقیقی تگ و دو کے لیے جو میدان چنا وہ عام لوگوں کی دلچسپی سے کوسوں دور ہی نہ تھا، اپنے مخصوص دائرے میں محدود بھی تھا۔ شاید ان کی عدم مقبولیت کا ایک سبب یہ بھی رہا ہوگا مگر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ عبدالستّار صدیقی جیسے بے مثال ماہر السنہ کو بھول جانا اپنی تہذیبی بے مایگی اور لسانی بے چہرگی کے اعلان کے مترادف ہے۔ ڈاکٹر خالد محمود اور ان کے رفقاے کار لائقِ مبارک باد ہیں کہ ان کے توسّط سے ایک مدّت کے بعد ایک خصوصی اشاعت کے ذریعے ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کے علمی و لسانی افادات کی بازیافت اور بازتحقیق کا اہتمام کیا جارہا ہے۔</p> </section> </body>
0027.xml
<meta> <title>میراجی اور جدید نظم کی تفہیم کا فریم ورک</title> <author> <name>تبسم کاشمیری</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 4</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/9_tabassum_kashmiri_bunyad_2013.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>4611</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
میراجی اور جدید نظم کی تفہیم کا فریم ورک
4,611
Yes
<body> <section> <p>میراجی نے جب مشرقی اور مغربی شعرا پر لکھنا شروع کیا تو اس کی عمر اکیس برس کے لگ بھگ تھی۔ جب اس کے پہلے مضمون کا مسودہ مولانا صلاح الدین احمد کے پاس پہنچا تو اس مضمون کو پڑھتے ہوئے ان کے ہاتھ شدتِ حیرت سے کانپنے لگے۔ مولانا نے سامنے بیٹھے ہوئے میراجی سے پوچھا ”ثنا! کیا یہ مضمون تم نے لکھا ہے“ میراجی نے صرف اتنا کہا ”جی“۔</p> <p>میں اس بارے میں بات نہیں کروں گا کہ میراجی کی نظم کی تحسین اور تنقید اب تک ہو سکی ہے یا نہیں۔ یا اگریہ کام ہوا ہے تو کس حد تک ہو سکا ہے۔ یہاں میری گفتگو ”میراجی اورجدید نظم کی تفہیم کا فریم ورک“ اور میراجی کی تنقید سے ہے۔ میراجی کی تنقید آہستہ آہستہ طاقِ نسیاں کی چیز بنتی جا رہی ہے اور اردو ادب میراجی کے گراں قدر تنقیدی کام کو فراموش کرتا جارہا ہے۔ آخر کیوں؟ کچھ سبب ہوگا یا کچھ اسباب تو ہوں گے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ تنقید اس کی نظم کی طرح سے تفہیم کے ایک نظام کی طلب گار تو نہیں۔ میرے خیال میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میراجی کی نثر ابلاغ کا کوئی مسئلہ نہیں رکھتی۔ اس کا سو فیصد ابلاغ موجود ہے اور پھر اس نثر کا پیرایۂ اظہار اوراسلوب بھی تو دلکش ہے۔ لہٰذا پھر ایسا کیوں ہے کہ ہمارے ادب کی روایت میں میراجی کی تنقید کو کما حقہ درجہ نہیں مل سکا اور اس کے ذکر اذکار بھی کم ہی ہوتے ہیں۔ اور اگر اس مقام پر میں ان کی شاعری کے بارے میں بھی ایک دو ایسی باتیں کہتا چلوں کہ جن پر غوروفکر کی ضرورت مجھے محسوس ہوتی ہے تو آپ محسوس نہ کریں۔</p> <p>راشد صدی سے بہت پہلے ۱۹۹۵ئ میں جب میں نے راشد پر اپنی کتاب لا=راشد شائع کی تھی تو اس وقت مجھے یہ محسوس ہوا تھا کہ پاکستان میں فارسی روایت کے زوال کے بعد راشد کی شاعری کا کیا بنے گا۔ سکول، کالج اور یونی ورسٹی کی سطح پر فارسی پڑھنے والے طلبہ کی تعداد ازبس کم ہو گئی ہے۔ یونیورسٹی میں بہت ہی کم طالب علم فارسی کے آتے ہیں۔ زوال کی یہ حالت سن ساٹھ کی دہائی سے شروع ہوئی تھی اور اس کے بعد یہ عمل تیز تر ہوتا گیا۔ مثال کے لیے میں غالب کا ذکر کروں کہ اس کے دور میں کمپنی کی پالیسی کے سبب فارسی تیزی سے اپنے مقام سے محروم ہوتی گئی تھی اور غالب اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہا تھا۔ چناں چہ انجام کار ہوا یہ کہ وہ فارسی شاعری جسے وہ اپنے شعری نقش میں ”رنگ رنگ“ کہتا تھا آج اس کے پڑھنے والے موجود نہیں ہیں۔ اور جس مجموعۂ اردو کو اس نے ’بے رنگ‘ قرار دیا تھا آج اسے زندہ رکھے ہوئے ہے۔ راشد صدی کے موقع پر دو سال قبل راشد سے جس دلچسپی کا اظہار کیا گیا وہ حیرت انگیز تھی۔ راشد کے بارے میں سیمی نار ہوئے، کتابیں لکھی گئیں، مضامین چھپے اور ان کے بارے میں مجھ سمیت دیگر لکھنے والوں کا خیال غلط ثابت ہوا۔ میراجی پر طبع شدہ مواد اور تسلسل سے کیے جانے والے کام کو دیکھ کر کچھ مدت پہلے تک یہ لگتا تھا کہ میراجی صدی پر بہت کام ہو سکے گا۔ بہت سے پروگرام ہوں گے مگر ابھی تک جو کچھ ہوا ہے وہ ناکافی ہے۔ میں سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ ایسا ہوگا۔ میں سوچتا ہوں اور آپ بھی سوچیے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیا میراجی کے لیے نئی نسل میں دلچسپی کم یا بہت کم ہو چکی ہے؟ جس طرح ہم سمجھتے تھے کہ راشد کی نظر میں شاعری میں نئی نسل کی دلچسپی کم ہوتی جائے گی کیا میراجی کے متعلق یہ کہنا درست ہوگا کہ میراجی کے ہندی اسلوب میں لکھی گئی نظموں اور گیتوں کے سبب میراجی کی مقبولیت کم ہو گئی ہے؟ اگر ایسا ہے یا نہیں ہے تو اس کے متعلق ہمیں سوچنا ہوگا۔</p> <p>اب اس بحث سے گریز کرتے ہوئے میں جدید اردو نظم اور میراجی کے تنقیدی مباحث کی طرف رجوع کرتا ہوں۔</p> <p>۱۹۳۶ئ کے لگ بھگ اردو تنقید کے افق کو دیکھیے۔ آپ کو کیا نظر آتا ہے؟ روایتی تنقید کا نیم جاں سا افق___اور اس کے بعد ترقی پسند تنقید کی اکتا دینے والی میکانکی سی تکرار۔ اور یہ سب کچھ ابتدائی سٹیج پر تھا۔ کوئی بڑا نقاد اس دور تک نظر نہیں آتا۔</p> <p>اس دور تک تو تنقید کے اسالیب اور اصطلاحات بھی ٹھیک طو رپر وجود میں نہ آئی تھیں۔ جدید اردو تنقید ابھی چلنا سیکھ رہی تھی۔ جدید شاعری تو موجود تھی مگر جدید شاعری کی تفہیم کے لیے جدید تنقید ابھی پیدا ہونے والی تھی۔ میراجی اور راشد کی شاعری نے تو آغاز ہی سے جدید شاعری کے ایک نئے نقاد کی ضرورت کا احساس شدت سے دلا دیا تھا۔ ابہام کا شور مچ رہا تھا۔ یو پی کے شاعروں اور نقادوں نے تصدق حسین خالد، میراجی، راشد، تاثیر، قیوم نظر، یوسف ظفر، فیض اور مختار صدیقی کے خلاف ہنگامہ برپا کر رکھا تھا۔ اردو کے ادبی حلقے جدید شاعری کا شعور نہیں رکھتے تھے اس لیے اس شاعری کے خلاف ردعمل بہت شدید تھا۔ ۱۹۴۰ئ کے لگ بھگ میراجی نے فیصلہ کیا کہ وہ جدید شاعری کی تفہیم کے لیے ہر ماہ نئی نظموں پر تبصرے چھاپا کریں گے۔ چناں چہ جوں جوں یہ تبصرے شائع ہوتے گئے جدید نظم کی تفہیم کا راستہ کھلتا گیا اور قاری کی تربیت کا سامان بھی فراہم ہوتا گیا۔</p> <p>جدید شاعری کی تنقید کا فریم ورک بنانے والا کون تھا؟ یہ میراجی ہی تھا۔ مشرق و مغرب کے نغمے کے مشاہدات اور ذاتی شعری تجربات نے میراجی کے لیے جدید شعری تنقید کا فریم ورک فراہم کیا تھا اور یہ میر اجی کا کارنامۂ خاص کہا جاتا ہے۔</p> <p>میراجی اور ان کی نسل کے شعرا نے موہوم احساسات اور زندگی کے ایسے موضوعات کو اپنے شعری تجربے کا حصہ بنایا تھا کہ جو بظاہر نظم میں ڈھل نہ سکے تھے۔ یہ دھندلے دھندلے موضوعات شعر کا قالب اختیار نہ کر سکتے تھے مگر ان لوگوں کی تخلیقی قوت نے ان کو تجربے کی گرفت میں لے کر اظہار کی منزل سے گزار دیاتھا۔ اس لیے ایسے اظہار میں نظم کی معروف شفافیت نہ تھی اور قاری ابہام کی رو میں بہنے لگتا تھا۔ اس قسم کے تجربے سے متعارف اور مانوس نہ ہونے والے قاری کو لامحالہ معنویت کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور وہ اسے ابہام کا عذاب تصور کرنے لگتا تھا۔ میراجی کی شعری تنقید کا کمال یہ تھا کہ تفہیم شعر کی جو تھیوری اور تھیوری کا جو پراسس اس نے تشکیل کیا تھا اس نے روایتی فہم کے قارئین کے لیے نظم کی عملی تنقید پیش کر کے اسے تفہیم کی جہات کے قریب تر کر دیا تھا اور یہ ایک کامیاب سعی تھی۔ اس کے اثرات کا نتیجہ یہ تھا کہ بعدازاں وزیر آغا مدتوں تک اس نظم میں کی روایت پراوراق میں نئی نظم پر توضیحی نوٹ لکھوا کر شائع کرتے رہے اور یہ روایت ہمارے اس دور تک چلی آئی ہے۔ راشد، میراجی اور فیض صدی کے دوران میں بے شمار نظموں پر نئے نقادوں کے تجزیاتی نوٹ شائع ہوتے رہے ہیں۔</p> <p>میراجی جب میلارمے والا مضمون لکھ رہا تھا تو اس نے یہ کہا تھا کہ میلارمے جیسے مشکل شاعر کی تفہیم کے لیے صبروتحمل کی ضرورت ہوتی ہے مگر یہ صبروتحمل لاحاصل نہیں ہوتا۔ میراجی نے جب یہ سطور قلم بند کی ہوں گی تو اس کے سامنے اس کی معاصر جدید شاعری موجود تھی جس میں وہ خود بھی ایک شاعر تھا اور وہ یہ بات سمجھنے میں حق بجانب تھا کہ معنی کی تلاش کا سفر لاحاصل نہیں ہوا۔ بالآخر یہ سفر قاری کو معنویت کے ثمر سے شاداب کر دیتا ہے۔ دراصل میراجی میلارمے کے اس بیان سے متفق تھا کہ ”کسی چیز کو واضح طور پر بیان کر دینے سے اس لطف کا تین چوتھائی حصہ زائل ہو جاتا ہے جو رفتہ رفتہ کسی بات کے معلوم کرنے میں ہمیں حاصل ہوتا ہے۔“</p> <p>میراجی جس شعری روایت سے تعلق رکھتا تھا اس میں شعر کا مغلق ہونا یا اس میں ابہام کا پایا جانا معنوی حسن سمجھا جاتا تھا۔ اسی روایت کا ایک بڑا شاعر اور نقاد پال ویلری <annotation lang="en">(Paul Valery)</annotation> میلارمے کی شاعری میں ابہام اور اغلاق کے متعلق بات کرتے ہوئے اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ لوگ شاعری میں آسانیوں کو تلاش کرتے ہیں۔ وہ یہ پسند نہیں کرتے کہ شعر پر غور کر کے لطف اٹھائیں۔ ویلری کے خیال میں جب تک کسی ادبی تخلیق میں قاری کی کوشش تفہیم کے مقابل قوتِ مدافعت نہ رکھتی ہو وہ تخلیق دلکش نہیں ہوتی۔</p> <p>جدید نظم میں جس مسئلے نے میراجی کو تفہیم کا فریم ورک تلاش کرنے کی طرف مائل کیا تھا وہ جدید شاعری میں افہام اور ابہام کا مسئلہ تھا۔ اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے میر اجی یہ کہتے ہیں:</p> <blockquote> <p>اب شاعری پہلے کی بہ نسبت بہت زیادہ ذاتی اور انفرادی ہوتی جا رہی ہے۔ شاعر کے ذہن میں ایک خیال یا ایک تصور پیدا ہوتا ہے، اور وہ اس کے اظہار کے لیے عام زبان سے ہٹ کر خاص اور مناسب الفاظ کی تلاش کرتا ہے جو اس کے خیال یا تصورات سے پورے طور پر ہم آہنگ ہوں۔ اور اس اجنبیت کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم بھی شاعر کے نقطۂ خیال سے اپنے ذہن کی حرکت کو شروع کریں، ورنہ ہمیں اس کی تخلیق میں ابہام اور اغلاق نظر آئے گا؛ اور اگر چہ وہ ابہام ہمارے سمجھنے میں ہوگا، یعنی ہماری ذات میں، لیکن ہم اسے اپنی بے صبری میں شاعر کے سرمنڈھ دیں گے۔</p> </blockquote> <p>جدید اردو نظم کی تفہیم کا فریم ورک بنانے میں میر اجی نے اول اول متن خوانی پر خصوصی توجہ صرف کی۔ متن خوانی پر گہری توجہ صرف کرنے کا مقصد یہ تھا کہ تفہیم شعر تک ممکن حد تک رسائی حاصل ہو جائے۔ اس کی دو صورتیں تھیں اول یہ کہ متن میں نظر آنے والی ظاہری معنویت و مفہوم کو دریافت کر لیا جائے۔ یا متن میں موجود علامتوں، استعاروں اور تلازموں کے روایتی مفاہیم کے ساتھ ساتھ متن کے حوالے سے بننے والے باطنی معنوں تک بھی پہنچا جائے اور میراجی جیسا بے حد زیرک نقاد باطنی معنوں کی گہرائیوں تک فی الفور پہنچ سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میراجی نے نظموں کے تجزیوں سے جو نتائج برآمد کیے ہیں وہ بہت <annotation lang="en">convincing</annotation> معلوم ہوتے ہیں۔</p> <p>متن خوانی کی ایک اور سطح بھی یہاں قابل ذکر ہے اور وہ ہے کسی نظم کے متن کی زیرسطحی کیفیات اور اس کی روح۔ یہ وہی طریق کار ہے جسے ہسرل <annotation lang="en">(Husserl)</annotation> نے مظہریات کی شکل میں پیش کیا تھا اور یہ تنقید کسی فن پارے میں موجود مگر زیر سطح چھپی ہوئی کیفیات کی معنویت کو قاری کے سامنے پیش کر دیتی ہے اور یہ کسی متن کی نفسی تعبیر کا بہترین کردار ادا کرتی ہے۔ اس تعبیر کا منبع و سرچشمہ نقاد یا قاری کا منفرد ذہن ہوتا ہے یعنی متن کی موضوعی تعبیر کا اس میں گہرا دخل ہوتا ہے۔</p> <p>جدید نظم کے تفہیمی فریم ورک میں یہ مظہریاتی طریق کار بھی میراجی کے ہاں موجود ہے۔</p> <p>میراجی نے جدید نظم کے لیے تفہیم کا جو فریم ورک بنایا تھا وہ کسی شاعر کے شعور تک رسائی حاصل کرنے کا تقاضا کرتا تھا۔ شعور تک رسائی کا مطلب یہ تھا کہ شاعر کے تخلیقی منابع تک پہنچا جائے۔ اس کی سوچ کے سرچشموں کو دریافت کیا جائے اور کسی مخصوص فن پارے میں اس کے شعور کی کارروائی کو سمجھا جائے تاکہ متن کی شرح اور تعبیر تک پہنچا جائے۔</p> <p>متن میں مصرعوں کی لفظی ترتیب ان کے لیے خیال افروزی کا سامان مہیا کرتی تھی۔ ان کی بہت گہری نظر بعض اوقات صرف ایک معمولی سے مصرع کو معنویت سے بھر دیتی تھی اور ان کی مخصوص قصہ سازی کا کام شروع ہو جاتا تھا۔ یہ ان کی ادبی بصیرت کا ایک ادنیٰ سا اظہار ہوتا تھا مگر جدید اردو نظم میں تفہیم کے فریم ورک کی نادر مثالیں ان کے ہاں پیدا ہو جاتی تھیں۔ میں یہاں اختر شیرانی کی مشہور نظم ”یہی وادی ہے وہ ہمدم“ کے ایک مصرع کی مثال پیش کروں گا:</p> <blockquote> <verse> یہی وادی ہے وہ ہمدم جہاں ریحانہ رہتی تھی </verse> </blockquote> <p>اس مصرع کی توضیح میں میراجی نے ساختیاتی تنقید جیسا تنقیدی قرینہ استعمال کیا ہے حیرت اس بات پر ہے کہ اس دور میں ساختیاتی تنقید کا ادبی تنقید میں نام و نشان بھی نہ بن سکا تھا۔ اس مصرع سے میراجی نے کس انداز سے معنوی تشکیل کی ہے وہ دیکھنے کی چیز ہے۔ دیکھیے میرا جی کا تجزیہ:</p> <blockquote> <p>ظاہر ہے کہ کل مصرع کسی کی زبان سے کہا ہوا کلمہ ہے۔ گویا ایک شخص کہہ رہا ہے کہ ”یہی وادی ہے“۔ اتنا سن کر ہمیں ایک تعجب یا تجسس کا احساس ہوتا ہے اور ہمارا ذہن سوچتاہے کہ یہ وادی تو ہے لیکن یہاں کیا ہوا؟ اس میں کون سی خصوصیت ہے؟ آگے ”ہمدم“ کا لفظ آتا ہے اور ہمارے ذہن میں ایک تصویر مکمل ہو جاتی ہے۔ تصویر یہ ہے: دو انسان(مرد) ایک وادی میں کھڑے ہیں اور ایک کہتا ہے ”یہی وادی ہے اے ہمدم…“ اب ہمارا تجسس بڑھتا ہے کہ یہ شخص اپنے ساتھی کو کون سی بات بتانے کو ہے، اس وادی میں پہنچ کر اس کے ذہن میں کون سی یادیں تازہ ہو گئی ہیں۔ اگلا ٹکڑا وضاحت کرتا ہے: ”جہاں ریحانہ رہتی تھی“، اور بات پوری ہو جاتی ہے اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کی محبوبہ اسی وادی میں رہا کرتی تھی۔ وہ اب یہاں نہیں رہتی۔ شاعر آج کسی طرح اپنے رفیق کے ساتھ آن پہنچا ہے اور اسے بتا رہا ہے کہ اسی وادی میں ریحانہ رہا کرتی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس کا ساتھی جانتا ہے کہ ریحانہ کون تھی۔ ہم بھی جانتے ہیں کہ وہ کون تھی اور اس لیے مصرع کے اختتام پر دو مردوں اور اس وادی کی جس میں ریحانہ رہتی تھی جو ایک تصویر پیدا ہوئی تھی اس میں حزن و ملال کی آمیزش ہو جاتی ہے۔ اگر اسی مصرع کو بدل کر ہم یوں لکھیں:</p> <verse> جہاں ریحانہ رہتی تھی یہی وادی ہے وہ ہمدم! </verse> <p>تو وادی کی اہمیت جاتی رہتی ہے اور حزن و ملال کی کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی کیوں کہ اس صورت میں ہمیں وادی کی اہمیت بڑھانے والی ریحانہ کے متعلق باقاعدہ اطلاع مل جاتی ہے کہ یہاں وہ رہتی تھی اور دوسرا ٹکڑا ایک طرح سے فالتو اور پھیکا معلوم ہوتا ہے لیکن پہلی صورت میں ہمارے تجسس کی رگ کو اکسانے کے بعد ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس وادی میں کیا خصوصیت ہے۔</p> </blockquote> <p>اس مثال سے ظاہر ہوا کہ کس طرح الفاظ رفتہ رفتہ نئے سے نیا تصور لا سکتے ہیں اور ان کی نشست کا مقام کس قدر معین ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی سمجھنا چاہیے کہ لفظی تصورات کی پوری اہمیت کو ان کے اضافی رتبے کے ذریعے نمایاں کرنے کا یہ طریقہ ذہانت و تفکر اور بذلہ سنجی سے تعلق رکھتا ہے۔</p> <p>جدید نظم کی تفہیم کے فریم ورک میں میراجی قاری کو ایک ایسی منزل پر بھی لا کر چھوڑ دیتے ہیں جہاں مناسب تجزیے اور توضیح کے بعد معنویت کی مزید تفہیم کاکام قاری/نقاد کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ میراجی قاری کی انگلی پکڑ کر اسے اپنے ساتھ ساتھ افہام کے گوشوں سے گزارتا ہے۔ نظم کے دروبست میں موجود رموز کی اس کے سامنے تعبیر و تشریح کرتا ہے۔ جمالیاتی تجربوں سے روشناس کراتا ہے اور اس تخلیقی عمل کو متخیلہ میں بیدار کرتا ہے جس سے شاعر نے گزر کر نظم لکھی تھی۔ بظاہر یوں نظر آتا ہے کہ نظم کی تفہیم کے سب باب روشن ہو گئے ہیں۔ مطالب واضح ہو گئے ہیں مگر اس منزل پر میراجی قاری کی انگلی چھوڑ دیتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ متن میں مزید معنویت موجود ہے اور اس تک پہنچنے کے لیے قاری کو خود سعی کرنی ہو گی۔ جدید تھیوری اس عمل کو <annotation lang="en">sub-text</annotation> کا نام دیتی ہے۔ سب ٹیکسٹ <annotation lang="en">sub-text</annotation> کا یہ قرینہ ناول، افسانے اور شاعری میں دیکھا جا سکتا ہے۔</p> <p>میراجی نے تخلیقی عمل کی باز آفرینی کی سعی کی ہے۔ یہ ایک طرح کی اکتشافی تنقید ہے جس میں نقاد شاعر کے تخلیقی عمل کو منکشف کرتا ہے اور ممکن حد تک معنویت کے قریب قریب پہنچ جاتا ہے۔ میراجی نے مواد، موضوع کی قدروقیمت بیان کرنے میں بہت کم توجہ دی ہے۔ وہ نظم کے ماحول اور تخلیقی واردات پر توجہ دیتے ہیں۔ گویا وہ قاری کو نظم کے دروازے اندر داخل کر دیتے ہیں اورکچھ کام اس کے سپرد کر دیتے ہیں کہ وہ اپنی مزید سعی سے نظم کے قابل بیان پہلوئوں کو بیان کرے۔</p> <p>اس نظم میں ذات اور معروضات کا امتزاج ہے۔ نظم تخلیق کی معروضی صورت ہے۔ میراجی کا عمل اس معروضی صورت کو بار بار دیکھنے اور اسے <annotation lang="en">conceive</annotation> کرنے سے شروع ہوتا ہے۔ جوں ہی وہ نظم کو <annotation lang="en">conceive</annotation> کرتا ہے اس کی ذات متحرک ہونے لگتی ہے۔ متخیلہ نظم کے اندر باہر، ارد گرد جھانکنے لگتا ہے۔ اور میراجی وہ نقطہ وہ مقام تلاش کر لیتا ہے جہاں سے نظم کا <annotation lang="en">origin</annotation> ہوا تھا۔ یہ ذات کے متخیلہ کا عمل ہے جو نقاد کو اس مقام پر بالآخر پہنچا دیتا ہے اور یہاں سے نظم کی قدرتی ساخت کا نقشہ ہمارے سامنے واضح ہو جاتا ہے۔</p> <p>جدید اردو نظم کے فریم ورک میں میراجی نظم کے حقیقی وجود کی تلاش میں سرگرداں ملتا ہے۔ وہ نظم کے وجود میں فلسفہ، فکر، تفکر اور سوچ و فکر کے موضوعات کی تلاش میں نہیں نکلتا ہے۔ اسے تلاش ہوتی ہے خیال کی، جذبے کی احساس کی او رجمالیاتی رویوں کی۔ اس کی نگاہ نظم کے وجود کے مرکز کی متلاشی ہوتی ہے۔ اِدھر اُدھر دیکھتے دیکھتے اس کی نگاہ مرکز تک جا پہنچتی ہے۔ اس جگہ سے نظم کا وجود اس کے سامنے اپنی شکل بنانے لگتا ہے اور ہوتے ہوتے وجود کے سارے رموز، سارے نقاط اور سارے زاویے مکمل ہو جاتے ہیں۔ میراجی کے تنقیدی کرافٹ میں یہ عمل بے حد متاثر کرنے والا ہے۔ میراجی سے پیشتر کسی اردو نقاد نے نظم کو اس طرح سے اپنے حصار میں لینے کے لیے سوچا تک نہ تھا۔ اس تنقیدی قرینہ سے میر اجی اس وقت واقف ہوا تھا جب وہ میلارمے پر مضمون لکھنے کے دوران میں چارلس موراں <annotation lang="en">(Charles Mauron)</annotation> کے ان تجزیوں سے روشناس ہوا تھا جو اس نے میلارمے کی نظموں کی توضیح کے لیے قلم بند کیے تھے۔ اس سے میراجی اتنا متاثر ہوا تھا کہ اس نے ادبی دنیا کے اوراق پرجدید نظموں کے تجزیے شروع کر دیے تھے۔ بعدازاں یہ کام ۱۹۴۴ئ میںاس نظم میں کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔</p> <p>میراجی کے ہاں نظم کی تفہیم کی بنیاد <annotation lang="en">subjective theory</annotation> پر استوار نظر آتی ہے۔ قاری نظم کو اپنی موضوعی فہم کے مطابق گرفت میں لیتا ہے۔ اس میں اس کے ذہنی پس منظر کا حصہ بہت اہم ہوتا ہے۔ اس کے فہم کو اس کی ادبی پرداخت، روایت، نظریات، شعری اصول، شاعری کی فنی تفاسیر اور اس کے عمل او رنظریات کے ردعمل سے تیار ہونے والی ادبی شخصیت نظم کی تفہیم میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ ہر قاری اپنے پس منظر کے حوالے سے ایک مختلف ادبی شخصیت کا حامل ہوتا ہے اور یہ ادبی شخصیت ہی ہے جو شعر کی تفہیم کو متعین کرتی ہے۔ اس لیے ہر تفہیم حتمی اور قطعی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم دیوان غالب کا جائزہ لیتے ہیں تو مختلف شارحین کے ہاں ہمیں کسی شعر کی مختلف شرحیں ملتی ہیں۔</p> <p>میراجی کے ہاں نظم کی جو بھی تفہیم ہے وہ اس کی ادبی شخصیت کاکام ہے۔ کیا ہم اس کے کام کو حتمی کہہ سکتے ہیں؟ کیا اس سے اتفاق کر سکتے ہیں؟ یا ہم اس سے مختلف تفہیم دے سکتے ہیں۔ ان باتوں کا تعین قاری کی ادبی شخصیت ہی کر سکتی ہے۔ لیکن میراجی کی تفہیم <annotation lang="en">subjective theory</annotation> پر ہے۔ اس کی موضوعیت نظم کی تفہیم میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ میں نے اس مسئلہ کو یہاں اس لیے پیش کیا ہے کہ عام قارئین یا نقادوں کے مقابلے میں اس نے اس نظم میںکی تفہیم میں موضوعیت کے نتائج پر زیادہ انحصار کیا ہے۔</p> <p>ہمیں یہاں اس بات کا بھی ذکر کرنا ہے کہ میراجی نے نظموں کی تفہیم کے لیے کون سی اصطلاحیں استعمال کی تھیں۔ کیا وہ اپنے کام کو نظم کی شرح کہتے تھے یا تفسیر، تعبیر یا تجزیہ کا نام دیتے تھے یا تنقید کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔ کیوں کہ تفہیم کی ان اصطلاحات سے میراجی کے کام کی نوعیت واضح ہو سکے گی۔ اس مقصد کے لیے میں نے اس نظم میں کے پیش لفظ سے رجوع کیا۔ میراجی کہتے ہیں کہ ادبی دنیا میں میں نے ہر ماہ کی نظموں کا جائزہ لینا شروع کیا تھا۔ ذہن میں چارلس موراں کا اندازِ تشریح تو آسودہ تھا ہی۔ کچھ شعوری اور کچھ غیر شعوری طور پر میں نے بھی وہی طرز اختیار کی جو آگے چل کر انفرادی رنگ نمایاں کرتی گئی۔</p> <p>میراجی نے اپنے بیان میں ہر ماہ کی نظموں کے جائزے کا ذکر کیا ہے۔ اب جائزہ شرح ہے نہ تفسیر اور نہ ہی تعبیر یا تجزیہ۔ جائزے میں کئی باتیں شامل ہو سکتی ہیں۔ البتہ میلارمے کی نظموں کے شارح چالس موراں کا ذکر کرتے ہوئے میراجی نے یہ کہا تھا کہ اس نے ہر نظم کو سمجھنے کے لیے جس انداز سے شرح لکھی تھی وہ انداز مجھے بہت پسند آیا۔ یہاں میراجی نے شرح کی بات کی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ میراجی نے شرح کا راستہ اپنایا ہے۔ مگر یہ شرح وہ نہیں ہے جو دیوان غالب کے شارحین نے کی ہے۔ یہ لوگ حد سے زیادہ شعری متن کے وفادارہوتے ہیں اس سے ہٹ کر اِدھر اُدھر کی کوئی بات نہیں کرتے۔ ناک کی سیدھ میں چلے جاتے ہیں۔ مگر میراجی متن کے اتنے وفادار نہیں ہیں۔ وہ متن سے زیادہ اپنی شعری موضوعیت کے وفادار نظر آتے ہیں۔ اگرچہ ان کے شعری موضوعات کی بنیاد متن ہی پر ہے مگر وہ متن سے ہٹ کر متن کی تحریک سے جو متنی منظرنامہ بناتے ہیں وہ میراجی کی موضوعیت کی تخلیق ہوتا ہے۔ گویا میراجی ایک سطح پر قاری ہیں اور دوسری سطح پر قاری سے بلند ہو کر خالق نو کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ اس مقام پر اگر میں یہ کہوں کہ نئی تھیوری کی قاری متنی تنقید <annotation lang="en">(Reader-Oriented Criticism)</annotation> کے تصورات سے بہت پہلے میرا جی متن کی تنقید کا یہ قرینہ پیش کر چکے تھے تو بالکل صحیح ہوگا۔</p> <p>میراجی کے ہاں نظم میں تفہیم کے اس فریم ورک کو واضح کرنے کے لیے میں جوش کی ایک نظم ”دیدنی ہے آج“ کی مثال پیش کرتا ہوں۔ میراجی اس نظم کی تفہیم سے پہلے اپنے اس طریق کار کے بارے میں بتاتے ہیں کہ جس سے وہ نظم کے منظرنامہ کو تخلیق کرتے ہیں:</p> <blockquote> <p>نظموں سے لطف اٹھانے اور ان کو صحیح طور پر سراہنے کے لیے میں نے آج تک یہی طریقہ اختیار کیا ہے کہ ایک بار پڑھ لینے کے بعد میں اس جگہ جا کھڑا ہوتا ہوں جہاں ایستادہ ہو کر شاعر نے اپنا کام ظاہر کیا ہے اور پھر آغاز سے لے کر نظم کو دوبارہ پڑھنا شروع کرتا ہوں یوں مرا ذہن اس کیفیت سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے جس میں اس نے شعر کہا تھا۔</p> <p>جوش کی نظم یہ ہے:</p> <heading>دیدنی ہے آج</heading> <verse> پہلو میں تابِ حسنِ جہاں دیدنی ہے آج نورِ چراغِ خلوتیاں دیدنی ہے آج کشتی رواں ہے نغمۂ ساقی کی لے کے ساتھ موجِ خرامِ آبِ رواں دیدنی ہے آج دم سازِ ابروباد ہے رندانہ بانکپن طرفِ کلاہِ پیرِ مغاں دیدنی ہے آج آرائشوں کی فکر نہ زیبائشوں کا ہوش وارفتگیِ لالہ رخاں دیدنی ہے آج حسنِ جواں، شرابِ کہن، سازِ برشگال عشرت سراے بادہ کشاں دیدنی ہے آج </verse> </blockquote> <p>میراجی نے اس نظم کے <annotation lang="en">unstated</annotation> منظرنامے، ماحول، فضا اور کیفیات کو کس طور پر اپنے متخیلہ میں دیکھا ہے وہ میراجی کے بیان میں موجود ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس حوالے سے وہ نظم کو ازسرنو تخلیق کر دیتے ہیں۔ اور زیادہ پرمعنی انداز میں کرتے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو جوش کی نظم جو اس کی <annotation lang="en">personal</annotation> تخلیق ہے۔ میراجی کے ازسرنو تخلیقی عمل سے شعری تفہیم میں آ کر <annotation lang="en">impersonal</annotation> ہو جاتی ہے۔ ہوا یہ ہے کہ میراجی کا اپنا <annotation lang="en">person</annotation> نظم کی تخلیق وتفہیم کا حصہ بن گیا ہے۔ گویا میراجی ایک ہی وقت میں نظم کا قاری ہے، شارح ہے اور ایک حد تک خالق بھی ہے۔ اس پورے عمل کو دیکھنے کے لیے میر اجی کے بیان کو دیکھیے، جس میں مختلف کڑیاں مل کر ایک مجموعی تاثر قائم کرتی ہیں:</p> <blockquote> <p>جوش کی اس نظم سے لطف اندوز ہونے کے لیے میں سب سے پہلے ذہنی طور پر کسی دریا کے کنارے جا پہنچتا ہوں۔ کنارے پر پیڑ ہیں، سبزہ ہے، آبادی کا دور دور تک نام و نشان نہیں، پیڑوں سے پرے دھرتی پھیلی ہوئی ہے، اور اس دھرتی پر کھیتوں کا جال بچھا ہے، لیکن وہ میری ذہنی گرفت کے افق کی چیزیں ہیں۔ میں دریا کے کنارے پر کھڑا ہوں، سامنے دریا وادی کی سلوٹوں میں بِس گھول رہا ہے۔ ہر طرف ایک چپ چاپ سی پھیلی ہوئی ہے مگر خاموشی اور سکون مکمل نہیں۔ کبھی کبھی کسی طائرکی آواز کان تک نہیں پہنچتی ہے۔ اوپر نگاہ کرتا ہوں تو آسمان پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن موسم ساون کا ہے، پھیلے ہوئے آسمان پر بادلوں کے جھرمٹ چھائے ہوئے ہیں اور ان کی کاجل ایسی سیاہی آنے والی بوندوں کا پیغام دے رہی ہے۔ اب بہت سی باتیں یکبارگی ہو جاتی ہیں۔ بوندا باندی شروع ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ ایک پھوار کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ نہ جانے کہاں سے سطح آب پر ایک بڑی سی کشتی نمودار ہو جاتی ہے۔ اس کشتی پر بہت سے لوگ ہیں، مرد بھی اور عورتیں بھی۔ اور پھر میرے ذہن کی قلابازی مجھے بھی ان کا ہم جلیس بنا دیتی ہے۔ اب مجھے صرف اس کشتی اور اس کے مسافروں کے ساتھ کا ہی احساس رہ جاتا ہے۔ دریا کا کنارا دور ہے، قریب صرف دریا کی لہریں ہیں۔ ”موجِ خرامِ آبِ رواں“ ہے جس کے ساتھ ہی ساتھ ”ساقی کے نغمے کی لے“ بھی جاری ہے، بھیگی ہوا چل رہی ہے، اور پل بھر کو اوپر نظر اٹھاتا ہوں تو آسمان پر ابر پارے لڑکھڑاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔</p> </blockquote> <p>جدید نظم کے لیے میراجی نے تفہیم کا جو فریم ورک مرتب کیا تھا اس میں ایک بہت اہم پہلو متن کی ذیلی ادائیگی <annotation lang="en">extra textual performances</annotation> کا ہے۔ میراجی نظم کے متن پر گہرا غوروفکر کرتے ہیں۔ ان کو گہری قدرت حاصل تھی کہ وہ متن کے اندر آسانی سے اتر جاتے تھے اور متن کے مطالب ان کے سامنے تیزی سے روشن ہوتے جاتے تھے۔ وہ متن کے اندر باہر دیکھنے کے بعد متن سے ہٹ کر کچھ سوچنے لگتے تھے۔ اور جب ان کی سوچ اور متخیلہ اوراق پر منتقل ہوتے تھے تو متن پیچھے رہ جاتا تھا اور جو کچھ دیکھنے کو ملتا <annotation lang="en">extra textual performance</annotation> کا عمل کہا جا سکتا ہے۔ میراجی متن کی <annotation lang="en">enlargement</annotation> بنا دیتے تھے۔ وہ بہت کچھ جو ہم کو متن میں نظر نہ آتا تھا اب میراجی کی ذیلی/اضافی کارگزاری سے نظر آنے لگتا تھا۔ مجھے یہ کہنا چاہیے کہ دراصل ان پر نظم اترتی تھی۔ نظم کو سمجھنا اور چیز ہے اور نظم کا اترنا دوسری چیز ہے۔ نظم کا سمجھنا ایک تنقیدی کارروائی ہے اور نظم کااترنا تخلیقی عمل ہے۔ میراجی کی گہری <annotation lang="en">involvement</annotation> کے باعث وہ نظم کو ترتے ہوئے دیکھتے تھے اس لیے ان کا تجربہ تنقیدی سطح سے بڑھ کر تخلیقی سطح کا تجربہ ہو جاتا تھا۔</p> <p>آیئے ہم قیوم نظر کی ایک نظم دیکھتے ہیں:</p> <blockquote> <heading>خیالات پریشاں</heading> <verse> دیوداروں کے ترش رو پتے جھڑ کے پیوند خاک ہو بھی چکے جھیل کی لٹ چکی ہے شادابی کب سے میداں میں پہنچی مرغابی ہر طرف نرم برف جمنے لگی سربرآوردہ ندی تھمنے لگی چیختی ہے ہوا گذرتے ہوئے کوہساروں کے پار اترتے ہوئے میں ہوں اور اک بسیط تنہائی بے کراں، لامحیط تنہائی راہ بھولا ہوا ہوں منزل کی کیا کہوں، کیا ہے کیفیت دل کی اشک آنکھوں سے بہتے جاتے ہیں کتنے افسانے کہتے جاتے ہیں سانس رکتا ہے لڑکھڑاتا ہوں ذرے ذرے سے خوف کھاتا ہوں ایک شفاف ٹکڑا بادل کا یا کوئی پرزہ نوری آنچل کا دور افق کے قریب لہرایا آرزوئوں نے دام پھیلایا میں نے چاہا کہ اپنی بات کہوں ہو سکے گر تو اس کے ساتھ چلوں میری رفتار برق وار نہ تھی اور اسے تابِ انتظار نہ تھی برف کے اک وسیع میداں پر اب کھڑا ہوں شکستہ حال و جگر راستہ ہے نہ رہنما کوئی میرے پہلو سے گم ہے سایہ بھی شام کی زردی آئی جاتی ہے مردنی بن کے چھائی جاتی ہے دم بخود ہے ہوا سرکتی ہوئی روح ہے یا بہار رفتہ کی </verse> </blockquote> <p>میراجی نے <annotation lang="en">extra textual performance</annotation> میں اس نظم کی ساخت کو آریائوں کی تاریخ اور تہذیب کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تخلیقی تنقید کا عمل ہے۔ نظم کا متن مناظر دکھاتا ہے یا پھر شاعر کے احساسات اور اس پر گزرنے والی تنہائی کا قصہ سناتا ہے۔ قصہ میں نے اس لیے کہا ہے کہ میراجی نظم کی ساخت کو بطور ایک قصہ کے بیان کرتے تھے۔ وہ نظم کے انسانی ڈرامے کو قصہ بنا کر سناتے تھے۔ اس کے بعد وہ نظم کے دوسرے پہلوئوں کا رخ کیا کرتے تھے۔ “خیالاتِ پریشاں“ میں پس منظر کی شکل میں انہوں نے آریائی تہذیب و تمدن کی قصہ آرائی کی ہے۔ نظم کی ظاہری صورت اس قسم کے کسی حوالے کا تقاضا نہیں کرتی ہے مگر میراجی کا لاشعور انہیں کشاں کشاں ایک قدیم دور میں لے گیا اور ماضی کے ایک جدید شاعر کی نظم کو انہوں نے قدیم تہذیبی حوالوں سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ یہی <annotation lang="en">extra textual performance</annotation> ہے۔ وہ سب کچھ جو متن کے ڈھانچہ میں نہیں تھا۔ نقاد کے وژن نے اسے متن کا تخلیقی ضمیمہ بنا دیا ہے۔ یہ نظم کی باز آفرینی ہی نہیںہے بلکہ اس سے کچھ زیادہ عمل کا قصہ ہے:</p> <blockquote> <p>آریہ جب پہلے پہل ہندوستان میں پہنچے تو انہیں دو چیزوں سے سابقہ پڑا: جنگل اور جنگلی۔ جنگلیوں کو تو انہوں نے مار بھگایا، اور وہ ملک کے دورافتادہ حصوں میں پہنچے، لیکن جنگل کے جادو سے بچ نکلنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ چناں چہ نہ صرف ان کی تہذیب کا گہوارہ جنگل ہی بنے، بلکہ ان کے تمام بنیادی خیالات کی نشوونما جنگلوں کی تنہائی اور گہرائی میں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خیالات میں کسی جنگل کے اتھاہ ساگر کے ایسا عمق پایا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ زندگی کا ڈھب بدلا، گائوں بنے۔ انہی گائوں میں سے کچھ بڑھ کر قصبے بنے۔ قصبے پھلے پھولے اور شہروں کے آثار نظر آنے لگے اور پھر تہذیب کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے یہ دور دراز سے آئے ہوئے باشندے مناظرِ فطرت سے دور ہوتے گئے، لیکن نسلی تجربے کے لحاظ سے اب بھی وہ تاثرات جو انہیں جنگلوں میں حاصل ہوئے ان کے نفسِ لاشعور میںموجود ہیں، اور اکثر یہ نسلی تجربات ادب کے ذریعے سے ظاہر ہوتے ہیں۔ قیوم نظر کی یہ نظم شاید ایک ایسا ہی نسلی تجربہ ہے۔</p> <p>آریائوں کو جنگل کے مختلف جلووں میں جو ہم آہنگی انسانی احساسات سے محسوس ہوئی ہو گی اس کا عکس بھی اس نظم میں موجود ہے۔ بظاہر اس میں ہر مظہرِ فطرت محض بیانیہ معلوم ہوتا ہے، لیکن ہر خارجی چیز کی کچھ نہ کچھ داخلی اہمیت بھی ہے۔ ”بادل کا شفاف ٹکڑا“ صرف بادل کا ٹکڑا ہی نہیں ہے اور یہی حال غیر شاداب جھیل، چیختے ہوئے گزرتی ہوئی ہوا(آخر میں سرکتی ہوئی دم بخود ہوا) سربرآوردہ ندی، میدان میں پہنچی ہوئی مرغابی، دیودار اور ترش روپتوں کا ہے۔ یہ سب کسی ناٹک کے کردار ہیں۔ اور ان کے ساتھ، خوف دلاتے ہوئے ذرے، شام کی زردی، نرم برف اور بسیط تنہائی، یہ سب کچھ ان کرداروں کے (یا شاعر کے) دل کی کیفیت کی ترجمانی کو موجود ہیں۔</p> </blockquote> <p>جدید نظم کے فریم ورک میں ایک نظم ایسی بھی ملتی ہے جس کے شعری سٹرکچر سے میراجی مطمئن نہیں تھے۔ وہ اس سٹرکچر کو معنوی ترسیل کے رستے کی رکاوٹ بھی قرار دیتے تھے۔ راشدؔ کی نظم ”زنجیر“ اس نوعیت کی مثال ہے۔ اس نظم کا دقتِ نظر سے جائزہ لیتے ہوئے میراجی نے نظم کی معنوی ساخت پر کچھ باتیں کی تھیں۔ ان کا کہنا تھا:</p> <blockquote> <p>راشد کی اس نظم میں ایک ایسے ملک کا نقشہ نہایت نفیس کنایوں اور استعاروں سے بیان کیا گیا ہے جو سالہا سال سے غلامی کی بے بسی اور مشق میں زندگی بسر کر رہا ہو۔ نظم کے دوسرے اور تیسرے بند کا مفہوم نسبتاً آسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہے، لیکن پہلا بند ذرا الجھن میں ڈالنے والا ہے۔ دوسرے بند میں پیلۂ ریشم اور تیسرے بند میں اس ہنگامِ باد آورد کے معنی جلد ہی متعین ہو جاتے ہیں، لیکن پہلے بند میں سنگِ خارا، خارِ مغیلاں، دوست وغیرہ کے استعارے ذرا مبہم دکھائی دیتے ہیں۔ اگر مفہوم کا تسلسل قائم کرنا چاہیں تو دوسرے بند کو پہلا اور پہلے کو دوسرا بند سمجھ کر پڑھنا چاہیے۔ یوں صرف دو تصور قائم ہو سکیں گے۔</p> </blockquote> <p>نظم کی معنوی ساخت کے الجھائو کو دور کرنے کے لیے انہوں نے نظم کی <annotation lang="en">restructuring</annotation> کی تھی۔ اور یہ بتایا تھا کہ نظم کے تسلسل کو آسان شکل میں رکھنے کے لیے مصرعوں کی ترتیب بدلنی ہو گی۔</p> <p>راشد کے ہاں نظم کی ترتیب یوں تھی:</p> <p>میراجی نے نظم کی ساخت کو پرمعنی بنانے کے لیے جوترتیب دی تھی وہ یہ ہے:</p> <table> <tr> <td>مصرعوں کا مجوزہ شمار</td> <td>موجودہ شمار</td> </tr> <tr> <td>۱</td> <td>۸</td> </tr> <tr> <td>۲</td> <td>۹</td> </tr> <tr> <td>۳</td> <td>۱۰</td> </tr> <tr> <td>۴ تا ۸</td> <td>۳ تا ۷</td> </tr> <tr> <td>۹ تا ۱۳</td> <td>۱۱ تا ۱۵</td> </tr> <tr> <td>۱۴ تا ۱۵</td> <td>۱ تا ۲</td> </tr> </table> <p>نظم ”زنجیر“ کی ساخت میں مصرعوں کی ترتیب بدل دیے جانے سے نظم معنویت کی نئی طاقت حاصل کرتی ہے۔ نظم پہلی ساخت کے مقابلے میں زیادہ رواں اور نسبتاً سلیس ہو جاتی ہے۔</p> <p>اپنی معروضات بیان کرنے کے بعد میں دوچار اور باتیں کہنے کی اجازت چاہوں گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرؔاجی کی تنقید اور جدید نظم پر اس کے تخلیق کردہ فریم ورک کو اردو کے نقادوں نے مناسب اہمیت نہیں دی ہے۔ کسی نے میراجی کے بنائے ہوئے شاعری کے تنقیدی نظام کو پرکھنے کی کوشش نہیں کی ہے۔</p> <p>کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ کیا میراجی نے جدید شاعری کے تصورات کی کوئی فارمولیشن <annotation lang="en">(formulation)</annotation> کی ہے؟ وہ شاعری کو کیا سمجھتا تھا؟ اس کی شعری تھیوری کیا تھی؟ اس کے نزدیک شاعری کو شاعری بنانے والے اوصاف کیا تھے؟ میں مختصراً یہ کہوں گا کہ میراجی ایک <annotation lang="en">visionary</annotation> نقاد تھا۔ اس کے وژن نے جدید شاعری کے کڑے وقت میں جدید نظم کی تنقید کا فریم ورک بنایا۔ ان کے شعری جائزوں پر مشتمل اس نظم میں جیسی وقیع کتاب کو جدید شعری تنقید کی بوطیقاقرار دیا جا سکتا ہے۔</p> </section> </body>
0028.xml
<meta> <title>میرا جی کی فکری جہتیں</title> <author> <name>سعادت سعید</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 4</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/10_sadat_saeed_bunyad_2013.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>6399</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
میرا جی کی فکری جہتیں
6,399
Yes
<body> <section> <p>میرا جی کی نظمیں کائنات کے ازلی و ابدی سلاسل کی علامتی تعبیرو تظہیر میں یکتا و نادر طرز بیان کی حامل ہیں۔ انھوں نے روشنی کی تلاش میں ان اندھیروں کا سفر بھی کیا ہے جنھیں عام طور پر اخفائے حال کی مہر ثبت کرنے یا بالائے طاق رکھنے میں عافیت جانی جاتی ہے۔ ستر پوش تہذیب کا ننگا پن کاروباری مصلحتوں کے لیے تو جائز قرار پا چکا ہے لیکن عام انسان کو سرعام اپنے اندر کے تعفن کو باہر نکالنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ میرا جی نے مصلحت آمیز خیر کے مقابلے میں شر انگیز راستی کو اپنانے کا اعلان کیا۔ یہ شر انگیز راستی کیا ہے۔ خودمیرا جی کی زبان میں ملاحظہ ہو:</p> <blockquote> <p>بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ زندگی کا جنسی پہلو ہی میری توجہ کا واحد مرکز ہے۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ جنسی فعل اور اس کے متعلقات کو میںقدرت کی بڑی نعمت اور زندگی کی سب سے بڑی راحت اور برکت سمجھتا ہوں۔ اور جنس کے گرد جو آلودگی تہذیب و تمدن نے جمع کر رکھی ہے وہ مجھے ناگوار گزرتی ہے، اس لیے رد عمل کے طور پر میں دنیا کی ہر بات کو جنس کے اس تصور کے آئینے میں دیکھتا ہوں جو فطرت کے عین مطابق ہے اور جو۔۔۔۔ میرا آدرش ہے۔</p> </blockquote> <p>روسو <annotation lang="en">(Jean-Jacques Rousseau)</annotation> کے معاہدہ عمرانی میں موجود فطری زندگی کے تصور کو یاد کیجیے کہ جس میں اس حقیقت کے رخ سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوا تھا لیکن تہذیب و تمدن نے اسے پا بہ زنجیر کر دیا ہے۔ اور پھر ہیولاک ایلس <annotation lang="en">(Henry Havelock Ellis)</annotation> کی تحقیقات اور فرائڈ <annotation lang="en">(Sigmund Freud)</annotation> کی انٹر پریٹیشن آف ڈریمز <annotation lang="en">(The Interpretation of Dreams)</annotation> کو یاد کیجیے، بقیہ ڈھکا چھپا سچ بھی طشت از بام ہو جائے گا۔ دیوی اتھینہ <annotation lang="en">(Athena)</annotation> کے مندر میںمیڈوسا <annotation lang="en">(Medusa)</annotation> کا ریپ، ہیلن <annotation lang="en">(Helen)</annotation> کی حکایات، الف لیلیٰ میں بادشاہوں کی بدکار منکوحائیں، یوسف سوداگر کی داشتہ شہزادی، مادام بواری <annotation lang="en">(Madame Bovary)</annotation>، گستاوفلابیئر <annotation lang="en">(Gustave Flaubert)</annotation>، لیڈی برڈ <annotation lang="en">(Ladybird)</annotation>، لارنس <annotation lang="en">(D.H.Lawrence)</annotation>، لیڈی چیٹرلیز لور <annotation lang="en">(Lady Chatterley's Lover)</annotation>، سعادت حسن منٹو کے تلخ انکشافات، خان فضل الرحمن کے مسلک لذتیہ کے تحت لکھے گئے حقائق اور اپنے مفتی جی کے مفتیانے میں ہونے والی مفتو مفت جسمانی کار گزاریاں اور پھر علی پور کا ایلی، واجدہ تبسم کا ”شہر ممنوع“ اور عصمت چغتائی کا ”لحاف“!</p> <p>اے ”طلاموس کبیر“ ہمارے علم میں مزیداضافہ فرما اور ن۔ م۔ راشد کو کمسن جہاں زاد کے عذاب سے بچا۔ ان کی شاعری میں سفید فام عورت سے لیا جانے ولا انتقام مسز سلامانکا کی آنکھوں میں دھول بن کر جا گھسا ہے۔ وارث شاہ نے ہیر رانجھا میں موج میلہ لگایا۔ اگر اس امر کو تحقیقی غلطی نہ جانا جائے تو میر اثرؔ نے خواب و خیال میں میرا جی کے آدرشوں ہی کو ثابت کیا ہے اور ”سحرالبیان“ (تعشق کی آپس میں باتیں کریں)، ”گلزار نسیم“ میں ”ہے ہے مرا پھول لے گیا کون۔ ہے ہے مجھے خار دے گیا کون“۔ یعنی ہے ہے مرا گل لے گیا کون۔ ہے ہے مجھے جل دے گیا کون! اور روایتی شاعروںکے تصوف میں یہ بھی جائز تھا ”گھر آ یا تو آج ہمارے کیا ہے یاں جو نثار کریں۔ الا کھینچ بغل میں تجھ کو دیر تلک ہم پیار کریں“ اور اپنے چچا غالب کیا کسی ڈومنی سے ہمکلام ہو رہے ہیں اللہ اللہ! ”غنچہ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں۔ بوسے کو پوچھتا ہوں میں منہ سے مجھے بتا کے یوں“ الاماں الحفیظ کچھ فلمیں یاد آگئیں ’لولیتا‘ <annotation lang="en">(Lolita)</annotation>، ’فینی ہل‘ <annotation lang="en">(Fanny Hill)</annotation>، ’اٹ سٹارٹڈ ود اے کس‘ <annotation lang="en">(It Started with a Kiss)</annotation> ’ارمالا ڈوس‘ <annotation lang="en">Irma la Douce</annotation>، کہاں سے آئے یہ جھمکے؟، کس نے دیے یہ جھمکے ؟اس کے بدلے میں کیا کوئی من مرضی سے امرائو جان اد انہیں بن سکتی؟، غلام عباس کی ”آنندی“ نے سب کچھ کھول کے رکھ دیا۔ نظیر اکبر آبادی کی پکار سنیے، ”دل میں کسی کے ہرگز نے شرم نہ حیا ہے۔ آگا بھی کھل رہا ہے پیچھا بھی کھل رہا ہے“ تو صاحبو پردہ نہ جانے کس کی عقل پر پڑا ہے؟ اور میں نے زیادہ تر اس سیناریو پر توجہ دی ہے کہ جس میں ابھی ہماری لڑکیوں نے انگریزی پڑھنے کے بغیر ہی بہت سے سین دکھادیے ہیں۔ عینی آپا کچھ چاندنی بیگم کے بارے میں بھی ارشاد ہو جائے۔ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا۔</p> <p>اے ”طلاموس کبیر“ میرا جی کی خطائیں بھی بخش کہ انھوں نے اگر ڈھول کا پول کھولا ہے تو ہمیں پول کا ڈھول کھولنے کی تو اجازت ہونی چاہیے یعنی ”عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے میرا کام۔ مجنوں کو بر اکہتی ہے لیلیٰ مرے آگے“ اور یہ شکر ہے کہ لیلیٰ مجنوں کی منکوحہ نہیں تھی ورنہ تو یہ شاعر بھی حدود کی زد میں آتے آتے بچے ہیں۔ بایں ہمہ صرف میرا جی کو کارنر نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا ایک بڑا حمام ہے جس میں ہر شخص کو یہ لگتا ہے کہ دوسرے ننگے ہیں اور اس نے طالبانی برقعہ اوڑھ رکھا ہے یعنی نہ اس کا پتہ چلتا ہے کہ وہ مرد ہے کہ عورت!انتظار حسین صاحب اپنی نانی اماں سے کہانیاں سنتے رہے اور ہم اپنی نانی کے افغانی برقعے میں گھسے دم دبائے دم سادھے بیٹھے رہے۔ کچھ کرنے کی ہمت نہ ہوئی، تو اتنا ضرور سمجھا کہ دنیا کے حمام میں دوسرے لوگ مساج کروا رہے ہیں۔ میرا جی کی نظم ”برقع“ اس ضمن میں ہماری رہنمائی کر سکتی ہے:</p> <blockquote> <verse> آنکھ کے دشمنِ جاں پیراہن آنکھ میں شعلے لپکتے ہیں، جلا سکتے نہیں ہیں ان کو آنکھ اب چھپ کے ہی بدلہ لے گی نئی صورت میں بدل جائے گی! </verse> </blockquote> <p>تو جناب تہذیب و تمدن کے برقعے کے نیچے کیا کچھ ہو رہا ہے؟ چوری چھپے کی وارداتیں !کالج نامے سیڑھی نامے اور پھر نامے ہی نامے۔ میرا جی کہتے ہیں:</p> <blockquote> <verse> آنکھ اب چھپ کے ہی بدلہ لے گی، جھلملاتے ہوئے پتے تو لرزتی ہوئی کرنوں کی طرح سایوں میں کھو جائیں گے اور بھڑکتے ہوئے شعلے بھی لپکتے ہوئے سو جائیں گے، دل میں سوئی ہوئی نفرت سگِ آوارہ کی ماننداندھیرے میں پکار اٹھے گی ہم نہ اب آپ کو سونے دیں گے۔ اور چپکے سے یہ آسودہ خیال آئے گا آج تو بدلہ لیا ہم نے نگاہوں سے چھپے رہنے کا۔ لیکن اب آنکھ بھی بدلہ لے گی۔ نئی صورت میں بدل جائے گی! </verse> </blockquote> <p>میرا جی نے کہا سب کچھ جنس تو نہیں ہے۔ اس کی اہمیت سے انکار نہیں ہے لیکن زمین، انسان، زندگی اور کائنات کے اور بھی بہت سے مظاہر ہیں ان کا کھوج بھی تو لگانا ہے سو ازلی و ابدی اندھیروں، تنہائیوں، خلوتوں اور جدائیوں کا حساب کتاب بھی تو رکھنا ہے۔ ڈارون سے کیا گلا، میرا جی کہتے ہیں ”میں کہتا ہوں اجالے کو کون پسند نہیں کرتا۔ جب سے یہ دنیا بنی ہے۔ جب سے آدم کی اولاد اپنے جد امجد کے گناہ کی پاداش میں کرہ ارضی پر رہنے لگی ہے۔ جب سے بندر پیڑ کی ٹہنیوں سے اتر کر زمین پر چلنے پھرنے لگا ہے۔ اجالے اور اندھیرے کی کشمکش جاری ہے۔“ میرا جی نے اس خیال کی شرح میں کئی نظمیں لکھی ہیں۔ ان کی شاعری میں اندھیروں، اجالوں اور سایوں کے مظاہر اپنے عروج پر نظر آتے ہیں۔ بقول ن۔ م۔ راشد:</p> <blockquote> <verse> میر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو میر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو نارسا ہاتھ کی نمناکی ہے ایک ہی چیخ ہے فرقت کے بیابانوں میں ایک ہی طول المناکی ہے ایک ہی روح جو بے حال ہے زندانوں میں ایک ہی قید تمنا کی ہے عہد رفتہ کے بہت خواب تمنا میں ہیں اور کچھ واہمے آئندہ کے پھر بھی اندیشہ وہ آئینہ ہے جس میں گویا میر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو کچھ نہیں دیکھتے ہیں محور عشق کی خود مست حقیقت کے سوا اپنے ہی بیم و رجا، اپنی ہی صورت کے سوا اپنے رنگ، اپنے بدن، اپنے ہی قامت کے سوا اپنی تنہائی جانکاہ کی دہشت کے سوا دل خراشی و جگر چاکی و خوں افشانی ”ہوں تو ناکام پہ ہوتے ہیں مجھے کام بہت“ ”مدعا محو تماشائے شکست دل ہے“ ”آئنہ خانے میں کوئی لیے جاتا ہے مجھے“ ”رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہ تھا“ چاند کے آنے پہ سائے آئے سائے ہلتے ہوئے، گھلتے ہوئے کچھ بھوت سے بن جاتے ہیں (میر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو اپنی ہی ذات کی غربال میں چھن جاتے ہیں) دل خراشیدہ ہو خوں دادہ رہے آئنہ خانے کے ریزوں پہ ہم استادہ رہے چاند کے آنے پہ سائے بہت آئے بھی ہم بہت سایوں سے گھبرائے بھی میر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو آج جاں اک نئے ہنگامے میں در آئی ہے ماہ بے سایہ کی دارائی ہے یاد وہ عشرت خونناب کسے؟ فرصت خواب کسے </verse> </blockquote> <p>ن۔ م۔ راشد کو فرصت خواب تھی یا نہیں؟ اس بات کو سر دست ادھورا چھوڑتے ہیں لیکن میرا جی نے اپنے عہد کے علمی، ادبی، سیاسی اور تہذیبی منظر نامے پر گہری نظر ڈالی ہے۔ یہ منظر نامہ ان کے لہو کی گردشوں میں شامل ہو کر صفحہ قرطاس پر نقش ہو جاتا ہے۔ اور وہ کہتے ہیں: ”میں اپنے ملک کے موجودہ سماج کا ایک جیتا جاگتا فرد بھی ہوں۔ میری خواہشات اسی سماج کی تابع ہیں۔ میرا دل پرانی فضا میں سانس لیتا ہے مگر میری آنکھیں اپنے آس پاس اپنے سامنے دیکھتی ہیں۔ اور اس مشاہدے کا نقش میری نظموں میں ہر جگہ موجود ہے۔“ </p> <heading>استعارے کا جادو اور میرا جی کے سماجی معنی</heading> <p>ممتازحسین نے اپنے مضمون ”رسالہ در معرفت استعارہ“ میں مابعد الطبیعیاتی منطق کی احتجاجی صورت حال کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔</p> <blockquote> <p>اگر آج آرٹ عہد عتیق کے طلسمات اور اساطیر اور قرون وسطی کی اخلاقیات سے آزاد ہے تو کل وہ باقیات قرون وسطی اور طبقات نظام کی سیاسیات سے بھی آزاد ہو گا۔ یہ ایک عجیب کشمکش ہے لیکن اس کشمکش سے وہ سحر اور وہ آرٹ پیدا ہوں گے جس کا خواب یورپ کے رومانی شعرا نے اپنی تحریک کے عروج کے زمانے میں دیکھا تھا۔ رومانی شعرا نے سرمایہ دارانہ رشتوں کی مخالفت میں ہی شاعری کی ہے۔ انھوں نے اپنے احساسات اور ندائے تخیل سے اس بات کی تصدیق کی کہ انسان ایک ہے، وہ ناقابل تقسیم ہے۔ وہ انسان ہے نہ کہ آقا اور غلام، زمیندار اور کسان، کام دار اور سرمایہ دار، منشی اور کوتوال۔ اس میں شبہ نہیں کہ انھوں نے اس بغاوت کو بہ قوت جذبہ پروان چڑھایا اور عقل کی مخالفت کی۔ لیکن جو چیز سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ انھوں نے سرمایہ دارانہ طبقے کی عقل کے خلاف بغاوت کی، نہ کہ انسانی عقل کے خلاف ورنہ ورڈز ورتھ اپنے تخیل کو عقل مرتفع کا نام کیوں دیتا۔ انھوں نے اس عقل کے خلاف بغاوت کی جو اسیر سود و زیاں تھی۔ جو انفرادی تگ و دو کی بہیمانہ قدر کو عام کیے ہوئے تھی اور جو احساسات و جذبات کی اطلاعات سے اس لیے کنارہ کش تھی کہ ان کا فیصلہ تاجر کے استحصال کے خلاف تھا۔</p> </blockquote> <p>میرا جی نے اپنے دور کی نیم صنعتی اور نیم جاگیردارانہ زندگی کے تناظر میں جو شاعری کی ہے وہ بھی بہ اعتبار جوہر احتجاج اور بغاوت کے آثار سمیٹے ہوئے ہے۔ انھوں نے خواب غیر معمولی جذبات اور حقیقت کے عناصر سے اپنی نظموں کا فیبرک تیار کیا۔</p> <p>ممتاز حسین کے اس بیان کی روشنی میںمعاملہ یوں ہے کہ استعارے کی دنیا میں جو مستعار منہ کے اوصاف کو مستعارلہ کے اوصاف میں جمع کر دیا جاتا ہے اور مستعارلہ کا ذکر گرا دیا جاتا ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ مستعارلہ مستعارمنہ سے اوصاف حقیقی یا اپنی معنویت میں متحد ہو جاتا ہے۔ لیکن استعارہ مستعار جو ٹھہرا اس میں یہ اتحاد جزوی ہوتا ہے نہ کہ کلی، کیونکہ مستعار منہ مستعارلہ سے مماثل ہوتے ہوئے بھی متغائر ہوتا ہے۔ اس لیے اس اتحاد کے باوصف ان میں تخالف بھی موجود رہتا ہے۔ مستعارمنہ کے حقیقی معنی کی تردید مستعارلہ کا حقیقی معنی کرتا ہے۔ اور یہ ان کے اسی اتحاد اور تخالف کا نتیجہ ہے کہ اصل معنی مستعار منہ سے تجاوز کرتا ہے یا جست کرتا ہے، جو ایک ترکیبی معنی ہوتا ہے۔ یہ معنی جو حقیقت اور مجاز کے اتحاد و تخالف سے پیدا ہوتا ہے، اصل حقیقت کو توسیع دیتا ہے نہ کہ اسے قطعیت کے ساتھ محدود کرتا ہے۔ حقیقت خواہ کسی ذرے کی ہو یا انسان کی، اپنے حجابات میں لامحدود ہے کیونکہ وہ کائنات کی حقیقت سے بے شمار رشتوں میں مربوط ہے۔ کسی بھی حقیقی تجربے کی حرف بہ حرف سچائی کو صرف استعارے ہی کے ذریعے پیش کیا جا سکتا ہے جو اس کو قطعیت کے ساتھ محدود نہیں کرتا بلکہ اس کی لامحدودیت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ اشارے کو یقینا تابناک ہونا چاہئے۔ لیکن اس میں وہ ابہام بقول غالبؔ تو رہے گا جس پر تشریح قربان ہوتی ہے۔ کیونکہ حقیقت کا لامحدود پہلو ہمیشہ مبہم ہوتا ہے۔ یہاں مسئلہ حسن معنی کے امکانات پر مر مٹنے کا ہے نہ کہ متعین تصورات میں گھر کے رہ جانے کا۔ استعارہ حقیقت کا آئینہ ہوتا ہے، نہ کہ اس کا پردہ حجاب۔ اس کی رمزیت حقیقت کی طرف ایک جنبش نگاہ کے کرنے میں ہے نہ کہ اس کے پردہ خفا کے بننے میں۔ حقیقت کے چہرے سے پردہ اٹھانے ہی کا نام استعارہ ہے۔ جہان معانی کو براہ راست منکشف کرنے کے لیے ذہن آدم نے اگر اسباب نطق سے کوئی آلہ کار وضع کیا ہے تو وہ استعارہ ہی ہے۔ ممتاز حسین کی ان معروضات کی روشنی میں میرا جی کی نظموں میں استعمال ہونے والے استعاروں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حقیقت کو پیش کرنے کے استعاراتی طریقے کو توسیعی انداز سے استعمال کیا ہے اور اردو نظم کو جدید علامتی شعری مزاج کے خمیر میں خوش اسلوبی سے گوندھا ہے اس ضمن میںاگر کسی قاری کو ابہام یا الجھائو کی شکایت پیدا ہوتی ہے تو اسے پرانے تشبیہی اور استعاراتی طریق کار کے تالاب سے باہر آ کر میرا جی کی شاعری کا مطالعہ کرنا ہو گا۔</p> <blockquote> <verse> کیسے تلوار چلی، کیسے زمیں کا سینہ ایک لمحے کے لیے چشمے کی مانند بنا پیچ کھاتے ہوئے یہ لہر اٹھی دل میں مرے کاش! یہ جھاڑیاں اک سلسلۂ کوہ بنیں دامنِ کوہ میں میں جا کے ستادہ ہو جائوں ایسی انہونی جو ہو جائے تو کیوں یہ بھی نہ ہو خشک پتوں کا زمیں پر جو بچھائے بستر وہ بھی اک ساز بنے ساز تو ہے، ساز تو ہے نغمہ بیدار ہوا تھا جو ابھی، کان ترے کیوں اسے سن نہ سکے سننے سے مجبور رہے پردۂ چشم نے صرف ایک نشستہ بت کو ذہن کے دائرۂ خاص میں مرکوز کیا یاد آتا ہے مجھے کان ہوئے تھے بیدار خشک پتوں سے جب آئی تھی تڑپنے کی صدا اور دامن کی ہر اک لہر چمک اٹھی تھی پڑ رہا تھا کسی تلوار کا سایہ شاید جو نکل آئی تھی اک پل میں نہاں خانے سے جیسے بے ساختہ انداز سے بجلی چمکے </verse> </blockquote> <p>اس نظم میں آگے چل کر میرا جی نے جل پری، دامن، آلودہ، روپوشی، جھاڑیاں، دلھن، دولھا، نہاں خانہ، گرم بوندیں، آبی، پائوں، دھارا گھٹا، شق ہونا، برق رفتاری، کرمک بے نام، بنسری، گوالا، دھندلی نظر، نمناکی اور بہت سے دوسرے الفاظ کے توسیعی معانی سے زندگی کے بے فیض اور بے مصرف ہونے کا جو نقشہ کھینچا ہے اسے استعارے کے محدود اور حقیقی معانی کے رسیا نقاد استمنا بالید تک محدود کر کے میرا جی کی جنسی بے راہ روی پر اپنی جاگیردارانہ اخلاقیات کی مہر ثبت کرنے کا جتن کرتے ہیں۔ جب خواب میں خیال کو کسی سے معاملہ ہو جاتا ہے اور موجہ گل کو نقش بوریا پایا جاتا ہے تو استعارے کے توسیعی معانی اسے لاف دانش غلط و نفع عبادت معلوم یا ہرزہ ہے نغمہ زیر و بم ہستی و عدم کے خیالات سے ملا دیتے ہیں یوں انفرادی عمل اپنے توسیعی معنی کے حوالے سے کائناتی ہو جاتا ہے۔ اور میرا جی کی یہ نظم ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے کے ورائ الحقیقت معانی کا ابلاغ کرتی نظر آتی ہے۔</p> <p>میراجی کی شاعری اردو نظم کے ارتقائی سفر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی نظمیں راشد کی نظموں کی طرح اردو شاعری کی روایت سے دوہرے انحراف کی حامل ہیں، یعنی انھوں نے ایک تو غزل اور اس کے لوازمات سے پورے طور پر گریز کیا ہے اور دوسرے حالی کے بعد بننے والی اردو نظم کی روایت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ میراجی نے اردو نظم کے فکری اور احساساتی انجماد کو دور کرنے کے لیے اپنی نظموں میں انکشاف ذات کے انفرادی اظہار اور خارجی ماحول کے حسیاتی موادکی ترسیل کی۔ یوں اردو نظم ایک نئے لہجے سے آشنا ہوئی۔ انھوں نے آزاد نظم کے تجربوں کے ساتھ ساتھ پابند نظم کے نئے امکانات کی دریافت بھی کی۔ ان نئے تجربوں کا بنیادی مقصد احساسات و جذبات کی معنوی وسعتوں کو نظم کی پوشاک بخشنا تھا۔ ان کی نظموں میں سادہ معنوی فکری اور جذباتی رشتوں کے سماجی عمل کی بجائے تجربات و کوائف کی پیچیدہ الجھی ہوئی اور علامتی شکلیں ملتی ہیں۔ ان کے عہد کے مروجہ شعری تجزیوں کے اصول ان کی نظموں کی تشریح و توضیح سے قاصر تھے۔ ان نظموں کی تفہیم کے لیے نئے طریق کار کی تشکیل کی ضرورت تھی اس عہد میں ان کی نظموں کو مبہم، پیچیدہ اور الجھی ہوئی کہا گیا۔ آنے والے عہد نے ان کی تفہیم کے لیے تنقیدی اصول وضع کیے۔ عوام کے لیے ہیئت کے تجربے نامانوس تھے۔ میراجی کے تجربوں کے انوکھے پن نے قاری کے لیے مشکل کے اور سامان پیدا کیے۔ میراجی فرانسیسی علامت پرستوں، سرریلزم، یونگ کے اجتماعی لاشعور، فرائیڈ کی جنس اور لا شعور کی تحریکات کا مطالعہ کر چکے تھے۔ انھوں نے ہندی دیو مالا اور ہندی فلسفے سے بھی گہرا استفادہ کیا تھا۔ فرانسیسی علامت پسندوں نے انہیں ذاتی اور انفرادی ذات کی شناخت کا جوہر عطا کیا۔ سرریلزم کی تحریک نے انہیں آزاد تلازمات <annotation lang="en">(Free Association)</annotation> سے روشناس کرایا۔ فرائیڈ اور یونگ نے ان کے ذہن کے نفسیاتی سانچے کی تعمیر کی۔</p> <p>میراجی نے اپنی ذاتی شناخت کے حوالے سے معروضی اشیا کا مطالعہ کیا۔ ان کی ذاتی زندگی ادب میں ایک اسطورکی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اس بات سے کسی کو بھی مفر نہیں ہے کہ ادب میں سب سے زیادہ قابل توجہ شخصیتیں وہ ہوتی ہیں جن کے گرد جھوٹ اور الزامات کے جال بنے جاتے ہیں۔ ایسے فن کار نیم اساطیری ہوتے ہیں، جن کے حقیقی کردار ہمیشہ کے لیے بے سروپائی کی اوٹ میں چھپ جاتے ہیں۔ میراجی کی شعری شخصیت کے بارے میں یہ بات بڑے ہی پتے کی ہے میراجی کے ہاں رویے کے غیر معتدل اور پراسرار ہونے کے رجحانات ملتے ہیں۔ ان کی ذہنی الجھنوں نے اصل مسرت اور اصل حقیقت کے باہمی تصادم ہی سے جنم لیا تھا۔ تمدنی انا ان کی فطری انا سے متصادم ہوتی ہے۔ ان کی اندھی خواہشوں اور فرد کی جبلی زندگی پر سماجی دبائو نے انہیں ذہنی انتشار کا شکار بنایا۔ اس قسم کا انتشار فرد میں اذیت پسندی کے رجحانات پیدا کرتا ہے اور یہ کیفیت میراجی کی شاعری میں عمومی ہے۔ میراجی اپنی زندگی میں باپ کے مشفقانہ رویے سے محروم رہے۔ ماں نے انہیں محبت دی۔ ان کے ہاں ماں کی یہ محبت نفسیاتی الجھنوں کے کئی در وا کرتی ہے اور وہ روح کی ان گہرائیوں تک جا پہنچتے ہیں جہاں تہذیب اور جنگل کے قوانین کا تصادم عمومی رنگ اختیار کر لیتا ہے۔</p> <p>میراجی نے تجزیے، تفتیش اور جستجو کے میلانات سے استفادہ کرتے ہوئے نامعلوم کی اتھاہ گہرائیوں کو معلوم کی پوشاک بخشنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے شعور و لا شعور کے میدانوں اور دلدلوں میں بسی کائنات کی نقاب کشائی کا فریضہ سر انجام دیا۔ وہ عدم کو وجود میں لانے اور غیب کو پردہ شہود پر لانے کے عمل میں مصروف رہے اور اپنے جذبات کی بعض فکری بنیادوں کو بڑی عمدگی سے شعر کا لباس عطا کیا۔</p> <p>میرا جی کی نظم، ”ارتقا“، ”انجام“ اور ”خدا“ میں اپنے عہد کے معاشرتی مسائل، ارد گرد پھیلی زندگی کے انحطاطی پہلو اور ذاتی دکھ ہم آہنگ ہو کر ابھرتے ہیں۔ ان کی نظم عہد کے ساتھ ساتھ ان کی ذاتی نا آسودگی کی صورت حال کی وضاحت بھی کرتی ہے۔ اس نظم میں نظم کی تین ہیئتیں (معریٰ، پابند اور آزاد) استعمال ہوئی ہیں۔ پابند حصہ یاد کے عمل کی پیش بندی کرتا ہے۔ معریٰ حصے میں خیال دھیرے دھیرے پھیلتا ہے۔ تیسرا حصہ آزاد ہے، جس میں یاد کا مرکز گم ہو جاتا ہے۔ خیال ہمہ گیری اور ہمہ جہتی کے پہلوئوں سے ہمکنار ہوتا ہے۔ چناںچہ موضوع اور تکنیک کے اعتبار سے ان کی یہ نظم بڑی کامیاب ہے۔ ان کے مجموعے تین رنگ میں نظم ”سمندر کا بلاوا“ بڑی عمدہ نظم ہے۔ سمندر اشیا کا مامن ہے۔ ہر شے اس میں سے نمودار ہوتی ہے اور آخر الامر اسے اسی میں شامل ہونا ہوتا ہے۔ صحرا کی لامحدود وسعتیں پہاڑوں کی قوتیں اور گلستان کے ذخیرے سمندر کے بلاوے کے منتظر ہیں۔ جب سمندر کا بلاوا آتا ہے وہ اس میں جا ملتے ہیں۔ سمندر کی علامت بیک وقت خالق کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ موت کی علامت بھی ہے۔ وہ اشیا کو جنم بخشتا ہے اور زوال کا پیغام بھی سناتا ہے۔ سمندر انسانی لاشعور کی طرح تاریک، ہمہ گیر، وسیع اور پھیلا ہوا ہے۔ میراجی کے ہاں استعارہ علامت کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اگرچہ تمام شاعرانہ علامات بجائے خود استعارے ہوتی ہیں یا استعاروں سے پیدا ہوتی ہیں لیکن علامت کو بہر طور استعارے پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ استعارہ صرف اس وقت علامت کا روپ اختیار کرتا ہے جب شاعر اس کے ذریعے کوئی ایسا مثالی مضمون جو اور وسیلوں سے ادا نہ کیا جا سکے، بیان کرے۔ استعارہ اس وقت علامت بنتا ہے جب وہ اظہار کا واحد ذریعہ ہو۔ استعارہ جب علامت کی حدود میں آتا ہے تو اسے تفاعلی استعارہ کہا جاتا ہے۔</p> <p>میراجی کے ہاں علامت کے استعمال کی بہترین مثال ان کی نظم ”ابولہول“ ہے جس میں ابولہول کو ماضی کی علامت قرار دے کر اسے حال کے لمحوں کی دہشت اور خوف سے آزاد بتایا گیا ہے۔ پرانی قدروں سے چمٹے ہوئے لوگ نئے زمانے کے احساس سے بے خبر، اب بھی بے جان ابولہول کی طرح زندگی کے صحرا میں ایستادہ ہیں۔</p> <p>بیسویں صدی کے انسان کا آشوب جس صورت حال کی پیداوار تھا اس سے میراجی کو شدید اکتاہٹ ہوتی تھی۔ سائنسی و صنعتی ایجادات، نئے نئے فکری انکشافات، جنگی تباہ کاریاں اور بین الاقوامی سیاست کی ریشہ دوانیاں یہ سب کچھ نئے عہد کے انسان کو فکری و جذباتی آشوب میں مبتلا کر رہا تھا۔ اخلاقی و نظریاتی انحطاط و زوال انسانی معاشروں کے سکون اور اطمینان میں تعطل پیدا کر رہا تھا۔ میراجی شاعر تھے۔ شاعر جو خالق کا درجہ رکھتا ہے اور جس کے حواس خمسہ ہر تبدیلی کو باریک بینی سے اخذ کرتے ہیں۔ چناںچہ انہیں محض داخلی اور باطنی حوالوں کا شاعر کہنا ان کی شاعری کے ایک بڑے حصے سے زیادتی کا مرتکب ہونا ہے۔ وہ اپنے ارد گرد کی سماجی صورتحال کا گہرا ادراک رکھتے تھے۔ اس کا ثبوت ان کے نثری مضامین سے بھی دستیاب ہوتا ہے۔ انھوں نے بسنت سہائے کے فرضی نام پر بعض سیاسی و سماجی مضامین لکھے جن کے موضوعات ملکی اقتصادی مسائل، غیر ملکی سیاسی مسائل، عام سیاسی مسائل، غیر ملکی شخصیات اور دنیا بھر کے معاشرتی حالات سے متعلق تھے۔ انھوں نے اپنے عہد کے مسائل کا جس گہری بصیرت سے جائزہ لیا تھا یہ مضامین اس کی واضح مثال ہیں۔ ان مضامین کے عنوانات تھے ”ہندوستانی تحریک کا مسئلہ“، ”جاپان میں مزدوروں کی حالت“، ”بحرالکاہل کا سیاسی مدوجزر“، ”مشرق و مغرب کی جمہوریت کا نازک دور“، ”ہٹلر اور مسولینی جدید روشنی میں“، ”چین کا مکتی داتا“۔ یہ سب مضامین ادبی دنیا کے مختلف شماروں میں چھپے تھے۔ ان کی شدید داخلی کیفیات پر بھی ان کے خارجی مشاہدے تجزیے اور مطالعے کی گہری چھاپ ہے۔ وہ نامعلوم کو معلوم کا درجہ خلا میں معلق ہو کر نہیں دیتے۔ بلکہ ان کے لیے نئی احساساتی و جذباتی دریافتوں کے لیے ماحول کی خبر ضروری تھی۔</p> <blockquote> <verse> بے شمار آنکھوں کو چہرے میں لگائے ہوئے استادہ ہے تعمیر کا اک نقشِ عجیب، اے تمدن کے نقیب! تیری صورت ہے مہیب، ذہنِ انسانی کا طوفان کھڑا ہے گویا؛ ڈھل کے لہروں میں کئی گیت سنائی مجھے دیتے ہیں، مگر ان میں ایک جوش ہے بیداد کا، فریاد کا ایک عکسِ دراز، اور الفاظ میں افسانے ہیں بے خوابی کے۔ کیا کوئی روحِ حزیں تیرے سینے میں بھی بے تاب ہے تہذیب کے رخشندہ نگیں؟ </verse> <p>(اونچا مکان)</p> <verse> رستے میں شہر کی رونق ہے، اک تانگہ ہے، دو کاریں ہیں، بچے مکتب کو جاتے ہیں، اور تانگوں کی کیا بات کہوں ؟ کاریں تو چچھلتی بجلی ہیں تانگوں کے تیروں کو کیسے سہوں ! یہ مانا ان میںشریفوں کے گھر کی دھن دولت ہے، مایا ہے، کچھ شوخ بھی ہیں، معصوم بھی ہیں، لیکن رستے پر پیدل مجھ سے بد قسمت، مغموم بھی ہیں، </verse> <p>(کلرک کا نغمۂ محبت)</p> </blockquote> <p>میراجی فرانس کے علامت پسند شاعروں کی طرح حسن کو کسی قسم کی معاشرتی یا تہذیبی یا مذہبی آلودگی میں چھپا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ حسن کو محض حسن سمجھتے تھے اور جمالی پہلو ان کے سامنے تھا۔ چنانچہ انھوں نے معاشرتی و سیاسی ماحول کی جزئیات و تفصیلات کے مطالعے کو اپنے ذہن پر مسلط نہیں کیا بلکہ ان کے ہاں یہ ساری معاشرتی قدریں نا معلوم کی تلاش کا وسیلہ بن جاتی ہیں۔ نا معلوم جو اپنے اندر حسن رکھتا ہے، جس میں جمالیاتی احساس بڑا نمایاں ہوتا ہے۔ حسن عسکری اپنے افسانوں کے مجموعے جزیرے کے اختتامیہ میں لکھتے ہیں کہ ”حقیقت یہ ہے کہ حسنِ معنوی ہو یا حسنِ صوری سب روح کے سانچے میں ڈھلتا ہے۔ کسی لکھنے والے میں سب سے بڑی چیز دیکھنے کی یہ ہوتی ہے کہ وہ کتنی گہرائی سے بول رہا ہے۔“ کئی دانشوروں نے اپنے ذمہ یہ کام لیا تھا کہ جو دنیا ابھی تک نا معلوم ہے انھیں وہاں جا کر انسانوں کی بستیاں بسانی ہیں۔ میراجی فن برائے فن کے مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ اس نظرے کے علمبرداروں کو قنوطیت، فرار اور رجعت پسندی کا نعرہ بلند کرنے والے کہا گیا ہے اور ان پر الزام لگایا گیا ہے کہ یہ فن کار سیاسی و سماجی شعور سے نا بلد ہیں۔ حسن عسکری کا خیال ہے کہ اس قسم کے اعتراضات درست نہیں ہوتے۔ ان لوگوں نے اگرچہ کسی خاص جماعت کے سیاسی نظریات یا نشرواشاعت کا کام نہیں کیا۔ لیکن یہ سماجی صورتِ حال سے بے بہرہ نہیں تھے۔ فرانس میں بادلیر، ران بو اور ورلین وغیرہ نے انقلاب میں باقاعدہ حصہ لیا تھا اور اپنے عہد کی سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور سماجی کارکنوں کی ذہنی جہتوں کا بغور جائزہ لیا تھا۔</p> <p>میراجی نے آزاد نظم میں روایتی عروض کے الگ بنے بنائے سانچوں سے الگ ہو کر عروضی اجتہادات کرنے کی کوشش کی۔ نظم کے ایک مصرعے کو توڑ کر مختلف مصرعے بنانے کا عمل ان کے ہاں کمیاب ہے۔ ان کے کسی بھی دو مصرعوں کو ملا کر ارکان کی ابتدائی تعداد حاصل نہیں ہو سکتی اور آزاد نظم کی باقی اصناف کے مقابلے میں یہی سب سے بڑی امتیازی خصوصیت ہے۔ میراجی نے آزاد نظم میں زبان کے استعمال کے سلسلے میں جدید شاعری کی تحریک کی پیروی کرنے کی کوشش کی۔ اس تحریک کے علمبرداروں نے آزاد نظم کو اپنا وسیلہ اظہار قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ نظم میں آرائشی الفاظ اور پر شکوہ لفظیات کی بجائے عام بول چال کی زبان کو استعمال کیا جائے۔ میراجی کی نظمیں اپنے دیگر معاصرین راشد وغیرہ سے اپنی زبان کی خصوصیات کی بنا پر بھی مختلف ہیں۔</p> <blockquote> <verse> اپنے اک دوست سے ملنے کے لیے آیا ہوں، ایک دو بار تو زنجیر ہلائی میں نے لیکن آواز کوئی آئی نہیں؛ گھر پہ موجود نہیں؟ سویا ہوا ہے، دن میں؟ </verse> <p>(افتاد)</p> </blockquote> <p>ان کی نظموں میں خیال کی پیچیدگی اور تہہ در تہہ کیفیت سے ابہام اور اہمال کے عناصر کا شبہ ہو سکتا ہے مگر زبان کے اعتبار سے وہ عام فہم، سادہ اور آسان لفظوں سے نظم کا تانا بانا بناتے ہیں۔ کہیں کہیں زبان کے اسی استعمال کی بدولت ان کے ہاں مکالمے کا اندازہ بھی ابھرتا دکھائی دیتا ہے۔ میراجی اپنی نظموں میں ہندی اور بھاشا کے الفاظ استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے ان کی نظم میں گیت کی سی گھلاوٹ لوچ اور مانوسیت پیدا ہو جاتی ہے۔ انھوں نے پابند نظموں میں ہندی الفاظ کثرت سے استعمال کیے ہیں۔ جہاں تک ان کی آزاد نظم کا معاملہ ہے ان نظموں میں ہندی الفاظ کی بہتات نہیں ہے۔ کئی پابند نظموں میں انھوں نے خالص ہندی ماحول اور گیت کی فضا تیار کی ہے۔ میرا جی کی کئی آزاد نظموں میں ہندی اور اردو الفاظ کا توازن اور امتزاج نظر آتا ہے۔ ان کی نظموں میں فارسی الفاظ کا استعمال ثقالت پیدا نہیں کرتا بلکہ بہت حد تک اردو محاورے کی اعانت کرنے کا کام انجام دیتا ہے۔</p> <blockquote> <verse> کیوں خوابِ فسوں گر کی قبا چاک نہیں ہے؟ کیوں گیسوئے پیچیدہ و رقصاں نمناک نہیں ہے </verse> <p>(دھوبی کا گھاٹ)</p> </blockquote> <p>میراجی کی نظموں میں قافیے کا استعمال کسی خاص تاثر یا موضوع کی پیچیدگی یا تشہیر کے مظہر کے طور پر اجاگر ہوا ہے۔ ان کے ہاں قافیہ نظم کے آہنگ کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ خیال کا بہائو اور صوت کی روانی بدستور قائم رہتی ہے۔ کسی قسم کے ذہنی جھٹکے یا کھردراہٹ کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کے ہاں عروضی قواعد کے ذریعے قافیے کی شناخت نہیں ہے بلکہ وہ قافیے کو الفاظ کی صوتی ہم آہنگی و مماثلت کی بنا پر وجود بخشتے ہیں۔</p> <p>میراجی نے اپنی نظموں میں ثقیل اور پیچیدہ بحروں کی بجائے سادہ اور سیدھی بحریں استعمال کی ہیں۔ میراجی چونکہ آزاد نظم کے ایک خاص آہنگ اور صوتی ڈھانچے پر یقین رکھتے تھے اس لیے ان کا خیال تھا کہ بحروں کی پیچیدگی اور ثقالت آزاد نظم کے لہجے کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوتی رہتی ہے۔ یہ مثال ان کی کئی نظموں میں موجود ہے۔ ”جاتری“ میں انھوں نے خیال کے بہائو کو چھوٹی چھوٹی مصنوعی اکائیوں میں تقسیم کر کے ایک مصرعے کی صورت دے دی ہے۔</p> <blockquote> <verse> ایک آیا گیا، دوسرا آئے گا، دیر سے دیکھتا ہوں، یونہی رات اس کی گذر جائے گی میں کھڑا ہوں یہاں کس لیے، مجھ کو کیا کام ہے یاد آتا نہیں </verse> </blockquote> <p>آزاد نظم میں مصرعے کا انقطاع اس وقت عمل میں آتا ہے جب یا تو کسی خیال کی تشریح و توضیح یا پھر خیال کی کسی نئی کڑی کو نظم میں لانے کی کوشش مقصود ہوتی ہے۔ میراجی کے ہاں مصرعوں میں انقطاع خیال کے بہائو کے حوالے سے وجود میں آتا ہے۔ میراجی کی آزاد نظموں میں اجتہاد برائے اجتہاد کا معاملہ نہیں بلکہ انھوں نے قدیم عروضی جہتوں میں تصرف کر کے اردو نظم نگاروں کو ہیئت کا نیا شعور دیا۔ راشد نے ماورا کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ”اردو میں آزاد شاعری کی تحریک محض ذہنی شعبدہ بازی نہیں، محض جدت اور قدیم راہوں سے انحراف کی کوشش نہیں کیونکہ اجتہاد کا جواز صرف یہ نہیں کہ اس سے کسی حد تک قدیم اصولوں کی تہذیب عمل میں آئے بلکہ یہ کہ آیا تعمیری ادب اس میں کسی نئی صبح کی طرح نمودار ہوتا ہے یا نہیں۔“</p> <p>انگریزی آزاد نظم ترنم کے دو بنیادی عناصر کی حامل ہے۔ خارجی عنصر، داخلی عنصر۔ خارجی ترنم کی بنیاد ان کے تصور پر ہے جو اردو میں عروض سے مختلف ہے۔ ان کے خارجی آہنگ کی بنیاد آواز کے زیر و بم پر ہوتی ہے۔ داخلی آہنگ خیال اور جذبے کے داخلی پہلوئوں سے متعلق ہوتا ہے۔ یہ نظم کے صحیح اور مناسب ترنم کے لیے ناگزیر ہے۔ انگریزی عروض پیمانے اردو عروض سے مماثلت نہیں رکھتے اور نہ ہی اردو زبان کا مزاج اس بات کا متحمل ہے کہ وہ انگریزی عروض کو پورے طور پر قبول کر سکے۔ میراجی کی کئی نظموں میں ترنم اور موسیقی کا خارجی عنصر انگریزی نظم کی داخلی تنظیم کے اعتبار سے خود رو آہنگ کی بدولت ہے۔</p> <p>میرا جی کی آزاد نظمیں پرانے شعری عہد کے طلسمات اور تلمیحات اور جاگیردارانہ اخلاقیات سے آزاد ہیں۔ ان کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ یہ ثابت کرنے کا امکان رکھتا ہے کہ ان کے احساسات و جذبات اور خیالات و افکار عہد قدیم کی شعری باقیات سے آزاد ہیں اور یوں ان کی شاعری جنس، تصوف اور معاشرت کے پرانے احساسات سے نجات پا چکی ہے۔ یہ عمل طبقاتی نظام کی سیاسیات سے بھی آزاد ہو گا۔ یہ ایک عجیب کشمکش ہے لیکن اس کشمکش سے وہ سحر اور وہ آرٹ پیدا ہوں گے جس کا خواب یورپ کے رومانی شعرا نے اپنی تحریک کے عروج کے زمانے میں دیکھا تھا۔ رومانی شعرا نے سرمایہ دارانہ رشتوں کی مخالفت میں ہی شاعری کی ہے۔ انھوں نے اپنے احساسات اور ندائے تخیل سے اس بات کی تصدیق کی کہ انسان ایک ہے وہ ناقابل تقسیم ہے۔ وہ انسان ہے نہ کہ آقا اور غلام زمیندار اور کسان، کامگار اور سرمایہ دار منشی اور کوتوال اس میں شبہ نہیں کہ انھوں نے اس بغاوت کو بہ قوت جذبہ پروان چڑھایا اور عقل کی مخالفت کی۔ لیکن جو چیز سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ انھوں نے سرمایہ دارانہ طبقے کی عقل کے خلاف بغاوت کی۔ نہ کہ انسانی عقل کے خلاف۔ ورنہ ورڈز ورتھ اپنے تخیل کو عقل مرتفع کا نام کیوں دیتا۔ انھوں نے اس عقل کے خلاف بغاوت کی جو اسیر سود و زیاں تھی۔ جو انفرادی تگ و دو کی بہیمانہ قدر کو عام کیے ہوئے تھی اور جو احساسات و جذبات کی اطلاعات سے اس لیے کنارہ کش تھی کہ ان کا فیصلہ تاجر کے استحصال کے خلاف تھا۔</p> <p>نئے شاعر کی نظمیں اسلوب، تمثال نگاری اور لسانی پیراے کے اعتبار سے گذشتہ عہد کے شعرا سے مختلف ہیں۔ یہ شاعر اپنے مافیہ کے اظہار کے لیے رنگا رنگ اور متنوع طریق اظہار استعمال میں لائے ہیں۔ اگرچہ سب نئے شاعر منفرد پیرایۂ اظہار کے حامل ہیں اور اپنے اپنے اسالیب کے اعتبار سے اپنے معاصرین سے الگ ہیں۔ تاہم نئی آگہی، نیا شعور اور نئے احساساتی اور جذباتی تصورات ان میں مشترک ہیں۔ افتخار جالب نئی شاعری کے بانیوں میں سے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ہم بے جان کائنات کو بدلتے ہیں۔ خود بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور بدلی ہوئی بدلتی کائنات سے نباہ کرتے ہیں۔۱۲ میرا جی کی نظمیں، میرا جی کے گیت، گیت ہی گیت، پابند نظمیں، تین رنگ میں موجود شعری تخلیقات عصر حاضر میں موجود بیگانگی کے وسیع و عریض صحرا میں انسانی تنہائی، خوف، انتشار اور بے دلی کے کوائف کا بھرپور احاطہ کرتی ہیں۔ میراجی نے جس ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں وہ کمزور ممالک پر براہ راست سامراجی قبضوں کا دور تھا۔ میرا جی کی شاعری ترقی پسند شعرا کی شاعری کی مانند براہ راست سیاسی شعور کی شاعری تو نہیں تھی البتہ ان میں موجود علامتی یا استعاراتی حسیت کئی سطحوں پر ان کے سیاسی شعور کا اظہار کرتی ہے۔ یہ رویے صنعتی تہذیب کی مادی خوشحالی اور روحانی دیوالیہ پن کا عطیہ ہیں۔ یہ اخلاقی دیوالیہ پن طلاموس کبیر( کہ جو شیطان کبیر بھی ہے) کی عطا ہے۔ اس کے بارے میں راشد صاحب کا کہنا ہے:</p> <blockquote> <verse> اے طلاموس کبیر ایک نا فہمی کے پتھر پر یہ کیوں خوابیدہ ہیں ایک پیرہ زال سے چسپیدہ ہیں دیکھنے والوں میں کیوں اتنے ادا ناآشنا؟ اس فسون و خواب کی تصویر آرائی کریں جو پیر ہے پارینہ ہے؟ یا سبک پا روز و شب کے عشق سے سینوں کو تابندہ کریں؟ اے اداکارو نہیں جیسے ہی پھر پردہ گرا گونج بن کر ان کے ذہنوں میں دمک اٹھے گا کھیل (ان کی نظریں دیکھیے) ان کو بچوں کی محبت، گھر کی راحت اور زمیں کا عشق سب یاد آئے گا ان کے صحرا جسم و جاں میں فہم کی شبنم سے پھر اٹھے گا جس دریا کا شور خود اداکاروں سے یہ بھی کم نہیں یہ اداکاروں کی آوازوں پہ کچھ جھولے سہی لفظوں کو بھی تولا کیے، قدموں کو بھی گنتے رہے ۔۔۔۔ ان کے چہرے زرد رخسارے اداس۔۔۔۔ درد کی تہذیب کے پیرو ہزاروں سال کی مبہم پرستش یہ مگر کیا پا سکے؟ آہ کے پیاسے کبھی اشکوں کے مستانے رہے اپنے بے بس عشق کو عشقِ رسا جانے رہے ہر نئی تمثیل کے معنی سے بیگانے رہے جب اداکاروں کی رخصت کی گھڑی آئی تو جاگیںگے تو یاد آئے گا ہم میں اور اداکاروں میں نا فہمی کے تار۔۔۔۔ اور کوئی فاصلہ حائل نہ تھا اے طلاموس کبیر تیرا پیغمبر ہوں میں تو نے بخشا ہے مجھے کچھ فیصلوں کا اختیار ان اداکاروں سے ان کے دیکھنے والوں کا عقدِ نو۔۔۔۔ یہ میرا فیصلہ تم میاں ہو اور تم بیوی ہو تم ملک ہو تم ہو شہر یار تم بندر ہو تم بندریا ہم کہ سب تیرے پرستاروں میں ہیں اے طلاموس کبیر </verse> <p>(نئی تمثیل)</p> </blockquote> <p>میرا جی نے اس طلاموس کبیر یعنی سرمایے کے مختار کل کے اثرات کو اپنے دور کے انسانوں کے باطن میں جاگزیں پا کر ان کے خلاف بھر پور صداہائے احتجاج بلندکیں۔ اور اس کے پرستاروں کو بیچ چوراہے ننگا کیا۔ سرمایہ داری نے جس ”طلاموس کبیر“ کی شکل ابھاری ہے اسے دنیا بھر کے لوگ اپنا دستگیر سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ نئی طاقت ساکن اور محدود تصورات میں گم رہتی ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ تمام دنیا خام مال کی صورت اس کی بے پایاں مٹھی میںبند رہے۔ وہ لوگ کہ جو اس دور میں راہ گم کر چکے ہیں ناشکیبوں کی طرح کسی بے پایاں کی تلاش کرنا چاہتے ہیں مگر جب وہ اس نئی طاقت کو اپنا ملجا و ماویٰ قرار دے دیتے ہیں تو وہ انھیںجس سمت قدم بڑھانے کو کہتا ہے وہ انہیںسنگ میل ہست کی جانب لے جا سکتی ہے یا ”ماجرا“ کے سامنے آنکھیں بچھانے پر آمادہ کر سکتی ہے۔ سرمایے کی نئی تمثیل کی داستان کھیل کھلنے کے ساتھ کھلتی ہے۔ ان لوگوں کے اشارے، حرف، آوازیں، ادائیں نئی صورتوں میںڈھلتی جاتی ہیں۔ اس تمثیل کے اداکاروں کا باطن داستاں در داستاں آگے بڑھتا ہے۔ اس کے ساتھ ان کے متحرک قدم بھی نظر آتے ہیں اور ان کے سائے بھی۔ تماشائی اس تمثیل میں اس قدر منہمک ہیں کہ وہ پکار رہے ہیں ”چپ رہو“۔ یہ داستان پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے ”چپ رہو ہم کچھ سمجھ سکتے نہیں، مبتذل آوارہ بس مت کچھ کہو، شرمناک اب کچھ نہ گائو، دیکھنے والوں کا ہنگامہ کہ بام و فرش ایک!“ سرمایے کی نئی طاقت ایک نئے ڈرامے کا پردہ اٹھا چکی ہے۔ اس میں مادیت کی جانب اٹھنے والا ہر قدم انسانوں کو روحانی طور پر دیوالیہ کر رہا ہے۔ اس میں کردار خود بخود داستان کو ارتقا کی جانب لیے چلے جا رہے ہیں۔ طلاموس کبیر کا یہ کھیل سرگرمی سے جاری ہے۔ اس کھیل میں میرا جی کے حصے میں لاحاصلی آئی ہے۔ انسانوں کو خام مال کی طرح استعمال کرتے نظام میں نچلے طبقے کے انسانوں کے حصے میں بس یہی کچھ ہی آ سکتا تھا۔ اپنے خالص جوہر تخلیق کی بربادی! میرا جی نے تو اس کے عملی مظاہرے سے بھی گریز نہیں کیا!</p> <p>میرا جی مشرق و مغرب کے نغمیمیںکہتے ہیں:</p> <blockquote> <p>فن کار کی ذہنی کیفیت کے اظہار میں ابہام نہ صرف ایک قدرتی بات ہے بلکہ حقیقت پرستی کا تقاضا ہے کہ اسے جوں کا توں بیان کیا جائے جہاں آپ نے کسی ہلکے سے اشارے یا گونج کو واضح کرنے کی کوشش کی، وہ ہلکا اشارہ یا گونج نہ رہے۔۔۔ فن کار جس بات کو وضاحت کے ساتھ نہیں بلکہ اشارے کنایے سے بیان کرتا ہے وہی بات اس کی تخلیق میں ایک عمق پیدا کرتی ہے۔</p> </blockquote> <p>زمانہ ہوا، افتخار جالب نے ایک نظم ”یَدُاللہ فوق اید یہم“ حلقہ ارباب ذوق کے یوم میرا جی کی مناسبت سے پڑھی تھی</p> <blockquote> <verse> ”میرا جی تجھے کیسے یاد کریں؟“ تجھے چوروں نے گھیر لیا تیرا سب کچھ لوٹ لیا نیت اپنی بھی کچھ ٹھیک نہیں تجھے کیسے یاد کروں وہ جو، خوابوں کے اندر، خواب ہے تجھے کیسا لگا تھا؟ کیسے کہوں، مجھے کچھ بھی خبر نہیں ہاں اتنا ضرور ہے، تُو نے خواب یقیناٌ دیکھا تھا وہ جو ہاتھوں سے چھن چھن جاتا تھا، وہی خواب، مِرے ہاتھوں میں ہاتھ دیے، مِرے ساتھ چلے وہ جو ہاتھ ہے محنتی، برکتوں والا، جسے وقت کا ظلم اُجاڑتا ہے مِرے ہاتھ میں ہے، مِرے ساتھ بھی ہے تِرے پاس تو خواب ہی تھا، مِرے ہاتھ میں ہاتھ نہ تھا تِرے ساتھ خدائی کا ہاتھ نہ تھا مِرے خواب کا ہاتھ کدھر گیا؟ مِرے خواب کا ہاتھ جہان میں ہے یہ جہاں جہان کا راہ نُما یہ جہاں جہان کے محنتی ہاتھوں کا راہ نُما مِرے پاس تو ہے، ترے ساتھ نہ تھا جوں ہی صبر کو ٹوٹ بکھرنا ہو جوں ہی ظلم کو حد سے گزرنا ہو تِرے دکھ کو یاد کروں! تجھے ایسے، ہاں، تجھے ایسے یاد کروں!! میرا جی تجھے کیسے یاد کروں! </verse> </blockquote> </section> </body>
0029.xml
<meta> <title>میرا جی اور مغالطے</title> <author> <name>نجیب جمال</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 4</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/11_najeeb_jamal_bunyad_2013.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>2406</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
میرا جی اور مغالطے
2,406
Yes
<body> <section> <p>ماضی کی گپھائوں اور بھورے لمبے بالوں کی جٹائوں کا نام ہم سب نے مل کر میرا جی رکھا ہے۔ اب یہی ان کا نام، یہی ان کا کام اور یہی ان کی پہچان ہے۔ اس پہچان کو بنانے میں خود انھوں نے بہت محنت، بہت تردّد اور بہت کاوش کی تھی، یہاں تک کہ مرتے سمے تک وہ پھر کبھی ماں باپ کے دیے ہوئے نام اور پہچان کو اپنانے پر آمادہ نہ ہو سکے اور کہتے رہے کہ:</p> <blockquote> <p>لوگ مجھ سے میرا جی کو نکالنا چاہتے ہیں مگر میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ یہ نکل گیا تو میں کیسے لکھوں گا، کیا لکھوں گا؟ یہ کمپلیکس ہی تو میری تحریریں ہیں۔</p> </blockquote> <p>گویا میرا جی محض ایک شخصیت، ایک شاعر یا فن کار کا نام نہیں تھا، یہ بقول میرا جی ایک کمپلیکس تھا اور ان کی تحریروں کا باعث بھی۔ میرا جی کے اس پرسونا <annotation lang="en">(persona)</annotation> کا بہت ذکر رہا، یہی وجہ ہے کہ ان کی ظاہری ہیئت کذائی، ان کا حلیہ، ان کا لباس (جس میں منٹو کی دی ہوئی برساتی بھی شامل ہے) ان کے ہاتھوں میں لوہے کے تین چھوٹے بڑے گولوں کی مسلسل حرکت، بغیر جیب کی پتلون، میلی کچیلی دہری تہری جرابیں، جوتوں کے پھٹے ہوئے تلوے اور اُدھڑی ہوئی سلائیاں، گلے میں دو گز لمبی مالا، شیروانی کی پھٹی ہوئی کہنیاںاور جیبوں میں سگریٹ کی ڈبیوں کی پنیاں، چیتھڑے، پان کی ڈبیا، پائپ، تمباکو، ہومیوپیتھک دوائیں اور سب سے سِوا میرا سین نامی بنگالی لڑکی سے ان کا افلاطونی عشق جسے وہ عشق نہیں سروس سمجھتے رہے … یہ سب ان کی پہلی اور آخری پہچان ٹھہرا۔ انھیں دھرتی پوجا کا شاعر بھی کہا گیا، اس کی وجہ اپنے بچپن میں ان کا جنوبی ہندوستان میں قیام بھی ہو سکتا ہے۔ ان کی نظموں میں جنس کا اور خاص طور پر خود نفسی یاخود لذتی کا بھی، جسے استمنا بالید کا نام دیا گیا، بہت تذکرہ رہا اور یوں میرا جی کو ان کے خود ساختہ کمپلیکسزہی کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش ہوتی رہی۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی بھی طرح کا شخصی اُلجھائو پورے تخلیقی عمل کی قوت متحرکہ بن سکتا ہے؟ کیا شخصی پرسونا اور تخلیقی پرسونا اصل میں دونوں ایک ہیں؟ یا پھر ان میں ذات کے برتائو اور تخلیق کے سبھائو کا فرق موجود ہے اور اپنے پھیلائو، جزئیات، تخیلات اور تصورات میں یہ دونوں الگ الگ کائناتی وجود رکھتے ہیں؟ میرا سین سے میرا جی کا عشق اس کی ایک مثال ہے۔ وہ میرا سین کی پرچھائیں کا پیچھا کرتے نظر آتے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ خود میرا سین کا اپنا وجود ایک حقیقت تھا یا پرچھائیں، اور ابھی تو اس پرفریب حقیقت کا تعین ہونا باقی ہے کہ سارا معاملہ خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا۔ ایک بات مگر طے ہے کہ اچھے بھلے ثنائ اللہ ڈار نے میرا جی بن کر میراسین کے تصور کو اپنی ذات ہی کا ایک حصہ بنا لیا تھا۔ میراسین اب خارج کا مجسم پیکر نہیں تھی خود ان کا وجود تھی یوں ان کے اندر کی دنیا میں ایک روشنی، ایک رونق اور ایک ہجوم موجود تھا اور شاید وہ اکیلے نہیں تھے جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کی ظاہری حالت، ملبوس کی دھجیاں اور ایک بیراگی کا بہروپ مغالطے میں مبتلا ضرور کرتا رہا اور شاید کچھ عرصہ تک مزید ایسا ہوتا رہے مگر بالآخر میرا جی کے تخلیقی پرسونا کو ان کے ذاتی اور شخصی اُلجھائو، بے ترتیبی اور بد ہیئتی سے الگ ہونا ہے اور ایساآج نہیں تو کل ہونا ہے۔ میرا جی کو اب کسی دیو مالائی اسطورہ کا کردار بنا کر محدود نہیں رکھا جاسکتا اس کے تخلیقی عمل کو محض اس کے بیراگ کی شکل قرار نہیں دیا جاسکتا نہ ہی اس کے بہروپ کو چند نظموں کا حوالہ دے کر اس کی پہچان سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کی خودمرکزیت اس کی ذاتی خود فریبی تو ہو سکتی ہے مگر اُسے بھی اس کے تخلیقی عمل کا لازمہ سمجھنا ایک غلطی ہوگا۔</p> <p>اب سوال یہ ہے کہ کیا غیر ذمہ دارانہ شخصی روپ یا نیم دیوانگی جیسی بے ترتیبی، تخلیقی عمل کے توازن کے مساوی قرار دی جاسکتی ہے؟ اور کیا کلیاتِ میرا جیکے ۱۰۸۰ صفحات کو ان کی دیوانگی کی عطا سمجھا جائے گا؟ شاید ایسا نہیں ہے، آج میرا جی کی پیدائش کے سو سال بعد بہت کچھ بدل چکاہے۔ میرا جی کے تخلیقی عمل کے حوالے سے معروضی نظر پیدا ہو چکی ہے۔ نقد و نظر کے معیارات بدل چکے ہیں۔ اب تخلیقی شخصیت کی ذات، ماحول، عہد، حالات، سیرت اور برتائو صرف ایک حد تک ہی ضروری سمجھے گئے ہیں۔ یہ بہت دیر اور دور تک اگر تخلیقی عمل کا حصہ سمجھے جائیں تو یقینی طور پر ذاتی مغالطے پیدا کریں گے اور پھر شاید کوئی یہ نہ کہہ سکے ”میرا جی از سرتاپا تخلیق تھے۔“</p> <p>ہاں یہ بھی صحیح ہے کہ یہ سوال ضرور پریشان کر سکتا ہے کہ ”آخر اس ساری تخلیقی سنجیدگی اور گہرے تخلیقی انہماک کے باوجود انھوں نے یہ حُلیہ کیوں بنایا اور ساری عمر اپنی زندگی اس طور سے کیوں گزاری۔“ اس سوال کا جواب بھی دیا جاتا رہے گا کہ یہ سوال میرا جیؔ کی شخصیت کے رومانس کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اپنی انفرادیت کو راسخ کرنا، اپنے آپ کو قابلِ توجہ بنانا اور اس کے لیے دھرتی کے پجاری کا روپ دھارنا، اپنی ذاتی ناآسودگیوں کے مداوے کے لیے اپنے وجود سے کیف اور لذت کو اخذ کرنا اور پھر اس تجربے کے بعد کی ہاتھوں کی آلودگی اور نم ناکی کو کچھ نظموں کا حصہ بنا دینا بھی دراصل اپنی ذات کے لیے کچھ نظمیں لکھنے کی کاوش ہے۔ میرا جی نے بودلیر کے بارے میں لکھا تھا کہ ”اس نے کچھ نظمیں صرف اپنے لیے لکھی تھیں۔“ ڈاکٹر جمیل جالبی نے میراجی کی اس بات کو لے کر کہ یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ”میرا جی نے بھی ابتدائی دور کی شاعری اپنی ذات کے لیے کی۔“</p> <p>میراجی نے ایڈگر ایلن پو کے بارے میں جو لکھا ہے اس کا اطلاق خود اس کی ذات پر بھی کیا جاسکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>کوئی اسے شرابی کہتا ہے، کوئی اعصابی مریض، کوئی اذیت پرست اور کوئی جنسی لحاظ سے ناکارہ ثابت کرتا ہے اور ان رنگا رنگ خیال آرائیوں کی وجہ سے اصلیت پر ایسے پردے پڑ گئے ہیں کہ اٹھائے نہیں بنتا ہے۔</p> </blockquote> <p>واضح رہے کہ پو کے بارے میں جب میرا جی یہ لکھ رہے تھے اس وقت میرا سین سے ان کی تصوراتی محبت کو شروع ہوئے دو تین سال ہی گزرے تھے اور اس کے بعد میراجی خود بھی اسی ابنار ملٹی کی طرف لپکتے نظر آتے ہیں۔ پو کی بیوی کے بارے میں میرا جی کا لکھنا کہ ”اس کی بیوی ایک ایسا سایہ بن جاتی تھی جسے حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو۔“ اور یہ کہ ”ایڈگر ایلن پو عورت کے بجائے عورت کے تصور کی پوجا کرتا تھا۔“</p> <p>گویا پو کے بارے میں میراجی کے یہ بیانات خود ان کے اپنے اندرون کا اظہار بھی ہیں۔ عورت جو میراسین کا یک تخیلاتی روپ ہے یا پھر ان تمام عورتوں کا جو میراسین کے تصور ہی کی توسیع سمجھی جاسکتی ہیں میراجی کی نظموں کا موضوع بنیں، کبھی طوائف، کبھی عام سی عورت، کبھی محبوبہ اور کبھی دلھن کی صورت میں۔ ہاں اس کے ساتھ یہ ضرور ہوا کہ میراجی نے تخیلاتی اور تصوراتی یا کسی حد تک نیو راتی عاشق کا روپ دھارتے ہوئے اپنے تصورات کو خوب صورت شاعرانہ امیجز کی شکل میں ڈھال دیا یہی ان کے تخلیقی عمل کا وہ مثبت پہلو ہے جس کی وجہ سے میرا جی جدید اُردو نظم کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ان کی ان نظموں میں امیجز کا جو خزانہ ملتا ہے وہ نئی اُردو شاعری کوان کی دین ہے۔ ان کی گیت نگاری، ان کی غزل گوئی یا قدیم اسطوروں کی طرف ان کی رغبت محض کچھ قدیم ہیئتوں اور کچھ تہذیبی روایات کی پاسداری میںتو ہو سکتی ہے مگر میراجی کی پوری تخلیقی شخصیت ان کی نظموں ہی میں ظاہر ہوتی ہے اور ان نظموں میں کچھ اثرات یقینا بودلیر، ایڈگرایلن پو، میلارمے کی نظموں کی بُنت کاری کے بھی ہو سکتے ہیں۔ ان کے امیجز کا ابہام بھی اسی وجہ سے ہو سکتا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میراجی کی لفظیات، علامات اور امیجز کا ابہام اب ابہام معلوم نہیں ہوتا، گو انھوں نے نہ صرف نئی نظم کے امکانات کو واضح تر کیا بلکہ جدید اُردو نظم کا لہجہ اور زبان بھی مرتب کی مگر کیا یہ تشکیلی لہجہ اور تخلیقی ارتقا کانامیاتی عمل تھا یا پھر یہ سنجیدگی اور تخلیقی انہماک صرف ان کی بے ترتیبی، پریشان خیالی اور خود مرکزیت کے سبب سے تھا؟ کیا مستقبل سے ان کا تعلق بے نام سا ہے؟ کیا وہ صرف ماضی اور حال کے انسان تھے اوربس؟ کیا ان کی نظمیں مستقبل کی اُردو نظم کا ایک خاکہ تشکیل نہیں دیتیں؟ کیا وہ مروّجہ تہذیبی پابندیوں کو قبول کرتے ہیں؟کیا وہ رسمی اخلاقیات کے پابند ہیں اور کیا انھوں نے جسمانی زندگی کی قید کو اپنا مقدر سمجھ لیا تھا یا پھر جو کچھ وہ خود کہتے ہیںان میں سے بہت سی باتوں کی چھان پھٹک کی ضرورت ہے؟ مثلاًان کا یہ کہنا:</p> <blockquote> <p>سچ ہے سماج کے فرائض جس طرح دنیا انھیں سمجھتی ہے میں نے، جس طرح میں انھیں سمجھتا ہوں، پورے نہیں کیے لیکن میں نے اپنی جسمانی زندگی سے زیادہ جس قدر ذہنی زندگی بسر کی ہے اس کا لحاظ کسے ہوگا۔</p> </blockquote> <p>اب یہاں ہمارے سامنے دو سوال سر اُٹھاتے ہیں ایک تو ان کا اور ان کی شاعری کا مستقبل میں کردار اور دوسرا ان کی ذہنی زندگی اور اس کی فعالیت۔ جہاں تک نئی نظم کے امکانات کو واضح تر کرنے اور مستقبل میں کوئی مقام پیدا کرنے میں میراجی کی نظموں کا کوئی کردار ہے تو اس کے بارے میں منٹو نے بڑے پتے کی بات لکھی ہے:</p> <blockquote> <p>بحیثیت شاعر کے اس کی حیثیت وہی ہے جو گلے سڑے پتوں کی ہوتی ہے جسے کھاد کے طور پر استعمال کیا جاسکتاہے۔ میں سمجھتا ہوں اس کا کلام بڑی عمدہ کھاد ہے جس کی افادیت ایک نہ ایک دن ضرور ظاہر ہو کر رہے گی۔</p> </blockquote> <p>جہاں تک ان کی ذہنی زندگی اور اس کی فعالیت کا تعلق ہے تو میرا جی کو شخصیت اور اُن کے تخلیقی اظہار کے درمیان کچھ مغالطوں کو دورکرنا ہوگا۔ ان میں سے کچھ مغالطے میراجی کے اپنے پیدا کردہ ہیں مثلاً ان کا یہ کہنا کہ ”لوگ مجھ سے میرا جی کو نکالنا چاہتے ہیں مگر میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔“ ان کا یہ رویہ بھی ایک مغالطے کو پیدا کرتا ہے۔ ان کا یہ رویہ انفرادیت کی دھار کو تو تیز کرتا ہے اور شاید میراجی بھی یہی سمجھتے تھے کہ ان کی ہیئت کذائی، ان کا بہروپ اور ان کا شخصی برتائو ان کے فن کی تفہیم کا ایک موزوں ذریعہ ہوسکتاہے حالانکہ اس کے برعکس ان کی غزلیں، گیت، نظمیں، تراجم، تنقید…، ادبی دنیا اور خیال جیسے ادبی رسالوں کی تدوین، حلقہ اربابِ ذوق سے متعلق ان کی سنجیدگی سب ان کے مرتب ذہن کی تصویر بناتے ہیں۔ خصوصاً ان کی تنقید کی وجہ سے انھیں بالاتفاق اُردو کا پہلا نفسیاتی نقاد کہا جاتا ہے۔ منٹو نے اس حوالے سے میرا جی سے اپنی ایک ملاقات کا تذکرہ کیا ہے جس میں میراجی منٹو کے افسانوں سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے۔ منٹو لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>میراجی کے دماغ میں مکڑی کے جالے نہیں۔ اس کی باتوں میں اُلجھائو نہیں تھا اور یہ چیز میرے لیے باعث حیرت تھی اس لیے کہ اس کی اکثر نظمیں ابہام اور اُلجھائو کی وجہ سے ہمیشہ میری فہم سے بالا تر رہی تھیں لیکن شکل و صورت اور وضع قطع کے اعتبار سے وہ بالکل ایسا ہی تھا جیسا اس کا بے قافیہ مبہم کلام۔ اس کو دیکھ کر اس کی شاعری میرے لیے اور بھی پیچیدہ ہو گئی۔</p> </blockquote> <p>ان جملوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ منٹو جیسا تخلیقی فن کار بھی میرا جی کے بے قافیہ اور مبہم کلام کو میراجی کی شکل و صورت اور وضع قطع کے تعلق سے جانتا ہے۔ وہ میراجی کی کسی اُلجھائو کے بغیر گفتگو کا تو قائل ہے اور ذہن کی صفائی، گفتگوکی روانی یہاں تک کہ اس کی خطاطی سے بھی متاثر ہے مگر اس کی شاعری کو مبہم اس لیے جانتا ہے کہ میراجی کی وضع قطع منٹو کو اُن کے بے قافیہ اور مبہم کلام جیسی معلوم ہوئی تھی اور شاید یہی میراجی کا مقصد بھی تھا، مگر اب میراجی کی شاعری کے <annotation lang="en">potential</annotation> کے حوالے سے ایسے کسی مغالطے کی گنجائش نہیں۔ انوار انجم نے میراجی کی شخصیت اور تخلیقی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہوئے درست لکھا ہے:</p> <blockquote> <p>میراجی فطری اعتبار سے پراچین اور ہندوستان کے بھکشو تھے مگر بعض اوقات زمانہ حاضر کے عقلیت پرست انسان کی جھلکیاں بھی ان میں دکھائی دینے لگی تھیں۔ ان کا انداز فکر اور انداز نظر ایسے مغربی فن کاروں اور فلسفیوں کا سا تھا جنھوں نے آج یا کل کے نہیں صدیوں بعد کے بہت ہی متمدن انسان کے لیے سوچ بچار کی ہے۔</p> </blockquote> <p>میراجی کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے تخلیقی عمل کے ارتقائی مراحل کو پیش نظر رکھا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اپنی مختصر سی زندگی میں مختلف اوقات میں مختلف حالات و واقعات کے زیر اثر دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی ایک بھگت، کبھی ایک ملامتی، کبھی نراجیت پسند، کبھی بیراگی، کبھی جنس پرست، کبھی باطنیت کے قائل، کبھی ہند آریائی فضا کے پجاری، کبھی عجمی فضا کی طرف مراجعت کے تمنائی، کبھی جنس اور نفسیات کے شیدائی تو کبھی مابعد الطبیعیاتی مسائل سے نبرد آزما، کبھی موسیقی سے لگائو تو کبھی دوران رقص لوچ، لچک اور بھائو کے قتیل … یہ تھے میراجی جوایک زندہ، متحرک اور توانا ذہن رکھتے تھے۔</p> <p>میراجی کی تفہیم کے لیے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے درمیانی عرصے میں مغربی استعمار کے جبر، نوآبادیوںکے ہونے والے استحصال اور عالمی سامراج کے توسیع پسندانہ عزائم کے مقابل شورِ سلاسل، روزنِ زنداں سے آزادی کے سویرے کا نظارہ، محکوموں کے جسموں سے ٹپکنے والے لہو کا جم جانا اور خون کی سرخی سے رگِ برگِ گلاب کا نکھر جانا، جیسے عوامل بنیادی حوالہ فراہم کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ مغربی مفکرین کے نظریات اور خاص طور پر فرانسیسی علامت پسندوں، تحلیلِ نفسی، جنسی نفسیات اور شعور ولاشعور جیسے رجحانات کے حامل نفسیات دانوں کے اثرات، ترقی پسندوں کے مقابل متوازن نفسی دروں بینی کا رویہ بھی میراجیؔ کے فنی ارتقا کے عوامل ہیں۔ گویا جس قدر انسانی ذات گہری، پیچیدہ اور متنوع الصفات ہے میراجیؔ کے موضوعات بھی گہرے اور متنوع ہیں۔</p> <p>میراجی کو عمومی طور پر فراریت پسند، گریز پا اور شکست خوردہ سمجھا جاتارہاہے۔ یہ مغالطہ بھی غالباً ان کے دل غم دیدہ کے آسودہ نہاں خانے میں سوئی ہوئی آرزوئوں، خواہشوں اور تمنائوں کے سبب سے ہے جس کا علاج انھوں نے خود لذتی میں ڈھونڈرکھا تھا۔ اس مغالطے کو دور کرنے کے لیے ان کی نظم ”شام کو راستے پر“ کی مثال دی جاسکتی ہے جس میں ان کا عکسِ تخیل بھی متحرک نظر آرہا ہے:</p> <blockquote> <verse> رات کے عکسِ تخیل سے ملاقات ہو جس کا مقصود کبھی دروازے سے آتا ہے کبھی کھڑکی سے، اور ہر بار نئے بھیس میں در آتا ہے۔ اس کو اِک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں۔ وہ تصور میں مرے عکس ہے ہر شخص کا، ہر انساں کا۔ کبھی بھر لیتا ہے اک بھولی سی محبوبۂ نادان کا بہروپ، کبھی ایک چالاک، جہاں دیدہ و بے باک ستم گربن کر دھوکا دینے کے لیے آتا ہے، بہکاتا ہے، اور جب وقت گذر جائے تو چھپ جاتا ہے۔ مری آنکھوں میں مگر چھایا ہے بادل بن کر ایک دیوار کا روزن، اسی روزن سے نکل کر کرنیں مری آنکھوں سے لپٹتی ہیں، مچل اُٹھتی ہیں آرزوئیں دلِ غم دیدہ کے آسودہ نہاں خانے سے؛ </verse> </blockquote> <p>اسی نظم کا یہ آخری حصہ بھی ملاحظہ ہو جس میں عشق کا طائر آوارہ بہروپ بھر کے ایک نہ ختم ہونے والی تلاش کے سفر میں ہے اور یہی میراجی کی فکر کا اثباتی، متحرک اور توانا پہلو ہے:</p> <blockquote> <verse> میں تو اک دھیان کی کروٹ لے کر عشق کے طائرِ آوارہ کا بہروپ بھروں گاپل میں اور چلا جائوں گا اس جنگل میں جس میں تُو، چھوڑ کے اِک قلبِ افسردہ کو اکیلے، چل دی، راستہ مجھ کو نظر آئے نہ آئے، پھر کیا اَن گنت پیڑوں کے میناروں کو میں تو چھوتا ہی چلا جائوں گا، اور پھر ختم نہ ہوگی یہ تلاش، جستجو روزنِ دیوار کی مرہون نہیں ہو سکتی، میں ہوں آزاد… مجھے فکر نہیں ہے کوئی، ایک گھنگھور سکوں، ایک کڑی تنہائی مرا اندوختہ ہے۔ </verse> </blockquote> <p>یوں ایسی کئی نظموں کی موجودگی میں یہ کہنا بھی شاید ایک اور مغالطے کو جنم دینے کا باعث ہو سکتا ہے کہ:</p> <blockquote> <p>میراجیؔ ماضی پرست انسان ہیں، وہ ٹھوس حقائق سے آنکھیں بند کر کے دیو مالائی عہد میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔</p> </blockquote> <p>میراجی کے سلسلے میں مغالطے کا ایک اور پہلو انھیں اُردو کا سب سے زیادہ داخلیت زدہ شاعر قرار دینا ہے جس کا مؤثر جواب وارث علوی نے دیا ہے۔ دیکھیے:</p> <blockquote> <p>میراجی کی پوری شاعری سمندر، پہاڑ، نیلا گہر آسمان، بل کھاتی ندیوں، تالابوں، جنگلوں، چاند، سورج اور ستاروں، ماتھے کی بندی، کاجل کی لکیر، پھولوں کی سیج، سرسراتے ملبوس اور بدن کے لہو کی آگ کی شاعری ہے جو شاعر من کا بھید اور رات کی بات کہنے کے لیے پوری کائنات اور مظاہر فطرت اور اساطیر کی دنیا پر اپنے تخیل کا جال پھینکتا ہو وہ بھلا داخلی شاعر کیسے ہو سکتا ہے۔</p> </blockquote> <p>یوں اب ہمیں میراجی کے حوالے سے فراریت پسندی، داخلیت زدگی اور بیمار ومجہول ذہنیت جیسے الزامات واپس لینے کی ضرورت ہے۔ ان کے یہاں موضوعاتی، تجرباتی اور لسانی وسعت کا یہ عالم ہے کہ دل اور دنیا، انفس و آفاق اور طبیعیات و مابعد الطبیعیات جیسے عناصر کسی ایسی ظاہری ہیئت کذائی کے محتاج نہیں رہتے جس کے نتیجے میں محض اعصاب زدہ شاعری ہی پیدا ہو سکتی ہے۔</p> </section> </body>
0030.xml
<meta> <title>میرا جی کے تراجم</title> <author> <name>ناصر عباس نیر</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 4</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/12_nasir_abbas_nayyar_bunyad_2013.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>6627</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
میرا جی کے تراجم
6,627
Yes
<body> <section> <p>ترجمہ، ایک تہذیب کا دوسری تہذیب سے مکالمہ ہے۔ مترجم، دو تہذیبوں کے درمیان ’ترجمان‘ کا کردار ادا کرتا اور دونوں کے درمیان اس مغائرت کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے جو زبان اور دوسری ثقافتی اوضاع کی وجہ سے موجود ہوتی ہے۔ مثالی طور پر یہ ترجمان اپنی یا دوسری تہذیب کے ان بہترین حاصلات کا انتخاب کرتا ہے، جن کے بارے میں وہ یقین رکھتا ہے کہ انھیں انسانی تہذیب کا مشترکہ ورثہ بنایا جا سکتا ہے۔ مشترکہ انسانی تہذیب کا خواب اگر کسی طور پورا ہو سکتا ہے تو فقط ترجمے کے ذریعے۔ مگر یہ مثالی صورت ہر جگہ موجود نہیں ہوتی، خاص طور پران ملکوں میں جہاں ترجمے کی روایت اپنا آغاز ہی ان قوتوں کے زیر اثر کرے جو نئے خیالات کے ذریعے اجارہ و اقتدار چاہتی ہوں۔ اس صورت میں ایک تہذیب دوسری تہذیب سے مکالمہ نہیں کرتی، اس پر نافذ ہوتی ہے۔ اردو میں انگریزی شاعری کے ترجمے کی روایت اپنے آغاز کے سلسلے میںکچھ ایسی ہی کہانی سناتی ہے۔ اس کہانی کا ایک اہم واقعہ میرا جی کے تراجم ہیں جواس میں ایک نیا موڑ لاتے ہیں۔</p> <p>اردو میں انگریزی شاعری کے ترجموں کا آغاز ۱۸۶۰ئ کی دہائی میںہوا۔ غلام مولیٰ قلق میرٹھی (۱۸۳۳ئ-۱۸۸۰ئ) نے جواہر منظوم کے نام سے اردو میں انگریزی شاعری کے تراجم کی پہلی کتاب شائع کی۔ ”انھیں انگریزی نظموں کے ترجموں کا پروجیکٹ ملا، جو ۱۸۶۴ئ میں مکمل ہو کر گورنمنٹ پریس الہٰ آباد سے طبع ہوا۔“ پندرہ نظموں پر مشتمل اس کتاب کی خاص بات یہ تھی کہ اس پر مرزاغالب نے نظرِ ثانی کی تھی۔ سرکاری سرپرستی میں انگریزی ادب کی اردو میں ترویج کی اگلی کوشش بھی الہٰ آباد میں ہوئی۔ ۲۰ گست ۱۸۶۸ئ کو الٰہ آباد حکومت نے انعامی ادب کا اعلان نامہ شائع کیا جس میں کہا گیا تھا کہ اردو یا ہندی میں نثر یا نظم میں طبع زاد یا ترجمہ شدہ ’مفید‘ کتاب انعام کے لیے پیش کی جا سکتی ہے۔ انعامی ادب کے اس اعلان سے بقول سی۔ ایم۔ نعیم ”یہ امر طے ہوا کہ حکومتِ ہند کو نہ صرف یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ انعام کے ذریعے کچھ خیالات کو عمدہ اور موزوں قرار دے سکتی ہے اور بعض خیالات کو نظر انداز کر کے اپنی رضامندی سے محروم کر سکتی ہے، بلکہ عمدہ خیالات کو تعلیمی نظام کے ذریعے نشرو اشاعت بھی کر سکتی ہے۔“ انگریزی ادب کے تراجم کو سرکاری سرپرستی میں جاری رکھنے کا عمل انجمنِ پنجاب (۱۸۶۵ئ) نے آگے بڑھایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ڈاکٹر لائٹنر اور کرنل ہالرائیڈ کی راہنمائی میں آزاد نے، حالی کی مدد سے نیچرل شاعری کے نمونے پیش کرنے کا آغاز کیا تو جواہر منظوم کے چار ایڈیشن چھپ چکے تھے۔ تراجم کی اس روایت کو رسالہ دلگداز اور مخزن نے خاص طور پر آگے بڑھایا۔</p> <p>یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اردو میں انگریزی شاعری کے تراجم کی روایت، برطانوی ہند کے محکمہ تعلیم نے شروع کی اور اس کے پیش کردہ اصولِ ترجمہ ہی آگے چل کر معیاربنے۔ تعلیماتِ عامہ پنجاب کے ناظم کرنل ہا لرائیڈ نے انگریزی شاعری کا جواز اور انجمنِ پنجاب کے صدر ڈاکٹر لائٹنر نے ترجمے کے اصول وضع کیے۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے ربع اوّل کے ہندوستان میں اردو شاعری پر انگریزی ادب کے اثر کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے ان دونوں صاحبان کے خیالات پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔</p> <p>کرنل ہالرائیڈ نے اردو شاعری کی اصلاحی تحریک کے سلسلے میں ۱۸۷۴ئ میںایک تقریر رقم فرمائی، جسے مولانا محمد حسین آزاد نے موضوعاتی مشاعروں کے آغاز کے وقت اردو میں ڈھال کر پیش کیا۔ اس تقریر میں ہالرائیڈ نے جو کچھ کہا اس کا بڑا حصہ آزاد کے ذریعے ہم تک پہنچ چکا اور بیسیوں مرتبہ دہرایا جا چکا ہے۔ تاہم ترجمے کی بابت دو ایک باتوںکا ذکر ضروری ہے۔ ہالرائیڈکی تقریرکا بنیادی مؤقف وہی ہے جوولیم میورنے انعامی ادب کے اعلان نامے میں اختیار کیا تھا۔ ہالرائیڈ فرماتے ہیں کہ اردو میں مغربی دنیا کے انتہائی باکمال ذہنوں کے خورسند خیالات میں سے روشن، واضح اور مستحکم خیالات کو صرف ترجمے کے ذریعے ہی پیش کیا جا سکتا ہے۔ وہ ترجمے کے ایک بنیادی مسئلے کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ایک زبان کا جینئس دوسری زبان کے جینئس سے مختلف ہوتا ہے اور اس بات کا احساس اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب انگریزی کے یونانی و لاطینی اساطیر سے مملو ہونے کا علم ہوتا ہے۔ ہالرائیڈ اس مشکل کے ضمن میں یہ کہہ کے رہ جاتے ہیں کہ اس طور محض ترجمہ ہندوستان میں کام یاب نہیں ہو سکتا۔ دوسرے لفظوں میں انگریزی اور اردو میں ایک ایسی مغائرت موجود ہے جسے محض ترجمہ یعنی حقیقی لفظی ترجمہ نہیں پاٹ سکتا۔</p> <p>ائٹنر کے خیالات بھی کچھ اسی قسم کے ہیں۔ وہ بھی مغائرت کی موجودگی میں یقین رکھتے ہیں مگر مغائرت کی جڑیں تہذیب میں یعنی زیادہ گہری سطح پر دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مشرق و مغرب طرزِ فکر کی سطح پر ایک دوسرے سے قطبین پر واقع ہیں۔ فرماتے ہیں:یورپی مصنف ’تجریدی اور غیر شخصی‘ انداز کے حامل ہوتے ہیں جب کہ مشرقی مصنف ’شخصی، مخصوص، مجسم اور ڈرامائی‘ انداز رکھتے ہیں۔ لہٰذا لفظی ترجمہ نہیں <annotation lang="en">adaptation</annotation> ہونی چاہیے۔۴ لیجیے انھوں نے مغائرت دور کرنے کی سبیل نکال لی۔ مگر ٹھہریے پہلے یہ دیکھتے چلیے کہ لائٹنرنے مشرق و مغرب کے جس فرق کی نشان دہی کی ہے، اس میں کتنی صداقت ہے۔ کیا تجریدی اورتجسیمی اندازانسانی فکرو تخیل سے متعلق ہیں یا ان میں سے ایک یا دوسرے پر کسی تہذیب کا اجارہ ہے؟ قصہ یہ ہے کہ دنیا کے ہر ادب میں شخصی اور تجریدی اسالیب ہوتے ہیں۔ نثر کاعموی انداز تجریدی ہوتا ہے اور اگر موضوع فلسفہ یا کوئی سماجی علم ہو تو اسلوب تجریدی ہو گا جب کہ شاعری عمومی طور پر حسی تمثالوں پر مبنی ہوتی ہے۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ اردو میں انگریزی سے ترجمے کی تھیوری وضع کرنے والے حضرات دونوں زبانوں میں مغائرت اورفاصلے کو شدت سے باور کرانا چاہتے تھے۔ اس ’فاصلے‘ کی وجہ سے ایک بات کو ممکن بنایا جا سکتا تھا: انگریزی خیالات کی <annotation lang="en">adaptation</annotation>۔ یعنی انگریزی خیالات کو اپنی زبان کے محاورے میں ڈھال لیا جائے۔ ترجمے کا یہ طریقہ صرف خیال اور اس کے نفوذ کو اہمیت دیتا ہے۔ کسی متن کی پوری کیفیت، اس کے سیاق و سباق کو نہیں۔ چناں چہ کوئی تنقیدی رویہ پیدا نہیں ہوتا، صرف قبولیت اور انجذاب کی حریصانہ خواہش جنم لیتی ہے۔ بہر کیف لائٹنر کی یہ رائے عام طور پر قبول کر لی گئی کہ انگریزی مافیہ کو اردو محاورے میں ڈھال لیا جائے۔ مثلاً۱۸۹۹ئ میں نظم طباطبا ئی نے انگریزی شاعرطامس گرے کی <annotation lang="en">Elegy Written in a Country Churchyard</annotation> (۱۷۵۱ئ) کا ترجمہ ’گورِ غریباں‘ کے نام سے کیا۔ گرے کی نظم میں جہاں بھی یورپی اسمائے معرفہ آئے، انھیں ایرانی اور ہندوستانی اسمائے معرفہ سے بدل دیا گیا۔ کرامویل اور ملٹن کو رستم اور فردوسی سے بدل دیا گیا۔ </p> <p>اس مختصر تاریخی روداد سے ہم چند نکات اخذ کر سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ شعری تراجم کا سارا سلسلہ جس رخ پر چلا، وہ نئی اردو شاعری کے لیے کینن سازی کا رخ تھا۔ نوآبادیاتی سرکار ہی ترجمے کے لیے انگریزی متون کا انتخاب کرتی تھی۔ قلق میرٹھی کومیرٹھ کے انسپکٹر مدراس ٹی جے کین نے انگریزی نظموں کا ایک منتخب مجموعہ ترجمے کی غرض سے دیا۔ آگے اسمٰعیل میرٹھی اور دوسرے لوگوں نے جو ترجمے کیے، سب نصابی ضرورت کے تحت کیے۔ جہاں نظمیں نہ فراہم کی گئیں، وہاں انگریزی طرز کی نیچرل شاعری کا تصور ’فراہم‘ کیا گیا جسے انجمنِ پنجاب نے وضع کیا تھا۔ انجمنِ ِپنجاب کی نئی شاعری کی تحریک جسے لائٹنر ’اردو شاعری کی اصلاحی تحریک‘ کا نام دیتے ہیں، پنجاب کے سکولی نصاب کے لیے نئی اردو نظمیں مہیا کرنے کی خاطر برپا کی گئی۔ اس طرح مخصوص قسم کی انگریزی نظمیں ہی نئی اردو شاعری کے لیے کینن بنیں۔ علاوہ ازیںانگریزی عہد ہی میں پہلی مرتبہ ادب کی زمرہ سازی بھی ہوئی:اخلاقی ادب، اصلاحی ادب، بچوں کا ادب، عورتوں کا ادب۔ ان سب کے لیے انگریزی ادب معیار اور کینن تھا۔ ہر چند خود انگریزی ایک کینن تھی، تاہم اس زبان میں لکھا گیا ساراادب کینن نہیں تھا۔ انگریزی ادب کا وہ حصہ جونئے اردو ادب کے زمروں میںموزوں بیٹھتا تھا، وہی کینن تھا۔</p> <p>اگلے ستر برسوں میں زیادہ تر انگریزی رومانی شعرا کے متون ترجمہ ہوئے اور انھیں نئے اردو ادب کے لیے کینن بنایا گیا۔ ۱۹۳۰ئ کے اوائل میں جب میرا جی نے تراجم کا آغاز کیا تو ورڈزورتھ، شیلے، لانگ فیلو، آڈن، ٹینی سن، ایمر سن، ولیم کو پر، سیمو ئیل راجرزبراوئننگ، طامس روکی نظموں ہی کے تراجم کا رواج تھا۔ اقبال نے بھی انگریزی شاعری کے ضمن میں اسی روایت کی پابستگی اختیار کی، یعنی زیادہ تر اخلاقی نظموں کے ترجمے کیے، تاہم انھوں نے جرمن شاعر گوئٹے کی طرف توجہ دلائی اور پہلی مرتبہ اردو شاعری کی انگریزی اساس کینن سازی میں ’مداخلت‘ کی۔ اردو میں گوئٹے کے شعری اسرار کی آمد، ایک واقعہ تھی، مگرگوئٹے بھی ایک رومانوی شاعر تھا۔ یہ ضرور ہے کہ اس کی رومانویت انگریزی رومانویت سے مختلف تھی اور اس میں ایک خاص قسم کی ’مشرقیت‘ تھی۔ دوسری طرف میرا جی نے جرمنی سے ہائنے (۱۷۹۹ئ-۱۸۵۶ئ) کا انتخاب کیا۔ گوئٹے، اپنی علوِ فکر کے لیے ممتاز ہے اور ہانئے کا معاملہ یہ ہے کہ تھاتو وہ بھی رومانوی مگر اس کی ذات و عمل میںعبرانیت اور یونانیت شامل تھیں اور انھی کی بنا پر اس نے جرمنی سے رومانویت کا خاتمہ بھی کیا۔ ”اس کا دکھ درد کو دیکھنے کا اندازِنظر مادی تھا، لیکن اس کا دکھ درد کو جھیلنے میں صبر واستقلال مذہبی۔ وہ ایک رومانوی شاعر تھا جو قدیم اصنافِ شعری میں ایک جدید روح کا اظہار کرتا تھا۔ وہ ایک غریب بے چارہ یہودی تھا“۔ میرا جی کو ایسے ہی غریب، بے چارے شاعروں سے دلچسپی تھی جو ایک سے زیادہ اور اکثر متناقض شناختیں رکھتے تھے اور اس سے پیدا ہونے والی کش مکش سے شاعری کشید کرتے تھے۔</p> <p>میرا جی کی زندگی کا اہم واقعہ یہ تھا کہ انھوں نے میٹرک کے دوران ہی میں تعلیم کو خیر باد کہہ دیا۔ یہ میرا جی اور اردو شاعری کے حق میں بہتر ہوا۔ اگر میرا جی اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے تو اس بات کا امکان تھا کہ وہ بھی نصابی نوعیت کے چند یورپی شعری متون تک محدود رہتے اور ان کا شعری تخیل اسی معیار بندی میں قید ہو کر رہ جاتا، جس کے اسیر ان کے معاصرین تھے، جن میں فیض، راشد اور مجید امجد بھی شامل ہیں۔ میرا جی نے مغربی شعرامیںوالٹ وٹمین، ایڈگرایلن پو (امریکی)، پشکن (روسی)، فرانساولاں، چارلسبودلیر، سٹیفانے ملارمے (فرانسیسی)، جان مینسفیلڈ، ڈی ایچ لارنس، ایملی برونٹے (برطانوی)، سیفو (یونان)، ہائنے (جرمن)، کیٹولس (اطالوی) اور مشرقی شعرا میں میرا بائی، چنڈی داس، امرو، ودیا پتی، دمودر گپت، عمر خیام نیز کوریائی، چینی، جاپانی گیتوں کے ترجمے کیے اور ان پر تفصیلی نوٹ تحریر کیے۔</p> <p>میرا جی کے ضمن میں گیتا پٹیل نے لکھا ہے کہ ”علامت پسند ملارمے، بادلیئر، رمباد، پو جیسے شعرا کو قابلِ نظیر بنا کر پیش کرنے سے، میرا جی نے کینن سازی کی سیاست کا تجزیہ کیا۔“ حقیقت یہ ہے کہ میرا جی نے شاعری سے بڑھ کر اپنے تراجم میں اپنے عہد کی کینن سازی کی سیاست کا نہ صرف جائزہ لیا بلکہ اس میں دخیل بھی ہوئے۔ اس ضمن میں کچھ باتیں تو بالکل سامنے کی ہیں۔ مثلاً یہ کہ میرا جی نے قدیم، کلاسیکی اور جدید عہد کے اور مغرب و ایشیا کے مختلف ملکوں کے شعرا کو منتخب کیا۔ یہ عمل ایک خاص عہد (زیادہ تر رومانویت) کے چند شعری متون (زیادہ تر انگریزی) سے مستحکم ہونے والے معیارِ شعر سے واضح انحراف تھا۔ انیسویں صدی کے نصف سے بیسویں صدی کی تیسری دہائی تک انگریزی شاعری ہی کینن تھی۔(تسلیم کرنا چاہیے کہ ترقی پسند تحریک نے بھی روسی ادب کے تعارف سے انگریزی کینن کو چوٹ پہنچائی )۔ دوسرا یہ کہ میرا جی نے ان تراجم کے ذریعے اردو شاعری میں پہلی مرتبہ ہمہ دیسی نقطۂ نظر اختیار کیا۔ انھوں نے ایک ایسے شاعر کی نظر سے دیس دیس کی شاعری کو دیکھا، جس پر کسی واحد نظریے کی شدت کا بوجھ نہیں تھا، مگر وہ اپنے عہد کی بری طرح سیاست زدہ فضا میں اپنی معنویت باور کرانے کی جرأت سے لیس تھا۔</p> <p>یہاں آگے بڑھنے سے پہلے ہمہ دیسی نقطۂ نظر سے متعلق دو ایک باتیں کہنے کی ضرورت ہے۔ ہمہ دیسی یا <annotation lang="en">cosmopolitan</annotation> نقطۂ نظر ’دیسی مقامیت‘ سے متعلق رہتے ہوئے بدیسی دنیائوں سے بھی ربط و ضبط رکھنے سے عبارت ہے۔ ادب میںہمہ دیسی کا آغاز اس احساس سے ہوتا ہے کہ ہمیں بطور ایک متجسس تخلیق کار کے، اپنے تمام سوالوں کے جواب اپنے دیس کے معاصر ادب میں نہیں ملتے۔ آپ اس بات کو یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہماری پیاسی روح کی سیرابی کے لیے ہمارے اپنے سرچشمے کافی نہیں، اس لیے ہمیں نئے سرچشموں کی تلاش کرنی چاہیے۔ واضح رہے کہ اس میں اپنا انکار نہیں ہوتا، اپنی جمالیاتی اور ثقافتی حسیت کے دریائوں کے پاٹ کو مزید کشادہ کرنے کی تمنا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمہ دیسیت میں بدیسیت کا تصور بھی دیس کے طور پر کیا جاتا ہے۔ ہمہ دیسیت، دوسری دنیائوں کی ادبی روایتوں کو مختلف و منفرد تو دیکھتی ہے، انھیں خود سے متضاد و متصادم نہیں دیکھتی۔ چناں چہ یہاں اجنبیت کا خوف نہیں، نئی اور انوکھی دنیائوں کو حیرت و تجسس سے دیکھنے اور اس سے اخذ و استفادہ کرنے کا میلان ہوتا ہے۔ ہمہ دیسیت، مشترکہ انسانی تہذیب کے اس خواب سے سرشار ہوتی ہے جو ترجمے کی مثالی صورت کا محرک ہوتا ہے۔ میرا جی کے تراجم اسی ہمہ دیسی نقطۂ نظر کی روشنی میں بدیسی ادب کو پیش کرتے ہیں۔ </p> <p>ئ اور ۱۹۴۰ئ کی دہائیوں میں اردو دنیا کئی متصادم نظریات اور بیانیوں سے بوجھل تھی۔ ان میں سب سے اہم بیانیہ قومیت پرستی کا تھا جو لسانی، مذہبی، سیاسی، علاقائی محوروں پر تشکیل پاتا تھا اور فرقہ وارانہ اسلوب میں ظاہر ہوتا تھا۔ ایک سطح پر یہ بیانیہ متحد تھا اور دوسری سطح پر تقسیم در رتقسیم کی کیفیت رکھتا تھا۔ انگریزی استعمار کو اپنا مشترکہ حریف سمجھنے میں متحد تھا، مگر اس سے آگے خود اپنے اندر سے اپنے کئی حریفوں کو جنم دیتا تھا۔ میرا جی کی شاعری اور تراجم اس متصادم فضا میں ظاہر ہوئے۔ اس فضا میں کوئی متن اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر الگ تھلگ نہیں رہ سکتا تھا۔ یہ سوچنا خام خیالی ہے کہ میرا جی کی شاعری فرار اختیار کرتی ہے اور ان کے تراجم ایک رجعت پسند کے شوقِ فراواں کی مثال ہیں۔ راقم کی تو یہ بھی رائے ہے کہ رجعت پسندی میںبھی کوئی حرج نہیں، اگر وہ کسی لکھنے والے کو اس کی ذات کے کسی گہرے سوال کا جواب مہیا کرتی ہو۔ اگر ادب کی کوئی تہذیب ہے تو اس میں ایک ادیب کی آزادی کے احترام کو مقدم رکھ کر ہی اس کا تصور کیا جاسکتا ہے۔ بہر کیف، میرا جی کے تراجم قومیت پرستی کے باہم دست و گریباں بیانیوں کے متوازی اپنے لیے جگہ خلق کرتے ہیں۔ یہ تراجم ان بیانیوں پر راست کوئی سوال نہیں اٹھاتے ؛یعنی نہ تو وہ ہندو قوم پرستی کی حمایت پر کمر بستہ ہوتے ہیں، نہ مسلم قوم پرستی کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ ہندوستانی قومیت کی تائید میں سرگرم ہوتے ہیں۔ میرا جی کی شاعری اور تراجم کی حقیقی جہت کو حمایت و مخالفت کے محاورے میں نہیں سمجھا جا سکتا۔ ثقافتی فضا جب متصادم بیانیوں سے بوجھل ہو تو اکثر لکھنے والے، کسی ایک بیانیے کی حمایت اور دوسرے کی مخالفت کا انداز اپناتے ہیں، مگر کچھ سعید روحیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو تصادم اور ایک دوسرے کی نفی کرنے والی فضا سے باہر، مگر اس کے متوازی ایک نئی فضا قائم کرتی ہیں۔ میرا جی انھیں میں شامل ہیں۔ میرا جی کے تراجم کی فضا کثیرالثقافتی پس منظر اور ہمہ دیسی زاویۂ نظر سے عبارت ہے۔ یہ قومیت پرستی کے متوازی ’ایک اور دنیا ہے‘: یہی اس دنیا کی معنویت ہے۔ یہ دنیا مختلف زمانوں، مختلف تخیلات اور مختلف اسالیب اور اکثر تضادات کی دنیا ہے جسے اگر کسی شے نے باہم باندھ رکھا ہے تو وہ ادبیت کا دھاگا ہے ؛ایک ایسی ’روح جمال‘ جو مختلف زمانوں میں مختلف رنگوں انگوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہاں ازمنہ وسطیٰ کے یورپ کے جہاں گرد طلبا کے گیت بھی ہیں جو علم کی تلاش میں یورپ کی مختلف یونی ورسٹیوں کی خاک چھانتے پھرتے تھے اور ’بغیر دولت کے، بغیر فکر وتردد کے، بے پروا عشرت پسند، وہ ایک آزاد زندگی بسر کرتے تھے اور منطق و دینیات کے کسی مسئلے پر بحث کرنے کی بجائے، شراب و شعر و نغمہ اور عورت ان کے دل پسند موضوعِ ِسخن ہوا کرتے تھے۔‘ یہاں بیسویں صدی کا پشکن جیسا شاعر بھی ہے جو کسی بڑے شاعر کو نہیں، اپنی انا کو اپنا سب سے بڑا معلم سمجھتا تھا اور جو نہ باغی تھا، نہ مصلح، نہ آزاد خیال اور نہ قدامت پسند۔ وہ بس ایک جمہوریت پسند انسان تھا۔(وہ بھی میرا جی کی طرح سینتیس برس اور چند ماہ جیا)۔ اسی طرح فرانس کے پندرھویں صدی کے فرانساں ولاں اور انیسویں صدی کے بادلیئر جیسے آوارہ شاعر بھی ہیں۔ ولاں کی شخصیت اور شاعری اجتماع ضدین تھی اور بادلیئربھی کچھ ایسا تھا: اسے بس ایک آرزو تھی، کسبِ کمال کی؛بقول میرا جی ’وہ ایک گناہ گار ہے، لیکن اس کی حیثیت ایک قاضی کی ہے؛وہ ایک معلم اخلاق ہے لیکن اسے بدی کی خوش کن کیفیات کا ایک گہرا، تیز اور شدید احساس ہے‘۔ نیز انیسویں صدی کا ملارمے بھی ہے جو مشکل پسند ہے مگر جس کے کلام سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ خالص شاعری کیا ہے۔ یہیں پانچویں صدی قبل مسیح کا سنسکرت شاعر امارو بھی ہے جس نے سنسکرت ادب میں پہلی بار اس حقیقت کو منوایا کہ صرف محبت ہی کو شاعری کا بنیادی موضوع بنا کرگونا گوں نغمے چھیڑے جا سکتے ہیں اور یہیں پندرھویں صدی کا بنگالی شاعر چنڈی داس بھی ہے، جو ایک برہمن تھا، مگر رامی دھوبن کے عشق میںگرفتار ہو کرذات باہر اور وطن باہر ہوا، نیز جس کا عقیدہ تھا کہ جنسی محبت ہی سے خدا کی طرف دھیان لگایا جا سکتا ہے۔ یہیں چھٹی صدی قبل مسیح کے یونان کی سیفو بھی ہے جس کے متعلق افلاطون نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ سروشِ غیبی نو ہیں، مگر وہ بھولتے ہیں، لیسبوس کی سیفو بھی ہے جو دسواں سروشِ ِغیبی ہے۔ اصل یہ ہے کہ میرا جی ان متضاد، متنوع خصوصیات کے حامل شعرا کے ترجموں سے یہ باور کراتے ہیں کہ ہر شاعرانہ آواز اور ہر انسانی جذبے کو اظہار کی آزادی ہے۔ اظہار کی اس آزادی کا مفہوم اپنی اس معاصر شاعری کے سیاق میں پُرنور ہو کر سامنے آتا ہے جو قومی، اخلاقی، سیاسی جذبات سے سرشار تھی۔ بغاوت، اصلاح، آزادی کے بڑے خواب دکھانے کو اپنا ایمان بنائے ہوئے تھی۔ میرا جی بڑے، عظیم الشان خوابوں میں نہیں چھوٹے چھوٹے ان انسانی خوابوں میں یقین رکھتے ہیں جن سے مختلف زمانوں اور ثقافتوں کے لوگوں نے اپنی روح کے چراغ جلائے اور جن کی لو آج بھی ہمیں اپنے اندر اترتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ شاعری کی لا زمانی شعریت ؍ادبیت پر اصرار کا رویہ تھا۔ دیکھیے میرا جی کس قسم کی نظمیں بذریعہ ترجمہ سامنے لاتے ہیں؛</p> <blockquote> <verse> مست عشرت کا کوئی مول نہیں میرے قریں نفس کی بہجت مستانہ، غضب، سر جوشی ان کی قیمت ہی نہیں بازوئوں میں مرے اک سانپ کی مانند کوئی جسم حسیں </verse> <p>(سنجوگ، پشکن)</p> <p>وہ ایک مہرِ آبنوسی ہے، ایک نجمِ سیاہ اور اس کے باوجود نورو مسرت کی کرنیں اس میں سے پھوٹ رہی ہیں۔ بلکہ وہ ایک ایسے چاند کی طرح ہے جس نے اسے اپنا لیا ہے۔ وہ چاند، گیتوں کا دھندلا، پژمردہ ستارہ نہیںجو کسی کٹھور دلھن کی طرح ہو، بلکہ وحشی، سرگرداںاور مدہوش چاندجو کسی طوفانی رات کے آسمان میں ہو۔ وہ سیمیں سیارہ نہیں جو لوگوں کے مطمئن خوابوں میں مسکراتا ہو، بلکہ ایک سانولی غضب ناک دیوی جسے جادو کے اثر سے آسمانوں سے نکال دیا گیا ہو، جسے ساحروں نے ڈری ہوئی دھرتی پر پرانے زمانوں سے آج تک ناچنے پر مجبور رکھا ہو </p> <p>(سانولا گیت، چارلس بادلیئر)</p> <verse> وہ سامنے دورپہاڑی ہے اور اس پر کہرا چھایا ہے اور بہتی ہوائوں نے اپنے ہونٹوں پر قفل لگایا ہے یہ کہرا دھندلا دھندلا ہے ذرے ذرے میں سمایا ہے ان مٹ ہے لافانی، جیسے لوہے سے کسی نے بنایا ہے یہ کہرا ایک اشارہ ہے پیڑوں کے سروں سے چھلکا ہے بھیدوں کے بھید نہاں اس میں، یہ تو بھیدوں کا دھندلکا ہے </verse> <p>(مرے ہوئے کی روحیں، ایڈگر ایلن پو)</p> <verse> اے دریا میں نے تجھے منبع پر بھی دیکھا ہے ایک بچہ بھی تجھے پھلانگ سکتا ہے پھولوں کی ٹہنی سے بھی تیرا راستہ بدلا جا سکتا ہے لیکن اب تو ایک پھیلا ہو اطوفان ہے اور اچھی سے اچھی کشتی کو بھنور میں گھیر سکتا ہے افسوس، دیا متی!دیا متی کی محبت! </verse> <p>(مرد، امارو)</p> <verse> وہ مرچکی ہے، لیکن پھول اب بھی مسکراتے ہیں اے موت! اس لڑکی کو حاصل کرنے کے بعد تجھے مارنے کی فرصت کیسے ملتی ہے؟ </verse> <p>(مرد، امارو)</p> <verse> کان میں آئی تان سریلی، ایک پپیہا بول اٹھا میرے من کی بات ہی کیا ہے، سارا بن ہی ڈول اٹھا میں نے جان لیا ہے پنچھی!دکھ کی تیری کہانی ہے تیرے منھ پر بس لے دے کے اک پی پی کی بانی ہے </verse> <p>(آمدِ ِبہار، ہائنے)</p> </blockquote> <p>میرا جی نے طامس مور کی نظموں کے ترجمے کرتے ہوئے، ان پر جو نوٹ لکھا ہے، وہ ہماری معروضات کی مزید تصدیق کرتا ہے۔ بر سبیلِ تذکرہ، میرا جی سے پہلے طامس مور کی کچھ نظموں کے تراجم ہو چکے تھے۔ مخزن کے نومبر ۱۹۰۹ئ کے شمارے میں عزیز لکھنوی نے ’ٹی کا جواں چاند‘ کے عنوان سے اور مخزن ہی کے فروری ۱۹۱۰ئ کے شمارے میں نادر کا کوری نے ’گزرے زمانے کی یاد‘ کے عنوان سے مور کی ایک میلوڈی کا ترجمہ کیا۔ کاکوروی کا ترجمہ مغربی نظموں کے چند عمدہ اردو تراجم میں سے ایک ہے۔ شاید اسی لیے میرا جی نے اسے دوبارہ ترجمہ کرنے کے بجائے مور پر اپنے مضمون میں شامل کر لیا۔</p> <p>میرا جی نے طامس مور (۱۷۷۹ئ-۱۸۵۲ئ) کو ’مغرب کا ایک مشرقی شاعر‘ قرار دیا ہے۔ اس ضمن میں میرا جی نے ہندوستان اور آئرستان کی بعض مماثلتیں واضح کی ہیں، مگر ایک دوسری اور بڑی وجہ ہے جس کی طرف میرا جی نے توجہ دلائی ہے۔ یہ کہ طامس مور نے لالہ رخ (۱۸۱۷ئ) کے نام سے ایک مثنوی لکھی، جواگرچہ ایک امریکی پبلشر کی فرمائش پر لکھی گئی مگر مشرق سے کسبِ ِفیضان کے اسی جذبے کے تحت لکھی گئی جو نشاۃ ثانیہ سے انیسویں صدی تک مغرب کے دل میںموجزن رہا ہے۔ میرا جی کی ہمہ دیسیت کو سمجھنے کے لیے طامس مور کی مثال کافی اہم ہے۔ طامس مورنے لالہ رخمیں اورنگ زیب عالم گیر کی بیٹی اور باختر کے نوجوان شاہ کی شادی کا شعری بیانیہ لکھا ہے جس میں اہم واقعہ لالہ رخ کا ایک شاعر فرامرز کی محبت میں گرفتار ہونا ہے۔ یاد کیجیے: ۱۹۳۰ئ کی دہائی میں مشرق پر مغرب کے سیاسی، علمی، تہذیبی غلبے نے دونوں میں کش مکش کی کیا صورت پیدا کر دی تھی؟ اسی کش مکش سے مشرق کے دل میں اپنی عظمتِ رفتہ کی مدح خوانی کا جوش پیدا ہوا تھا (جو اب تک ٹھندا نہیں پڑا)۔ استعماری مغرب کے تصور سے پیدا ہونے والے نفسیاتی دبائو سے آزاد ہونے کی یہ ایک معروف صورت تھی کہ مغرب پر مشرق کے علمی و تہذیبی احسانات کا ذکر کیا جائے۔ میرا جی لالہ رخ کو مشرق کی عظمتِ رفتہ کا قصیدہ لکھنے کا بہانہ نہیں بناتے؛اسے بس ایک تاریخی صداقت کے طور پر سامنے لاتے ہیں۔ اصل میںوہ اس سارے سلسلے کو اپنی ہمہ دیسی فکر کی روشنی میں دیکھتے ہیں:یعنی تمام دیس ایک دوسرے سے فیض اٹھاتے ہیں اور ہر دیس میں دوسرے دیس کو کچھ نیا دینے کے لیے موجود ہوتا ہے۔ دیکھیے وہ طامس مور کے شاعرانہ امتیاز سے متعلق کیا لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>مور کی پیدائش اس وقت ہوئی جب آئرستان میں ایک نئے عہد کا آغاز ہو رہا تھا اور حُب الوطنی کا جوش رگوں میں جاری تھا، لیکن اس سلسلے میں اس نے کبھی عملی حصہ لے کر اپنی زندگی کی عام روش اور بہائو میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ مور فطری طور پر محض ایک شاعر تھاکوئی پیغام بر یا باغی نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب بھی انتخاب کا موقع آیااس نے انقلاب پسندی پر میانہ روی کو ترجیح دی، لیکن قومی حیثیت سے آئرستان کے لیے اس کے دل میں تخیل پرستی کا ایک احساس ضرور تھا۔ وہ اپنے ملک میں خوش حالی اور آزادی کا خواہاں تھا۔</p> </blockquote> <p>یوں لگتا ہے جیسے میرا جی نے مور میں خود کو دریافت کیا ہے۔ ٹھیک یہی بات ہم میرا جی کی شاعری اور تراجم کے بارے میں کہہ سکتے ہیں۔ میرا جی محض ایک شاعر ہیں، پیغام بر یا باغی نہیں۔ میرا جی کے زمانے میں پیغام بر اور باغی دونوں قسم کے شاعر موجود تھے، مگر میرا جی نے ان کا نہیں، ایک اپنا راستہ اختیار کیا۔ یہ ایک شاعرِ محض کا راستہ تھا۔ ان کے پاس دنیا کو سمجھنے کا ذریعہ شاعری تھی۔ انھوں نے جتنے شعرا کے ترجمے کیے، وہ انقلابی یا باغی نہیں، مگر اپنے زمانے کی صورتِ حال کا شاعرانہ ادراک رکھتے ہیں۔ اسی طرح میرا جی کے یہاں بھی ہندوستان کا ایک تخیل موجود تھا۔ چوں کہ یہ ایک ایسے شاعر کا تخیل تھا جوگھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کے لیے سرگرداں تھا، اس لیے یہ تخیل ہندوستان کی عظمتِ رفتہ کی یادوں کا جشن نہیں مناتا تھا۔ ہمارے یہاں جن شعرا نے عظمتِ رفتہ کا قصیدہ لکھا، انھوں نے مغرب اور معاصر صورتِ حال پر بس چوٹیں کی ہیں۔ میرا جی کا قدیم ہندوستان کے ادب کی طرف وہی رویہ ہے جو مغرب کے شعرا کی طرف ہے اور اس سب کو وہ معاصر صورتِ ِحال میں بامعنی بنانے کی سعی کرتے ہیں۔ میرا جی کے تراجم اور شاعری تفریق و تقسیم کو معنی کی تخلیق کا ذریعہ نہیں بناتے، مماثلت و قربت کے ذریعے معنی وجود میں لاتے ہیں۔ یہ عمل اردو میں انگریزی شاعری کے ترجمے کی روایت کا آغاز کرنے والوں کی فکر سے کھلا انحراف تھا۔</p> <p>میرا جی نے ترجمے کے ذریعے اس ثقافتی فضا میں ’خاموش مگر خاصی مؤثرمداخلت‘ کی جو کئی متصادم نظریات اور بیانیوں سے بوجھل تھی۔ اس کی اہم مثال نگار خانہ ہے۔</p> <p>پہلے اس کتاب سے متعلق کچھ غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری ہے۔</p> <p>ڈاکٹر رشید امجد نے لکھا ہے کہ ”یہ طویل نظم دوسری بہت سی مشرقی کہانیوں کے ساتھ ایک انگریزی انتھالوجی <annotation lang="en">(Romances of the East)</annotation> میں شامل تھی (اس پر مرتب کا نام درج نہیں تھا)۔ ”انھوں نے اشفاق احمد کے ۲۸ نومبر ۱۹۹۰ئ کو اپنے نام لکھے گئے ایک خط کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں نگار خانہ کو ایک نامکمل کتاب کہا گیا ہے۔ نیز یہ خبر بھی دی گئی ہے کہ اس کا دوسرا حصہ میرا جی نے ترجمہ کر دیا تھا جسے اشفاق احمدنے محفوظ کر لیا تھا۔ ان دونوں باتوں کے سلسلے میں عرض ہے کہ میرا جی نے نگار خانہ کا ترجمہ مشرق کے رومان نامی انگریزی کتاب سے نہیں، بلکہ ایک دوسری کتاب سے کیا تھا۔ اس کتاب کا پورا نام یہ ہے:</p> <blockquote> <p><annotation lang="en">Eastern Love, Vol 1 ٴ&amp; 2 The Lessons of a Bawd and Harlot's Breviary English Versions of the KUTTNIMATAM of Damodargupta and SAMAYAMATRIKA of Kshemendra</annotation></p> </blockquote> <p>یہ کتاب پہلی بار لندن سے ۱۹۲۷ئ میں جون روڈکر کے زیر اہتمام شائع ہوئی تھی۔ <annotation lang="en">E. Powys Mathers</annotation> (۱۸۹۲ئ-۱۹۳۹ئ) نے اسے ترجمہ کیا تھا (جس کی کچھ تفصیل مبشر احمد میر نے جدید ادب کے میرا جی نمبر میں دی ہے)۔ نگار خانہ کی ماخذ کتاب کو دیکھنے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ میرا جی نے دمودر گپت کی کٹنی متم کا تقریباًمکمل ترجمہ کیا۔ ای پی ماتھرس کا ترجمہ دس ابواب اور ۹۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ میرا جی نے چوتھے باب کا ترجمہ نہیں کیا جو ماتھرس کی کتاب میں <annotation lang="en">Preludes</annotation> کے نام سے شامل ہے۔ تاہم باقی نو ابواب کا مکمل ترجمہ کیا ہے۔ اشفاق احمد نگار خانہ کے جس دوسرے حصے کی خبر دیتے ہیں، وہ اگر موجود تھا تو وہ کشمندر کی کتاب کا ترجمہ ہے جو ای پی ماتھرس کی مذکورہ بالا کتاب کی دوسری جلد ہے۔ چوں کہ کشمندر کی سمیام ترک کا موضوع بھی کنچنیوں کی روزمرہ زندگی کی تعلیم سے متعلق ہے، اس لیے اشفاق احمد کو غلط فہمی ہوئی کہ یہ دمودر گپت کی کتاب کا دوسرا حصہ ہے۔</p> <p>اسی ضمن میں ایک دلچسپ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ای پی ماتھرس نے دمودر گپت اور کشمندر کی کتابوں کے تراجم سنسکرت سے نہیں، لوئی لا نگلے <annotation lang="en">(Louis de Langle)</annotation> کے فرانسیسی ترجمے سے کیے۔ لہٰذا میرا جی کا ترجمہ اصل کتاب سے ’دودرجے دور‘ ہے۔</p> <p>میرا جی کے ترجمے پر گفتگو سے پہلے، ماتھرس کے پیش لفظ سے کچھ حصوںکو پیش کرنا ضروری ہے۔ یہ حصے ہمیں ایک طرف کٹنی متم کے بارے میں کچھ اہم باتوں سے آگاہ کرتے ہیں اور دوسری طرف مشرقی ادب کی طرف یورپی ذہنی رویے کی خبر بھی دیتے ہیں۔</p> <blockquote> <p>دونوں میں سے] کوئی مصنف طرف داری نہیں کرتا، نہ ہی کوئی نظم پوری طرح نصیحت آموز یا طنزیہ ہے۔ دونوں نظموں کو ایک کھیل کا راہنما کتابچہ سمجھا جا سکتا ہے جس میں اصولوں کو امیر نوجوانوں اور بیسوائوں کے لیے تحریری طور پر واضح کر دیا جاتا ہے اور جس میں بہتر کھلاڑی کو جیت کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔۔۔۔[ہندوستان میں، جب یہ کتابیں تصنیف ہوئیں]بیسوائیںہمدردانہ تعظیم پاتی تھیں اور انھیں شہر کی شان اور زینت سمجھا جاتا تھا۔ وہ تمام عوامی میلوں ٹھیلوں، مذہبی جلوسوں، گھڑ دوڑوں، مرغ، بٹیر اور دنبوں کی لڑائیوں کے مقابلوںمیں دیکھی جاتی تھیں اور ہر تھیٹر کے ناظرین میں نمایاں ہوتی تھیں۔ بادشاہ ان پر مہربان ہوتے اور ان سے مشورہ کرتے تھے۔ ہم ان سے ڈراموں اور عشقیہ قصوں کی ہیروئنوں کے طور پر واقف ہیں۔۔۔۔ جاتک میں ہم پڑھتے ہیں کہ انھیں ایک رات کے لیے ہزراوں سونے کے ٹکڑے دے دیے گئے اور ترنگ کی کتھا میں ایک بیسوا نے ایک گھنٹے کے لیے پانچ سو ہاتھی طلب کیے۔ بعد کی کتابوں میں ایک طوائف کو اس قدر دولت مند دکھایا گیا ہے کہ وہ ایک معزول بادشاہ کی بحالی کے لیے ایک پورا لشکرخرید سکتی ہے۔ ان نوازشاتِ بے جا کی تہہ میں چھپی حقیقت کو سمجھنا مشکل نہیں۔[ہندوستان کی عورتوں میں] ایک طرف مجبور اور کثیر الاعیال عورتیں شامل ہیںجو گھراور نسل کی خدمت پر مامور ہیں اور دوسری طرف وہ عورتیں ہیںجو آزاد ہیں اور اپنے حسن کو قائم رکھنے کے لیے بے اولاد رہنے کا عہد کیے ہوئے ہیں۔ عورتوں کی یہ طبقاتی تقسیم، جس میں دوسرے سماجی گروہ بھی شامل ہیں، ہند میں، برہمنی اقتدار اور ذات پات کے نظام کی وجہ سے بہت گہری ہے۔ ”کٹنی کے پاٹھ“ اس وقت لکھی گئی، جب بیوی کی حالت اور ادھیکار براے نام رہ گیا تھا۔ وہ ناخواندہ تھی اور آزادنہ سوچ سے واقف نہیں تھی۔ وہ کم عمری ہی میں اپنی ماں کے اختیار سے ساس کے اختیار میں چلی جاتی تھی۔ اس کے شوہر پرد وسروں کا بھی حق ہوتا اور وہ اس کے ساتھ ذہنی رفاقت نہیں رکھتی تھی۔ اسے فقط گمان کی بنیاد پر پرے کر دیا جاتا اور اگر بے اولاد رہتی تو نفرت کا نشانہ بنتی۔ اگر وہ بیوہ ہو جاتی تو اپنی بیوگی میں زندہ رہنے جوگی نہ ہوتی۔ بلاشبہ بیوی کی اس حیثیت کا سب سے زیادہ فائدہ بیسوا اٹھاتی۔ بیسوا کی آزادی کی حفاظت قانون کرتا اور وہ تسلیم و انکار کی مجاز تھی۔ اسے صرف دولت ہی سے زیر کیا جاسکتا تھا اور وہ واحد ایسی مخلوق تھی جومردوں کی رقابت کا بھی فائدہ اٹھاتی۔ اس کے بنائو ٹھنائو کا ایک جز اس کی مکمل تعلیم تھی اور اس کی تعلیم نہ صرف موہ لینے والی ہوتی بلکہ اس کا تحفظ بھی کیا جاتا۔</p> <p>اس طرح جیسے جیسے بیوی زیادہ سے زیادہ غلام ہوتے چلی گئی، بیسوا زیادہ سے زیادہ ایک آدرش بنتے چلی گئی، ایک ایسی چیز جس کے لیے لافانی نادانیاں کی جانے لگیں۔ اس کے لیے خود کو برباد کرنارواج بن گیا۔ اگرچہ حقیقی نکتہ رس، ذہین اور تعلیم یافتہ مرد، ان بیسوائوں کے متعلق وہ سب جانتے ہوئے جسے جانا جا سکتا تھا، خود کو ان کی بھینٹ چڑھا دیتے تھے۔</p> </blockquote> <p> ای پی ماتھرس نے ہندوستانی سماج میں بیسوا کے رسوخ کی تو درست نشان دہی کی، مگر ایک اہم بات سمجھنے سے قاصر رہے۔ کسی بات کی تہہ تک نہ پہنچ سکنا ایک معاملہ ہے اور کسی اہم بات کی ناروا تعبیر کرنا دوسرامعاملہ ہے۔ ماتھرس صاحب نے کٹنی متم کو ایک راہ نما کتابچہ یا مینول کہا ہے۔ کیا کوئی مینول ایک جمال پارہ ہو سکتا ہے جس طورکٹنی متم ہے؟اس میں عورت کے جمال، مرد وعورت کے رشتے، لاگ لگائو، جنسی معاملات اس عمدہ پیرائے میں پیش ہوئے ہیں کہ پڑھتے ہوئے اس جانب توجہ ہی نہیں جاتی کہ یہ ایک کٹنی کا نٹنی کے لیے ہدایت نامہ ہے۔ دمودر گپت کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔ بس اس قدر معلوم پڑتا ہے کہ وہ آٹھویں صدی کے شاہِ ِشمیر جیا پیدا ونیایادتیا کے دربار میںایک اعلیٰ عہدے دار تھا۔ یعنی وہ نٹنیوں کا دلال نہیں تھا۔ اس نے یہ کتاب کیوں لکھی، اس کا جواب ہمیں ماتھرس کے پیش لفظ میں نہیں ملتا۔ تاہم ایک اور کتاب اس سلسلے میں ہماری یاوری کرتی ہے اور وہ ہے اے بیری ڈیل کائتھ کی سنسکرت ادب کی تاریخ۔</p> <blockquote> <p>آدمی کے مقاصدِ ِحیات میں تیسرا کام یعنی محبت ہے اور ہندوستانی مصنفین نے اس موضوع کو اسی طرح سنجیدگی سے لیا ہے جس طرح دھرم اور ارتھ کو۔ جس طرح ارتھ شاستر بادشاہوں اور وزیروں کے لیے ہے، اسی طرح کام شاستر صاحبانِ ذوق کے مطالعے کے لیے ہے، جو محبت کے علم کو حدِ کمال تک لطیف اور مفید بنانا چاہتے ہیں۔</p> </blockquote> <p>حیرت اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ یہی بات دمود رگپت کی اس کتاب میں بھی درج ہے۔ یہ اقتباس دیکھیے جو نگار خانہ سے لیا گیا ہے۔</p> <blockquote> <p>جو کوئی دھرم کے کام کو پور انہیں کرتااور دھرم ہی سب سے بڑا گن ہے اور جو کوئی ارتھ پر جیت پانے کی کوشش نہیں کرتا اور ارتھ ہی سب سے بڑا دھن ہے اور جو کوئی کام کی دولت اکٹھی نہیں کرتا، جس سے پریم کا آنند ملتا ہے تو پھر اس سنسار میں جہاں ہر کوئی اچھی سے اچھی بات کی کھوج میں لگا ہوا ہے، اس کا جیون کسی کام کا نہیں۔</p> </blockquote> <p>لہٰذا کٹنی متم اسی سنجیدگی سے لکھی گئی ہے جس اعلیٰ سنجیدگی سے دھرم اور ارتھ کی کتابیں۔ دوسرے لفظوں میں قدیم ہندوستان میں آدمی کا ایک خاص تصور تھا جومذہب، علم اور عشق سے عبارت تھا۔ کٹنی متم، کتابِ ِشق ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ قدیم ہندوستانی ادب میں مذہب، علم اور عشق میں کوئی تضاد نہیں۔ یہ کم و بیش وحدت کا وہی تصور ہے جو یونان میں علم کی وحدت کا تصور تھا، جس کے مطابق صداقت، خیر اور حسن ایک ہی اکائی کا حصہ تھے۔ خیر کی جستجو مذہب، صداقت کی فلسفہ اور آرٹ حسن کی جستجو کرتے تھے۔</p> <p>ماتھرس سے ملتی جلتی غلط فہمی منٹو کو بھی ہوئی ہے جنھوں نے نگارخانہ کا دیباچہ لکھا۔ منٹو کے خیال میں میرا جی نے کٹنی متم (منٹو غلطی سے نٹنی متم لکھتے ہیں) کا ترجمہ اس لیے کیا کہ ”وہ جنس زدہ تھے۔ یہ ’سکسئول پرورٹ‘ کا صحیح ترجمہ نہیں، مگر آپ اسے یہی سمجھیے۔ میرا جی سے میں نے اس کے متعلق کئی بار باتیں کیں۔ ہر بار انھوں نے تسلیم کیا کہ وہ جنس زدہ ہیں۔۔۔۔ مجھے یہاں ان کی شخصیت کا تجزیہ نہیں کرنا ہے اور نہ مجھے اس کے جنسیاتی رجحانات کا تذکرہ کرنا ہے۔ اس کا ذکر صرف اس لیے آگیا ہے کہ اتفاق سے اس کتاب کا موضوع ٹھیٹ جنسیاتی ہے۔“ دوسرے لفظوں میں نگار خانہ میںمیرا جی کی جنسی کج روی کا انعکاس ہوا ہے۔ اگر جنسی کج روی نگار خانہ جیسی نثر کی تخلیق کا باعث ہو سکتی ہے توایسی کج روی پر ہزاروں کی پاک دامنی قربان کی جانی چاہیے۔ یہاں مقصود میرا جی کی کسی کج روی کا دفاع مقصود نہیں۔ اگر ان میں جنسی یا کوئی دوسری کج روی تھی تو یہ ان کا شخصی انتخاب یا مجبوری تھی۔ ہمیں ان کی شخصیت سے نہیں، ان کے کام سے غرض ہے اور ان کے کام (اور یہاں ان کے تراجم پیشِ نظر ہیں) میںجنسی بے راہ روی نہیں، عشق و جمال کو اس کی حدِ کمال تک سمجھنے اور اسے ایک تہذیب میں بدلنے کی سعی ملتی ہے۔ مذہب، فلسفہ اور عشق کی حدِ ِمال اور اس سے وجود میں آنے والی تہذیب کیا ہے، اس کا جواب آسان نہیں، مگر اتنا ہم کَہ سکتے ہیں، یہ تہذیب ایک اعلیٰ درجے کے نشاط اور اتنی ہی بلند مرتبہ بصیرت سے عبارت ہے۔ انسان نے اپنے دکھوں سے نجات کے لیے اس نشاط و بصیرت سے بڑھ کر کسی اور شے کو اپنا ملجا نہیں پایا۔ بصیرت دکھ کا خاتمہ کرے نہ کرے، دکھ کو سہنے کا وقار ضرور عطا کرتی ہے۔ یہی وقار آمیز تمکنت و بصیرت نگار خانہ کے صفحات میں نور افشاں ہے۔ ایک ایسی کتاب جو کٹنی کے پاٹھوں پر مشتمل ہے، اس میں ایسی باتیں اس امر پر دال ہیں کہ آرٹ میں اکثر باتیں تمثیلی ہوتی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس ”مینول“ میں درج ذیل باتیں کیوں کر آتیں۔ یہ اقتباسات دیکھیے:</p> <blockquote> <p>سنو، ہم رنڈیوں کے وجود کی بنیاد ہی ان باتوں پر ہے کہ کبھی تو چاہت میں اپنا آپ گنوا دیںاور کبھی کسی کو اپنی نفرت کی آگ سے جلا دیں۔۔۔ اب ایسی صورت میں اگر کبھی کسی رنڈی کے دل میں کسی کی سچی اور پاک محبت پید اہو جائے تو یوں سمجھو کہ اس کی زندگی دکھ کا گھروندا بن جاتی ہے۔</p> <p>برے ارادے جس کے دل میں ہوتے ہیں، وہ تسلی کی باتیں بہت بناتا ہے اور سچے سیوکوں کو بڑی آسانی سے بھگا دیتا ہے۔ مرتا ہواشکاری کتاتو اگر اس میں سکت ہوگھٹ گھٹ کر جنگلی سور کو بھی چاٹنے لگے گا۔</p> <p>لوگوں کے دل میں چاہے اپنی بھلی بیبیوں کے لیے کتنی ہی گہری چاہت کیوں نہ ہو، پھولوں کے تیروں والاچنچل دیوتاانھیں ایسی ناریوں کی طرف موڑ دیتا ہے جو چاہے جانے کے جوگ ہوتی ہی نہیں۔</p> <p>پر ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ کبھی کبھی اونٹ تیکھے تیز کانٹوں بھری جھاڑیوں پر منھ مارتے مارتے اتفاق سے شہد کے چھتے تک بھی جاپہنچتا ہے۔</p> </blockquote> <p>فنی اعتبار سے بھی میرا جی کے تراجم توجہ چاہتے ہیں۔ میرا جی نے تمام ترجمے انگریزی کی وساطت سے کیے، یہاں تک کی عمر خیام کی رباعیات کو بھی فٹز جیرالڈ کے انگریزی ترجموں کی اساس پر اردو میں ڈھالا۔ واحد زبان کے ذریعے کثیر شعری روایتوں تک رسائی جس قدرآسان تھی، ان کثیر روایتوں کی اصل تک رسائی اتنی ہی مشکل۔ ترجمہ اصل تک پہنچنے اور اسے اپنی زبان میں اس طور منتقل کرنے کا نام ہے کہ اصل کا ذائقہ باقی رہے۔ ذائقہ کا لفظ رواروی میں نہیں لکھا۔ جس طرح یہ ہماری حس کسی شے کی تلخی، تر شی، نمکینی، شیرینی، کڑواہٹ، کھارے پن کو محسوس کرتی ہے اسی طرح مختلف ادبی روایتوں کے اس سے ملتے جلتے ذائقوں کو ترجمہ نگار محسوس کراتا ہے۔ مشکل یہ ہوتی ہے کہ کچھ ادبی روایتوں میں ایسے ذائقے ہوتے ہیں، جن سے دوسری زبان ہی نا آشنا ہوتی ہے۔ تیکنیکی زبان میں کہیں تو ہر زبان کا ایک ’رجسٹر‘ ہوتا ہے اور اس رجسٹر کے آگے کئی ذیلی منطقے ہوتے ہیں۔ ایک ہی لفظ ایک زبان کے رجسٹر میں ایک معنی میں اور دوسری زبان میں دوسرے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً اردو میں بازیافت کا لفظ کھوئی ہوئی شے، گمشدہ متن، بھولے بسرے گیت کو پانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جب کہ فارسی میں یہی لفظ پرانی اشیا کو از سرنو کارآمد بنانے کے مفہوم میں برتا جاتا ہے۔ ’ایلین‘ انگریزی میں کسی دوسرے سیارے کی اجنبی مخلوق کے لیے جب کہ جرمن میں یہ کسی بھی غیر ملکی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہی نہیں کسی کیفیت، احساس کے لیے ایک زبان میں کچھ لفظ ہوتے مگر کسی دوسری زبان میں اس طرح کے لفظ موجود ہی نہیں ہوتے۔ اسی طرح ایک ہی زبان کے قدیم، کلاسیکی زمانوں کے لفظوں کے مفاہیم بدل جاتے ہیں، اور اس سے بھی بڑھ کر کچھ شاعر روزمرہ اور لغت کی زبان ہی کو بدل دیتے ہیں۔ جیسے اقبال نے اسماے معرفہ کو شعریت بہ کنار کر دیا۔ میرا جی کے لیے آسان نہیں تھا کہ فرانسیسی، جرمن، جاپانی، چینی، اطالوی، سنسکرت، بنگالی زبانوں کے شعرا کو فقط انگریزی کے ذریعے اس طور اردو میں پیش کرتے کہ ان متعدد زبانوں کے ذائقے یا رجسٹر کو اردو کے رجسٹر سے ہم آہنگ کرتے۔ اس ضمن میں میرا جی کی مدد اگرکسی شے نے کی تو وہ ان کا شعری تخیل تھا جو ہمہ رنگ تھا؛یہ تخیل انھیں ہر دیس کے گیتوں اور شاعری کو محض اپنی روایت پر قیاس کرنے سے باز رکھتا تھا اور یہی تخیل انھیں غیر معمولی مطالعہ کرنے کی تحریک دیتا تھا۔ میرا جی کسی شاعر کا ترجمہ کرنے سے پہلے اس کے بارے میں نہایت تفصیل سے پڑھتے، اس کی شخصیت و شاعری پر فیصلہ کن انداز میں اثر انداز ہونے والے عوامل کا مطالعہ کرتے۔ متن کا اضح تنقیدی شعور، ان کے تخیل میں ایک ہیولا ابھارتا اور پھر اسی ہیولے کو وہ ترجمے میں ایک مجسم صورت دیتے۔ انھیں کچھ شاعروں سے طبعی مناسبت تھی، جیسے جرمنی کے ہائنے (دونوں نے اپنی محبوبائوں کی مقدس یادوں کو عمر بھر سینے سے لگائے رکھا)، آئر لینڈ کے طامس مور، فرانس کے بودلیر، سنسکرت کے امارو سے۔ چناں چہ ان کی شاعری کے اصل ذائقے تک رسائی میں انھیں زیادہ مشکل نہیں ہوئی۔</p> <p>جہاں تک کٹنی متم کے ترجمے کا تعلق ہے تو اس کو پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ جیسے راست سنسکرت سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ قدیم آریائی تہذیب میرا جی کی روح میں رچی بسی تھی۔ وہ اس تہذیب کی اساس اور علامتوں کا نہ صرف شعور رکھتے تھے، بلکہ ان کے تصورِ کائنات کا یہ ایک اہم جزاور ان کے احساسات میں گھلی ملی تھی۔ نگار خانہ کے لفظ لفظ سے قدیم آریائی تہذیب کی خوشبو محسوس ہوتی اور اس تہذیب کا زندگی، جنس، عورت سے متعلق وژن درشن دیتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اردو زبان کا بنیادی مزاج بھی کہیں مجروح نہیں ہوتا۔ اصل یہ ہے کہ میرا جی نے اس کتاب میں جس اسلوب کو روا رکھا ہے، وہ ان کے ایک سیاسی اعتقاد سے پھوٹا ہے۔ قومیت پرستی کے وہ متصادم بیانیے جو زبانوں کی تفریق سے ایک الا ئو بھڑکائے ہوئے تھے، ان میں اردو اپنی اس اصل سے محروم ہوتی جارہی تھی جو اس زبان کی مقامی ہندی اساس اور ہند اسلامی تہذیب کے تال میل سے وجود میں آئی تھی۔ میرا جی کا اعتقاد اردو کو اس کی اصل سے وابستہ رکھنا تھا اور اس کی سیاسی معنویت گہری تھی۔ اسی لیے میرا جی نے خود لکھا کہ</p> <blockquote> <p> اسے اس زبان میں ترجمہ کیا ہے جسے پڑھنے کے بعد کل ہند زبان کے تنازع کا امکان ہی باقی نہیں رہتا۔</p> </blockquote> <p>یہاں میرا جی کے ترجمے اور ای پی ماتھرس کے ترجمے کا تقابل دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ پہلے ماتھرس کا ترجمہ دیکھیے:</p> <blockquote> <p><annotation lang="en">In the hundred yeras which are given to us, the best thing of all is the body, for it is the place of the first encounter; the fair on eadvances her unquiet heart, and he ardently regards her coming.</annotation></p> <p><annotation lang="en">Did he make you to be a second Nala? Is all the magnificence of Spring within you? Are you Kandarpa walking again among men, with a quiver laced with flowers?</annotation></p> </blockquote> <p>اب میرا جی کا ترجمہ دیکھیے:</p> <blockquote> <p>جیون کے سو سالوں میں سب سے اچھی چیز جو ہمیں ملتی ہے وہ ہے ہمارا شریر، کیوں کہ یہی ہمارے پہلے آمنے سامنے کا ٹھکانہ ہے، اس ٹھکانے پر سندری اپنے چنچل من کو آگے بڑھاتی ہے اور اسی ٹھکانے پر پریمی بڑی چاہ کے ساتھ اسے آگے بڑھتے دیکھتا ہے۔</p> <p>کیا تمھیں بنانے والے نے تمھیں ایک دوسرے نل کے روپ میں ڈھالا ہے؟کیا بسنت رت کی ساری آن بان تم ہی میں رچی ہوئی ہے؟کیا منش جاتی میں پھولوں سے سجا سجایا تیر لیے ہوئے تم کوئی مدن دیوتا ہو؟</p> </blockquote> <p>دونوں ترجموں کا فرق ظاہر ہے۔ میرا جی کے ترجمے میں شریر، سندری، روپ، بسنت رت، منش جاتی، مدن دیوتا جیسے الفاظ آریائی تہذیب اور اردو کی تہذیب دونوں کے رجسٹر میںمشترک ہیں، مگر انگریزی میں نہیں۔ مفہوم کی سطح پر ایک دوسرے کے تقریباً مساوی ہونے کے باوجود اردو متن کہیں زیادہ سنسکرت اصل کے قریب محسوس ہوتا ہے۔ اس سے ہم دو نتیجے کر سکتے ہیں۔ ادبی متن، مفہوم سے سوا ہوتا ہے اور ترجمہ اگر صرف مفہوم کو پیش کرے تو وہ جتنا کہتا ہے، اس سے کہیں زیادہ اور بعض صورتوں میں کئی اہم باتیں کہنے سے قاصر رہتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ادبی متن میں مفہوم کے علاوہ، ایسے احساسات ہوتے ہیں، جنھیں کوئی ثقافت صدیوں پر پھیلے عمل کے ذریعے کچھ خاص علامتوں میں محفوظ کرتی ہے۔ ترجمہ ان علامتوں کے مترادفات تلاش یا وضع کرنے میں جاں توڑ کوشش ضروکر تا ہے، مگر یہ مترادفات اصل متن کے احساسات کو نہیں، نئے احساسات کو پیش کرتے ہیں۔ ہم سہل نگار بن کر اسے ترجمے کی ناکامی سے تعبیر کر سکتے ہیں، لیکن اگر ہم اپنے دل میں انسانی مساعی کے احترام کا ہلکا سا جذبہ بھی رکھتے ہوں تو اسے دو تہذیبوں کا مکالمہ قرار دیں گے اور مکالمہ لازمی اور فطری اختلافات برقرار رکھتے ہوئے مشترک باتوں کی مخلصانہ تلاش کے سوا کیا ہے!</p> </section> </body>
0031.xml
<meta> <title>تمثال و تجرید (واصف علی واصف کی نظم نگاری)</title> <author> <name>زاہد منیر عامر</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 4</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/13_zahid_munir_amir_bunyad_2013.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>1606</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
تمثال و تجرید (واصف علی واصف کی نظم نگاری)
1,606
Yes
<body> <section> <p>شاعر کاتخلیقی وجدان حقیقت کے ظاہری روپ پراکتفانہیں کرتا، ایساکرنے سے بیان اکہرا اور بات سطحی رہ جاتی ہے چناںچہ وہ اپنے اظہارکے لیے تمثالیں تلاشتااور تراشتا ہے۔ تمثالوں کی دنیا اتنی ہی وسیع ہے جتنی ہمارے حواس کی دنیا۔ شاعر کامیلانِ طبع باصرہ، لامسہ، شامہ، ذائقہ، سامعہ میں سے حسبِ ذوق حسیات منتخب کرلیتاہے اور پھر ان کے ذریعے اپنی بات قاری تک پہنچاتاہے۔ تمثال، معنی کواُجلا پیرہن پہنانے کا نام ہے، یہ پیرہن بکھرتاہے توحسیات رنگوں کی صورت بیان کے آسمان پرپھیل جاتی ہیں، جس سے مطالب کی قوسِ قزح جنم لیتی ہے اور جہانِ معنی جگمگا اُٹھتاہے۔</p> <p>واصف علی واصف دراصل انفس و آفاق میں بکھری صداقتوںکو چند لفظوںمیں سمو دینے والا فن کار ہے۔ اُس کاکمال انتشار کو ارتکاز میں تبدیل کردیناہے۔ واصف کی کتابیں کرن کرن سورج، دل دریا سمندر، قطرہ قطرہ قلزم اور حرف حرف حقیقت ہمارے اس خیال پر دال ہیں۔ نثرِ اُردو کی تاریخ پرنگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اوّل اوّل اسے محمد حسین آزاد نے تخلیقی اور فن کارانہ جملے کاآبِ حیات پلایا، آزاد کے بعد سجادانصاری نے مطالب کے محشرِ خیال کو چھوٹے جملوں میں سمونے کاہنردکھایا۔ یہ دونوں فن کار بنیادی طور پر رومانوی مزاج کے حامل تھے چناںچہ ان کے جملے رومانی سطح پر تیرتے دکھائی دیتے ہیں۔ واصف علی واصف کے اختصاریوں میں حیات و کائنات کاشعور چند لفظوں کی قبا زیبِ تن کر کے یوں ظہور کرتا ہے کہ مطالب کے دفتر اس کے سامنے پست ہو جاتے ہیں۔ جوفن کار نثرمیں کفایتِ لفظی کے ہنرسے آشناہواور بامعنی مختصر اور پُرکار جملہ لکھنے پرقادر ہو وہ طبعاً شعر سے قریب آجاتا ہے، کفایتِ لفظی شاعری کی ایک صفت ہے۔ بامعنی اور تہہ دار بات اگر موزوں پیرائے میں بیان کی جائے تو شعر بن جاتی ہے۔ اس لیے واصف علی واصف جیسے فن کار نے اگر شاعری کی ہے تو اس میں کوئی تعجب نہیں البتہ اگر وہ شعر نہ کہتے تو ضرور تعجب ہوتا۔ ان کی شاعری کے تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں پہلامجموعہ شب چراغ خود واصف علی واصف نے منتخب و مرتب کر کے ۱۹۷۸ئ میں شائع کیا، دوسرا مجموعہ بھرے بھڑولے ان کے پنجابی کلام پر مشتمل ہے۔ اگرچہ یہ مجموعہ ان کی وفات کے بعد شائع ہوا لیکن اس کا مسودہ وفات سے پہلے وہ خود تیار کر چکے تھے۔ تیسراشعری مجموعہ شب راز کے نام سے ان کی وفات کے بعد اُن کے اخلاف نے ۱۹۹۴ئ میں شائع کیا۔ یہ مجموعہ اُن کی باقیات اور اُن کے مسترد کردہ کلام سے مملوہے۔</p> <p>انھوں نے بیک وقت حمد، نعت، منقبت، غزل، نظم، دوہے، ہندی کلام میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان تمام جہتوں سے اُن کی شاعری کامطالعہ ایک وسیع موضوع ہے۔ اس مختصر تحریر میں ہمارے پیشِ نظرواصف علی واصف کی اُردونظم نگاری کاجائزہ لیناہے۔ واصف علی واصف نے شب چراغ کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا تھا۔ یہ حصے یم بہ یم، سخن در سخن، کرن کرن، تن من اور کلامِ نو ہیں۔ تیسراحصہ ’کرن کرن‘ نظموں پر مشتمل ہے جنھیں شاعر نے ”معریٰ نظمیں“ کہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اُردو نظم نے جب پابند ہیئتوں کالباس اُتارناچاہا تھا تواوّل اوّل قافیے کی قید سے رہائی حاصل کی تھی، نظم میں مصرعوں کے ارکان کی تعداد پہلے کی طرح برابر رہی، محض قافیے اورردیف سے آزادی کے باعث نظم کو ’معریٰ‘ کہاگیا۔ نظم کی دنیا میں یہ تبدیلی دراصل ایک بڑے انقلاب کاپیش خیمہ تھی، یہ انقلاب آزاد نظم کے رُوپ میں ظہور پذیر ہوا۔ آزاد نظم جسے انگریزی میں <annotation lang="en">non metrical Verse</annotation> کہاجاتاہے یعنی ایسا کلام جو عروضی پابندیوں سے آزاد ہو۔ اُردو کی آزاد نظم ردیف، قافیے، تعدادِ ارکان وغیرہ کی قید سے تو آزاد ہوئی، عروض کی پابندی سے آزادی اُس نے گوارا نہ کی۔ اس اعتبارسے آزاد اُردو نظم فرانسیسی کی Vers Libre سے زیادہ قریب ہے جوعروض و آہنگ کی پابندیوں سے آزاد نہیں ہے۔ اُردو آزاد نظم میں مصاریع چھوٹے بڑے ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں لیکن یہ کسی بحرمیں کہے جاتے ہیں۔ نثری نظم کی دنیا اس سے بالکل الگ ہے یہ وہی دنیاہے جسے بودلیرنے <annotation lang="fr">Poe'me En Prose</annotation> کہاتھا یعنی نثرمیں نظم۔ اس شتر گربگی پرہمارے ہاں بہت کچھ کہاجاچکا ہے یہاں بتانایہ ہے کہ واصف صاحب کی نظمیں معریٰ نظم سے آگے کی شے ہیں، یہ اپنی بنت اور ساخت میں آزاد نظمیں ہیں۔ ان نظموں میں واصف صاحب کی کچھ مرغوب بحریں استعمال ہوئی ہیں، انھوں نے اگرچہ الگ سے دوہے بھی لکھے ہیں لیکن نظموں کے لیے بھی اُن کاذوق بالعموم دوہا چھند کی بحرکو چاہتا ہے، مثال کے طور پر اُن کی نظمیں شاہد و مشہود، فیصلہ، صلابت، شہرِ سنگ، رشتہ، فرمائش، پیش کی جاسکتی ہیں جو تمام فعلن فعلن کے آہنگ میں ہیں، اس آہنگ میں تیزی پائی جاتی ہے اور یہ تیزیِ رفتار واصف صاحب کی نظموں میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ نظمیں بالعموم مختصر ہیں جیساکہ آزاد نظم کو ہونا چاہیے، چونکہ واصف صاحب کا مزاج کلاسیکیت کی طرف مائل ہے اور کلاسیکی شاعری میں صدیوں تک غزل اور مثنوی کی حکمرانی رہی ہے۔ شب چراغ کا بڑا حصہ بھی غزل ہی کی ہیئت میں ہے اور غزلیں بھی ’ڈیڑھ جز پر مطلع و مقطع غائب‘ کی کیفیت سے ناآشنا بہت بھرپور۔ کلاسیکی ہیئتوں سے اس قُرب اور پیوستگی نے اُن کی نظموں کو بھی متاثر کیا ہے۔ یہ اثردو صورتوں میں ظاہر ہوا ہے، یعنی ہیئت اور تراکیب۔</p> <p>نظم اوّل و آخرمثنوی کی ہیئت میں لکھی گئی لیکن اس کامزاج غزل آشنا ہے، مثلاً:</p> <blockquote> <verse> دانۂ گندم گناہِ اوّلیں دانۂ گندم سفر سوے زمیں </verse> </blockquote> <p>یہاں ہیئت ہی نہیں مضمون بھی کلاسیکی روایت سے منسلک ہے اور نظم اس پُرانے حصار کو توڑ کر نئی دنیائوں کی طرف نہیں نکل سکی۔ غزل سے وابستگی کادوسرا اظہار اُن کی نظموں میں پائی جانے والی تراکیب سے ہوتا ہے مثلاً نورِ مجسم، حسنِ مجسم، خالقِ اعظم (شاہد و مشہود) جہانِ نو، کتابِ فطرت (نکتہ) ضمیرِ آدم (تلاش)تضادِ علم وعمل (دیمک) روزِ ازل، یومِ ابد، حیاتِ جاوداں (تکمیل) جہانِ چہار روزہ (تضاد) بدستِ الفاظ نرم و نازک، نشاطِ غم، نقوشِ رنگیں (پرانے کاغذ)۔</p> <p> بعض اوقات اُن کی نظم کلاسیکی روایت کے زیرِ اثر خطِ مستقیم میں سفرکرتی دکھائی دیتی ہے، جس کی مثال نظم ”فیصلہ“ ہے جس میں خیال کسی انکشاف کے بغیر منطقی اندازمیں آگے بڑھتاہے اور نظم ایک المیے سے دوچار ہوکرختم ہو جاتی ہے۔ واصف صاحب ایک <annotation lang="en">orator</annotation> تھے انھوں نے عمربھر گفتگو کاچراغ روشن رکھا۔ ان کی شخصیت کاغالب رنگ خطابت تھا، یہ رنگ کہیں کہیں نظموں میں بھی درآیاہے مثلاً نظم ”شاہد ومشہود“ کا یہ حصہ:</p> <blockquote> <verse> ہر قطرہ قلزم کا مظہر قلزم کی گہرائی قلزم قلزم کی پہنائی قلزم قلزم کی انگڑائی قلزم طوفاں قلزم، موجیں قلزم انسانوں کی کثرت قلزم </verse> </blockquote> <p>اس تفصیل کے باوصف متاثر کن بات یہ ہے کہ واصف صاحب کی نظموں میں وہ روشنی موجود ہے جوانھیں روایتی شاعری کے حصار سے نکال کر نظمِ جدید کی وسعتوں سے آشنا کر دیتی ہے۔ نظمِ جدید کی دنیا پرت درپرت معانی کی انکشاف انگیزی کی دنیا ہے۔ لفظوں کی ایک جنبش، ایک خلافِ توقع موڑ ایسے ستارے بکھیردیتے ہیں جن سے معانی کا آسمان جگمگا اُٹھتا ہے۔</p> <blockquote> <verse> آخراک دن اُس نے مجھ سے کہہ ہی ڈالا مجھ پر بھی اک نظم کہو تم ایسی نظم کہ جس میں میرا نام نہ آئے میں خود آئوں </verse> </blockquote> <p>فیض صاحب نے کہاتھا ”آتے آتے یونہی دم بھر کو رُکی ہوگی بہار/ جاتے جاتے یونہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے“ ۱۱ واصف صاحب کہتے ہیں:</p> <blockquote> <verse> ایک لمحہ ہے بہار اک خزاں اور دوسری کے درمیاں مختصر لمحہ … بہارِ جاوداں کیسے بنے </verse> </blockquote> <p>واصف صاحب نے بہاروخزاں کے اس تضاد کو جنگ و امن اور موت وحیات تک پھیلانے کی سعی کی ہے، وہ تکمیل کے زیرِ عنوان ان تضادات کو یوں تحلیل کرتے ہیں:</p> <blockquote> <verse> امن کیا ہے ایک وقفہ مختصر ایک جنگ اور دوسری کے درمیاں ……………… موت کیا ہے ایک لمحہ … مختصر زندگی اور زندگی کے درمیاں </verse> </blockquote> <p>یہ اقتباسات واصف صاحب کے پُرکارجملوں کی یاددلاتے ہیں، جن میں وہ زندگی کے بڑے بڑے تضادات کو بڑی سہولت کے ساتھ چند لفظوں میں تحلیل کر دیتے ہیں۔ ان کی ایک نظم کا عنوان بھی تضاد ہے۔</p> <blockquote> <verse> نہ کوئی دیوار تیری رہ میں نہ میرے رستے میںکچھ رکاوٹ یہی تقاضا ہے زندگی کا ہم اپنے اپنے مدار میں ہوں کہ سارے اپنے حصار میں ہوں </verse> </blockquote> <p>واصف صاحب کہانی سنانے کی بجائے محفل میں دوسروں کوسوال اُٹھانے کی ترغیب دیاکرتے تھے لیکن نظموں کی دنیا میں وہ کہانی سناتے نظر آتے ہیں مثلاًنظم ”رشتہ“ جس میں پہلے دوراُفق پر ایک ستارہ جھلملاتا دکھائی دیتاہے، شاعر جس کے دل کی آواز سن رہا ہے لیکن شاعر کی آواز اُس تک نہیں پہنچ رہی۔ یہ مستقبل کاستارہ ہے جوشاعر کے دل میں ماضی کادریچہ کھول دینے کاباعث بنتاہے۔ یہ دریچہ کھلتے ہی شاعر اپنی کہانی سنانے پرآمادہ ہوجاتاہے یہ کہانی بھی کچھ ستاروں کے ابھرنے اور ڈوبنے کی کہانی ہے لیکن آخرمیں حضرت یوسفؑ کے خواب کی طرح ایک ستارہ سب ستاروں کو کھاجاتاہے۔ یہ شاعر کے مستقبل کاروشن ستارہ ہے ملاحظہ ہو:</p> <blockquote> <verse> میراماضی…؟ ایک کہانی … ایک پہیلی سندر رُوپ … سنہرے سائے جگمگ جگمگ کرنے والے کتنے تارے ابھرے چمکے ڈوب گئے ایک ستارہ سب تاروں کو نگل گیا تھا جانے والے کب لوٹے ہیں …؟ اک اک کر کے ڈوبنے والے سب تاروں کو … ایک ستارہ … کھاجاتاہے ! مستقبل کاروشن تارہ </verse> </blockquote> <p>اس طرح نظم ایک دائرہ بناتی محسوس ہوتی ہے، دائرہ بنانے کی یہ کیفیت نظم ”برقاس“ میں بھی پائی جاتی ہے جس میں پہلے شاعر کچھ بصری تمثالیں ابھارتا ہے جن میں چُپ چاپ پیڑ، گنگ مکان اور خاموش فضائیں قاری کے دل پرہول کی فضاقائم کرتی ہیں، پھریکایک آوازوں کا شور برپاہوتاہے جس میں شاعر کاماضی گونجنے لگتا ہے، یہ ماضی:</p> <blockquote> <verse> چیختا ہے مرے کانوں میں بیاباں کی طرح پھر یکایک کسی نغمے کی صدا آتی ہے یہ مرا فردا ہے آواز مجھے دیتا ہے پھر وہی ساکت و جامد ماحول وہی خاموش فضا پیڑ چپ چاپ، مکاں گنگ، فضائیں خاموش </verse> </blockquote> <p>یوں نظم اپنا دائرہ مکمل کرتی ہے لیکن اس میں شاعر کا توضیحی انداز در آیا ہے، منقولہ سطور میں ”یہ مرافردا ہے آواز مجھے دیتا ہے“ کی لائن توضیحی ہے جس سے معانی کی تحدید ہو گئی ہے اگر یکایک ابھرتا ہوا نغمہ شاعر کے قدموں کو روکنے میں کامیاب ہو جاتا تو اس میں محض فردا نہیں تمام زمانوں کے امکانات پوشیدہ رہ سکتے تھے۔</p> <p>واصف صاحب نے بعض معمولی موضوعات سے بڑے مضامین پیدا کیے ہیں جس کی مثال ان کی نظمیں ”دیمک“ اور ”پرانے کاغذ“ ہیں، پرانے کاغذوں پر نظم لکھتے ہوئے شاعر نے انھیں شکستگی کے ایسے مزار قرار دیا ہے جن پر کوئی کتبہ نہیں:</p> <blockquote> <verse> پرانے چہرے، پرانی آنکھیں ورق پرانے … دریدہ تن ہیں یہی تو خلوت کی انجمن ہیں نشاطِ غم کے کئی فسانے سنا رہے ہیں ورق پرانے </verse> </blockquote> <p>نظم ”دیمک“ میں وہ فکرکودیمک قرار دیتے ہیں جو زندگی کو گھن کی طرح کھائے جاتی ہے، فکروخیال کی حدتیں شب بھر شاعر کے جسم کوسلگاتی ہیں اور وہ خودگریزی کے عمل میں مبتلاہوجاتاہے اُسے فکرکی وادیوں میں اُس عمل کی تلاش ہے جو سرخوشی کاباعث ہواور اُسے فکرکی دیمک سے بچائے:</p> <blockquote> <verse> کہ فکر ہی زندگی کاگھن ہے مجھے مرا فکر کھا رہا ہے مگر میں کیسے نجات پائوں؟ کہ اب مرافکر ہی عمل ہے میں عمر بھر سوچتا رہوں گا کبھی نہ آزاد ہوسکوں گا کہ فکر ہی زندگی ہے شاید </verse> </blockquote> <p>واصف صاحب کابنیادی موضوع وہی ہے جو دنیاکے تمام مذاہب اور تمام زبانوں کے ادب کاموضوع ہے یعنی …انسان۔ ان کامسئلہ انسانی ضمیرکی بیداری ہے ان کے خیال میں ضمیرِ آدم نے اپنے آپ کو خود ہلاکت میں مبتلاکیاہے وہ اسے ازسرِ نوزندہ کرنا چاہتے ہیں اُن کی یہ تمنا اُن کی شاعری میں ضمیرِ آدم کی نوحہ گری میں تبدیل ہو گئی ہے اور وہ پکار اٹھے ہیں:</p> <blockquote> <verse> میں نوحہ گر ہوں ضمیرِ آدم کانوحہ گر ہوں سزا ملی ہے ضمیرِ آدم کو خودکشی کی ضمیرِ آدم!! تجھے میں کیسے حیات بخشوں ترا مسیحا… کہاں سے لائوں؟ </verse> </blockquote> </section> </body>
0032.xml
<meta> <title>لاہورکا تھیئٹر: قیامِِ پاکستان سے۱۹۷۰ئ تک</title> <author> <name>محمد سلمان بھٹی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 4</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/14_muhammad_salman_bhatti_bunyad_2013.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>5194</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
لاہورکا تھیئٹر: قیامِِ پاکستان سے۱۹۷۰ئ تک
5,194
Yes
<body> <section> <p>تقسیم سے قبل اردو تھیئٹراپنے خدوخال واضح کرنے میںکسی حد تک کامیاب تو ہو چکا تھا لیکن یہ ہندوستانی تھیئٹر تھا۔ تقسیم کے بعد ادیب بھی تقسیم ہو گئے اور اپنی پہچان اوربقا کی نئی جنگ شروع ہوئی اور قومی ثقافتی جہت کی تشکیل کے خیال نے بھی جنم لیا۔ ایسی صورت میں اردو تھیئٹر کی سرگرمیوں میں وقتی ٹھہرائو آیا۔ تقسیم کے فوراً بعد ہمیں لاہور میںاُردوتھیئٹر کی کسی سرگرمی کا ثبوت نہیں ملتا۔ اس کی چند وجوہات ہو سکتی ہیں جو ذیل میں درج ہیں:</p> <list> <li>تقسیم سے قبل لاہور کی تھیئٹر کمپنیوں کے مالکان زیادہ ترہندو یا پارسی حضرات تھے۔ اسی لیے تقسیم کے بعدیہ تمام حضرات اپنی کمپنیوں اورسازو سامان سمیت بھارت چلے گئے۔</li> <li>لاہور کی جن تھیئٹر کمپنیوں کے مالکان مسلمان تھے ان میں بھی زیادہ تر ہندو کام کرتے تھے۔ لہٰذاتقسیم کے بعد وہ لوگ بھی بھارت نقل مکانی کر گئے اور یہ کمپنیاں خود بخود ختم ہو گئیں۔</li> <li>مذہبی سوچ نے بھی اُردوتھیئٹر کو متاثر کیا کیونکہ مصوری، ناچ، اور موسیقی تھیئٹر کا حصہ رہے اس وجہ سے بھی اسے قبولِ عام نہ ہوا۔</li> <li>ھیئٹر کسی حد تک پارسیوں اورہندوئوں سے منسوب تھا چنانچہ مذہبی نفرت اور پھران کی جانب سے تقسیم کے وقت ہونے والی قتل و غارت گری نے بھی اردوتھیئٹر کو نقصان پہنچایا۔</li> <li>تھیئٹر کے لیے تماشائی جزو لاینفک ہے۔ مہاجرین کے مسائل کے حل کے معاملات اتنے پیچیدہ تھے کہ لوگ فوراً کسی تفریح پر آمادہ نہ تھے۔</li> <li>حکومتی اداروں کی تشکیل ناگزیرتھی جبکہ ثقافتی ادارے کا قیام تونئے سرے سے تعمیر کا متقاضی تھا۔</li> <li>گورنمنٹ کالج لاہور کا تھیئٹراپنی مضبوط روایت کے ساتھ موجود تو تھا مگریہاںکا تھیئٹر انگریزی تھا اور یہ روایت اتنی مستحکم تھی کہ اُردو تھیئٹر کے لیے بھی تراجم کا سہارا لینا پڑا۔ لاہور میں تقسیم کے فوراً بعد تھیئٹر کی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے نعیم طاہر لکھتے ہیں: <blockquote> <p>لاہور میں گورنمنٹ کالج ڈرامے کا مرکز بنا۔ اور جیسے دوستوں کی زبانی معلوم ہو سکاہے، پہلا ڈرامہ تقسیم کے بعد ۱۹۴۸ئ میں <annotation lang="en">LIBEL</annotation> ہوا۔</p> </blockquote> </li> </list> <p>لاہور میںاُردو تھیئٹر کی ابتدا کب ہوئی اس سلسلے میںعشرت رحمانی اور صفدر میر کے حوالے پیشِ خدمت ہیں۔ بقول عشرت رحمانی:</p> <blockquote> <p>میں نے سب سے پہلے سنہ ۱۹۴۹ئ میں آغا حشر کے ڈرامے کو ایڈٹ کر کے اس کی ریہرسل شروع کی تب ہماری فلم کی مشہور اداکارہ صبیحہ خانم کوہیروئن اور ایوب رحمانی کو ہیرو کا کردار دیا۔ یہ ڈرامہ رستم و سہراب تھا اور یہ دو ڈھائی گھنٹے کا ڈرامہ تھا۔ یہ ڈرامہ <annotation lang="en">Y.M.C.A.</annotation> ہال میں چار پانچ دن چلا۔</p> </blockquote> <p>صفدر میر کہتے ہیں:</p> <blockquote> <p>میں نور محمد جو کہ کسی تھیئٹر کمپنی میں ملازم تھا اور کامک کردار کرتا تھا۔ اس کی بیوی گلوکارہ تھی یہ تقسیم کے بعد قصور آیا یہاں اس نے اپنی پہلی پرفارمنس دی۔ چوہدری دتہ نے اس تھیئٹر کو بنایا لیکن قصور کے لوگوں نے اس کھیل کو پسند نہیں کیا اور وہ لاہور آگیا یہاں اس نے مال روڈ کے قریب سنیما میںپرفارمنس دی جس میں رفیق انور نے ناچ کیا اور نور محمد نے کامک کردار ادا کیا۔</p> </blockquote> <p>ان دو حوالوں کی روشنی میں تقسیم کے بعد ہمیں لاہور میں اُردوتھیئٹر کی یہ دوسرگرمیاں ہی دکھائی دیتی ہیں۔ صفدر میر نے جو کوائف اپنے انٹرویو میں بیان کیے ہیں ان سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ نور محمد ۱۹۴۹ئ میں قصور آیا اور کھیل پیش کیا لیکن یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس نے لاہور میں کس سال تھیئٹر کیا۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ لاہور میںتقسیم کے بعد اُردو تھیئٹر کی پہلی سرگرمی، ۱۹۴۹ئ میں ’آغا حشر‘ کا کھیل ”رستم و سہراب“ تھی۔ اس کھیل کے ہدایت کار ’عشرت رحمانی‘ تھے اور یہ کھیل <annotation lang="en">YMCA</annotation> ہال میں پیش کیا گیا۔</p> <p>۱۹۴۹-۵۰ئ میں لکھنؤ سے ایک فوجی یونٹ <annotation lang="en">PMC (Pakistan Medical Corps)</annotation> بھی لاہور آیا۔ اس فوجی یونٹ نے ماسٹر رحمت کا کھیل ”ستی وحشیاں“، ’آغا حشر‘ کا ”صیدِ ہوس“، امتیاز علی تاج کا ”انار کلی“ اورحکیم احمد شجاع کا کھیل ”باپ کا گناہ“ پیش کیے۔ یہ کھیل اس یونٹ کے لوگ اپنے فوجیوںکے لیے پیش کرتے تھے۔ فوجیوں کے علاوہ اس گروپ میںرحمان، سلیم رضا، نادرہ، شاہدہ، محسن رضوی اور نذیر ضیغم بھی شامل رہے۔۵ اس یونٹ کے علاوہ عشرت رحمانی نے بھی آغا حشر کے کچھ کھیل کرنے کی جسارت تو کی لیکن وہ اسے جدید تقاضو ںاور اپنے ملکی معاشرتی و ثقافتی مزاج سے ہم آہنگ نہ کر سکے، اسی لیے کامیاب نہ ہو سکے۔ البتہ بھارت میں روایتی تھیئٹرتقسیم کے کچھ ہی عرصے بعد جدید تھیئٹر کی صورت اختیار کر گیا کیونکہ وہاںتھیئٹر کی روایت کو جدت میں ضم کر دیا گیا۔ اس میں ان کی اپنی روایات سے محبت، پاسداری اورمذہبی رجحان کے علاوہ حکومتی سطح پر مالی معاونت اور اسے صنعت کا درجہ دینے کی کوششوں کا بھی بہت دخل تھا۔</p> <p>میں پاکستان آرٹس کونسل وجود میں آئی لیکن وسائل نہ ہونے اور بعض سیاسی مسائل کی وجہ سے یہ ادارہ ابتدائی چند سالوں تک اپنی حدود کے تعین ہی میں مصروف رہا۔ لاہور میں ان دنوں اُردوتھیئٹر کی سرگرمیاں بہت محدود تھیں، بس روایتی طرز پر عشرت رحمانی نے آغا حشر کے کھیل اور <annotation lang="en">PMC</annotation> نے امتیاز علی تاج، حکیم احمد شجاع اور ماسٹر رحمت کے کچھ کھیل پیش کیے، لیکن یہ روش زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔ اس وقت اردوتھیئٹر بھی نئی مملکت جیسا نوزائیدہ ہی تھا۔ جیسے ہی روایتی تھیئٹر سے ہاتھ کھینچا گیا گورنمنٹ کالج لاہور کے طلبائ و اساتذہ میدان میں اترے۔ ویسے تو اس ادارے میں انگریزی تھیئٹر پر ہی زور صرف کیا گیا لیکن اس انگریزی تھیئٹر نے اردو تھیئٹر کے لیے راہ ہموار کرنے میں کسی نہ کسی طور مدد ضرور کی۔ کمال احمد رضوی لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>گورنمنٹ کالج کی کلب نے بھی محض انگریزی ڈراموں پر اکتفا کیا۔۔۔ البتہ گورنمنٹ کالج کی ڈرامائی روایت سے اتنا فائدہ ضرور پہنچا کہ وہاں سے فارغ التحصیل طلبائ کو ڈرامائی شعور ضرور حاصل ہوا اور ان میں سے بعض آج کے اُردو تھیئٹر کے لیے سنگ میل ثابت ہوئے۔</p> </blockquote> <p>اس دور میں تھیئٹر کوشوقیہ افرادنے پروان چڑھایا۔ اس ادارے کے افراد اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ کسی حد تک مغربی ڈرامائی ادب، تھیئٹرکی تکنیک اور فنی باریکیوں سے بھی آگاہ تھے۔ ان میں صفدر میر، امتیاز علی تاج، صوفی غلام مصطفی تبسم، ڈاکٹر محمد صادق اور رفیع پیرکے نام قابل ذکر ہیں۔ اس ادارے میںانگریزی تھیئٹر کی حوصلہ افزائی اور اردو تھیئٹر کی ابتدا میں تاخیر کی چار اہم وجوہات ہو سکتی ہیں:</p> <list> <li>نوآبادیاتی نظام کی روایت کے پروردہ ادارے میں انگریزی کی حوصلہ افزائی</li> <li>ہندوستان میںاردو تھیئٹر کی بیمارسماجی روایت</li> <li>تھیئٹرکی اہمیت سے آگاہی نہ ہونا </li> <li>ہندوستان میں اردو تھیئٹرکا کمتر سماجی مرتبہ</li> </list> <p>ڈاکٹر خالد سعید بٹ کہتے ہیں:</p> <blockquote> <p>جب گھر پتا لگا اس وقت تو کچھ نہیںکہا لیکن کھیل ختم ہونے پر والد صاحب نے بلوایااور کہا کہ میں نے تمہیں کالج پڑھنے بھیجا ہے، ان کاموںکے لیے نہیں۔ اگر رزلٹ خراب آیا تو اس گھر میں تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ میں فرانس سے واپس آیا اور یہاں کھیل کرنے شروع کیے۔ میں اپنی دادی کو سلام کرنے گیا تو انھوں نے کہا کہ وے پتر توں ایہہ کی مراث پنا شروع کر دتا ای۔</p> </blockquote> <p>درج بالا وجوہات کے علاوہ ہمارے ہاںروایتی تھیئٹر کرنے والے افراد اُردو تھیئٹر کو جدت اور نئی تکنیک سے متعارف نہ کرواسکے، پھر وسائل کی کمی بھی آڑے آئی اور طرہ یہ کہ اس میںغلامانہ ذہنیت بھی سرایت کر گئی۔ یہ وجوہات بھی کچھ تعلیمی اداروں میں انگریزی تھیئٹرکی برتری اور اُردو تھیئٹر کی کمتری کا باعث بنیں۔ لیکن ان معاملات کے باوجود بھی انگریزی تھیئٹر اپنے زیادہ تماشائی پیدا نہیں کر سکا۔ اس تھیئٹر کے تماشائی ایک ہی دائرے میں سفر کرنے والے افراد تھے۔ بقول شعیب ہاشمی:</p> <blockquote> <p>ان اداروں میں اگر ایک کھیل دیکھنے کے لیے ۲۵۰ افراد آتے تو ان میں سے ۲۰۰ افراد تو ایک دوسرے کو ضرور اچھی طرح جانتے پہچانتے۔</p> </blockquote> <p>فنی و تکنیکی تبادلے سے قطع نظر تھیئٹر عوام کی ملکیت ہوتا ہے جو اپنے سماج سے کٹ کر پروان نہیں چڑھ سکتااور نہ ہی اسے اپنے سماج سے علاحدہ کر کے بلند منصب پر فائزکیا جا سکتا ہے۔ ہم انگریزی تھیئٹر سے اداکاری، روشنی، سیٹ، میک اپ، آرائش، اسٹیج اور تھیئٹر کے دیگر فنی لوازمات سے آگاہی توحاصل کر سکتے تھے لیکن اپنا تھیئٹر تخلیق نہیں کر سکتے تھے۔ جلد یا بدیر یہ احساس ہو ہی گیا کہ آخر کب تک ہم انگریزی تھیئٹر ہی کرتے رہیںگے۔ آخر ہماری اپنی ثقافت بھی تو ہے۔ ہمارے اپنے سماجی مسائل اور خوبصورتیاں بھی تو ہیں۔ ہم دوسری تہذیب کی نقل سے تماشائیوں کو محظوظ توکر سکتے ہیں لیکن اپنے ادب میں کوئی قابل قدراضافہ اور اپنے ثقافتی ڈھانچے اور رویوں میں کوئی مثبت تبدیلی پیدا نہیں کر سکتے۔ لاہور میں اُردو تھیئٹر کی ابتدا اور فروغ کے لیے صفدر میر نے عملی کوششیںکیں اور امتیاز علی تاج کے ساتھ مل کرگورنمنٹ کالج لاہور اور الحمرائ میںاُردو کھیلوں کی ابتدا کی۔</p> <p>تقسیم کے بعد جو ڈرامہ نگار پاکستان کے حصے میں آئے، ان میں سے زیادہ ترریڈیوسے وابستہ ہو گئے اورجو افراد تھیئٹر کی جانب آئے انھوں نے تراجم پر زور دیا۔ ۱۹۵۲ئ سے ۱۹۶۰ئ تک لاہور میںپیش کیے جانے والے تھیئٹر کے زیادہ تراُردو کھیل ترجمہ شدہ تھے جنہیں ڈرائینگ روم کامیڈی کہا جا سکتا ہے۔ مترجمین کے علاوہ طبع زاد ڈرامہ نگار بھی ابھرے جن کے کھیل ہمایوں، ادبِ لطیف، ماہ نو، فنون، ادبی دنیااور نقوش جیسے رسالوں میںتقسیم کے بعد سے ۱۹۶۵ئ تک کثیر تعداد میںشائع ہوتے رہے۔ ان رسائل میں شائع ہونے والے کھیلوں میں آغا بابرکے کھیل، ”ٹوٹے ہوئے دل“، ”مصور“، ”گنج فروزاں“، ”فالتو چیزیں“ اور ”روپیہ چلتا ہے“، میرزا ادیب کے کھیل، ”اجنبی“، ”بارش“، ”ستون“، ”حویلی“، ”سوتیلی ماں“، ”نہ نہ نہ“ اور ”لفافے“، عشرت رحمانی کے ”پیار سنسار“ اور ”ایک رات“، ’اصغر بٹ‘ کے کھیل ”نہ رادھا ناچے گی“، ”چاچے کا ہوٹل“، ”یہاں گاڑی بدلیے“، ”ایک بجے رات“، ”انصاف کیا جائے“، ”چھوٹے میاں“ اور آغا ناصرکے کھیل، ”اگر اعتبار ہوتا“، ”رات کے مسافر“، ”رات“، ”حکمتِ عملی“، ”دیدۂ تر“ اور ”انتظار“ قابل ذکر ہیں۔ یہ طبع زاد کھیل اپنے علاقائی سیاسی و سماجی مسائل اورکئی خوبصورتیوں اور بدصورتیوں کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ لیکن ان پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اسی لیے ان میں سے کچھ کھیل ہی تھیئٹر کی زینت بن سکے۔</p> <p>ابتدائ میںاُردوتھیئٹر کو شوقیہ کام کرنے والے افراد میسر آئے جن میںکثیر تعداد طلبا کی تھی۔ اس کے علاوہ ایسے افراد جو ڈرامے کی سدھ بدھ یا شوق رکھتے تھے وہ بھی تھیئٹر کرتے رہے لیکن ملازمت ملتے ہی اس شعبے کو چھوڑ گئے۔ کچھ نو آموز افراد نے بھی تھیئٹر کیا۔ ان میں سے بہت سوں نے طبع زادکھیل لکھے۔ ان کھیلوں کے موضوعات جہاد، قوم پرستی اور وطن سے محبت تھی لیکن فنی اعتبار سے کمزور ہونے اور مناسب رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کاٹ چھانٹ کے بعد ۱۹۶۰ئ تک پہنچتے پہنچتے اُردو تھیئٹر کومستقل طور پررفیع پیر، امتیاز علی تاج، صفدر میر، ڈاکٹر محمد صادق، علی احمد، ضیائ محی الدین، نعیم طاہر، سلمان پیرزادہ، فضل کمال، سکندر شاہین، صوفی وقار، خالد سعید بٹ، راجہ فاروق علی خاں، محسن رضوی، نذیر ضیغم، اظہار کاظمی، کمال احمدرضوی، اصغر بٹ، شعیب ہاشمی، فاروق ضمیر، انور سجاد، نذیر حسینی، یاسمین امتیاز، سلیمہ ہاشمی، خورشید شاہد، ثمعیہ ناز، سمعیہ عزیز، صفیہ دین اور مہر نگار مسرور میسر آئے۔ ضیائ محی الدین اور صفیہ دین نے <annotation lang="en">RADA</annotation> (رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ) انگلستان سے تھیئٹر کی تربیت حاصل کی۔ ضیائ محی الدین تھیئٹرکی انتہائی معتبراور منجھی ہوئی شخصیت تصور کیے جانے لگے۔ لیکن انھوں نے بھی زیادہ توجہ انگریزی تھیئٹرہیپر دی۔ ۱۹۶۰ئ تک لاہور کے اُردو تھیئٹر کی سرگرمیوں کا دائرہ کسی حد تک وسیع ہو گیا۔ ۱۹۴۷ئ سے ۱۹۶۰ئ تک لاہور کے جن مقامات پراُردو تھیئٹر ہوا اس کی تفصیل حروفِ تہجی کے اعتبار سے ذیل میں درج ہے:</p> <list> <li>اپوا آڈیٹوریم جیل روڈ، لاہور:یہ ہال موجود ہے مگر مدت سے یہاں کوئی کھیل اسٹیج نہیں ہوا۔</li> <li>الحمرا ہال مال روڈ، لاہور: یہ ہال ۱۹۴۷ئ سے ۱۹۷۵ئ تک موجود رہااس کے بعداسے گرا کر تھیئٹر کے لیے بڑا ہال تعمیرکیا گیا۔</li> <li>اوپن ائیر تھیئٹر باغِ جناح، لاہور:قیام پاکستان سے قبل تیار کیا گیا یہ اسٹیج اب کبھی کبھار صرف پنجابی تھیئٹر کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔</li> <li>برٹ انسٹیٹیوٹ ہال، گڑھی شاہو، لاہور:یہ ہال اب موجود نہیں۔</li> <li>پی ایم سی ہال(پاکستان میڈیکل کور)والٹن روڈ، لاہور:اس جگہ بھی اب کوئی ہال موجود نہیں۔</li> <li>پیر ڈرامہ سنٹر، میکلوڈ روڈ نزد رٹز سنیما، ٹاپ فلیٹ، لاہور:رفیع پیر یہاں کھیلوںکی ریہرسل کرواتے تھے مگر اب وہ فلیٹس نہیں رہے۔</li> <li>جم خانہ کلب، لاہور:موجودہ قائد اعظم لائبریری، ۱۹۵۷-۵۸ئ کے آس پاس یہاں کچھ اُردوکھیل پیش کیے گئے۔ جن میں راجہ فاروق علی کے کھیل، ”کیا کرے گاقاضی“، کا حوالہ ملتا ہے۔ اس کے بعدیہاںتھیئٹر کی کسی سرگرمی کا ثبوت نہیں ملا۔</li> <li>ریگل سینما، مال روڈ، لاہور:قیام پاکستان سے قبل یہاں کچھ اُردو کھیل سٹیج کیے گئے لیکن تقسیم کے کچھ عرصہ بعداسے مستقل طورپرسینما میں تبدیل کر دیا گیا۔ ۲۰۰۸ئ سے یہ سینما بھی بند ہو چکا ہے۔</li> <li>گورنمنٹ سینٹرل ماڈل ہائی سکول، لوئر مال لاہور ۵۰ئ اور ۶۰ئ کی دہائی میںاس سکول کے بڑے ہال میں تھیئٹر کیا جاتا تھا۔ لیکن اب یہاں تھیئٹر نہیں ہوتا۔ ہال کی حالت بھی انتہائی خستہ ہو چکی ہے۔</li> <li>گورنمنٹ کالج، لاہور، اوپن ائیر، ایمفی تھیئٹراور اولڈ ہال: ۱۹۶۳ئ تک تو اولڈ ہال، اوپن ائیریاایمفی تھیئٹر کو ہی کھیلوںکے لیے استعمال کیا جاتارہا۔ بخاری آڈیٹوریم بن جانے کے بعد اولڈہال میںکوئی کھیل پیش نہیںکیاگیا۔ اوپن ائیر کی جگہ نیو بلاک تعمیر ہو چکا ہے اورایمفی تھیئٹر صرف گروپ فوٹو گراف کے لیے ہی استعمال کیا جاتا ہے، کھیلوں کے لیے نہیں۔</li> <li>واے۔ ایم۔ سی۔ اے ہال، مال روڈ، لاہور: عمارت موجود ہے لیکن تھیئٹر کے لیے استعمال نہیں ہوتی۔</li> </list> <p>ان جگہوں پر، ”سازش“، ”ناشتے سے پہلے“، ”کوڑھی“، ”ساون رین دا سفنا“، ”رستم و سہراب“، ”میرا قاتل“، ”کمرہ نمبر ۵“، ”اصفہان کے متشاعر“، ”ماہ سیمیں“، ”ذات شریف“، ”قصہ جاگتے سوتے کا“، ”لال قلعے سے لالو کھیت تک“، ”بخیل“، ”عقبی کا میزبان“، ”آداب عرض“، ”چھوٹے میاں“، ”سائے“، ”دغا باز“، ”بلاقی بذات“، ”خالد کی خالہ“، ”جولیس سیزر“، ”زوالِ حیدر آباد“، ”صاحب بی بی اور غلام“، ”بادشاہت کا کاخاتمہ“ اور ”مجرم کون“ پیش کیے گئے۔ ان کھیلوں میں، ”رستم و سہراب“، ”قصہ جاگتے سوتے کا“، ”چھوٹے میاں“، ”بادشاہت کا خاتمہ“، ”لال قلعے سے لالو کھیت تک“، ”زوالِ حیدر آباد“ اور ”مرزا غالب بندر روڈ پر“ طبع زاد ہیں جبکہ باقی کھیل ترجمہ شدہ ہیں۔ یہ کھیل ایک ایکٹ سے لیکر تین یا چارایکٹ پر مشتمل تھے۔ ہر ممکن کوشش ہوتی کہ روشنی، سیٹ، میک اپ، موسیقی اور اداکاری، غرض یہ کہ کسی شے میںجھول نہ رہے۔ روشنی کے لیے بلب ٹین کے ڈبوں میںلگائے جاتے۔ گورنمنٹ کالج، <annotation lang="en">YMCA</annotation>، الحمرائ اور اپوا میں بجلی کے بلبوں سے کام لیا جاتااورمنظر کی ضرورت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ان کے سامنے رنگ دار کاغذلگا دیا جاتا۔ موسیقی کے لیے عموماًطبلہ، بانسری اور وائلن کا استعمال کیاجاتا تھا۔ ریکارڈ کی گئی موسیقی کے استعمال کا رواج نہیں تھا۔ میک اپ صرف اسٹیج پر استعمال کی جانے والی روشنی کو مدِ نظر رکھ کر کیا جاتا تھا، اس کے لیے تربیت یافتہ افراد موجود نہ تھے۔ بسا اوقات فنکار خود ہی میک اپ کر لیتے۔ ایسے کھیلوں کو پیش کرنے سے گریز ہی کیا جاتا تھا جن میں میک اپ کی کوئی خاص اور مشکل تکنیک کا استعمال ہوتا ہو۔ جو کھیل اس دور میں پیش کیے گئے وہ زیادہ تر ڈرائنگ روم کامیڈی تھے اس لیے ایک ہی سیٹ لگایا جاتا جس میں صرف ڈرائنگ روم یا کسی کمرے کا منظر دکھانا مقصود ہوتا۔ اس دور میں سیٹ کے حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی اور نہ ہی اس کا کوئی تجربہ کیا گیا۔ ان تمام معاملات میں بہت حد تک وسائل کی کمی بھی آڑے آئی لیکن اس کے باوجود شوقین حضرات نے تھیئٹر کا سفر تھمنے نہ دیا اور محدود وسائل میںبھی کسی نہ کسی طرح تھیئٹر کرتے رہے۔</p> <p>تک کیا جانے والا اُردوتھیئٹر زیادہ تر کامک تھا۔ اس میں کوئی بڑا فلسفہ یا پھر کوئی سنجیدہ نکتہ موجود نہ تھا۔ ان کامک کھیلوں کے علاوہ بہت کم کھیل ایسے تھے جن میں کوئی خاص ملکی، علاقائی سماجی و سیاسی مسائل کو طنز، سنجیدہ مزاح یاپھر سنجیدگی کے پیرائے میں پیش کیا گیا ہو۔ با مقصد کھیلوں میں علی احمد اورخواجہ معین الدین کے چند کھیل شامل ہیں۔ علی احمد کچھ عرصہ ہی لاہور میں قیام پذیر رہے اور پھر مستقل طور پر کراچی ہجرت کر گئے جبکہ خواجہ معین الدین کی بھی مستقل سکونت کراچی ہی رہی۔ ان حضرات کے علاوہ ضیائ محی الدین، صفدر میر، صفیہ دین، رفیع پیر، شعیب ہاشمی، خالد سعید بٹ اور نعیم طاہر ایسے ہدایت کار تھے جنھوں نے کئی کھیلوںکی کمزوری کا ازالہ اپنی ہدایت کاری کی مہارت سے کرنے کی کوشش کی اور یہ افراد اپنے خلوص اور شوق کی وجہ سے اس کوشش میں کسی حد تک کامیاب بھی رہے۔</p> <p>رفتہ رفتہ تھیئٹر کے تماشائی بڑھنا شروع ہو ئے اورتھیئٹر پرکسی حد تک پاکستانی ثقافت کو بھی پیش کیا جانے لگا۔ لیکن اب بھی تماشائی ایک خاص طبقے ہی سے تعلق رکھنے والے افرادتھے جو ناقدین کی تنقید پڑھ کرآتے یاپھر تھیئٹر کرنے والوں کے عزیز ہوتے۔ اس دور میں تشہیر کے لیے اتنے وسائل نہ تو الحمرائ کے پاس تھے اور نہ ہی تھیئٹر سے وابستہ افراد کے پاس۔ اسی لیے اپنے عزیز و اقارب کو ہی تھیئٹر دیکھنے کے لیے با آسانی مدعو کیا جا سکتا تھا۔ اس دور میں تھیئٹر دیکھنے کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور، کینیرڈ کالج، دیال سنگھ کالج اور پنجاب یونیورسٹی کے طلبا و اساتذہ کے علاوہ مختلف اخبارات کے کالم نگار ہی کھیل دیکھنے آتے۔ تھیئٹر کے یہ تمام تماشائی کم و بیش انہی شعبوں سے تعلق رکھتے تھے۔</p> <p>جوڈرامہ نگار تھیئٹر سے وابستہ تھے انھوںنے اپنی قابلیت کو ترجمہ نویسی تک ہی محدود رکھا اور طبع زاد کھیل تحریر کرنے کی کوشش نہ کی۔ یک بابی اور ڈرائنگ روم کامیڈی کھیل ترجمہ کر کے داد وصول کی جا سکتی تھی تو پھرنئے سرے سے تجرباتی کھیل کیوں تحریر کیے جاتے۔ اسی لیے اس دور میں ان ترجمہ شدہ کھیلوں سے ہٹ کر کسی خاص تحریک کے تحت کھیل تحریر کرنے کی کوئی روایت دکھائی نہیں دیتی۔ اس دوران الحمرائ اور گورنمنٹ کالج لاہورسے باہر کچھ نجی تھیئٹرگروپس بھی ظہور پذیر ہوئے جن میں پاکستان پرنٹنگ پریس کی ڈرامہ سوسائٹی بھی شامل تھی۔ اس ڈرامہ سوسائٹی کے متعلق امتیاز علی تاج لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>گورنمنٹ آف پاکستان پریس کے کارکنوں نے پریس کے مینیجر علی امام صاحب کی سرپرستی میں ایک کلب قائم کر لیا تھا۔ اس کے لیے اسی پریس کے کارکن مطلوب احمد ڈرامے لکھتے اور پریس میں کام کرنے والے مزدور اپنی فراغت کے اوقات میں ان ڈراموں کو تیار کر کے پیش کر دیتے۔ جس کے کام کرنے والوںکا مل کر فن کی ایک چیز پیدا کرنا قابل قدر بات تھی لیکن ان لوگوں کو اسٹیج پر ڈراما کامیابی سے پیش کرنے کے رموز سے آگاہ کرنے کا کوئی تجربہ کار شخص موجود نہ تھا۔ ڈرامے بھی نئی تیکنیک اور جدید انداز تحریر کے مطابق نہ تھے۔ لیکن مطلوب احمد صاحب سوشل مسائل کے متعلق ڈرامے لکھتے اور بیباک انداز میں اپنا نقطہ نظر یوںپیش کرتے کہ حیرانی ہوتی تھی۔</p> </blockquote> <p>مطلوب احمد صاحب کے بے باک انداز سے زیادہ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ اُس وقت تاج صاحب الحمرائ میں اُردو تھیئٹر کے فروغ کے لیے سرگرم تھے اورانتظامی لحاظ سے با اثر شخصیت بھی تھے۔ جب طبع زاد ڈرامہ نگارکم تھے اور تراجم پر ہی زور تھا تو ایسے میںاس پریس کے لوگوں کا تھیئٹرکی باریکیوں سے نا آشنا ہونا کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا، کم از کم ان کے پاس سماجی موضوعات تو تھے۔ ان کھیلوں کوتاج صاحب اپنی معاونت سے دوبارہ تحریر کروا کر بھی پیش کر سکتے تھے۔ اگر پرنٹنگ پریس کے افراد کو بھی الحمرائ میں کھیلوں کی دعوت دی جاتی تو یقینا تعلیمی اداروں کے طلبا و اساتذہ کے ساتھ ساتھ دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھی اس میں با آسانی شمولیت ممکن ہو جاتی۔ اس طرح اُردو تھیئٹراس دور میں لاہور کے عوام و خواص کا یکساں نمائندہ ہوتا اور صحت مند رویوں کے ساتھ پروان چڑھتا جس کے لیے اس دور میں ساز گار فضا موجودتھی۔ لیکن ایسا ہو نہ سکا، وسائل کی کمی اورتھیئٹر سے وابستہ بااثر شخصیات کی عدم توجہی سے یہ گروپ کچھ عرصے بعدہی داستانِ پارینہ بن گیا۔</p> <p>کراچی سے بھی کچھ شوقیہ فنکار لاہور آئے اور انھوں نے خواجہ معین الدین کا لکھا ہوا کھیل ”زوال حیدر آباد“ اوپن ائیر تھیئٹرباغِ جناح میں پیش کیااوراسٹیج کے اگلے حصے میں جگہ جگہ مائیکرو فون لگا دیئے۔ اسٹیج پر جب کوئی اداکارداخل ہوتا تو دوسرا اداکار اس کو جگہ دینے کے لیے پیچھے ہٹ جاتا۔ اس طرح اسٹیج پر اداکاروںکی تمام حرکات و سکنات مائیکرو فون کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتیں۔ لیکن جب ضیائ محی الدین خواجہ صاحب کا کھیل ”لال قلعے سے لالو کھیت تک“، کراچی سے لاہور لائے اور اسے برٹ انسٹی ٹیوٹ ہال میںپیش کیا تولاہور کے تماشائیوںنے اسے بہت سراہا کیونکہ کھیل موضوع اور تکنیک کے لحاظ سے جدید تھا۔ اس کھیل میں سائونڈ ایفکٹس اور روشنی کے کئی خوبصورت اور نئے تجربات کیے گئے۔ دن، رات، سورج کا طلوع ہونا، چاندنی رات یہ ایسے مناظر تھے جنھیں روشنی کے ذریعے بہت خوبصورت انداز سے پیش کیا گیا۔ اس کے بعد ضیائ محی الدین نے حفیظ جاوید سے شکسپئیر کے کھیل ”جولیس سیزر“ کاترجمہ کروایا اور اسے گورنمنٹ کالج لاہورکے اوپن ائیر میں پیش کیا۔ اداکاروں کی منضبط حرکات، سٹیج کی مناسب ڈیزائینگ، روشنی اورتاریخی ملبوسات نے اسے تھیئٹر کا کامیاب تجربہ بنا دیا۔۱۳ اس کھیل کے بعد لاہورمیں تھیئٹر سے شغف رکھنے والے کچھ افراد میں جدیداُردو تھیئٹر کرنے کا شوق پیدا ہوااور انھوں نے اس کے فروغ کے لیے بساط بھرکوششیں بھی کیں۔ اس سلسلے میں پروفیسر کلیم الدین، ضیائ محی الدین، نعیم طاہر او رشعیب ہاشمی نے کچھ تجرباتی کھیل پیش کیے جو روشنی اور سیٹ کے اعتبار سے اہم پیش رفت تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ حضرات تھیئٹر کو خیر باد کہہ کر مستقل بنیادوں پردیگر شعبوں سے وا بستہ ہو گئے۔ ان میں پروفیسر کلیم الدین اورشعیب ہاشمی تو شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہو گئے، نعیم طاہر پی ٹی وی اکیڈمی کے انسڑکٹربنے اور پھر پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے جبکہ صفدر میر اور امیتاز علی تاج بھی تھیئٹر کی سرگرمیوں سے دور ہو گئے۔ ایسے کہنہ مشق افرادکی تھیئٹر سے دوری کے سبب جو خلا پیدا ہوا وہ پھر پُر نہ ہو سکا۔</p> <p>۱۹۷۰ئ تک پہنچتے پہنچتے لاہور کے اُردوتھیئٹر میں کئی تبدیلیاںرونماہوئیں۔ ٹی وی کی ابتدائ اور ۶۵ئ کی پاک بھارت جنگ نے جہاں ہمارے ہر شعبے کو متاثر کیا وہاں تھیئٹر بھی متاثرہوا۔ اس وقت تک اُردو تھیئٹردو بنیادوں پر کیا جا رہا تھا، اول شوقیہ اور دوسرا حکومتی سطح پر۔ حکومتی سطح پر کیا جانے والا تھیئٹر بھی شوقیہ افراد یعنی طلبا ہی کا شرمندئہ احسان ہے۔ اس دورمیں طبع زاد اُردو تھیئٹر کرنے کا رجحان پیدا ہوا۔ اپنی زبان میں تھیئٹر کرنے کے لیے جو اعتماد درکار تھا، وہ تراجم اور ایک ایکٹ کے کھیلوں سے مل چکا تھا۔ پھر تقسیم کے بعد اپنے خطے کے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل بھی سر اٹھا چکے تھے۔ لہٰذا ضرورت محسوس کی جانے لگی کہ اب اپنے قومی، سیاسی و سماجی مسائل کو تھیئٹرپر پیش کیا جائے۔ اس عشرے کے طبع زاد ڈرامہ نگاروں میں بانو قدسیہ، انتظار حسین، میرزا ادیب، سلیم چشتی، سرمد صہبائی، جمیل بسمل، عتیق اللہ شیخ، سجاد حیدر، بختیار احمداور اطہر شاہ خان کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس دور میں جو اداکار ابھرے ان میںعلی اعجاز، قوی خان، مسعود اختر، ایم اے ندیم، ایوب خان، سراج منیر، شکیل احمد، ثمینہ احمد، خیام سرحدی، عطیہ شرف، دردانہ بٹ، اورنگ زیب لغا ری، بدیع الزماں، رشید عمر تھانوی، زبیر بلوچ، منور سعیداور سی ایم منیرشامل ہیں۔ ہدایت کاروں میں بختیار احمد، عتیق اللہ شیخ، رشید عمر تھانوی، پروفیسر کلیم الدین، کوکب افضل، سی ایم منیر، سلیم چشتی، سرمد صہبائی اور سلمان پیرزادہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ میرزا ادیب کے بہت کم کھیل تھیئٹر کے لیے تیار کیے گئے جس کی وجہ ان کی سادگی تھی لیکن جو کام وہ کرنا چاہتے تھے اُسے بے دھڑک کیا اور کئی کھیل تحریر کیے جووطن پرستی کے ساتھ ساتھ ہمارے سماجی رویوں اور کئی طبقات کے فکر و عمل کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگران ڈراموںکو تھیئٹر کے لیے تیارکیا جائے تومعلوم ہو گا کہ ان کے ڈراموں میں ہمارے قومی تھیئٹر کے کئی امکانات پنہاں ہیں۔ اس دور میں بچوں کے لیے کوئی باقاعدہ تھیئٹر نہ تھا۔ اس سلسلے میں علی احمد نے ابتدا توکی لیکن کچھ ہی عرصے بعد وہ لاہور سے مستقل طور پر کراچی ہجرت کر گئے۔ ان کے بعدعزیز اثری اورجمیل بسمل نے بچوں کے اُردو تھیئٹر کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔</p> <p>طبع زاد علامتی کھیلوں کے حوالے سے سرمد صہبائی کا نام قابل ذکر ہے۔ ان کے تحریر کردہ تقریبا ًتمام کھیل علامتی ہیں جن میں ”ڈارک روم“، ”ہیش“ اور ”تو کون“ نمایاں ہیں۔ اسی طرح تجرباتی کھیل پیش کرنے والے ہدایت کاروں میں پروفیسر کلیم الدین کا نام نمایاں ہے۔ ان کے پیش کردہ کھیل ”نغرے“ اور ”زینہ کدل“ تجرباتی اور تاثراتی کھیل تھے۔ صفدر میر پاکستان ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں جیلانی کامران کے کھیل ”زینہ کدل“ کے حوالے سے لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p><annotation lang="en">Expressionism at the level at which Mr. Kamran has conceived it in this play, seems to be a genuine formal vehicle for our playwright provided that it is used in the service of a high moral purpose like ”Zena kadal”.</annotation></p> </blockquote> <p>پروفیسر کلیم الدین نے ۱۹۶۴ئ سے ۱۹۷۲ئ تک دیال سنگھ کالج لاہور میں کئی طبع زاداُردو کھیل پیش کیے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے علاوہ دیال سنگھ کالج لاہورکے طلبا نے بھی اُردوتھیئٹر کو تحریک دینے کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ پروفیسر کلیم الدین کی زیر ہدایت ابو سعید قریشی کا تحریر کردہ کھیل ’نغرے“، روشنی، بیک ڈراپ اورتین کرداروں کے ذریعے پیش کیا گیا ایک خوبصورت کھیل تھا جوکامیاب رہا۔ ان کھیلوںکے علاوہ اورکئی کھیل بھی تھیئٹر کی زینت بنے اور کامیاب رہے جن میں ”ستمگر تیرے لیے“، ”اک تیرے آنے سے“، ”پنجرہ“، ”اہل کرم“، ”چڑیا گھر“، ”اُف یہ بیویاں“، ”ہے کوئی ایسا“، ”اب کیا ہو گا“، ”یہ جنوں نہیں تو کیا ہے“، ”اور شبنم روتی رہی“، ”لالے دی جان“، ”کرائے کا مکان“، ”زود پشیمان“ اور ”فرار“ قابلِذکر ہیں۔ یہ تمام کھیل طبع زاد تھے۔ اس سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں تقسیم کے دو سے ڈھائی عشروں کے دوران اُردو تھیئٹر میںرفتہ رفتہ کئی صحت مند رویوں نے جنم لیا۔ اس دور میں آرٹس کونسل نے تھیئٹر ورکشاپس کا اہتمام بھی کروایا۔ نعیم طاہر نے اپنی بساط کے مطا بق ایک تھیئٹر کورس کا اجرائ بھی کیا۔ اس کورس کی مدت تین ماہ تھی۔ سجادحیدر، شوکت زین العابدین، افتخار حیدر، جاوید رضوی اور اقبال آفندی اسی تھیئٹر ورکشاپ کی تخلیق تھے۔ اس کے علاوہ مختلف ممالک سے تھیئٹر کے تربیت یافتہ افراد نے بھی لاہور آکر فنکاروں اور ہدایت کاروں کے لیے ورکشاپس کیںلیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہ چل سکا۔ نعیم طاہرکچھ عرصہ پی ٹی وی اکیڈمی اسلام آباد میں خدمات انجام دیتے رہے اور پھرمستقل طور پر <annotation lang="en">PNCA</annotation> (پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس) سے وابستہ ہو گئے۔ ان کی غیر موجودگی میں ورکشاپ کروانے کی ذمہ داری کسی اور نے قبول نہ کی۔ نتیجتاً اس ایک کورس کے بعدمزید کسی کورس کا اجرائ نہ ہو سکا۔ ابتدائی دور میں جواُردو تھیئٹر کیا گیا وہ محض مزاح تھا لیکن دوسرے دور کے اُردو تھیئٹر میں مزاح کے ساتھ سنجیدگی بھی نمایاں ہو گئی۔</p> <p>اس دور میں تھیئٹر کرنے والوں کے ساتھ ساتھ تھیئٹر کے ناقدین بھی منظرِ عام پر آئے۔ لاہور میںجو کھیل پیش کیے جاتے، ان پرکھلی تنقید ہوتی۔ اس سلسلے میں نمایاں نام صفدر میر کا ہے جو پاکستان ٹائمزمیں ”زینو“ کے نام سے کالم تحریر کرتے رہے۔ ان کے علاوہ انتظار حسین، اکمل علیمی اور احسان بی اے بھی مختلف اخبارات میں لاہور میں پیش کیے گئے اُردو تھیئٹرکے فنی پہلوؤں پر لکھتے رہے۔ اُردو تھیئٹر کی درست سمت متعین کرنے کے لیے ان حضرات کے کالم تعریف و تحسین اورکاٹ دار تنقیدی مواد سے بھر پور ہوتے۔ ترجمہ شدہ کھیلوں کی بھر مار کے متعلق صفدر میر کی یہ رائے ملاحظہ ہو:</p> <blockquote> <p><annotation lang="en">The whole rumpus of translations and adaptations about the morality or the immorality of the practice has arisen from the curious phenomenon that much of our play writing in the past twenty years has taken the form of plagiarism. There is a very little distinction left between plagiarism and adaptation.</annotation></p> </blockquote> <p>ان حضرات کے کالموں سے تھیئٹر کر نے والوں کے ساتھ ساتھ تماشائیوں کو بھی تحریک ملتی کہ اگر کھیل اچھا ہے توضروردیکھنا چاہیے۔ تھیئٹر ایک اہم سماجی ادارہ ہے اور تھیئٹر دیکھنا ایک سماجی تقریب کی طرح۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیب یافتہ ممالک میں تھیئٹر کے شائقین اہتمام کے ساتھ تھیئٹر دیکھنے جاتے ہیں۔ طربیہ کھیلوںکو دیکھنے اور ان سے لطف اندوز ہو کر قہقہے لگانے کے باوجود شائستگی کا دامن نہیں چھوڑتے۔ اس دور میں جو تھیئٹرہوا اور اخبارات میںان پر جو تنقیدہوئی وہ ہمارے تماشائیوں کا مزاج سنوارنے اور ان کی اخلاقی تربیت کرنے میںبھی اہم کردار ادا کرتی رہی۔ اکمل علیمی کھیل ”جس کو سبق یاد ہوا“ کے ایک تماشائی کی بدتہذیبی کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>حاضرین میں سے ایک نے اداکار پر غلیظ آوازہ کسا تو باقی سب حیران اور پریشان ہو گئے۔ وہ شخص پکی عمر کا ایک شہری دکھائی دیتا تھا۔ پتلون اور کوٹ پہن رکھا تھا لیکن اپنے مفلر کو یوں سر اور چہرے پر کس کرلپیٹا تھا۔ جیسے گائوںمیںجرائم پیشہ لوگ کسی مالدار گھر میں نقب لگانے کے لیے روانہ ہونے سے پہلے منہ اور سر کو پگڑی یا چادر میں لپیٹ لیتے ہیں۔ یہ شخص بھی بلاشبہ جرائم پیشہ تھاجس نے آداب زندگی کے روح پرور محل میں نقب لگانے کی کوشش کی تھی مگر گھروالوں کی بیداری کے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔ ناظرین اسے وقفے کے دوران بھی بیزار نظروںسے گھورتے رہے جیسے وہ کوڑھی یا چور ہو۔</p> </blockquote> <p>یہ معاملہ تماشائیوں کی طبقاتی تقسیم کے ساتھ ساتھ نفسیاتی نوعیت کا بھی ہے۔ جس طرح انگریزی اور اُردو کھیل کرنے والوں میں طبقاتی و نفسیاتی فرق موجود تھا اسی طرح مترجم اورطبع زادڈرامہ نگاربھی ایسی ہی تقسیم کا شکار ہوئے۔ اور ایک ایسا خلا پیدا ہواکہ مثبت طبع زاد ڈرامہ نگارنا پید ہوتے گئے اور اس فن لطیف میںبہترین ڈرامہ نگاروں، ہدایت کاروں اور اداکاروںکے جانے کے بعد ایسے افراد داخل ہوئے جو اس فن کی اہمیت سے قطعی آگاہ نہ تھے۔ اس دور میںتھیئٹر کے لیے مقابلے کے دو میدان بھی تیار ہو گئے، پہلا ٹی وی اور دوسرا فلم۔ ٹی وی انتہائی طاقت ور حریف ثابت ہوا جبکہ فلم کمزور۔ ایسی صورتحال میںتھیئٹر شوقیہ اورحکومتی بنیادوں سے ہٹ کر کاروباری سطح پر بھی کیا جانے لگا۔ ہمارا ٹی وی ڈرامہ ہمیشہ تھیئٹر ہی کا احسان مند رہے گا کیونکہ ٹی وی کے منجھے ہوئے ڈرامہ نگار، ہدایت کار اور اداکار تھیئٹر ہی کی دین ہیں۔ اگراُردو تھیئٹر نہ ہوتا توٹی وی ڈرامے کی روایت اتنی شاندار نہ ہوتی جس پر آج پی ٹی وی کو فخر ہے۔ ۶۵ئ کی جنگ نے معاشی طور پر اُردوتھیئٹرکے لیے کئی مشکلات پیدا کر دیں۔ حکومتی تھیئٹر پر صرف کی جانے والی رقم روک دی گئی۔ اس دوران صرف تعلیمی اداروں ہی میں تھیئٹر ہوا۔ ٹی وی اور فلم کی چکا چوند نے اداکاروں اور ڈرامہ نگاروں کورفتہ رفتہ اپنی جانب راغب کیا اور یہ افراد تھیئٹر کوکم وقت دینے لگے۔ ۱۹۷۰ئ تک ہمارے تھیئٹرکی پانچ ایسی شخصیات تھیں جنھوں نے تھیئٹر کے مختلف شعبوں میں مختلف ممالک سے مہارت حاصل کی۔ ان میں ضیائ محی الدین، صفیہ دین اور شعیب ہاشمی <annotation lang="en">RADA</annotation> (رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ) سے جبکہ نعیم طاہر امریکہ سے اور رشید عمر تھانوی، بخارسٹ یونیورسٹی رومانیہ سے تعلیم حاصل کر چکے تھے۔ شعیب ہاشمی نے میوزیکل کامیڈی، نعیم طاہر نے ہدایت کاری اور رشید عمر تھانوی نے تھیئٹر میں روشنی کے حوالے سے تربیت حاصل کی۔ الحمرائ ہال نمبر ۱ اور ۲ میں روشنیوں کی تنصیب رشید عمر تھانوی ہی نے کی۔ نعیم طاہر ۲۰۰۹ئ تک <annotation lang="en">PNCA</annotation> (پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس) سے وابستہ رہے۔ جبکہ شعیب ہاشمی نے شعبۂ تعلیم میں شمولیت اختیار کر لی اور اپنی ملازمت کی وجہ سے تھیئٹر کے لیے زیادہ خدمات انجام نہ دے سکے۔ ضیائ محی الدین آج کل <annotation lang="en">NAPA</annotation> (نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ) کراچی کے ڈائریکٹر ہیں اور یہ ادارہ انہی کی زیرِ نگرانی کام کر رہا ہے۔ صفیہ دین جوانی ہی میں وفات پاگئیںاورہماراتھیئٹران کی صلاحیتوں سے خاطرخواہ استفادہ نہ کر سکا۔ رشید عمر تھانوی بھی وفات پا چکے ہیں لیکن آخر دم تک <annotation lang="en">PNCA</annotation> سے وابستہ رہے اور اُردوتھیئٹر کے فروغ کے لیے تن دہی سے خدمات انجام دیتے رہے۔</p> <p>سیاسی تبدیلیوں، منفی انفرادی و اجتماعی رویوںاور سازشوں کی بدولت ہمارے ادارے کبھی مستحکم نہ ہو سکے۔ بھار تی حکومت اور ان کے ثقافتی اداروںنے تھیئٹرکو تقویت دینے اور اسے محفوظ بنانے کے لیے ٹھوس پالیسیاں مرتب کیں۔ ہم گذشتہ ۶۵ برسوں میںایک کروڑ سے زائد آبادی کے شہر کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیںکر سکے۔ کسی بھی ملک کا کوئی بھی ادارہ ہو، وہ ملک کے سیاسی ومعاشی استحکام کی بدولت ترقی اور انتشار کی بدولت ترقیِ معکوس کرتا ہے۔ ہمارے ساتھ آخرالذ کر معاملہ ہوا۔ ہم ثقافتی اداروں کی تشکیل کے لیے ٹھوس پالیسیاں ترتیب نہ دے سکے۔ تقسیم کے بعد سے ۷۰ئ تک تھیئٹر کے لیے کوئی باقاعدہ عمارت تعمیر نہ کی جا سکی۔ تھیئٹر کرنے والوں اور تماشائیوںکی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر تھیئٹر ایسی عمارتوں میں بھی کیاجانے لگا جو تھیئٹر کے لیے موزوںہی نہ تھیں۔ جو پختہ منڈوے لاہور شہر میں موجود تھے اگر انھیںہی محفوظ کر کے تھیئٹرکی جدید سہولتوں سے آراستہ کر دیا جاتا تو ہمیں ۷۰ئ کی دہائی میں ہی تھیئٹر کی پختہ عمارتیں مل جاتیں۔ لیکن کسی نے اس ورثے کومحفوظ کرنے کی کوشش نہ کی۔ ڈاکٹرانور سجادکہتے ہیں:</p> <blockquote> <p>میں نے کئی مرتبہ کہا کہ خدا کے لیے اپنے ان قدیم تھیئٹر ہالوں کو محفوظ کرنے کے لیے کوئی حکمتِ عملی طے کر لولیکن کسی نے میری ایک نہ سنی۔</p> </blockquote> <p>شہر پھیلتا رہا الحمرائ، جی سی، اپوا، وائے ایم سی اے، برٹ انسٹی ٹیوٹ، اوپن ائیر اور سنٹرل ماڈل ہائی سکول کے علاوہ دیگر جگہوں پر بھی اُردو تھیٹرکیا گیا۔ اس دور میںدرج بالا جگہوں کے علاوہ جن جگہوں پراُردو تھیئٹر ہوا ان کے اعداد و شمار بھی ذیل میں درج ہیں:</p> <list> <li>آواری ہوٹل، لاہور: یہاں ایک دو کھیل پیش کیے گئے۔</li> <li>اے جی آفس ہال، لاہور: یہاں اب تھیئٹر نہیں ہوتا۔</li> <li>بخاری آڈیٹوریم، گورنمنٹ کالج لاہور:یہ آڈیٹوریم ۱۹۶۴ئ میںتعمیر ہوا۔ اس کی تعمیر کے بعد سے ۸۰ئ تک کچھ نجی تھیئٹر گروپوںنے بھی یہاں کھیل پیش کیے۔ لیکن۱۹۸۰ئ سے تاحال صرف ادارے کی ڈرامہ کلب ہی یہاں کھیل اسٹیج کرتی ہے۔</li> <li>ڈویژنل آڈیٹوریم، لاہور میوزیم:یہ ہال بھی اب تھیئٹر کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔</li> <li>راحت ہال، لاہور: یہ ہال اب موجود نہیں۔</li> <li>شاہین ہال دیال سنگھ کالج، لاہور: ۶۴ئ سے ۷۲ئ تک یہ ہال باقاعدہ اُردوتھیئٹر کے لیے استعمال ہوتا رہا لیکن ۱۹۷۲ئ کے بعدیہاںتھیئٹر نہیں ہوا۔</li> <li>فری میسن ہال (پکار ہال)لاہور:اس ہال میں ایک دو کھیل پیش کیے گئے لیکن اب یہاں کھیل نہیں ہوتے۔</li> <li>لاہور میونسپل کارپوریشن:۱۹۶۵ئ اور اس کے آس پاس اس عمارت میں کچھ کھیل پیش کیے گئے لیکن اس کے بعد یہاںکوئی کھیل نہیں ہوا۔ جو کھیل یہاں پیش کیے گئے ان کی تفصیل دستیاب نہیں ہو سکی۔</li> </list> <p>ان جگہوں کے متعلق جن حوالوں سے معلومات دستیاب ہوئیں ان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہاںہونے والا اُردوتھیئٹر فنی اعتبار سے معیاری نہیں تھا۔ البتہ تعلیمی اداروںمیں کیا جانے والا اردوتھیئٹر فنی ساخت، نئے تجربات اور موضوعات سے مالا مال تھا کیونکہ وہاں تھیئٹر سال بھرکی ایک اہم نصابی سرگرمی سمجھا جاتا تھا اسی لیے وہاں تھیئٹر کے لیے مالی و دیگر مشکلات کم تھیں۔ حاصلِ بحث یہ کہ تقسیم کے فوراً بعدلاہور میں اردو تھئیٹر کے لیے جو کوششیں کی گئیں وہ منتشراور روایتی تھیں جس کی وجہ سے اس کی ابتدا میں تاخیر ہوئی۔ گورنمنٹ کالج لاہورکی نوآبادیاتی روایت نے بھی منجھے ہوئے افراد کو اپنی گرفت میں رکھا اور وہ فوراً اردو تھیئٹر کی جانب مائل نہ ہوئے۔ رفتہ رفتہ برف پگھلی اور انگریزی کھیلوں کے علاوہ اردو کھیلوں کے لیے بھی سوچا جانے لگا اور اس حوالے سے ابتدا میں تراجم پر زورصرف کیا گیا۔ تقسیم کے بعد سے ۱۹۶۰ئ تک پہنچتے پہنچتے اس رجحان میںبھی تبدیلی پیدا ہوئی اور طبع زادڈرامہ نگار میدان میں اترے جبکہ تراجم سے قدرے کم استفادہ کیا گیا۔ اُردوتھیئٹر کے لیے کچھ نئے راستوں کا تعین ہوا۔ ۶۵ئ کی جنگ نے قومی شناخت کو اُجاگر کیا۔ ٹی وی اور فلم نے تھیئٹر کو کسی حد تک نقصان پہنچایا۔ ۱۹۷۰ئ تک اُردوتھیئٹر کے لیے کوئی واضح، مربوط اور جامع حکمت عملی طے نہ کی جا سکی۔ ایسی صورتِ حال میںاُردو تھیئٹر خود ساختہ اصولوںکے تحت اپنے راستوں کا خودہی تعین کرتا چلا گیا۔ لیکن ۱۹۷۰ئ کے بعد جمہوری و فوجی آمریت سے پیدا ہونے والے زوال وانتشارنے ہمارے قومی اداروں کی شکلیںمسخ کرنا شروع کر دیںاور جلد ہی تھیئٹر بھی اس کی زد میں آگیا۔</p> </section> </body>
0033.xml
<meta> <title>کلاسیکی اردو غزل میں تصورِ انسان</title> <author> <name>طارق محمود ہاشمی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 4</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/15_tariq_mahmud_hashmi_bunyad_2013.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>4504</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
کلاسیکی اردو غزل میں تصورِ انسان
4,504
No
<body> <section> <p>اردو کے کلاسیکی شعراکا معاشرہ اُن افراد پر مشتمل تھا جنھوں نے نہ تو پاسکل سے خدا کے کھو جانے کی خبر سنی تھی اور نہ ہی اُس عہد کی فضا میں نٹشے کا ’خدا کی موت‘ کا اعلان گونجا تھا۔ یہ معاشرہ وکٹورین سائنس اور فکرِ مغرب کے زیرِ اثر خود مکتفی ہونے کے زعم میں مبتلا نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے تمام رنج و راحت اور وسائل و مسائل خدا اور تصورِ تقدیر سے وابستہ تھے۔ سیدھے سادے الفاظ میں یہ معاشرہ ”خدا مرکز معاشرہ“ تھا۔</p> <p>اس معاشرے کی فکر کی بنیاد مذہب اور تصوف کے رجحانات تھے جن کی رو سے خالقِ ارض و سما خدا کی ذاتِ واحد ہے۔ حیاتِ انسانی فانی ہے، اور موت کے بعد ہم زندگی کا ایک نیا سفر شروع کریں گے جو اَبدی ہے۔ انسان اپنی موجودہ زندگی میں کیے جانے والے تمام اعمال و افعال کا حساب آخرت میں دے گااور یہ خدائے رحیم کی رضا پر ہے کہ وہ انسان کو بخش دے یا اعمالِ بد کی سزا کے طور پر جہنم کے تاریک گڑھوں میں دھکیل دے۔ اس معاشرے میں انسان، کا ئنات اور خدا کا رشتہ ایک تسلیم شدہ رشتہ تھا۔ چناںچہ ہمارے اردو شعرا بھی مذہبی اور صوفیانہ عقائد کے زیرِ اثر ”زمین کی تکلیف اورجدائی کی کربناکی کا ذکر کرتے تھے۔ کیونکہ اُن کی نظر میں یہی ایک واحد طریقہ تھا جس کے زیرِ اثر آنے والی زندگی میں ہمارا نام نیک لوگوں میں شامل ہوسکتاہے۔ وہ لوگ زمین پر روتے تھے تاکہ بہشتوں میں اُن کی مسکراہٹ یقینی ہو۔ وہ زمانہ اعتقاد کا زمانہ تھا اور وہ بزرگ خوش قسمت تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اُن کا اعتقاد سچائی پر قائم ہے آنے والی یہ زندگی حقیقت ہے۔“</p> <p>یہ معاشرہ چونکہ خود مکتفی ہونے کے زعم میں مبتلا نہیں ہوا تھا لہٰذا انسان کے قدرو اختیار کا دائرہ بھی تنگ و محدود تھا۔ انسان اور کائنات کا ماضی خدانے ترتیب دیا تھا۔ حال میں بھی وہی کارساز ہے اور مستقبل کی تشکیل بھی وہی کرے گا۔ بقول ڈاکٹر تحسین فراقی:</p> <blockquote> <p>(انسان) کے بارے میں اس دنیا میں دوبڑے تصورات رائج رہے ہیں، ایک اُس کے مختار ہونے اور دوسرا مجبور محض ہونے کا۔ ہماری کلاسیکی اُردو شاعری بیشتر اس دوسرے تصور کی موید اور علمبردار رہی ہے۔</p> </blockquote> <p>ان شعرا کے نزدیک انسان نیابتِ الٰہی کے منصب پر فائز، خدا کی تخلیق کا سرتاج اور اشرف المخلوقات ہے۔ انسان کا وجود کائنات کا مظہر ہے اور وہ ایک کون الصغیر ہے۔ اُس کے وجود میں ایک شمعِ اُمید روشن رہتی تھی۔ بلکہ نیابتِ الٰہی اور اشرف المخلوقات کا تصور اُس کے اندر ایک الوہی طاقت کو بھی اُ بھارتاہے۔ </p> <p>ولیؔ ایک جمال پرست شاعر ہیں جو کائنات کے جمال میں سرمست رہتے ہیں۔ اُن کی شاعری کاتشبیہاتی نظام اس بات کی دلیل ہے کہ اُن کی شاعری کی بنیادی قدرحُسن ہے۔</p> <blockquote> <verse> حسن تھا پردئہ تجرید میں سب سوں آزاد طالبِ عشق ہوا صورتِ انسان میں آ </verse> </blockquote> <p>ولیؔ کا یہ شعر اُس عربی قول کی طرف دھیان دلاتا ہے جس میں خدا نے خود کو ایک خزانہ مخفی قرار دیتے ہوئے تخلیق کائنات کو اپنی ذات کا اظہار قرار دیا۔ ولیؔ کے نزدیک انسان کائنات کے بارے میں بحث و تکرار کرتا ہے۔ لیکن موجودات کی حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتا۔ وہ نہیں جانتا کہ اُس کے وجود کی اصل کیا ہے۔</p> <blockquote> <verse> اے بلبلِ زباں تو نہ کر اختیار بحث ہے باغِ دہر میں گلِ آتش بہار بحث ______ اُن نے پایا ہے منزلِ مقصود عشق جس کا ہے ہادی و رہبر </verse> </blockquote> <p>لہٰذا انسان کو ترکِ علائق کر کے عشق کی راہ پر گامزن ہونا چاہیے کیونکہ دل کی راہ وہ راہ ہے جو انسان کو اس کی حقیقت سے آشنا کرتی ہے۔ انسان خارجی کائنات کی بجائے اپنی داخلی کائنات کے مشاہدے سے اپنی حقیقت کا ادراک جلد کر سکتا ہے۔ اس لیے انسان کو اپنی ذات کا عرفان ہوناچاہیے۔ اور یہ عرفان بے خودی کی راہ سے حاصل ہوتا ہے۔</p> <blockquote> <verse> دیکھاہے یک نگہ میں حقیقت کے ملک کوں جب بے خودی کی راہ میں دل نے سفرکیا </verse> </blockquote> <p>اور اسی راہ ہی سے انسان خود آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ خدا آگاہ بھی ہو جاتا ہے۔</p> <blockquote> <verse> سیر صحرا کی تو نہ کر ہرگز دل کے صحرا میں گر خدا پایا </verse> </blockquote> <p>میرؔ کے ناقدین کا خیال ہے کہ اُن کے کلام میں ”بلندش بغایت بلند اور پستش بغایت پست“ کی صورت نظر آتی ہے۔ لیکن یہی وہ خوبی ہے جو کلامِ میر میں ایک پورے انسان کو تشکیل دیتی ہے اور میرؔ نے اپنی شاعری میں انسان کی وہ شکل بھی دکھائی ہے کہ جہاں مسجودِ ملائک ہے اور اُس کی ”شانِ ارفع“ ہے۔ لیکن دوسری طرف وہ انسان بھی نظرآتا ہے جو ”اسفل سافلین“ ہے۔ دراصل یہ دونوں حالتیں انسان کی فطرت کا حصہ ہیں۔ محمد حسن عسکری کے خیال میں:</p> <blockquote> <p>(میرکے کلام میں) ہم زندگی کے صرف چند تجربات (خصوصاً لطیف تجربات) سے دوچار نہیں ہوتے بلکہ اُس کی شاعری میں ہمیں پوری زندگی ملتی ہے اور اپنے سارے تنوع اور تضاد، رفعتوں اور پستیوں، قوتوں اور مجبوریوں سمیت فکرِ محض کو شاعری میں سمونا بھی بڑی مشکل بات ہے۔</p> </blockquote> <p>لیکن میرؔ جو ساری زندگی ”نامرادانہ زیست“ کرتا رہا۔ اس مشکل گِرہ کو بھی کھولتا رہا اور بقول سلیم احمد ”میرؔ کے انسان کا کمال یہ ہے کہ لطافت و کثافت اس طرح گلے مل رہے ہیں کہ دونوں کا تعین باقی نہیں رہا۔ میرؔ کے عاشق کے روپ میں انسان کی یہ تصویر اب تک اردو شاعری کی معراج ہے۔“</p> <p>اگرچہ میرؔ انسان کی اول الذکر حیثیت کو پسند اور ثانی الذکر کو ناپسند کرتے ہیں لیکن وہ اس بات کا بھی احساس رکھتے ہیں کہ اگر انسان اپنے اندر کے اس تضاد کو ختم کر دے تو وہ انسان، انسان نہیں رہ جاتا بلکہ خدا بن جاتا ہے۔ اور شاید طبعِ میرؔ کو یہ گوارا بھی نہیں۔ اس لیے میرؔ اس تضاد کی نفی نہیں کرتے بلکہ اس کا اقرار نہایت عمدہ پیراے میں یوں بیان کرتے ہیں۔</p> <blockquote> <verse> کفر کچھ چاہیے اسلام کی رونق کے لیے حسن زنّار ہے تسبیح سلیمانی کا </verse> </blockquote> <p>میرؔ کا واعظ پر طنز بھی اس لیے ہے کہ وہ شبانہ روز عبادت سے فرشتہ بن گیا ہے لیکن انسان نہیں بن سکا۔</p> <blockquote> <verse> ہم نے یہ مانا کہ واعظ ہے ملک آدمی ہونا بہت مشکل ہے میاں </verse> </blockquote> <p>میرؔ انسان کے اس داخلی تضاد کو تسلیم کرتے ہوئے انسان کی عظمت کے ترانے گاتے ہیں۔ اُن کے نزدیک حضرتِ انسان کو جو تقدس اُس ذاتِ قدوس سے ملا ہے وہ ملک کو ملکیت کے باوجود نہیں مل سکا۔ بلکہ روح القدس انسان کا ایک ادنیٰ دربان ہے۔ یہ کائنات انسان سے پہلے ایک ایسا آئینہ تھا جو قابلِ دیدار نہ تھا لہٰذا انسان مقصودِ کائنات ہے۔ انسان کائنات میں سب سے زیادہ ذمہ دار مخلوق ہے اور اُس کے کاندھوں پر ایسا بوجھ لاداگیا جو دیگر موجودات کے بس کی بات نہیں۔</p> <blockquote> <verse> یہ مشتِ خاک یعنی انسان ہی ہے روکش ورنہ اُٹھائی کن نے اِس آسماں کی ٹکر </verse> </blockquote> <p>یہی احساسِ ذمہ داری ہے جس سے میرؔ ناکامیوں سے کام لینے کا ہنر جانتے ہیں بلکہ زندگی کا قرینہ بھی یہی ہے کہ نامردانہ زیست کی جائے۔ لیکن میرؔ کا انسان زندگی میں جس چیز کو سب سے زیادہ عزیز رکھتا ہے وہ غم اور غم اُٹھانے کا حوصلہ ہے۔ میرؔ کا انسان غم کو زندگی کی مستقل قدر خیال کرتا ہے اور اس مستقل اور عظیم قدر کی پہچان اُس جذبہ سے ہوتی ہے جسے عشق کہتے ہیں۔ یہ عشق ہی ہے جس نے اس کائنات کو منور کیا ہے۔ عشق نہ ہوتا تو کائنات کا ظہور بھی نہیں ہوتا۔ اس عشق کی ہمہ گیری اور وسعت کا اندازہ میرؔ کی غزلیات کے ساتھ ساتھ مثنویات سے ہوتا ہے۔ شبیہہ الحسن نو نہروی کا یہ بیان کچھ ایسا مبالغہ بھی نہیں کہ:</p> <blockquote> <p>میرؔ کے عشق میں جوشدت اور ہمہ گیری ملتی ہے وہ اردو زبان کے کسی دوسرے شاعر کے حصہ میں نہیں آئی۔</p> </blockquote> <p>میرؔ کی شاعری میں انسان اپنی تمام تر آلائشوں کے باوجود کائنات میں ارفع مقام کا حامل ہے اور اس کا جذبۂ عشق اُس میں ایسا حوصلہ پیدا کرتا ہے جو اسے اس قابل بناتا ہے کہ زندگی کے مسلسل دکھوں کا مقابلہ جرأت سے کرے۔ وہ زندگی کے کسی مرحلے پر بھی مایوس نہیں ہوتا۔ بلکہ اپنی ناکامیوں سے کام لیتا ہے اور نامرادانہ زیست کرنے کو اپنا طور بنا لیتا ہے۔</p> <p>قائم چاندپوری کے ہاں انسان کے بارے میں نہایت بصیرت افروز خیالات ملتے ہیں جو محض مروّجہ مذہبی رجحانات یا صوفیانہ تفلسف سے ماخوذ نہیں بلکہ قائم کی ذاتی فکری اپج اور شاعرانہ تخیل کا نتیجہ بھی ہیں۔</p> <p>قائم کے نزدیک انسان کی فطرت میں نیکی اور بدی دونوں رجحانات موجود ہیں اور وہ اپنی فطرت سے گریز نہیں کر سکتا۔ گناہ اُس سے سرزد ضرور ہوتا ہے۔ کوئی بھی انسان ظاہری طور پر کتنا ہی اپنے آپ کو متقی و پرہیز گار ظاہر کرے اُس کے باطن میں گناہ کا میلان ضرور پایاجاتا ہے۔ </p> <blockquote> <verse> کون سا اہلِ صفا آلودگی سے پاک ہے آبِ آئینہ بھی جوہر سے پر از خاشاک ہے </verse> </blockquote> <p>لیکن ایک گناہ گار انسان مردود نہیں ہے۔ وہ بھی کائنات کی ضرورت ہے۔ بُرا انسان بھی کارخانۂ حیات کا ایک پرزہ ہے۔ جس طرح انسان کے جسم کے اعضا جسم کے ساتھ ناگزیر ہیں۔ چاہے وہ اعضا پاک ہیں یا آلودگی سے پُر ہیں لیکن انہیں جسم سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔</p> <blockquote> <verse> ہر بد و نیک جہاں اپنی جگہ ہے مطلوب کون سا عضو بدن میں ہے کہ درکار نہیں </verse> </blockquote> <p>قائمؔ انسان کو اُس کی برائی اور آلودگی کے باوجود اُسے کائنات میں ایک لطیف مخلوق خیال کرتے ہیں۔ انسان اپنی ذات سے حظ اُٹھاتا ہے اور اپنی موجودگی سے لطف لیتا رہتا ہے۔ قائمؔ خدا سے مخاطب ہے۔</p> <blockquote> <verse> الٰہی! واقعی اتنا ہی بد ہے فسق و فجور ہر اُس مزہ کو سمجھتا جو تو بشر ہوتا </verse> </blockquote> <p>لیکن قائمؔ بعض اوقات حیاتِ انسانی کے اس لطف سے یاس میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے۔ جب وہ یہ خیال کرتا ہے کہ انسان کی زندگی فانی ہے اور یہ خراباتِ جہاں ایک دن خراب ہو جائے گا۔ قائمؔ نے اس مضمون کو نہایت عمدگی سے باندھا ہے۔</p> <blockquote> <verse> بِنا تھی عیشِ جہاں کی تمام غفلت پر کھلی جو آنکھ تو گویا کہ اِحتلام ہوا </verse> </blockquote> <p>اردو کی کلاسیکی شاعری میں فنا کا تصور کئی ایک زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ مذہبی فکر کے زیر اثر حیاتِ نو پانے کی رجائیت اپنی جگہ موت کے ذریعے پیکرِ خاکی کے خاتمے کا خیال حزن و ملال کا باعث بھی رہا ہے۔ قائمؔ چاند پوری نے انسانی فنا کے تصور کو تصورِ تقدیر سے ہم آہنگ کر کے پیش کیا ہے۔ اگرچہ شعر کا مضمون تقدیر کے جبر کو واضح کر تا ہے لیکن اسلوب کے اعتبار سے دیکھیں تو شعر میں پیش کیا گیا خیال کئی ایک نئی جہتیں رکھتا ہے۔</p> <blockquote> <verse> چرخِ مینائی سے کیا مر کے کوئی چھوٹے گا مے ہے اس شیشے میں تاشیشہ نہ یہ پھوٹے گا </verse> </blockquote> <p>ڈاکٹر وزیر آغا نے درد کی شاعری کے بارے میں لکھاہے:</p> <blockquote> <p>دردؔ کی شاعری کو تصوف اور جذب کی شاعری کہا گیا ہے۔ حالانکہ دردؔ کے ہاں تفکر، تعقل اور تشکیک کا وہ میلان زیادہ قوی تھا جو فرد کو ایک صاحبِ بصیرت تماشائی کا منصب بخشتا ہے۔</p> </blockquote> <p>اس بحث سے قطعِ نظر کہ دردؔکی شاعری تصوف کی شاعری ہے یا تعقل کی۔ یہ بات طے ہے کہ دردؔ ایک صاحب حال صوفی تھے اور انھوں نے کائنات اور اس موجودات کو ایک صوفی ہی کی نگاہ سے دیکھا۔ چناںچہ اُن کی شاعری میں کائنات کے صوفیانہ مشاہدے اور بعض اوقات اس کے نتائج بھی ملتے ہیں۔</p> <p>سیّد عبداللہ نے اپنے ایک مضمون میں دردؔ کی شاعری کا فنی نقطۂ نظر سے جائزہ لیتے ہوئے ایک منفرد پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے کہ:</p> <blockquote> <p>دردؔ کے کلام میں ایسے اشعار کی تعداد خاصی ہے جن میں الفاظ ”دید“، ”سیر“ اور ”دیکھنا“ استعمال ہوئے ہیں۔۔۔ اُن کی لفظیات میں ”دید“، ”سیر“ کا عنصر خاصا ہے جس سے اُن کی ذہنی رغبتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔</p> </blockquote> <p>دردؔ کے ہاں مذکورہ لفظیات دراصل صوفیا کے اس عقیدے کے زیر اثر نہیں کہ مطالعۂ کائنات کا اصل قرینہ مشاہدۂ کائنات ہے۔ انسان اپنی بصارت اور اُس کے توسط سے دیگر حواس کو متحرک کر کے زمان و مکان کا شعور حاصل کر سکتا ہے اور بہت سے اسرار کے ادراک کے لیے آگہی کا رستہ کھولنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ اگرچہ دردؔ کائنات کے اسرار پر منفرد یا نئی فکری جہتوں سے غور نہیں کرتے اور وہ وحدت الوجودی نقطئہ نظر اختیار کرتے ہوئے، عناصرِ کائنات میں خالقِ کائنات کا جلوہ دیکھتے ہیں تاہم اُن کے شعروں میں دعوتِ مشاہدہ آگہی کے وسیلے کا درجہ ضرور رکھتی ہے۔</p> <blockquote> <verse> جگ میں آ کر ادھر اُدھر دیکھا تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا ______ تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا </verse> </blockquote> <p>ان اشعار کی روشنی میں دیکھیں تو دردؔ کا انسان ایک صاحبِ نظر انسان ہے جو کائنات کو دیکھتا ہے، غور کرتا ہے اور اپنے مشاہدے اور تفکر ہی سے کائنات اور انسان کے بارے میں اپنا ایک نقطئہ نظر اپناتا ہے۔</p> <blockquote> <verse> جلوہ تو ہر اک طرح کا ہر شان میں دیکھا جو کچھ کہ سنا تجھ میں سو انسان میں دیکھا ______ بیگانہ گر نظر پڑے تو آشنا کو دیکھ بندہ گر آوے سامنے تو بھی خدا کو دیکھ </verse> </blockquote> <p>دردؔ کا یہ شعر ایک عجیب سوال کو جنم دیتا ہے۔ کیا پیکرِخاکی وجود بیگانہ ہے؟ غالباََ درد کا استفہام سوال نہیں بلکہ انسان کو دعوتِ فکر ہے کہ وہ سوچے کب اُس کا پیکر بیگانگی کا روپ اختیار کرتا ہے اور کب رنگِ آشنائی، درد کے نزدیک انسان خدا سے آگاہ تب ہوتا ہے جب وہ اپنے مقصدِ حیات سے ہم آہنگ ہوتا ہے اور وہ اس کے سوا اور کوئی نہیں کہ انسان اپنے دل میں دوسرے انسانوں کے لیے جذبۂ محبت بیدار کرے۔ وہ بندئہ خدا ضرور بنے لیکن بندگانِ خدا اور اُن کے مسائل سے خود کو بیگانہ نہ کرے۔ خدا کو اُس کے رکوع و سجود سے زیادہ اُس کا وہ قیام مطلوب ہے جو مخلوقِ خدا کے دردوآلام کے خاتمے کا باعث ہو سکے اور یہی وہ صفت ہے جو اُسے فرشتوں سے برتر قرار دیتی ہے۔</p> <blockquote> <verse> دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں </verse> </blockquote> <p>غالبؔ کی شاعری میں ہم جس انسان سے متعارف ہوتے ہیں وہ ایک ایسا انا پرست انسان ہے جسے پوری کائنات ایک بازیچئہ اطفال سے کچھ زیادہ نظر نہیں آتی اور یہ انسان وبائے عام میں مرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ غالب کی انائیت کے پس منظر میں کئی عوامل کار فرما ہیں۔ تصوف کی طرف میلان، خاندانی تفاخر، احساسِ محرومی اور انقلاب ۱۸۵۷ئ اور اُس عہد کے دگرگوں حالات۔ یہ سب عناصر غالبؔ کو ایک انا پرست بلکہ سراپا انا بنا دیتے ہیں۔</p> <p>غالبؔ کی انا کو سلیم احمد نے اُس وقت کے حالات کے تناظر میں دیکھاہے۔ اُن کے خیال میں غالبؔ کی فرد پرستی دراصل ہندوستان میں انگریز کی آمد، سیاسی و سماجی سطح پر دگرگوں حالات اور شکست و ریخت کا نتیجہ ہے۔ تاہم سلیم احمد کو غالبؔ کی انا پرست ذہنیت قطعاًنا پسند ہے۔ اُن کے نزدیک یہ انائیت منفی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p> غالب کی شاعری میں منفی اثرات اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے زمانے کا سب سے سچا گواہ تھا۔ یہ جو وہ عشق اور عشق کی قدروں کا مذاق اُڑاتا ہے، یہ جو وہ حسن پر نکتہ چینی کرتا ہے اور حریم ناز میں بھی خود نمائی سے باز نہیں رہتا، یہ جو وہ نہ صرف محبوب کو بلکہ اپنے آپ کو بھی خدا کو سونپنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہ سب باتیںاس بات کا ثبوت ہیں کہ غالب نے اپنے زمانہ کی حقیقی روح کو سمیٹ لیاتھا۔</p> </blockquote> <p>سلیم احمد کا یہ خیال کہ غالبؔ کی انا اور تفاخر اپنے عہد کی شکست و ریخت کا نتیجہ ہے، اپنے اندر بہت حد تک صداقت رکھتاہے۔ غالبؔ کے لیے ”طرزِ تپاکِ اہل دنیا“ میں بھی زہر ملا ہے۔ وہ آئینے سے ڈرتا ہے کیونکہ کتوں کی طرح انسانوں نے بھی اُسے آزار پہنچایا ہے۔۔۔۔ غالبؔ ہر انسانی رشتے سے بیزار ہے۔ یہ بیزاری کبھی مخاطب کا طنز بن جاتی ہے کبھی شکایت، کبھی ایک فغاں کی سی کیفیت، کبھی ایک کرب کی چیخ، کبھی وہ زہریلی آواز جو بعض اوقات غیر انسانی معلوم ہوتی ہے۔ کہیں کہیں اُس کی خود رحمی مریضانہ حد تک پہنچ جاتی ہے اور ساتھ ہی کابوس نما انانیت زدگی بھی جو بعض اوقات اُسے انسانوں سے اتنی دور لے جاتی ہے کہ وہ جنات کی زباں بولنے لگتا ہے۔</p> <p>غالب کے بارے میں یہ حقائق پڑھتے ہوئے یہ امر بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ سلیم احمد جس غالب کے بارے میں اظہارِ خیال کر رہے ہیں وہ محض ایک شاعر نہیں بلکہ عہدِ نو اور اُس کی نفسیات کا استعارہ ہے۔ عہدِ نو میں جس نوعیت کی تنہائی پسندی، انسانی بیزاری اور وجودی کرب نظرآتا ہے اُس کا پہلا اظہار غالبؔ کی غزل ہے۔</p> <blockquote> <verse> نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا </verse> </blockquote> <p>غالبؔ کے نزدیک کائنات محض ایک فریب ہستی ہے اور ”عالم تمام حلقہ دام خیال ہے۔“ اس کائنات میں انسان کی حیثیت اُس مرغِ اسیر کی سی ہے جو قفس میں اپنا آشیانہ تعمیر کرنے کے لیے خس فراہم کرتا رہتا ہے۔ انسان کی ہستی فنا کی دلیل ہے اور اُس کا وجودخارِ بیاباں پر قطرئہ شبنم کی طرح ہے۔ یہ تصورات غالب کو وجودیت پسند بنا دیتے ہیں اور وہ ایک عمیق بحرِ غم میں غرق ہو جاتے ہیں۔</p> <blockquote> <verse> نَے گلِ نغمہ ہوں نہ پردئہ ساز میں ہوں اپنی شکست کی آواز ______ بے دلی ہائے تماشاکہ نہ عبرت ہے نہ ذوق بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں </verse> </blockquote> <p>لیکن غالبؔ کا جذبہ تحرک اُن کی اس قنوطی کیفیت میں تسلسل نہیں آنے دیتا۔ وہ نہ صرف آلام زمانہ کو سہارنے کا سلیقہ رکھتے ہیں بلکہ ہمت بھی، غالبؔ سمجھتے ہیں کہ روئے دریا آگ ہے جبکہ قعرِ دریا سلسبیل ہے۔ اس لیے وہ خوفِ بلا رکھنے کے بجائے بلا کا سامنا کرنے کو بہتر خیال کرتے ہیں۔ وہ طوفانِ حوادث کو اپنے لیے مکتب خیال کرتے ہیں۔ جن میں رہ کر وہ زندگی کرنے کا ڈھنگ سیکھتے ہیں۔ چنانچہ غالبؔ انتہائی یاسیت کے عالم میں بھی رجائیت کی جانب لوٹ آتے ہیں۔</p> <p>غالبؔ مکمل طور پر رجائی شاعر نہ سہی لیکن انسان کو زندگیگذارنے کا سلیقہ ضرور بتاتے ہیں۔ غالبؔ کے ہاں جہاں زندگی کا کرب نظر آتا ہے وہاں عالی ہمت اور بلند حوصلہ بھی ملتا ہے اور یہ بلند حوصلہ غالبؔکو اس کی انا کی دین ہے جو اُسکے وجود کی شکست و ریخت برداشت نہیں کر سکتی۔ بلکہ ایک ایسے اعتماد اور وسعتِ نظر سے آشنا کرتی ہے کہ صحرا گرد میں نہاں نظر آتا ہے اور دریا اپنی جبیں خاک پر گھستا ہوا دکھائی دیتا ہے۔</p> <blockquote> <verse> توفیق بہ اندازئہ ہمت ہے ازل سے آنکھوں میں وہ قطرہ ہے کہ گوہر نہ ہوا تھا </verse> </blockquote> <p>کلاسیکی اردو غزل میں تصورِ انسان کے سلسلے میں ذوق کی انفرادیت اخلاقی مضامین پر مشتمل اشعار ہیں۔ اُن کے ہاں وجودِ انسان کے بارے میں فکری مسائل بھی ہیں مگر اس سے کہیں زیادہ اخلاقیات پر مشتمل مضامین ہیں۔ وہ انسانی اوصاف کو ایک جوہری کی طرح پرکھتے ہیں:</p> <blockquote> <verse> گہر کو جوہری، صرّاف زر کو دیکھتے ہیں بشر کے ہیں جو مبصر، بشر کو دیکھتے ہیں </verse> </blockquote> <p>کلامِ ذوقؔ میں انسان کی ذات اور اُس کی مختلف جہات پر تبصرہ کئی مقامات پر کیا گیا ہے۔ ذوقؔ کے کلام میں ایسے اشعار ملتے ہیں جن میں اخلاقی سبق دیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے ذوقؔ کی شاعری کا انسان ایک ”اخلاقی انسان“ ہے۔ دردؔ کی طرح ذوقؔ کے نزدیک بھی انسان کے وجود کو درد سے معمور کر دیا گیا ہے اور وہ سراپا سوز اور سراپا دردہے۔</p> <blockquote> <verse> بنایا اس لیے اس خاک کے پتلے کو تھا انساں کہ اس کو درد کا پتلا بنائیں سر سے پائوں تک </verse> </blockquote> <p>کائنات میں انسان محبت کا مظہر ہے اور انسان کی مشتِ خاک ہی نے کائنات میں عشق کو فروغ دیا۔ اور موجودات کو قیمتِ عشق سے آگاہ کیا۔</p> <blockquote> <verse> جب بنی تیرِ حوادث کی کماں افلاک سے عشق کا تودہ بنا انساں کی مشتِ خاک سے </verse> </blockquote> <p>خدا نے انسان کو کائنات میں ایک مرکز کی حیثیت دی ہے۔ اور اس کے لیے کائنات کو سجا دیا گیا۔</p> <blockquote> <verse> جو کچھ کہ ہے دنیا میں وہ انساں کے لیے ہے آراستہ یہ گھر اسی مہماں کے لیے ہے </verse> </blockquote> <p>لیکن اس مہمان کو کائنات میں محض لذتِ کام و دہن کے لیے نہیں لایاگیا اور نہ ہی زندگی کی آسائشوں سے محض لطف اندوز ہونے کے لیے بلکہ اس پر ایک بھاری ذمہ داری بھی خدانے عائد کی جو اُسے عرصۂ زیست میں اُٹھانی ہے۔</p> <blockquote> <verse> بنایا آدمی کو ذوقؔ ایک جزوِ ضعیف اور اس ضعیف سے کل کام دو جہاں کے لیے </verse> </blockquote> <p>انسان ایک ناتواں ذات ضرور ہے لیکن وہ اُس ذمہ داری اور فرض کو نبھانے کا اہل ہے جو اُسے خدا کی طرف سے سونپا گیا ہے۔ مگر انسان کائنات کی آسائشوں میں محو ہو گیا ہے۔ اُس کی خواہشوں اور نفس کی آلائشوں نے اُسے غافل کر دیا ہے اور عشق کی بھاری ذمہ داری جو اُسے سونپی گئی بلکہ خود اُس نے قبول کی، اُس کی تکمیل میں کوتاہی کر رہا ہے۔ ذوقؔ کہتے ہیں:</p> <blockquote> <verse> ہے موجِ بحر عشق وہ طوفاں کہ الحفیظ بے چارہ مشتِ خاک تھا انسان بہہ گیا </verse> </blockquote> <p>اور انسان جو رنجِ ہستی کا چارہ گر بھی ہے۔ اپنے نفس کی وجہ سے خود بے چارہ ہو گیا۔ نفس کے بارے میں ذوقؔ کہتے ہیں:</p> <blockquote> <verse> گرچہ ہے استاد شیطاں، نفس شاگردِ رشید پر یہ شاگردِ رشید استاد ہے استاد کا </verse> </blockquote> <p>ذوقؔ کی لفظیات میں ’نفس‘ بنیادی طور پر اہمیت کا حامل ہے۔ اُن کے نزدیک یہ نفس ہی ہے جو ”احسن التقویم“ کو ”اسفل سافلین“ بنا دیتا ہے۔</p> <blockquote> <verse> جس انساں کو سگِ دنیا نہ پایا فرشتہ اُس کا ہم پایہ نہ پایا ______ بڑے موذی کو مارا نفسِ امارہ کو گر مارا نہنگ و اژدھا و شیرِ نر مارا تو کیا مارا </verse> </blockquote> <p>چناںچہ ذوقؔ تربیتِ نفس پر زور دیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک محض علم حاصل کر لینے سے انسان اعلیٰ نہیں ہو جاتا بلکہ اپنی ذات کی تربیت سے انسان اپنی حقیقت کا عرفان حاصل کر لیتا ہے۔ ذوقؔ علم اور عشق میں ایک امتیاز برتتے ہیں:</p> <blockquote> <verse> آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور چیز کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا _____ علم جس کا عشق اور جس کا عمل وحشت نہیں وہ فلاطوں ہے تو اپنے قابلِ صحبت نہیں </verse> </blockquote> <p>ذوقؔ کے نزدیک انسان کو صاحبِ دل ہونا چاہیے۔ اُس کا وجود عشق کے نور سے معمور ہو۔ جس طرح ایک پروانہ شمع پر نثار ہو جاتا ہے۔ انسان کو بھی اپنا پیکرِ خاکی شعلۂ عشق میں جلادینا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے محبوبِ حقیقی کے دل میں گھر کرے۔</p> <blockquote> <verse> گر پڑے ہے آگ میں پروانہ سا کرم ضعیف آدمی سے کیا نہ ہو لیکن محبت ہو تو ہو </verse> </blockquote> <p>مومنؔ اپنے بیشتر شعری سفر میں طوافِ کوئے بتاں ہی میں مشغول نظر آتے ہیں اور اس عبادت میں اس قدر مستغرق رہتے ہیں کہ کوچۂ محبوب سے باہر کی دنیا میں جھانکنے کو بھی گمراہی خیال کرتے ہیں۔ یہ استغراق انہیں حیات و کائنات کے مسائل کا سامنا نہیں کرنے دیتا۔ اس لیے اُن کے ہاں تصورِ انسان کی کوئی قابل ذکر بحث نہیں ملتی۔ انسان کے حوالے سے اُن کے دیوان میں اشعار کی تعداد نہایت قلیل ہے اور ان اشعار میں بھی انسان کا تصور اُن کے عشقِ مجازی کے محدود تصور ہی میں محصور نظر آتا ہے۔</p> <blockquote> <verse> جنونِ عشقِ ازل کیوں نہ خاک اُڑائیں ہم جہاں میں آئے ہیں ویرانیِ جہاں کے لیے </verse> </blockquote> <p>انسان کے بارے میں مومنؔ کا تصور رجائی نہیں بلکہ قنوطی ہے۔ انسان نہ صرف مجبورِ محض ہے بلکہ اس حصار میں بھی اس کا وجود آگ کی طرح جل رہا ہے۔</p> <blockquote> <verse> سب گرمیِ نفس کی ہیں اعضا گدازیاں دیکھو نہ زندگی ہے سراپا زیانِ شمع </verse> </blockquote> <p>کلامِ آتشؔ میں انسان ایک مردِ فقیر کی صورت میں نظر آتا ہے، جو نہ صرف اپنے حال میں مست ہے، بلکہ حیات و کائنات کو بھی وہ اسی مستی کے عالم میں دیکھتا ہے۔ آتشؔ کی لفظیات میں مست، دیوانہ، قناعت، توکل پن، قبا اور خلوت ایسے لفظ کثرت میں ملتے ہیں۔ اس مرد آزاد کو مال و منال کی کوئی پروا نہیں ہے۔ نہ اس کے پاس طبل و علم ہے نہ ملک و مال بلکہ میسر و موجود پر توکل کرنے والا ہے اور نہایت بے طمع انسان ہے۔ آتشؔ کی غزل میں نظر آنے والا یہ قانع انسان دراصل آتش کی اپنی شخصیت ہے جو دولتِ فقر سے مالا مال ہے۔ مگر دولتِ دنیا سے غنی اور بے نیاز</p> <blockquote> <verse> دولتِ دنیا سے مستغنٰی طبیعت ہو گئی خاکساری نے اثر پیدا کیا اکسیر کا </verse> </blockquote> <p>آتشؔ کے نزدیک توکل آد می کے واسطے موکل ہے۔ خدا کی ذات پر قناعت کرنے والے کو روزی خود بخود مل جاتی ہے۔ اس لیے مردوں کی یہ علامت ہے کہ وہ زرو مال کے پیچھے بھاگتے نہیں ہیں۔ </p> <blockquote> <verse> دنیا کو تھوکتے نہیں مردانِ راہ عشق نامرد رکھیں آنکھوں پہ اس پیر زن کے پائوں </verse> </blockquote> <p>کلام آتشؔ میں اخلاقیات کا نظام اسی تصور انسان کے حوالہ سے تشکیل پاتا ہے۔ دنیا کی بے ثباتی، آخرت، عذابِ مرقد اور جسم و جاں کے مسائل کے پس منظر میں آتشؔ اسی انسان کی آرزو کرتے ہیں۔</p> <p>آتشؔنے اپنی شاعری میں اخلاقی مضامین کے علاوہ عظمتِ انسانی کا بھی بیان کیا ہے اور اس طرح انسان کو اس کے اصل مقام سے آگاہ کرنے کے لیے کوشش کی ہے۔ اِن استعاروں میں تفاخر اور ذمہ داری کے احساسات ایک ساتھ ملتے ہیں۔ انسان کا وجود بظاہر دیگر موجودات کی طرح مختلف عناصر سے بنا ہے اور دوسرے حیوانات کی طرح یہ بھی گوشت پوست رکھتا ہے۔ لیکن دوسرے حیوانات سے جو چیز انسان کو مشرف قرار دیتی ہے وہ اُس کا فکرو شعورہے جس کی مدد سے اُس نے کائنات کو تسخیر کر لیا ہے اور اگر انسان اپنی عقل سے کچھ کام نہیں لیتا تو وہ دیگر بھی حیوانوں کی طرح ہے۔</p> <blockquote> <verse> خوف نافہمی مردم سے مجھے آتا ہے گا و خر ہونے لگے صورتِ انساں پیدا </verse> </blockquote> <p>اردو کی کلاسیکی غزل میں جہاں زندگی کی ماہیت کے بارے شعراکی فکر کے مختلف زاویے ملتے ہیں وہاں حقیقتِ انسان کے حوالے سے بھی اُن کے نقطئہ نظر کی عکاسی ہوتی ہے۔ ان شعرا کا تعلق چونکہ ایک روایتی اور مذہبی ماحول سے تھا اور فکری اعتبار سے صوفیانہ خیالات کی طرف ان کا میلان زیادہ تھا لہٰذا انسان کے بارے میں بھی ان کا تصور، مذہب اور صوفیانہ فکر سے الگ کر کے دیکھا نہیں جاسکتا۔</p> <p>خدا اور انسان کے مابین کیا تعلق ہے؟ انسان کی فطرت میں ثواب و گناہ کے میلانات کیا ہیں؟ وہ ایک مقتدر ہستی ہے یا مجبورِ محض؟ انسان فکری یا روحانی اعتبار سے کس طرح ترفّع حاصل کرتا ہے اور کون سے رجحانات اُسے پستی کی طرف کھینچتے ہیں ؟کائنات میں انسان کا کیا جواز ہے اور وہ دیگر مخلوقات سے کس طرح مختلف ہے؟ یہ اور ان ایسے دیگر سوالات کلاسیکی اردو غزل کے بنیادی سوال رہے ہیں اور شعرا نے اپنے ماحول کی فکری حدود میں رہتے ہوئے اِن کے جوابات تلاش کیے۔ اگرچہ یہ شعرا مذہبی یا صوفیانہ خیالات ہی کے مویّد رہے تاہم اظہار کے قرینوں نے اِن کی فکر کو رنگ انفرادیت ضرور عطا کیا ہے۔ خصوصاًبعض استعارات و تشبیہات سے روایتی فکر میں بھی اسلوبِ جدید کا ذائقہ واضح محسوس کیا جاسکتا ہے۔</p> </section> </body>
0034.xml
<meta> <title>موت اور زندگی کے جھُٹ پٹے میں: اسد محمد خاں کے افسانے</title> <author> <name>محمد حمید شاہد</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 4</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/16_m_hameed_shahid_bunyad_2013.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>3097</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
موت اور زندگی کے جھُٹ پٹے میں: اسد محمد خاں کے افسانے
3,097
Yes
<body> <section> <p>”ٹکڑوں میں کہی گئی کہانی“ کے ساتویں حصے میں اسد محمد خاں نے، جو ٹکڑے جوڑے ہیں ان میں اپنے بھتیجے/ بھائی ناصر کمال کو بھیجی گئی ای میلز بھی ہیں۔ ناصر کو بھیجی گئی ایک ای میل میں پس نوشت کا اضافہ ملتا ہے جس میں ہمارے افسانہ نگار نے اپنے آنے والے ناول سے اقتباس دینے سے پہلے اپنا نام، اسد محمد خاں نہیں، اسد بھائی خانوںـ لکھا ہے۔ ناول کا یہی اقتباس ”خانوں“ کے عنوان سے ”تیسرے پہر کی کہانیاں“ کا حصہ بھی ہو گیا ہے۔ اس خانوں کے اندر ایک ندی بہتی ہے۔ ایسی ندی جو معدوم ہو کر بھی اس کے اندر بہتی رہتی ہے اور بہتی رہے گی۔ اس لیے کہ اسد بھائی خانوں جان گیا ہے:</p> <blockquote> <p>چیزوں پر موت کا اور<annotation lang="en">decay</annotation> کا ورود کس طرح ہوتا ہے</p> </blockquote> <p>موت کی معرفت پانے والے کا کمال یہ بھی ہے کہ وہ معدوم ہو چکی ندی کوگزرے برسوں کے اندر گھس کر ری کرئیٹ<annotation lang="en">(re-create)</annotation> کر لیتا ہے۔ اس کے پاس گزرے وقتوں کے نقوش سلامت ہیں۔ دھندلے، مگر خواب صورت۔ وہ انہیں خوب صورت کہتا ہے، کہ یہ ویسے ہی ہیں جیسے کہ وہ تھے۔ وہ انھیں ٹکڑے ٹکڑے جوڑ کر دکھاتا ہے اور چاہے توحیلہ کر کے اپنے اندر بہتی ندی کو حال میں لا کر ناموجود میں بدل دیتا ہے۔ پاترا ندی کی سی گاڑھے کیچڑ میں بدلتی یا زخم سے رستے سست رو<annotation lang="en">puss</annotation> کی لکیر جیسی۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ ”چیزوں پر موت کا اور decay کا ورود کس طرح ہوتا ہے“۔ سو اس کی کہانیاں اسی اجلی ندی کی طرح بہتی یا پھر موت کے چرکے سہنے اور ڈی کے<annotation lang="en">(decay)</annotation> ہو کر معدوم ہونے کی کہانیاں ہیں۔</p> <p>صاحب یہیں یہ بات سمجھنے اور پلو میں باندھنے کی ہے کہ زندگی اور موت کے اور طرح کے کھیل سے متشکل ہونے والا اور طرح کا ایسا بیانیہ جو پڑھنے والوں کے لہو میں سرایت کر جاتا ہے، عجب منظروں اور ذرا مشکل سے کرداروں سے بنا ہے۔ میں نے مشکل کرداروں کی بات کی تو اس باب میں مجھے سب سے پہلے جس کردار کو گنوانا ہے وہ تو خود افسانہ نگار کا ہے۔ وہی جسے اس نے ”خانوں“ کہا اور کہیں ”الف میم خے“۔ اور جس کے کٹمب قبیلے کامئی دادا کی اصطلاح میں ”ایساچاروں کھونٹ ساکھ سجر“ ہے کہ کسی نے کہیں دیکھا نہ سنا۔ اس ساکھ سجر کو بھی فکشن بنا لیا گیا ہے۔ میں جو بار بار ”ساکھ سجر“ کہہ رہا ہوں تو یوں ہے کہ افسانہــ ”مئی دادا“ میں بتا دیا گیا ہے کہ یہ ”شاخ شجرہ“ ہے، شجرہ نسب کے معنی میں۔ ”ایساچاروں کھونٹ ساکھ سجر“ کیا ہوتا ہے میں افسانہ نگار کا شجرہ پڑھ دیتا ہوں، اندازہ آپ خود لگالیجیے۔</p> <p>ماں؛ منورجہاں بیگم، وسط ہند کی پٹھان ریاست بھوپال میں غالب کے ایک شاگردنواب یار محمد خان شوکت کے منجھلے صاحب زادے سلطان محمد خان سلطان کی بیٹی۔</p> <p>دادا؛ میاں کمال محمد خان، اورک زئی، میرزائی خیل، کسان جو پیر شریعت ہوگئے کہ نوجوانی میںجاگیر چھنوا بیٹھے تھے۔</p> <p>والد؛ میاںعزت محمد خان، مصوری کے استاد، جن کے بارے میںاپنے بچپن کے دوست، کٹر ہندو ٹھاکر صاحب جگن پورہ کی تحریک پر دادا کا یہ کہنا تھا کہ بدعقیدہ لوگوں کی صحبت نے گمراہ کر دیا تھا۔</p> <p>گھرانہ؛ جس میں پینسٹھ کلرک، چودہ والیان ریاست اور نواب، دو ڈکیت، تین نیتا، گیارہ جرنیل، ایک صاحب کرامت ولی، ایک شہید، چھ ٹوڈی، دو کامریڈ، ایک اولمپیئن، سات مکینک، چونتیس تحصیلدار، ایک موذن، ایک ڈپلو میٹ، سات شاعر، پانچ ناکے دار، کچھ پولیس والے، بہت سے لیکچرر اور استاد، ایک تانگے والا، تیس چالیس جاگیردار اور پانچ سو نکمے پیدا ہوئے۔</p> <p>ان سب کے درمیان ہمارا افسانہ نگار پیدا ہوا۔ دادا کی بیاض کے اندراج کے مطابق، ایک منحوس ساعت میں، انھی کے درمیان پلا بڑھا، بھوپال سے چلا بمبئی پہنچا وہاں سے کراچی آکر بس گیا کمرشل آرٹسٹ بنا، پبلشر ہوا، کلرکی کی، اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر، ٹریول ایجنٹ، انگریزی کا استاد، ریڈیونیوز ریڈر۔ بہت سے کام کیے اور اس کا کہنا ہے کہ ڈھنگ سے کچھ نہ کیا مگر میں جو اس کا فکشن پڑھتا ہوں تو ماننا پڑتا ہے کہ ذرا الگ طرح کا اسلوب ڈھالنے کے لیے حیاتی کی بھٹی میں اس طرح تپنا اور پگھلنا پڑتا ہے۔ یوں ہے صاحب کہ اس کی کہانیوں میں یہ جو ٹیڑھے کردار ہیں عام ڈگر سے ہٹے ہوئے۔۔۔ ”باسودے کی مریم“ کے ممدو اور اس کی ماں جیسے۔۔۔ ”مئی دادا“ کے مجیتے یا مجیدے جیسے۔۔۔۔ ”ترلوچن“ کا عین الحق، ”فورک لفٹ ۳۵۲ حمود الرحمن کمیشن کے روبہ رو“ کا پرماننٹ کلینر/ ڈرائیورعبدالرحیم، ”ہے للاللا“ کا اپنے وجدان میں آوازوں کو تراشنے اور اپنی<annotation lang="en">sensitivity</annotation> نہ چلتے دیکھ کر مر جانے والا استاد عاشق علی خاں، ”گھس بیٹھیا“ کا ببریار خاں جس کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا تھا کہ اسے کلمہ شہادت صحیح طور پر یاد تھا یا نہیں، مگر اس نے گردن کا منکا ڈھلنے سے پہلے طمانیت کے ساتھ کلمہ پڑھنے کی کوشش کی تھی اور اٹک گیا تھا، ”گھڑی بھر کی رفاقت“ کا عیسٰی خان ککبور سروانی، جس نے ٹھنڈے غصے میں لرزتے ہوئے زین کا تسمہ کھول کر گھوڑے کا سازو یران زمین پر گرایا اپنی نیام کو چوڑائی کے رخ جریب کی طرح گھوڑے کی پیٹھ پر مار، بوجھ کھینچنے والے جانور کی طرح ہنکایا اور چیخ کر کہا تھا ــ ”تف ہے تجھ پر، تیری سواری نے مجھے عیسٰی خان نہ رہنے دیا۔ او لعنتی جانور! تیری نصف ساعت کی رفاقت نے مجھے چوہے جیسا خود غرض اور کمینہ بنا دیا۔ تف ہے تجھ پر“۔ اپنے ہی شعلے کا شہید، اپنی جیکٹ میں فٹ کیا ہوا، اپنی تربت میں جندہ دبا دیا گیا ”دھماکے سے چلا ہوا آدمی“ یہ سب اور اس طرح کے بہت سارے کردار ہمارے اس افسانہ نگار کے اپنے لوگ ہیں، اپنے پرکھوں کے دیکھے بھالے، اپنی لکھی ہوئی تاریخ کے نسیان میں دھنسے ہوئے یا پھر اس کی اپنی ذات کی پرچھائیں سے برآمد ہو جانے والے، اس کی آنکھوں میں کھبے ہوئے اور اس کی نفرتوں، محبتوں اور غصے کے ڈھالے اور پالے ہوئے۔</p> <p>جی، میںبے دھیانی یہاں غصے کا لفظ نہیں لکھ گیا ہوں۔ یوں ہے کہ اسد محمد خان کے بیانیے کی تشکیل میں یہ غصہ قوت متحرکہ کے طور پر کام کر رہا ہوتا ہے اسی سے اس کا بیانیہ ایک گونج پیدا کرتا ہے اور پھر اس کی مسلسل سنائی دیے چلے جانے والی بازگشت بھی اسی قرینے کا اعجاز ہے۔ غصے کے بارے میں اس کا ایک نقطۂ نظر ہے، جسے سمجھنے کے لیے اس کا افسانہ ”غصے کی نئی فصل“ کا مطالعہ بہت اہم ہو جاتا ہے۔ یہ غصہ اس کی کہانی کے بیانیے کا مزاج تو اول روز ہی سے بنا رہا تھا مگر کہانی میں اس کی تجسیم اس کے افسانوں کے تیسرے مجموعے میں ہوتی ہے۔ میں شروع ہی سے اس افسانے کے مرکزی کردار حافظ شکراللہ خان کے ساتھ ہولیا تھا، اس کے باوجود کہ افسانہ نگار نے لوگوں سے ناحق اُسے حافظ گینڈا کہلوایا۔ ایک بے ضرر شخص جس کے بارے بتا دیا گیا ہو کہ وہ صاحب علم تھا کم گو اور اپنی بات اجمالاً کہنے والا، لادینوں سے بھی بھل منسی سے پیش آنے والا، تو ایسے شخص کو جو بظاہر محترم ہو گیا تھا، گٹھے ہوئے ورزشی بدن والا روہیلہ ہونے کے باوجود پیٹھ پیچھے حافظ گینڈے سے پکارا جانا مجھے ہضم نہیں ہوا۔ خیر افسانہ نگار نے بتا رکھا ہے کہ حافظ شکراللہ خان نے اپنے گائوں روہ ری سے نسبت کی وجہ سے سلطان ہند شیر شاہ سوری سے ملنے کا قصد کیا۔ اس نے سوغات میں دینے کے لیے اس ٹبے سے مٹی اٹھا کر زربفت کے پارچے میں باندھی جس پر کبھی سوریوں کا حجرہ اور باڑا تھا۔ راستے کی صعوبتیں سہیں اور جب وہ دارالخلافہ کی ایک سرائے میں مقیم تھا تو اس نے رات کو عجب لوگوں کا گروہ دیکھا۔ دن میں میٹھے حلیم اور ملنسار ہو جانے والے لوگوں کا گروہ جو رات ایک دائرے میں بیٹھے ایک دوسرے پر غراتے اور اپنے اپنے حلقوم سے غیظ و غضب کی آوازیں نکالتے تھے۔ افسانہ انکشاف کرتا ہے کہ وہ لوگ ”مردُوزی“ تھے۔ صدیوں کی تعلیمات مدنیت کا بگاڑ فرقہ مردُوزی کی بابت کہانی نے یہ بھی بتایا ہے کہ صاحبان شوکت اسے اپنے مقاصد میں مفید اور فیض رساں پاتے ہیں سو یہ مسلک دارالخلافوں میں خوب پھل پھول رہا ہے۔ اپنے وجود کے غصے کو رات کی تاریکی میںتباہ کر کے پھینک ڈالنے اورملنسار ہو جانے والوں کا وتیرہ حافظ شکر اللہ خاں کو پسند نہ آیا۔ تاہم اس نے آدمی میں موجودغصے کے اس طرح بالالتزام ضائع کیے جانے پر نوحہ نہیں لکھا، امیر کو ایسا خط لکھا کہ کہانی میں نقل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ پھر سلطان ہند کے لیے لائی گئی سوغات وہاں ملنے والے علم دوست فے روز کو تھمائی اور واپس ہو لیا۔ افسانہ بتاتا ہے کہ فے روز نے سوریوں کے حجرے اور باڑے والی مٹی کی سوغات برف جیسے پھولوں کے تختے پر جھاڑ دی تھی، جہاں اگلی صبح، سفید پھول نہ تھے انگارہ سے لال گلاب دہک رہے تھے۔</p> <p>یہ انگارہ سے لال گلاب اسد محمد خان کے بیانیے کے اسلوب کا رنگ، روپ اور خوشبو ہیں۔ جب اسے اپنے کرداروں کا بدلنا گرفت میں لینا ہوتا ہے تو وہ ان گلابوں کی مہکار اور بڑھا لیا کرتا ہے۔ بات اسد محمد خان کے کرداروں کی ہو رہی ہے، اور اس باب میںمیں نے ”باسودے کی مریم“ کا ذکراوپرکیا تھا۔ ایک عجب ڈھب کا کردار جس کے خیال میں ساری دنیا بس دوشہروں کا نام تھی۔ مکہ مدینہ اور گنج باسودہ۔ ممدو کی ماں مریم کے لیے مکہ مدینہ سریپ ایک شہر تھا، اس کے حجورؐ کا سہر اور دوسرا اس کے چھوٹے بیٹے ممدو کا گنج باسودہ۔ ممدو جس کی بابت کہانی کے راوی کی ماں کی وساطت سے مریم کی عجب وصیت پوری کرائی گئی ہے۔ میں اپنے لفظوں میں کہوں گا تو مزہ جاتا رہے گا، افسانے کی آخری سطور نقل کیے دیتا ہوں۔</p> <blockquote> <p>پینسٹھ میں ابا اور اماں نے فریضہ حج ادا کیا۔ اماں حج کر کے لوٹیں تو بہت خوش تھیں۔ کہنے لگیں، ”منجھلے میاں! اللہ نے اپنے حبیبؐ کے صدقے میںحج کرا دیا۔ مدینے طیبہ کی زیارت کرادی اور تمہاری انا بوا کی دوسری وصیت بھی پوری کرائی۔ عذاب ثواب جائے بڑی بی کے سر، میاں ہم نے تو ہرے بھرے گنبد کی طرف منھ کر کے کئی دیا کہ یا رسول اللہؔ! باسودے والی مریم فوت ہو گئیں۔ مرتے وخت کہہ رئی تھیں کہ نبیؐ جی سرکار میں آتی ضرور مگر میرا ممدو بڑا حرامی نکلا۔ میرے سب پیسے خرچ کر دیے۔</p> </blockquote> <p>افسانہ جہاں ختم ہوتا وہیں سے ممدو کی ماں مریم کے دل سے اپنے حجورؐ کی محبت کا اجالا سارے میں پھیل جاتا ہے یوں کہ بس ایک ہی شہرباقی رہ جاتا ہے مکہ مدینہ، دو شہروں کا ایک شہر، ایک مرکز، اسلامی تہذیب کے کمزور سے کمزور کردار کے لیے قوت کا استعارہ۔</p> <p>کمزور کردار طاقت ور کیسے ہو جاتا ہے اور طاقت ورکیسے ڈھینے لگتا ہے، اسد محمد خاں کا مطالعہ اور مشاہدہ اس باب میں بہت گہرا ہے وہ ایسے کرداروں کو بہت باریکی اور بہت ریاضت سے لکھتا ہے، اس باب میں اُس کی کئی کہانیاں اور ان کے کردار میری نظروں کے سامنے گھوم گئے ہیں مگر یہاں آپ کی توجہ ”ندی اور آدمی“ کے دوکرداروں کی طرف چاہیے۔ یوں تو، ندی میں پہلی بار جو اترے وہ چار تھے مگر زندگی کا جس نہج سے مطالعہ کیا گیا ہے اس میں دوکردار اس کہانی میں مرکزی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں، شناور غلزئی اور فرید خان سوری۔ وہ جنھیں پیراکی سکھانے والے کی پہلے دن ہی سمجھائی گئی عجب بات سمجھ بھی آگئی تھی کہ جس ندی میں وہ اترے تھے، پیراکی کرنے سے پہلے پیراکوں کے اندرتیرنی چاہیے۔ یہی سبب ہے کہ زقندیں بھرتے وحشی بچھڑے ندی میں اترے تو ندی ان کے اندر تیر رہی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ وہ ندی چھوڑ کر کہیں دور جا بیٹھے اور ندی پھر بھی ان کے اندر تیر رہی تھی۔ پتن چھوٹنے کے بعد کہانی وہ بھید کھولتی ہے جس کی جانب میں اشارہ اوپر کر آیا ہوں۔</p> <blockquote> <p>العظمت للہ!، اپنے بادشاہ کی آواز سنی تو خواب گاہ کے بھاری سنگی ستون کی اوٹ میں قالین پر دو زانو بیٹھے خادم خاص شناور غلزئی نے آیت کریمہ پڑھنی بند کی اور فرش پر بھاری پنجہ ٹیک کے جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔۔ اپنے فرغل کے تکمے باندھتا شاہی چھپرکھٹ کے پائینتی جا پہنچا۔ بنگالے کی اعلیٰ سوتی مچھر دانی کے پار مومی شمعوں میں اس نے دیکھا کہ سلطان نے کہنی کے بل اٹھنے کی کوشش کی ہے مگر یوں لگا کہ ان سے اٹھا نہیں جا رہا اور وہ تھک کر تکیوں پر دراز ہو گئے ہیں۔ شناور نے مچھر دانی ہٹانے کے لیے بے اختیار ہاتھ بڑھایا، پھر کھینچ لیا۔</p> <p>ادب، شناور! یہ فرید خان نہیں سلطان مملکت ہیں۔</p> <p>سلطان گہرے سانس لیتے ہوئے کراہنے لگے۔ انہوں نے منھ ہی منھ میں کچھ کہا، شاید ایک لفظ ”ندی“ شناور کچھ سمجھ نہ پایا مودب سرگوشی میں بولا: ”بادشاہا !“</p> <p>سلطان خاموش رہے۔۔۔۔ شناور نے پھر عرض کیا ”سلطان عادل!“</p> <p>شیرشاہ نے جواب نہ دیا بجھتے ہو ئے ذہن کے ساتھ سوچا کہ یہ شناور غلزئی یہاں کیوں کھڑا ہے؟ ابھی تو ہم ندی میں تھے کرم ناسا میں۔</p> </blockquote> <p>افسانہ نگار چاہتا تو کہانی یہاں ختم ہو سکتی تھی کہ کرم ناسا کی پیچھے رہ جانے والی ندی پھر سے بہنے لگی تھی مگر اس نے علیل ہو جانے والے شیر شاہ سوری کی کہانی کو آگے چلایا یہاں تک کہ ممالک ہند کا دل فرید خاں سوری کے دل کے ساتھ دھڑکنے لگا تھا۔</p> <p>وقت لوگوں کو بدل سکتا ہے۔۔۔ بدل دیتا ہے۔</p> <p>یہ بات اس کے کرداروں نے اوپر سجھائی اور وہ خود اپنی کہانی ”اِک میٹھے دن کا انت“ کے عین آغاز میں لکھ آیا ہے۔ اس نے ڈیڑھ جملے کے اس ایک جملے میں ”کیوں؟“ کا حرف نہیں لکھا مگر صاف دکھتا ہے کہ یہی اس کی اُلجھن ہے جسے وہ سلجھانے میں جتا ہوا ہے۔ ایک اور اُلجھن بھی تھی جو اس پر اب پانی ہو گئی ہے اور جسے بس سایے کی صورت ہی دیکھا جا سکتا ہے، ذرا فاصلے سے، جیسے صحرا میں دُور لرزتے ہوئے سائے ہوں۔ سایے کہ جن کے آر پار دیکھا جا سکتا ہو۔ تو اس معدوم ہو جانے والی الجھن کو بھی خود افسانہ نگار کی زبانی سن کر آنک لیجیے:</p> <blockquote> <p>وقت جنھیں مار دیتا ہے، انھیں وہ بالکل ویسے ہی جیسے کہ وہ تھے، ایک ہمیشگی میں لٹکائے رکھتا ہے۔۔۔ کسی بھی طرح بدلے بغیر، ایک ٹھس کہانی کار کی طرح، انہیں لکھ کر بھول جاتا ہے۔</p> </blockquote> <p>اسی الجھن کی معدومیت کی دین ہے کہ اپنی زندگی ہی میں متروک ہو کر مردہ ہو جانے والے کردار اس کی کہانی کے حاشیے سے آگے نہیں بڑھ پاتے، متن میں دور تک گھس کر اسے ٹھس نہیں ہو نے دیتے۔ اس کی ٹھسک اور، بھڑک اور شان اور حشر سامانی میں خلل نہیں ڈالتے۔</p> <p>اں تو بات ہو رہی تھی وقت کی جو لوگوں کو بدل دیتا ہے۔۔۔ بلکہ اس وقت کی، کہ جو نہ جانے کیوںلوگوں کو اتنا بدل کر رکھ دیتا ہے؟، اور اس باب میں ”اِک میٹھے دن کا انت“ سے مثال لینے چلا تھا مگریوں ہے کہ مجھے، اسی طرح کے طوائفوں والے ایک اور افسانے نے اپنی جانب متوجہ کر لیا ہے۔ جی، یہ افسانہ ہے لاجی بائی اسیر گڑھ والی کے بدل جانے، زانو پر کہنی ٹکائے، مہندی لگی اپنی گول مٹول ہتھیلی پر ٹھوڑی رکھے بت بن جانے، ڈی کے ہونے اور ققنس کی طرح اپنی ہی راکھ سے جی اٹھنے والی کی کہانی ”برجیاں اور مور“۔ تو یوں ہے کہ جسے مرنا ہوتا ہے وہ مر جاتا ہے ”اک میٹھے دن کا انت“ کے اشک لائل پوری اور اس کے بیٹے ”مرے مردار ماشٹر“ کی طرح۔ اور جسے جینا ہوتا ہے وہ بدلتا ہے، اس کی زندگی بھی پہلو بدلتی ہے لاجی بائی کی طرح جس کی گائی ہوئی کجریوں کے ایک ایک نوٹ کی شکل کو بنک والا مظہر علی خاں کاغذ پر اتار سکتا تھا۔ تو یہ شکلیں ماضی کی تھی۔ نیپئرروڈ کے فلیٹ میں تو وہ ڈیرے دارنی تھی، جسے گانا وانا نہیں آتا تھا، جو پنڈت کوکاکاشمیری کے سب شاستر پڑھے بیٹھی تھی اور علم مسہری کی منتہا تھی۔ وہ کہانی میں ایسے ہی رہتی تو یہ کردار مردہ ہو کر تعفن چھوڑنے لگتا، مگر اسد محمد خان نے اسے بدل جانے دیا، ڈی کے<annotation lang="en">(decay)</annotation> ہونے دیا اور پھر اسے اس کے میٹھے، رسیلے اور اجلے ماضی سے جوڑ کر زندہ کر دیا۔</p> <p>تو صاحبو! ماضی، محض گزرے وقت میں دفن ہونے کا حوالہ نہیں ہے، کہ اس سے جڑیں تو پھر سے جی اُٹھنے کا قرینہ آتا ہے۔ میں نے کہا نا، اپنی راکھ سے ققنس کی طرح پھر سے جی اُٹھنے کا۔ یہاں تک پہنچا ہوں تو میرے دھیان میں اسد محمد خان کی ایک اور کہانی ”شہر کوفے کا محض ایک آدمی“ ہمارے وجودوں پر حرام خوری، آلکسی اور کاہلی کی چڑھی چربی کو اپنی تیز آنچ سے پگھلا ڈالنے والے بیانیہ گونجنے لگا ہے۔ کہانی کے پہلے حصے میں تاریخ کے وہ لمحات ہیں جنھوں نے زمرد اور یاقوت اورمشک اور عنبر کے بہتر تابوت اپنے کندھوں پر اٹھائے تھے۔ بہتر آسماں شکوہ لاشوں کو سنبھالنے والے تابوت۔ اسی حصے میں کہانی کے راوی نے ایک ایسے آدمی کا تصور باندھنے کو کہا ہے جس نے کوفے سے امام عالی مقام کو خط لکھا تھا کہ: ”میرے ماں باپ فدا ہوں، آپ دارالحکومت میں ورود فرمائیے، حق کا ساتھ دینے والے آپ کے ساتھ ہیں۔“ اور وہ آدمی اپنے وجود کی پوری سچائی کے ساتھ اس بات پر ایمان بھی رکھتا تھا، مگر خط لکھنے کے بعد گھر جا کر سو گیا۔</p> <p>سویا ہوا یہ آدمی بعد میں زانو پیٹتا ہے، گریبان چاک کرتا ہے، روتا ہے اور اپنی نقاہت دور کرنے کے لیے خوب سیر ہوکرپھر سے سو جانے کی روش پر قائم رہتا ہے۔ کسل مند ہو کر ڈھے جانے والا یہ کوفے کا آدمی آخر کار چیخ مار کر اپنی کسل مندی کی چادر پھاڑ دیتا ہے چھپر سہارے والی تھونی جھٹکے سے اکھاڑتا ہے، یہ سوچے بغیر کہ اس چھپر تلے اس کی عورت اور بچے تھے اور فرات کے کنارے جا پہنچتا ہے۔ جب شمر نے گھوڑے کو مہمیز کیا تو یہ شخص اپنی ٹیڑھی میڑھی لاٹھی کے ساتھ قاتل اور مقتول کے درمیان پہنچ گیا تھا اور پھر شمر کے گھوڑے کے سموں تلے کچلا گیا، دودھ، پنیر، شہداور روغن زیتون اور تازہ خرمے سے پلا ہوا جسم، جو کچلے جانے کے بعد قیمہ ہو گیا تھا گھوڑے کی لید میں سنا ہواقیمہ، جو رات بھر وہیں پڑا رہا اور جسے صبح دم چیونٹوں کی پہلی قطار نے دریافت کیا۔ اپنے امام سے آخری لمحوں میں سچی وابستگی کا مظاہرہ کرنے والے کوفے کے اس آدمی، جی اس زندہ جاوید آدمی کو کہانی کے دوسرے حصے میں، کہ جہاں فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے ستم کا ذکر ہو رہا ہے اور ان دعائوں کا جن سے ہماری ہتھیلیا ںلبالب بھری ہوئی ہیں اور ساتھ ہی اس خوف کا جو جارح اور ظالم کے ٹینکوں کے سامنے جانے اور قیمہ قیمہ ہو جانے سے ہمیں روک دیتا ہے تو کہانی ماضی میں غوطہ لگاتی ہے اور ہمارے کسالت بھرے اور خوف کی چربی چڑھے بدنوں پر چرکے لگانے کے لیے، کوفے کے اس ایک آدمی کو، زندہ جاوید آدمی کو سامنے لے آتی ہے۔ ہاں، ہمارے بدنوں پر چرکے لگانے کے لیے۔ مگر یوں ہے کہ ہم میں اتنی بھی استقامت نہیں رہی کہ چولہے میں سے جلتی لکڑی ہی کھینچ کر ظالم کے مقابل ہو سکیں۔ کہ ہمیں تو ہمارے پنیر اور روغن زیتون اور خرمے کھا گئے ہیں، قیمہ بنا گئے ہیں اور ہمیں چیونٹوں کی پہلی قطار نے دریافت کر لیا۔</p> <p>اپنی کتاب تیسرے پہر کی کہانیاںمیں ”اک ٹکڑا دھوپ کا“ کی ذیل میں اسد محمد خاں نے لکھا تھا ؛</p> <blockquote> <p>آدمی کتنے ہی لوگوں کے ساتھ زندگی کرنا چاہتا ہے، مگر یہ پورا پھیلائو کچھ اس طرح کا ہے کہ ایسا ہو نہیں پاتا جیسا آدمی چاہتا ہے۔۔</p> </blockquote> <p>ہاں عین مین، اس طرح، بالکل اس طرح نہیں ہو سکتا، جس طرح وہ تمنا کرتا ہے مگر اسد محمد خاں نے جتنے لوگوں کے ساتھ زندگی بتائی ہے، اپنے ارد گرد کے، اپنے کٹمب قبیلے علاقے کے، اپنی تاریخ تہذیب کے، اور ان سے ایک رشتہ قائم کر کے انہیں کاغذ پراُ تارا ہے یوں کہ ہم بھی ان کے ساتھ زندگی بتا رہے ہیں، تو یہ بھی کچھ کم نہیں ہے، اس نے اپنے فکشن کی جو بستی بسائی ہے، ان کہانیوں کی صورت میں جو افسانہ ہو گئیں یا ان کہانیوں کی صورت میں جو فقط فکشن کے پارچے ہیں، میں تو اسے اردو ادب کے اندر ایسی زندہ بستی سے تعبیر دوں گا جس کے اندر کئی زمانے ہیں اور کئی موسم ہیں اوروہاں کا ہردریچہ ان گنت مناظر پر کھلتا ہے اور ان مکانوں میں، وہاں کے سردوگرم میں اور منظروں میں کئی زمانوں کے لوگ بستے ہیں، زندگی اور موت کے جھٹ پٹے میں، ڈی کے ہوتے ہوئے اور اسد محمد خان کی کہانیوں میں امر ہوتے ہوئے۔</p> </section> </body>
0035.xml
<meta> <title>زندگی اور ادب، شاہانِ اَوَدھ کے عہد میں: تنقیدی مطالعہ</title> <author> <name>زرین حبیب مرزا</name> <gender>Female</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 4</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/17_zareen_habib_mirza_bunyad_2013.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>6470</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
زندگی اور ادب، شاہانِ اَوَدھ کے عہد میں: تنقیدی مطالعہ
6,470
Yes
<body> <section> <p>زندگی اور ادب شاہان اودھ کے عہد میں صفدر حسین کا تحقیقی مقالہ ہے جو انھوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے پنجاب یونیورسٹی میں ۱۹۵۶ئ میں پیش کیا۔ اس کے نگران لکھنؤ کا دبستان شاعریکے مصنّف ڈاکٹر ابواللیث صدیقی تھے۔ اس مقالے میں برہان الملک سے واجد علی شاہ کے عہد تک اودھ کی زندگی اور ادب کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس موضوع پر مولانا عبدالحلیم شرر بھی لکھ چکے تھے لیکن صفدر حسین کے خیال میں شرر کے مسلسل مضامین میں اس موضوع پر جو مواد فراہم کیا گیا تھا، وہ تفصیل کے باوجود تنقیدی نظر سے ناکامی اور تاریخی اعتبار سے ناقص تھا۔ صفدر اپنے مقالے کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>شرر کی کتاب مشرقی تمدّن کا آخری نمونہ دلچسپ ہونے کے باوجود فیض آباد اور لکھنؤ کی ایسی تمدّنی تاریخ تھی جس کا بیشتر بیان تاریخی اسناد سے محروم اور سُنی سُنائی باتوں پر منحصر تھا۔</p> <p>صفدر حسین کا یہ تخلیقی و تحقیقی مقالہ چودہ ابواب پر مشتمل ہے۔</p> </blockquote> <p>پہلے باب میں دِلّی کا زوال، شاہی خاندان کی حالت، صوبوں کی بغاوت، اقتصادی اور تہذیبی زبوں حالی اور احمد شاہ ابدالی کی غارت گری کا تذکرہ ہے۔ باب دوم میں حکومت اودھ کا عروج، حکمرانوں کے کارنامے اور سیرت، نیز زوالِ اودھ کے اسباب کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ باب سوم اس مقالے میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے جس میں اودھ کی ثقافت، تہذیب، اودھ کا محل وقوع، صنعت و تجارت، انتظام سلطنت، طرز زندگی __ لباس، زیورات، سامان آرائش، سیر و شکار اور بعض دوسری دلچسپیوں__ کا ذکر کیا ہے۔ نیزاہل اودھ کے مذہب، فن تعمیر، فن مصوری، موسیقیاور طب وغیرہ کا ذکر ہے۔ باب چہارم میں دِلّی اور لکھنو ٔکے تمدنی اور ثقافتی مزاج کے اختلاف و ارتباط کا بیان ہے۔ باب پنجم میں لکھنوی ادب کے تہذیبی اور ثقافتی محرکات کا جائزہ ہے۔ باب ششم سے لے کر چودھویں باب تک علی الترتیب، غزل، مثنوی، مرثیہ، قصیدہ، واسوخت، ریختی، ڈراما، نثری کارنامے، خدماتِ زبان پر کلاسیکی شعرا کے حوالے سے تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان تمام مراحل سے صفدر حسین بحسن و خوبی گزرے۔ اسی بنا پر پروفیسر حامد حسن سید لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>ڈاکٹر سید صفدر حسین نے اپنی شخصیت کے اجزائے ترکیبی(جوہر قابل، تعلم و تربیت ضروری، شوق طلب اور محنت) کے پیش نظر اپنے تیشے سے اپنی راہ بنائی، سجائی اور سنواری ہے۔</p> </blockquote> <p>صفدر کی اس تخلیق کا مقصد یہ تھا کہ اودھ کے شاہی اور نوابی دور کے تمدن اور ادب کا ایک ایسا جائزہ پیش کیا جائے جو تاریخی نقطۂ نظر سے مُستند اور ادبی اعتبار سے معتبر ہو اور اودھ کے حکمرانوں کے بارے میں ننگ انسانیت ہونے کا تاثر دور کیا جائے۔ صفدر نے مستند تحقیق سے، اس تاریخی سلطنت کا غیر جانب دارانہ تجزیہ کر کے اس کا مثبت رخ پیش کیا ہے اور دیباچے میں تاریخ اودھ مؤلّفہ ”نجم الغنی“ کا حوالہ بھی دیا ہے جس نے موقع پرستی کو اپنا شعار بنایا۔ اُسے اودھ کے حکمرانوں کے کارٹون بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور یہ کتاب لکھوا نے کے لیے انگریزی حکومت نے کتنی امداد دی۔ صفدر حسین لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>یہاں ہم محض اس اظہار پر اکتفا کرتے ہیں کہ مآخذ ہمارے بھی بیشتر وہی ہیں جو نجم الغنی کے تھے لیکن ہم نے عصبیت کے بجائے انصاف کی راہبری میں ان کا مطالعہ کیا ہے اور شرر کی طرح یہی نتیجہ نکالا ہے کہ لکھنو ٔنے مشرقی تمدن کا آخری شان دار نمونہ پیش کیا۔</p> </blockquote> <p>مقالے کی افادیت کے بارے میں نیاز فتح پوری رقم طراز ہیں:</p> <blockquote> <p>ڈاکٹر صفدر حسین کا یہ مقالہ، جس میں شک نہیں، تاریخ ادب اردو میں بڑا مہتمم بالشان اضافہ ہے اور ہر اس شخص کے لیے جو ادب اردو سے دلچسپی رکھتا ہو (خواہ یہ دلچسپی معلمانہ ہو یا متعلمانہ) اس کا مطالعہ افادیت سے خالی نہیں۔</p> </blockquote> <p>سر عبدالقادر اس مقالے کے لیے یوں رطب اللسان ہیں:</p> <blockquote> <p>میں نے ان کے پی ایچ۔ ڈی کے مقالے زندگی اور ادب شاہان اودھ کے عہد میں کے قلمی نسخے کو دیکھا اور اس کے کچھ حصّوں کا بڑی دلچسپی سے مطالعہ کیا ہے۔ یہ کتاب بہت عمدہ زبان میں لکھی ہے اور مصنّف کی عظیم تحقیقات کا مظہر ہے جہاں تک مجھے علم ہے کسی اور ناقد نے ابھی تک اردو ادب کے اس دور پر اظہارِ خیال نہیں کیا ہے۔</p> <p>(انگریزی سے ترجمہ از مقالہ نگار)</p> </blockquote> <p>اس مقالے میں صفدر حسین نے اپنے موضوع کو گرفت میں لینے کے لیے پہلے ان محرکات کو پیش کیا جو لکھنؤ میں ادب کے پروان چڑھنے کی وجہ بنے۔ اس لیے انھوں نے باب اوّل میں دِلّی کے زوال سے بات شروع کی ہے، کیونکہ دِلّی کی بربادی کے بعد لکھنؤ اور فیض آباد کی مستحکم حکومت کی بنیادیں مضبوط ہوئیں اور دِلّی کے لوگوں نے لکھنؤ کا رُخ کیا۔ صفدر کا اندازِ بیان نفسیاتی نوعیت کا ہے۔ زوال دِلّی بھی یک دم بیان نہیں کیا گیا بلکہ پہلے اس دور کا تذکرہ کیا جب دِلّی کو عروج حاصل تھا پھر مصنّف آہستہ آہستہ اپنے نفسِ مضمون کی طرف آتے ہیں۔ دِلّی کا زوال تاریخ کے مستند حوالوں سے ظاہر کرتے ہیں۔ ایک طرف بادشاہوں اور شہزادوں کی باہمی چپقلشوں کو دِلّی کے زوال کا سبب بتایا ہے۔ دوسری طرف اور شورشوں کو واضح کیا ہے۔ خاص طور پر سکھوں، مرہٹوں، جاٹوں اور پٹھانوں کے حملوں نے مغلیہ سلطنت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ اس طرح صفدر حسین نے زوال کے اسباب خارجی اور داخلی دونوں بڑے مدلّل انداز میں بیان کیے ہیں۔ مغلیہ سلطنت کے ایک بادشاہ جہاں دار شاہ کی داشتہ لال کنور کا ذکر اس طرح کرتے ہیں:</p> <blockquote> <p>بادشاہ اور اس کی محبوبہ لال کنور جسے امتیاز محل کا خطاب حاصل تھا، عجیب عجیب حرکات کرتے تھے۔ شراب کے نشے اور لال کنور کے عشق میں بادشاہ کو تن من کا ہوش نہ تھا۔ دربار شاہی میں سرشام ہی سے اہل نشاط جمع ہو جاتے تھے اور وہ شراب اُچھلتی تھی کہ اعلیٰ اور ادنیٰ، بادشاہ اور ڈوم ڈھاریوں کا فرق مٹ جاتا تھا۔ اکثر ایسا بھی ہوا کہ بادشاہ اور ملکہ نشے کی غفلت میں ایسی جگہ پائے گئے جہاں ان کا جانا باعثِ شرم تھا۔</p> </blockquote> <p>محمد شاہ کا عہد اس قسم کی بدنظمیوں اور عیاشیوں سے بھرا پڑا تھا لیکن اس دور کے ایک اہم واقعہ کا مصنّف نے ذکر کیا جو ہندو مسلم فسادات کی وجہ بن گیا۔ ملاحظہ کیجیے:</p> <blockquote> <p>سُبھ کرن ایک جوہری شاہی دربار سے توسّل رکھتا تھا۔ ایک بار جب شب برات کا زمانہ قریب تھا وہ چوک سعداللہ خاں کے پاس سے گزرا۔ یہاں مسلمان جفت فروشوں کی دکانیں تھیں۔ کسی لڑکے نے آتش بازی چلائی تو سُبھ کرن کے طلائی ملبوس پر چنگاریاں جا پڑیں۔ اس کی برافروختگی نے تصادم کی صورت اختیار کر لی اور نوبت بادشاہ تک جا پہنچی۔ قمرالدین خاں وزیر انصاف کرانے کے لیے متعین ہوئے۔ جامع مسجد میں اس واقعہ کا فیصلہ ہونا تھا۔ جہاں مجمع نے پیش نماز کو خطبہ پڑھنے سے منع کیا اور جب وہ باز نہ آیا تو گھونسوں، مکوں اور لاتوں کی بارش ہونے لگی۔ وزیر نے بدقت امن بحال کرایا ہی تھا کہ کچھ دیر بعد سُبھ کرن کے طرف داروں میں سے روشن الدولہ وزیر ظفر خاں جو طرّہ باز کہلاتے تھے، شیرافگن کو ساتھ لے کر جامع مسجد پہنچ گئے۔ انھیں دیکھ کر پھر مجمع بے قابو ہو گیا اور دونوں پر جوتوں کی مار پڑنے لگی، بالآخر مشتعل مسلمانوں نے سُبھ کرن کی حویلی کو ڈھا کر اپنے مقتول کی لاش وہاں دفن کر دی۔ اردو کے ایک شاعر ”بے نوا“ نے ایک مخمس میں اس جھگڑے کو نظم کیا تھا۔</p> </blockquote> <p> میں نادر شاہ کی فوج نے دِلّی میں اس اتفاقی حادثے سے متاثر ہو کر قتل عام شروع کر دیا۔ سینکڑوں افراد قتل کر دیے گئے۔ دُکانیں جلا دی گئیں۔ نادر شاہ ستر کروڑ کا ساز و سامان جس میں جواہرات کے علاوہ، تخت طائوس، کوہ نور ہیرا، دس ہزار گھوڑے، لاتعداد اونٹ اور تین سو ہاتھی بھی تھے، اپنے ساتھ لے گیا۔ اس طرح دِلّی کا جاہ و جلال خاک میں مل گیا۔ صفدر لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>ایک طویل مدت تک کوچہ و بازار مردہ زار معلوم ہوتے تھے اور شہر ایک جلے ہوئے جنگل کی طرح خاک سیاہ تھا۔</p> </blockquote> <p>صفدر نے تاریخی حقائق کا بہت ہی دل پذیر انداز میں ذکر کیا ہے۔ نادر شاہ کے جانشین احمد شاہ ابدالی نے پے در پے حملے کیے۔ جس سے لوگ خوف زدہ ہو کر شہر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ اس انتشار میں محمد شاہ کا انتقال ہو گیا۔ اس کا نوعمر بیٹا بادشاہ بنا جو نہایت حسن پرست اور عیش پسند تھا۔ بہت جلد اس کا حرم حسین عورتوں سے بھر گیا۔ دربار میں افراتفری تھی۔ انھوں نے دِلّی پر چڑھائی کر دی، بادشاہ مقید ہو گیا، شہر کے گلی کوچوں میں غارت گری کا بازار گرم ہوا۔ بقول صاحبِ مقالہ(صفدر حسین) ”دِلّی پھر ایک بار بے آبرو ہو گئی“۔ احمد شاہ ابدالی اس افراتفری میں دِلّی پہنچا اور خوب لوٹ مار کی اور واپس چلا گیا اور چلتے وقت بادشاہ کی شکایت پر عمادالملک کو برطرف کر کے نجیب الدولہ کو بادشاہ کا محافظ بنا گیا۔ اس کے جاتے ہی عمادالملک مرہٹوں کو ساتھ لے کر دِلّی پر ٹوٹ پڑا۔ اس نے بادشاہ اور نجیب الدولہ کو قید کر لیا لیکن آخرکار صلح ہو گئی۔ بادشاہ کی مالی حالت بہت خراب ہو گئی تھی۔ اس کے پاس بیگمات کے کھانے پینے کا بندوبست بھی نہیں تھا۔ شاہی سواری کے جانور کئی کئی وقت فاقوں سے رہتے تھے۔ ۱۰؍مئی۱۷۵۸ئ عید کا دن آیا تو بادشاہ کو محل سے پتھر والی مسجد تک پیدل جانا پڑا۔</p> <p>صفدر لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>ان تاریخی حقائق کو نظر میں رکھ کر سوداؔ کا شہر آشوب پڑھیے تو ایک ایک بات کی صداقت پر گواہی مل جائے گی۔</p> </blockquote> <p>دِلّی کی اس سیاسی اور معاشی زوال کی داستان کے سلسلے میں مصحفیؔ کی نظم کے کچھ اشعار صفدر نے پیش کیے ہیں جس میں اس زمانے کے انتشار کی جھلک نظر آتی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:</p> <blockquote> <verse> کہتی ہے اسے خلق جہاں سب شہ عالم شاہی جو کچھ اس کی ہے وہ عالم پہ عیاںہے اطراف میں دلی کے یہ لٹھ ماروں کا ہے شور جو آوے ہے باہر سے وہ بہ شکستہ وہاں ہے اور پڑتے ہیں راتوں کو جو نت شہر میں ڈاکے باشندہ جو واں کا ہے بہ فریاد و فغاں ہے </verse> </blockquote> <p>لکھنؤ اس دوران بربادیوں سے محفوظ رہا۔ صفدر حسین نے جس طرح اپنے مخصوص اسلوب میں دِلّی سے لکھنؤ کی طرف سفر کیا۔ اس کا ذکر یوں کرتے ہیں: ملاحظہ کیجیے:</p> <blockquote> <p>دِلّی کی سلطنت، شہر اور دربار کی یہ حالت تھی۔ جب فیض آباد سے شجاع الدولہ کے استحکام، قوت، حکمت عملی، داد و دہش، اور انعام و اکرام کا شہرہ بلند ہوا اور ایک دنیا اُدھر کھنچی چلی گئی، ان جانے والوں میں زیادہ تعداد شاہجہاں آباد ہی کے بے خانماں گھرانوں کی تھی جنھوں نے نصف صدی سے امن و آسائش کی صورت نہیں دیکھی تھی۔</p> </blockquote> <p>یہاں سے مصنّف اپنے اصل موضوع یعنی لکھنؤ کی طرف آتا ہے اور سلطنتِ اودھ کی بنیاد کے متعلق بتاتا ہے کہ مغلیہ دور میں ہندوستان کے ایران سے بہت گہرے دوستانہ تعلقات تھے۔ ایرانی اپنی ذہانت اور علم و فضل میں بہت مشہور تھے۔ مال گزاری اور دفتری کام میں ماہر تھے۔ اس لیے ہندوستان تلاشِ معاش میں جو کوئی بھی آتا اسے کوئی نہ کوئی عہدہ مل ہی جاتا۔ اسی دور یعنی ۱۷۰۸ئ میں سید محمد امین نیشاپوری ہندوستان آئے۔ اپنی ذہانت اور کارناموں سے انھیں سعادت خان کا خطاب ملا اور اپنی سیاسی چالوں سے انھوں نے خوب انعامات وصول کیے۔ آخرکار برہان الملک صرف اودھ کے صوبے دار رہ گئے۔ انھوں نے پہلے لکھنؤ کی طرف توجہ دی۔ پھر مضافات پر توجہ دی اور اپنی ریاست پر بھرپور نظر رکھنے کے لیے اجودھیا سے چار میل کے فاصلے پر دریائے گھاگرا کے کنارے ایک بلند مقام پر اپنا بنگلہ بنا لیا تھا۔ برہان ملک کے بارے میں صفدر کہتے ہیں:</p> <blockquote> <p>برہان الملک کا کردار متضاد خصوصیات کا حامل تھا۔ ایک طرف بہادر اور اعلیٰ منتظم تھے۔ دوسری طرف حصول اقتدا کی لالچ میں اکثر اخلاقی ذمہ داریوں سے بھی دست بردار ہو جایا کرتے تھے۔</p> </blockquote> <p>انھوں نے اودھ کو اپنی ذاتی ریاست سمجھ لیا تھا۔ اس لیے یک سو ہو کر اپنا تمام وقت اس کی درستی اور اصلاح پر صرف کیا۔ اپنے ملک کے تمام باغی عناصر کو مٹا کر امن و امان قائم کیا۔ انھوں نے چھوٹے زمینداروں، کسانوں اور مزدوروں کو بڑے جاگیرداروں کے مظالم سے آزاد کرانے کی کوشش کی۔ لوٹ مار اور نظم و نسق کی خرابیاں دور کیں۔ وہ ریاست اور مالیات کے انتظام سے اچھی طرح واقف تھے اور اپنے علاقے کے امیر و غریب اور اپنے عملے کے سرداروں اور ملازموں سے نہایت شفقت و مروّت اور رواداری سے پیش آتے تھے۔ اس لیے فیض آباد اور لکھنؤ سے لے کر دور دراز دیہات کے چھوٹے طبقوں تک سب لوگ آرام و سکون سے زندگی بسر کرنے لگے۔ ڈاکٹر سری واستو نے ہم عصر مؤرخین کی شہادت کے پیش نظر یہ نتیجہ نکالا کہ سترھویں صدی کے ربع آخر سے اودھ کا انتظام کسی بھی گورنر نے برہان الملک سے بہتر طور پر انجام نہیں دیا۔ انھوں نے تمام نافرمان عناصر کو اپنی فراست سے زیر کر کے اودھ کی آمدنی میں اضافہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اتنی بڑی فوج اور ریاست کے اتنے بڑے عملے کے اخراجات برداشت کرنے کے باوجود ان کی وفات کے وقت خزانے میں کئی کروڑ روپے موجود تھے۔</p> <p>تاریخی واقعات کے مطابق جب برہان الملک نے نادر شاہ کے حملے کے وقت دِلّی میں خودکشی کر لی تو اودھ کی صوبے داری کے لیے دو دعوے دار اُبھرے۔ ایک شبّرجنگ جو برہان الملک کے بھتیجے تھے، دوسرے ابوالمنصور مرزا جو ان کے بھانجے اور داماد تھے۔ صفدر نے ان کی سیاسی چالوں اور سیاست کا خاکہ واضح کیا ہے اور ان تمام بادشاہوں کا تذکرہ کیا جو اودھ کے حکمران بنے۔ ان کا فوجی نظام، ملازمین کی تنخواہیں، وزیروں کی غدّاریاں اور وفاداریاں غرضیکہ ہر پہلو سے روشنی ڈالی ہے۔</p> <p>صفدر حسین نے یہ تمام باتیں مصدقہ حوالہ جات کے ساتھ تحریر کی ہیں۔ ان حکمرانوں کی خصلتیں اور طبیعتیں کیسی تھیں، ان سب کو نہایت سادہ زبان میں لکھا اور ایسا اسلوب اختیار کیا جسے کم پڑھا لکھا شخص بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ جب وہ لکھنؤ کے ایک حکمران صفدرجنگ کی تعلیم اور شخصیت کے بارے میں بتاتے ہیں تو ان کی سادگی اور سلاست اور زیادہ نکھر جاتی ہے۔ لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>صفدر جنگ صورت و شمائل کے اعتبار سے بڑے شکیل، وجیہہ انسان تھے۔ پندرہ سال کی عمر تک انھوں نے ایران کی اعلیٰ درس گاہوں میں تعلیم پائی تھی اور پھر اودھ پہنچ کر درباری کاروبار کی ترتیب برہان الملک سے حاصل کی تھی جن کے زیرسایہ انھوں نے اودھ میں پندرہ سال تک نیابت کا کام سرانجام دیا۔</p> </blockquote> <p>صفدرجنگ کی سخاوت کا ذکر بھی کیا ہے کہ جب کوئی شخص ان سے سوال کرتا تو اس کا کلام منقطع ہوتے ہی وہ پچاس اشرفیاں اس کو دلوا دیتے تھے۔</p> <p>صفدر کے مطابق اودھ کے حکمران زیادہ تر غیرمتعصب تھے اور اس زمرے میں بہت سے ہندوئوں کے ناموں کا تذکرہ کیا ہے جو اس سلطنت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے لیکن ایک بات تقریباً سب حکمرانوں میں مشترک تھی کہ اپنی شان و شوکت اور جاہ و جلال کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ اس کی خاطر وہ اپنے سیاسی مخالفین کی جائیدادیں ضبط کر لیتے یا ان کو عہدوں سے ہٹا دیتے تھے۔</p> <p>صاحبِ مقالہ نے پھر انگریزی کمپنی کے اودھ کی حکومت پر اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے نوابوں کے مشاغل کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کا اندازِ مصّوری قابلِ داد ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وہ دور زندہ ہو کر آنکھوں کے سامنے آ گیا ہے۔ لکھنؤ کے ایک نواب شجاع الدولہ کے بارے میں اس طرح لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>صرف عورت پرستی پر ہی منحصر نہ تھا بلکہ شاید ہی کوئی ایسا کھیل تماشا ہو گا جس کا نواب کو ذوق نہ ہو۔ وہ موسیقی اور رقص سے بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ پتنگ بازی اور کبوتر بازی کا شوق بھی رکھتے تھے۔ ان کے چڑیا خانے میں ہزاروں اقسام کے کبوتر موجود تھے۔۔۔۔ سپاہیانہ فنون سے بھی انھیں خاص دلچسپی تھی۔ ان کا نشانہ بہت اچھا تھا اور وہ شکار کھیلتے وقت تیر، نیزہ، خنجر اور تلوار ہر چیز سے کام لے سکتے تھے۔</p> </blockquote> <p>سیّد صفدر حسین نے اپنے اس تحقیقی مقالے کے سلسلے میں علمی و ادبی کھدائی کے بعد اپنی دریافتوں کو صرف مرتِّب فہرستوں کی شکل میں پیش نہیں کیا ہے اور نہ اودھ کی صبح، دوپہر اور شام کو گنجائش کے باوصف افسانے اور ڈرامے کا رنگ دیا ہے بلکہ جن باتوں کا تذکرہ بھرپور انداز میں کیا، وہ اودھ کا تمدن اور لوگوں کا رہن سہن تھا۔ وہاں کے آلاتِ حرب، زراعت، تجارت، مکانات، ملبوسات کے بارے میں عمرانی زاویۂ نگاہ سے بحث کی ہے۔ لکھنؤ پر ہندی اور خاص طور پر فارسی اور اسلامی اثرات کو ظاہر کیا۔ اودھ کا جغرافیائی محل وقوع لکھا۔ جو بات آج قاری کو حیران کرتی ہے، وہ اودھ کی سلطنت کی وسعت ہے، وہاں کے فنون، آب و ہوا، رقبہ، ٹمپریچر، فصلیں، سیر و شکار، مذاہب، دریا، آبادی اور آباد نسلیں، کپڑا، مٹھائیاں، زبان، کھانے اور سلطنت کی سالانہ آمدنی کے بارے میں لکھا ہے۔ اودھ کے شہر اور ان کی نمایاں خصوصیات کرافٹ، انڈسٹری، پھل، سبزیاں، میوے، نہریں غرض کہ اودھ کی معاشرت کا ایک بھرپور نقشہ پیش کیا ہے۔ اس مقالے کے بارے میں پروفیسر حامد حسن سید کے تاثرات ملاحظہ کیجیے:</p> <blockquote> <p>اس مقالے کی تہذیب و ترتیب میں ایک سلیقہ ہے جو قدم قدم پر ملتا ہے۔ ڈاکٹر صفدر حسین نے تو آسانی کے لیے مقالے کو ادب اور زندگی کے تفصیلی مطالعوں میں جدا جدا رکھا ہے۔ ہم اس ادب اور اس زندگی کا رشتہ جوڑ کر اس دور کی واضح تصویر بنا سکتے ہیں۔</p> </blockquote> <p>”مقالے“ کا مذکورہ بالا حصہ پڑھ کر شیر علی افسوس کی آرائش محفل یاد آ جاتی ہے جس میں اسی طرح ہندوستان کے بارے میں لکھا گیا ہے اور صفدر کے ”مقالے“ کو پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے جیسے کہ اودھ، خاص طور پر لکھنؤ میں داخل ہونے کا دروازہ کھل گیا ہو۔ مصنّف لکھنؤ کے پہلے ایوان شاہی دولت خانہ آصفی کے متعلق جب لکھتے ہیں تو ان کا اندازِ تحریر ایک مصور کے قلم میں ڈھل جاتا ہے، کیونکہ الفاظ کے ذریعے صاحبِ مقالہ نے اس محل دولت خانہ آصفی کی ایک تصویر بنا ڈالی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:</p> <blockquote> <p>نواب کا محل دریا کے کنارے واقع ہے جہاں سے دریائے گومتی اور مشرقی خطۂ زمین کے وسیع مناظر صاف نظر آتے ہیں۔ اس محل کا کچھ حصہ نواب شجاع الدولہ نے تیار کرایا تھا لیکن موجودہ حکمران(آصف الدولہ) نے اس میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے۔ اس احاطے میں وسیع قطعات اور ایک دربار جہاں وہ حاضرین سے آزادی کے ساتھ ملتے ہیں، تیار کرایا ہے۔ یہ دربار تین محرابوں کا ایک سلسلہ ہے جو ایک دوسرے کے متوازی اور افریقی(moorish) انداز کے ستونوں پر قائم ہیں۔ اس کی چھت اور دیواریں خوبصورتی کے ساتھ ملمع کی ہوئی ہیں، زیورات اور پھولوں سے منقش ہیں۔ دربار تک آنے والا زینہ ایک خوبصورت چمن میں واقع ہے۔ اس چمن کا قرینہ بالکل ویسا ہے جیسا کہ ہم اکثر ہندوستانی مصوری میں دیکھتے ہیں جو مربع قطعات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس چمنستان میں اتنی تیز خوشبو کے پھول لگائے ہوئے ہیں جو حقیقت میں ایک یورپین کے اعصاب پر فوراً حملہ آور ہوتے ہیں۔</p> </blockquote> <p>مقالہ نگار لکھنوی معاشرت اور اودھ کے حکمرانوں کی معلومات کے بعد دِلّی کا تذکرہ دوبارہ کر کے دونوں شہروں کا موازنہ پیش کرتا ہے۔ مصنّف کے مطابق لکھنؤ میں شاہی جلال و دبدبہ کے بجائے نوابی شان و شوکت تھی۔ جگہ جگہ امام باڑے تھے، وہاں مرثیہ خوانی کی روایت کی وجہ سے حکمرانوں اور عوام دونوں کے دل نرم و نازک تھے اور انسان دوستی ان کا شعار تھا۔ کسی کا دل دکھانا، یا کسی پر ظلم کرنا انھیں ناپسند تھا۔ وہ اپنے مجرموں کو بھی ایسی سزائیں نہ دیتے تھے جن سے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ لیکن دِلّی کے حالات اگر اس تاریخی تناظر میں دیکھے جائیں تو واضح نظر آتا ہے کہ دِلّی کے عروج و زوال دونوں زمانوں میں جب تک بادشاہوں کا اقتدار باقی رہا، اس طرح کی سزائیں جن سے انسانی دل دہل جائے، عام تھیں۔ یہاں تک کہ تخت کے وارثوں کی آنکھیں نکلوائیں، زندہ لوگوں کی کھال کھنچوائی لیکن اس کے برعکس لکھنؤ میں شائستگی، لطافت اور ہر شعبۂ حیات میں جدّت اور تکلف تھا، اسی تہذیبی سجاوٹ کی یاد میں غالبؔ نے کہا تھا: ”ہائے لکھنؤ“۔</p> <p>صاحب مقالہ نے مذکورہ بالا تمام باتیں قاری کے ذہن میں لکھنؤ کی شعری فضا کو ہموار کرنے کے لیے لکھی ہیں، کیونکہ آگے چل کر لکھنؤ میں ادب کو موضوع بنایا۔ جیسا کہ مقالے کے عنوان سے ظاہر ہے۔ ہماری ان گزارشات کا مقصد مصنّف کی نثر کے اسلوب کی اس جہت کی طرف اشارہ کرنا ہے جس کے تحت ایک ذی فہم نثرنگار اپنے نقطۂ بحث کے ارد گرد دائرے کھینچ کر تنگ کرتا جاتا ہے۔ اس طرح وہ اصل کی طرف ہر زاویے سے پہنچ جاتا ہے۔ مقالے کے پانچویں باب میں ”اودھ میں زندگی“ کے بجائے ”اودھ میں ادب“ کے حوالے سے تذکرہ شروع ہوا ہے۔ صاحبِ مقالہ نے ادبی چاشنی کو اس کی حد میں رکھا ہے اور وہ کہیں بھی تحقیقی مقالے کو ادبی شہ پارہ بنانے پر مصر نہیں۔</p> <p>پروفیسر حامد حسن سید لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>ڈاکٹر سید صفدر حسین نے مقالے کو مقالہ رہنے دیا ہے جس سے تہذیب و ترتیب اور ادبی چاشنی کے باوصف یہی تاثر ملتا ہے کہ ہر ایک بیان غور و فکر کا نتیجہ ہے اور اسی وجہ سے وزنی اور اعتباری ہے۔</p> </blockquote> <p>لکھنؤ میں جو شاعری کے عروج کا زمانہ تھا، اس وقت انگریزی کمپنی کی گرفت وہاں کے حکمرانوں پر مضبوط ہو چکی تھی۔ دِلّی مسائل میں اُلجھی ہوئی تھی۔ صرف لکھنؤ کی عوام خوشحال تھی اور مصنف کے مطابق لکھنؤ میں شاعری کو منفرد مقام دینے میں فقہ جعفریہ پیش پیش تھا۔ مقالہ ہٰذا میں اردو اصناف ادب پر ہونے والے مذہبی اثرات کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>شیعت اپنے اصول دین میں توحید، عدل، رسالت، امامت اور قیامت کی قائل ہے لیکن احترام ذات میں سب سے پہلے خدا پھر نبی اور تیسرے نمبر پر امام آتے ہیں۔ لکھنؤ میں جو مثنویاں لکھی گئیں، ان کے آغاز میں ہمیں بالکل یہی ترتیب ملتی ہے اور یہ بات محض مسلمان شعرا ہی سے مخصوص نہیں رہی بلکہ خود ہندو حضرات نے بھی یہی ادبی دستور برتا ہے۔</p> </blockquote> <p>اہل بیت کے نقوش لکھنؤ کی تمام اصناف ادب پر گہرے ہیں۔ قصوں میں بھی جابجا یہ عناصر موجود ہیں۔ رباعیات، قطعات میں بھی جھلک ملتی ہے۔ آئمہ کرام کی مدح میں قصائد لکھے گئے ہیں۔ لکھنؤ کا کوئی شاعر ایسا نہیں تھا جس نے قصیدہ کہا ہو اور اہل بیت کی مدح نہ کی ہو۔ اس طرح مذہبی تہواروں کے اردو ادب پر ہونے والے مثبت اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے اور صاحبِ مقالہ نے اس جائزے کے دوران انشاؔ، ناسخؔ، آتشؔ، محمد رضا برقؔ، آغا حسن امانتؔ، مظفر علی اسیرؔ، دوست علی خلیل ؔکے اشعار بطور حوالہ پیش کیے ہیں جس سے مقالے کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔ عام طور پر لکھنؤ کی شاعری پر فحاشی اور ندیدہ پن کا الزام لگایا جاتا ہے لیکن کسی نے اس کے محرکات پر غور نہیں کیا۔ صفدر نے ان محرکات کا سراغ لگایا ہے جو اس ندیدہ پن کا سبب تھے۔</p> <p>صفدر کے مطابق لکھنوی ادب کا آغاز دربار سے ہوا تھا اور دربار میں نوابوں کے جنسی جذبے میں سرکشی تیس سال کی عمر تک ہوتی تھی۔ اس سلسلے میں انھوں نے کچھ نوابوں کی حالتیں بھی ظاہر کی ہیں۔ چنانچہ تیس سال کی عمر کے بعد جب یہ جذبہ معتدل ہو جاتا، تو اسے سرکش بنانے کے لیے یہ لوگ محبوبہ کی کٹی ہوئی زلفوں، ترشے ہوئے ناخنوں، رضائی کی خوشبو سے لذت لینے لگتے۔ چناںچہ شعر و شاعری کے جن حصّوں میں لذت کا اظہار ہوتا یا لطیف معاملہ بندی ہوتی، اس کو پسند کیا جانے لگا۔ ایسے ہی اثرات کے امتزاج نے انشاؔ، جرأتؔ، رندؔ اور مرزا شوقؔ سے شعر کہلوائے۔</p> <p>دِلّی اور لکھنؤ کی زندگی میں تاریخی، سماجی، مقامی اور مذہبی لحاظ سے جو فرق پایا جاتا تھا، اس نے دونوں مقامات کی شاعری میں بھی امتیازات پیدا کیے مثلاً لکھنؤ کا مرکز شعر و ادب دِلّی کے برسوں بعد قائم ہوا۔ اس لیے جدیدیت کے اثر کوقبول کرنے کی صلاحیت اس میں زیادہ تھی اور دولت کی فراوانی نے شاعری کو مزید جدید رنگ میں سمو دیا۔ صفدر نے ان تمام عوامل کا تذکرہ اپنے مقالے میں کیا ہے، جن عوامل نے لکھنؤ کی شاعری کو نہ صرف دِلّی بلکہ پورے برصغیر کی شاعری سے منفرد بنا دیا اور لکھنؤ نشاطیہ رجحان کا موجب بن گیا۔ بالکل اس طرح جیسے اس سے پہلے عادل شاہی اور قطب شاہی دور میں بھی نشاطیہ رجحان تھا، کیونکہ سماجی اور مذہبی ماحول ان ریاستوں اور لکھنؤ کا تقریباً ایک جیسا تھا۔ اسی لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جہاں معاشرتی و معاشی عوامل ایک جیسے ہوں، وہاں کا ادب بھی ایک جیسا ہو سکتا ہے۔</p> <p>مقالہ ہٰذا میں میرتقی میرؔ کی شاعری کا ذکر بھرپور انداز میںکیا گیا ہے۔ حالانکہ میرؔ کا تعلق دِلّی سے تھا، البتہ کچھ عرصے دربارِ لکھنؤ سے بھی تعلق رہا ہے۔ اس طرح صاحبِ مقالہ کو میرؔ کی شاعری پر تبصرہ کرنے کا موقع مل گیا جس سے انھوں نے خوب فائدہ اُٹھایا اور میرؔ کے کلام کے تناظر میں دِلّی اور لکھنؤ کی شاعری کا موازنہ کر ڈالا۔ لکھنؤ کے وہ شاعر جن کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے، ان میں میرحسنؔ اور نواب آصفؔ الدولہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس دور کو صفدر نے لکھنو کی شاعری کا سنہری دور کہا ہے۔ پھر انھوں نے لکھنوی ادب کا دوسرا دور متعین کر کے بہت سے شعرا کی فن کارانہ صلاحیتوں پر بحث کی۔ اس سلسلے میں انشائ اللہ خاں انشاؔ، مصحفیؔ، جرأتؔ، ناسخؔ، آتش ؔکے نام قابل ذکر ہیں۔ شعرا کے تذکرے کے بعد لکھنوی شاعری پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ اس میں سب سے پہلے مثنوی کی بات کی گئی ہے۔ صفدر کے خیال کے مطابق اردو کی کلاسیکی مثنویاں لکھنؤ میں لکھی گئیں۔ انبساط زندگی کی تصویریں ان مثنویوں میں زیادہ نمایاں ہیں جو خاص لکھنؤ ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ مثنویاں آصف الدولہ کے شکار، عروج نواب رام پور اورمرغیوں کی لڑائی وغیرہ پر ہیں۔ لکھنؤکے تقریباً تمام مثنوی نگار شعرا کے نام اور ان کے کلام کی خصوصیات دائرۂ تحریر میں لائی گئی ہیں۔ لکھنؤ کی مثنویات میں فنی مقبولیت کے اعتبار سے دیاشنکر نسیم کی گلزار نسیم ہے جو ۱۸۳۸ئ میں مکمل ہوئی۔ اس میں زیادہ تر لکھنؤ کی معاشرت، مذاق، نزاکت اور لطافت پسندی کا ذکر ہے۔ چناںچہ ان خصوصیات کو فن کارانہ نقطۂ نظر سے بیان کیا گیا ہے۔ نواب مرزا شوقؔ کی مثنویاں تیسرے نمبر پر ہیں جن میں زہرعشق، فریب عشق، بہارعشق قابل ذکر ہیں۔ صاحبِ مقالہ نے ان تینوں مثنویوں کا فنی و فکری تجزیہ کیا ہے۔</p> <p>اس کے بعد مرثیہ کا باب ہے جس میں صاحبِ مقالہ نے پہلے مرثیے کی تاریخ اور مرثیے کی ہئیت پیش کی ہے۔ اس کے بعد مرثیہ اور لکھنوی معاشرت کے مشترکہ عناصر کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اہل لکھنؤ نے عزاداری میں ایران اور عراق کی رسوم کو داخل کر کے ”محرم الحرام“ کو مخصوص تقریب کی صورت دے دی تھی۔ رفتہ رفتہ خلوص و عقیدہ نے اس کے اداروں میں توسیع کرائی اور شہر میں درجنوں کربلائیں، سینکڑوں عزاخانے تعمیر ہو گئے۔ یہ وہ شہر تھا جس کے متعلق نائٹن <annotation lang="en">(Knighton)</annotation> لکھتا ہے:</p> <blockquote> <p>کہ جب میں لکھنؤ میں مقیم تھا تو ایک سال سنا کہ اب کی بار پچاس ہزار عَلَم درگاہ حضرت عباس میں چڑھائے گئے اور اس پر مجھے کوئی اچنبا نہیں ہوا۔</p> </blockquote> <p>لکھنؤ میں یکم محرم سے ۲۰صفر تک اور پھر آٹھ ربیع الاول تک زمانہ عزا مقرر ہوا تھا۔ سوا دو مہینے میں تمام شہر سوگ نشین رہتا تھا۔ گلی گلی علم نصب کیے جاتے تھے، جگہ جگہ لنگر جاری کیے جاتے، سبیلیں لگائی جاتیں اور گھر گھر مجالس منعقد ہوتیں، بادشاہ اور درباری امرائ سے اہل حرفہ تک سب ہی خلوص و عقیدت کے ساتھ ایام عزا مناتے اور راہِ حسین میں پانی کی طرح روپیہ بہاتے تھے۔ لکھنؤ میں ہندو عوام تک عزاداری کرتے اور مرثیے لکھتے تھے۔ ہندو مرثیہ نگار دھن پت رائے ہر سال امام باڑہ حسینی بیگم میں مجلس کیا کرتے تھے جس میں مرزا دبیرؔ مرثیہ پڑھتے تھے۔ عزاداری کے اس ماحول میں مرثیہ نگاروں کی ایک کثیر جماعت کا پیدا ہو جانا ایک لازمی امر تھا۔ چناںچہ یہاں سینکڑوں مرثیہ گو پیدا ہوئے جن میں میر محمد علی، پناہ علی بیگ افسردہ، مرزا آغا خاں، غلام اشرف افسر، شیخ احسان لکھنوی وغیرہ کا ذکر ملتاہے۔ پھر صفدر حسین نے لکھنؤ میں مرثیہ نگاری کے چار اہم شعرا دلگیرؔ، فصیحؔ، خلیقؔ اور ضمیر ؔکا ذکر کیا ہے۔ ان چاروں شاعروں نے ایک ہی رنگ و صورت کے کچھ ایسے نقوش چھوڑے ہیں کہ ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا مشکل ہے لیکن خلیقؔ و ضمیرؔ کو زیادہ شہرت ملی۔ خلیقؔ و ضمیرؔ کے کلام میں زیادہ فرق نظر نہیں آتا البتہ اتنا کہ خلیقؔ کی زبان قدرے فصیح اور بااثر ہے لیکن ضمیر ؔنے اپنے زمانے کے مذاق شعری کا ساتھ دیا اور انھوں نے سب سے پہلے مرثیے کی تشکیل جدید صورت میں کی اور اس کے منتشر اجزا کو مربوط کر کے بہت سی رزمی اور بزمی خصوصیات اس میں سمو دیں۔ فصیح، دلگیرؔ، خلیقؔ اور میرضمیرؔ کا مقالے میں تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔</p> <p>ان کے بعد مصنّف نے انیسؔ و دبیرؔ کا دور الگ متعین کیا ہے اور مرزا دبیرؔ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>ان کے مراثی میں سیلاب کی طرح اُمڈتے ہوئے جذبات ملتے ہیں لیکن ان میں ایسی پست و بلند سطحیں ہیں جنھیں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ مضامین کی تہذیب نہیں ہو سکی اور الفاظ کے انتخاب میں سلیقہ نہیں برتا گیا۔</p> </blockquote> <p>پھرمیرانیسؔ کا نہایت تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ صفدر کے خیال کے مطابق میرانیسؔ زبردست تخلیقی قوت کے ساتھ ایک اعلیٰ نظر انتخاب بھی رکھتے تھے۔ ان کا گھرانا تین پشتوں سے شعر و ادب کی نمایاں خدمات ادا کرتا چلا آ رہا تھا۔ میر ضاحکؔ، میرحسنؔ، میرمستحسن خلیقؔ کی ادبی روایات نے خاندان بھر میں ذوق شعری پیدا کر رکھا تھا۔ میرانیسؔ کی عظمت کو بیان کرنے کا انداز ملاحظہ کیجیے:</p> <blockquote> <p>انیسؔ کی عظمت ان کے فن میں ہے اور ان کا فن اس صلاحیت میں مضمر ہے جو انھوں نے جذبات نگاری، کردار نگاری، منظر نگاری اور واقعہ نگاری میں دکھائی اور پھر ان سب چیزوں کو ایک خاص تسلسل و تنظیم کے رشتے میں پرو کر دلکش اندازِ بیان کے ساتھ پیش کیا۔</p> </blockquote> <p>آخر میں صفدر نے مرثیے کے متعلق ٹریجڈی اور ایپک کی بحث کو بھی سمیٹا ہے۔ لکھنوی مرثیے کی انفرادیت کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ مرثیہ کی ساخت، اس کے موضوع کی اہمیت، اس کے اخلاقی نصب العین، اس کی صدہا حَسین و برجستہ تصاویر، اس کے ادبی معیار، اس کے بے شمار ذخیرۂ الفاظ، اس کے اسلوب بیان کے تنوع اور ہمہ گیری کو دیکھ کر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ لکھنؤ میں مرثیہ محض میّت تک محدود نہ رہا بلکہ ایک زبردست اخلاقی، فنی اور ادبی روایت بن گیا اور اس کی صورت و معنی اور اس کے ادبی معیار پر اس وقت تک ترقی کے امکانات نہیں ہیں جب تک معاشرہ کی قدریں اور زبان کا مزاج نہ بدل جائے۔</p> <p>مصنّف نے لکھنؤ کی اصنافِ سخن میں قصیدے کو تیسرے نمبر پر رکھا ہے اور مقالے کے نویں باب میں شامل کیا ہے۔ سب سے پہلے اس صنف کا تاریخی پس منظر مختصراً بیان کیا ہے۔ پھر قصیدے کے خدائے سخن مرزا رفیع سوداؔ کو موضوعِ گفتگو بنایا، جو نہ صرف قصیدہ گو ہے بلکہ لکھنؤ کی ”واہ“ کی نمائندگی کرنے والا شاعر بھی ہے۔ مصنّف نے سودا ؔکی قصیدہ نگاری کا فنّی تجزیہ کرنے سے پہلے قصیدے کے اجزا بیان کیے اور پھر انھیں اجزا کو باری باری سوداؔ کی قصیدہ نگاری پرمنطبق کر کے فنی زیادہ فکری کم تجزیہ کیا ہے۔ دوسرے قصیدہ گو جعفر علی خاں اور میرحسن کی قصیدہ نگاری پر خوب سیرحاصل بحث کی ہے۔ صفدر کے مطابق سوداؔ کے بعد اودھ میں قصیدے کے سب سے بڑے شاعر مصحفیؔ ہیں۔</p> <p>لکھنوی اصناف سخن میں واسوخت چوتھے نمبر پر ہے۔ قاضی عبدالودود کے حوالے سے شاہ مبارک آرزوؔ کو پہلا واسوخت نگار ثابت کیا گیا ہے۔ واسوخت کے ضمن میں آتشؔ، سید محمد رندؔ، محمد رضا برقؔ، امداد علی بحرؔ، آغا حسن امانتؔ، آفتاب الدولہ خلقؔ، مرزا شوقؔ اور امیر مینائیؔ کے نام زیادہ نمایاں ہیں۔ صاحبِ مقالہ نے ریختی کو لکھنوی اصناف سخن میں پانچواں نمبر دیا ہے۔ اس کے بارے میں لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>اردو کا یہ پہلو بھی عجیب ہے کہ یہاں عورتوں کے الفاظ و محاورات ایک خاص حد تک مردوں سے مختلف ہوتے ہیں۔</p> </blockquote> <p>مصنّف کے خیال میں ریختی کے موجد امیر خسرو ہیں لیکن یہ ان کی غیرشعوری کوشش تھی۔ شمالی ہند میں اس کے موجد سعادت یار خاں رنگینؔ ہیں۔ رنگینؔ نے عورتوں کی خوشنودی کے لیے ریختی لکھی تھی۔ رنگینؔ کی ریختی چاہے لکھنؤ میں کیوں نہ لکھی گئی ہو، یہ لکھنؤ کے بجائے دہلی کی معاشرتی فضا کی ترجمان ہے، کیونکہ سعادت یار رنگینؔ نے بھی اپنی جوانی دِلّی میں گذار دی تھی۔ لکھنؤ کے ریختی گو شعرا میں انشا، میر یار علی عُرف جان صاحب خاص طور پر مشہور ہوئے۔ شاہی عہد کی ریختی گوئی میں جان صاحب لکھنؤ کے نمائندہ کہے جا سکتے ہیں۔</p> <p>مقالے میں چھٹا نمبر ڈرامے کا ہے، حالانکہ اس کا ذکر پہلے ہونا چاہیے تھا لیکن شاید اصنافِ سخن اور اصنافِ نثر کو علیحدہ علیحدہ زیربحث لایا گیا ہے۔ ڈرامے کے باب میں قدیم ہندوستانی نوٹنکیوں اور مذہبی تہواروں پر ہونے والے مختلف ناموں سے ڈراموں کا تاریخی پس منظر پیش کیا گیا ہے۔ خاص طور پر مصنّف نے شکنتلا کا ذکر کیا ہے۔ ان کے مطابق اردو ڈرامے کی ایجاد، رواجِ عام اور سرپرستی کا سہرا لکھنؤ کے سر ہے جس کے لیے ایک بادشاہ نصیرالدین حیدر نے رقص و غنا کے جلسوں کی ترتیب میں ہندو دیومالا سے کام لیا۔ مصنّف نے اس باب میں لکھنؤ کے شہرۂ آفاق ڈراموں کا تجزیہ گہرائی و گیرائی کے ساتھ کیا ہے۔ صاحبِ مقالہ کے خیال کے مطابق واجد علی شاہ کے ڈرامائی ذوق نے ایک تمثیلی مشاعرے کو رواج دیا تھا۔ مشاعرہ ناسخؔ سے شروع ہو کر جرأت پر ختم ہوتا۔ درمیان میں بہت سے شعرائ مثلاً آتشؔ، زیب النسائؔ، ملکہ عالم آرام ؔبیگم، واجد علی شاہ اخترؔ، رند،ؔ اسیرؔ وغیرہ آ جاتے تھے۔ مشاعرے کی فضا سنجیدہ ہوتی تھی لیکن اس کا اختتام جرأت کے متعلق ایک مضحکہ خیز نقل پر ہوتا تھا۔ امانت لکھنوی کے بارے میں مصنّف کا خیال ہے کہ اس کے ڈرامے خالص ہندوستانی انداز میں ہیں اور اردو ڈرامے کے اس نمونے کو آپ ایک طرح کا اوپرا کہہ سکتے ہیں۔</p> <p>لکھنؤ کی نثرنگاری کے بارے میں مصنّف کا خیال ہے کہ نو طرز مرصع پہلی کتاب ہے جس نے شمالی ہند کے لوگوں کو اردو نثر نویسی کی طرف مائل کیا۔ نو طرز مرصع کے لکھے جانے کے کچھ عرصے کے بعد لکھنؤ میں اردو نثر کا رواج ہو گیا۔ اسی زمانے میں سید انشا نے تفنّن طبع کے طور پر کچھ اپنے لسانی کمال دکھانے کے خیال سے دو قصے۔۔۔۔ ”رانی کیتکی“ اور ”سلک گوہر“ علاحدہ علاحدہ بلکہ ایک حد تک متضاد رنگ میں لکھے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ ایک ادبی تجربے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں اہم تر حیثیت ”رانی کیتکی“ کی ہے۔ یہ اپنے اندازِ بیان کے لحاظ سے لکھنؤ کی بہت انفرادی تخلیق ہے۔ کم و بیش اس زمانے میں جرأت کے شاگرد محمد بخش مہجور نے اردو نثر میں تین کتابیں انشاے گلشن نوبہار، انشاے چار چمن اور انشاے نورتن لکھیں۔ شاہی لکھنؤ کی نثری کوششوں میں سرور ؔکا نام سرفہرست آتا ہے۔ صفدر حسین لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>اردو نثرنگاری میں سرورؔ کو وہی حیثیت حاصل ہے جو لکھنوی شاعری میں ناسخ کو، جس طرح ناسخ نے یہاں کے رنگ سخن کی تدوین کرنے کے بعد امام فن کا درجہ حاصل کیا۔ اسی طرح رجب علی بیگ سرور ؔنے یہاں کی پرتکلف نثر کی رنگ بستگی کا کام سرانجام دیا۔ فسانہ عجائب اپنے اندازِ تحریر کے اعتبار سے ایک انفرادی مکتب خیال ہے۔</p> </blockquote> <p>لکھنؤ کی نثر میںمکاتیب محبت بھی ہیں۔ ان میں مصنّف نے بیگمات کے خطوط اور واجد علی شاہ کے خطوط کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کے القاب و آداب اور زبان و بیان پر بحث ہے۔ ان کے مطابق بیگمات کے خطوط خصوصیت کے ساتھ لکھنؤ کے اندازِ تحریر کا سچا نمونہ ہیں۔ اس کے بعد لکھنوی داستانوں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔</p> <p>مجموعی طور پر اس مقالے میں کم و بیش لکھنؤ کی سوسال کی زندگی اور ادب کا جائزہ لیا گیا ہے۔ صفدر نے لکھا ہے کہ لکھنؤ کی زندگی کے حوالے سے شعر و ادب کو جو وسعت حاصل ہوئی ہے، اُسے صرف خارجیت سے تعبیر کر کے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ دراصل لکھنؤ کے ادب کی مخصوص نوعیت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مختلف غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں لیکن اگر اس مسئلے کا عمرانی نقطۂ نظر سے تجزیہ کیا جائے تو بحث کی نوعیت بدل جائے۔ شاعری کے خارجی رجحانات پر انگشت نمائی سب سے پہلے امداد امام اثرؔ نے کاشف الحقائق میںکی تھی۔ وہ اُردو میں نئے نئے انگریزی دان نقّاد تھے۔ انھوں نے داخلیت کا عجیب متصوفانہ تصوّر اُردو ادب میں داخل کر دیا اور پھر عبدالسلام ندوی اور عبدالحئی نے ان کی تقلید کر کے اس رجحان کو اور بھی عام کیا۔ لکھنؤ کے بارے میں اس غلط رجحان کو ختم کرنے کے لیے صفدر نے اپنے تحقیقی مقالے میں ٹھوس دلائل دے کر لکھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ داخلیت اور خارجیت نفسیات کی دو جداگانہ بلکہ متضاد اصطلاحیں ہیں۔ داخلیت اس ذہنی تجربے کا نام ہے جس کا انحصار ذہن کے باطنی احساسات پر ہو اور اس کا اطلاق اُس علم پر ہوتا ہے جس کی بنیاد بیشتر یا تمام تر ’معائنہ‘ نفس پر ہوتی ہے اور خارجیت اس ذہنی تجربے یا فیصلے کو کہتے ہیں جس کا اطلاق بیرونی دنیا کے مظاہر پر ہوتا ہے۔ اس رجحان میں انسان یا شاعر کو اپنے نفس سے الگ رہ کر حقائق سے آنکھیں چار کرنے کا موقع ملتا ہے۔ دنیا بھر کے ادب میں خارجی رجحان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن اردو کی تقلیدی دنیا کی کایا کچھ اس طرح پلٹ گئی کہ یہاں حقائق کائنات کے مطالعے کو گھٹیا سمجھا جانے لگا اور دروںبینی کو، جس میں انسان اپنے ذہن ہی میں گھرا رہتا ہے اور جو حقیقی ہونے کے بجائے محض خیالی ہے، اچھا سمجھا جانے لگا۔ صفدر نے اپنے اس تحقیقی مقالے میں اس گُتھی کو سلجھانے کی شعوری کوشش کی ہے اور آخر میں لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>لکھنؤ کا اگرچہ کوئی مخصوص اور متعین پیغام نہیں ہے جسے اس کے ترکے سے تعبیر کیا جا سکے لیکن ہر شعبۂ حیات میں نفاست، نزاکت اور رومانیت وہاں کی خصوصیت کہی جا سکتی ہے۔ خواہ تہذیب و معاشرت ہو یا شعر و ادب ہر جگہ ان عناصر نے حسن و قبح پیدا کیا ہے۔</p> </blockquote> </section> </body>
0036.xml
<meta> <title>پنڈتا رامابائی:سماجی مصلح اور بائبل کی پہلی خاتون مترجم</title> <author> <name>پنکی جسٹن</name> <gender>Female</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 4</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/18_pinki_justin_bunyad_2013.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>1115</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
پنڈتا رامابائی:سماجی مصلح اور بائبل کی پہلی خاتون مترجم
1,115
Yes
<body> <section> <p>پنڈتا رامابائی (۲۲ اپریل ۱۸۵۸ – ۵ اپریل ۱۹۲۲ئ) کا شمار ہندوستان کی ان عظیم خواتین میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے فکر سے ایسے دیپ جلائے کہ آج بھی ان کی روشنی دلوں کو منور کر رہی ہے۔ انھوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ پیدائشی طور پر اعلیٰ پائے کی منتظمہ، عالمہ، مصلح اور مبلّغہ تھیں۔ ایک مشہور سماجی مصلح <annotation lang="en">D.K. Karve</annotation> لکھتا ہے:</p> <blockquote> <p>پنڈتا رامابائی ہندوستان کی عظیم ترین بیٹیوں میں سے ایک تھی، بہترین ماہرِ لسانیات، مصنفہ، تعلیم دان، سماجی مصلح اور بائبل مترجم ہونے کی حیثیت سے اس نے علما، سیاست دان اور ماہرینِ الٰہیات سے بے پناہ داد وصول کی۔ ایک سچے محب وطن کی حیثیت سے وہ ہندی کو بحیثیت قومی زبان نافذ کروانے کے حق میں دلائل پیش کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔ علاوہ ازیں برطانوی راج کے بجائے مادرِ وطن کے مرتبہ و اہمیت کو اجاگر کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔</p> </blockquote> <p>خواتین کے لیے پنڈتا کا کردار ایک مثالی کردار ہے۔ ظاہری طور پردیکھیں توان کا قد پانچ فٹ اور جسامت منحنی سی تھی۔ کالے بال شانوں تک آتے تھے۔ لیکن یہ برہمن ہندوستانی خاتون جہاں بھی جاتیں، اپنی سرمئی مائل سبز آنکھوں، تراشیدہ ہونٹوں اور سانولی رنگت سے ملنے والے پر ایک مسحور کن تاثر چھوڑ دیتی تھیں۔ لوگ ان کو دیوی کی طرح پوجتے تھے۔ وہ ایک ایسی بلند مرتبہ شخصیت تھیں، جنھوں نے وقت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور مشرق و مغرب کے بندھے ٹکے رسم و رواج اور روایتی اقدارکو چیلنج کیا۔</p> <p>پنڈتاکی پیدائش ہندوستان کے ایک برہمن خاندان میں ہوئی ان کے والد اننت شاستری ڈونگرے <annotation lang="en">(Anant Shastri Dongre)</annotation> ایک عالم فاضل شخص تھے۔ اپنے والد کے بارے میں پنڈتا لکھتی ہیں کہ میرے والد کا تعلق ایک امیر ہندو گھرانے سے تھا، انھوں نے ہندوستان کے طول و عرض میں ہزاروں میل پیدل چل کر مقدس استھانوں کی یاترا کی، پرانوں اور دیگر مذہبی کتابوں کی تعلیم حاصل کی اور پنڈت کہلائے۴ ان کے والد کا آشرم (ایک ایسی جگہ جہاں عاشقانِ مذہب اپنے ہندو عقائد کے متعلق مزید جاننے کے لیے قیام کرتے تھے) سمندر کی سطح سے چار سو (۴۰۰) فٹ اونچائی پر کارگل کے قریب مغربی گھاٹ کے جنگلوں میں تھا۔ اننت شاستری ایک اصلاح پسند اور آزاد خیال انسان تھے۔ وہ اگرچہ اپنے قول و فعل میں ایک راسخ العقیدہ ہندو برہمن تھے لیکن ایک چیز میں مستثنیٰ تھے کہ عورتوں کو اپنی مذہبی کتابوں کے بارے میں جاننے اور سیکھنے کے لیے ان کی قدیم مقدس زبان سنسکرت کو لازمی سیکھنا ہوگا۔ وہ تعلیم نسواں کو ہر عورت کا بنیادی حق سمجھتے تھے اور اس کے لیے انھوں نے پہلا عملی قدم اپنے گھر سے اٹھایا اور سب سے پہلے اپنی بیوی کو تعلیم دینا شروع کی اور اس کے بعد اپنی بیٹی کو۔</p> <p>پنڈتا کی ذہانت، علمیت اور قابلیت اگرچہ خداداد تھی مگر والدین کی تعلیم و تربیت نے سونے پر سہاگہ کا کام دیا۔ ان کے والد نے ۴۰ سال کی عمر میں لکشمی بائی (والدہ پنڈتا رامابائی) سے دوسری شادی کی۔ شادی کے وقت دلھن کی عمر نو سال تھی۔ انھوں نے اپنی بیوی اور بیٹی دونوں کی تعلیم و تربیت شروع کی۔ پنڈتا کی والدہ صبح سویرے ہی انھیںجگا دیتیں اور روایتی مذہبی تعلیم دیتی تھیں۔ <annotation lang="en">Keith J White</annotation> کے بقول ان کی والدہ ان کو کھلے آسمان تلے تین گھنٹے تک مسلسل پڑھاتی رہتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت جلد ہی یعنی بارہ سال کی عمر میں انھیں بھگوت پران کے اٹھارہ ہزار اشلوک زبانی یاد تھے۔ انھوں نے فعلیات، نباتات اور فلکیات کا علم بھی حاصل کیا۔</p> <p>وہ مختلف زبانوں پر عبور رکھتی تھیں۔ <annotation lang="en">Helen S. Dyer</annotation> کے بقول پنڈتا سنسکرت زبان، جس میں ہندوؤں کا تمام کلاسیکل لٹریچر موجود ہے، اس قدر روانی سے بولتی تھیں کہ گویا ان کی مادری زبان ہو۔ انھوں نے مراٹھی زبان بھی سیکھی کیونکہ ان کے والدین مراٹھی زبان میں گفتگو کرتے تھے۔ علاوہ ازیں وہ اخبارات و رسائل بھی اسی زبان میں پڑھا کرتی تھیں۔ بعدازاں کنڑی <annotation lang="en">(Kanarese)</annotation> ہندی اور بنگالی زبان بھی سیکھی۔ انھیں ہندوستان کی ان تمام بولیوں پر عبور تھا جن کی بنیاد سنسکرت تھی۔ </p> <p>پنڈتا ابھی چھوٹی ہی تھیں کہ ان کا خاندان مفلسی کا شکار ہو گیا ان کے والد صاحب کو اپنی زمینیں، قیمتی زیورات اور دیگر اہم اشیا فروخت کرنا پڑیں، اسی اثنا میں یہ اہل خانہ مقدس مقامات، مندروں اور دریاؤں کی یاترا کے لیے نکل پڑا۔ جس کے باعث بہت جلد خاندان بدحالی کاشکار ہو گیا۔ آخری وقت میں پنڈت اننت شاستری بینائی سے بھی محروم ہوگئے اوربالآخر پنڈتا کے چھوٹے بھائی کے علاوہ سارا خاندان اسی قحط سالی اور فاقہ کشی کے باعث لقمہ اجل بن گیا۔ انھوں نے اپنے بھائی کے ساتھ میلوں پیدل سفر کیا اور کلکتہ پہنچیں۔ دورانِ سفر انھوں نے عورتوں بالخصوص کمسن بیواؤں کی حالتِ زار دیکھی تو فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی پسماندہ خواتین کو معاشرے میں ان کا مقام دلانے میں وقف کر دیں گی۔ کلکتہ کا اعلیٰ برہمن طبقہ پنڈتا رامابائی کی پرانوں کے متعلق معلومات سے بے حد متاثر ہوا۔ ان کی علمیت اور ذہانت سے متاثر ہو کر کلکتہ یونیورسٹی نے انھیں ”پنڈتا“ کے خطاب سے نوازا۔ وہ پہلی خاتون تھیں جن کی علمیت، قابلیت اور صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے کلکتہ یونیورسٹی کی طرف سے ”پنڈتا“ کا خطاب دیا گیا۔ سنسکرت میں پنڈتا کے معنی <annotation lang="en">(learned)</annotation> کے ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں سنسکرت میں کیے گئے بہت سارے کاموں کے اعتراف میں انھیں ”سرسوتی“ کے خطاب سے نوازا گیا۔ ان کے بھائی ان کے شانہ بشانہ کام کرتے رہے لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ کلکتہ میں عین عالم شباب میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ پنڈتا کے بقول ان کی زبان پر آخری جملہ یہ تھا: <annotation lang="en">”All will be well“</annotation> خدا سب بہتر کرے گا۔</p> <p>اپنے بھائی کی وفات کے بعد انھوں نے کلکتہ یونیورسٹی کے ایک گریجویٹ وکیل بیپن بہاری مادھوی <annotation lang="en">(Bipin Bihari Medhavi MA)</annotation> سے شادی کرلی۔ شادی کے بعد وہ انھیں صوبہ آسام لے گئے جہاں دونوں مغربی فلسفہ و خیالات کا ایک ساتھ مطالعہ کرتے اور اکثر مطالعۂ ادیان پر گفت و شنید جاری رہتی۔ رامابائی نے یہیں (عہد نامہ جدید کی کتاب) لوقا رسول کی انجیل کو بنگالی زبان میں پڑھنا شروع کیا جو ان کے شوہر کو ایک بپٹسٹ مشنری نے دی تھی جب وہ صوبہ آسام میں رہ رہے تھے۔ شادی کو ابھی ایک سال سات ماہ کا عرصہ گزرا تھا کہ ان کے شوہر عارضہ ہیضہ میں انتقال کر گئے اور وہ اور ان کی اکلوتی بیٹی مانو راما <annotation lang="en">(Manorama)</annotation> اکیلے رہ گئے۔ اس وقت کے روایتی ومعاشرتی دستور کے مطابق ایک ہندو بیوہ اپنے شوہر کے گھر نہیں رہ سکتی لہٰذا رامابائی کو بھی کلکتہ چھوڑ کر پونا جانا پڑا۔ یہاں انھوں نے ”آریہ مہیلا سماج“ کی بنیاد رکھی جس کا مقصد تعلیم نسواں اور حقوقِ نسواں کے لیے جدوجہد کرنا تھا۔</p> <p>پنڈتا نے انگریزی زبان سیکھی اور <annotation lang="en">Stree Dharma Niti (Morals for Women)</annotation> نامی ایک کتاب لکھی۔ ۱۸۸۳ئ میں وہ انگلستان چلی گئیں جہاں ان کی ملاقات مس ہرفورڈ سے ہوئی۔ انگلستان میں انھوں نے میڈیسن کی تعلیم حاصل کی۱۸۸۳ئ میں ہی انھیں سینٹ میری کی سسٹروں (ننوں) کی طرف سے <annotation lang="en">Wantage</annotation> میں مدعو کیا گیا۔ یہاں انھوں نے اپنی انگریزی زبان کو مزید بہتر بنایا اور بدلے میں سنکسرت کی تعلیم دی۔ ایک سال کا عرصہ گذارنے کے بعد وہیں <annotation lang="en">Cheltenham Ladies‘ College</annotation> میں بحیثیت سنسکرت کی پروفیسر تقرر ہوا اسی دوران انھوں نے ریاضیات، نیچرل سائنس اور انگریزی ادب کا مطالعہ کیا۔ تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ یہاں گزارنے کے بعد ان کی ایک جاننے والی رشتے دار آنندبائی جوشی (تاریخ وفات ۷ فروری ۱۹۸۸ئ) نے انھیں امریکہ آنے کی دعوت دی۔ امریکہ میں انھوں نے کنڈرگارٹن تعلیم کے لیے فلڈیلفیہ اسکول سے تربیت حاصل کی۔ علاوہ ازیں انھوں نے صنعتی تربیت بھی حاصل کی اور اسی باعث وہ امریکہ میں مزید تین سال مقیم رہیں۔ اس دوران انھوں نے اپنی مشہور و معروف کتاب <annotation lang="en">The High-Caste Hindu Woman</annotation> لکھی۔ یہ کتاب ۱۸۸۷ئ میں امریکہ میں شائع ہوئی اس کتاب میں انھوں نے ہندوستان میں عورت کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کو بے باک انداز میںبیان کیا۔ اس کتاب کا دیباچہ فلڈیلفیہ وومن میڈیکل کالج کی <annotation lang="en">Dean</annotation> ڈاکٹر ریچل بیڈلے <annotation lang="en">(Rachel Bodley AM, M.D)</annotation> اور ان کے رفقا نے لکھا۔ یہ وہی خاتون تھیں جن کے ایما پر انھوں نے یہ کتاب لکھی علاوہ ازیں انھیں اس بات کے لیے راضی کیا کہ وہ ہندوستان میں اعلیٰ ذات کی عورتوں بالخصوص کمسن بیواؤں کے لیے ایک رہائشی اسکول <annotation lang="en">Radical Kindergarten System</annotation> کے تحت کھولے۔ انھوں نے مالی معاونت کی بھی یقین دہانی کروائی۔ ۸۸-۱۸۸۶ئ کے دوران انھوں نے نصابی کتابیں بھی ترجمہ کیں اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا میں لیکچرز بھی دیے۔</p> <p>۱۸۸۳ئ میں بوسٹن میں انھوں نے ایک بہت بڑے مجمعے سے خطاب کیا اور یہیں سے ”رامابائی فاؤنڈیشن“ کی بنیاد پڑی جس نے ہندوستان میں یتیم بچوں اور عورتوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے میں مدد دی۔ بورڈ آف ٹرسٹی میں ایپی سکوپل، یونیٹیرین کانگریگیشنل میتھوڈسٹ اور بپٹسٹ شامل تھے۔ لارڈ رپن <annotation lang="en">(Lord Ripon)</annotation> کے ایجوکیشن کمیشن سے خطاب کرتے ہوئے پنڈتا نے واضح کیا ”ہمارے ملک کے سو میں سے ۹۹ فیصد پڑھے لکھے لوگ عورتوں کی تعلیم کے مخالف ہیں اور انھیں صحیح مقام نہیں دیتے اگر انھیں کہیں بھی ذرا سی خامی یا کمزوری نظر آ جائے تو رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں اور ان کے کردار کو مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔</p> <p>ستمبر ۱۸۸۳ئ سے فروری ۱۸۸۶ئ تک وہ ہندو اور عیسائی مذہب کے عقائد کا موازنہ اور مطالعہ کرتی رہیں اورCheltenham Ladies‘ College میں مشفق اساتذہ، دوست احباب اور پرنسپل ڈورتھی بیک (Dorothy Beak) سے بہت زیادہ متاثر ہوئی۔ اس کا تفصیلی ذکر انھوں نے اپنی گواہی (Testimony) میں کیا ہے۔</p> <p>پنڈتا نے ایک کتاب <annotation lang="en">United States Chi Lokasthiti Ani Pravasrutta (Status of Society of United States and a Travelogue)</annotation> کے نام سے مراٹھی زبان میں لکھی، جو ان کے امریکہ میں قیام کے دوران سفری یادداشتوں پر مشتمل تھی۔ اس کا انگریزی ترجمہ <annotation lang="en">Pandita Ramabai's American Encounter</annotation> کے نام سے شائع ہوا اس میں انھوں نے ریاست ہائے متحدہ کے لوگوں کو اور ان کی تہذیب کو بیان کیا ہے بالخصوص وہاں کی عورت کے مقام و مرتبہ کا موازنہ ہندوستان کی عورت سے کیا اور تجویز پیش کی ہے کہ ہندوستان میں ایک ایسے مصلح کی ضرورت ہے جو ایک نیا پلیٹ فارم بنائے اور عورتوں کو فرسودہ رسومات اور توہمات سے باہر نکالے۔</p> <p>۱۸۸۹ئ میں پنڈتا رامابائی چھے سال کا عرصہ گذار کرواپس ہندوستان لوٹیں اور بمبئی میں <annotation lang="en">Sharada Sadan</annotation> نامی ایک رہائشی اسکول قائم کیا۔ یہ اسکول بعد میں پونا منتقل ہو گیا۔ اسی دوران ان کا عیسائی مذہب کی طرف رجحان بہت زیادہ ہوتا گیا۔ ایک کرسچن ہسٹری میگزین کے مطابق وہ بہت سے عیسائیوں کی سوانح عمریاں پڑھتی تھیں انھوں نے سب سے زیادہ گہرا اثر ایک اینگلیکن پادری <annotation lang="en">William Haslam</annotation> کی کتاب <annotation lang="en">From Death into Life</annotation> سے لیا۔ وہ برہمن مذہب سے عیسائی ہونے والے اینگلیکن پادری نہمیاگورے <annotation lang="en">(Nehmiah Goreh)</annotation> اور مراٹھی شاعر نارائن تلک سے بھی بے حد متاثر تھیں۔ رامابائی نے نارائن تلک کے کچھ گیت اور زبور مکتی چرچ میں عبادت کے لیے گائے جانے کے باعث شائع بھی کروائے۔ بالآخر انھوں نے عیسائی مذہب قبول کر لیا اور فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی کو عورتوں اور بیواؤں کو غربت اور جہالت کے اندھیرے سے نکالنے کے لیے وقف کر دیں گی اور انھیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے ایک نئی زندگی کی طرف لائیں گی۔ انھیں ہندوستانی اخبارات و رسائل اور ہندوستانی مصلحین کی طرف سے بے پناہ مخالفتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ وہ اپنے طالب علموں کو عیسائیت کی طرف راغب کرتی ہیں۔</p> <p>انھوں نے ۱۸۸۹ئ میں ”مکتی مشن“ کی بنیاد رکھی جس نے نوجوان بیوہ عورتوں اور خاندان کی طرف سے ٹھکرائی ہوئی عورتوں کے لیے سائبان کا کام دیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق وہاں ۱۵۰۰ رہائش گاہیں، سو سے زائد مویشی موجود تھے۔ علاوہ ازیں انھوں نے وہیں ایک چرچ بھی تعمیر کروایا۔ پنڈتا کا مکتی مشن آج بھی مختلف شعبہ ہائے زندگی، تعلیم، رہائش اور طبی امداد و سہولتِ رہائش میں سرگرمِ عمل ہے اور ضرورت مند افراد بالخصوص بیواؤں، نابینا اور گونگے، بہرے بچوں کے لیے کام کر رہا ہے۔</p> <p>پنڈتا پہلی خاتون تھیں جنھوں نے نابینا لڑکیوں کے لیے بریل سسٹم متعارف کروایا اور مکتی میں نابینا اسکول قائم کیا۔ وہ پہلی خاتون تھیں جنھوں نے بمبئی میں ”نیشنل سوشل کانگریس“ کے ۲۰۰۰ نمائندگان سے خطاب کیا۔ وہ جب بھی تقریر کے لیے کھڑی ہوتیں تو پہلے سامعین کی خاموشی کا انتظار کرتیں اور جب سب اپنی نشستیں سنبھال لیتے اور مکمل سکوت طاری ہو جاتا تب وہ اپنا یادگار جملہ دہراتیں ”اے میرے ہم وطنو! یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ میری آواز کم ہے، کیونکہ تم لوگوں نے کبھی عورت کو موقع ہی نہ دیا کہ وہ اپنی آواز مضبوط بنائے“ اس لمحے وہ تمام سامعین کو اپنی مٹھی میں لے لیتی اور اکثریت سے اپنی قرارداد منوا لیتی۔</p> <p>۱۸۹۶-۹۷ئ اور ۱۹۰۰-۱ئ میں ہندوستان دو مرتبہ قحط سالی کا شکار ہوا بالخصوص مدھیہ پردیش اور گجرات تباہ و برباد ہوئے۔ اس وقت رامابائی تقریباً ۲۰۰ خواتین اور بچوں کو جن کا قحط سالی کے باعث کوئی پرسانِ حال نہ تھا اپنے ساتھ لائیں اور ۱۰۰ ایکڑ اراضی پر مشتمل ایک فارم <annotation lang="en">(farm)</annotation> میں ٹھہرایا جو انھوں نے ۱۸۹۵ئ میں کیدگاؤں <annotation lang="en">(Kedgaon)</annotation> میں خریدا تھا۔</p> <p>اپنی زندگی کے آخری پندرہ سالوں میں بائبل مقدس کو عبرانی اور یونانی زبان سے براہِ راست مراٹھی زبان میں منتقل کیا۔ ان کی پوری کوشش تھی کہ ترجمہ عام فہم ہو۔ اس ترجمے سے سب سے زیادہ فائدہ دیہاتیوں کو ہوا کیونکہ ان کے لیے کلاسیکی زبان کو سمجھنا مشکل تھا۔ پنڈتا نے یہ ترجمہ اپنے طالب علموں کے ساتھ مل کر عوامی بول چال کی مراٹھی میں کیا۔ عیسائیت قبول کرنے کے بعد انھوں نے باقاعدہ عبرانی اور یونانی زبان سیکھی اور پھر براہِ راست ان دونوں زبانوں سے ترجمہ کیا۔ <annotation lang="en">Clementin Butler</annotation> کے مطابق، جو ایک مشنری تھا اور میتھوڈسٹ مشنریوں کی سوانح عمریاں بھی لکھتا رہا ہے، بائبل کے اس ترجمے کی طباعت، اشاعت اور جلد بندی کا کام بھی پنڈتا کے طالب علموں ہی نے کیا جنھوں نے عیسائی مذہب قبول کر لیا تھا۔ بائبل کے اس مراٹھی ترجمے کا پہلا ایڈیشن صرف عہد نامۂ جدید پر مشتمل تھا اور ۱۹۱۳ئ میں شائع کیا گیا اور ۱۹۲۴ئ میں پوری بائبل (عہد عتیق اور عہد جدید) کا ترجمہ ”مکتی مشن“ پریس سے شائع ہوا۔ پنڈتا کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا بالخصوص اسے یہ افتخار حاصل ہے کہ اس نے پوری بائبل (از پیدائش تا مکاشفہ) کا ایک زبان سے دوسرے زبان میں ترجمہ کیا۔ آج تک پوری تاریخِ کلیسا میں وہ واحد خاتون ہیں جنھوں نے اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا۔</p> <p>ن کا انتقال ۵ اپریل ۱۹۲۲ئ کو ۶۴ سال کی عمر میں ہوا۔ ۱۹۱۹ئ میں برطانوی حکومت نے ان کی اپنی کمیونٹی کے لیے خدمات کے صلے میں ”قیصرِ ہند“ کا خطاب دیا اور ۲۶ اکتوبر ۱۹۸۹ئ میں ہندوستانی عورتوں کی ترقی میں ان کی خدمات کے اعتراف میں ہندوستان کی حکومت نے ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا۔ </p> </section> </body>
0037.xml
<meta> <title>ابنِ سینا کا ”مردِپرّاں“ سیاق و سباق میں</title> <author> <name>مائیکل مارمورا</name> <gender>Male</gender> </author> <translator> <name>محمد عمر میمن</name> <gender>Male</gender> </translator> <publication> <name>Bunyad, Volume 4</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/19_maical_marmoora_bunyad_2013.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> <original-language>English</original-language> </publication> <num-words>4820</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
ابنِ سینا کا ”مردِپرّاں“ سیاق و سباق میں
4,820
Yes
<body> <section> <heading>مقدمہ</heading> <p>اسلامی فلسفی ابن سینا(وفات:۱۰۳۷) کی نفسیات سے متعلق نگارشات اس لحاظ سے قابل ذکر ہیں کہ ان میں وہ ایک ہوا میں معلق آدمی - ”مردِپرّاں“ - کی فرضی مثال دیتا ہے۔ یہ مثال، جس نے لاطینی علم کلام <annotation lang="en">(Latin scholastics)</annotation> پر اپنا نقش چھوڑا تھا، اور اب جدید محققین کی توجہ اپنی طرف منعطف کرا رہی ہے، ابن سینا کی نگارشات میں تین بار ظاہر ہوتی ہے، ایسے سیاق وسباق میں جو ایک دوسرے سے قریبی نسبت رکھتے ہیں لیکن بعینہٖ مماثل نہیں۔ اپنے تیسرے ظہور میں، جو اس کا خلاصتی قالب <annotation lang="en">(condensed version)</annotation> ہے، یہ تصور سے عمومی طور پر روشناس کراتی ہے۔ یہ فعلاً یہ بتاتی ہے کہ اگر آپ اپنی ’شے‘ <annotation lang="en">(‘entity’)</annotation>، ’فردیت‘ <annotation lang="en">(‘person’)</annotation>، ’ذات‘ <annotation lang="en">(‘self’)</annotation> (ذَاتَک) کا تصور اس طرح کریں کہ یہ پیدائش سے مکملاً بالغ تخلیق کی گئی ہے، ذہن اور جسم دونوں اعتبار سے بالکل صحیح سلامت ہے، لیکن معتدل ہوا میں اس طرح معلق ہے کہ یہ ’ذات‘ <annotation lang="en">(‘self’)</annotation> اپنے جسم اور طبعی عوارض سے کلی طور پر غیر آگاہ ہے، ”تو آپ دریافت کریں گے کہ یہ ہر شے سے غیر آگاہ ہو گی سواے اپنے انفرادی وجود(اَنَّیَتِھا) کے استحکام (ثبوت) کے۔</p> <p>ابن سینا اس فرضی مثال سے جو دکھانا چاہتا ہے وہ اتنا واضح نہیں ہے جتنا بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے۔ اول تو ان کرداروں کو ہی لیں جو ’مردپرّاں‘ اپنی تینوں رونمائیوں میں انجام دیتا ہے، جو ہر چند قریبی نسبت رکھنے اور ایک دوسرے کا تکملہ ہونے کے باوجود مماثل نہیں ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور بر محل ابن سینا کے متون کی پیچیدگی ہے، زبان اور خیال دونوں اعتبارات سے۔ متون میں ’مردپرّاں‘ اور اس میں شامل یا اس سے متعلق دلائل غیر محقق ہیں۔</p> <p>لیکن ساری دشواریوں کے باوجود یہ مثال اپنے مصنف کی نو افلاطونی ’نفس۔ جسم‘ کی ثنویت <annotation lang="en">(Neoplatonic soul-body dualism)</annotation> کی آئینہ دار ہے۔ مثال کے تینوں قالب <annotation lang="en">(versions)</annotation> پراس لحاظ سے متوجہ ہونے سے قبل کہ ان کی نوعیت کا واضح اندازہ کیا جا سکے، بہتر ہوگا کہ اس کے دیگر - خاص طور پر قرونِ وسطائی اسلامی - نفسیاتی نظریوں سے تعلق کی بابت کچھ ملاحظات پیش کر دیے جائیں جن سے ہو سکتا ہے کہ اسے اپنے تاریخی گردو پیش میں متمکن کرنے میں مدد مل سکے۔ اس مثال اور کارٹیزین <annotation lang="en">cogito</annotation> کے درمیان پائی جانے والی مشابہتوں پر محققین نے بحث کی ہے۔ یہ خیال کہ ہمیں اپنے انفرادی وجود کا بالکل یقینی شعور ہوتا ہے ان باتوں میں سے ایک ہے جو اس مثال میں باطنی طور پر موجود ہے۔ یہ خیال جیسا کہ ہم آگے چل کر دیکھیں گے، ابن سینا کے متناقض <annotation lang="en">(paradoxical)</annotation> عقیدے کا حصہ ہے جس کی رو سے ہمیں اپنی انفرادی ذات کے وجود کا مسلسل، بے حد قریبی شعور ہوتا ہے۔</p> <p>اس کے باوجود کہ ہم اس [حقیقت] سے آگاہ نہ ہوں۔ بہر حال یہاں اولین سروکار نفسیات سے ہے، مابعد الطبیعیات سے نہیں۔ اس مثال میں ابن سینا اپنے وجود کے یقینِ محکم کا متلاشی نہیں کہ ایک مقدمے کی حیثیت سے اس پر کسی فلسفیانہ نظام کی بنا رکھ سکے۔ اس کا مابعد الطبیعیاتی نقطۂ آغاز ’شبہ‘ نہیں ہے، بلکہ یہ یقین کامل ہے ”کہ یہاں وجود ہے“۔</p> <p>کہ ہمیں اپنے انفرادی وجود کا یقینی علم ہوتا ہے وہ نظریہ ہے جو اسلامی نظری اہلِ دینیات، یعنی مُتَکلِّمون، کے یہاں بھی عام طور پر رائج تھا۔ کلامکے دونوں متصادم مذاہب، معتزِلۃ اور اَشَاعِرۃ اس نظریے کے قائل تھے۔ وہ وجودِ ذات کے گیان کو ان معرفتوں میں شمار کرتے تھے جو ’ناگزیر/ ضروری‘ یا ’لازمی‘ تھیں۔ دوسری طرف ابن سینا ذات کی بابت اس عقیدے کا مخالف تھا جس کے عَلم بردار یہ عالمِ دینیات تھے، لیکن اس لیے نہیں کہ یہ حضرات اس کے قائل تھے کہ ہمیں اپنے وجود کا علم بے شک و شبہ ہوتا ہے۔ ابن سینا کا اُن سے اختلاف ’ذات‘ کی نوعیت کے مسئلے کی بابت تھا، یا - جس پیرائے میں اس مسئلے کو بعض اوقات بیان کیا گیا ہے - ضمیرِ متکلم ’میں‘ کے مرجع کی بابت۔ کیا یہ ’غیرمادّی نفسِ عقلی‘، تھا، جس کا ابن سینا حامی تھا، یا کوئی ـ ’مادّی شے‘، جس کے عالمِ دینیات اور دوسرے مسلمان دعویدار تھے؟ سو ابن سینا کے نفسیات پر رسائل میں سے مختصر ترین رسالے کا آغاز مندرجہ ذیل الفاظ میں ہوتا ہے:</p> <blockquote> <p>ہم کہتے ہیں: ’نفس‘ <annotation lang="en">(the soul)</annotation> سے جو مرادلی جاتی ہے وہ وہ ہے جس کی طرف ہم میں سے ہر ایک اپنے قول ’مَیں‘ میں رجوع کرتا ہے۔ محققین اس میں اختلاف کرتے ہیں کہ یہ مرجع آیا یہی جسم ہے جو حواس مشاہدہ اور تجربہ کرتے ہیں، یا چیزِ دیگر ہے۔ جہاں تک اول الذکر [متبادل] کا تعلق ہے، بیشتر افراد اور متکلمون کا خیال ہے کہ انسان یہی جسم ہے اور ہر کس جب ’مَیں‘ کہتا ہے تو اس کا مرجع یہی ہوتا ہے۔ یہ غلط عقیدہ ہے جیسا کہ ہم دکھائیں گے۔</p> <p>یہاں یہ واضح کر دینا چاہیے کہ متکلمین کی بھاری اکثریت ذَرِّیت پسند <annotation lang="en">(atomist)</annotation> تھی، نفسِانسانی کے مادّی تصور کی حامل۔ یقینا ان میں استثنیات اورتنوعات بھی تھے۔ مثلاً معتزلی النظام (وفات: ۸۴۵) ذَرِیت <annotation lang="en">(atomism)</annotation> کا انکاری تھا۔ وہ اس کا قائل تھا کہ نفس ایک نہایت لطیف مادّی جو ہر <annotation lang="en">(subtle material substance)</annotation> ہے جو سارے جسم میں بکھرا ہوا ہے، اور اسے جِلا بخشتا ہے۔ البتہ نویں صدی کا ایک اور معتزلی، معمّر (وفات:۸۳۵)، ذَرِّیت کا انکاری تو نہیں تھا، لیکن یہ عقیدہ رکھتا تھا کہ انسانی نفس غیر مادّی ہے، روحانی ذرّہ ہے۔ تاہم زیادہ تر متکلمین ذرّیت اور مادیت کے قائل تھے۔ وہ یا تو اس عقیدے کے پیرو تھے کہ نفس انفرادی مادّی ذرّہ ہے جس سے زندگی، ایک آنی جانی عارضے کی حیثیت سے، منسلک ہو جاتی ہے، یا پھر اس عقیدے کے حامی تھے کہ نفس اور زود گزر عارضہ، زندگی، جو ایک نامیاتی جسم سے منسلک ہو جاتا ہے، ایک ہی شے ہیں۔</p> </blockquote> <p>نفس کی بابت نسبتاً زیادہ روایتی اسلامی عقیدہ نویں صدی کے النظام سے مطابقت رکھتا ہے۔ تو گویا اب زندگی کا مطلب نفس اور جسم کا اتصال ٹھہرا۔ نفس لطیف مادّہ ہے جو پورے جسم میں پھیلا ہوتا ہے اور اسے زندگی بخشتا ہے۔ موت نفس کا جسم سے انفصال ہے۔ نفس، مادّی جو ہر ہونے کے باوجود، جاوداں ہے اور قیامت کے دن جسم سے دوبارہ ضم ہو جائے گا۔ چودھویں صدی کے ابن قّیم الجوزیہ (وفات: ۱۳۵) نے اس روایتی تصور کا خلاصہ پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسانی نفس ”حواس سے متصف جسم سے باعتبار ماہیت(الماھِیّۃ) <annotation lang="en">(quiddity)</annotation> مختلف ہے، اس طرح کہ یہ ایک نورانی، ارفع، لطیف، زندہ اور متحرک جسم ہے۔ یہ اعضاے جسم کے مادّے میں نفوذ کرتا ہے اور وہاں اسی طرح جاری و ساری ہوتا ہے جس طرح گلابوں میں پانی، زیتونوں میں روغن اور کوئلوں میں آگ۔“</p> <p>ابن سینا نفس کے اس روایتی عقیدے کا بھی مخالف ہے۔ لطیف مادّے کی حیثیت سے نفس کا یہ تصور خود اس کی اس چیز سے لائق ذکر مشابہت رکھتا ہے جس کا تصور وہ الروح <annotation lang="en">(spirit)</annotation> کے طور پر کرتا تھا، یعنی ’جسم لطیف‘ جو زندہ جسم میں سرایت کرتا ہے، اور نباتاتی اور حیوانی نفس <annotation lang="en">(soul)</annotation> کی زیریں سطح (اساس /بنیاد) <annotation lang="en">(substratum)</annotation> کا کردار انجام دیتا ہے۔ نفس مادی شے ہے اور، ابن سینا کے تئیں، جو شے مادّی ہو(ارضی اقلیم میں) فساد پذیر <annotation lang="en">(corruptible)</annotation> ہوتی ہے۔ اس کے بر خلاف، نفسِ عقلی <annotation lang="en">(rational soul)</annotation> غیر مادّی ہے اور اسی لیے جاو داں بھی۔ ابن سینا کا ’مردِپرّاں‘، جیسا کہ ہم دیکھیں گے، منجملہ دیگر باتوں کے، اسی نفس کی غیر مادیت - اور ضمناً - اس کی غیرفانیت کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔</p> <heading>۱۔ مثال کا اولین قالب <annotation lang="en">(Version)</annotation></heading> <p>مردپرّاںٗکا پہلا قالب <annotation lang="en">(Psychology, I, 1)</annotation> میں واقع ہوتا ہے۔ اس نہایت پیچیدہ جحج اور دلائل کے مرقع باب کا مقصد - جس کا مدعی خود اس کا سرنامہ ہے - نفس، ’جہاں تک کہ یہ نفس ہے‘، کے وجود کا قیام اور تعین ہے۔ ’جہاں تک کہ یہ نفس ہے‘ کے فقرہ سے یوں ظاہر ہوتا ہے جیسے یہاں ابن سینا کا سروکار نفس کے جوہر <annotation lang="en">(essence)</annotation> اور ماہیت <annotation lang="en">(quiddity)</annotation> سے ہے۔ لیکن ایسا نہیںہے۔ یہاں اس کا سروکار صرف نفس کے جسم کے ساتھ فعلی تعلق سے ہی ہے، ایسا تعلق جو، وہ بار بار بتاتا ہے، ماہیت سے مختلف ہے اور جو وجود کے زمرے <annotation lang="en">(category)</annotation>، جیسے جوہر، جس سے نفس وابستہ ہے، کو اجاگر نہیں کرتا۔</p> <p>مثال کے طور پر، وہ اس کا بیان اس باب کے آغاز میں ہی کر دیتا ہے جہاں اس نے ارسطاطالیسی مفہوم میں نفس کے وجود کے حق میں بحث کی ہے۔:نامیاتی اجسام کے مشاہدے میں آنے والے ذی روح افعال ان کی خالص جسمیت کے باعث نہیں ہو سکتے، بلکہ ان اصولوں [محرکات] <annotation lang="en">(principles)</annotation> کے باعث ہی ہو سکتے ہیں جو خود ان میں اندرونی [جوہری] طور پر موجود ہیں۔ ”ایسے افعال - جن کے اجرا کا محرک خواہ کچھ بھی ہو - جو ایسے یکساں نمونے کے نہیں جوارادے <annotation lang="en">(volition)</annotation> کی نفی کرتا ہو، نفس“ اسی کا نام ہے۔ وہ کلام جاری رکھتا ہوئے مزید کہتا ہے، ”یہ اس چیز کا نام ہے، اس اعتبار سے نہیں کہ یہ جوہر <annotation lang="en">(substance)</annotation> ہے، بلکہ کسی تعلق کے اعتبار سے جو اسے ہے۔“ باردگر، ایک طویل کلام کے دوران، جس میں وہ وجودِ کامل <annotation lang="en">(entelechy)</annotation> اور صورت <annotation lang="en">(form)</annotation> کے درمیان امتیاز قائم کرتا ہے (”ہر صورت ایک وجودِ کامل ہے لیکن ہر وجودِ کامل صورت نہیں“) اور جہاں وہ اس کا مدعی ہے کہ نفس کا حوالہ دینے کے لیے ’صورت‘ نہیں بلکہ ’وجودِ کامل‘ زیادہ جامع اصطلاح ہے۔ رقم طراز ہے:</p> <blockquote> <p>یہ جان لینے کے بعد کہ نفس ایک وجود کامل ہے،...، ہم ہنوز یہ نہیں جانتے کہ نفس اور اس کی ماہیت کیا ہے، ہم نے تو صرف نفس کو من حیث نفس ہی جانا ہے۔ اس پر ’نفس‘ کی اصطلاح کا اطلاق بحیثیت جوہر نہیں ہوتا، بلکہ اس حیثیت سے کہ یہ اجسام پر فرمانروائی کرتا ہے اور ان سے نسبت رکھتا ہے۔... حقیقت یہ ہے کہ ہمیں نفس کے جوہر کو سمجھنے کے لیے ایک علاحدہ تفتیش کرنی ہو گی۔</p> </blockquote> <p>’وجودِ کامل‘ پر مزید بحث کرنے کے بعد، جو ارسطاطالیسی تعریف کی طرف ہماری قیادت کرتی ہے‘ جس کی رو سے نفس ایک جیتے جاگتے‘ فعال طبعی عضو کا اولین ’وجودِ کامل‘ ہے، اور اس تعریف کے واحد معنی میں دونوں ارضی اور سماوی نفوس پر اطلاق کی دشواری پر بحث کرنے کے بعد، ابن سینا ایک آخری یاد دہانی کراتا ہے کہ نفس کی اس عقلی حد/ تعریف <annotation lang="en">(rational definition of the soul)</annotation> سے ماہیت مراد نہیں۔ اس یاد دہانی کے ساتھ ’مردِپرّاں‘ کے لیے وقف باب کا آخری حصہ متعارف کرایا جاتا ہے:</p> <blockquote> <p>اب ہم نے اس اسم کا معنی جان لیا جس کا اس چیز پر اطلاق ہوتا ہے جو اصطلاحاً نفس اس لیے کہلاتا ہے کہ وہ ایک نسبت کا حامل ہے۔ اب ہمیں سزا وار ہے کہ خود کو اِس شے کی ماہیت کو گرفت میں لانے کے لیے لگائیں جو مندرجہ بالا ملا حظات کے ذریعے نفس کہلائی گئی ہے۔ </p> <p>ابن سینا بیان جاری رکھتا ہے:</p> <p>یہاں ہمیں لازم ہے کہ تنبیہ اور تذکیر [یاد دہانی] کے ذریعے نفس کا اثبات کریں، ایک ایسااشارہکریں جو کسی ایسے پر شدید اثر انگیزی کا حامل ہو جو بذاتہ حقیقت کے ملاحظے کی قدرت رکھتا ہو، جسے سکھانے، مسلسل اکسانے، اورسو فسطائی خطائوں میں بھٹکنے سے بچانے کی ضرورت نہ ہو۔</p> </blockquote> <p>’مردِپرّاں‘ کی مثال اس بیان کے فوراً بعد آتی ہے۔ مثال پر متوجہ ہونے سے پہلے ضروری ہے کہ مندرجہ بالابیان پر غور کرنے کے لیے کچھ توقف کر لیا جائے، جو مثال کے اولین (اور سب سے زیادہ مشکل آفریں)قالب کی تفہیم کے لیے کافی بنیادی ہے۔ بیان، اگرچہ وضعی اعتبارسے <annotation lang="en">(structurally)</annotation> غامض) اور ترجمے کے اعتبار سے دشوار (ہے، تاہم اپنے مقصد کے اظہار میں - یہی کہ ’تنبیہ‘ اور ’تذکیر‘ کے ذریعے نفس کے وجود کا اثبات کیا جائے - بالکل صاف و سادہ ہے۔ </p> <p>لیکن ’تنبیہ‘ اور ’تذکیر‘ سے ابن سینا کا کیا منشا ہے؟ <annotation lang="en">Psychology, V, 7</annotation> سے اس کے معنی پر کسی قدر روشنی پڑتی ہے جہاں وہ مختلف نفسیاتی نظریوں کی خوشہ چینی اور تردید کرتا ہے۔ اِن میں سے دو ’تنبیہ‘ اور ’تذکیر‘ سے متعلق ہیں۔ پہلانظریہ اس کا مدعی ہے کہ نفسِ انسانی اپنی فطرت میں تمام اشیا سے آگاہ ہے: ادراک اور تعقل کے فعل اسے صرف اس علم سے متنبہ کرتے ہیں جو خود اس میں پہلے سے موجود ہے لیکن جس سے وہ غافل ہو گیا تھا۔ دوسرا نظریہ بھی اسی کا قائل ہے کہ نفس تمام اشیا کا علم رکھتا ہے، لیکن یہ علم وہ ہے جو اس نے ’پہلے‘ کبھی حاصل کیا تھا۔ ابن سینا اس نظریے کا تشخص نہیں کرتا، لیکن بظاہر افلاطونی نظریۂ یاد آوری <annotation lang="en">(Platonic theory of reminiscence)</annotation> اس کا واضح امیدوارمعلوم ہوتا ہے۔ بہر کیف، علم یاد آوری ہے، ادراک اور تعقل کے افعال اس چیز سے متنبہ کرتے ہیں جو پہلے سے جانی ہوئی ہے۔</p> <p>ابن سینا کا فلسفیانہ نظام ان دونوں میں سے کسی نظریے کی گنجائش نہیں رکھتا اور وہ انھیں اور ان کے اس دعوے کو رد کر دیتا ہے کہ نفس اپنے اندر، گویا کہ، ’تمام‘ اشیا کا علم رکھتا ہے۔ لیکن وہ اس اندازِ نظر کو رد نہیںکرتا کہ نفس اپنی فطرت میں خود آگا ہی کا حامل ہے۔ ’مردِپرّاں‘ کے تیسرے قالب کا اصلی منشا، جیسا کہ ہم دیکھیں گے، یہ بیان اور واضح کرنا ہے کہ نفس مسلسل خود آگاہ ہے۔ ’فطری‘ خود آگاہی <annotation lang="en">(‘natural‘ self knowledge)</annotation> کی ایک اور مثال التعلیقات میں واقع ہوتی ہے، جو ابن سینا کے ان ملاحظات پر مشتمل ہے جو اس نے اپنے شاگرد بہمن یار کو املا کرائے تھے: </p> <blockquote> <p>نفسِ انسانی [اس طرح مرتب ہوا ہے کہ] فطری طور پر موجودات <annotation lang="en">(existents)</annotation> سے آگاہ ہے۔ ان میں سے بعض کو فطری طور پر جانتا ہے؛ بعض دوسروں سے اسے یہ قدرت ملتی ہے کہ وہ ان سے بذریعۂ تحصیل آگاہ ہو جائے۔ وہ جو اس کے لیے فطری طور پر حاصل کیا جاتا ہے، وہ اس کے لیے فعلاً اور ہمیشہ کے لیے گرفت میں آ جاتا ہے۔ چنانچہ اس کی خود آگاہی فطری طور پر ہوتی ہے، کہ یہ اسی کا ایک ترکیبی جز ہے اور ہمیشہ کے لیے اور فعلاً اس کی ملکیت ہوتا ہے۔ اس کی یہ آگہی کہ خود آگاہ ہے تحصیلاً ہوتی ہے۔ </p> </blockquote> <p>اس تصنیف میں ابن سینا بہت زیادہ وضاحت سے کام نہیں لیتا: وہ اس کی تشریح نہیں کرتا کہ اپنی ذات سے ہمیشہ آگاہ ہوتے ہوئے بھی کوئی اس آگہی کی آگہی کی ’تحصیل‘ آخر کیسے کرتا ہے۔ مقام آخَر پر وہ اسی سے متعلق سوال - کہ کوئی اپنی ذات (اور اس کی غیر مادّیت) کو جاننے کی کیوں جستجو کرے جب اسے پہلے سے ہی یہ علم ہے - کا جواب پیش کرتا ہے۔ <annotation lang="en">Psychology, V, 7</annotation> میں رقم طراز ہے: </p> <blockquote> <p>بات یہ نہیں ہے کہ اگر آپ [ذات کے] وجود کی جستجو کر رہے ہیں اور یہ غیر جسمانی ہے، تو اس لیے آپ اس سے مطلقاً مفہوم میں لا علم ہیں۔ بلکہ [معاملہ یہ ہے کہ] آپ اس سے غافل ہیں۔ بیشتر موقعوں پر کوئی چیز بالکل سامنے ہوتی ہے تاہم آدمی اس سے غافل ہوتا ہے۔[اس صورت میں] یہ نا معلوم کی حدود میں آ جاتی ہے اور اس کی نسبتاً زیادہ دور افتادہ مقام سے جستجو کی جاتی ہے۔ اکثر یہ جاننا کہ یہ قریب ہی ہے ’تنبیہ‘ کے زمرے میں آتا ہے۔</p> </blockquote> <p>چلیے اب اس بیان کی طرف لوٹتے ہیں‘ جو ’مردِپرّاں‘ کے اولین قالب سے فوراً پہلے آتا ہے۔ اس میں صاف لفظوں میں کہا گیا ہے کہ جو آرہا ہے اس کا مدعا ”نفس کے وجود کا ثبوت“ ظاہر کرنا ہے۔ ”...تنبیہ اور تذکیر کے ذریعے، ایک ایسااشارہ جو کسی ایسے پر شدید اثر انگیزی کا حامل ہو جو بذا تہٖ حقیقت کے ملاحظے کی قدرت رکھتا ہو۔“ پہلا قالب حسب ذیل ہے۔</p> <blockquote> <p>ہم کہتے ہیں: ہم میں کا کوئی یہ تصور کرے کہ جیسے وہ یکبارگی پیدا ہوا ہے اور کامل پیدا ہوا ہے، لیکن اس کی بینائی کو خارجی اشیا کے مشاہدے سے ڈھک دیا گیا ہے، اور وہ ہوایا خلا میں اس طرح گرتا ہوا [معلق] پیدا ہوا ہے کہ اسے ہوائی مزاحمت کا سامنا در پیش نہیں ہے، جس کے باعث اسے محسوس کرنے کی ضرورت ہو، اور اس کے اعضا باہم اس طرح منفصل ہیں کہ نہ ان کا ایک دوسرے سے ملاپ ہوتا ہے اور نہ وہ ایک دوسرے کو چھو سکتے ہیں۔ اب وہ یہ غور کرے کہ آیا وہ اپنی ذات(ذاتہ) کے وجود کا اثبات کرے گا۔</p> <p>وہ اپنی ذات کے وجود کا اثبات کرنے میں کوئی شک نہیں کرے گا، لیکن ساتھ ہی وہ اپنے اعضا میں سے کسی کا اثبات نہیں کرے گا، نہ داخلی اعضا کا، جیسے قلب یا دماغ، یا کسی خارجی شے کا۔ اس کے برعکس، وہ صرف اپنی ذات ہی کا اثبات کرے گا، بغیر اس کے حق میں طول، عرض اور عمق کا اثبات کیے۔ اب اگر اس حالت میں وہ ہاتھ یا کسی اور عضو کا تصور کر سکے، تو وہ اس کا تصور اس طرح نہیں کرے گا کہ یہ اس کی ذات کا حصہ ہے یا اس [ذات] کے وجود کی شرط ہے۔ </p> <p>آپ جانتے ہیںکہ جس کا اثبات ہو رہا ہے وہ اس سے مختلف ہے جس کا اثبات نہیں ہو رہا ہے اور جس کا اقرار ہو رہا ہے(المقربہٖ) وہ وہ نہیں جس کا اقرار ہو رہا ہے۔ چنانچہ وہ ذات جس کے وجود کا اثبات اس نے کیا ہے بنفسہٖ اس کی ذات ہونے کی خاصیت(خاصِّیۃ) کی حامل ہے، اور اس کے جسم اور اعضا سے مختلف ہے جن کا اثبات نہیں ہوا ہے۔</p> <p>نتیجتاً اثبات کرنے والے(المُثبِت) کے پاس نفس کے وجود سے اس طرح متنبہ ہو جانے کا(یَتَنبّہ)ذریعہ ہے(لہ سبیل) کہ یہ جسم سے مختلف کوئی شے ہے - ہاں بالکل، جسم سے مختلف - اور [اس وجود سے] براہ راست واقف (عارف) اور آگاہ ہونے کا۔ اگر وہ اس سے غافل ہے، تو اسے آموزشی شہ دلانے کی ضرورت ہے۔</p> </blockquote> <p>آخری پارے میں یہ نکتہ کھل کر سامنے آ گیا ہے کہ ابن سینا ہم سے جس تصوری اور فکری کارروائی کا طالب ہے وہ انتہاے کار ہمیں ہماری غیر مادّی ذات کے تجرباتی علم سے متنبہ کرتی ہے۔ زیادہ صراحت کے ساتھ، یہ بیان کیا گیا ہے کہ مثال میں جو اپنے جسم کا اثبات کیے بغیر اپنے وجود کا اثبات کر رہا ہے(المُثبِت)، ’اس کے پاس‘ ذات کے غیر مادّی ہونے اور بعد ازاں اس غیر مادّی وجود کے تجرباتی علم سے ’متنبہ ہو جانے‘ کا (اَن یَتَنبّہ) ’ذریعہ‘ ہے (لہ سبیل)۔ (یہاں عارف کی اصطلاح کا استعمال، جو فعل عَرَفَ کا اسم فاعل ہے، کافی اہم ہے۔) ابن سینا کی زبان میں(اور اسلامی اہلِ تصوف کے یہاں بھی) ’جاننا‘ [عَرَفَ] تجرباتی، قریبی علم، یعنی ’معرفت،‘ کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔) دوسرے لفظوں میں، یہاں ہمیں ’جاننے‘ کے دو مرحلے دریافت ہوتے ہیں۔ پہلا یہ جاننا ہے کہ ذات غیر مادّی ہے، اور اس کی قیادت میں دوسرا یہ کہ کسی کی ذات کا اس اعتبار سے تجرباتی علم کہ یہ ایک غیر مادّی شے <annotation lang="en">(entity)</annotation> ہے۔</p> <p>جب ابن سینا ذات کو اس علم سے متنبہ کرنے کی ’سبیل‘ [ذریعے] کا ذکر کرتا ہے، تو وہ اس سے فوری قبل کے پارے میں پیش کردہ حجت کا حوالہ دے رہا ہوتا ہے جس کا مندرجہ ذیل خلاصہ یہ ہو گا:مثال کی صورتِ حال میں ذات طبیعیت اور جسمیت <annotation lang="en">(physical and the bodily)</annotation> سے کلیتاً غیر آگاہ ہوتے ہوئے بھی اپنے وجود کا شعور رکھتی ہے، اور اس پر شک نہیں کرتی۔ چنانچہ وہ جسم کے وجود کا اثبات کیے بغیر اپنے وجود کا اثبات کرتی ہے۔ لیکن چونکہ جس کا اثبات کیا گیا ہے وہ اس سے مختلف ہے جس کا اثبات نہیں کیا گیا، تو وہ ذات جس کے وجود کا اثبات کیا جا رہا ہے جسم نہیں ہے۔</p> <p>بایں ہمہ، یہ حجت جو ’مردِپرّاں‘ کے پہلے قالب کے لیے مرکزی حیثیت کی حامل ہے‘ مسئلہ ساز ہے۔ یہ ایک تخیلی، مفروضہ نظام کے اندر ہی کارپر داز ہے اور اسی لیے آدمی اس کے نتیجوں کو بھی مفروضہ اوربدون اعتماد [احتمالی] ہونے کی توقع کرتا ہے۔ لیکن یہاں ایک بے ضرورت انحراف مفروضہ سے قطعیت کی طرف واقع ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے نتیجے کی زبان قاطع ہے۔ کہ خود ابن سینا کا منشا یہی تھا کہ یہ نتیجہ قاطع ہو، تو وہ مثال کے بقیہ دونوں قالبوں سے بھی عیاں ہے۔ اس تعلق سے یہ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ابن سینا کی منطق پر نگارشات میں ایسے موقعے آتے ہیں جہاں وہ قطعی مقاصد کے لیے اس سے ملتی جلتی فرضی مثال استعمال کرتا ہے۔ چنانچہ وہ رقم طراز ہے کہ اگر کوئی شخص کامل بالغ اور عاقل پیدا ہوتا ہے اور کبھی دیگر انسانوں اور انسانی اداروں سے کوئی سابقہ نہیں پڑا ہوتا، پھر اس کا سابقہ کسی قبول عام اخلاقی قول اور فی نفسہٖ عیاں منطقی صداقت سے ہوتا ہے، تو وہ اول الذکر کے بارے میں تو شبہ کر سکتا ہے، لیکن ثانی الذ کر کے بارے میں نہیں۔ یہ مثال یہاں خود آشکاریت کے معیار کے طور پر پیش کی گئی ہے۔ مزید، یہاں یہ مثال طبعی علم کی تعریف کے لیے استعمال ہوئی ہے۔ اس کے بیان کے مطابق یہ وہ علم ہے جو کسی ایسے شخص کو جو مکملاً بالغ اور عاقل حالت میں پیدا ہوا ہواور جس کا کسی انسان سے اتصال نہ ہوا ہو مہیا ہو گا۔</p> <p>مزید براں، یہ حجت مختلف فیہ ہے۔ اب ہمارا سامنا ان مفروضوں سے ہوتا ہے جو شاید یہ واضح کر سکیں کہ ابن سینا اس کے نتائج کس طرح قطعیت کے ساتھ برتتا ہے۔ جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے، وہ اس کا قائل ہے کہ ذات اپنا فطری اور مسلسل علم رکھتی ہے۔ ’مردِپرّاں‘ کے تیسرے قالب میں، جیسا کہ ہم دیکھیں گے، وہ اس کی وضاحت کرتا ہے۔ بشر طے کہ ذات ”کسی چیز کو صحیح طور پر پہچان“ سکے، تو پھر احوال خواہ کچھ بھی ہوں، اسے اپنی ذات کا یہ مسلسل علم میسر ہو گا۔ ابن سینا ان احوال میں جن میں ذات ہنور ”کسی چیز کو صحیح طور پر پہچان” سکتی ہے، اس کے طبیعیت اور جسمیت سے مکملاً غیر آگاہ ہونے کی حالت کو شامل کرتا ہے، جس کی مثال ’مردِپرّاں‘ ہے۔ لیکن ایک بار جب وہ اسے شامل کر لیتا ہے، تو وہ پہلے سے ہی اسے بذاتہٖ ایک امرِ مثبوتہ فرض کر رہا ہوتا ہے، ایک غیر مادّی ذات جو خود آگہی کی صلاحیت رکھتی ہے، اس حالت میں کہ وہ جسم اور ہر طبیعی شے سے مطلقاً غافل ہے۔</p> <p>بہر کیف، یہاں ہمارا سروکار اس حجت کے ضعف سے اتنا نہیں جتنا اس کردار سے ہے جو یہ [’مردِپرّاں‘] کی تمثیل میں انجام دیتی ہے۔ جیسے پہلے سرسری طور پر اشارہ کیا جا چکا ہے، یہاں حقیقت میں ایک نہیں بلکہ دو وظیفے انجام دیے جا رہے ہیں۔ پہلا یہ ثابت کرنا ہے کہ نفس غیر مادّی ہے؛ اور یہ جتاتے ہوئے دوسرا یہ کہ نفس کو اپنے غیر مادّی شے ہونے کے تجرباتی علم کے لیے بیدار کیا جائے۔ چونکہ حجت کا حاصل، یہی کہ نفس غیر مادّی ہے، اس تجرباتی علم سے مطابقت رکھتا ہے جس کا خود محرک ہے، دونوں ہم رشتہ وظیفوں کے درمیان امتیاز، گویا کہ، آسانی سے دھندلا جاتا ہے۔</p> <heading>۲۔ دوسرا قالب</heading> <p>یہ قالب جو بہت مختصر ہے، <annotation lang="en">Psychology, V, 7</annotation> میں وارد ہوتا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے، یہ وہ باب ہے جس میں ابن سینا متعدد نفسیاتی نظریوں کی نکتہ چینی اور تردید کرتا ہے۔ ان میں سے ایک یہ نظر یہ ہے کہ نفس انسانی واحد شے <annotation lang="en">(entity)</annotation> نہیں ہو سکتا، کہ نباتاتی، حیوانی اور عقلی نفس اعدادی اعتبار سے تین جدا گانہ نفس ہیں۔ اس نظریے کے رد میں میں وہ دو نکتوں پر بحث کرتا: ۱:-کہ مختلف نفسیاتی صلاحیتیں ایسی شے کی مقتضی ہیں جو انھیں وابستہ اور متحد کر سکے؛ ۲:-کہ یہ وابستہ کرنے والی شے جسمانی نہیں ہو سکتی بلکہ اسے غیر مادّی نفسِ عقلی ہونا چاہیے۔ دوسرے نکتے پر بحث و تمحیص کے دوران، ’مردِپرّاں‘ بارد گر ظہور کرتا ہے، اور یہاں ایک ہم رشتہ لیکن مختلف کردار انجام دیتا ہے، جو اس وظیفے سے مختلف ہے جو اس نے اپنے پہلے ظہور میں ادا کیا تھا۔</p> <p>ابن سینا استدلال کرتا ہے کہ نفسیاتی صلاحیتوں کو باہم دگر کرنے کے لیے کوئی شے ناگزیر ہے، جو ان سے اس طرح وابستہ ہوتی ہے جس طرح ارسطاطالیسی عام سمجھ بوجھ <annotation lang="en">(common sense)</annotation> مختلف حواس سے۔ حسیاتی <annotation lang="en">(sensory)</annotation> افعال مشتہی اور غصیلے <annotation lang="en">(appetitive and irascible)</annotation> افعال سے مختلف ہوتے ہیں۔ تاہم ان صلاحیتوں میں تفاعل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ”جب ہم نے محسوس کیا، ہم نے خواہش کی،“ اور ”جب ہم نے فلاں بات دیکھی، ہمیں غصہ آیا“ جیسے مبنی بر حقیقت بیانات دے سکتے ہیں۔ ہم ایسی حقیقی باتیں اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ کوئی شے ہے جو ان مختلف صلاحیتوں کو ایک دوسرے سے وابستہ اور منسلک کرتی ہے۔ یہ شے، ابن سینا بیان کو ختم کرتے ہوئے کہتا ہے، ”وہی ہے جسے ہم میں سے ہر کس اپنی ذات محسوس کرتا ہے۔“</p> <p>یہ دکھانے کے لیے کہ یہ وابستہ کرنے والی شے غیر مادّی نفسِ عقلی ہے‘ ابن سینا تین دلیلیں پیش کرتا ہے۔ پہلی اور مختصر ترین دلیل یہ ہے کہ جسم من حیث الجسم یہ وابستہ کرنے والی شے نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس صورت میں ہر جسمانی شے یہ کام سر انجام دے سکے گی، اور فی الواقع ایسا نہیں ہے۔ دوسری دلیل ہمیںایک پیشین باب کی طرف لوٹالاتی ہے جہاں ابن سینا نے بڑی طویل حجتوں سے دکھایا ہے کہ وہ صلاحیت جو مجرد معقولات <annotation lang="en">(abstract intelligibles)</annotation> قبول کر سکتی ہے لامحالہ غیر مادّی ہی ہو سکتی ہے۔ اس طرح کم از کم ایک انسانی نفسیاتی صلاحیت غیر مادّی ہے۔ اب یہ وابستہ کرنے والی شے، وہ استدلال کرتا ہے، وہی ہے جس سے بقیہ نفسیاتی صلاحیتوں پر قدرت کا فیض [صدور] ہوتا ہے۔ یہ شے مادّی نہیں ہو سکتی کیونکہ مادّہ فیض [صدور] کا سرچشمہ نہیں، بلکہ اس کا قبول کنندہ ہے۔ تیسری دلیل طویل ترین ہے۔ یہ ’مردِپرّاں‘ سے متعارف کراتی ہے۔</p> <p>اگر کوئی وابستہ کرنے والی شے کو جسم فرض کرتا ہے، تو درایں صورت یہ پورا جسم ہو گی یا صرف اس کا ایک حصہ۔ اب ابن سینا ایک قدم آگے بڑھ کر ثابت کرتا ہے کہ یہ دونوں میں سے کوئی بھی نہیں، اور یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ یہ وابستہ کرنے والی شے غیر مادّی ہے۔ ‘مردِپرّاں‘ کو پہلے متبادل کے رد کے ایک جز کے طور پر لایا گیا ہے۔ یہ رد اس حجت کے ساتھ شروع ہوتا ہے کہ اگر وابستہ کرنے والی شے پورا جسم ہے، تو اگر اس کا کوئی حصہ نا پیدا ہو، تو اس سے یہی نتیجہ نکلے گا کہ جس کو ہم اپنی ذات سمجھتے ہیں وہ وجود نہیں رکھے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہے:</p> <blockquote> <p>کیونکہ جیسا کہ ہم نے دوسرے مقامات پر ذکر کیا ہے، میں جانتا ہوں کہ مَیں مَیں ہوں، خواہ یہ نہ جانتا ہوں کہ میری ایک ٹانگ ہے یا اعضا میں سے کوئی عضو ہے۔ بلکہ میں انہیں اپنی ذات کے منسلکات خیال کرتا ہوں اور یہ بھی کہ یہ میرے وہ آلات ہیں جنھیں میں اپنی بعض ضروریات کے لیے کام میں لاتا ہوں۔ اگر یہ ضرورتیں نہ ہوتیں، تو میں انھیں ترک کر دیتا۔[اس کے باوجود] میں اب بھی ’مَیں‘ ہی رہتا، جبکہ یہ نہ ہوتیں۔</p> </blockquote> <p>’مردِپرّاں‘ کا دوسرا قالب اس کے فوراً بعد وارد ہوتا ہے، اور جو ابھی ابھی بیان ہوا ہے اسے مزید تقویت پہنچاتا ہے۔ </p> <blockquote> <p>چلیے جو پہلے کہا جا چکا ہے اسے دہرائیں :ہم کہتے ہیں: اگر ایک آدمی دفعتاًپیدا ہو، اس طرح کہ اس کے اعضا باہم منفصل ہوں اور وہ انھیں دیکھ نہ سکے، اور اگر ایسا اتفاق ہو کہ نہ وہ انھیں چھو سکے اور نہ وہ ایک دوسرے کو چھو سکیں، اور اسے کوئی آواز سنائی نہ دے، تو وہ اپنے تمام اعضا کے وجود سے لا علم ہو گا، لیکن وہ اپنے انفرادی وجود سے ایک واحد شے کے طور پر آگاہ ہو گا، جبکہ تمام سابقہ چیزوں سے لا علم۔ جو بذاتہٖ نامعلوم ہے [اس کی حیثیت] معلوم کی نہیں ہے۔</p> </blockquote> <p>’مردِپرّاں‘ کا دوسرا قالب اس کے فوراً بعد وارد ہوتا ہے، جس میں اس خیال کی صراحت کی گئی ہے کہ اعضاے جسمانی صرف ذات کے منسلکات ہیں، کپڑوں کی طرح ہیں۔</p> <blockquote> <p>حقیقت میں یہ اعضا صرف کپڑوں کی طرح ہماری ملکیت ہوتے ہیں جو ہم سے مستقل انسلاک کے سبب ہماری ذات کے اجزا کی طرح ہو گئے ہیں۔ جب ہم اپنی ذات کا تصور کرتے ہیں، تو اسے کپڑوں کے بغیر تصور نہیں کرتے، بلکہ اسے کپڑوں سے ڈھکا ہوا تصور کرتے ہیں۔ اس کی وجہ انسلاکِ متواتر ہے، اس فرق کے ساتھ کہ [سچ مچ کے] کپڑوں کو ہم اتار نے اور جدا کرنے کے عادی ہو گئے ہیں---- اور یہ ایسی چیز ہے جس کے ہم اپنے اعضاے بدن کے معاملے میں عادی نہیں ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہمارا یہ خیال کہ اعضا ہماری ذات کا حصہ ہیں، ہمارے اس خیال سے کہ کپڑے ہمارے جسم کا حصہ ہیں، زیادہ قوی ہے۔</p> </blockquote> <p>اس کے بعد ابن سینا دوسرے متبادل کو غلط ثابت کرنے کے لیے بڑی پر جوش دلیل پیش کرتا ہے، یہی کہ وابستہ کرنے والی نفسیاتی صلاحیت واحد عضو یا چند اعضا کا مرکب نہیں ہو سکتی۔ یہ اس لیے کہ اگر یہ عضوِ واحد(یا بعضے اعضا کا مرکب) ہے، تو ذات کی آگہی کے ساتھ فرد کی اُس مخصوص عضو یا اعضا کی آگہی بھی نا گزیر ہو گی۔ اور ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ ہماری اپنے قلب تک سے آگہی، اگر ہم اسے وابستہ کرنے والی شے تصور کریں، تجربے کی دَین ہوتی ہے۔ یہ وہ شے نہیں جسے آدمی آگہیِ ذات کے وقت ذات سمجھتا ہے۔ یہ دلیل، جس طرح یہ اس باب میں بیان ہوئی ہے، فرضی دلیل سے بالکل آزادانہ، آپ اپنے سہارے کھڑی ہے۔ یہ ہمیں ابن سینا کی دوسری نگارشات میں بھی ملتی ہے، جہاں ’مردِپرّاں‘ کا کوئی ذکر نہیں۔</p> <p>چلیے مثال کے دوسرے مختصر مندرج کی طرف مراجعت کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ایک مستقل دلیل کو سہارا دینے کے لیے - جس کا مقصد ایک وسیع تر استدلال میں ایک متبادل بیان کو غلط ثابت کرنا ہے - اس کے ساتھ جڑا ہوا استعمال ہوا ہے۔ اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس سے نکلنے والا نتیجہ بھی بالکل دو ٹوک <annotation lang="en">(categorical)</annotation> ہے۔ چنانچہ، بارِدگر، ہمارا سامنا اس بات سے ہوتا ہے کہ ابن سینا مفروضہ قضیوں <annotation lang="en">(hypothetical premises)</annotation> سے قطعی نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ زیر نظر [دوسرے] قالب میں پہلے قالب کی بازگشت سنائی دیتی ہے، لیکن یہاں ایسا کوئی اشارہ نظر نہیں ملتا کہ اس کا مقصد نفس کو اپنی آگہیِ ذات کے لیے بیدار کرنا ہے۔ اس کا وظیفہ بہت محدود ہے - ایک وسیع تر استدلال میں ایک متبادل بیان کو غلط ثابت کرنا۔</p> <heading>۳۔ مثال کا تیسرا قالب</heading> <p>’مردِپرّاں‘ کی بابت ابن سینا کا تیسرا (اور بہت ہی مختصر) قالب اس کی تصنیف الاشارات والتنبیھات میں واقع ہوتا ہے، جو اس کے آخری ایام کی نگارشات میں سے اور اس کے فلسفے کا نچوڑ ہے۔ عنوان میں اشارات کی اصطلاح اشارۃ کی جمع ہے؛تنبیھات، تنبیہ کی جمع، جس کا مطلب ’خبر دار کرنا،‘ ’جگانا /بیدار کرنا،‘ ’متوجہ کرنا،‘ یا، جیسا کہ حال ہی میں ترجمہ کیا گیا ہے، ’حذر کرنا‘ ہے۔ ابن سینا اپنے خیالات چھوٹے چھوٹے پاروں میں پیش کرتا ہے، جن میں سے ہر ایک کا عنوان یا اشارہ ہے یا تنبیہ، تاہم بعض موقعوں پر دوسری ہم رشتہ اصطلاحات بھی استعمال ہوئی ہیں۔ جس پارے میں ’مردِپرّاں‘ کا ذکر آیا ہے اس کی سرخی تتنبیہہے۔ بعد میں آنے والے تینوں پارے جو نفس کی غیرمادّیت کی دلیل پر مشتمل ہیں ان میں سے ہر ایک اسی سرخی کا حامل ہے۔ جیسے کہ ہم نے مثال کے پہلے قالب میں دیکھاہے، ’تنبیہ‘ کی اصطلاح ذات کو اپنے میںپہلے سے موجودخود آگہی سے بیدار کرنے کے مخصوص علمیاتی <annotation lang="en">(epistemological)</annotation> مفہوم میں استعمال ہوئی ہے۔ ’مردِپرّاں‘ کے تیسرے قالب اور بعد میں آنے والے متعلقہ پاروں کی سرخی میں ’تنبیہ‘ کا استعمال بھی اشارہ کناں ہے کہ اصطلاح اسی مفہوم کی ادائیگی کے لیے استعمال کی گئی ہے۔</p> <p>مثال پہلے پارے کے جز کے طور پر وارد ہوئی ہے، پہلی تنبیہ، اور اُس باب کا تعارف ہے جس کا عنوان ”ارضی اور سماوی نفس سے متعلق“ ہے۔ پارہ حسب ذیل ہے: </p> <blockquote> <p>اپنی ذات کی طرف رجوع اور اس پر غور و فکر کریں کہ سا لمیت کے حال میں، یا کسی اور حالت میں ہی، جہاں، بہر کیف، آپ کسی چیز کو درستگی سے پہچان سکتے ہوں، کیا آپ اپنی ذات (ذاتَک) کے وجود سے غافل ہوں گے اور اپنی ذات (نفسَکَ) کا اثبات نہیں کریں گے؟ میرے نزدیک پیش رس لوگوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا - یہاں تک کہ خوابیدہ شخص حالتِ خواب میں اور شرابی حالتِ خمار میں اپنی ذات کی آگہی سے تہی نہیں ہو گا، اس کے باوجود کہ اپنی ذات کو اپنے کو پیش کرنا اس کے حافظے میں موجود نہیں ہوتا۔</p> <p>اور اگر آپ اپنی ذات (ذاتَک) کا تصور اس طرح کریں کہ یہ دماغی اور جسمانی اعتبار سے بالغ اور کامل پیدا ہوئی ہے اور اس کے بارے میں یہ فرض کیا جائے کہ یہ عام صورتوں اور طبیعی حالات میں اس طرح ہے کہ جہاں اسے اپنے اجزا کا ادراک نہیں ہوتا، جہاں اس کے اعضا ایک دوسرے سے مس نہیں ہوتے بلکہ ایک دوسرے سے منفصل ہوتے ہیں، اور یہ ذات پل بھر کے لیے معتدل ہوا میں معلق ہے، تو آپ دیکھیں گے کہ یہ سوائے اپنے انفرادی وجود (اَنَّیّتِھا) کے ثبوت کے باقی تمام اشیا سے غیر آگاہ ہو گی۔</p> </blockquote> <p>چنانچہ، تنبیہ کے افتتاحی بیان کے مطابق، دروں بینی بتاتی ہے کہ جب تک ذات ”کسی چیز کو درستگی سے پہچان“ سکنے کے قابل ہے، تو پھر چاہے وہ کسی حالت میں پائی جائے، اسے اپنی آگہی حاصل ہو گی۔ اس تنبیہ پر بحیثیت مجموعی تبصرہ کرتے ہوئے، فلسفی اور سائنس داں نصیر الدین الطوسی (وفات: ۱۲۷۴) لکھتا ہے: ”چنانچہ مطلقاً اولین اور واضح ترین ادراک انسان کا اپنی ذات کا ادراک ہے۔ یہ واضح ہے کہ اس نوع کا ادراک تعریف (حَدّ) یا توصیف (رسم) کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا، نہ دلیل (حُجّۃ) اور وضاحت (بُرھان) سے قائم۔”</p> <p>لیکن ’مردِپرّاں‘ کے اس قالب کی نیت ثابت کرنا یا ظاہر کرنا نہیں ہے۔ بلکہ یہ نشان دہی کرنا اور دکھانا ہے کہ انسانی معرفتوں میں ذات کی آگہی سب سے زیادہ ابتدائی معرفت ہے۔ چنانچہ، جیسا کہ پہلے نشان دہی کی جا چکی ہے، یہ اس بات کو صراحتاً بیان کرتا ہے جو پہلے قالب میں اشارتاً موجود ہے۔ موخرالذ کر کے برخلاف، یہ اس صریح دلیل کا حامل نہیں کہ ذات غیر مادّی ہے۔ تاہم ذات کی غیر مادّیت کی دلیل، اس سے مختلف جس سے ہمارا پہلے قالب میں سامنا ہوا ہے، اس کے فوراً بعد آتی ہے۔ اس دلیل پر بھی وہی اعتراض لاگو ہوتا ہے جو پہلے قالب کی دلیل پر، کہ یہ موضوعِ بحث نکتے کو فرض کرتی ہے اور کہ فرضی سے قطعی کی طرف منحرف ہے، کیونکہ یہ ’مردِپرّاں‘ کو ایک قضیے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ لیکن یہ مثال، جیسا کہ ہم نے ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے، پہلے سے طے کیے ہوئے ہے کہ ذات غیر مادّی ہے۔ مزید براں، یہ اس مفروضہ مثال کا آسرا اس طرح لیتی ہے جیسے اسے حقیقی ثابت کر دکھایا ہے۔ دلیل کا اظہار، جو تین عدد تنبیہوں میں پھیلی ہوئی ہے، خاصی مبہم زبان میں ہوا ہے۔ اس کی بنیادی باتوں کو بانداز دگر مندرجہ ذیل میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے: </p> <p>پہلی تنبیہ میں ابن سینااس سے بحث کرتا ہے کہ علمِ ذات براہ راست ہے، کسی توسط سے نہیں، اس بنیاد پر کہ مثال میں ذات کے علاوہ کسی اور شے کی معرفت شامل نہیں۔ دوسری تنبیہ میں وہ یہ بحث کرتا ہے کہ ذات جسم نہیں ہو سکتی کیونکہ جسم کا ادراک خارجی حواس سے کیا جاتا ہے۔ اب، وہ بیان جاری رکھتا ہے، جسم ظاہرا خارجی اعضا کا حامل ہے جنھیں ہمارے حواس مشاہدہ اور محسوس کرتے ہیں اور داخلی اعضا کا جن کا علم ہمیں صرف چیر پھاڑ [عمل تشریح] کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ خارجی اعضا ذات نہیں ہو سکتے۔ اس لیے کہ یہ ہم سے ’چھِن‘ بھی سکتے ہیں اور اس لیے بھی کہ یہ نشو و نما اور تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہیں، اس کے بغیر کہ ہم سے ہمارا تشخص جاتا رہے۔ مزید براں، ’مفروضے‘ (الفرض) میں، یعنی کہ ’مردِپرّاں‘ میں، حواس عمل پذیر نہیں اور اسی طرح عملِ تشریح کی کارگزاری بھی، جس کے ذریعے ہم اپنے داخلی اعضا کا علم حاصل کرنے کے قابل ہوتے ہیں، خارج قرار دی جائے گی۔ نتیجتاً ذات جسم نہیں۔ تیسری تنبیہ میںابن سینا یہ سوال اٹھاتا ہے کہ آیا علمِ ذات آدمی کے افعال کے واسطے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کا استدلال ہے کہ معاملہ یہ نہیں، کیونکہ، باردگر، ’مفروضے‘ سے ہر فعل خارج ہے۔ مزید یہ کہ فعل یا عام ہوتا ہے یا خاص۔ عام فعل کسی مخصوص ذات کے علم تک نہیں لے جاتا۔ چنانچہ فعل کو لا محالہ خاص ہونا ہو گا؛ مثال کے طور پر، میرا اپنا انفرادی فعل۔ لیکن جب میں یہ کہتا ہوں کہ مَیں ایک فعل انجام دے رہا ہوں، تو ’مَیں‘ میرے فعل سے مقدم ہے۔ میرا فعل میری ذات کے وجود کو پہلے سے مسلم فرض کیے ہوتا ہے، ورنہ مَیں اس کا حوالہ میرا فعل کہہ کر نہ دیتا۔ </p> <p>اس دلیل میں صرف یہی بات توجہ میں نہیں آتی کہ یہاں ایک مفروضہ مثال کو اس طرح برتا جا رہا ہے جیسے اس کا حقیقی ہونا قرار پا گیا ہے، بلکہ اس میں دو اور چیزیں بھی قابل توجہ ہیں۔ پہلی ابن سینا کا دلیل کو ”مفروضے“ (الفرض) کی حیثیت سے پیش کرنا ہے، جو اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ وہ اس کی مفروضہ نوعیت سے بخوبی آگاہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ دلیل کے، خاص طور پر، دوسری اور تیسری تنبیہ میں ایسے اجزا ہیں جن کا ’مردِپرّاں‘ سے واسطہ نہیں۔ یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مثال کے دوسرے قالب کو ایک ایسی دلیل کے ساتھ جوڑا گیا ہے جس سے اس کا تعلق نہیں۔ اس پر یہ اور اضافہ کریں کہ <annotation lang="en">Psychology</annotation> میں ابن سینا ایک پورا باب ’مردِپرّاں‘ سے بے نیاز ہو کر، اور ایک بار بھی ہمیں اس مثال کا حوالہ دیے بغیر، نفسِ عقلی کی غیر مادّیت کا بڑا زور آور ثبوت مہیا کرنے کی کوشش کے لیے وقف کرتا ہے۔ ان سارے ملا حظات سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے: کیا واقعی ابن سینا ’مردِپرّاں‘ کو ذات کے وجود کو ایک غیر مادّی شے ہونے کی حیثیت سے ثابت کرنے، اور ’ثابت کرنے‘ کے پر زور مفہوم میں، استعمال کر رہا تھا؟</p> <p>ساری علامات اس کی نفی کرتی ہیں۔ پہلے قالب کو متعارف کراتے ہوئے، جیسا کہ ہم نے دیکھا، وہ یہ بالکل واضح کر دیتا ہے کہ اس کا مقصد ”تنبیہ اور تذکیر [یاد دہانی] کے ذریعے نفس کا اثبات کرنا“ ہے اور یہ کار گزاری صرف انھیں پر اثر انداز ہوتی ہے جو بذاتِ خود حقیقت کے مشاہدے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس انداز نظر کی تہہ میں صرف یہ ایقان ہی نہیں کہ ہماری ذات کا تجرباتی علم ہماری معرفتوں میں سب سے زیادہ بنیادی ہے، بلکہ یہ بھی کہ اس معرفت کا حقیقی موضوع ایک غیر مادّی شے ہے، ایک ’میں‘ جو مطلقاً جسم کا غیر ہے۔ بعضے جنھیں یہ علم حاصل ہے اس کی طرف سے بے دھیان ہوتے ہیں، بھٹکے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک فکری تجربہ، جس کا مقصد، بہر حال، کوئی زور آور ثبوت مہیا کرنا نہیں ہے، ان میں یہ معرفت بیدار کرنے کے لیے کافی ہو گا۔ باقی لوگ----جس کی ایک مثال متکلمونہیں ---- جسم کو ’مَیں‘ سے مربوط کرنے کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ یہ یقین کرنے لگتے ہیں کہ یہ جو اولین علمِ ذات ہمیں حاصل ہے، یہ علمِ جسم ہی ہے۔ ایسے لوگوں کو یہ جتانے کے لیے کہ وہ غلطی پر ہیں بڑی زور آور عقلی دلیل کی حاجت ہوتی ہے۔</p> <p>چلیے اب مثال کے تیسرے خلاصتی قالب کی طرف لوٹیں۔ کہ یہ الاشارات و التنبیھات میں وارد ہوا ہے بجاے خود اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ایک ازحدصمیمانہ اور نجی نگارش ہے جو ابن سینا نے اپنے آخری دنوں میں تصنیف کی تھی، اور یہ اس کے فلسفے کا جوہر پیش کرتی ہے۔ اس کی فضا مراقباتی اور اس کا لہجہ مذہبیانہ ہے، جو مقاماتِ صوفیہ کی بابت بڑے دلگداز باب میں اپنے اوج کو پہنچ جاتا ہے۔ یہ کتاب ہم خیال و ہم نظروں کے لیے لکھی گئی ہے، اس کا مظروف، جیسا کہ ابن سینا ہمیں بتاتا ہے، ہر کسی پر آشکارا کرنے کے لیے نہیں ہے۔ اگر ہم ابن سیناکی قرأت درست کر رہے ہیں، تو ’مردِ پرّاں‘ اس نگارش میں دوبارہ اس لیے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ”کسی ایسے“ کے لیے ہے ”جو بذاتہٖ حقیقت کے ملاحظے کی قدرت رکھتا ہو، جسے سکھانے، مسلسل اکسانے، اور سوفسطائی خطائوں میں بھٹکنے سے بچانے کی ضرورت نہ ہو۔“</p> </section> </body>
0038.xml
<meta> <title>انگارے</title> <author> <name>نجیبہ عارف</name> <gender>Female</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 4</name> <year>2013</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/22_najeeba_arif_bunyad_2013.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>2805</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
انگارے
2,805
Yes
<body> <section> <p>مصنف: شاندور مارَئی <annotation lang="hu">(Sándor Márai)</annotation> مترجم: محمد عمر میمن ناشر: شہر زاد، کراچی (۲۰۰۷ئ) صفحات: ۱۸۵</p> <p>انگارے آسٹرو ہنگیرین ناول نگارشاندور مارَئی (<annotation lang="hu">Sándor Márai</annotation>۔ ۱۹۰۰ئ-۱۹۸۹ئ) کے دو درجن سے زیادہ ناولوں میں سے ایک ہے، جس کا ۲۰۰۲ئ میں <annotation lang="hu">Embers</annotation> کے نام سے انگریزی ترجمہ ہوا تھا۔ محمد عمر میمن نے انگارے کے عنوان سے اسے اردو میں منتقل کیا ہے۔ یہ محمد عمر میمن کے شاہکار اردو تراجم میں سے ایک ہے کیوں کہ یہ ناول انسانی ذات کی جن گہری، لطیف ترین اور دقیق پرتوں اور جہتوں کو بے نقاب کرتا ہے اور جس مہارت سے انھیں خارجی واقعات و حوادث کی مدد سے ایک ایک کر کے بے نقاب کرتا ہے وہ ناول نگار کے حیرت انگیز فنی کمال کا مظہر ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ مترجم نے انھیں کس وضاحت اور باریک بینی سے ایک بالکل اجنبی زبان میں منتقل کر دیا ہے۔ ترجمے کے دیباچے میں مترجم نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے یہ ترجمہ ناول کے انگریزی ترجمے کی بنیاد پر کیا ہے اور انگریزی ترجمہ جرمن اور فرانسیسی تراجم سے کیا گیا تھا۔ لہٰذا اس سفر میں نجانے کیا کیا اور کتنا کچھ بچھڑ گیا ہو گا۔ مگر یہاں ایک اوربات بھی قابلِ غور ہے، جس کا اعتراف مترجم نے نہیں کیا، اور وہ یہ ہے کہ معروضیت کے تماتردعووں کے باوجود، ترجمے کے دوران اصل سے کچھ منہا ہی نہیں ہوتا، کچھ داخل بھی ہو جاتا ہے۔ لہٰذا یہ ناول اپنی اردو صورت میں قاری تک پہنچتا ہے تو اس میں صرف شاندور مارَئی اور ان کے جرمن، فرانسیسی اور انگریزی مترجمین ہی نہیں، خود عمر میمن کا فہمِ متن اور اس کے تاثر کی مختلف سطحوں کو جذب کرنے کا درجہ بھی نمایاں طور پر ظاہر ہو جاتا ہے۔ ناول میں وجود کی نازک پرتوں کی الٹ پلٹ، عمیق ترین گوشوں کی بازیافت اور پیچیدہ جذبات و احساسات کے آمیزوں سے الگ الگ رنگوں کی شناخت کا عمل جس باریکی اور نفاست، فنی ابلاغ کی کامل ترین مہارت اور انسانی فطرت سے غیر معمولی واقفیت کا متقاضی ہے، اس کی بہترین مثال ہمیں اس ناول میں نظر آتی ہے۔ مترجم نے اپنے ابتدائی کلمات میں بہت وضاحت سے کہا ہے کہ معروضیت محض ایک خیال خام ہے اور خود ان کے الفاظ میں:</p> <blockquote> <p>فکشن کو سمجھنا__ بڑا اچھا جملہ ہے! کیسے عالی شان عزم اور ولولے کا مظہر! لیکن ذرا غور کیجیے تو عجیب مخمصے میں گرفتار ہو جائیں گے۔ کسی چیز کو اپنی ذات کے باہر نہیں سمجھا جا سکتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس چیز کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس میں صرف اپنے ہی کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ معروضیت، معروضیت! غیر سے اپنی ذات کو منہا کر کے اسے سمجھنا، کم از کم یہ میرے بس میں نہیں۔</p> </blockquote> <p>یوںاگرچہ انھوں نے اس ناول کے بارے میں اپنے کلمات کو صاف صاف معروضیت کی تہمت سے بچا لیا ہے لیکن اس کے باوجود یہ کلمات ناول کی روح تک پہنچنے اور اس کی نبض پر ہاتھ رکھنے کا ایک وسیلہ ضرور بنتے ہیں۔ البتہ مترجم نے ناول کی بے ادبی کرنے سے باز رہنے کے ارادے کے باوجودناول کے موضوع کے بارے میں جو اشارے دیے ہیں، اور نہ نہ کرتے ہوئے جو چند باتیں درج کر دی ہیں، وہ متذکرہ ناول ہی کونہیں، فکشن کی تخیلاتی دنیا کو سمجھنے اور محسوس کرنے کا ایسامعیار قائم کرتی ہیں جس کی بنا پر قاری فکشن کے مطالعے سے ایک خاص نوع کی وجدانی روشنی، ایک مخصوص طرز کی باطنی دانش اور کاروبارِ زیست کا ایک الگ سا فہم و ادراک حاصل کر لیتا ہے۔ یہ فہم و ادراک، یہ عرفان اسے عملی زندگی میں کام آئے، نہ آئے، اس کے اندر ایک لامحدود وسعت اور عمق ضرور پیدا کر دیتا ہے جسے شاید حاصلِ حیات بھی سمجھا جا سکتا ہو۔</p> <p>محمد عمر میمن کے بقول اس ناول کا موضوع بظاہر تو مردوں کے درمیان دوستی کی نوعیت کے تعین کی ایک کوشش ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ آسٹرو ہنگیرین اشرافیہ کی اقدار کا ماتم، دوستی، غداری، شہوت، انتقام تک بے شمار موضوعات اس میں سمیٹ لیے گئے ہیں۔ تاہم مجھے یہ ناول پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اس میں زندگی سے نبرد آزما ہونے کے مختلف اور متضاد قرینوں کو جس بے تعصبی اور ممکنہ غیر جانب داری سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ بذات خود قابلِ تحسین عمل ہی نہیں، ناول کا مرکزی دھارا بھی ہے۔ بظاہر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے، گہری محبت اور انسیت میں بندھے ہوئے، طویل رفاقت اور ہم آہنگی کے تاروں میں پیوست انسان ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہو سکتے ہیں اور ان کے رنج و محن اور ان کی راحت و مسرت کے پیمانے ایک دوسرے سے کس قدر مختلف بلکہ متضاد ہو سکتے ہیں اور اس تمام تر تضاد و اختلاف کے باوجود ان کا قرب ایک دوسرے کے لیے کتنا اہم اور ضروری ہو سکتا ہے اور ان سب پر مستزاد یہ کہ یہ قرب اپنے اندر کتنی گہری اذیت اور الم ناکی لیے ہوتا ہے۔ تو کیا انسان بنیادی طور پر اذیت پسند ہوتا ہے؟ کیا انسان کی خوشی اورآسودگی کا دارومدار مسلسل ناآسودگی اور بے اطمینانی پر ہے؟یعنی یہ کہ کیا ہر اثبات کسی نفی کا محتاج ہے؟کیاروشنی کا احساس، اندھیرے کی موجودگی کے بغیر ممکن نہیں؟</p> <p>انگارے میں صرف موضوع یا خیال ہی اہم نہیں، اس کی تکنیک بھی غیر معمولی ہے۔ مصنف نے ابلاغ کے لیے اپنے بیانیے سے زیادہ انحصار ان باتوں پر کیا ہے جو بیانیے سے حذف کر دی گئی ہیں اور جن کی طرف صرف چند غیر اہم اشارے کیے گئے ہیں۔ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ مصنف نے کس طرح بعض اوقات کسی ایک منظر کے بیان سے، کسی ایک خارجی شے کے ذکر سے، کسی ایک غیر متعلق سی بات سے کسی گہری داخلی کیفیت کا اظہار کیا ہے۔ مثال کے طور پرکہانی میں ہینرک کی ماں اور شہنشاہ کے درمیان کسی جذباتی لگاؤ کا کہیں ایک بار بھی تذکرہ نہیں ہوا۔ مگر اس کی موجودگی کا احساس ہینرک کی پوری شخصیت کو سمجھنے کی کلید بن جاتا ہے۔ پہلی ملاقات پر شہنشاہ کا اس سے مذاق کرنا جو ایک انتہائی عام سی مگر ”بڑی عنایت کی بات تھی۔“ پھر گھر کی دیوار پر آویزاں اس کی ماں کی تصویر جو ویانا کے اسی پینٹر نے بنائی تھی جس نے شاہ بانو(ملکہ)کی پورٹریٹ بنائی تھی، اس کے والد کا، جو گارد کا سپاہی تھا اور جس کی تصویر میں اس کے سر کا خفیف سا جھکاؤ ہی اس کے مجروح تفاخرکا واحد نشان تھا، شکار میں مشغول رہنا اور یوں ہی ہر وقت بھیڑیوں اور بارہ سنگھوں کی جان لیتے رہنا کیوں کہ وہ غیر ملکیوں اور ان کے طور طریق کو تباہ نہیں کر سکا تھا(اس کی بیوی غیر ملکی تھی)۔ کسی غیر ملکی (اجنبی اور نامعلوم ثقافت کی پروردہ)سے شادی، خواہ وہ کتنی ہی گہری محبت کا نتیجہ کیوں نہ ہو، اپنے ساتھ جو ناقابلِ بیان احساسِ شکستِ انا، کسی نہ کسی مرحلے پر پیچھے رہ جانے یا بچھڑ جانے کا تجربہ لاتی ہے، اسے کس لطیف انداز سے اس ناول میں بغیر کسی لفظ کے بیان کیا گیا ہے۔ بھرپور ہم آہنگی اور مفاہمت کے باوجود کہیں نہ کہیں، کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوتا ہے جو باہمی اشتراک کی رسائی سے باہر رہ جاتا ہے اور شک و شبہے کی بنیاد بنتا ہے۔ یا شاید یہ محض شک نہیں ہوتا، حقیقت کا ایک اور پہلو ہوتا ہے جس سے آنکھیں ملائی بھی نہیں جا سکتیں اور چرائی بھی نہیں جا سکتیں۔ یہ احساس کہ اس کی بیوی اور اس کے شہنشاہ کے درمیان کوئی ایسا غیر محسوس تعلق تھا جسے کسی لفظ کی قید میں نہیں لایا جا سکتا اور جسے ہینرک کا باپ اپنے شخصی وقار اور خودداری کے تحفظ کے خیال سے کبھی زبان پر تو کیا، شاید اپنے خیال میں بھی لانے کی جرأت نہیں کر سکا، شوہر اور بیوی کے درمیان ”ایسی معرکہ آرائی کو جنم دیتا ہے جو الفاظ کی رہینِ منّت نہ تھی۔ ان کے ہتھیار موسیقی، شکار، سفر، اور شام کے استقبالیے تھے جب پورا قصر یوں بھڑک اٹھتا جیسے اس میں آگ لگ گئی ہو“۔ ایسی ہی تشبیہوں، استعاروں اور علامتوں کی مدد سے اس آتشیں جذبے کی جان لیواحدت کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں گہری محبت اور شدید مگر بالکل خاموش رقابت کی تندی ہے۔ اسی خام مواد سے ہینرک کی شخصیت تعمیر ہوتی ہے جو اس کہانی کا واحد فعال اور گویا کردار ہے اور اپنے اسی ماضی کے ساتھ وہ اپنی ذاتی زندگی کے محاذ پرسرگرم رہتا ہے۔ ہینرک کی ماں نے شہنشاہ کے مذاق پر، کہ اسے اس کا سپاہی شوہر جس جنگل میں لیے جاتا ہے وہاں ریچھ ہوتے ہیں اور وہ خود بھی ایک ریچھ ہے، مسکرا کر کہا تھا کہ وہ اسے موسیقی سے سدھا لے گی۔“ یہ ایک جملہ ہینرک کے کردار کی کلید بن جاتا ہے۔ کیوں کہ ہینرک کو موسیقی سے نفرت ہے۔ ہینرک کی ماں موسیقی سے جنگل کے وحشی جانوروں کو رام کرنا چاہتی تھی، اور وہ بھیڑیوں اور ہرنوں تک کو مسحور کرنے میںکامیاب ہو گئی تھی مگر ہینرک کا باپ اس کی کسی دھن سے پگھل نہ پایا۔ الٹا اس نے پیانو کو اپنے اور اپنی بیوی کے درمیان ایک خلیج سمجھ لیا تھا۔ اس کے بیٹے نے بھی اپنے باپ کی یہ ادا اپنے خون میں پالی تھی۔</p> <p>کہانی ہینرک اور اس کے بچپن کے دوست کونراڈکے گرد گھومتی ہے جسے اس نے اپنی زندگی کی ہر نعمت، ہر خوب صورتی میں اتنے فطری طور پر شریک کر لیا تھا کہ دونوں مل کر ایک ہو گئے تھے۔ کونراڈ کی غربت اور اس کے احساسِ مفلسی کا علم ہوجانے کے باعث ان کے درمیان، انتہائی گہری دوستی کے باوجود جو خلیج حائل ہو جاتی ہے، اسے جن الفاظ میں ادا کیا گیا ہے، اس سے بڑھ کر اس پیچیدہ ترین احساس کی ترجمانی کے لیے شاید ہی کوئی طرزِ اظہار مناسب ہو۔ اور اس سارے پس منظر، دونوں کی تنہائی اور اس کی الگ الگ وجوہات کے بیان کے بعد اس بات کا انکشاف کہ اس کے دوست کے پاس ایک ایسی خفیہ جاے پناہ تھی، جس کے دروازے خود اس پر بند تھے، اور یہ پناہ گاہ موسیقی تھی، کہانی کی اٹھان میں ایک المیہ تاثر پیدا کر دیتا ہے۔ یہی موسیقی ہینرک اور اس کی بیوی کے درمیان ایک ناقابلِ عبور فاصلہ، اور اس کی بیوی اور کونراڈ کے درمیان ایک ناقابلِ بیان رشتہ قائم کر دیتی ہے۔ موسیقی ابلاغ کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے صرف وہ لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو موسیقی کا ذوق رکھتے ہیں اورجو مل کر موسیقی سنتے ہیں؛ ہینرک اس ذوق سے عاری تھا۔ اگرچہ تینوں میں سے کوئی بھی کسی دوسرے کو دکھ نہیں پہنچانا چاہتا لیکن موسیقی کا رشتہ جو ہیجان برپا کرتا ہے اس سے بے وفائی کا بھبھوکا اٹھتا ہے اورغداری کی خواہش جنم لیتی ہے جسے کبھی عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا مگر اس کی موجودگی کا احساس ہی ہینرک کی خودداری، آن بان اور اس کے اندھے اعتماد اور احسانات کے ایک طویل سلسلے کو ٹھیس پہنچانے کے لیے کافی ہے۔ نتیجتاً اکتالیس سال تک انتقام کی آگ بھڑکتی رہتی ہے اور بالآخر جب اسے بجھانے کا موقع ملتاہے تو معلوم ہوتا ہے کہ خود اپنے آپ سے مسلسل مبارزت کے نتیجے میں وہ ساری کی ساری اندر سے پگھلا دینے والی آگ سرد پڑ چکی ہے۔ لیکن اس طویل دورانیے میںہینرک کی خود کلامی میں خود اپنے آپ، اور دوسروں کی باطنی کیفیات سے شناسائی کے جو مرحلے طے ہوتے ہیں وہ اس بظاہر سطحی سے واقعے کے ذریعے بیانیے میںایسی علویت، ترفعِِ ذات کے ایسے شاندار امکانات اورعرفان و ادراک کے دائرے کی ایسی وسعت پیدا کر دیتے ہیں کہ یہ کہانی محض دو یا تین انسانوں کے درمیان رونما ہونے والے واقعے کی داستان نہیں رہتی بلکہ انسانی فطرت کے عالم گیر تنوع اور انسانی رشتوں کی تہ در تہ پرتوں کو روشن کرتی چلی جاتی ہے۔ موسیقی کے انسانی روح پر جو مختلف اثرات رونما ہوتے ہیں، ان میں تمیز اور ان کے بارے میں ہینرک کی رائے انسانی نفسیات کے گہرے رازوں کی امین ہے۔</p> <blockquote> <p>ایک شام وہ ہینرک کی ماں کے ساتھ پیانو پر چہار دستی موسیقی کا کوئی پارہ بجا رہا تھا کہ اچانک ایک واقعہ ہو گیا۔ یہ ڈنر سے پہلے کا وقت تھا، وہ لوگ بڑے ملاقاتی کمرے میں جمع تھے۔ گارد کا افسر اور اس کا بیٹا ایک کونے میں بیٹھے ہوے، تمام باصبر اور نیک طینت لوگوں کی طرح، بڑی شائستگی سے موسیقی سن رہے تھے، اس رویے کے ساتھ کہ ”زندگی فرائض سے عبارت ہے۔ موسیقی سننا بھی ایک فرض ہے۔ خواتین کی خواہشات کا احترام لازم ہے۔“ وہ شوپیں کی ”پولونیز فنطاسی“ بجا رہے تھے، اور ہینرک کی ماں کچھ اتنے والہانہ انداز میں کہ پورا کمرا جگمگا اور تھرا رہا تھا۔ موسیقی کے ختم ہوجانے کے انتظار میں، اپنے کونے میں شائستگی اور صبروسکون سے بیٹھے باپ بیٹے کو بڑی شدت سے یوں لگا جیسے کونراڈ اور ہینرک کی ماں قلب ماہیت کے کسی عمل سے گزر رہے ہوں۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے موسیقی کمرے کے سازوسامان کو اٹھائے دے رہی ہو، کوئی بے پناہ طاقت دبیز ریشمی پردوں کو اڑائے دے رہی ہو، جیسے قلبِ انسانی کی گہرائیوں میں مدفون ہر محجر اور زوال پذیر ذرہ ایک برقی تڑپ کے ساتھ زندہ ہو رہا ہو، جیسے روئے زمین کے ہر باسی میں کوئی غارت گر آہنگ خوابیدہ پڑا ہو اور اپنی فیصلہ کن تھاپ شروع کرنے کے مقررہ لمحہ کا منتظر ہو۔ مہذب سامعین کو احساس ہوا کہ موسیقی خطرناک چیز ہے، لیکن پیانو نواز جوڑا خطرے کا ہر احساس کھو چکا تھا۔ ”پولونیز فنطاسی“ کیا تھی بس ایک بہانہ تھی دنیا پر ان قوتوں کو آزادچھوڑ دینے کا جن کے ذریعے نظم و ضبط کے ان ڈھانچوں کو جھنجھوڑ کر بھک سے اڑایا جا سکے جو آدمی اپنی تہ میں جاگزیں اشیا کی پردہ پوشی کے لیے وضع کرتا ہے۔ وہ پیانو کے سامنے کھڑی پشت کے ساتھ بیٹھے تھے، اس کی کلیدوں سے کچھ دوری پر جھکے ہوے، تاہم ان سے جکڑے ہوے، گویا موسیقی، بذاتِ خود، شعلہ فشاںدیومالائی گھوڑوں کے غیر مرئی جتھے کو دوڑاتی ہوئی اس طوفان سے نکل رہی ہو جس نے پوری زمین کو اپنی زدمیں لے رکھا ہو، اور ان بے لگام قوتوں کی اس دھماکا خیز اور اندھا دھند سرپٹ دوڑ میں لگام پر قابو رکھنے کی خاطر وہ اپنے جسموں کومشکل سے سنبھالے ہوے ہوں۔ اور پھر ایک واحد سُر کی ادائیگی کے ساتھ وہ رک گئے۔ شام کا سورج کھڑکیوں سے جھکا جھکا سا آرہا تھا، اور طلائی ذرے اس کی شعاعوں میں چکرا رہے تھے، گویا تاراجی اور خلا کی طرف گام زن اس دوڑتے ہوے ارضی رتھ نے گرد کا طوفان اٹھا دیا ہو۔</p> </blockquote> <p>ناول نگار کی فنی مہارت تکنیک اور پلاٹ کی بنت میں واضح ہوتی ہے۔ کہانی کے کھلنے کا انداز قدیم داستان گوئی کے انداز سے مشابہ ہے جس میں قاری یا سامع کی توجہ اور دلچسپی کو مسلسل قصے پر مرکوز رکھنے کے لیے واقعات کو ایک خاص سوچی سمجھی ترکیب سے پیش کیا جاتا ہے تاکہ تجسس آخر دم تک قائم رہے۔ مصنف نے اپنی بصیرت اور زندگی کے بارے میں اپنے نقطۂ نظر کو بہت خوبی سے کرداروں کی زبانی کہلوایا ہے۔ </p> <blockquote> <p>ان تمام لوگوں کی طرح جو اپنے داخلی رجحان اور خارجی حالات سے مجبور ہو کر وقت سے پہلے ہی تنہائی پسند ہو جاتے ہیں، دنیا کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے وقت کونراڈ کا لہجہ ہلکا طنزیہ، خفیف سا تحقیر آمیز ہوتا، بایں ہمہ اضطراری طور پر تجسس سے سر تا سر مملو بھی، گویا اُدھر، دوسری طرف، واقعات جو شاید ہو رہے ہیں، ان سے صرف بچوں کو دلچسپی ہو سکتی ہے، یا انھیں جو بچوں سے بھی زیادہ ناتجربہ کار ہوں۔ تاہم اس کی آواز گھر سے دور ہونے کے ملال کی چغلی بھی کھا رہی ہوتی: شباب ہمیشہ ہی اس مہیب، مشتبہ، سرد مہر وطن کے لیے تڑپتا ہے جسے دنیا کہتے ہیں۔ اور جب کبھی کونراڈ دوست دارانہ انداز میں، مذاقاً، فی البدیہہ، اور دانستہ انکساری سے گارد کے بیٹے کی اُس دنیا میں مہمات کے حوالے سے چھیڑ چھاڑ بھی کرتا، تو اس کے لہجے میں ایک پیاسے آدمی کی دنیا کو سر تا سر پی جانے کی منھ زور تمنا بھی بخوبی سنی جاسکتی تھی۔</p> </blockquote> <p>موسم اور آب و ہوا کے انسانی فطرت اور شخصیت پر جو مستقل اثرات رونما ہوتے ہیں ان کا بیان نہایت شدت آمیز انداز میں کیا گیا ہے۔ دوسری طرف انسان کی باطنی دنیا کے متوازی عالمِ فطرت کی تمثیلیں تلاش کر کے انھیں ایک دوسرے سے ہم آہنگ کیا گیا ہے؛ مثلاًانسانی نفس اور اس کی تاریک گپھاؤں کو جنگل کی دنیا اور شکار کے ہیجان انگیز لمحات کی خارجی مصوری کے ذریعے کامل اوربے عیب طریقے سے انسانی بصیرت پر وارد کر دیا گیا ہے۔ عمارتوں اور ماحول کی منظر کشی سے ایک خاص نوع کی فضا بندی کا ہنر فکشن کی ایک قدیم تکنیک ہے مگر اس تکنیک کو مصنف اور مترجم دونوں کی فن کارانہ مہارت نے ناول کی کامیابی کا ایک اہم ذریعہ بنا دیا ہے۔ بعض نثری ٹکڑے تو شعری لطافت اور خیال انگیزی سے اس قدر مملو ہیں کہ کسی نثری نظم کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔</p> <blockquote> <p>قصر ایک بند دنیا تھا، کسی سنگلاخ پتھر کے مقبرے کی طرح، جو پرانے وقتوں کی کتنی ہی نسلوںکے مرد عورتوں کی گل کر بکھرتی ہوئی ہڈیوں سے لبریز ہو اور جن کے سلیٹی ریشم یا سیاہ کپڑے کے کفن آہستہ آہستہ پارہ پارہ ہو رہے ہوں۔ اس میں خاموشی خود اس طرح محصور تھی جیسے کوئی قیدی ہو جسے اپنے اعتقادات کی پاداش میں سزا دی گئی ہو، اور جو کسی قصر کے زمین دوز عقوبت خانے کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں اپنی ناتراشیدہ داڑھی اور پارہ پارہ لباس میں کسی سڑتے ہوے پھپھوندی لگے پیال پر سُن پڑا مائلِ فنا ہو۔ اس میں یادیں بھی محصور تھیں، جیسے یہ میّتیں ہوں، یادیں جو مرطوب کونے کھدروں میں چھپی بیٹھی ہوں، جیسے کھنمبیاں، چمگادڑیں، چوہے، اور پردار کیڑے کہنہ مکانوں کی پھپھوند لگی زمین دوز کوٹھڑیوں میں چھپے ہوتے ہیں۔ دروازوں کی چٹخنیوں سے ابھرتی ہوئی کبھی کسی ہاتھ کی تھرتھراہٹ کا نقش، بہت پہلے کے کسی لمحے کا جوش و خروش، کچھ ایسے کہ اب کوئی دوسرا ہاتھ ان پر پڑنے سے ہچکچا رہا ہو۔ ہر وہ گھر جہاں منھ زور جذبہ اپنی تمام تر شدت کے ساتھ لوگوں پر پھٹ پڑا ہو، اسی قسم کی غیر لمسی موجودگیوں کا مظہر ہوتا ہے۔</p> </blockquote> <p>مٹتی ہوئی تہذیب، بدلتی ہوئی اقدار، ٹوٹتے ہوئے نقشے، بنتی ہوئی تاریخ اور تبدیل ہوتا ہوا جغرافیہ، یہ سب واقعات اس ناول کی کہانی کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی اس کی تعمیر میں شامل رہے ہیں۔ کہانی کا کینوس بظاہر بہت محدود مگر دراصل بے انتہا وسعت کا حامل ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مترجم نے ترجمے کے دوران مختلف ممکنہ متبادل الفاظ میں سے جن الفاظ کا انتخاب کیا ہے وہ ناول کی مجموعی فضا اور مزاج سے اس قدر میل کھاتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اس خیال کوصرف انھی الفاظ میں سوچا جا سکتا تھا، اس کے علاوہ اگر کوئی لفظ استعمال کیا جائے تو شاید معانی کی کئی پرتیں ان کہی اور کئی جہتیں محجوب رہ جائیں گی۔</p> </section> </body>
0039.xml
<meta> <title>ردو افسانہ، عالمی ادبی تحریکوں کے تناظر میں</title> <author> <name>صباحت مشتاق</name> <gender>Female</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 6</name> <year>2015</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/20_sabhat_mushtaq_bunyad_2015_.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>4906</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
ردو افسانہ، عالمی ادبی تحریکوں کے تناظر میں
4,906
Yes
<body> <section> <p>بیسویں صدی تک آتے آتے مغرب ذہنی اور فکری اعتبار سے کئی ارتقائی منزلیں طے کر چکا تھا۔ صنعتی اور سائنسی ترقی اور عہد حاضر کے سماجی شعور نے مغرب میں ایک نئے معاشرے کو جنم دیا۔ اگرچہ مغرب کی یہ فکری بیداری اٹھارویں صدی کے آخر میں محسوس ہونا شروع ہو گئی تھی۔ تاہم جدید سائنسی طرزِ احساس پر مبنی معاشرہ اور معاشرتی رویے انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں ہی نمایاں ہونے لگے تھے۔</p> <p>مغرب میں سائنسی اور صنعتی ارتقاکی بدولت سائنسی طرزِ احساس نے بہت سی روایات کو توڑا۔ یہ بات درست ہے کہ فکری ترقی جہاں ذہنی کشادگی، وسعتِ نظری اور ذہنی بیداری لے کر آئی وہاں ریاست کے قیام اور شناخت کے مسائل بھی ابھر کر سامنے آئے اور یہ فکری تضادات بیسویں صدی کی دوسری دہائی تک آتے آتے نو آبادیاتی نظام، اُس کی کساد بازاری، منڈیوں کے حصول اور تجارتی راستوں کی جنگ کے طور پر شدت اختیار کر گئے، جس کا نتیجہ ۱۹۱۴ئ میں جنگِ عظیم کی صورت میں نکلا۔ یہ جنگ جہاں مالی مفادات کا شاخسانہ ثابت ہوئی وہاں سماجی، علمی اور ادبی حوالوں سے نئے فکری اُفق نمایاں ہوئے۔ پہلی جنگِ عظیم کے نتیجے میں انسانی اقدار کی پامالی، زندگی پر بے اعتباری اور خون ریزی نے اہلِ علم کو نئے زاویے سے سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اس جنگ کے خاتمے کے بعد مغرب میں بہت سی علمی اور ادبی تحریکیں ردِ عمل کے طور پر سامنے آئیں۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی کا ایک اور اہم حوالہ ۱۹۱۷ئ کا روسی انقلاب تھا، جو فرد کی انفرادیت سے ہٹ کر اُس کی اجتماعیت کو سامنے لایا۔ یوں بیسویں صدی کی پہلی دو دہائیاں اپنے دامن میں کئی تحریکوں کولیے ہوئے ہیں۔</p> <p>پہلی جنگِ عظیم کے بعد حالات و واقعات میں ہونے والی تبدیلی کے نتیجے میں جو ادبی تحریکیں اُبھریں اُن میں اہم تحریک دادا ازم <annotation lang="en">(Dadaism)</annotation> تھی۔ فروری ۱۹۱۶ئ میں زیورچ سے شروع ہونے والی اس تحریک کے اثرات پیرس، برلن کے ساتھ پورے یورپ میں پھیل گئے۔ اس تحریک کا آغاز ٹرسٹان زارا <annotation lang="en">(Tristan Tzara)</annotation> نے کیا۔ دادائیت مصوری کا ایک مکتبِ فکر تھا جو فطرت پسندی کے ردِ عمل کے طور پر سامنے آیا۔ دادائیت کا مقصد تمام اخلاقی اور ذوقی اقدار سے بغاوت اور اُن کو تہہ و بالا کرنا تھا۔</p> <p>زارا کے علاوہ اس تحریک کے ساتھ وابستہ لوگوں میں ”الساس“ <annotation lang="fr">(Alsatian)</annotation>، ”ہانس آرپ“ <annotation lang="fr">(Hans Arp)</annotation>، ”ہیوگوبال“ <annotation lang="de">(Hugo Ball)</annotation>، ”رچرڈ ہیولینسبیک“ <annotation lang="de">(Richard Huelsenbeck)</annotation> تھے۔</p> <p>داداازم کے علمبردار یہ جواز پیش کرتے تھے کہ ادب میں ایک حد تک زنانہ پن آچکا ہے اور زندگی کسی حد تک اپنی مردانہ خصوصیات سے عاری ہو چکی ہے۔ اُنھیں اس بات پر بھی اعتراض تھا کہ بچے کے منہ سے پہلا لفظ ”ماں“، امی <annotation lang="en">(Mama)</annotation> کیوں نکلتا ہے۔ اصولاً اس کی زبان سے پہلے لفظ ”اَبّا“ <annotation lang="en">(Dada)</annotation> نکلنا چاہیے۔ دادائیوں کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ ادب کو مردانگی سکھائیں گے۔</p> <p>اس تحریک کی ابتدا اُس وقت ہوئی جب یورپ پہلی جنگ عظیم کی لپیٹ میں تھا۔ میکانکی نظام نے فرد کا دائرۂ کار محدود کر دیا تھا اور دادا ازم کے بانی خود کو ادب و فن کے لیے وقف کیے ہوئے تھے۔ ان کے لیے کچھ بھی مقدس نہ تھا۔ وہ نہ تو کمیونسٹ تھے اور نہ ہی انارکسٹ اور نہ ہی صوفی۔ لہٰذا یہ تحریک مکمل طور پر اخلاقی اور مذہبی اقدار سے عا ری تھی۔</p> <p>دادا ازم کے منشور کا بنیادی لفظ تھا <annotation lang="en">”Nothing“</annotation>۔ دادا ئی کسی پر اعتماد کرنے کو تیار نہ تھے حتی کہ اُن کا کہنا تھا کہ جو صحیح دادائی ہیں وہ دادائیت کے بھی خلاف ہیں کیونکہ ہر چیز، جو کسی بھی اصول اور قانون کے تحت ہے اُس سے انحراف ہی دادائیت ہے۔</p> <p>ڈکشنری آف لٹریری ٹرمز اینڈ لٹریری تھیوری کے مطابق:</p> <blockquote> <p><annotation lang="en">The term was meant to signify everything and nothing or total freedom, antirules, ideals and traditions…In art and literature manifestations of this ’aesthetic‘ were mostly collage effect. The arrangement of unrelated objects and words in a random fashion.</annotation></p> </blockquote> <p>دادائیت کی اس روشنی کی وجہ سے اس کے پیروکاروں میں بھی اس کے خلاف نفرت کا جذبہ پیدا ہو گیا اور وہ اس سے الگ ہو گئے اور ایک علاحدہ مکتبۂ فکر کی بنیاد رکھنے کے بارے میں سوچنے لگے۔ دادا ازم چونکہ ادب، مصوری، فلسفے اور موسیقی کی دنیا میں ہر چیز سے بغاوت تھی اور ملامت کی حامل تھی اس لیے جلد ہی سرئیلزم میں ضم ہو گئی۔</p> <p>سرئیلزم <annotation lang="en">(Surrealism)</annotation> دادا ازم ہی کی ایک شاخ تھی۔ دادا ازم سے وابستہ شاعر اور ادیب بعد میں سرئیلزم سے وابستہ ہو گئے تھے۔ ان میں آندرے برتیاں <annotation lang="fr">(André Breton)</annotation> سرفہرست ہے۔ ۱۹۲۲ئ میں آندرے برتیاں نے دادا ازم کے مکتبۂ فکر سیعلاحدگی اختیار کر لی۔ یہ تحریک فطرت کی عقلی اور روحانی قوتوں کے خلاف فن کی بغاوت اور نفس کی غیر عقلی قوتوں کا اعلانِ آزادی قرار پائی۔</p> <p>ابو الاعجاز صدیقی اس ضمن میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :</p> <blockquote> <p>سرئیلزم تحت الشعوری اور خواب گوں تمثالیں پیش کرنے کی شعوری کوشش کا نام ہے، جب کہ دادا ازم فن کی دنیا میں محض انار کی اور لاقانونیت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس تحریک کو منفی آرٹ یا منافیِ فن قرار دیا گیا۔ جہاں تک شعرو ادب کا تعلق ہے۔ دادا ازم کے علمبرداروں نے جو شاعری کی وہ نہ صرف غیر مربوط تھی بلکہ مصوری کے اعتبارسے بھی تہی دست تھی۔ اپنے نظریات فن کے اعتبار سے یہ لوگ اس بے ربطی اور معنوی تہی دستی کے ہی مبلغ اور علم بردار تھے۔</p> </blockquote> <p>سرئیلزم نے فرانس میں نشوونما پائی لیکن انگلستان میں اس کے اثرات زیادہ مقبول نہ ہوئے، البتہ جب دوسری جنگِ عظیم ۱۹۳۹ئ کے دوران بہت سے فرانسیسی سرئیلسٹ امریکہ گئے تو وہاں کے ادب نے سرئیلزم سے بخوبی فائدہ اٹھایا۔ جہاں تک اُردو افسانے کا تعلق ہے اُس میں سرئیلزم کے واضح اثرات نظر نہیں آتے، صرف ایک زیریں لہر کی صورت میں کچھ افسانہ نگاروں کے ہاں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ ۱۹۳۵ئ–۱۹۴۰ئ میں جن افسانہ نگاروں خاص طور پر نوجوانوں (احمد علی، رشید جہاں، سجاد ظہیر، محمود الظفر) نے افسانہ لکھا اُن میں سے بیشتر کو یورپ میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ملے، لہٰذا اُنھوں نے نہ صرف مغربی ادب کا مطالعہ کیا بلکہ اُس دور میں پروان چڑھنے والے ادبی رجحانات و میلانات سے بھی روشناس ہوئے اور انھوں نے شعوری طور پر نئے تجربات اور امکانات کو اردو افسانے میں سمونے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں اُردو افسانہ مغرب میں برتی جانے والی تکنیکوں اور اُسلوب سے آشنا ہوا، چنانچہ شعور کی رو، آزاد تلازمہ خیال، تاثریت، وجودیت، علامت اور سرئیلزم کے اثرات اُردو افسانے میں نظر آنے لگے۔ خصوصاً انگارے کے افسانوں خاص طور پر ”مہاوٹوں کی ایک رات“، ”بادل نہیں آتے“ میں سرئیلزم کی موجودگی کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ کرشن چندرکا ”مثبت اور منفی“ اور ”ایک سرئیلی تصویر“ عزیز احمد کے افسانے ”جھوٹا خواب“ میں سرئیلزم کی لہر چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ جدید لکھنے والوں میں انور سجاد کے افسانے ”سنڈریلا“، ”مرگی“ اور ”آنکھ اور سایہ“ جب کہ احمد دائود کی کہانیوں اور مظہر الاسلام کے ہاں سرئیلی تاثرات موجود ہیں۔</p> <blockquote> <p>مثبت اور منفی، مثبت اور منفی، لہریں بھاگتی ہوئی جا رہی ہیں۔ ہر لہر کی رفتار ہوتی ہے، ہر رفتار میں حرکت ہوتی ہے۔ ہر حرکت مارے تو زخمی کرتی ہے۔ اگر ایک چیز آگے بڑھتی ہے تو دوسری ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ وہ تاریک ہو جاتی ہے تو یہ روشن ہو جاتی ہے۔ وہ مر جاتی ہے تو یہ زندہ ہو جاتی ہے۔ بابر اور ہمایوں، مثبت اور منفی بادشاہت اور رعایا، تارے دیکھتے ہوئے انگاروں کی طرح سوکھی آنکھوں میں لوٹنے لگے۔ یا اللہ نیند کیوں نہیں آتی۔ ساری دُنیا سو رہی ہے کیا اس لیے مجھے نیند نہیں آتی۔</p> <p>گلی میں زیادہ لوگ نہیں تھے اس لیے اس نے اسے آوازیں دیں۔ اس کا نام پوچھا۔ مگر وہ کوئی جواب دیے اور پیچھے دیکھے بغیر چلا جا رہا تھا۔ اُس کے ہاتھ اب بھی اوور کوٹ کی جیبوں میں تھے۔ تعاقب کرنے والے کو اس سے کچھ خوف محسوس ہونے لگا۔ مگر اس کی حیرانی اور تجسس نے خوف کو وقتی طور پر دبا دیا تھا اسی لیے تو وہ مسلسل اُس کا تعاقب کر رہا تھا۔</p> </blockquote> <p>سرئیلزم کے اثرات اُردو افسانے میں بہت واضح نہیں تھے بلکہ ایک زیریں لہر کے طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں اس لیے ان تمام متذکرہ بالا افسانہ نگاروں کو باقاعدہ سرئیلسٹ یا سرئیلی افسانہ نگار نہیں کہا جا سکتا، البتہ سرئیلزم کے اثرات اُردو افسانے پر بڑے مدھم اور موہوم صورت میں موجود ضرور ہیں۔ ایک اور اہم تحریک جس کے اثرات ہمارے اُردو کے جدید علامتی اور تجریدی افسانے پر پڑے اور آج تک ہیں وہ ہے وجودیت۔</p> <p>وجودیت <annotation lang="en">(Existentialism)</annotation> کی تحریک کو مغرب میں دوسری جنگِ عظیم ۱۹۳۹ئ کے بعد پیدا ہونے والے واقعات نے مقبولیت بخشی۔ یہ جنگ نہ صرف خونریزی کا باعث بنی بلکہ اُس نے مغرب کے سیاسی نظام کو بھی توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ سماجی اقدار کی پامالی نے معاشرے کو مایوسی، تنہائی اور غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار کر دیا جس نے انسان کو اپنے داخل کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کیا۔</p> <p>وجودیت کے دو بنیادی رنگ ہیں۔ ایک مذہبی یا الہٰیاتی وجودیت <annotation lang="en">(Theistic Existentialism)</annotation> جس کا نمائندہ ”کرکیگارڈ“ <annotation lang="da">(Kierkegaard)</annotation> ہے جو خدا کی ذات میں اپنی بے صبری، بے چینی اور اضطراب کا حل تلاش کرتا ہے، جب کہ دوسرا رنگ دہری یا لا دینی وجودیت کا ہے، جس کی نمائندگی سارتر کرتا ہے۔ اُس کے نزدیک انسان ایک فعال اور متحرک ہستی ہے۔ وجودیت کا اصل بانی کرکیگارڈ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے نزدیک <annotation lang="en">”Subjectivity is truth, subjectivity is reality“</annotation>۔</p> <blockquote> <p>وجودی نقطۂ نظر کے مطابق ہر فرد کی کچھ ایسی داخلی اور موضوعی کیفیات ہیں جن میں فرد کو دنیا میں موجود ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ ان داخلی وارداتوں کو وجودیت میں دہشت، بوریت، مایوسی، موت، کراہیت، ضمیر بد اور جرم وغیرہ کہا جاتا ہے۔ وجودیت کا سب سے اہم پہلو تصورِ حریت ہے۔ یہ دراصل روایتی اندازِ فکر کے خلاف ایک بغاوت ہے کیونکہ اسی اندازِ فکر نے انسان کو مادیت اور مذہبیت وغیرہ کے چکر میں اُلجھا کر آزادیِ رائے سے محروم کر دیا اور اُس کی موضوعیت کو معروضیت میں تبدیل کر دیا۔ مزاحمتی سطح پر وجودیت نے انسان کو جینے کا حوصلہ دیا ہے کیونکہ ساری دنیا جس انتشار کا شکار ہے اور لایعنیت اور جبر کی جن انتہائی صورتوں نے فرد کا گھیرائو کر رکھا ہے ان کی موجودگی میں وجودیت فرد کے دِل کی آواز بن جاتی ہے جو فرد کے اثبات کا اقرار کرتی ہے۔</p> </blockquote> <p>سارتر نے بھی اپنی تحریروں میں وجودی مسائل اور سوالات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی مثلاً موجود کو جوہرپر فوقیت دینا، بے معنویت، متلی اور لایعنیت کے احساس کو بیان کرنا۔ کرب، مایوسی، بے زاری، احساسِ جرم، تنہائی اور دہشت کے پہلوئوں کو اُبھارنا، کوئی فیصلہ کرتے ہوئے ذہنی کشمکش سے دوچار رہنا، ریاکاری پر مبنی زندگی سے نفرت کا اظہار، انتہائی یاسیت، قنوطیت اور بحرانی صورتِ حال سے اُبھرنے والی رجائیت یا زندگی کا عرفان پائی ہوئی رجائیت کو گرفت میں لینا اور رومانی اکتشافات سے منسلک کیفیات کا اظہار کرنا۔ لادینی یا دہری وجودیت (جس کی نمائندگی سارتر کرتا ہے) کے مطابق وجود جو ہر پر مقدم ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ میں ہوں، اس لئے میں سوچتا ہوں۔ وہ انسان کو کوئی شے نہیں بلکہ متحرک ہستی، ایک فعلیت قرار دیتا ہے۔</p> <blockquote> <p>جس دہری وجودیت کا میں نمائندہ ہوں، وہ زیادہ استقامت کے ساتھ اعلان کرتی ہے کہ اگر خدا موجود نہیں تو بھی کم از کم ایک ہستی ضرور ہے جس کا وجود اس کے جوہر پر مقدم ہے۔ یعنی ایک ایسی ہستی جو اپنے تصور سے پہلے موجود ہوتی ہے۔ یہ ہستی انسان ہے۔</p> </blockquote> <p>وجودی فکر کے اثرات زیادہ تر جدید علامتی اور تجریدی افسانے میں نمایاں ہوئے۔ جدید افسانہ لکھنے والوں مثلاً قرۃ العین حیدر، انتظارحسین، رام لعل، بلراج مین را، انور سجاد، غلام الثقلین نقوی، عبد اللہ حسین، بلراج کومل، خالدہ حسین، منشا یاد کے ہاں وجودی فکر کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ ان افسانہ نگاروں نے تنہائی کے احساس کو افسانوں میں جگہ دی۔ اس کے علاوہ خوف، مایوسی، دہشت، کرب کی وجودی اصطلاحات کے مفاہیم کو افسانوں کی وساطت سے بیان کرنے کی کوشش کی۔</p> <blockquote> <p>اُردو ادب پر وجودیت کا اثر کامیو، سارتر اور ان سے متاثرہ دوسرے ادیبوں کی تحریروں اور تخلیقات کے واسطے سے پڑا۔</p> </blockquote> <p>وجودیت کے اثرات اگرچہ سرئیلزم کی طرح جدید اُردو افسانے میں ایک زیریں لہر کے روپ میں نظر آتے ہیں مگر ان اثرات کی وجہ سے اُردو کے جدید افسانے میں نہ صرف موضوع کی گہرائی پیدا ہوئی بلکہ انوکھی علامتوں، استعاروں اور تشبیہات نے افسانے کے اسلوب کو نیا رنگ دیا، جو ہمیں انتظار حسین (”آخری آدمی“، ”زرد کتا“)، قرۃ العین حیدر (”جلاوطن“)، رام لعل (”آنگن“، ”قبر“)، انور سجاد (”گائے“، ”کونپل پرندے کی کہانی“)، خالدہ حسین (”سواری“،”ایک بوند لہر کی“)، عبد اللہ حسین (”ندی“)، منشا یاد (”کنواں چل رہا ہے“) میں واضح نظر آتے ہیں۔ ان افسانہ نگاروں کے علاوہ رشید امجد، سمیع آہوجا، زاہدہ حنا، مرزا حامد بیگ، احمد دائود، احمد جاوید، مسعود اشعر، مظہر الاسلام نے وجودی فکر کے انداز کو پروان چڑھایا۔</p> <p>مغربی تحریکوں میں سے ادب کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والی تحریک علامت نگاری تھی۔ اُردو ادب میں علامت نگاری <annotation lang="en">(Symbolism)</annotation> کی تحریک رومانیت پسندوں اور حقیقت پسندوں کے خلاف ردِ عمل تھی۔ اسی دور میں ڈارون نے انسانی ارتقا کے نظریات پیش کر کے انسانیت کے تصور کی بنیاد ہلا دی اور صنعتی انقلاب کے سبب جب انسان مشینوں کے سامنے بے بس ہو گیا تو علامت نگاری پروان چڑھنے لگی۔ فرانس میں اس تحریک کی باقاعدہ ابتدا بودلیئر <annotation lang="fr">(Baudelaire)</annotation> اور امریکا میں ایڈگرایلن پو <annotation lang="en">(Edgar Allan Poe)</annotation> کے زیرِ اثر شروع ہوئی۔</p> <p>ستمبر ۱۸۸۶ئ میں جین مورس نے علامت نگاری کی تحریک کا باقاعدہ منشور شائع کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ رومانیت، فطرت نگاری اور حقیقت نگاری کا دور ختم ہو گیا ہے اور اب علامت نگاری کا آغاز ہے۔ جین مورس نے علامت نگاری کے جس سکول کی بنیاد رکھی اُس کے نمایاں ناموں میں بودلئیر، ملارمے، ورلین اور ریمبو شامل تھے، جب کہ اُس کی پیروی کرنے والوں میں رینے گل، سٹیورٹ میرل، گستاف اور فرانس گرفن شامل تھے۔ علامت نگاروں نے بار بار اس امر کا اظہار کیا کہ اُنھیں زندگی سے کوئی سروکار نہیں صرف فن اور خواب کی دنیا ہی اُن کی کل کائنات ہے۔ انھیں سماج سے کوئی واسطہ نہیں۔ صرف تخیل کی دنیا ہی اُن کے لئے سب کچھ ہے۔ ان کے نزدیک حقیقت صرف سایہ اور دنیا ایک مٹی کا تودہ تھی۔ علامت نگاری اُن ذہنوں کی نمائندگی کرتی ہے، جو ہر لمحہ نئی چیزوں کی تلاش کرتے ہیں، کہنگی سے نفرت اور بغاوت کرتے ہیں، گویا علامت ایک اعتبار سے معنی کی دریافت اور یاددہانی کا ذریعہ ہے۔</p> <blockquote> <p>علامت عکاسی کا نہیں دریافت اور قلب ماہیت کا عمل ہے۔ یہ کسی مرتب شدہ صورت حال کو سامنے نہیں لاتی بلکہ امکانات کو مَس کرتی ہے تاکہ حقیقت کو جان سکے۔</p> </blockquote> <p>علامت نگاری دیو مالا سے مختلف چیز ہے اگرچہ دیو مالا کے کردار علامتی انداز میں استعمال کیے جا سکتے ہیں، مگر جس قسم کی علامت کے لیے تخلیق کیے جاتے ہیں اُنھیں بدلا نہیں جا سکتا۔ جب کہ علامت نگاری میں ایک ہی چیز مختلف چیزوں کی علامت ہو سکتی ہے۔ علامت جب مانوس اور مقبول ہو جاتی ہے توپھر وہ کبھی ختم نہیں ہوتی اور نہ ہی اُس کے معنی ختم ہوتے ہیں بلکہ وہ ہمیشہ کے لیے معنی خیز ہو جاتی ہے۔ علامت نگاری کی اس تحریک کا دائرۂ اثر صرف فرانس تک ہی محدود نہ رہا بلکہ فرانس سے باہر بھی خاص طور پر روسی ناول نگاروں نے اس کے اثرات قبول کیے۔ اردو افسانے میں بھی علامت کا رجحان مغرب سے آیا جسے پاکستان کے سیاسی اور سماجی حالات نے پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ پاکستان میں ۱۹۵۸ئ کے پہلے مارشل لا کے نفاذ کے بعد ۱۹۶۰ئ کی دہائی میں علامت نگاری کا رجحان واضح ہونا شروع ہوا۔ اس کے علاوہ ۱۹۶۰ئ کی دہائی میں ہی پرانے نظریات اور تصورات کو رد کر کے حقائق کو نئے زاویوں سے پرکھنے کا علمی رویہ وجود میں آگیا تھا۔ لہٰذا ادب میں بھی نئے راستوں کی تلاش کا رجحان فروغ پانے لگا۔ علامتی افسانے کی سب سے اہم خوبی اسلوب کی تازگی ہے۔ اُس نے اسلوب کو سطحیت اور اکہرے پن سے نجات دِلا کر جملوں کی روایتی ساخت کو توڑا جس سے افسانے میں نہ صرف فکری تہ داری پیدا ہوئی بلکہ مواد، اسلوب اور تکنیک کے اعتبار سے بھی اُردو افسانے میں وسعت آئی۔</p> <blockquote> <p>اور یک لخت اس نے محسوس کیا کہ تبندوں کی بستی کی ساری شمعیں ماند پڑتی جاتی ہیں اور پھر خواب گاہ کے نیلے ایرانی قالین پر اُسے بازوئوں کی مضبوط گرفت میں اُٹھا لیا گیا اور دریچے سے باہر چاندنی رات کی ہوائیں چلنا بند ہو گئیں اور فضا میں گرمی بڑھتی گئی۔</p> <p>اور الیاسف نے بنت الاخضر کو یاد کیا اور ہرن کے بچوں اور گندم کی ڈھیری اور صندل کے گول پیالے کے تصور میں سرو کے دروں اور صنوبر کی کڑیوں والے گھر تک گیا۔ اُس نے خالی مکان کو دیکھا ور چھپر کھٹ پر اُسے ٹٹولا جس کے لیے اُس کا جی چاہتا تھا اور پکارا کہ اے بنت الاخضر تو کہاں ہے۔</p> </blockquote> <p> علامت نگاری اُردو ادب کی اہم تحریک تھی۔ یہ ادب میں کسی نہ کسی صورت موجود رہی اور آج تک چلتی آرہی ہے۔</p> <p>مغرب کے علاوہ جب ہم بیسویں صدی کے ہندوستان کو دیکھتے ہیں تو وہ بھی ہمیں ذہنی ارتقا کی منزلیں طے کرتا نظر آتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان کی تمدنی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا۔ ذرائع مواصلات کی ترقی نے فاصلوں کو کم کر دیا۔ سائنسی ایجادات نے تہذیبی تبدیلیوں کو جنم دیا۔ تعلیم کے عام ہونے سے انسانوں میں سائنسی اور تاریخی شعور پیدا ہوا جس نے رنگ و نسل کے فرسودہ نظریات کو رد کر دیا اور شرفِ آدمیت اور مساواتِ انسانی کے تصورات عالمگیر پیمانے پر اُبھرے۔ ڈارون کا نظریۂ ارتقاے انسانی، فرائڈ کا نظریۂ نفسی لا شعور اور تجزیۂ نفس کے ساتھ کارل مارکس کے طبقاتی شعور کے نظریات برصغیر کے اس تعلیم یافتہ طبقے تک پہنچ رہے تھے جو اگرچہ مغربی تعلیم کا پیدا کردہ تھا۔ یہ لوگ مغرب پر رشک کے ساتھ ساتھ نفرت بھی کرتے تھے کیونکہ اُنھیں اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ مغربی حکمرانوں نے ہندوستان کے کروڑوں باشندوں پر غلامی اور افلاس مسلط کر رکھا ہے۔ وہ اُن کا استحصال کرنے کے بعد اُن سے ممنونیت کی توقع بھی رکھتے ہیں۔ برصغیر کے سیاسی حالات پہلے ہی ابتری کا شکار تھے کہ ۱۹۱۴ئ میں ہونے والی پہلی جنگِ عظیم کے اثرات نے برصغیر کی معیشت کو تباہ کر دیا۔ اقتصادی بدحالی نے عوام کو حکومت کے خلاف بھڑکا دیا اور وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ ۱۹۱۷ئ میں روس میں اشتراکی انقلاب آیا جس کی سیاسی حیثیت نے پوری دنیا کو متاثر کیا۔ ہندوستان بھی اُس کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکا۔ اس کے بعد امر تسر جلیانوالہ ۱۹۱۹ئ کے واقعے نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور بغاوت کی آگ نے پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔</p> <p>بیسویں صدی کے آغاز میں فکری سطح پر دو مختلف دھارے نظر آتے ہیں۔ ایک مغربی تحریکوں اور اُن کے اثرات کا، دوسرا برصغیر میں اُٹھنے والی ادبی تحریکوں کا۔ مغرب میں صنعتی اور سائنسی ترقی اگرچہ بہت سی فرسودہ روایات کے خاتمے کا سبب بنی، لیکن ان تبدیلیوں کے تضادات بھی سامنے آنے لگے۔ مغرب میں علمی و ادبی سطح پر یہ زمانہ قابلِ ذکر ہے۔ دادا ازم، سرئیلزم، وجودیت اور علامت نگاری کی تحریکوں نے اپنے عہد کی بے چہرگی، اقدار کی پامالی اور فرد کی تنہائی کو تخلیقی سطح پر محسوس کیا۔ اس کے علاوہ ادب اور نفسیات کے تعلق اور لسانی سطح پر جدید تحریکوں کے فکری مباحث بھی اپنا اثر دکھانے لگے۔ جدید لسانی تحریکوں میں ساختیات <annotation lang="en">(Structuralism)</annotation> پس ساختیات <annotation lang="en">(Post-structuralism)</annotation> اور ردِتشکیل <annotation lang="en">(Deconstruction)</annotation> کو خاص اہمیت حاصل رہی۔ ساختیات کا آغاز بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ہوتا ہے۔ یہ کوئی باقاعدہ شعبۂ علم نہیں بلکہ بنیادی طور پر ایک طرزِ مطالعہ ہے، جس کا دائرہ لسانیات، بشریات، تاریخ اور فلسفے تک پھیلا ہوا ہے اور اس طرح ادب میں فکری راہیں کشادہ ہوتی چلی گئیں۔</p> <p>ہندوستان میں بیسویں صدی کا آغاز رومانی رویوں کے فروغ کے ساتھ ہوا۔ رومانی تحریکوں کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اُردو میں یہ روایت مغربی اثرات کی بنا پر شروع ہوئی۔ جس زمانے میں یہ تحریک ہندوستان پہنچی اُس وقت تک مغرب میں اُس کا رجحان فرسودہ ہو چکا تھا اور یہاں تک آتے آتے اُس کی صورت خاصی مسخ ہو چکی تھی۔ برصغیر میں رومانوی ادیبوں سے پہلے ادب میں عورت کا تصور نہایت محدود تھا۔ وہ یا تو طوائف تھی یا انجمن آرا، جس کا بیان شاعر اور ادیب چٹخارے لے کر کرتے تھے یا پھر دبیز پردوں کے پیچھے چھپی ہوئی، جس کا اپنا کوئی وجود نہیں تھا۔ یہ تحریک صرف سرسید تحریک کا ردِ عمل نہیں تھی بلکہ معاشرے کی روایات اور رویوں سے بغاوت بھی تھی۔ اس تحریک کے زیر اثر لکھنے والوں نے ادب میں ایک صحت مند، توانا اور متحرک عورت کو داخل کیا۔ یہی وہ دور ہے جب آسکر وائلڈ کی جمال پرستی، ٹیگور کی ماورائیت اور شاعرانہ نثر نے اُردو افسانے میں جگہ پائی اور اس دور کے لکھنے والے حقیقت کی بجائے تصوراتی دنیا میں زیادہ دلچسپی لینے لگے۔ اس تحریک کا سب سے زیادہ اثر سجاد حیدر یلدرم اور نیاز فتح پوری نے قبول کیا۔ نیاز کی انگریزی ادب سے واقفیت اور یلدرم کا ترکی ادب سے متاثر ہونا انھیں رومانویت کے قریب لے آیا۔ ابتدا میں پریم چند بھی اسی رومانویت کے زیر اثر نظر آتے ہیں، مگر اُن کی رومانیت نے انھیں انسان دوستی سے آشنا کیا اور یہی انسان دوستی انھیں رومانویت سے حقیقت نگاری کی طرف لے جاتی ہے۔ خاص طور پر اُن کے پہلے افسانوی مجموعے سوزِ وطن کے افسانے حقیقت اور رومان کا امتزاج ہیں۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ بیسویں صدی میں ہمیں دو مختلف صورتیں ایک نقطے پر منتج نظر آتی ہیں۔ پہلی صورت سائنسی انکشافات اور اُن کے اثرات اور دوسری صنعتی انقلاب جس نے یورپ کے باہر بھی شعور کی ایک نئی لہر دوڑا دی تھی، جس کے تحت فرائڈ اور مارکس کے نظریات علم و دانش کو متاثر کرنے لگے اور اردو افسانہ بھی ان اثرات سے بچ نہ سکا۔ گو اُردو افسانہ تخلیق کے ساتھ ساتھ سماجی رجحانات ساتھ لے کر آیا مگر گھٹن کی فضا بدلنے لگی اور زندگی کی تمام جولانیوں اور فکری امنگوں کے جلو میں افسانوی مجموعہ انگارے (دسمبر ۱۹۳۲ئ) شائع ہوا۔ انگارے کے تمام افسانے سماجی قدروں سے یکسر بغاوت اور انحراف کے حامل تھے۔ انگارے پڑھے لکھے نوجوان (سجاد ظہیر، احمد علی، رشید جہاں، محمودالظفر) کی تخلیقات پر مبنی مجموعہ تھا، جن کا لہجہ نہایت تلخ اور کاٹ دار تھا۔ انگاریکی بیشتر کہانیوں میں ٹھہرائو کم اور رجعت پسندی اور دقیانوسیت کے خلاف غصہ اور ہیجان زیادہ تھا۔ انگارے کے شائع ہوتے ہی اس کے خلاف ایک ردِ عمل شروع ہو گیا۔ مارچ ۱۹۳۳ئ میں اسے ضبط کر لیاگیا۔ اردو ادب میں یہ ایک طاقتور رویہ تھا جس نے پہلے سے موجود تخلیقی نظریات میں ہلچل مچا دی۔</p> <p>انگارے کے افسانے موضوع اور اسلوب بیان کے اعتبار سے اُردو افسانے کی روایت سے کھلی بغاوت تھے لیکن اُس کے باوجودانگارے کے تاریخی کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ترقی پسند افسانے نے انگارے ہی کی خاک سے جنم لیا اور انگارے کے بعد اگلا قدم ترقی پسند تحریک کے روپ میں اٹھایا گیا۔ ۱۹۳۵ئ میں جب سیاسی بیداری عام ہوئی، مادی وسائل کے حصول اور جسمانی ضرورتوں کی تسکین نے فوقیت حاصل کر لی تو ادب میں ایک ایسی تحریک نے جنم لیا جس کے نظریات پریم چند کی حقیقت نگاری سے جڑے ہوئے تھے۔ یہ ترقی پسند ادب کی تحریک تھی جس کا ابتدائی اجلاس لکھنؤ ۱۹۳۶ئ میں ہوا۔ اس کی صدارت پریم چند نے کی۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے خیال میں:</p> <blockquote> <p>ترقی پسند تحریک ایک خالصتاً مادی تحریک تھی جس کا مقصد رومانی بالیدگی کا حصول نہیں بلکہ معاشی انصاف کے لیے زمین ہموار کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے ترقی پسند تحریک ان فرسودہ اور رجعت پسند عناصر کے استحصال پر بضد تھی جو ترقی پسند معاشرے کی تشکیل میں مزاحم ہوتے ہیں اور استحصال کی فضا کو قائم رکھنے کے لیے اپنا سارا زور صرف کر دیتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کا اصل مقصد سماجی انجماد کو توڑ کر فرد کی صدیوں پرانے ظالم استحصالی نظام سے نجات دلانا تھا۔</p> </blockquote> <p>ترقی پسند تحریک سے پہلے حقیقت نگاری نے خارج کے مشاہدے کو حقیقی جزئیات کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی۔ حقیقت نگاری کے زیر اثر لکھنے والوں نے اپنے وقت کے سیاسی، سماجی رجحانات کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ عام انسانی زندگی کی نفسیات اور ہندوستان کے مختلف طبقوں کے افراد کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کی۔ اگرچہ اُن کے ہاں نئی حقیقتوں کا انکشاف نہیں مگر نفسیاتی زندگی کی نقاب کشائی کم اہمیت نہیں رکھتی۔ حقیقت نگاری کے حوالے سے سب سے نمایاں نام پریم چند کا تھا۔ پریم چند کے ساتھ جو نام نمایاں نظر آتے ہیں اُن میں سدرشن، علی عباس حسینی، اعظم کریوی ہیں۔</p> <p>ترقی پسند تحریک ایک انقلابی تحریک تھی جس نے اس دور کے ذہنوں اور رویوں کو بدلنے کی کوشش کی۔ لہٰذا اُردو کے بڑے بڑے شاعر اور ادیبوں نے اس کا خیر مقدم کیا جن میں پریم چند، جوش ملیح آبادی، نیاز فتح پوری، قاضی عبد الغفار اور علی عباس حسینی کے نام نمایاں ہیں۔</p> <p>یہ اردو کی پہلی تحریک تھی جس کے لیے باقاعدہ منشور تحریر ہوا۔ بقول ڈاکٹر سلیم آغاقزلباش یہ ایک طوفانی تحریک تھی جس کی طغیانی میں اُس دور کے بیشتر ادیب ڈوبتے چلے گئے اُنھوں نے غلام ہندوستان کے لیے ایک خوشحال ملک کا خواب دیکھنا شروع کر دیا۔ اس تحریک کے ابتدائی لکھنے والوں میں پریم چند کا افسانہ ”کفن“ اُنھیں ترقی پسند افسانے کا پیش رو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔</p> <p>اس کے علاوہ سجاد ظہیر، احمد علی، رشید جہاںاور محمود الظفر شامل تھے جن کے انگارے میں شامل افسانے اگرچہ فنی لحاظ سے کمزور ہیں مگر ترقی پسند نقطۂ نظر کے افسانے شمار کیے جاتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھی ہمیں افسانہ نگاروں کی ایک ایسی بڑی تعداد دکھائی دیتی ہے جو ترقی پسند سوچ کے حامل تھے اور اُنھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے ترقی پسند نقطۂ نظر کو بلند آہنگی سے ہمکنار کیا۔</p> <p>ترقی پسند افسانہ نگاروں نے زندگی کی حقیقتوں کو اس طرح موضوع بنایاکہ وہ جاندار انداز میں افسانے کو نئی سمتیں دینے میں کامیاب ہو گئیں۔ ترقی پسند تحریک ادب میں ایسی تبدیلی تھی جس نے تمام پرانے نقطہ ہائے نظر کو تبدیل کر دیا اور افسانے میں سماجی حقیقت نگاری کے ساتھ ساتھ شعور کی رو اور نفسیاتی تجزیہ نگاری کے علاوہ نئے موضوعات افسانے میں جگہ پا گئے۔ ان تمام چیزوں نے مل کر اُردو افسانے کو نئے اسالیب سے روشناس کرایا۔ یہ اسالیب کسی بیرونی دبائو کا نتیجہ نہ تھے بلکہ اُس دور کے سیاسی حالات سے اُبھرے تھے۔</p> <p>اس تحریک میں مستقبل کی طرف بڑھنے کا رجحان موجود تھا مگر اس تحریک نے جذباتی تحریک اور تخلیق کاری میں فاصلہ پیدا نہیں ہونے دیا۔ ہمیں اس کے متوازی ایک اور تحریک بھی چلتی نظر آتی ہے جو حلقہ ارباب ذوق (۱۹۳۹ئ)کی تحریک تھی۔ اس تحریک کو ترقی پسند تحریک کی ضد قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ داخلیت اور خارجیت، مادیت اور رومانیت کی بنا پر ان دونوں میں اختلاف ہے۔ حلقہ ارباب ذوق سے وابستہ ہونے والے ادیبوں نے ادب کو ادب ہی کے حوالے سے پہچانا اور ہیئت اور اسلوب کو اہمیت دی۔ چنانچہ ہر وہ ادیب جو کسی بھی طور ہیئت اور اسلوب کو اہمیت دیتا ہے، ترقی پسند وں کے نزدیک رجعت پسند، زوال آمادہ اور پست رجحانات کا علمبردار ہے۔ لہٰذا ان نظریات کی بنا پر حلقہ ارباب ذوق کو ترقی پسند تحریک کا ردِ عمل تصور کیا گیا۔ </p> <blockquote> <p>تاہم یہ دونوں تحریکیں ایک ہی زمانے اور ایک ہی جیسے سیاسی و سماجی حالات میں پیدا ہوئیں اور معنوی اعتبار سے یہ دونوں رومانویت کے بطن سے جنم لیتی ہیں۔</p> </blockquote> <p>ترقی پسند تحریک کا نصب العین واضح اور منزل متعین تھی جب کہ اس کے برعکس حلقہ ارباب ذوق اجتماع میں گم ہو جانے کی بجائے آدم کو اپنی شخصیت کے عرفان کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اُنھوں نے اپنے داخل کی آواز کو سنا اور خارج کے مشاہدے کو تخلیقی عمل کی آنچ سے گذارا اور اُسے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ حلقہ ارباب ذوق کے نزدیک ہر لکھنے والے کو یہ حق پہنچتا تھا کہ وہ ذات کے حوالے سے کائنات کا مطالعہ جس طرح چاہے، جس رُخ سے چاہے کرے اور ایسی اقدار کو اس انداز میں سامنے لائے جس سے عالمگیر انسانیت سے ہمدردی اور روح کی بالیدگی کی صورت پیدا ہو۔ گویا حلقہ ارباب ذوق ادب میں کسی نظریاتی پابندی کا قائل نہ تھا لکھنے والا جس نظریے سے چاہے سوچے، دیکھے اور لکھے۔</p> <p>فن اور اسلوب کے حوالے سے اگر ہم دیکھیں تو ترقی پسند تحریک توانا اور پر اثر تحریک تھی لیکن اس کے باوجود ایک روکھا پھیکا اور سپاٹ انداز اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ نظریاتی پابندی اور معاشرت کو بنیاد بنا کر ادب تخلیق تو کیا گیا مگر اُس کا سارا حسن نچوڑ لیا گیا۔ جب کہ حلقہ ارباب ذوق اُس وقت ادب برائے ادب کا قائل تھا۔ فن برائے زندگی اُن کے نزدیک بے کار اور فالتو شے تھی۔ حلقہ ارباب ذوق کے افسانہ نگاروں نے فرد کی داخلی کیفیات اور نفسیات کے علم سے زیادہ استفادہ کیا اور انسان کے داخل، اُس کی فطرت اور انوکھی جبلت کے زاویے آشکار کرنے کی کوشش کی اور ادب (شاعری، افسانہ) میں علامتی اور استعاراتی اسلوب کو فروغ دیا۔ انھوں نے نہ صرف اپنے آپ کو پچھلی روایات سے منسلک رکھا بلکہ گذشتہ روایات اور ادب کے اثاثے کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے لیے نئی علامتیں، نئے تلازمات اور نئے موضوعات تلاش کیے۔ بقول یونس جاوید:</p> <blockquote> <p>اُنھیں رومانوی حقیقت پسند کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔</p> </blockquote> <p>اس تحریک کے اولین افسانہ نگاروں میں شیر محمد اختر، کرشن چندر، اوپندر ناتھ اشک اور راجندر سنگھ بیدی کا شمار ہوتا ہے۔ برصغیر کی تقسیم تک ترقی پسند تحریک اور حلقہ اربابِ ذوق کے رجحانات ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ ترقی پسند افسانہ نگاروں نے افسانے میں شہری زندگی کے ساتھ ساتھ دیہاتی زندگی اور جاگیردارانہ جبر کو بھی پیش کیا۔ جب کہ حلقہ اربابِ ذوق نے سماجی مسائل کے پہلو بہ پہلو انسان کی باطنی دنیا کو نمایاں کیا۔ جنسی نفسیات اُس دور کا نیا اور اچھوتا موضوع تھا۔ ۱۹۴۷ئ میں برصغیر دو علاحدہ مملکتوں میں تقسیم ہو گیا۔ بڑی سطح پر انسانی خون کی ارزانی اور انسانی وقار کی بے حرمتی کے علاوہ ہجرت اور اپنی زمین سے دوری کہیں خارجی اور کہیں باطنی سطح پر ماضی پرستی یا <annotation lang="en">nostalgia</annotation> بن کر افسانے میں نمایاں ہوا۔ تخلیقی سطح پر اس دور میں بڑا افسانہ لکھا گیا۔ اس دور کے لکھنے والوں میں منٹو، احمد ندیم قاسمی، مرزا ادیب، غلام عباس، ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب، آغا بابر، ممتاز شیریں، حجاب امتیاز علی، حاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، الطاف فاطمہ، غلام الثقلین نقوی اور مسعود مفتی وغیرہ بھی اُردو افسانے کے منظرنامے پر نمایاں ہوتے ہیں۔</p> <p> میں افسانے میں علامتی اور تجریدی رجحانات کا فروغ ہوا کیونکہ ۱۹۵۸ئ کے مارشل لا کا خوف اور جبر معاشرے کی مختلف سطحوں میں سرایت کر گیا اور اُردو افسانے میں جہاں تجرید اور علامتی رجحانات کا فروغ ہوا اُس کے ساتھ داخلیت اور نئی مابعد الطبیعیاتی فکر نے بھی افسانے کو متاثر کیا۔ اسی دوران پاکستان کو دو جنگوں ۱۹۶۵ئ اور ۱۹۷۱ئ کا سامنا بھی کرنا پڑا جس نے مایوسی کی فضا کو اور گہرا کر دیا چنانچہ تجریدی اور علامتی رجحان افسانے میں مقبول ہو گیا اور علامتی افسانہ نگاروں نے اپنی الگ پہچان بنا لی جس میں منشا یاد، اعجاز راہی، سمیع آہوجا، رشید امجد، منصور قیصر، یونس جاوید، مسعود اشعر، اسد محمد خاں، مظہر الاسلام شامل تھے۔ ان افسانہ نگاروں نے افسانے کو موضوع اور اسلوب کے لحاظ سے متنوع کیا۔</p> <p> کے بعد قدرے ایک کھلی فضا کا احساس ہوا مگر ۱۹۷۷ئ میں ملک ایک بار پھر مارشل لا کی زد میں آگیا اور ادب کی دوسری اصناف کی طرح افسانے پر بھی اس کے اثرات پڑے اور علامت نگاری کی وہ تحریک جو ۱۹۶۰ئ میں شروع ہوئی تھی مزید فروغ پا گئی۔ ۱۹۸۰ئ کی دہائی میں ساختیات اور پسِ ساختیات کی بحثیں ادب کا حصہ بنتی ہیں اور افسانے کو نئی تبدیلی سے دوچار کر گئیں۔ اب تک اُردو افسانے کے موضوعات، ہیئت اور اسلوب میں جو تبدیلیاں ہوتی رہیں خاص طور پربیسویں صدی میں جو انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں اُن میں سے مغربی تحریکوں کے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ مغرب کے مقابلے میں بہت تاخیر سے یہ تحریکیں برصغیر میں داخل ہوئیں مگر بیسویں صدی کی ابتدا سے آج تک ان کے اثرات ہمارے ادب پر موجود ہیں۔ جہاں تک بات افسانے کی ہے تو افسانہ ہے ہی مغربی صنف ادب، لہٰذا اس کا مغربی تحریکوں سے متاثر ہونا یقینی تھا۔ ہم جب اُردو افسانے کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں اور ان تحریکات کے آئینے میں افسانے کے خدوخال تلاش کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور کے لکھنے والوں نے مندرجہ بالا فکری نظریات کے زیر اثر افسانہ، اس کے خطوط اور خدوخال کو مزید سنوارا۔</p> </section> </body>
0040.xml
<meta> <title>وزیر آغا کا انشائی اسلوب</title> <author> <name>سائرہ بتول</name> <gender>Female</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 6</name> <year>2015</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/21_saira_batool_bunyad_2015_.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>3406</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
وزیر آغا کا انشائی اسلوب
3,406
No
<body> <section> <p>اردو ادب میں انشائیہ اگرچہ دوسری اصنافِ ادب کی طرح یورپ سے آیا اور نظم اور ناول کی طرح اُسے یہاں کی بو باس اور رنگ و پیکر میں ڈھلنا پڑا لیکن اگر انشائیہ اپنی زمین کے ثقافتی مزاج اور زبان سے آشنا نہ ہوتا تو اس کا اسلوب اور انداز بدیسی ہی رہتا۔ اُسے یہاں کے اہل فکر و نظر سے مانوس ہوتے ایک مدت گذر جاتی۔ اُس کی اجنبیت کا یہ عالم ہو سکتا تھاجو ابتدا ہی میں اُس کی موت کا سبب بن جاتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ انشائیہ ایک ایسے پودے کی طرح ہے جو دوسری فضا میں آ کر زیادہ قوت اور نمو کا حامل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انشائیہ برصغیر میں خوب پھلنے پھولنے لگا۔ اس کے یوں ثمردار ہونے میں جن ہاتھوں کی محنت شامل ہے ان میں وزیر آغا کا نام سر فہرست ہے۔ وزیر آغا نے اردو انشائیہ کو اپنے ثقافتی مزاج اور مشرقی آہنگ سے یوں آشنا کیا کہ پاکستان میں اس کی مقبولیت کا سلسلہ روز افزوں ہوتا چلا گیا۔</p> <p>وزیر آغا اور اُردو انشائیہ ایک دوسرے کے ساتھ اس قدر وابستگی اختیار کر چکے ہیں کہ ایک کے ذکر کے بغیر دوسرے کا ذکر ادھورا معلوم ہوتا ہے۔ وہ پہلے لکھنے والے ہیں جنھوں نے ایک واضح تصور اور خیال کے ساتھ انشائیے کے فروغ، اُس کی صورت گری اور سمت نمائی میں سب سے زیادہ خدمات سر انجام دیں۔ انھوں نے انشائیے کے خدوخال متعین کرنے، اُسے سنجیدہ اور طنزیہ و مزاحیہ مضامین کی حدود سے الگ کرنے اور اردو ادب میں علاحدہ صنفِ ادب کی حیثیت سے متعارف کروانے کے لیے نہ صرف خود انشائیہ لکھا بلکہ انشائیے پر تنقیدی مضامین بھی لکھے۔ انھوں نے انشائی خدوخال میں جو تبدیلی اور انفرادیت پیداکی اُس کے اثرات بعد میں آنے والے اہل قلم کے ذہنوں اور نثر پاروں پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ سرسید احمد خاں سے لے کر ڈاکٹر وزیر آغا کے ہم عصر لکھاریوں تک انشائیہ کسی اور رنگ اور روپ میں لکھا جاتا رہا تھا لیکن وزیر آغا کے اجتہادی قلم کی بدولت اس صنف کو نیا چہرہ میسر آیا۔ اسی لیے ڈاکٹر وزیر آغا اردو انشائیے کے موجد اور محرک تسلیم کیے جاتے ہیں۔ وہ انشائیے کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>انشائیہ اُس صنفِ نثر کا نام ہے جس میں انشائیہ نگار اُسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اشیا یا مظاہر کے مخفی مفاہیم کو کچھ اس طرح گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور اپنے مدار سے باہر آ کر ایک نئے مدار کو وجود میں لانے میں کامیاب ہو تا ہے۔ گویا میں نے انشائیہ کے سلسلے میں تین باتوں کو ضروری قرار دیا۔ پہلی یہ کہ انشائیہ کی زبان تخلیقی ہو۔ دوسری یہ کہ انشائیہ معمولی یا پیش افتادہ شے، خیال یا مظہر کے غیر معمولی پہلو یا اُس کی نئی معنویت کا احساس دلائے۔ آخری یہ کہ ذہن کو بیدار کرے۔ مراد یہ کہ شعور کی توسیع کا اہتمام کرے۔ جب تک یہ تینوں باتیں یکجا نہ ہوں انشائیہ وجود میں نہیں آ سکتا۔</p> </blockquote> <p>ڈاکٹر وزیر آغا نے انشائیے کی تکنیک، اُس کے مزاج اور دیگر فنی لوازمات کے بیان کے ساتھ ساتھ تخلیقی سطح پر بھی اپنے قائم کردہ قواعد و ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے انشائیے لکھ کر اس صنف کو لائق اعتبار بنا دیا۔ اُن کے درج ذیل چار انشائی مجموعے شائع ہوئے:</p> <list> <li>خیال پارے (۱۹۶۱ئ)</li> <li>چوری سے یاری تک (۱۹۶۶ئ)</li> <li>دوسرا کنارہ (۱۹۸۲ئ)</li> <li>مندر اگر میرے اندر گرے (۱۹۸۹ئ)</li> </list> <p>یہ چاروں مجموعے ۱۹۹۵ئ میںپگڈنڈی سے روڈ رولر تککے عنوان سے کلیات کی صورت میں شائع ہوئے۔ پانچ سال کے دوران لکھے ہوئے مزید انشائیوں کے اضافے کے ساتھ ۲۰۱۰ئ میں پگڈنڈیکے عنوان سے انشائیوں کی کلیات پھر سے شائع ہوئی۔</p> <p>خیال پاریکے نام سے منظر عام پر آنے والا انشائیوں کا مجموعہ اُردو ادب میں جدید انشائیے کے لیے مضبوط اساس ثابت ہوا۔ اس مجموعے میں کل چوبیس انشائیے شامل تھے۔ اس کا مقدمہ صلاح الدین احمد نے لکھا جب کہ کتاب کے شروع میں اور تقدیم کے بعد وزیر آغا نے ”انشائیہ کیا ہے“ کے عنوان سے اہم مضمون تحریر کیا جس میں اُنھوں نے انشائیے کے خدوخال اور اس کے نقوش کو اُجاگر کیا۔ اس کتاب میں شامل انشائیوں کے عنوانات کچھ یوں تھے: ”پگڈنڈی“، ”بہادری“، ”خاموشی“، ”چھکڑا“، ”آندھی“، ”ریلوے ٹائم ٹیبل“، ”بے ترتیبی“، ”کچھ علالت کی حمایت میں“، ”قطب مینار“، ”ڈبویا مجھ کو ہونے نے“، ”گرمی“، ”ٹریول لائیٹ“، ”آگ تاپنا“، ”کچھ خوبصورتی کے بارے میں“، ”سست روی“، ”موڑ“، ”ریل کا سفر“، ”تنہائی“، ”دھند“، ”وہ“، ”آسیب“، ”لحاف“ اور ”اجنبی دیارمیں“۔</p> <p>اس تصنیف پر جہاں تحسین اور داد کا شور بلند ہوا وہاں مصنف سے نظریاتی اختلاف بھی کیا گیا۔ تا ہم یہ حقیقت ہے کہ خیال پارے کی اشاعت نے اس صنف کو اُردو ادب کے لکھاریوں اور قارئین کے لیے دلچسپی کی حامل صنف بنا دیا۔ اب انشائیہ محض الفاظ کے طوطے مینا اُڑانے یا گہری فلسفیانہ اور مقصدیت سے بھرپور تحریر کا نام نہیں تھا بلکہ اس میں لطافت اور تازگی کا عنصر پیدا ہو گیا تھا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ خیال پارے نے انشائیے کو جدید طرز احساس اور نیا اُسلوب عطا کیا۔ اس کتاب میں شامل انشائیے جہاں اپنے اندر معانی اور مفاہیم کے سمندر رکھتے تھے وہاں زندگی کی سچائیوں کو اُن کی تلخیوں سے الگ کر کے دیکھنے کا ایک زاویہ بھی بخشتے نظر آتے ہیں۔ وزیر آغا کے اس دلکش طرز بیان نے انشائیہ نگاری کو جدید دور میں داخل کر دیا اور اس حقیقت کو بھی آشکار کیا کہ انشائیہ ایک الگ صنف ہے۔ اسے نہ تو طنز و مزاح کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی سنجیدہ و فکری موضوعات پیش کرنے کا ذریعہ۔ انھوں نے ان انشائیوں کے ذریعے اُردو ادب میں جس نئے اُسلوب کو روشناس کروایا وہ بالکل نیا نہیں تو کم یاب ضرور تھا۔</p> <p>خیال پارے کے باعث انشائیے میں آنے والی تخلیقی اور ارتقائی تبدیلیوں نے اپنا ایک حلقۂ اثر بنا لیا۔ جب ۱۹۶۶ئ میں اُن کا دوسرا انشائی مجموعہ چوری سے یاری تکمنظر عام پر آیا تو اس کے لیے فضا ہموار تھی۔ اس میں ۱۵ انشائیے: ”سیاح“، ”چیخنا“، ”جہاں کوئی نہ ہو“، ”دیوار“، ”طوطا پالنا“، ”میری چالیسویں سالگرہ“، ”واپسی“، ”کچھ“، ”ضرب المثل کی مخالفت میں“، ”یہ معصوم لوگ“، ”کچھ رشتہ داروں کی شان میں“، ”درمیانہ درجہ“، ”بس اتنی سی بات ہے“، ”فٹ پاتھ“ اور ”کچھ قلم کے بارے میں“ شامل ہیں۔ عنوانات سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وزیر آغانے اپنے نقطۂ نظر کو تخلیقی سطح پر کس انداز میں پیش کیا ہے۔ موضوعات میں یکسانیت نہیں بلکہ تنوع اور رنگا رنگی کا احساس ہوتا ہے۔</p> <p>اُنھوں نے اپنا سفر یہیں ختم نہیں کیا بلکہ تیسرا انشائی مجموعہ دوسرا کنارا پیش کر کے یہ ثابت کر دیا کہ انشائیہ نگاری ایک ایسا فن ہے جس میں موضوعات ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں اور انشائیہ نگار اُن کو الفاظ کا لباس پہنا کر ایک ترتیب سے روئے قرطاس پر سجاتا چلا جاتا ہے۔ اس مجموعے کی خاص بات موضوعات کا تنوع تھا جو زندگی کے ہر پہلو سے لیے گئے تھے۔ کائنات کی ہر چیز ان کی نظر میں سماتی اور تخلیقی روپ اختیار کرتی چلی جاتی ہے۔ اس مجموعے میں سترہ انشائیے شامل ہیں۔ ”بارھواں کھلاڑی“، ”حقہ پینا“، ”معافی مانگنا“، ”لاہور“، ”کھڑکی“، ”بسنت“، ”ٹھنڈا برف ہاتھ“، ”کچھ مسکراہٹ کے بارے میں“، ”کتابوں کی معیت میں“، ”اکلاپا اور تنہائی“، ”میرا البم“، ”اسم اور فعل“، ”میرے بچپن کا دوست“، ”ہجرت“، ”چلنا“، ”سائنسی علم“، ”دریائو اور ہینڈ بیگ“ ان کے عنوانات ہیں۔ اس مجموعے کے بارے میں منور عثمانی نے لکھا ہے:</p> <blockquote> <p>دوسرا کناراوزیر آغا کا تیسرا انشائی مجموعہ ہے۔ اس میں انشائیہ نگار کی فکر، عمر اور جمالیات کی تیسری سطح ہمارے سامنے آتی ہے۔ یہ تیسری سطح بھی یک رُخی ہر گز نہیں ہے۔ اس کے تین جلی اور کئی خفی رُخ ہیں۔ پہلا رخ یہ ہے کہ فکر، احساس اور رویے میں آزادی وبے نیازی دوچند ہو گئی ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ انفرادیت کو بیرونی خطرے سے بچایا گیا ہے اور اجتماعیت سے کئی جہتوں میں ربط اور مکالمہ بڑھا ہے۔ تیسرا رخ یہ ہے کہ تخلیقی مسرت کی حامل انوکھی مسافتوں میں حیرت انگیز تواتر و تسلسل قائم رہا ہے۔</p> </blockquote> <p>ہر تخلیق کاراپنی زندگی کے تجربات اور مشاہدات کو اپنی تحریروں میں ضرور پیش کرتا ہے، اگر اُس کے تجربات و مشاہدات شعوری طور پر اُس کی تحریر کا حصہ نہ بھی بن رہے ہوں تو لاشعوری طور پر یہ تحریر میں در آتے ہیں۔ جس تخلیق کار کے تجربات و مشاہدات جس قدر زیادہ ہوں گے اُس کی تحریر میں اُس قدر بو قلمونی ہو گی۔ وزیر آغا اپنے تجربات و مشاہدات کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ قاری ان کے تجربے میں شامل ہو جاتا ہے، یہی بڑے فنکار کی خوبی ہے کہ وہ اپنے بیان کردہ تجربے میں قاری کو شامل کر لیتا ہے اور ایک سطح پر اُسے قاری کا تجربہ بنا دیتا ہے۔ وزیر آغا نے اپنے انشائیے میں تجربات و مشاہدات کو اس قدر شامل رکھاکہ وہ ہمیں اپنے مزاج تک سے واقف ہونے کا موقع فراہم کر دیتے ہیں۔</p> <blockquote> <p>مجھے یہ سب دیواریں پسند ہیں۔ یہ دیواریں میری آوارہ خرامی اور بے راہ روی کی راہ میں سینہ تان کر کھڑی ہو گئی ہیں۔ ان دیواروں نے میری ذات کی حدود کو متعین کر دیا ہے۔</p> </blockquote> <p>ان کی متذکرہ بالا رائے ان کے انشائیہ ”دیوار“ سے پیش کی گئی ہے۔ اس انشائیے کے آغاز میں اپنی عادات اور معمولات اپنے قاری کے سامنے پیش کرتے ہیں اور دیوار جیسی عمومی چیز جو ہر گھر میں ہوتی ہے کو اپنی شخصیت کے ساتھ وابستہ کر کے ان دیواروں میں سے کئی دروازے اور کھڑکیاں کھولتے ہیں جن سے جھانک جھانک کر قاری ان کے باطن میں دیکھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ وہ انشائیہ لکھتے ہوئے عمومی موضوعات میں اپنی شخصیت اور تجربات کو یوں شامل کر لیتے ہیں کہ قاری ان عمومی موضوعات میں وزیرآغا کی شخصیت کا پرتو دیکھنے لگتا ہے۔</p> <p>وقت گذرنے کے ساتھ ایک خاص قسم کا طنزیہ لہجہ ان کے اسلوب میں شامل ہو گیا جو ان کی حساسیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ وزیر آغا کے اس طنز میں بھی شگفتگی، نرمی اور ملائمت ہے وہ شائستگی اور تہذیب کا دامن کسی طور پر چھوڑتے نظر نہیں آتے اور ویسے بھی انشائیہ گہرے کاٹ دار طنز، غیرشائستگی اور عامیانہ انداز کا ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا۔ وزیر آغا اپنے انشائیوں میں مزاح اور شگفتگی کی فضا پیدا کرنے کے لیے تقابلی انداز بھی اختیارکرتے ہیں۔ مزاح پیدا کرنے کے لیے خوبصورت انداز میں چیزوں کے درمیان موازنہ کرتے ہیں اور اس حوالے سے انسانی رشتوں میں جذبات اور خلوص کے فقدان کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ رشتہ داروں اور دوستوں سے تعلقات کی نوعیت کی عکاسی کرتے ہوئے دراصل وہ معاشرے کے کھوکھلے پن کی بات کر رہے ہیں جہاں انسان رشتے بھی جبراًنبھا رہا ہے اور دوستی بھی کسی نہ کسی مفاد اور مفاہمت کی بنیاد پر آگے بڑھاتا ہے۔</p> <blockquote> <p>خدا کی قدرت ہے کہ رشتہ دار تو آسمان سے نازل ہوتے ہیں لیکن دوست احباب زمین سے اُگتے ہیں۔ خدانخواستہ اس سے میری یہ مراد ہر گز نہیں کہ رشتہ دار معصومیت اور تقدس کے امین ہیں جب کہ دوست احباب خود غرضی اور مادہ پرستی کے علم بردار !خدا کی قدرت کا ذکر میں نے محض اس لیے کیا ہے کہ یہ میرے موقف کی حمایت کرتی ہے۔ میں کہنا صرف یہ چاہتا ہوں کہ رشتہ دار اللہ میاں کی طرف سے عطا ہوتے ہیں اور آپ چاہیں یا نہ چاہیں وہ بزور شمشیر آپ سے اپنی رشتہ داری قائم رکھتے ہیں۔ لیکن دوست احباب کے انتخاب میں اللہ قطعاً دخل نہیں دیتا۔</p> </blockquote> <p>ڈاکٹر وزیر آغا نے متنوع موضوعات پر انشائیے لکھے ہیں۔ جس موضوع پر بھی لکھتے ہیں، ہر پہلو سے اس کا احاطہ کرتے ہیں اور موضوع سے متعلق نئے اور منفرد اسلوب سامنے لاتے ہیں۔ ان کا انشائیہ ان کے انفرادی تجربے اور ذاتی مشاہدے کا حامل ہوتا ہے مثلاً چیخنا میں ہنسی اور گریہ کے مختلف رنگ دکھاتے ہوئے چیخ کے نئے، انوکھے اور منفرد زاویوں کو کس طرح اجاگر کیا ہے۔</p> <blockquote> <p>ہنسی آسودگی کے احساس سے جنم لیتی ہے، گریہ ٹوٹے ہوئے دل کی صدا ہے لیکن چیخ سر تا پا ایک احتجاج ہے۔ چیخنا کوئی آسان کام نہیں …ہنسی کو لیجیے ایک حقیر سے واقعے سے برانگیختہ ہو جاتی ہے۔ اس کی ڈور اکثر ایک معمولی سے مسخرے کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو اپنے چہرے کے اُتار چڑھائوسے پیدا کر دیتا ہے۔ کیسی شرم کی بات ہے۔ یہی حال گریہ کا ہے ذرا دل پر چوٹ لگی اور نین چھلک پڑے لیکن چیخ کسی معمولی تحریک سے وجود میں نہیں آتی۔ یہ تو صرف زندگی و موت کے سنگم پر نمودار ہوتی ہے۔ مجھے چیخ کی کھردری غنایت سے والہانہ پیار ہے۔</p> </blockquote> <p>وزیر آغا کے ہاں موضوع کو نئے زاویے سے دیکھنے اور اُس کے مخفی گوشوں میں جھانکنے کا رویہ بہت مضبوط ہے جس کی مثالیں اُن کے بہت سے انشائیوں سے دی جا سکتی ہیں۔ لیکن خصوصاً اُن کے انشائیے ”بے ترتیبی“ کو دیکھا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ ترتیب اور نظم و ضبط کی تعریف تو سبھی کرتے ہیں مگر ”بے ترتیبی“ کے حسن کو صرف ایک انشائیہ نگار ہی محسوس اور بیان کرسکتاہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ ترتیب اور توازن ایک جبر ہے اور یہ جبر میرے لیے ایک جال یا قید بن جاتا ہے۔ وہ بے ترتیبی اور عدم توازن کو اس لیے پسند کرتے ہیں کہ اس میں بناوٹ اور انجماد نہیں ہے بلکہ بے ترتیبی میں ایسی تحریک اور بے ساختگی ہے جو شخصیت کو اٹھان عطا کرتی ہے اور زندگی میں حسن پیدا کرتی ہے۔</p> <p>جب ہم وزیر آغا کی انشائی تحریروں کا بالاستیعاب مطالعہ کرتے ہیں تو یہ نتیجہ فوری اخذ کر لیتے ہیں کہ اُن کے انشائیوں میں اُن کی ذات کا پرتو اور شخصیت کے مختلف پہلو بڑے واضح انداز میں وجود پاتے ہیں۔ جہاں وہ اپنے انشائیے کی تشکیل کے لیے خارجی دنیا سے مدد لیتے ہیں وہاں وہ اپنی ذات کو بھی اپنے انشائیے کی صورت گری کے لیے استعمال میں لاتے ہیں، یوں اُن کا انشائیہ خارج اور داخل کی ترکیب سے مکمل ہوتا ہے۔ مگر خارج سے زیادہ باطن اُن کے انشائیے میں پایا جاتا ہے۔</p> <p>انھوں نے اپنے خیالات کو دلکش پیرائے میں اختصار سے بیان کیا۔ اُسلوب کی شگفتگی، عدم تکمیل کا احساس اور شخصی نقطۂ نظر اس انشائی مجموعے کا خاص پہلو ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے اس بات کی بھی وضاحت کر دی کہ انشائیے کا موضوع کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن اس پہلو کو ضرور مد نظر رکھا جائے کہ اس میں انکشاف ذات یعنی انشائیہ نگار کی شخصیت کا داخلی اظہار ہو۔ ایسا کرنے میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ ہر موضوع کو انھوں نے اس رنگ اور انداز میں پیش کیا کہ قاری داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔</p> <p>موضوعات کے اعتبار سے وزیر آغا کے ہاں بڑا تنوع اور انفرادیت پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے انشائیوں کے لیے موضوعات کا انتخاب عام زندگی سے کرتے ہیں۔ در اصل انشائیے کے لیے موضوع کا اہم و غیر اہم یا ادبی و غیر ادبی ہونا ضروری نہیں۔ بلکہ انشائیہ نگار کسی بھی موضوع میں اپنے انداز تحریر اور اسلوب بیان سے دلکشی و رعنائی پیدا کرتا ہے۔ ایک انشائیے کا عنوان ”کچھ قلم کے بارے میں“ ہے۔ بظاہر یہ عنوان ادبی موضوع نہیں لگتا اور بادی النظر میں اسے دیکھ کر ذہن فوراً صرف لکھنے والے قلم ہی کی طرف جاتا ہے لیکن انشائیہ کا انداز بھی بھرپور ہے۔ پھر موضوع کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر تے ہوئے اپنے شخصی اور انفرادی تجربے کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ دلچسپی کا عنصر پیدا ہو گیا ہے۔</p> <p>وزیر آغا کے انشائیوں سے ایسے بہت سے ٹکڑے بطور مثال پیش کیے جا سکتے ہیں جن میں انھوں نے زندگی کے مضحک پہلو دیکھنے اور اپنے قارئین کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن وہ زندگی کے ان مضحک، بے ڈول اور کھردرے پہلوئوں کو پیش کرتے ہوئے بھی دل آزاری کی صورت پیدا نہیں ہونے دیتے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وزیر آغا اپنے انشائیوں میں تبسم زیر لب کی کیفیت پیدا کرنے کے لیے لطیف اشارات سے اس طرح کام لیتے ہیں کہ ان کے انشائیوں میں موجود طنز بھی خوشگوار مزاح اور لطیف صورت اختیار کر لیتا ہے جو طبیعت پر گراں نہیں گذرتی۔ مثلاً انھوں نے انشائیہ ”چیخنا“ میں ہلکا سا طنزیہ مگر مزاحیہ انداز اختیار کیا ہے۔ لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>لیکن اگر کسی وجہ سے مجھے ہنسی کو اس طرح در معقولات کی اجازت دینی پڑے تو میں اسے زیادہ سے زیادہ ایک نکٹائی کے طور پر استعمال کرتا ہوں۔ بعض افسروں سے بات کرتے ہوئے اس کی سخت ضرورت پڑتی ہے۔ اس وقت میں فوراً جیب سے نکٹائی نکال کے پہن لیتا ہوں اور تبسم میرے چہرے کے ساتھ اس وقت تک چپکا رہتا ہے جب تک یہ حضرات سامنے موجود رہتے ہیں۔</p> </blockquote> <p>وزیر آغا کے انشائیے کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ہمیں زندگی کے روشن پہلو دکھاتے ہیں۔ وہ رنج و غم، دکھ درد، مصیبت اور بیماری میں امید اور خوشی کے سامان تلاش کر لیتے ہیں۔ وہ ہمیں زندگی بسر کرنے کے فن سے روشناس کراتے ہیں۔ ان کے ہاں تندرستی اور صحت ہی میں خوشی کا راز نہیں بلکہ علالت میں بھی مسرت کے پہلو ملتے ہیں۔ بہادری ہی عظمت کی دلیل نہیں بزدل میں بھی نیکی اور اخلاق کی قدریں ملتی ہیں۔ صرف خیال کا فرق ہے۔ ایک انشائیے بعنوان ”بہادری“ کی چند ایک سطریں ملاحظہ کریں جس میں بزدلی کی اہمیت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:</p> <blockquote> <p>ہادری اور نادانی میں کوئی بڑی خلیج حائل نہیں، جرأت کی ہر مثال در اصل نادانی کی ایک مثال ہے۔ جذبہ جب منہ زور ہو جاتا ہے اور اس پر تہذیب و شعور کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے تو لوگ اسے بہادری کا نام دیتے ہیں۔ بہادری کی اس جذباتیت کے مقابلے میں کسی بھی بزدلانہ فعل کا جائزہ لیجیے آپ کو اس میں سکون و تحمل، بردباری اور فراست صاف طور سے جھلکتی ہوئی دکھائی دے گی۔</p> </blockquote> <p>اپنے تخلیقی سفر کے چوتھے پڑائوسمندر اگر میرے اندر گریمیں وزیر آغا اپنے فن کی انتہا پر نظر آتے ہیں۔</p> <p>وزیر آغا کے چار انشائی مجموعوں میں ستّر کے قریب انشائیے بنتے ہیںجن کا دورانیۂ تخلیق کم و بیش پینتالیس سال کو محیط ہے۔ یہ مجموعے نہ صرف ان کے ارتقائی تخلیقی سفر کے غماز ہیں بلکہ اردو انشائیے کے فنی و اسلوبیاتی ارتقا کی کئی صورتیں بھی ان میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ خیال پارے کے انشائیوں میں موضوعات، جذبے کی روپہلی تہوں میں لپٹے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ اسلوب میں مزاح اور طنز کی کیفیتیں شگفتگی سے پُر ہیں۔ اشیا کے ساتھ وزیر آغا کا رویہ، حیرت اور مسرت کا ہے۔ یعنی اشیا تحیر اورمسرت کے ساتھ ساتھ اپنی چکا چوند سے انھیں رنگ برنگ جذبوں سے ہم آہنگ کرتی ہیں۔ انھیں دیکھ کر ان کے قریب جانے کی زبردست خواہش جنم لیتی ہے۔ یہ گویا مطالعۂ فطرت کا وہ زمانہ ہے جب اشیا اپنے خارجی وجود کے ساتھ اپنی پہچان کراتی ہیں۔ یہ چیزوں سے لپٹ جانے اور انھیں محسوساتی سطح پر دیکھنے کا زمانہ ہے۔ چوری سے یاری تکایک پڑائو ہے جہاں لمحہ بھر کے لیے ٹھہر کر سفر کی ساری عطا کو سمیٹنے کی تصویر ابھرتی ہے۔ اس ساری عطا کو دیکھ کر سنجیدگی اور بردباری کی کیفیات ابھرنے لگتی ہیں۔ چنانچہ خیال پارے کی سیمابی کیفیت کے بر عکس چوری سے یاری تکمیں ایک ٹھہرائو محسوس ہوتا ہے۔ خیال پارے سے سمندر اگر میرے اندر گرے تک وزیر آغا کی انشائیہ نگاری میں ایک واضح ارتقا محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس سفر میں نہ صرف انھوں نے اپنے خیالات کو تخلیقی صورت میں پیش کیا بلکہ انشائیہ کے خدو خال واضح کرتے ہوئے ان تمام پہلوؤں کو نگاہ میں رکھا جو اس صنفِ ادب کے لیے تازہ کاری اور رعنائی میں اضافے کا باعث بن سکتے تھے۔ ان کے انشائی سرمائے کو سامنے رکھتے ہوئے انشائیہ کے لیے بطور صنف یہ رائے قائم کی جا سکتی ہے کہ انشائیہ ایک ایسی صنف ادب ہے جسے دقیق بحثوں، فلسفیانہ نوع کی علمی توجیہات اور تکنیکی باریک بینی جیسے عوامل سے سروکار نہیں ہوتا۔ اس کو خیالات کا تسلسل اور اُس کے پیچھے فکری لہر کی ضرورت ہوتی ہے جس سے یہ باتوں باتوں میں نئی سے نئی دنیا، نئے سے نئے امکانات جہاں کے در کھولتا چلا جاتا ہے۔ انشائیہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ انسان اور انسان کے تعلقات سے بحث کرتا ہے اور اس میں زندگی کے کئی پہلو شگفتہ اور ہلکے پھلکے انداز میں خود بخود منکشف ہوتے چلے جاتے ہیں اور وزیر آغا کے انشائیے، انشائیہ نگاری کی اس خصوصیت سے معمور ہیں۔</p> </section> </body>
0041.xml
<meta> <title>”ہمہ یاراں دوزخ“: آپ بیتی یا رپورتاژ</title> <author> <name>صائمہ علی</name> <gender>Female</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 6</name> <year>2015</year> <city>Lahore</city> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>4578</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
”ہمہ یاراں دوزخ“: آپ بیتی یا رپورتاژ
4,578
Yes
<body> <section> <p>حبسیہ نثر سے مراد وہ تحریر ہے جو قید میں رہ کر یا بعد میں قید کی کیفیات کے متعلق لکھی گئی ہو اور جس کا انداز شخصی ہو۔ قید میں رہ کر لکھی گئی غیر شخصی تحریر حبسیہ نثر کی ذیل میں نہیں آتی مثلاً سجاد ظہیر نے قید میں رہ کر روشنائی اورذکرِ حافظ لکھیں لیکن یہ حبسیہ نثر نہیں کہلا سکتیں۔</p> <p>اردومیں حبسیہ نثر میںبہت سی اہم کتابیں ملتی ہیں مثلاً ابوالکلام آزاد کی غبارِ خاطر، حسرت موہانی کی قید فرنگ، فیض احمد فیض کی صلیبیں مرے دریچے میں، حمید اختر کی کال کوٹھڑی وغیرہ اس پس منظر میں صدیق سالک کی کتاب ہمہ یاراں دوزخ کا جائزہ لیں تو ان میں بنیادی فرق یہ نظر آتا ہے کہ ہتھیار ڈالنے اور دوسرے ملک میں قیدی بنا کر لے جانے کی جس ذلت سے سالک دوچار ہوئے وہ اور کسی کے حصے میں نہیں آئی۔ اول الذکر دوکتابوںکے زمانۂ تحریر میںانگریزوں کے خلاف مزاحمت اور اس سلسلے میں قید ہونا باعث ذلت نہیں مقام افتخار سمجھا جاتا تھا۔ اسی طرح فیض صاحب کے خطوط میں بھی وہ دکھ اور کرب نظر نہیں آتا جو سالک نے ہندوستان کی قید میں جا کر محسوس کیا۔ قیدی بننا انسان کی بے بسی کی علامت ہے۔ لیکن اس ملک کی سرزمین پر قیدی بنا کر لے جایا جانا مشکل ترین ہے جس سے طویل عرصے سے مخاصمانہ تعلقات رہے ہوں۔ اس قید سے محض ذات ہی نہیں ملکی وقار بھی مجروح ہوتا تھا اس لیے سالک کی کیفیت بہت مختلف ہے۔</p> <p>ہمہ یاراں دوزخکی صنف کا تعین کچھ پیچیدہ امر ہے۔ زندگی کے کسی ایک حصے پر لکھی گئی کتاب ’آپ بیتی‘ کی ذیل میں آسکتی ہے۔ اس طرح دیکھیں تو ہمہ یاراں دوزخ ’آپ بیتی‘ قرار دی جاسکتی ہے کیونکہ یہ سالک کی بھارتی قید میں دوسالہ زندگی کے واقعات کا مجموعہ ہے، اسی بنا پرڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اپنی کتاب اصناف ادب میں اس کتاب کو ’آپ بیتی‘ قرار دیا ہے۔ لیکن اس تعریف پر پورا اترنے کے ساتھ اس کے کچھ پہلو ایسے بھی ہیں جن کی بنا پر اس میں ’رپورتاژ‘ کی خصوصیات بھی ملتی ہیں۔ ’آپ بیتی‘ میںزندگی کے چھوٹے بڑے واقعات احاطہ تحریر میں لائے جاتے ہیں اس کے لیے ضروری نہیں کہ کسی خاص یا غیر معمولی واقعے کو بنیاد بنا کرآپ بیتی لکھی جائے۔ ’رپورتاژ‘ میں تحریر کا محور کوئی خاص، بنیادی یا مرکزی واقعہ ہوتا ہے جو مقصد تحریر بنتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ یہ ہنگا می نوعیت کا ہو لیکن ایک مرکزی محرک بہرحال ہوتا ہے جیسے کرشن چندر، سجادظہیر، قراۃ العین حیدر، عصمت چغتائی او رصفیہ اختر کے رپورتاژ ادبی کانفرنسوں سے متعلق ہیں۔ ہمہ یاراں دوزخ میں رپورتاژ کے عناصر تلاش کرنے سے پہلے ’رپورتاژ‘ کی تعریف پر نظر ڈالنا ضروری ہو گا۔ ابوالاعجاز حفیظ صدیقی کے مطابق:</p> <blockquote> <p>’رپورتاژ‘ فرانسیسی لفظ ہے اور اس کے لغوی معنی رپورٹ ہی کے ہیں۔ اصطلاحی معنوں میں رپورتاژ چشم دید حالات و واقعات کی وہ رپورٹ ہے جو اگرچہ معروضی واقعات ہی پر مشتمل ہوتی ہے لیکن مصنف کا تخیل اور واقعات کے بارے میں اس کا موضوعی رویہ ان واقعات میں ایک بصیرت افروز معنویت پیدا کر دیتا ہے۔</p> </blockquote> <p>محترمہ طلعت گل اردو ادب میں رپورتاژ میں رقم طرازہیں:</p> <blockquote> <p>رپورٹ اور رپورتاژ کے فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اردو میںرپورتاژ نگاری، صرف رپورٹ نہیں، بلکہ ایک ادبی صنف کی حیثیت سے اس کا ایک اپنا مقام ہے جو لاشعوری طور پر ابھر کر سامنے آیا اور بعد میں مقصدی ادب کی تعمیر میں اس سے بڑی مدد ملی۔ حصول مقاصد کے لیے مصنفین نے تفصیل میں جانے سے گریز نہیں کیا نتیجہ ظاہر تھا کہ اردو میں بیشتر رپورتاژ تفصیلی ہیں اور اکثر غیر ارادی طور پر نہیں بلکہ شعوری کوشش کا نتیجہ ہیں۔</p> </blockquote> <p>ول الذکر اقتباس میں رپورتاژ کی لغوی تعریف اور آخر الذکر میں اردو میں رپورتاژکی حیثیت پر بات کی گئی ہے کہ اردو ادب میں یہ ایک اچھی ادبی رپورٹ سے بڑھ کر مقام رکھتی ہے۔</p> <p>ڈاکٹر انور سدید رپورتاژ کے متعلق لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>رپورتاژ کو دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک نئی صنفِ نثر کے طور پر اردو میں متعارف کرایا گیا تھا اور چند اعلیٰ درجے کے ادیبوں نے اپنی عمدہ تخلیق کاری سے اسے اپنے پائوں جمانے میں مدد دی۔ چنانچہ اب یہ صنفِ نثر نہ صرف ادبی تقاضوں کو پوراکرتی ہے بلکہ جذبات و احساسات اور واقعات و مشاہدات پر ردعمل اور تاثر کی مختلف النوع کیفیات بھی سامنے لارہی ہے۔</p> </blockquote> <p>ڈاکٹر انور سدید کی رائے میںجذبات، احساسات، واقعات اورمشاہدات کے الفاظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ رپورتاژ میں مصنف کی ذات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس لحاظ سے مصنف کے جذبات اور نقطۂ نظر بہت اہمیت رکھتے ہیں کہ اس واقعے کو ہم مصنف کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ایک ہی واقعے سے مختلف لوگ مختلف اثرقبول کرتے ہیں، اس لیے مصنف کی ذات رپورتاژ کا بنیای مرکز ہوتی ہے۔</p> <p>رپورتاژ کی ایک اور اہم خصوصیات صداقت ہے جو ویسے تو کسی نہ کسی تناسب میں تمام غیر افسانوی اصناف نثر میں ہوتی ہے لیکن رپورتاژ نگار کے لیے لازم ہے کہ واقعات کو اپنی صحیح حالت میں پیش کرے اور واقعات کے بیان میں تخیل کی رنگ آمیزی نہ کرے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس میں مصنف کے جذبات و احساسات نہ ہوں لیکن واقعات کے بیان میں اصل حقائق ہی مدنظر رہنے چاہییں۔ واقعات کے ساتھ رپورتاژ میں کردار بھی فرضی نہیں بلکہ حقیقی ہوتے ہیں۔ محترمہ طلعت گل کے مطابق:</p> <blockquote> <p>رپورتاژ نگار کے علاوہ دوسرے کردار بھی حقیقی اور اہم ہوتے ہیں یہ بھی رپورتاژ نگار کی طرح واقعے کے عینی شاہد ہوتے ہیں افسانے کی طرح غیر حقیقی کرداروں کی رپورتاژ میں کوئی جگہ نہیں</p> </blockquote> <p>لیکن کردار نگاری رپورتاژ نگار کا مقصد نہیں بلکہ کردار کے ذریعے واقعات کا بیان ہوتا ہے۔ رپورتاژ میںکردار واقعے کے پیچھے ثانوی اہمیت رکھتے ہیں۔</p> <p>تاریخ کا تعین رپورتاژ میں بہت ضروری ہوتا ہے مصنف کو واضح کرنا چاہیے کہ وہ یہ تحریر کس زمانی عرصے میں لکھ رہا ہے۔ رپورتاژ میں واقعے کے رونما ہونے کے فوراً بعد لکھنے کی شرط بھی ضروری ہے۔ واقعے اور تحریر کے درمیان فاصلہ اسے رپورتاژ بننے سے روکتا ہے۔ مثلاً سجاد ظہیر کا مضمون ”یادیں“ ان کی زمانۂ طالب علمی کی یادیں ہیںلیکن اصل یادوں اور تحریر ”یادیں“ کے درمیان فاصلے کی بنا پر نقاد اسے رپورتاژ قرار دینے میں تامل کرتے ہیں۔ اگر اسے رپورتاژمان لیا جائے تو تاریخی طور پر اردو کا پہلا رپورتاژ کہلائے گا جو ۱۹۴۰ئ میں لکھا گیا۔ رپورتاژ میں وقتِ تحریر کی اہمیت کے متعلق مسعود مفتی لکھتے ہیں:</p> <p>مسعود مفتی کے مطابق:</p> <blockquote> <p>رپورتاژ کی تکنیک کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایک مخصوص وقت کے ماحول کی معنوی، جذباتی اور واقعاتی عکاسی کرے اور ان لمحات کے بھرپور تاثر کو اس طرح گرفت میں لائے کہ اس پر مستقبل کے سائے نہ پڑیں۔ اگر ان لمحات کے بعد کیمرے کا شٹر بند نہ کیا جائے تو تصویر خراب ہو جائے گی اور رپورتاژ فنی طور پر خام رہ جائے گا۔</p> </blockquote> <p>رپورتاژ کی اہم خصوصیت جذبات اور جزئیات نگاری بھی ہے۔ اگر کسی واقعے کی بنیادی باتیں بغیر جذبات اور جزئیات کے لکھ دی جائیں تو یہ اخباری رپورٹ سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ خارجی واقعات کے ساتھ رپورتاژ داخلی عناصر کی بھی عکاسی کرتا ہے اس لحاظ سے دیکھیں تو یہ صنف داخل اور خارج کا حسین امتزاج نظر آتی ہے۔</p> <p>رپورتاژ کی زبان خوبصورت، دلکش اور دلچسپ ہونی چاہیے تاکہ واقعے میں کشش پیدا کی جا سکے۔ رپورتاژ میں حقیقت پیش کی جاتی ہے، جو زیادہ تر تلخ ہوتی ہے۔ رپورتاژ میں تخیلاتی تبدیلیوں کی بھی گنجائش نہیں اس لیے مصنف کا فرض ہے کہ وہ حقیقت کو دلکش انداز میں قاری تک پہنچائے۔ ان خصوصیات کی بنا پر رپورتاژ ادب برائے زندگی کے نظریے کو تقویت دیتا ہے اور قارئین کو تخیل کی وادیوں سے نکال کر حقیقت کی سنگلاخ زمین سے آشنا کرتا ہے لیکن فنی مہارت کے ساتھ۔</p> <p>ہمہ یاراں دوزخ صدیق سالک کی اولین کتاب ہے جو ۱۹۷۴ئ میں مکتبہ قومی ڈائجسٹ لاہور سے شائع ہوئی۔ یہ ان کی بطور جنگی قیدی بھارت کی اسیری کی داستان ہے لیکن سالک اس سفر میں محض ’رہ نوردبیابانِ غم‘ ہی نہیں بلکہ ایسے شخص کے طور پر سامنے آئے ہیں جو غم سہہ کر مسکرانا بھی جانتا ہے۔ زنداں کی اس کہانی میں غم کے اندھیرے ہی نہیں امید کی روشن کرنیں بھی ہیں۔ مصائب کا نوحہ ہی نہیں زندگی کی خوش مذاقی بھی ہے، اسیری کے آنسوہی نہیں یاروں کے قہقہے بھی ہیں۔ انھیں یاروں کے ساتھ کو انھوں نے ہمہ یاراں دوزخ کا نام دیا ہے۔</p> <p>ہمہ یاراں دوزخ کا جائزہ لیں تو کتاب کا غالب موضوع مصنف کی بھارت سے نفرت کا ہے۔ بھارت کا قیدی ہونے کے ناطے یہ نفرت تعجب انگیز نہیں لیکن یہ نفرت سالک کے ہاں ایک وقتی جذبہ نہیں بلکہ ذہنی رویے کے طور پر سامنے آئی ہے۔ نفرت کی یہ لہر بھارتی حکومت سے لے کر عوام تک، جنرل سے لے کر سپاہی تک، دانشور سے لے کر ان پڑھ دیہاتی تک کے لیے یکساں شدید ہے۔ بھارت سے نفرت کو سالک صرف بھارتی باشندوں تک ہی محدود نہیں رکھتے بلکہ اس کی لپیٹ میں وہاں کے شہر محلے اور گلیاں بھی شامل ہیں اس کا سب سے بڑا نشانہ کلکتہ کا شہر ہے جہاں سالک تین ماہ تک قید تنہائی میں رہے تھے۔ اس قدیم اور تاریخی شہر کے متعلق سالک کے تاثرات ملاحظہ ہوں:</p> <blockquote> <p>اس کے خدوخال لاہور یا کراچی کی طرح تیکھے، جاذب اور واضح نہ تھے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی سوچے سمجھے بغیر اینٹوں کے ڈھیر لگاتاگیا اور کہیں ڈھیر میں سوراخ رہ گئے تو وہاں لوگوں نے رہنا شروع کر دیا۔</p> </blockquote> <p>بھارت سے اس شدید نفرت کی وجہ اُن کی اسیری کی نوعیت بھی ہے۔ اس قید سے سالک کی ذات ہی نہیں ملکی وقار بھی مجروح ہوتا تھا۔ جیل حکام کے علاوہ ایک عام ہندوستانی بھی ان قیدیوں کو دیکھ کر فتح کے احساس سے مسرور ہوتا تھا۔ اس لیے سالک بھارت کے لیے شدید نفرت کا احساس رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ مثال ملاحظہ ہو۔ کرنل محمد خاں نے اپنے مضمون ”ہمہ یاراں دوزخ مزاح اور مرثیہ“ میں لکھا ہے:</p> <blockquote> <p>ذرا مجھے وہ نارو اجملہ پڑھنے دیں جو سالک نے استانیوں کے متعلق من حیث المجاعت لکھا ہے۔ لکھتے ہیں: ”سامنے سکول کے چند بچے تھے اور ان بچوں کی پھلواری کے آس پاس چند خزاں رسیدہ استانیاں بھی تھیں“ اور یہ کہنے کے بعد یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ”مجھے تو ویسے ہی سب استانیاں ایک جیسی خزاں رسیدہ لگتی ہیں“ … کل تک استانیوں کو بھی یہ بتا کر پھسلا لے گا کہ صرف ہندوستانی استانیاں مراد تھیں۔</p> </blockquote> <p>حیرت اس بات پر ہے کہ کرنل محمد خاں کی مزاح میں کہی گئی بات کا بھی سالک نے بہت اثر لیا اور بعد کے ایڈیشنوں میں یہ جملہ اس طرح ملتا ہے:</p> <blockquote> <p>انھی بچوں کی پھلواری کے آس پاس چند خزاں رسیدہ استانیاں بھی تھیں لیکن ان کی طرف دھیان کون دیتا۔ ہماری استانیاں تو ایسی ویران نہیں ہوتیں۔</p> </blockquote> <p>اس سے پتا چلتا ہے کہ سالک اس معاملے میںکتنے محتاط ہیں انھوں نے واقعی بعد میں ”خزاں رسیدہ استانیوں“ کو ہندوستان تک ہی محدود کیا۔ اگرچہ پہلے والے جملے میں زیادہ جان تھی، بعد والا جملہ ان کی حب الوطنی کی تو اچھی مثال ہے لیکن بشاشت اور بذلہ سنجی سے محروم ہے۔</p> <p>ہمہ یاراں دوزخ میں صدیق سالک کی سوچ کا محور ”خوے ستمگر“ یعنی بھارت ہی رہا ہے۔ یہاں وہ خودا حتسابی کی طرف بہت کم آئے ہیں۔ زنداں تک پہنچنے میں اپنی قوم کا اجتماعی یا انفرادی کردار کیا تھا ان تکلیف دہ سوالات کو انھوں نے نہیں چھیڑا۔ جب کہ میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا میں انھوں نے دشمن کے بجائے اپنی کوتاہیوں پر زیادہ دھیان دیا ہے۔ ہمہ یاراںدوزخ جو موضوع ترتیب اور مزاج کے اعتبار سے نہ سہی واقعاتی طورپرمیں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا کی اگلی قسط ہے۔ اس میں سالک نے سارا زورِ بیان ہندوستان کے اصل چہرے کی ”نقاب کشائی“ پر صرف کیا ہے وہ شاعر کے اس خیال:</p> <blockquote> <verse> یہاں کوتاہی ذوق عمل ہے خود گرفتاری جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیاد ہوتا ہے </verse> </blockquote> <p>پر غور کرتے نہیںنظرآتے۔ ان کے جذبات کی ہر لہر بھارت سے شروع ہو کر بھارت پر ختم ہو جاتی ہے۔</p> <p>جن عوامل نے قید میں ان کا حوصلہ مضبوط رکھا وہ مثبت طرز فکر اور رجائی سوچ تھی۔ سالک کا کہنا ہے کہ مایوس کن حالات میں بھی انھوں نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا کہ طویل سیاہ رات کے بعد صبح نو ضرور آتی ہے۔ امید کی مثال ملاحظہ ہو:</p> <blockquote> <p>مجھے اس منجدھار میں اکثر سوہنی کی مثال یاد آتی جو دریائے چناب کی بپھری ہوئی لہروں سے صرف اس لیے نبردآزما رہتی کہ دریاکے اس پار اس کا مہینوال اس کا منتظر ہو گا۔ گویا جو چیز اسے ڈوبنے سے بچائے رکھتی تھی وہ گھڑا نہیں، بلکہ مہینوال کا تصور اور جذبہ وصل تھا۔ مجھے بھی پتہ تھا کہ سرحد کے اس پار ایک مہینوال نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں عشاق منتظر راہ ہوں گے۔ ان سے وصل کی گھڑی آئے گی اور ضرور آئے گی۔</p> </blockquote> <p>ہمہ یاراں دوزخ کا موضوع المیائی اور پیرایۂ اظہار مجموعی طور پر شگفتہ ہے۔ اس اندازنے موضوع کو مؤثر بنانے میں مدد کی ہے۔ غم کا اظہار غم کے پیرائے میں کرنا فطری اورروایتی انداز ہے، لیکن غم کو دل میں رکھ کر لبوں پہ مسکراہٹ لانا مشکل امر ہے۔ صدیق سالک اس مرحلے سے بڑی کامیابی سے گذرے ہیں۔ اگر وہ اسیری کی شب فراق کی کہانی ہی سناتے رہتے تو غالباًان مصائب کا اثر اتنا گہرا نہ ہوتا جو طنز و مزاح کی آگ میں تپنے کے بعد ہوا ہے۔ بعض ناقدین ہمہ یاراں دوزخ کے اس انداز کو ناپسند کرتے ہیں مثلاً مرزا حامد بیگ کے بقول :</p> <blockquote> <p>مجھے تو اس کتاب پر ایک بڑا اعتراض یہ بھی ہے کہ اس کا اظہار مزاحیہ ہے جسے انتہا کا سنجیدہ ہونا چاہیے تھا کہ یہ موضوع کا تقاضا بھی تھا۔</p> </blockquote> <p>ہمہ یاراں دوزخکے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے کہ مزاح کے لباس نے اس دریدہ بدن کو زیبائی اور وقار بخشا ہے۔ موضوع اور اسلوب بیک وقت حزنیہ ہوں تو غم کا تاثر ابھرتا ہے جو عموماً وقتی طور پر تو شدید ہوتا ہے لیکن اس کا اثر دیرپا نہیں جب کہ مزاح کے پردے میں کہی ہوئی غم کی بات پہلے توآنکھ میں ہنسی کے آنسو لاتی ہے اور بعد میں یہی آنسو اس غم کے پروردہ بن جاتے ہیں۔ ہمہ یاراں دوزخ کے اس انداز کے متعلق سید ضمیر جعفری کا خیال ہے:</p> <blockquote> <p>سالک نے جس انداز میں کتاب لکھی میرے خیال میں وہ اس کے لیے موزوں نہ تھا مگر کتاب پڑھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ اسی انداز نے تو جسم واقعہ میں جان ڈال دی ہے۔</p> </blockquote> <p>سالک کی شگفتہ طبعی نے سنجیدہ موضوع کے ساتھ مل کر خوبصورت کیفیت پیدا کی ہے۔ زخم کو مرہم بنانے کا انداز کتاب کی اصل حقیقت ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ سالک نے مزاح اور المیے کو خلط ملط کر دیا ہو۔ سنجیدہ قومی، اجتماعی جذباتی اور نفسیاتی موضوعات میں سالک کا انداز سنجیدہ اور حسب حال ہے مثلاً سقوط ڈھاکہ، ہتھیار ڈالنا، بھارت کا اختیارات سنبھالنا، قیدی بنایا جانا، ملی تشخص قیدیوں کی جسمانی، ذہنی اور اعصابی شکست وریخت پر ان کا قلم خونِ دل اور اشکِ رواں کو روشنائی بناتا ہے جب کہ مزاح کا پیرایہ روزمرہ کے واقعات بھارتی حکام کے رویے، جیل کی ناقص سہولیات، قیدیوں کے مشاغل، عادات اور نفسیات کے ضمن میں اختیار کیا ہے مثلاً قیدِ تنہائی میں ملنے والے کھانے کے متعلق لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>اس تاریک کو ٹھڑی میں چراغِ رخِ زیبا کہاں سے لاتا کہ کھانے سے پہلے ماحضر کی شناخت کرتا۔ ہاتھوں سے ٹٹولا توہاف بوائل (نیم برشت) چاولوں کی انا موجودپائی اگر انھیں تھوڑی دیر اور گرم پانی میں رکھا جاتا تو یقینا ان کی اکڑ اسی طرح مرجاتی جس طرح زمانے کے گرم وسرد میں کم ہمت انسان اپنی انا کھو بیٹھے ہیں۔</p> </blockquote> <p>جیل میں ناقص سہولتوں پر لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>غسل خانے میں جا کر جسم و جاں اور جامہ و پیرہن کو بیک وقت بھگوڈالا، لیکن صابن تھا کہ خیال یار کی طرح پھسل پھسل جاتا اور میل تھا کہ رقیب روسیاہ کی طرح پیچھا ہی نہیں چھوڑتا تھا۔</p> </blockquote> <p>سالک نے حالِ دل بیان کرنے کے لیے خونچکاں خامے اور فگارانگلیوں کی نمائش ہمہ وقت ضروری نہیںسمجھی اس لیے ان بدنما واقعات پر مزاح کی روپہلی چادر چڑھا دی ہے۔ وہ غم کی داستان کو مسلسل نوحہ نہیں بناتے نشاط اور امید کے نغمے بھی الاپتے ہیں۔ اسیری کی سیاہ طویل رات گذارتے ہوئے صبحِ نو کے تصور کو فراموش نہیں کرتے۔ کڑی دھوپ میں چلتے ہوئے خیالِ یارکی چادر بھی سر پرتان لیتے ہیں اور یہی اس کتاب کی خصوصیت ہے۔</p> <p>اس ضمن میں یہ پہلو بھی اہم ہے کہ سالک ایسے واقعات کی تفصیل میں نہیں جاتے جس سے ان کے شخصی وقار کو ٹھیس لگنے کا اندیشہ ہو۔ جیل میں جنگی قیدیوں پر تشدد عام بات ہے۔ امریکہ جیسے جمہوری اور ترقی پسند ملک نے ابوغریب جیل میں قیدیوں پر جو غیر انسانی تشدد کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ صدیق سالک نے پوری ہمہ یاراں دوزخ میں اپنے اوپر ہونے والے جسمانی تشدد کا ذکر نہیں کیا۔ کلکتہ سیل کی قید تنہائی (جو باقی قید کے مقابلے میں زیادہ سخت تھی) کے بارے میں لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>اس طرف سے ابتدایوں ہوئی ”ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ تم چند ایک بیماریوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے تھرڈ ریٹ ہتھکنڈوں کے متحمل نہیں ہو سکتے لہٰذا تمھارے اپنے مفاد میں ہے کہ جو کچھ پوچھا جائے بلا تامل بتاتے جائو-“</p> </blockquote> <p>لیکن اپنی آپ بیتی سلیوٹ میںقید کے مختصر ذکر میںلکھا ہے:</p> <blockquote> <p>وہاں تو گالی گلوچ، مارپیٹ بھوک پیاس اور رسوائی و ذلت کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں نے جو عرصہ وہاں گذارا، اللہ تعالیٰ کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے۔</p> </blockquote> <p>ہمہ یاراں دوزخ میں سالک نے قاری کو بہت سے کردار وں سے متعارف کروایا ہے جس میں پاکستانی اور ہندوستانی دونوں طرف کے خواص اور عوام شامل ہیں۔ سالک کی شخصیت نگاری کا اہم پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے معتوب کرداروں کا حلیہ زیادہ تفصیل سے لکھتے ہیں اورجنھیں پسند کرتے ہیں ان کے ظاہری خدوخال سے زیادہ عادات و گفتار کا ذکر کرتے ہیں۔ مثلاً بھارتی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے متعلق لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>اروڑا خالص سکھ نسل کا عمدہ نمونہ تھا۔ اس کی ڈاڑھی اور مونچھوں کے جنگل کے اس پار پگڑی کا ایک چبوترہ تھا، جس کے گرد جرنیلی کی لال پٹی لگی ہوئی تھی۔ اگر کندھوں سے نیچے دیکھا جائے تو بالکل انسانی پیکر نظر آتا تھا لیکن جوں جوں نگاہ اوپر اٹھتی اپنے مشاہدے پر شک ہونے لگتا۔</p> </blockquote> <p>معتوب کردار کے تعارف میں وہ اس کی جسمانی خامیوں کا ذکر کر کے اپنے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں، لیکن ہمیشہ یہ بیان براے نفرت نہیں براے مزاح بھی ہوتا ہے مثلاً:</p> <blockquote> <p>بھنگی اپنے پیشے کا قابل اعتماد نمونہ تھا میلی خاکی نیکر، غلیظ سیاہ ٹانگیں، پائوں میں پھٹے ہوئے خاکی کینوس کے جوتے، اوپر ایک بنیان، ایک آنکھ اور ایک سر بنیان میل خوردہ، آنکھ زخم خوردہ البتہ سر صحیح و سالم تھا لیکن بھنگی کے لیے صحیح الذہن ہونا بھلا کیا معنی رکھتا ہے۔</p> </blockquote> <p>حوالدار میجر تاراسنگھ کے متعلق لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>بیشک وہ اپنی ماتا کی آنکھ کا تارا ہوگا لیکن ہمیں ایک آنکھ نہ بھایا لمبے قد پتلی ٹانگوں اور موٹے پیٹ کی وجہ سے اکثر چلتے وقت اس میں کسی اناڑی شاعر کے بے وزن مصرعے کی طرح جھول پڑتی۔</p> </blockquote> <p>ہمہ یاراں دوزخ میں سالک کی کردار نگاری خوب صورت اور فطری ہے۔ ’رپورتاژ‘ کے اصولوں کے مطابق یہ زندہ کردار ہیں۔ اس کتاب میں سالک کی ’حب الوطنی‘ بوجوہ بڑھی ہوئی ہے۔ اس لیے نھوں نے اپنے ساتھی قیدیوں کے برے رویے کا ذکر نہیں کیا۔ دوسال کی قید میںایسا ہونا غیر فطری بات نہیں لیکن سالک نے اس کاذکر نہیں کیا۔ اس لیے ان کرداروں کے مثبت پہلو ہی سامنے آئے ہیں۔</p> <p>سالک نے ہمہ یاراں دوزخ میں بہت خوب صورت شاعر انہ اور ادبی نثر لکھی ہے۔ فارسی تراکیب کا استعمال عام ہے لیکن مجموعی تاثر اتنا مشکل بھی نہیںکہ غرابت پیدا ہو۔ اس سلسلے میںسالک نے مختلف اندازاپنائے ہیں جہاں فکر اور فلسفے کی بات کی ہے، وہاں طرز نگارش مشکل ہے۔ عام واقعات کے بیان میں سادہ انداز اورمزاحیہ پیرایہ اختیار کیا ہے۔ یہاں تقریباً وہی اسلوب ہے جو مزاح اور غم کی آمیزش میں ہے۔ عام واقعات کے بیان میں سالک کا انداز مزاح کا اور زبان سادہ ہے، غم کے اظہار میں ان کا انداز حزیں اور زبان مشکل ہے، مثلاً:</p> <blockquote> <p>گردو پیش میں بہت کچھ دیدنی تھا، خون مسلم کی ارزانی، اسیروں کا سوز نہانی، پناہ گزینوں کی خانہ ویرانی اور فاتحین کی شاد مانی…… لیکن ذوق تماشا نے ساتھ چھوڑ دیا۔</p> </blockquote> <p>اس اقتباس میں قوافی کے ساتھ فارسی تراکیب کا استعمال کثرت سے کیا گیا ہے۔ انسان عموماً خوش کن لمحات کو خوب صورتی سے بیان کرتا ہے اور غم کے بیان میں اس کا انداز براہ راست اورسادہ ہوتا ہے جب کہ سالک نے غم کی روداد مشکل پیرائے میں بیان کی ہے۔</p> <p>صدیق سالک بنیادی طورپرمزاح نگار ہیں۔ قیدوبند کی صعوبتوں میں حس مزاح برقرار رکھنا بہت مشکل امر ہے۔ کسی دوسرے شخص یا صورت واقعہ پر ہنسنایاہنسی کے پہلو تلاش کرنا بہت آسان ہے لیکن ایک ناہموار صورتِ حال سے گذرتے ہوئے اس ناہمواری پر ہنسنا مشکل کام ہے۔ موضوعی اعتبار سے دیکھیں تو سالک نے زیادہ تر ہندوستانی لوگوں کی خامیوں، تنگ نظری اور برے سلوک پر طنز آمیز لہجہ اختیار کیا ہے اس کے علاوہ قیدیوں کی حالت زار کو دکھ کے ساتھ مزاح کے پیرائے میں بھی بیان کیا ہے جیل جیسی محدود جگہ پر واقعاتی مزاح پیدا کرنے کے عناصر بھی کم تھے اس لیے زیادہ تر سالک نے لفظی مزاح سے کام لیا ہے۔ ہندوستانی رویے پر طنز کرتے ہوئے ان کا مزاح خفگی کی طرف مائل نظر آتا ہے مثلاً:</p> <blockquote> <p>اپنے نئے کاشانے میں پہنچ کر گردوپیش پر نگاہ ڈالی تو سب سے پہلے سؤرہی سؤرنظر آئے (میری مراد اصلی سؤروں سے ہے) بھورے بھورے، کالے کالے، موٹے موٹے، تازے تازے یہ ہمارے بلاک کے پیچھے گندے نالے میں محوِخرام تھے۔ میرے خیال میں ان کی وہاں موجودگی محض اتفاقی تھی۔ ان کا ہمارے استقبال سے کوئی تعلق نہ تھا۔ کیونکہ اس کام کے لیے کوئی سوسواسو بھارتی سپاہی اور افسر موجود تھے۔</p> </blockquote> <p>دشمن کے لیے ناموزوں القاب استعمال کرنا مزاح کی کوئی اعلیٰ قسم نہیں پھر پہلے جملے میں جو ابہام کی خوب صورتی تھی اسے بھی اگلے جملے میں واضح کر کے عامیانہ پن کا شکار کر دیا ہے۔</p> <p>لفٹیننٹ کرنل گھن پتی کے متعلق جملے کا انداز ملاحظہ ہو:</p> <blockquote> <p>گھن پتی اپنی گھن سے لبریز زبان کو کتے کی دم کی طرح تیز تیز چلانے لگا۔</p> </blockquote> <p>شخص مذکور کے نام کی نسبت سے ”گھن“ کا لفظ استعمال کیا ہے، لیکن صنعت تجنیس کی خوبصورتی ان کی نفرت کے آگے ماند پڑ جاتی ہے۔</p> <p>لفظی مزاح میں صنعت تضاد کی مثال:</p> <blockquote> <p>اس کا نام شہباز تھا مگر وہ شکل و صورت سے ممولہ لگتا تھا۔</p> <p>’رعایت لفظی‘ سالک کا مزاح پیدا کرنے کا پسندیدہ حربہ ہے۔</p> <p>میجر ملک کسی کو مکسچر اور کسی کوڈانٹ ڈپٹ پلا کر چلتا کر دیتا۔</p> <p>بشیر صاحب نے میری آنکھ کی مزاج پرسی کی اور میجر ملک نے میری</p> <p>میجر اقبال کے ساتھ والی چارپائی پر ایک اور صاحب تھے جنھیں شاعری کے علاوہ بھی کوئی ذہنی مرض تھا۔</p> </blockquote> <p>ہمہ یاراں دوزخ کی سب سے اہم خصوصیت اس کی شاعرانہ نثر ہے۔ ان کی تمام کتابوں کے مقابلے میں اس کی نثر بہت ادبی شاعرانہ اور خوبصورت ہے، اشعار کثرت سے درج کیے گئے ہیں۔- مختلف شعرا کے تقریباً ستر (۷۰) اشعار اور مصرعے لکھے ہیں۔ اس کا ایک سبب قید بھی ہو سکتی ہے جہاں دنیا کے عملی مشاہدے کے بجائے تخیل کی کارفرمائی زیادہ تھی۔ جس طرح مولانا ابوالکلام آزادنے غبار خاطر میں بڑی تعداد میں اشعار درج کیے ہیں۔ بہر حال یہ صدیق سالک کے شاعرانہ ذوق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔</p> <p>رپورتاژ کی تعریف اور خصوصیات کے حوالے سے ہمہ یاراں دوزخ کا جائزہ لیں تو رپورتاژ کی بیشتر خصوصیات کا سراغ لگایا جا سکتا ہے، مثلاً:</p> <list> <li>یہ ایک حقیقی واقعے یعنی جنگی قید سے متعلق ہے۔</li> <li>واقعات کے ساتھ کردار حقیقی ہیں۔</li> <li>زمانی تاریخ کا تعین کیا گیا ہے۔</li> <li>واقعات کے ساتھ مصنف کے جذبات شامل ہیں۔</li> <li>مصنف کی ذات بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔</li> <li>داخل اور خارج کا حسین امتزاج ہے۔</li> <li>واقعے کے فوراً بعد بلکہ واقعات کے ساتھ ساتھ لکھا گیا ہے۔</li> <li>زبان و بیان ادبی و شاعرانہ محاسن کی حامل ہے۔</li> </list> <p>بعض ناقدین نے رپورتاژ کو سفر نامے کی ہی ایک شکل قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر انور سدید کے بقول :</p> <blockquote> <p>سفر نامے سے سفر نامے کو منہا کر کے سامنے کی دیکھی ہوئی حقیقت اور صورت واقعہ کو ادبی صورت دی جائے تو اس قسم کی رپورٹ کو اصطلاحاً رپورتاژ <annotation lang="en">(Reportage)</annotation> کہتے ہیں۔ اخبار کا واقعہ ،جیسے کا آنکھوں دیکھا حال، اور منظر کی رپورٹ ’رپورتاژ‘ کی ابتدائی صورتیں شمار کی گئیں ہیں۔</p> </blockquote> <p>اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بھی ہمہ یاراں دوزخ رپورتاژ کی ذیل میں آئے گا، کیونکہ اس میں انھوں نے ڈھاکہ سے کلکتہ تک کے سفر کا حال اور اپنی قلبی کیفیت بڑے مؤثر انداز میں بیان کی ہے۔ ڈاکٹر ظہور احمد اعوان، ہمہ یاراں دوزخ کے رپورتاژ ہونے کی دلیل میں لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>مصنف نے خود اسے رپورتاژ نہیں کہا لیکن یہ رپورتاژ کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس میں سچی روداد ہے لمحہ بہ لمحہ کہانی ہے۔ ہنگامی واقعات ہیں۔ آنکھوں دیکھا حال ہے سچے کردار اور مکالمے ہیں خارجی مناظر، داخلی کیفیات ہیں، قہقہے، مسکراہٹیں، حرکت، سفر، خوف، درد، چیخیں ہیں اوپر سے مصنف کے ادبیانہ اسلوب، کمال کی مرقع کاری، درد آگیں لمحوں کی عکس بندی ایسی ہے کہ آدمی اسے ایک ناول اور سفر نامے کی طرح پڑھتا ہے تحریر کے جذباتی زیروبم میں برابر کا شریک ہو جاتا ہے رونے والوں کے ساتھ روتا ہے اور ہنسنے والوں کے ساتھ ہنستا ہے۔ مصنف اس تحریر کا مرکزی کردار ہے۔ اس میںتاریخیں، مہینے سال، گھنٹے، منٹ تک گنوائے گئے ہیں۔ کتاب سچے ٹریجک واقعات کی رپورٹنگ ہونے کے باوجود ادبی حسن کاری سے بے نیاز نہیں۔</p> </blockquote> <p>ڈاکٹر انور سدید نے ہمہ یاراں دوزخ کو رپورتاژ قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>مسعود مفتی کا رپورتاژلمحے سقوطِ ڈھاکہ کے آخری ایام کی حقیقت آفرین تصویر سامنے لاتا ہے۔ یہ رپورتاژ چونکہ ہنگامی حالات میں لکھا گیا تھا اس لیے اس میں بے ساختگی فطری انداز میں شامل ہو گئی ہے۔ صدیق سالک کا رپورتاژہمہ یاراں دوزخ ایک جنگی قیدی سالک کا رپورتاژ ہے۔ یہ دونوں رپورتاژ مصنفین کے نقطۂ نظر سے وطن دوستی اور پاکستانیت کے جذبے کو بڑی خوبی سے آشکار کرتے ہیں۔</p> </blockquote> <p>عظیم مزاح نگار اور سالک کے قریبی دوست سید ضمیر جعفری نے بھی اپنے مضمون ”طلسمی مندری والی کتاب“ میںہمہ یاراں دوزخ کو رپورتاژ قرار دیا ہے۔</p> <p>اس بحث اور دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ ہمہ یاراں دوزخ میں رپورتاژ کی بہت سی خصوصیات ہیںجو امر اسے دوسرے رپورتاژوں سے ممتاز کرتا ہے وہ واقعے کی زمانی طوالت ہے عموماً رپورتاژ میں بیان کردہ واقعہ دو سالوں پر محیط نہیں ہوتا۔ رپورتاژ عموماً کانفرنسوں یا مختصر مدت کے واقعے پر لکھے گئے ہیں جب کہ سالک کا تجربہ دو سال طویل ہے۔ لیکن بنظرغائر جائزہ لیں تو دو سال کی قید سالک کے لیے داخلی طور پر اکائی کی حیثیت رکھتی ہے یہ اکائی مختصر بھی ہو سکتی ہے اور طویل بھی۔</p> <p>بطور رپورتاژہمہ یاراں دوزخ کی سب سے بڑی خصوصیت مصنف کی داخلیت ہے۔ سالک نے قید میں خودشناسی اور خدا شناسی کے مراحل بطریق احسن طے کیے ہیں۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ وہ اپنے احساسات دیانت داری سے قاری کے سامنے پیش کرتے ہیں چاہے وہ کسی قسم کے ہوں۔ اچھے رپورتاژ کی طرح سالک نے داخل سے خارج نہیںبلکہ خارج سے داخل کا سفر کیا ہے اور خارجی واقعے سے متاثر ہو کر قلبی واردات کو بیان کیا ہے۔</p> </section> </body>
0042.xml
<meta> <title>ہندوستان میں لکھی جانے والی اولین فارسی خودنوشت</title> <author> <name>معین الدین عقیل</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 6</name> <year>2015</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/1_moinuddin_aqeel_bunyad_2015_.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>2140</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
ہندوستان میں لکھی جانے والی اولین فارسی خودنوشت
2,140
Yes
<body> <section> <p>بطورصنفِ نثر اردوزبان میں لکھی جانے والی اولین خودنوشت سوانح عمری کا تعین مختلف حوالوں اورمنصوبوں کے تحت موضوعِ مطالعہ و تحقیق بنتارہاہے۔ اس ضمن میں بالخصوص راقم کے انکشاف پر مبنی مرتبہ و مطبوعہ کاوش بیتی کہانی: اردو کی اولین نسوانی خودنوشت، مصنفہ شہر بانو بیگم، دختر نواب پٹودی اکبرعلی خاں کا مقدمہ اس وقت تک تمام دستیاب و ضروری معلومات پر مشتمل ہے۔ پھر اس موضوع پر مزید معلومات اور دیگر دستیاب اولین خودنوشت سوانح عمریوں کا راقم کا تحریر کردہ ایک تعارف ”اردو کی اولین خودنوشت سوانح عمریاں“ میں سامنے آیا۔ اردو زبان میں ایسی دستیاب خودنوشتوں کے منظرِ عام پر آنے کا آغاز کوئی ۱۸۲۰ئ کی بات ہے، جب ایک نوعیسائی (ہندو) پتمبر سنگھ کی اردو زبان میں ایک خودنوشت <annotation lang="en">Memoir of Pitambar Singh, a Native Christian</annotation> شائع ہوئی۔ جب کہ شہر بانو بیگم کی مذکورہ بالا خودنوشت (مرقومہ ۱۸۸۵ئ-۱۸۸۷ئ) کے لکھے جانے تک اردو میں کئی خودنوشت سوانح عمریاں لکھی گئیں جن کا ذکر راقم کے موخر الذکر مقالے میں موجود ہے۔</p> <p>یہ معاملہ ان خودنوشت سوانح عمریوں کا ہے جو ایک مستقل صنف کے طور پر خاص اسی مقصد سے اپنی زندگی کا احوال مرتب کرنے کے لیے لکھی گئیں۔ ورنہ ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ مؤرخین نے جب اپنے عہد کی تاریخیں لکھیں، یا تذکرہ نویسوں نے معاصر شاعروں، مصنفین یا علما و مشائخ کے تذکرے لکھے یا صوفیہ کے مصاحبین یا عقیدت مندوں نے ان کے ملفوظات مرتب کیے، تو ضمنی طور پر کہیں کہیں وہ اپنے ذاتی حالات یا اپنی وابستگی کا حال احوال یا اپنے ذاتی مشاہدات بھی لکھ گئے۔ لیکن ظاہر ہے یہاں ایسی صورت میں ان کے پیشِ نظر اپنی زندگی کے حالات یا اپنی مربوط سوانح لکھنا بنیادی مقصد نہ تھا۔</p> <p>فارسی زبان میں یہ روایت مغلیہ عہد میں زیادہ عام رہی۔ مغلوں سے قبل بھی یہ روایت مؤرخین اور مصنفین کے ہاں تلاش کی جاسکتی ہے لیکن یہاں ایک ایسی خودنوشت سوانح کا تعارف مقصود ہے جو کسی ضمنی یا ذیلی مقصد سے کسی کتاب کے باب یا جز کے طور پر نہیں بلکہ ایک شخص کے اپنے شخصی یا ذاتی تعارف کے خاص مقصد سے اس کے مصنف امیرالدین میراں جی شمس العشاق (۹۰۲ھ/۱۴۹۶ئ۔ ۹۹۴ھ/۱۵۸۵ئ) نے فارسی زبان میں ۱۵۸۵ئ یا اس سے کچھ قبل لکھی تھی۔ شمس العشاق بیجاپور کی عادل شاہی عہدِسلطنت (۱۴۹۰ئ-۱۶۸۶ئ) کے ممتاز صوفی اور مصنف و شاعرتھے، جن کا تعلق چشتیہ سلسلے سے تھا۔ سلسلہ چشتیہ کا فیض دکن میں سیدمحمد حسین عرف گیسودراز (۷۲۱ھ/۱۳۲۱ئ۔ ۸۲۵ھ/۱۴۲۲ئ) سے عام ہوا تھا۔ گیسودرازاسلامی تصوف کی ان روایات سے وابستہ تھے جو سلطنتِ اسلامیہ ہند کے مرکز دہلی میں اور پھر دکن میں اسلامی سلطنت کے صوبائی دارالحکومت دولت آباد میں تصوف کے فروغ اور ایک بڑے پیمانے پر تبلیغِ اسلام کا باعث بنیں۔ انھوں نے بیک وقت اپنے مرشد خواجہ نصیرالدین چراغ دہلی (متوفی ۷۵۷ھ/۱۳۵۶ئ) سے، اور ان سے بیعت کے وسیلے سے خواجہ نظام الدین اولیا (۶۳۱ھ/۱۲۳۲ئ۔ ۷۲۵ھ/۱۳۲۴ئ) کی روحانیات و الٰہیات سے مستفیض ہو کر، دکن میں تبلیغِ اسلام اور تصوف کے فروغ کا وہ شان دار کارنامہ انجام دیا تھاجو جنوبی ایشیا میں دیگر کم ہی صوفیہ کے ساتھ منسوب ہے۔ انھیں یہ بھی ایک اعزاز و امتیاز حاصل ہے کہ ان سے دکن میں چشتیہ سلسلے کوبے پناہ مقبولیت اورمثالی فروغ نصیب ہوا اور اس سلسلے کے جوصوفیہ ان سے راست یا بالواسطہ منسلک رہ کراسلامی تصوف میں اپنی خدمات، تعلیمات اور افکار سے علاقۂ دکن کو فیض یاب اور منور کرتے رہے، خود وہ بھی اپنی اپنی جگہ اپنی خدمات و اثرات کے سبب ممتاز و موقر نظرآتے ہیں۔ دکن میں ان کا فیض شاہ جمال الدین مغربی (متوفی ۱۴۲۴ئ) تک اور ان سے شاہ کمال الدین بیابانی (متوفی۱۴۶۳ئ) تک پہنچاتھا۔ شاہ بیابانی سے امیر الدین میراں جی شمس العشاق نے فیض پایا تھا۴ جواس وقت ہمارا ایک موضوع ہیں۔ پھر ان سے راست فیض یافتگان میں ان کے فرزند شاہ برہان الدین جانم (۹۶۱ھ/۱۵۵۳ئ -۱۰۰۷ھ/۱۵۹۹ئ) تھے اورجن کے فرزند شاہ امین الدین علی اعلیٰ (۱۰۰۷ھ/۱۵۹۹ئ۔ ۱۱۰۸ھ/۱۶۷۴ئ) تھے۔</p> <p>جانم کے ایک معاصر شیخ محمود خوش دہان (متوفی ۱۰۲۶ھ/۱۶۱۷ئ) بھی ممتاز صوفیہ میں شمار ہوتے ہیں اور انھیں جانم سے ایک نسبت یہ تھی کہ ان کی بہن ولی بی ماں جانم کے عقد میں تھیں، جن سے امین الدین علی اعلیٰ تولد ہوئے۔ مزید یہ کہ یہ جانم سے نہ صرف سلسلہ چشتیہ میں بیعت تھے بلکہ ان کی خلافت پر بھی متمکن ہوئے۔ اس پر مستزاد، جانم کی ہدایت پر انھوں نے اعلیٰ کے اتالیق و پیرِ تربیت کی ذمے داری بھی اداکی۔ ان مناسبتوں کے باعث خوش دہان بھی اس خانوادے کے ایک رکن تھے۔ اس طرح ان تین نسلوں پر مشتمل یہ خانوادہ، گیسو دراز سے بیعت و رشد کے وسیلے سے ان سے فیض یافتہ بھی ہے اوردکن میں ان کے خیالات کے فروغ کا سبب بھی بنا ہے۔ شمس العشاق اس خاندان کے ایک جانب سرپرستِ اعلیٰ بھی تھے اور دوسری جانب دکن میں، اس طرح اپنے خاندان کی اجتماعی کوششوں کے باوصف، چشتیہ سلسلے کے فروغ اور وسعت کا سبب بھی بنے۔ شمس العشاق نے تصوف کے اعمال و اشغال اور سلوک و تربیت کے ساتھ ساتھ تخلیق و تصنیف کو بھی اپنے افکار و خیالات کے اظہار کا وسیلہ بنایا تھا۔ وہ شاعر بھی تھے اور نثر میں متعدد کتابوں اور رسائل کے مصنف بھی تھے۔ ان تصانیف میں ان کی وہ خودنوشت بھی شامل ہے جس کا تعارف یہاں پیشِ نظر ہے۔</p> <p>یہ خودنوشت نسل نامہ حاجی شریف الدین یعنی خودنوشت حالات حضرت میراں جیدو اجزا پر مشتمل لیکن بہت مختصرہے۔ ان اجزا میں ایکــ ”ــ نسل نامہ“ ہے جس میں مصنف نے اپنے اجداد کے نام تحریر کیے ہیں، اور دوسرا جز ان کے ذاتی حالات پر مشتمل ہے۔ ان دونوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں، یہ دونوں باہم مربوط ہیں۔ اس خودنوشت کے پانچ قلمی نسخوں کا علم ہے جودرجِ ذیل کتب خانوں: کتب خانہ درگاہِ امینیہ (بیجاپور)، کتب خانہ آصفیہ (حیدرآباد)، ادارہ ادبیاتِ اردو، حیدرآباد، مخطوطہ نمبر ۸۶۳؛ کتب خانہ عمر الیافعی (۱۸۸۹ئ-۱۹۶۱ئ) حیدرآباد؛اور خانقاہِ عنایت الٰہی (جدِ اعلیٰ ڈاکٹر محی الدین قادری زور، ۱۹۰۴ئ-۱۹۶۲ئ) میں موجود ہیں۔ اس خود نوشت کے بارے میںاس شک کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ کیا یہ میراں جی ہی کی تصنیف ہے۔ یہ بھی گمان ظاہر کیاگیاہے کہ یہ خودنوشت مکمل نہیں۔ اس میں میراں جی اور حضرت علی کے درمیان جو فہرستِ اجداد درج ہے اس میں ۷۱ واسطے بیان کیے گئے ہیں اور ان کی مدت نوسو سال بنتی ہے۔ اس مدت کے لحاظ سے کہاگیاہے کہ یہ واسطے کم ہیں۔ لیکن اس کی نوعیت سے قطع نظر اس میں شک نہیں کہ اس کا تعلق میراں جی اور ان کی زندگی ہی سے ہے اور بہت اہم اورقیمتی معلومات اس کے توسط سے دستیاب ہوئی ہیں۔ پھر اس کی زمانی تقدیم کے بارے میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتیں۔</p> <p>میراں جی کے انتقال (۱۵۸۵ئ) تک کسی ایسی فارسی خودنوشت کے بارے میں ہماری معلومات عنقا ہیں، جو ہندوستان میں لکھی گئی ہو، اور جو کسی حکمران سے منسوب، بمثل ”وقائع بابری“ (شہنشاہ ظہیر الدین بابر، ۱۴۸۳ئ-۱۵۳۰ئ) یا مغل حکمران ہمایوں (۱۵۳۰ئ-۱۵۴۰ئ) کی سوانح ”ہمایوں نامہ“ (مصنفہ گلبدن بیگم، ۱۵۲۳ئ-۱۶۰۳ئ) جیسی واقعاتی ومشاہداتی تصنیف نہ ہو، جس میں مصنف کے جزوی ذاتی حالات بھی تحریر کا حصہ بنے ہیں۔ ہندوستان میں فارسی میں لکھی جانے والی جس پہلی اور معروف خودنوشت کے بارے میں معلومات عام رہی ہیں وہ اسد بیگ قزو ینی (متوفی ۱۶۲۱ئ) کی خودنوشت وقائع اسد بیگ (”حالاتِ اسد بیگ“/”احوالِ اسد بیگ“) ہے جو ۱۶۰۴ئ-۱۶۰۵ئ یا شمس العشاق کی تحریر کردہ خودنوشت کے کوئی بیس سال بعدکی تصنیف ہے۔ ۱۳ یہ اسد بیگ، شاعر تھا اور ’اسد‘ تخلص کرتاتھا۔ قزوین میں پیدا ہوالیکن ہجرت کر کے عہد جلال الدین اکبر (۱۵۵۶ئ-۱۶۰۵ئ) میں ہندوستان آیا اورابوالفضل (۱۵۵۱ئ-۱۶۰۲ئ) کی ملازمت اختیار کی اور تقریباً سال اس کے ساتھ وابستہ رہا۔ ابوالفضل کے انتقال (۱۶۰۲ئ) کے بعد، وہ اکبر کے دربار سے منسلک ہوا۔ اکبرنے اسے اپنے شہزادہ دانیال کی شادی میں شرکت کے لیے، جو ابراہیم عادل شاہ ثانی (۱۵۸۰ئ– ۱۶۲۷ئ) کی دختر سے طے پائی تھی، شاہی بارات کے ساتھ بیجاپوربھیجاجس میں شامل ہوکروہ بیجاپور گیا۔ وہاں سے واپسی کے ایک سال بعد اکبر نے اسے دکن کے چاروں صوبوں کے لیے اپنا ایلچی مقررکرکے بھیج دیا۔ ابھی اسے روانہ ہوئے کچھ ہی مدت گذری تھی کہ اکبر کا انتقال ہو گیا، چنانچہ شہزادہ نورالدین جہانگیر (۱۶۰۵ئ-۱۶۲۷ئ) نے تخت نشین ہوتے ہی اسے واپس بلالیا اور کسی وجہ سے اسے ملازمت سے برخاست کر دیا۔ اسد بیگ کا انتقال۱۶۲۱ئ میں ہوا۔ اس خودنوشت کے علاوہ اپنی یاد گار میں اس نے اپنا ’دیوان‘ چھوڑا ہے، جس میں ۸۰۰۰ اشعار شامل ہیں۔ وقائع اسد بیگ میں اس نے اپنے حالات ابوالفضل کی وفات سے اکبر کی رحلت اور جہانگیر کی تخت نشینی تک تحریر کیے تھے۔ اس میں اس کے قیامِ بیجاپور اور ابراہیم عادل شاہ سے اس کی ملاقاتوں کے حالات بھی شامل ہیں۔</p> <p>میراں جی کی خودنوشت، جوانتہائی مختصر ہی سہی، اورانھوں نے اپنی عمر کے چاہے جس عرصے میں اسے لکھا ہو، ۱۵۸۵ئ یا اس سے قبل کی تصنیف ہے۔ اس طرح میراں جی کی اس خودنوشت کوہندوستان میں لکھی جانے والی دستیاب اور اس فن میں مستقل اولین فارسی خودنوشت قرار دینے میں تامل نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے کُل دستیاب متن کویہاں ذیل میں نقل کیاجاتاہے:</p> <blockquote> <p><annotation lang="ar">اللہم صلی علی محمد صلعم سید الاولین والآخرین۔ </annotation> نسل نامہ حضرت حاجی شریف دوام الدین بن سیدعلی بن سید محمد بن سید حسین بن سید داودبن سید زین بن سید احمدبن سید حمزہ بن سید سیف اللہ بن سید ابوالحسن بن سید عبیداللہ مظلومی بن سید علی بن امام زین العابدین بن امام حسین بن علی ابن ابو طالب کرم اللہ وجہہ۔ </p> <p>بیتنا فی المحلتہ القریشیہ، عند بیت صحابہ کرام ابوبکر، بن قحافتہ، بن مبارک مکہ، جائ نافی۱۸ الہند، النسبت من قوم چغطیتہ، از قوم چغطیہ نسبت کردہ باز بہ مکہ معظمہ رفتہ۔ در مکہ تولدم شد۔ و اسمنا امیرالدین نہادند، المعروف شاہ میراں جی و بعد از بست ودوسال یک طرفہ حال پیداشد۔ از مکہ معظمہ بہ زیارت مدینہ شریف مشرف شدم۔ مدت دوازدہ سال و سہ ماہ و پنج روز بہ درگاہ قبلہ کونین سیدالانبیا و المرسلین بہ یک پہلو افتادہ در شب جمعہ سید المرسلین و با صحابہ کرام قدوم سعادت ابد (کذا) بہ ایں فقیر آوردند۔ و پابوس شدم۔ دستِ مبارک بر سر نہادند۔ الحمدللہ بہ مراد رسیدم۔ چنانچہ (کذا) سرفراز کردنی بود سرفراز مرحمت و عنایت رحمت (کذا) عطاشد و سید الانبیادست ایں فقیر گرفتہ بدست حضرت علی کرم اللہ وجہہ سپردند۔ از حضرت اسد اللہ الغالب نعمت بیکراں عطایافتم۔ من بعد حکم مصطفیٰ و مرتضیٰ بہ این فقیر صادر شد کہ بہ ہند بروند۔ نہایت عذرے و بعجز آوردم کہ زبان ہندگوناگوں فہمی نمی دارم و بہ زبان مبارک فرمودند ہمہ زبان بشما معلوم خواہد شد و ملاقات شاہ کمال الدین بیابانی بگیرند و ہر چہ فرمایند قبول کنند۔ بر حکم معالی بہ ہند آمدہ ام ودرخدمت شاہ کمال الدین رسیدم و چند ایام سعادت انجام خدمت کردم۔ از سرزمین ہند و اززبان ہندی واقف شدم۔ پیر ایں فقیررخصت فرمودہ حکم کدخدائی کردند و بہ زبانِ مبارک فرمودند کہ اے امیر میراں از شما بسیارعالم بہرہ خواہند یافت۔ بر حکم پیرایں فقیر در بھنگار کدخدائی کردہ۔ چند روز ماندہ۔ در خدمت پیر آمدم۔ فرمودند کہ حکم نبی علیہ الصلوات والسلام شدہ است کہ بہ بیجا پوربروند و جایی کہ اشارت نبی اللہ شود درایں جا مستقیم و ساکن باشد۔ بر حکم پیر فقیر در عہد علی عادل شاہ آمد بہ استعانت اشارہ ساکن و مستقیم (وساکن) شدم۔ الحمدللہ علی ذالک۔ تمت تمام شد۔</p> </blockquote> <p>اس خودنوشت سے میراں جی کے احوال کے بارے میں، ان کے نسب نامے کے علاوہ، جو معلومات اخذ ہوتی ہیں وہ یہ ہیں: </p> <p>ان کا نام امیر الدین اور عرفیت ’میراں جی‘ تھی۔ ان کے والد کا نام حاجی شریف دوام الدین تھا، جو ساداتِ زیدی سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا مکان مکہ مکرمہ کے محلہ قریشیہ میں ابوبکر بن قحافہ کے پڑوس میں تھا۔ حاجی شریف کی شادی ہندوستان میں مقیم ایک چغتائی خاندان میں ہوئی تھی۔ اس مقصد کے لیے حاجی شریف ہندوستان آئے اور شادی کر کے اپنے وطن لوٹ گئے تھے۔ میراں جی اپنے خاندانی مکان میں پیدا ہوئے تھے۔ وہاں وہ پیدائش کے بعد بائیس برس تک مقیم رہے اور پھر مدینہ منورہ منتقل ہوگئے۔ وہاں وہ بارہ سال تین ماہ پانچ دن گذارنے کے بعد ارشادِ نبوی کی تعمیل میں شاہ کمال الدین بیابانی سے اکتسابِ فیض کی خاطر ہندوستان روانہ ہوئے۔ ہندوستان پہنچ کر انھوں نے شاہ کمال بیابانی سے ملاقات کی اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور مقامی زبان سیکھی اور علاقائی معاشرت سے واقفیت حاصل کی۔ اکتسابِ فیض کے بعداپنے مرشد کی ہدایت پر بھنگار گئے اور وہاں شادی کی۔ شادی کے بعد دوبارہ اپنے مرشد کی خدمت میں پہنچے، جہاں انھیں حکم ملا کہ وہ بیجا پور جائیں اور وہاں قیام کریں۔ چنانچہ میراں جی علی عادل شاہ کے عہد میں بیجا پور پہنچے اور وہاں قیام کیا۔</p> <p>یہ خود نوشت اگرچہ بے حد مختصر ہے لیکن اپنے کل معنوی و نوعی مفہوم کی حامل ہے اور اسی لیے اپنی نوعیت اور زمانی تقدم کے لحاظ سے ہندوستان میں لکھی جانے والی اولین خود نوشت ہے۔</p> </section> </body>
0043.xml
<meta> <title>تدریسِ افسانہ: نیا تناظر </title> <author> <name>محمد کیو مرثی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 6</name> <year>2015</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/18_m_qyomarsi_bunyad_2015_.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>3798</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
تدریسِ افسانہ: نیا تناظر
3,798
Yes
<body> <section> <p>بنیادی طور پر ادب، انسان کے اندر کا حقیقی اظہار ہوتا ہے۔ ہر دور اور عہد کے ادب کا اپنا خاص ذائقہ اور رنگ رہا ہے۔ در اصل ہر ادب ایک مخصوص تصور حقیقت کے تابع ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں انسانوںکی زبان مختلف ہونے کی بناپر ادب کے بیان کی زبان بھی مختلف ہوتی ہے۔</p> <p>افسانوی ادب کی صنف نثر میں افسانہ، جدید دور کی ایک انتہائی مقبول ادبی صنف شمار ہوتی ہے۔ افسانہ در اصل ایک ایسے نظامِ کائنات اور بود و باش کا لفظی عکس ہے جو مختلف تصویروں کو مختلف زاویوں سے منعکس کرتا ہے اور اسی طرح زندگی کا ہر موضوع، افسانے کا موضوع بن سکتا ہے۔ جامعاتی سطح پر تدریسِ افسانہ کے تحت معلم یا مدرس کے تحقیقی، تنقیدی اور تخلیقی شعور و احساس کے ساتھ ساتھ مؤثر طریقۂ تدریس، وسیع مشاہدہ و مطالعہ اور تجرباتِ تدریس حد سے ضروری و اہم نکات ہیں۔ پاکستانی جامعات میں خاص طور پر تدریسِ افسانہ نئے تناظر کے حوالے سے کافی غور طلب، مناسب، مثبت اور قابلِ قدر موضوع ہے۔ حقیقت میں اردو افسانے نے اپنے دامن میں دوسری زبانوں کے افسانوں کے مقابلے میں ایک بڑی اور نئی تہذیب و ثقافت، نئے نئے تفکرات و خیالات اور مجموعی طور پر ایک عظیم اور معنی خیز دنیا کا ایک بیش بہا ذخیرہ و خزانہ چھپاکر رکھا ہے جن پر جتنے بھی علمی، تحقیقی و تنقیدی کام کیے جائیں، کم ہوں گے۔</p> <p>اٹھارویں صدی کے صنعتی انقلاب کے بعد مغرب کی فکری یلغار نے زندگی کے ہر شعبے میں رخنے ڈالنا شروع کیے۔ اس وقت نئے تصورات کی توسیع و ترویج کے لیے انجمن اشاعت مطالب مفیدہ پنجاب کا ادارہ سامنے آیا جس سے اردو ادب کو وسعت نصیب ہوئی اور ساتھ ہی نظام اقدار میں نمایاں تبدیلیاں دکھائی دیں۔ علامہ اقبال کے بعد اردو میں دو اہم تحریکیں نمودار ہوئیں۔ ترقی پسند تحریک اور حلقۂ ارباب ذوق کی تحریک۔</p> <p>ترقی پسندتحریک اردو ادب کی سب سے بڑی تحریک شمار ہوتی ہے۔ اس تحریک کی خوبی یہ تھی کہ اس نے اردو ادب کی تمام اضاف کو متأثر کیا اور ان پر زبردست اثرات ڈالے۔ چنانچہ ادبی اظہار و بیان میں کافی وسعتیں آئیںجوکہ پہلے موجود نہ تھیں۔ اردو افسانے نے ترقی پسند تحریک کے زیر سایہ جو ذہنی سفر طے کیا ہے اس سے نہ صرف راستے کے نشانات واضح ہوتے ہیں بلکہ یہ صورت حال بھی سامنے آتی ہے کہ سماجی عمل کے ذریعے ہی زندگی کو زیادہ بہتر شکلوں میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اس تحریک سے وابستہ افسانہ نگاروں نے حقیقت نگاری کا جو معیار قائم کیا تھا بعد کے لکھنے والوں نے نہ صرف اسے پیش نظر رکھا بلکہ حقیقت کی جہات میں توسیع بھی ہوئی ہے۔</p> <p>اس اہم رجحان کی تدریس کے سلسلے میں جامعاتی سطح پر معلّم کو کچھ مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔ پہلے یہ کہ افسانہ تدریس کرتے وقت اہم رجحانات خاص طور پر عہدساز افسانہ نگاروں کو مدنظر رکھے تا کہ یہ نظروں سے اوجھل و دور نہ ہوں۔ تنوع موضوعات سے قطع نظر ترقی پسند افسانہ نگاروں نے فن اور تکنیک کے اعتبار سے ایسے بھر پور افسانے لکھے ہیں جن کی مثال پوری دنیا کے ادب میں کم اور مشکل سے پائی جاتی ہے۔</p> <p>میرے خیال میں اردو افسانے کو ایک نہیں بلکہ چند امتیازات حاصل ہیں۔ اردو افسانے نے بر صغیر کی دوسری زبانوں کے مقابلے میں کیفیت اور کمیت دونوں اعتبار سے مختلف رجحانات میں زیادہ اور بہتر نمونے پیش کیے ہیں۔</p> <p>اردو افسانہ دنیا کی دوسری زبانوں کے مقابلے میں سیاسی، نفسیاتی، سماجیاتی، مثبت و منفی کرداری ارتقا، حقیقت نگاری، رومانویت اور دونوں کا امتزاج، خوش اسلوبی، زندگی کی حقیقی تفصیلات، علاقائی ثقافتی روایات، تخلیقی احساس، شعور کی رو، بیانیہ، تمثیل وتجرید و علامت اور بہت سارے معتبر موضوعات و خصوصیات کی بنا پر دنیاے افسانہ کی تاریخمیں روشن باب ہے اور انھی عناصر نے اردو افسانے کو نئی تاثیریت اور تہ داری کی حقیقت عطا کی ہے۔</p> <p>رجحانات و تحریکات کی تدریس، اردو افسانے میں از حد اہم معلوم ہوتی ہے۔ حقیقت نگاری ہو یا رومانیت، جدیدیت ہو یا روایت، تدریس تحریکات اس لیے اہم موضوع ہے چونکہ ان سے وابستہ افسانہ نگاروں کا تعین ہو جاتا ہے مثال کے طور پر اگر سعادت حسن منٹو کی تدریس کی بحث ہو یا عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی کی تدریس مقصود ہو یا خدیجہ مستورکی، تو اس سلسلے میں ہر عہد کے رجحانات افسانے کی تدریس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک رجحان بذات خود ایک عہد اور دور کی نمائندگی کرتا ہے اور بعض رجحانات نہ صرف اردو افسانے بلکہ تمام اصناف ادب کو متاثر کرتے ہیں۔</p> <p>انسان ایک سماجی ہستی ہے۔ وہ سماجی جمعیت یا سماجی فرد کی حیثیت ہی سے اپنی مادی اور روحانی ضروریات کی تسکین کے لیے تخلیق کرتا ہے۔ روحانی تخلیقی مظاہر میں سے ایک منفرد مظہر فن کا بھی ہے۔ ہر فن کا کوئی نہ کوئی ابتدائی حسی مواد ہوتا ہے جس کے ذریعے کسی معروض کے ذہنی انعکاس اور خود تخلیقی سلسلۂ عمل کی حسی تجسیم کی جاتی ہے۔ گویا تخلیقیت، انعکاس، حسن اور فن کاری کی وحدت کا نام ہے۔ ادب بھی اپنے محدود اصطلاحی معنی کے ساتھ فن کا ایک شعبہ ہے جس کا ابتدائی مواد ملفوظی زبان ہے۔</p> <p>اردو افسانے میں فطری انسان کی بازیافت ایک اہم موضوع ہے۔ فطری امنگوںاور اخلاقی قدروں کی پاسداری اور ان کی تحفظ کے موضوعات ایسے مسائل ہیں جنھیں ایک مدرس افسانہ کو، افسانہ پڑھاتے وقت، مدنظر رکھنا چاہیے۔</p> <p>تدریس رجحانات کے حوالے سے معلم ضرور ان نکات کو پیش نظر رکھتے ہوئے انھیں اہمیت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ تحریکات کی ابتدا و آغاز کی تدریس کرتے وقت، افسانے کے ہر رجحان میں بنیادی موضوعات، اساسی اور برجستہ عناصر، مقاصد و نصب العین اور منشور اہمیت کی حامل باتیں ہوتی ہیں۔</p> <p>ایک افسانہ نگار کے ہاں کئی رجحانات و میلانات بیک وقت موجود ہو سکتے ہیں جن پر دھیان رکھنا چاہیے۔ اردو افسانے میں ہر تحریک نے اسے بہت سارے تجربات سے نوازا ہے۔ ترقی پسند تحریک نے اردو افسانے کو موضوعات کی وسعت، اسلوب و تکنیک کے متنوع تجربات، اجتماعیت اور مقصدیت سے نوازا اور حقیقت نگاری نے اسے اتناپراثربنایا جس کے سبب سے اردو افسانہ اپنی تخلیق کے پچاس سالوں کے اندر عالمی افسانے کی برابری کا دعویدار بن گیا۔</p> <p>اس سلسلے میں محترم جناب پروفیسر وقار عظیم کاقول ہے:</p> <blockquote> <p>۱۹۳۶ئ سے ۱۹۴۷ئ کے وسط تک … موضوع اورفن دونوں کے اعتبار سے افسانے نے اس دس برس کی مدت میں اتنی ترقی کی کہ وہ مغرب کے اچھے سے اچھے افسانوں کا ہم پلہ نظر آنے لگا۔</p> </blockquote> <p>جدید افسانے کی تحریک میں اسلوب، موضوع فن و تکنیک کی سطح پر جو نئے نئے تجربات سامنے آئے ان سب نے اردو افسانوی ادب میں تنوع، کیفیت، وسعتاور گہرائی پیدا کی۔ افسانہ عین زندگی ہے اور زندگی بھی اپنی بہترین شکل اور اپنے پر رونق مفہوم میں ایک طویل یا ایک مختصر افسانے کے سوا کچھ نہیں۔ اردو افسانے کو مغرب بلکہ دنیا کے اہم افسانوں کا ہم پلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اردو افسانہ جو ان ہے اور اسی خصوصیت کی وجہ سے اس کی ساخت پر فنی و تکنیکی لحاظ سے نت نئے تنقیدی کام کافی حد تک ہو چکے ہیں اور ہو بھی رہے ہیں۔</p> <p>اردو افسانے کی تدریس کی بہتری کے لیے موجودہ صورت حال کے نئے تقاضوں کے پیش نظر جامعاتی سطح پر راقم کے خیال میں کچھ اصلاحات کی ضرورت ہے۔ حقیقت میں اگر مستقبل میں اردو افسانے کی نصاب سازی کا نصب العین، نئے تناظر کے حوالے سے مد نظررکھا جائے تو طلبا و طالبات کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ان کی ذہنی، فکری، تخلیقی و تنقیدی و تحقیقی صلاحیتوں اور شعور کو اجاگرکرنا اور بروے کا رلانا اور ان پر عمل کرنا یہ سب مدرس افسانہ کے توسط سے ممکن ہوگا۔ ایک اہم بات یہ کہ تقابلی ادب کی بحث اور اردو افسانے کی تدریس میں دوسری زبانوں سے اردو افسانوں کا تقابل کافی اہم و غور طلب موضوع ہے۔</p> <p>میرے علم میں اردو افسانوں کے تقابلی مطالعے کے سلسلے میں دوسری زبانوں کے ساتھ کام کم ہو چکے ہیں۔ جیسے کہ پہلے بھی کہا گیا کہ افسانہ دنیا کی ہر زبان میں ایک پسندیدہ بلکہ مقبول ترین صنف ادب کا درجہ پا چکا ہے۔</p> <p>تعلیم کے دوران پاکستان میں ہوتے ہوئے میں نے بچشم خود دیکھا ہے کہ پاکستانی طلبا و طالبات اپنے وجود میں کتنی ان گنت ذاتی صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ خصوصاً شاعری اور شعر کہنے و مشاعرے کی محافل منعقد کرنے اور ان کی قدرتی پوشیدہ خلاقیتوں و امکانات میں افسانہ و ناول لکھنے کی مہارتوں کاانمول خزانہ پایا جاتا ہے۔</p> <p>ملک کی مختلف جامعات کے بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی لیول کے نصاب میں مشہور افسانہ نگاروں کے افسانوی مجموعوں کے منتخب حصے شامل کیے جائیں خاص طور سے عہد اور رجحان ساز افسانہ نگاروں کے نمائندہ افسانوں کا دوسری زبانوں کے نمائندہ افسانوں سے تقابل و تقابلی مطالعہ کا کام شروع کیا جائے۔ </p> <p>اردو افسانہ بلاشبہ بیسویں صدی کے ادبی سرمائے کا ایک اہم حصہ ہے۔ افسانے کی فنی مبادیات اور عناصر ترکیبی و اجزا کی مناسب و معیاری تدریس کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔</p> <p>افسانوں کا تعلق واقعی، فرضی یا خیالی (ریلیزم، سور ریلیزم اور رومانوی) دنیا ہی سے بھی ہو تو اردو زبان کی ادبی تاریخ میں انھیں خاصی اہمیت حاصل ہے اور اسی موضوع کے پیشِ نظر افسانوں کا مطالعہ اور ان کی تدریس، افادیت کا حاصل موضوع بنتا ہے۔</p> <p>ڈاکٹر فوزیہ اسلم افسانے کے اسلوب و تکنیک کے حوالے سے یوں کہتی ہیں:</p> <blockquote> <p>اردو افسانے کے تمام تر سفر کااسلوب اور تکنیک کے تجربات کا تفصیلی، تحقیقی و تنقیدی جائزہ لینا بے حد ضروری کام تھا۔ اردو افسانے کی تاریخ کے ساتھ بتدریج ہونے والی ہیئتی، اسلوبیاتی یا تکنیکی تبدیلیوں کا مطالعہ، جدیدیت کے دور میں بحث مباحثے میں اکثر جذباتیت و ہنگامی رویے اور ان تبدیلیوں کا بعد کے افسانہ نگاروں پر اثرات کے امکانات کی نشاندہی، اسلوب کے تجربے کے پس منظر میں انفرادی شخصیت کی نفسیات، مجموعی معاشرتی و ثقافتی فضا، زبان و بیان سے آگاہی اور دیگر کئی عناصر خصوصاً ہر عہد میں بے شمار افسانہ نگاروں کے ہاں اسلوب و تکنیک کا امتیاز و انفرادیت اور دوسری طرف ادبی، معاشرتی و سیاسی فضا اور رویے جو ہر عہد میں اردو ادب کی شناخت کے بدلنے کا باعث بنتے تھے، در اصل ایسے موضوعات ہیں جن میں اردو افسانے کے تدریجی ارتقا کے ساتھ، سو برس میں اردو افسانے کے جائزہ لینے کے کام کو یقینا ضروری بنا دیتے تھے۔</p> </blockquote> <p>اس بیان سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ افسانے ہر عہد کے سماج کے افراد کی خواہشات کی عکاسی کرتے ہیں۔</p> <p>ایک اہم بات جو اس بیان سے سامنے آتی ہے یہ ہے کہ معلم افسانہ، تدریس کے وقت، ہر دور اور عہد کے افسانہ نگاروں کے اسالیب و تجربات و تکنیک پر نمایاں روشنی ڈالتے ہوئے طالب علموں کی دلچسپی بڑھائیں۔ نیز افسانے کی تدریس کے دوران افسانے کے بارے میں اپنے تاثرات کھل کر بیان کر دیں تا کہ اس طرح جامعاتی سطح پر تاثرات کے بیان کی روایت کو تقویت مل جائے اور طلبا کو اس سلسلے میں سوالات پوچھنے کے موقع بھی فراہم کیے جائیں۔</p> <p>افسانہ، ناول اور داستان کا تعلق افسانوی نثر سے ہے اور ان میں مشترک بات یہ ہے کہ ان سب میں کسی نہ کسی طرح کوئی قصہ ہی بیان کیا جاتا ہے۔ ان اصناف میں سے اگر افسانہ اور ناول کے اسالیب، موضوعات و تکنیک کو طلبا کے لیے بہتر طور پر تدریس کرنا چاہیں تو اس کے لیے داستانوں کا بھی مطالعہ کرنا پڑتا ہے چونکہ افسانہ و ناول در اصل داستان ہی کی ارتقائی شکلیں ہیں۔ داستانیں بھی مختلف زمانوں کے تمدن و معاشرت کا آئینہ ہیں۔ جامعات کی سطح پر معلم کو افسانے کی تدریس کرتے ہوئے داستانوں کا حوالہ دینا بہت ضروری معلوم ہوتا ہے اور وہ پس منظری مطالعہ کے طور سے خصوصی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں اورخصوصاً طلبا کا علم داستانوں اور افسانوں کی اعلی اخلاقی اوراصلاحی اقدار کے بارے میں بڑھتا ہے۔</p> <p>ایک اہم بات یہ کہ ادب کی تدریس میکانکی عمل نہیں ہوتا بلکہ یہ تو تخلیق کار کے تجربے میں معنوی شرکت اور فکری اتصال سے وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ جس تخلیقی تجربے سے تخلیق کار گذرتا ہے اسی تجربے کی بازیافت، معلم اپنے تدریسی تجربے و عمل کے دوران میں سرانجام دیتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معلم کا تجرباتی آہنگ تدریس کے فن کی جمالیات کے ساتھ وابستہ ہو تاکہ اس میں تخلیقی رنگ آشکار و نمایاں ہو سکیں۔</p> <p>اردو افسانے کی تدریس کے لیے ماہر معلموں کی ضرورت ہے۔ ادب کی اس صنف کو پڑھانے کی خاطر اور اس کی تفہیم و تعبیر کے لیے کچھ اور تدریسی اصول و ضوابط بھی وضع کرنے ہوں گے جن کے تناظر میں تدریس افسانہ با معنی اور خوش رنگ بھی ہو جائے۔ پاکستان بھر کی جامعات میں صنف افسانے کی تدریس کو مفید بنانے کی خاطر، مشہور اور نامور شخصیات اور ان کے اہم افسانے بطور ایک لازمی مضمون کتابی شکل میں بنا کر مختلف سطحوں پر نصاب میں شامل کیا جائے اور اس کے ساتھ ہی متعدد ورکشاپیں منعقد کی جائیں تا کہ یہ تدریس ماہر و بزرگ اساتذہ کے توسط سے نظری سے زیادہ عملی پہلو اختیار کر جائے۔</p> <p>افسانے کی تدریس کی حالت پاکستان کی جامعات میں موجودہ صورت حال میں ناگفتہ بہ نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں معتبر علمی و تنقیدی و تحقیقی کتابیں روز بروز شائع ہو رہی ہیں۔ لیکن اگر ایک نئی فکری جہت ماہرین افسانہ کو میسر ہو سکے اور تدریس کی موجودہ صورت حال کی اصلاح کے لیے ایک زبردست تحریک چلائی جائے جس کا مقصد تدریسی مسائل کو دور کرنا ہو، تو اس سے نہ صرف مستقبل میں اساتذہ کرام و طلباو طالبات کوفائدہ پہنچے گا بلکہ ہم نئے عہد کے تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی شعوری کوشش بھی کریں گے۔</p> <p>جامعاتی سطح پرتدریس افسانہ کے عالمی تناظر میں اس کی ترقی، پیشرفت اور بہتری کے لیے ایک طریقہ کار یہ ہوگا کہ ملک سے باہر جو معتبر افسانہ نویس اور ان کے ساتھ علمی و ادبی سطح پر جو ناشر موجود ہیں، انھی کے ذریعے افسانوں کے مجموعے شائع کیے جائیں تا کہ عالمی سطح پر محتلف جامعات کے اساتذہ تک یہ کام پھیل جائے۔ ایسے کاموں کے اثرات بڑے زبردست و مؤثر ہوں گے اور افسانوی ادب کے سلسلے میںگلوبلائزیشن کی طرف جائیں گے۔ جامعاتی سطح پر پاکستان کی علاقائی زبانوں کے افسانوں پر بھی تحقیقی مقالے اور کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں محققین نے علاقائی زبانوں کے افسانے کی ابتدا و ارتقا اور موضوعی و فنی اعتبار سے مقدار و معیار کا جائزہ لیا ہوا ہے۔</p> <p>اس موضوع کے پیش نظر قومی نصاب برائے تدریس اردو ادب کے لیے تدریس افسانے کے حصّے میں وفاقی وزارت تعلیم کل پاکستان کی جامعات میں علاقائی و مقامی افسانے کے تدریسی پروگرام کو بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی کی سطح کے کورس میں شامل کریں تا کہ بنیادی طور پر اردو افسانے کے ساتھ دوسری علاقائی و مقامی زبانوں کے افسانوں کا میدان بھی تخصیصی ہو اورایسے علاقائی افسانہ نگاروں اور ان کے افسانوںکے مزاج اور رفتار کے تنقیدی مطالعے پیش کیے جائیں اور ساتھ ہی مختلف نقاد ان افسانہ نویسوں کے کام و مقام کا تعین کرتے ہوئے وقت، عہد اور حالات کے تناظر میں ان پر تنقیدی کام کو آگے بڑھائیں اور ایسا کام قومی زبان اور پاکستان کی دوسری علاقائی زبانوں کے تحقیقی و تنقیدی ادب میں ایک خوبصورت اضافہ و اساسی حوالہ بنتا ہے۔</p> <p>علاقائی زبانوں کے افسانہ نگاروں کی تحقیقی کاوشوں اور ان کی تنقیدی صلاحیتوں سے استفادہ کر کے اردو زبان میں بھی ان کا جائزہ لیا جا سکتا ہے اوریوں اردو زبان کے افسانوی ادب کے میدان کے امکانات و تجربات یقینا وسیع تر ہوں گے۔</p> <p>اس سلسلے میں مثال کے طور پر پشتو افسانے کے بارے میں اب تک بہت سارے دانشور اور ماہرین افسانہ نے قلم اٹھایا ہے اورپشتو افسانے کے تہذیبی مزاج، نفسیاتی ماحول، روایاتی اقدار و طبقاتی امتیازات اور اس کے ارتقائی مراحل کی عکاسی کی ہے جن سے اہل فکر و نظر کو ان کے پڑھنے و سمجھنے سے بہت کچھ مل سکتا ہے۔</p> <p>جامعاتی سطح پر تدریس افسانہ کے عمل کو معیاری و اصولی بنانے کے لیے، جو عالمی سطح پر بھی نئے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ایک تجویز یہ ہو گی کہ افسانوں کے اردو تراجم پر کافی توجہ دی جائے۔ ترجمے کا فن ایسا فن ہے جس کے توسط سے ایک زبان کے خیالات و تصورات کو دوسری زبان کا جامہ پہنا یا جا سکتا ہے۔ ترجمہ حشو و زوائد سے پاک ہونا چاہیے اور اصل عبارت کی زندہ تصویر ہونی چاہیے۔ جہاں تک اردو افسانے اور اس کی تدریس کا تعلق ہے تو اس میں ایک بڑا حصہ تراجم کا ہے۔</p> <p>مترجمین کو دنیا کی دوسری زبانوں خصوصاً فارسی، ترکی، عربی، انگریزی، روسی، جرمنی، فرنچ و غیرہ سے کئی ایک منتخب افسانوں کا انتخاب کر کے انھیں اردو میں ترجمہ کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی باہر کی دنیا کو اردو افسانوں سے بھی متعارف و روشناس کرائیں۔</p> <p>یہ کام تہران یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو زبان و ادب کے تحت شروع ہو رہا ہے اور خصوصاً تدریس افسانے سے مربوط نصاب کے حصّے میں شامل ہے اور اساتذہ کرام کی زیر نگرانی ایم اے اردو کے کورس میںتحقیقی مقالے لکھواتے ہوئے اور ذاتی طور پر بھی انجام دیا جاتا ہے۔ تدریس اردوو فارسی افسانوں کا تجزیاتی و تقابلی مطالعہ حد سے اہم موضوع شمار ہوتا ہے۔ اس کام کی بڑی ضرورت ہے چونکہ اس پر کام بہت کم ہوا ہے اور یہ بڑے وسیع پیمانے پر بھی ہونا چاہیے اور ان میں جو اہم مشترکہ رجحانات و تحریکات پائی جاتی ہیں، ان کا جائزہ لینے کے بعد کتابی شکل میں شائع کیا جائے۔</p> <p>موجودہ طریق تدریس کے مسائل اور نصاب اردو ادب کی تشکیل نو کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اردو افسانوں کے دوسری زبانوں میںتراجم و بالعکس اوراردو افسانوں کا دوسری زبانوں کے افسانوں سے تقابل و تجزیاتی مطالعہ مفید، مناسب اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے۔</p> <p>اس بات سے غافل نہ رہیں کہ ادب اور اس کی اصناف کی تنقید اور ادب کے ہر شعبے پر تنقیدی نگاہ ڈالنا ایک منفرد موضوع کا نہایت عالمانہ تجربہ ہے۔ اس بارے میں ایک فاضل و عالم دانشور کا قول ہے:</p> <blockquote> <p>ہر زبان کے ادب میں اس مخصوص قوم کی تہذیب و ثقافت، سیاسی، سماجی حالات اور قومی مزاج کے عناصر بھی نمایاں ہوتے ہیں جس سے وہ ادب اپنی ایک الگ قومی شناخت بناتا ہے۔ اسی لیے ہم بعض اوقات ایک ہی زبان میں لکھے گئے مختلف ملکوں کے ادب کو الگ الگ شناخت کر لیتے ہیں۔</p> </blockquote> <p>بہتر تدریس افسانہ کے اصول کے سلسلے میں موجودہ صورت حال کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے چند تحقیقی امور کی طرف اشارہ کرنا مناسب ہوگا، جن کا انجام دینا ضروری لگتا ہے۔ معلمین و ماہرین افسانہ کی طرف سے اردو کے معیاری، تکنیکی اور نمائندہ افسانے اور تدریسی اسباق کو کتابی شکل میں بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے خصوصاً <annotation lang="en">(e-book)</annotation> یا برقیاتی کتابوں کا بھی اس سلسلے میں حوالہ دیا جا سکتا ہے جو اردو افسانے کے طالب علم کو ایک نئی و جدید دنیا سے متعارف کرتی ہیں۔ انھیں نصاب میں شامل کرنا طالب علموں کی ضروریات کو پوری کرنے میںمعاون ثابت ہو سکتا ہے اور اس کام سے تدریس کی موجودہ صورت حال کی بہتری کے لیے کافی معلومات بہم پہنچائی جا سکتی ہیں۔</p> <p>اعلیٰ سطح پر تدریس افسانے کے نصاب میں فکشن کی اصطلاحات (اصطلاح سازی)، ڈکشنر یاں، تراجم و ترجمہ کاری، تدریسیات کے جدید اصول، قومی اور عالمی تقابلی افسانوں کا تعارف اور واضح انداز میں انھیں اجاگر کرنا اور ان کی کمی کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنا ایک اساسی سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر چہ یہ میدان کافی وسیع دکھائی دیتا ہے لیکن ماہرین افسانہ ان کے نفاذ کے امکانات کا جائزہ لیں گے۔</p> <p>جس طرح اردو ادب کی مختلف اصناف کی نصابی ضروریات بدلتی رہتی ہیں، اسی طرح اردو افسانہ اور اس کے تدریسی قوانین اس کی زد سے بچ نہیں سکتے۔ مؤ ثرتدریس کے حوالے سے اور ماہرانہ سطح پر اساتذہ کے توسط سے تخصص کے حامل طلبا کے لیے تحقیقی و تدریسی کورسوں کا اجرا عارضی طور پر جامعات میں ملحوظ رکھیں تا کہ وہ تربیتی سطح پر بھی اردو افسانوں کی دنیا کو بہترطور پر پہچان سکیں۔</p> <p>عالمی تناظر میں تدریس افسانہ کے پیش نظر نئی اقوام کے ادب کا مطالعہ ایک اہم و بنیادی موضوع شمار ہوتا ہے جس کے تحت دنیا کی مختلف اقوام کے داستانوی ادب میں افسانے اور ناولوں کا مطالعہ کروایا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک اور مغرب کی ادبی اقسام اور زبانی ادبی روایات کے ساتھ ادبی اسلوب، مقامی و غیر مقامی زبانوں کے معاملات کو زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔</p> <p>عالمگیریت کے اس دور میں محققین ادب، سرکاری و غیرسرکاری تعلیمی اداروں اور جامعات میں تقابلی ادب کے سلسلے میں جن سیاسی اجزا کا مفصل جائزہ لیا جا سکتا ہے، اس میں اعلیٰ سطحی سیاست، دانشوروں کی جلا وطنی، طبقاتی و نسلی سیاست اور جنسیات کا بھی معاشرتی اقدارکے ساتھ مطالعہ کیا جائے۔</p> <p>بیسویں صدی میں اردو ادب کی صنف افسانے میں بہت سی خواتین افسانہ نگار موجود ہیں جن میں سے اکثر نے بنیادی و معیاری افسانے لکھے ہیں اور عالمی سطح پر ان کے افسانوں کے موضوعات کو مختلف زاویوں سے پڑھایا جا سکتا ہے اور دنیا کی دوسری زبانوں کی اہم خواتین افسانہ نگاروں کے افسانوں سے ان کے افسانوں کا تقابل بھی کیا جانا چاہیے۔</p> <p>ایک پاکستانی دانشور کے خیال میں:</p> <blockquote> <p>تعلیمی اداروں کو ہمارے معاشرے کے دماغ کی حیثیت حاصل ہے۔ اس سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ترقی یافتہ ممالک کی جامعات اور کالچر کے نصابات پر نظر ڈالی جائے تو بنیادی نقص جس میں ادب پڑھنے والوں کی تعداد کم کی ہے، دھند لکے سے نکل کر یوں واضح ہوتاگیا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ادب سے وابستہ تعلیمی ادارے، محققین و ادب دوستوں اور تخلیق کاروں کو پریشان کیے بغیر مختلف زمانی طبقوں کے موضوعات اور قاری ذہن میں رکھتے ہوئے اس کی ضرورت کے اعتبار سے اسے مواد پہنچا رہے ہیں اور ایسا مواد تیار کرنے والوں کی خوب ہمت افزائی بھی کر رہے ہیں۔ اس لیے ادب و ادیب کو آج بھی <annotation lang="en">Leading Roll</annotation> والی حیثیت حاصل ہے۔ اس سلسلے میں کہنے کی بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی جامعات میں ادب کے مضمون سے وابستہ تمام نصابات کے مطالعے کے بعد ادب کو نئے انداز میں پڑھائے جانے والے مختلف کورسز کا تعارف پیش کیا جانا چاہیے۔</p> </blockquote> <p>ہماری جامعات و تعلیمی اداروں میں ادب کو روایتی انداز کے ساتھ باقاعدہ تقابلی انداز میں پڑھانے کی ضرورت ہے۔</p> <p>تدریس افسانہ کی بہتری کے لیے موجودہ صورت حال کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ معلم افسانہ تدریس کرتے ہوئے اپنے طلبا سے تنقیدی و تحقیقی کام طلب کریں اور ساتھ ہی تجزیاتی عمل بھی درکار ہوگا۔ اس کام کے خاص نمبر یا امتیازات ہوں گے اور معلم طالب علم کی تنقیدی بصیرت و شعور کے مختلف زاویوں سے واقف ہوگا۔</p> </section> </body>
0044.xml
<meta> <title>موت کا زندگی سے مکالمہ: بلراج مین را کا افسانہ</title> <author> <name>ناصر عباس نیر</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>Bunyad, Volume 6</name> <year>2015</year> <city>Lahore</city> <link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/14_nasir_abbas_nayar_bunyad_2015_.pdf</link> <copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder> </publication> <num-words>13546</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
موت کا زندگی سے مکالمہ: بلراج مین را کا افسانہ
13,546
Yes
<body> <section> <p>انتظار حسین نے ایک جگہ بلراج مین را کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے:</p> <blockquote> <p>میرے عزیز میرے حریف نئے افسانہ نگار بلراج مین را، نیا افسانہ تمھیں مبارک ہو۔</p> </blockquote> <p>اس ایک جملے میں بلراج مین را کے افسانے پر ایک طرف طنز ہے تو دوسری طرف جدید افسانے کی متنا قضانہ صورتِ حال کی طرف اشارہ بھی موجود ہے۔ طنز کی وجہ اسی خط نما مضمون میںموجود ہے، جس میںباقر مہدی کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ:</p> <blockquote> <p>انتظار حسین کی داستان یاکتھا علامتی اور تجریدی افسانے کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔</p> </blockquote> <p>گویا انتظار حسین کے ’داستانوی افسانے‘ کی شعریات اور ’جدید افسانے‘ کی شعریات ایک دوسرے کی نقیض و حریف ہیں۔ انتظار حسین نے طنزاً بلراج مین را کو اپنا حریف کہا ہے ؛ایک ایسا حریف جو افسانوی کردار وں کی تعمیر اور افسانوی علامتوں کی تشکیل کے لیے اپنے عصر اور روزمرہ زندگی کی طرف رجوع کرتا ہے۔ انتظار حسین نے بظاہر جدید افسانے کے اس تصورسے دست برداری کا اعلان کیا ہے، اور خود کو گیارھویں صدی کے سوم دیو (کتھا سرت ساگر کے مصنف) کا معاصر کہا ہے۔ مگر کیا واقعی انتظار حسین اور بلراج مین را ایک دوسرے کی نفی کرنے والے حریف ہیں ؟ہماری رائے میں نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید اردو افسانے کی صورتِ حال متناقض یعنی <annotation lang="en">paradoxical</annotation> ضرورہے، اور اس کی وجہ سے جدید افسانے کی شعریات کو اپنے امکانات ظاہر کرنے کا موقع ملا ہے۔ (یہ بات کوئی پچاس برس پہلے کہی گئی تھی۔ اگرچہ اب جدید افسانے کے بنیاد گزاروں میں انتظارحسین، بلراج مین را (اور انورسجاد، سریندرپرکاش) کے نام ایک ساتھ لیے جاتے ہیں، مگریہ نکتہ اب بھی بحث طلب ہے کہ آخر کیا چیز انتظار حسین کے داستانوی اور مین را کے علامتی افسانے میں مشترک ہے)۔ قصہ یہ ہے کہ ہم چیزوں کو جدلیاتی انداز میں سمجھنے کے کچھ زیادہ ہی عادی ہیں۔ ہم ایک شے کے امتیاز کو کسی دوسری شے کے امتیاز کے لیے چیلنج (اور بعض صورتوں میں خطرہ) سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ ہم آگے چل کر دیکھیں گے، جدید افسانہ روزمرہ کی جدلیاتی فکر ہی کو معرضِ سوال میں لے آتا ہے۔ مثلاًبلراج مین را کے یہاں سیاہی، موت، الم، تنہائی چیلنج یا خطرہ نہیں ہیںروشنی، زندگی، خوشی، ہجوم کے لیے؛یہ تضادات ایک ہی وقت میں، ایک جگہ موجود ہو سکتے ہیں؛سیاہی میںروشنی یا زندگی میں موت شامل ہو سکتی ہے۔ پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ جدید افسانے کی شعریات، جدلیاتی <annotation lang="en"> (dialectical) </annotation> فکر سے زیادہ مکالماتی <annotation lang="en"> (dialogical) </annotation> فکرکی حامل نظر آتی ہے؛یعنی وہ تضادات وتناقضات کی موجودگی سے انکار نہیں کرتی، مگر متضاد عناصر کے باہمی رشتوں سے متعلق تصورات کا ’تنقیدی جائزہ‘ ضرورلیتی ہے۔ جدید شعریات یہ سوال قائم کرتی ہے کہ کیا متضاد عناصر میں محض تصادم، یاایک دوسرے کی نفی وبے دخلی سے عبارت رشتہ ہی قائم کیا جاسکتا ہے، یا ان میں مکالمہ بھی ممکن ہے ؟کیا موت صرف زندگی کو خاموش کرا سکتی ہے، یا زندگی موت سے مکالمہ بھی کر سکتی ہے؟ نیزجدید افسانے کی شعریات اس نظامِ مراتب پر سوالیہ نشان لگاتی ہے، جس کے مطابق انسانی ہستی سے متعلق بیانیوں میں ’سیاہی، موت، الم‘ کو ’روشنی، زندگی اور مسرت‘ پر مطلقاً برتری حاصل ہے؛یہ برتری ایک ایسی علامتی فضیلت ہے، جو ’سیاہی، موت اور الم‘ کو ’روشنی، زندگی اورمسرت‘ کے مقابل خاموش رہنے کی تعلیم دیتی ہے۔ جدید ادب نے اس نظامِ مراتب کو ایک ایسی ’مابعد الطبیعیاتی تشکیل‘ سمجھا ہے، جو حقیقی، روزمرہ زندگی سے انسان کے زندہ، حسی ربط کو محال بنادیتی ہے۔ جدید افسانہ (اور خصوصاً بلراج مین را کا افسانہ) سیاہی، موت اور الم کی خاموشی کو زبان دیتا ہے؛انھیں زندگی کے بیانیے میں مرکزی اہمیت دیتا ہے۔ تاہم واضح رہے کہ مذکورہ عناصر مین را کے افسانوں میں مرکزی حیثیت حاصل کرنے کے باوجود کسی نئی مابعد الطبیعیات کو وجود میں لاتے محسوس نہیں ہوتے۔ کہنے کا مقصود یہ ہے کہ مین را سیاہی وموت سے روشنی و زندگی کے مکالمے کا اہتمام تو کرتے ہیں، کسی ایک کی فضیلت کے نام پر دوسرے پر خاموشی مسلط نہیں کرتے۔</p> <p>ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ انتظارحسین اور بلراج مین راکے افسانے ایک ہی شعریات سے متعلق ہیں۔ جدید افسانے کی شعریات میں تناقضات ہیں، جو سطحی نظر میں ایک دوسرے کو ردّ کرتے محسوس ہوتے ہیں، مگر حقیقت میں جدید افسانے کی ’پیچیدہ، تہ دارسچائی‘ کا اثبات کرتے ہیں۔ انتظار حسین کا افسانہ داستانوں، کتھائوں، سامی و ہندوستانی اساطیر کی طرف رجوع کرتا ہے، اور بلراج مین را کا افسانہ بیسویں صدی کی ساٹھ و ستر کی دہائی کے دہلی کے شہری تمدن (اور ضمناً پنجاب کی دیہی معاشرت) سے متعلق ہے۔ یوں بظاہر ایک کا رخ ماضی کی طرف اور دوسرے کی سمت اس معاصر زندگی کی طرف ہے، جسے افسانہ نگار اور اس کے ہم عصر جی رہے، اور بھگت رہے ہیں۔ نیز انتظار حسین نے ہجرت کا دکھ سہا، مین را نے نہیں۔ یہ ایک جائز سوال ہے کہ اس سب کے ہوتے ہوئے دونوں کے افسانے، ایک ہی شعریات سے کیسے متعلق ہو سکتے ہیں؟ قصہ یہ ہے کہ دونوں حقیقت نگاری کو افسانے کے ایک اسلوب کے طور پر کہیں کہیں بروے کار لائے ہیں، مگر بنیادی طور پر وہ اپنے زمانے کی ’تہ دار، پیچیدہ سچائی‘ کی ترجمانی کے لیے ’سررئیلی، جادوئی حقیقت نگاری‘، علامت اورانہونی یعنی <annotation lang="en">uncanny</annotation> سے کام لیتے ہیں۔ جدید افسانے کی بنیادی پہچان ہی سماجی و اشتراکی حقیقت نگاری کے تصور سے بیزاری میں ہے۔ (یہاں سماجی و اشتراکی حقیقت نگاری کا ایک باریک فرق بھی نظر میں رہنا چاہیے: اشتراکی حقیقت نگاری میں طبقاتی کش مکش کو اشتراکی آئیڈیالوجی کی روشنی میںنمایاں کیا جاتا ہے، جب کہ سماجی حقیقت نگاری میں سماجی صورتِ حال کی عکاسی کسی خاص نظریے کے بغیر کی جاتی ہے)۔ سماجی و اشتراکی حقیقت نگاری ’باہر‘ کی ٹھیک ٹھیک عکاسی کرتی ہے، اس لیے کہ اس کی نظر میں حقیقت وہی ہے جو ’باہر‘ موجود ہے ؛تخلیق کار حقیقت خلق نہیں کرتا؛وہ موجود حقیقت کا ادراک کرتا ہے اور اسے فنی اہتمام (جس میں ایک طرف ابتدا، وسط اور انجام سے عبارت پلاٹ شامل ہے، تو دوسری طرف حقیقت کے ساتھ وفاداری کی غرض سے مانوس زبان کا استعمال شامل ہے) کے ساتھ کہانی میںمنعکس کر دیتا ہے۔ یوں حقیقت نگاری کی روایت میں لکھے گئے فکشن کے لیے ’باہر‘ حکم کا درجہ رکھتا ہے؛اور اس ’باہر‘ کی دنیا کے کنارے، حاشیے، مرکز سب متعین و واضح ہوتے ہیں۔ جب کہ ’سررئیلی، جادوئی حقیقت نگاری‘ بیک وقت ’باہر‘ اور ’اندر‘ کی دنیائوں سے متعلق ہے۔ یہی نہیں، ’باہر‘ اور ’اندر‘ کی سرحدیں پگھلی ہوئی حالت میں ہوتی ہیں۔ حقیقت و فکشن، معروضیت و موضوعیت، واقعہ و فنتاسی، سماجی و نفسی دنیا، تجسیم و تجریدکی تفریق تحلیل ہوتی محسوس ہوتی ہے؛روشنی میں سایہ، سیاہی میں اجالا، الم میں مسرت، خواب میں بیداری، اورفردکی سماجی زندگی میں داخلی تنہائی کچھ اس طور باہم آمیز ہوتی ہیں کہ انھیں الگ الگ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ جدید افسانے کے لیے حکم ’باہر‘ اور ’اندر‘ نہیں ہوتے، (انتظار حسین کے ضمن میں ’ماضی‘ اور ’حال‘ کا اضافہ کر لیجیے) بلکہ ان دونوں کی تفریق اور درجہ بندی کی تحلیل سے رونما ہونے والی ’نئی حقیقت‘ ہوتی ہے۔ یہ نئی حقیقت جدید فکشن کی تخلیق کے دوران ہی میں خلق ہوتی ہے؛یوں جدید افسانہ اپنی بہترین صورت میںکسی نفسی واردات کا بیانیہ ہے، نہ کسی خواب نما بیداری کا قصہ ہے، نہ کسی واقعے و حادثے کا بیانیہ۔ جدید افسانہ (یعنی مین راکا افسانہ) حقیقت خلق کرنے کے شعور یعنی ’خود شعوریت‘ کا حامل ہوتا ہے۔ مین را نے کمپوزیشن کے عنوان سے جو آٹھ افسانے لکھے ہیں، وہ اس امر کی اہم مثال ہیں۔</p> <p>بلراج مین را نے اپنے افسانوں کو کمپوزیشن کا عنوان کیوں دیا؟ہم اس سوال کے جواب میں مین را کی افسانوی دنیا کے کچھ اسرار تلاش کر سکتے ہیں۔ کمپوزیشن کا لفظی مطلب ’وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے اجزا کی تنظیم کی جاتی ہے‘۔ چونکہ مصوری، مجسمہ سازی، فلم، موسیقی، شاعری میں اجزا کو منظم کرنے کا عمل ہوتا ہے، لہٰذا ان کے سلسلے میں کمپوزیشن کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ فکشن کے لیے کمپوزیشن کا لفظ شاید ہی استعمال کیا گیا ہو۔ کہانی کہی یا لکھی جاتی ہے، نظم یا دھن کمپوز کی جاتی ہے۔ مین را نے اگر اپنے چند افسانوں کے لیے کمپوزیشن کا لفظ استعمال کیا ہے تو اس کے دو سبب نظر آتے ہیں۔ وہ یہ بات باور کرانا چاہتے ہیں کہ ان کی نظر میں [جدید، یا ان کا اپنا] افسانہ آرٹ کی وہ خصوصیات رکھتا ہے، جو مصوری، موسیقی یا فلم سے مخصوص ہیں۔ وہ اپنے متعدد افسانوں میں نظم کی طرح ہی، ایک قسم کا آہنگ وجود میں لاتے ہیں۔ تاہم یہ آہنگ شعری آہنگ نہیں، بیانیہ آہنگ ہے؛اسے کردار، واقعے، صورتِ حال، منظر نامے کے بیان کے عمل کی مدد سے ابھارا گیا ہے۔ اسی طرح وہ بصری آرٹ کی کچھ تیکنیکوںکو کام میں لاتے ہیں۔ بصری آرٹ میں رنگ، ان کے شیڈ، خطوط، دائرے استعمال ہوتے ہیں، مین را رنگوں، خطوط، دائروں کا کام لفظوں سے لیتے ہیں۔ یہ بات کہنا آسان، مگر اس پر عمل کرنا آسان نہیں۔ اس کے لیے صرف زبان کے استعاراتی وعلامتی استعمال کا سلیقہ کافی نہیں، بلکہ تحریر کی زبان کی متعدد رسمیات (جیسے اوقاف) کو غیر معمولی ہنر مندی سے کام میں لانا پڑتا ہے۔ مین را نے اس ضمن میں کئی تجربے کیے ہیں۔ وقفے، قوسین، خط، سوالیہ نشان، نقطے وغیرہ سے بصری تاثرات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ نیز فلم کی زوم ان اور زوم آئوٹ کی تیکنیک (”کمپوزیشن پانچ“ میں) سے کام لیا ہے۔ انھوں نے پڑھنے کو دیکھنے اوربیان کو مشاہدے میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ واضح رہے کہ یہ ایک فن کی تیکنیک کو دوسرے فن کے لیے مستعار لینے کا محض اختراعی عمل نہیںہے۔ پڑھنا جب دیکھنے میں بدلتا ہے تو پڑھنے کا عمل ختم نہیں ہوتا، اور ہم فقط دیکھنے کی حیرت میں گرفتار نہیں ہوتے، بلکہ پڑھنے کے ذریعے ایک نئی طرح کی تفہیم اور ایک انوکھا، عجب تاثرحاصل کرتے ہیں۔ جدید اردو افسانے میں یہ ایک نئی انہونی یا <annotation lang="en">uncanny</annotation> ہے جسے مین را نے متعارف کروایا۔ کمپوزیشن کے ذریعے مین را جس دوسری بات پر زوردینا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ان کا افسانہ ایک فنی، جمالیاتی تشکیل ہے، جس کے لیے زبان کے استعمال اور ہیئت کی تعمیر کے نئے تجربے کیے گئے ہیں۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ افسانہ ایک جمالیاتی تشکیل ہی ہے، پھر اس پر اصرار کی کیا ضرورت ہے؟ اصل یہ ہے کہ کمپوزیشن کے مفہوم میںہیئت ؍فارم، تشکیل، ڈیزائن وغیرہ شامل ہیں، موضوع شامل نہیں۔ (البتہ جب کمپوزیشن وجود میں آجاتی ہے تو خود بخود موضوع بھی ظاہر ہو جاتا ہے)۔ تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ مین را افسانے میں ہیئت ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیںیاہیئت کے مقابلے میںمواد و موضوع کو ثانوی اہمیت دیتے ہیں؟ کیا وہ ہیئت پسندوں میں شامل ہیں ؟اس ضمن میں عرض ہے کہ ہیئت پسندی بھی کوئی گالی نہیں۔ اگر ہیئت پسندی سے یہ مراد لیا جائے کہ ہر موضوع کے لیے ایک خاص ہیئت درکار ہے، اور ہیئت خود موضوع کی تشکیل اور ترسیل میں حصہ لیتی ہے تو مین را کو آپ ہیئت پسند کہہ سکتے ہیں۔ حقیقت نگاری کی روایت میں لکھے گئے ان کے چند افسانوں (جیسے ”بھاگوتی“، ”دھن پتی“، ”آتما رام“، ”جسم کے جنگل میں ہر لمحہ قیامت ہے مجھے“) کو چھوڑ کر باقی افسانوں میں سے ہر ایک کی اپنی مخصوص ہیئت ہے ؛یہاں تک کہ کمپوزیشن کی سیریز میں لکھا گیا ہر افسانہ اپنی الگ ہیئت رکھتا ہے۔ ”کمپوزیشن دسمبر ۶۴“ اور ”تہ در تہ“ میں نئی ہیئت کی تلاش اپنی انتہا کو پہنچی محسوس ہوتی ہے؛ ان میں فاصلے، خطوط، آڑی ترچھی لکیروں سے کام لیا گیا ہے، تیز اور ہلکے رنگوں کی طرح لفظوں کو چھوٹے بڑے سائز میں لکھنے کی تیکنیک کا تجربہ کیا گیا ہے۔ یہ دونوں افسانے کولاژ مصوری کے خاصے قریب ہوگئے ہیں۔ (مبادا غلط فہمی پیدا ہو، یہاں ہیئت سے مراد افسانے کا مجموعی ڈیزائن ہے)۔ مین را کے افسانوں کی ہیئت، موضوع کے اندر سے، موضوع کی خاص جہت سے برآمد ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ ہم مین را کی سب افسانوی ہیئتو ںکو پسند کریں یا نہ کریں، مگر اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ انھوں نے اس ’ہیئت پسندی‘ کا مظاہرہ افسانے کو ’خالص آرٹ‘ میں بدلنے کی خاطر کیا ہے۔ مین را کی اس کوشش کے پیچھے شاید اس عمومی رائے کو مسترد کرنے کا جذبہ رہا ہو، جس کے مطابق افسانہ آرٹ نہیں ہے؛خود ان کے ایک ہم عصر نقاد افسانے کو آرٹ نہیں مانتے۔ </p> <p>مین را کے کمپوزیشن کے تصور میں ایک نیم فلسفیانہ جہت شامل ہے۔ ان کے کمپوزیشن والے افسانے پڑھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ افسانہ کمپوز کرنے کو ’حقیقت خلق کرنے‘ کافنی عمل سمجھتے ہیں، جو حقیقت کی نقل سے مختلف عمل ہے۔ ’حقیقت خلق کرنا‘ فلسفیانہ اعتبار سے آزاد انسانی ارادے کا اثبات ہے، اور اس مقولے پر ایمان رکھنے کے مترادف ہے کہ ’انسان ہی تمام اشیا کا پیمانہ ہے‘۔ یہ اتفاق نہیں کہ مین را کے کردار سیاہی و موت، تاریکی وتنہائی کا شدید تجربہ کرنے کے باوجودتقدیر کا گلہ نہیں کرتے؛ وہ اپنی صورتِ حال کو اپنے فیصلے اور ارداے کے ماتحت سمجھتے ہیں، اور اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں؛وہ جو کچھ ہیں، اس کی اصل اور <annotation lang="en">origin</annotation> خود اپنی دنیا میں دیکھتے ہیں؛یہاں تک کہ خود کشی کو بھی اپنے آزاد ارادے کا اظہار سمجھتے ہیں؛یعنی وہ اپنی صورتِ حال کو اپنی خلق کی گئی حقیقت سمجھتے ہیں۔ کمپوزیشن بھی آزاد انسانی ارادے کا فنی اظہار ہے۔ چنانچہ مین را کا افسانہ ؍کمپوزیشن ’کردار کی خلق کی گئی حقیقت‘ اور ’فنی حقیقت‘ میں مساویانہ رشتہ قائم کرتا محسوس ہوتا ہے۔ </p> <p>جیسا کہ گذشتہ سطور میں بیان کیا گیا ہے، مین راکا افسانہ ’سررئیلی، جادوئی حقیقت نگاری‘، علامت اور <annotation lang="en">uncanny</annotation> سے عبارت ہے۔ ”کمپوزیشن دو“ اس کی اہم مثال ہے۔ یہ افسانہ ہماری فہمِ عامہ کی شکست اور توثیق کی متناقضانہ صورتِ حال کو پیش کرتا ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے ہمارا فہم مسلسل ’بے مرکز‘ ہونے کی صدمہ انگیز صورتِ حال سے دوچار ہوتا ہے؛ وہ بیک وقت ممکن اور محال، حس اور تخیل کے منطقوں میں سرگرداں ہوتا ہے۔ موت کا فرشتہ زندہ لوگوں سے انسانی زبان میں کلام کررہاہے؛ موت کا فرشتہ ہو کر وہ ایک آدمی کو اپنی مشکل کہہ رہا ہے؛ ایک آدمی کی کائنات ایک کمرہ ہے، اور وہاں ہر شے سیاہ ہے؛ یہی سیاہ پوش موت کے فرشتے کی کہانی سناتا ہے، اور لوگوں پر جب انکشاف ہوتا ہے کہ موت کے فرشتے کی مشکل یہی آدمی ہے تو اسے مار ڈالتے ہیں۔ یہ ساری کہانی ممکن و محال کے ان دائروں میں سفر کرتی ہے، جو برابر ٹوٹتے رہتے ہیں؛ہماری فہمِ عامہ کی جگہ جگہ شکست ہوتی ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اس کی کہیں کہیں توثیق بھی ہوتی ہے۔ موت کے فرشتے کا کلام کرنا محال ہے، مگر جب وہ انسانی زبان میں کلام کرتا ہے تو یہ سب ممکن محسوس ہوتا ہے؛انسانی کلام اس کی ماورائی ہستی کوقابلِ فہم بناتا ہے۔ (تمام الہامی مذاہب، اور ان کے خدااس لیے قابلِ فہم ہیںکہ انھیں انسانی زبان میں اتارا گیا ہے)۔ یہاں ہمیں قابلِ فہم اور معقول ہونے میں فرق پیشِ نظر رکھنا چاہیے؛کوئی چیز قابلِ فہم ہونے کے باوجود غیر معقول ہو سکتی ہے۔ طلسم و فنتاسی پر مبنی داستانی فکشن بھی ہمارے روزمرہ فہم کے بر عکس ہوتا ہے، اور اس فکشن میں فرشتے، دیوتا، جن، پریاں، بھوت اور جانے کیا کیا مافوق الفطری مخلوقات ہوتی ہیں۔ اس فکشن کے بڑے حصے کو محض تفریحی سمجھا جاتا ہے، جس کی توجیہہ و تعبیر کی ضرورت نہیں ہوتی، مگر کچھ حصے کوعلامتی سمجھا جاتا ہے، اس لیے اس کی تعبیرات کی جاتی ہیں۔ جب کہ‘ ’کمپوزیشن دو“ مافوق الفطری، طلسماتی کہانی نہیں، ایک حقیقی علامتی کہانی ہے، جس کا ہر حصہ توجیہہ و تعبیر چاہتا ہے۔ تاہم اس افسانے کاداخلی رشتہ داستانی فکشن سے ہے۔ ہم نے داستانی فکشن کے ذریعے فوق البشری مخلوق اور پر اسرار واقعات پر یقین کرنا اور ان کی مدد سے انسانی وجود کے بعض بنیادی سوالات کو سمجھنا سیکھا۔ داستانی فکشن سے متعلق ہمارا یہ فہم کہیں نہ کہیں، مین را کے افسانوں کی انتہائی زیریں تہوں میں سہی، موجود ضرور ہے۔ </p> <p>اس افسانے کے ’ڈیزائن‘ کو دیکھیں تو اس کے دو حصے نظر آتے ہیں۔ پہلے حصے میں موت کے فرشتے کو قصہ سناتے ہوئے پیش کیا گیا ہے؛اس قصے کا سب سے انوکھا، غیر معمولی طور پر پراسرار، انتہائی تحیر خیزواقعہ سیاہ پوش کا ہے، جس کی زندگی مکمل سیاہی کے احاطے میں ہے۔ دوسرے حصے میں انکشاف ہوتا ہے کہ وہی سیاہ پوش موت کا فرشتہ بن کرقصہ سنا رہا تھا۔ جب اس بات کا علم سامعین کو ہوتا ہے تو وہ اسے مار ڈالتے ہیں۔ پورا افسانہ حقیقت و فنتاسی کی حدوں کے تحلیل ہونے، اور ایک ’علامتی وجودی حالت‘ خلق ہوتے چلے جانے سے عبارت ہے۔ موت کا فرشتہ لوگوں سے مخاطب ہے ؛یہ فنتاسی ہے۔ مگروہ جن باتوں کو پیش کر رہا ہے، وہ زندگی و موت سے متعلق بنیادی ’سچائیاں‘ ہیں۔ مثلاً:</p> <blockquote> <p>آپ لوگوں کاالمیہ یہ ہے کہ پیدا ہوتے ہی آپ کی زبان پر درازیِ عمر کا کلمہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ کا کوئی دوست، عزیز یا رشتہ دار اٹھ جاتا ہے، آپ لوگ رونے پیٹنے، غم منانے کا اتنا بڑا آڈمبر رچاتے ہیںکہ تعجب ہوتا ہے …کسی بھی آدمی کی پہچان، اس کا مرنا نہیں، اس کا جینا ہوتی ہے۔ اور یہ کہ آپ لوگوں کو جینے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی، مرنے کا غم ہوتا ہے۔</p> </blockquote> <p>افسانے کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ’آدمی کی پہچان اس کا مرنا نہیں، جینا ہوتی ہے‘۔ انسانی ہستی سے متعلق یہی بصیرت ہماری نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ اس لیے ہمیں جینے کی خواہش سے زیادہ مرنے کا غم لاحق رہتا ہے۔ لوگ موت سے خوف زدہ رہتے ہیں، اور ان کا حال غالب کے اس شعر کی مثل ہوتا ہے۔</p> <verse> تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا </verse> <p>مین را نے ”کمپوزیشن دو“ میں ایک ایساکردار تخلیق کیا ہے، جس کا رنگ موت کے خوف یا غم سے زرد نہیں ہے۔ وہ موت کے فرشتے کے لیے اس لیے مشکل بنا ہے کہ اسے دیگر لوگوں کے برعکس درازیِ عمر کی خواہش نہیں ہے۔ اس کے کمرے کی دیواریں، دیواروں پر ٹنگی تصویریں، چھت، کھڑکی، دروازہ، پردے، غرض یہ کہ ہر شے سیاہ ہے۔ میز، کرسی، کتابوں کی جلدیں، اوراق اور ان پر پھیلی عبارت سیاہ ہے۔ اس کا لباس سیاہ ہے۔ وہ سیاہ قلم کی سیاہ روشنائی سے سیاہ کاغذ پر رات کی تاریکی میں لکھتا ہے۔ دن کو وہ سیاہ تابوت میں پڑا رہتا ہے، اور رات کو جاگتا ہے۔ اس پر، اس کی دنیا، اس کے شب و روز پر سیاہی کا مکمل تسلط ہے؛وہ سیاہی کی اس حقیقت کا بھرپور تجربہ کر رہا ہے، جس میں تخیلی و حقیقی دنیا کا امتیاز مٹ گیا ہے۔ اسے <annotation lang="en">uncanny</annotation> کے سوا کیا نام دیا جاسکتا ہے؟ تاہم سیاہی کا یہ تسلط ایک اختیاری معاملہ ہے۔ اس نے اپنی مرضی سے کمرے کی ہر شے کو سیاہ کر رکھا ہے، اور اپنی مرضی سے وہ سیاہ تابوت میں چلا جاتا ہے۔ اس کردار کی تشکیل میں مین را نے سادھوئوں کے ’انہونے‘ کردار سے کچھ نہ کچھ مدد لی ہے۔</p> <p>یہ کہنا تو سادہ لوحی ہوگی کہ افسانے میںسیاہی پر اس شدت سے اصرار اس لیے ہے کہ معاصر عہد کی تیرہ نظری و ظلمت پسندی کی ترجمانی ہو سکے۔ جیسا کہ ہم پہلے واضح کر چکے ہیں، علامتی افسانہ ’باہر‘ کی حقیقت کی ترجمانی نہیں کرتا، ’باہر‘ اور ’اندر‘ کے تحلیل ہوتے منطقوں میں تخلیق کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس افسانے میں سیاہی ’باہر‘ کی ظلمت کی ترجمان نہیں۔ یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ جدید حسیت کا سیاہی، موت، زوال، ویرانی وغیرہ سے گہرا تعلق ہے، مگر جدید علامتی افسانہ سیاہی و موت کو سامنے کی حقیقت کے طور پر پیش نہیں کرتا؛انھیں علامت بناتا ہے، اور علامت حوالہ جاتی <annotation lang="en">(referential)</annotation> نہیں، تلازماتی <annotation lang="en">(associative)</annotation> ہوتی ہے۔ </p> <p>یہ کردار، اپنی شخصیت، رنگ ڈھنگ، طرزِ زندگی ہر اعتبار سے معمول کی انسانی زندگی، اورمعمول کی انسانی زندگی کے فلسفے کی نفی کرتا ہے۔ معمول کی زندگی میں دن کو مرکزی حیثیت حاصل ہے؛ سیاہی، رات اور موت سے خوف یا گریز موجود ہے، نیزمعمول کی زندگی میں دن شعور کی اور رات لاشعور کی علامت ہے۔ یہ کرداران سب باتوں کو منظرِ عام پر لاتا ہے، جن سے ہم خوفزدہ رہتے ہیں، اور جنھیں ہم نے اپنے لاشعورکی سیاہ، تاریک دنیا میں دھکیل رکھا ہے، یا جنھیں ہم نے اپنے سماجی بیانیوں میں کبھی جگہ نہیں دی۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ یہ افسانہ لاشعور میں موجودموت و تاریکی کے خوف کا سامنا کرنے کی جرأت مندانہ، ’انہونی‘ مثال ہے۔ کردار کے رات کے ختم ہوتے ہی تابوت میں چلے جانے کی چار توجیہات کی جا سکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ کردار مسلسل تاریکی میں رہنا چاہتا ہے؛وہ دن کے وقت تابوت کے تاریک خول میں بندرہتا ہے ؛غار یا قبر میں مراقبے کی خاطر چلے جانے والے سادھوئوں کی طرح۔ دوسری یہ کہ تابوت لاشعور کا استعارہ ہے۔ تابوت کی تاریک، بند دنیا اور لاشعور کی تاریک، مخفی دنیا میں گہری مماثلت ہے؛وہ کردار ہرروز اپنے لاشعور کی گہری تاریکی میں اترنے کی جرأت و بے خوفی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ تیسری ممکنہ توجیہہ یہ ہو سکتی ہے کہ تابوت میں جیتے جی داخل ہو کر وہ کردار، موت کے خوف کاسامنا کرتا ہے، تاکہ اس کے خوف سے آزاد ہو سکے۔ وہ موتوا قبل أن تموتواکی مثال بنتا ہے۔ جو آدمی موت کے خوف سے آزاد ہو، وہ موت کے فرشتے کی مشکل تو بنے گا! چوتھی ممکنہ توجیہہ کی رو سے تابوت ماں کی کوکھ کا استعارہ ہے۔ وہ کردار تابوت میں داخل ہو کر وجود کی اوّلین حالت کو طرف لوٹنے کی ریاضت کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موت بھی وجود کی اوّلین حالت کی طرف لوٹ جانا ہے۔ </p> <p>سیاہ پوش کردار رات کے وقت دو کام کرتا ہے۔ سیاہ عبارت لکھتا ہے، اور سیاہ ساڑھی اور سیاہ بلائوز میں لپٹی، لمبے سوکھے سیاہ بالوں والی لڑکی سے ملتا ہے۔ وہ کیا لکھتا ہے، اس کی وضاحت غیر ضروری سمجھی گئی ہے، تاہم لڑکی اور اس کے درمیان مکالمے کو پیش کیا گیا ہے۔ اس مکالمے میں ’کہی‘ کم اور ’ان کہی‘ زیادہ ہے۔ جتنا کہا گیا ہے، اس سے زیادہ چھپایا گیا ہے، اور اصل وگہری باتیں وہی ہیں جو چھپائی گئی ہیں۔</p> <blockquote> <p>یہ جیون ہے نا…</p> <p>اور یہ بدن…</p> <p>تم…</p> <p>اور تم…</p> <p>ایک ہی مٹی…</p> <p>ہم سکھی ہیں…</p> <p>ہم دکھی تھے نا اس لیے…</p> </blockquote> <p>غالباً آدمی کہتا ہے کہ یہ جیون، اس لمحے کا جیون ہماری دسترس میں ہے؛اس میں کیسے کیسے دکھ، کیا کیا سکھ ہیں ؟لڑکی کہتی ہے، اوربدن کے بارے میں کیا خیال ہے؟آدمی کہتا ہے ہاں بدن بھی ہے، مگر میرے سامنے تو ’تم‘ ہو۔ ایک بدن ہے، اور ایک مَیں یا تم ہے۔ لڑکی کہتی ہے کہ تمھارے ساتھ بھی تو یہی معاملہ ہے۔ دونوں اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ ہم ایک ہی مٹی سے بنے ہیں؛ہمارے درمیان حقیقی، زندہ رشتہ مٹی کا ہے، یعنی ہماری اصل ایک ہے۔ مٹی فنا ہو جاتی ہے۔ یہی فنا ہماری اصل ہے؛ہماری اصل کاعرفان ہمیں سکھی کرتا ہے؛مٹی مٹی سے ملتی ہے یا مٹی جب مٹی میں مل جاتی ہے تو ہمیں سکھ ملتا ہے۔ اپنی اصل جاننے سے پہلے ہم دکھی تھے۔ لیکن اس افسانے کا اہم ترین نکتہ وہ ہے جسے سیاہ چوکھٹوں میں جڑی تین تصویروں کی زبانی پیش کیا گیا ہے۔ یہ تصویریں کس کی ہیں، افسانے میں اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ مین را نے اپنے بعض دیگر افسانوں میں بھی تصویروں کا ذکر کیا ہے، اور خود اپنی سوانحی تحریروں میں بھی بتایا ہے کہ ان کے کمرے میںدستو فسکی، مارکس اور لینن کی تصویریں ہیں جنھیں وہ دیکھتے رہتے ہیں۔ افسانے میں یہ تصویریں، آدمی اور لڑکی سے مخاطب ہو کر کہتی ہیں: </p> <blockquote> <p>ہم نہ کہتے تھے کہ دن کا اندھیرا موت ہے …</p> <p>رات کا اجالا زندگی ہے…</p> </blockquote> <p>یہ دونوں جملے متناقضانہ یعنی <annotation lang="en">paradoxical</annotation> ہیں۔ ان جملوں کاپیراڈاکس اس وقت سمجھ میں آسکتا ہے، جب ہم یہ پیشِ نظر رکھیں کہ یہ جملے کس سیاق میں کہے گئے ہیں۔ آدمی اور لڑکی وصل کی سرگوشیوں میں مصروف ہیں، اور سکھ کی کیفیت میں ہیں۔ اس سیاق میں تصویریں یعنی دانائی و بصیرت کے نمائندے ان سے کہتے ہیں کہ تم لوگوں نے بالآخر ہمارے کہے کہ توثیق کر دی ہے۔ جو کچھ تم نے ہماری کتابوں میں پڑھا تھا، اب اس کا تجربہ کر لیا ہے۔ ہمارا کہنا تھا کہ دن کا اندھیرا یعنی معمول کی زندگی اور محض شعور کی زندگی، وجود کے تاریک خطوں سے گریز سے عبارت ہے، اور خوف کی زندگی، موت ہے۔ جب کہ رات یعنی لاشعور اور ذات کے تاریک خطوں سے مکمل، بے خوف آگاہی ہی حقیقی روشن ضمیری <annotation lang="en">(enlightenment)</annotation> ہے، اور یہی زندگی ہے۔ افسانہ نگار اگر یہیں افسانے کا اختتام کر دیتے تو بھی یہ ایک مکمل کمپوزیشن تھی، مگر وہ اسے سررئیلی حقیقت سے روزمرہ کی حقیقت میں کھینچ لاتے ہیں، یہ ظاہر کرنے کے لیے رات کے اجالے کو زندگی کہنے والوں کا سماج میں کیا مقام ہے، اور سماج ان سے کس قسم کا سلوک کرتا ہے۔ جب لوگوں کو پتا چلتا ہے کہ سیاہ پوش آدمی ہی، موت کا فرشتہ بن کر اپنی ہی کہانی سنارہا تھا توان کا طرزِ عمل ایک دم بدل جاتا ہے ؛وہ کہانی، اور کہانی کار کی آواز کے طلسم میں گرفتار تھے۔ جوں ہی یہ طلسم ٹوٹتاہے تو ہال میں (جہاں افسانہ سنایا جارہا تھا، اور جہاں سنانے والاا سٹیج کے پس منظر میں تھا، یا اسٹیج پر روشنی نہیں کی گئی تھی) قیامت برپا ہو جاتی ہے۔ یہ قیامت اصل میں سامعین کے ہاتھوں اس سیاہ پوش پر گذرتی ہے جو موت کے فرشتے کے کردار کی مدد سے، اپنی کہانی سنا رہا تھا؛ اسے مار ڈالا جاتا ہے۔ افسانے کے اس اختتامی ٹکڑے کی کوئی سادہ توجیہہ نہیں کی جاسکتی۔ مثلاً صرف یہ نہیں کہا جاسکتا کہ افسانہ نگار نے ترقی پسندوں پر طنز کیا ہے جو جدید یت پسندوں کو مریضانہ لکھنے والے کہتے تھے۔ میرا جی سے مین را تک کو یہ الزام سننا سہنا پڑا ہے۔ اگر ”کمپوزیشن دو“ میں یہ سامنے کی باتیں ہی ہوتیں تو اس پر دو چار جملے ہی کافی ہوتے۔ اصل یہ ہے کہ مین را نے سادہ جملوں اور چھوٹے چھوٹے واقعات میں کچھ گہری باتیں کہی ہیں۔ افسانے کے آخری ٹکڑے میںرمز یہ طنز یعنی <annotation lang="en">irony</annotation> ہے، جسے روشنی وتاریکی، زندگی و موت، ہجوم و فرد، تشدد و تسلیم کی جدلیات سے ابھارا گیا ہے۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ افسانے میں انسانی سائیکی (جس کے لیے تھیئٹر کی مثال لائی جاتی ہے) کے تاریک حصوں کو جو نہی روشنی میں لایا جاتا ہے؛ لاعلمی کو آگاہی میں بدلا جاتا ہے تو لوگ اس ’تاریک روشنی‘ کا سامنا کرنے کی تاب نہیں رکھتے۔ وہ تشدد پر اُتر آتے ہیں۔ تشدد کا ذات کے تاریک حصوں سے جو گہرا تعلق ہے، اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔</p> <p>یہ افسانہ اس امر پر بھی زور دیتا محسوس ہوتا ہے کہ جدید لکھنے والا، اپنے سماج میں اجنبی، بے خانماں یعنی ایک <annotation lang="en">displaced</annotation> آدمی تو ہے ہی خود اپنی تحریر میں بھی بے خانماں ہے۔ جدید تخلیق کار کا یہ المیہ بھی ہے، اور اس کے غیر معمولی تخلیقی اضطراب کا سرچشمہ بھی! مین را کے افسانے پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک حقیقی جدید تخلیق کار کا کوئی گھر نہیں؛نہ اس کا بدن، نہ اس کا مکان، نہ کافی ہائوس، نہ دہلی شہر، اور نہ اس کے افسانے۔ لے دے کے اس کے پاس مسلسل سوچنے، کریدنے اوربرابر لکھنے کی سرگرمی ہے، جس میں وہ ’جیتا‘ ہے؛اور یہاں بھی وہ ظلمت میں روشنی اور روشنی میں ظلمت، یا تنہائی میں ہجوم اور ہجوم میں تنہائی، یا پھر گھر میں بے گھری جیسی متضاد حالتوں کو ایک دوسرے سے بغل گیر پاتا ہے۔ </p> <p>جدید تخلیق کار کے بے خانماں ہونے کا ذکر مین را کے بعض دوسرے افسانوں میں بھی ملتا ہے۔ ’بے خانماں مصنف‘ خطرناک ہو سکتا ہے۔ مثلاً ”میرا نام مَیں ہے“ کا یہ ٹکڑا دیکھیے۔</p> <blockquote> <p>میں کو مرنا تھا مرگیا۔ بات صرف اتنی سی ہے۔</p> <p>نوٹ: مَیں کی تحریر، ایک خبر اور ایک ماتمی نوٹ کو ترتیب دے کر، اوپر تلے چند ایک سطریں اپنی طرف سے جوڑ کر میں نے یہ افسانہ ”تیار“ کیا اور ایک دوست کے حوالے کیا۔ افسانہ پڑھنے کے بعد میرے دوست نے کہا:</p> <p>”مَیں کی تحریر اور تمھاری تحریر کا لب ولہجہ ایک سا ہے، اور یہ بات خطر ناک ثابت ہو سکتی ہے!</p> </blockquote> <p>فکشن میںبے خانماں مصنف اور اس کے کردار میں مماثلت کیوں خطرناک ہو سکتی ہے ؟کیا یہ مصنف کے لیے خطر ناک ہو سکتی ہے، یا اس سماج کے لیے جو اس افسانے کو پڑھے گا ؟یہاں مین را نے انسانی شناخت و اظہارکے ایک بنیادی مسئلے کو چھیڑا ہے۔ مَیںیعنی واحد متکلم اپنی اصل میں ایک لسانی ’نشان‘ ہے۔ اسے کوئی فرد اپنے شخصی، نجی اظہار کے لیے استعمال کرتا ہے، حال آنکہ اس کی تشکیل میں فرد کا کوئی حصہ نہیں۔ مَیں ایک ایسے طلسمی قسم کے عوامی لباس کی طرح ہے، جو ہر شخص کے لیے موزوں ہے، خواہ وہ عورت ہے یا مرد، بچہ ہے یا بوڑھا، کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہے، یا سرے سے مذہب کو مانتا ہی نہیں۔ اس طور دیکھیں تو مَیں کے ذریعے انفرادی اظہار خالص نجی اظہار نہیں ہوتا؛ نجی اظہار کا التباس ضرور ہوتا ہے۔ چنانچہ جب مَیں کے صیغے میں ’اپنی بات‘ کہی جاتی ہے تو وہ حقیقتاً ’سب‘ کی یا ’پرائی بات‘ ہوتی ہے۔ مَیں اپنی اصل میں ’بے مرکز‘ ہے؛یہ واحد متکلم کے ساتھ، اورموضوعیت کے ساتھ حتمی طور پر وابستہ تو ہے، مگرخود واحد متکلم ایک تجرید ہے، اور اس پر کسی واحدشخص کا اجارہ نہیں۔ دوسری طرف ہم اپنے اظہار میں مرکزیت چاہتے ہیں، اور ایک ایسے صیغے میں اظہار کرنے پر مجبور ہیں جو اپنی اصل میں بے مرکز ہے۔ یہ انسانی اظہار کا ایک عظیم دبدھا ہے۔ </p> <p>اس ضمن میں مین را کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ انھوں نے شناخت اور اظہار کو ایک دوسرے سے وابستہ سمجھا ہے۔ مین را جب افسانے ”میرا نام مَیں ہے“ میں مَیں کو ایک کردار بناتے ہیں توبظاہر یہ التباس پیدا کرتے ہیں کہ یہ ایک سوانحی افسانہ ہے۔ لیکن افسانے کے آخر میںجب وہ یہ لکھتے ہیں کہ انھوں نے مَیں کی کہانی اپنے دوست کو سنائی تو کھلتا ہے کہ مَیں، مصنف سے الگ کردار ہے، یا مصنف کا یہ منشا ہے کہ وہ خود کو مَیں سے الگ رکھے، مگر اس کا دوست یعنی تیسرا شخص کہتا ہے کہ مَیں اور مصنف کے لب ولہجے میں مماثلت ہے۔ گویا مصنف اپنی منشا میں کامیاب نہیں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ مصنف کی یہ منشا کیوں تھی کہ وہ خود کو مَیں سے الگ رکھے؟ کیا وہ کردار کو مصنف کے اثر سے آزاد رکھنا چاہتا تھا؟ اگر مصنف کی یہی خواہش تھی تو آسان راستہ یہ تھا کہ وہ مَیں کی بجائے کردار کو کوئی نام دے دیتا۔ مین را نے راہی، جگدیش، جیت، بھاگوتی، دھن پتی، بلدیو، نتھورام وغیرہ ناموں کے کردار متعارف کروائے ہیں۔ لیکن جب وہ مَیں یا وہ کو کردار بناتے ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ نام اپنے ساتھ کئی تلازمات رکھتا ہے (جیسے مذہبی، صنفی وغیرہ) جب کہ اسمِ ضمیر کے ساتھ کوئی تلازمہ نہیں ہوتا؛مَیں، وہ یا تم ہندو ہے نہ مسلم، نہ سکھ، نہ عیسائی، عورت ہے نہ مرد۔ لہٰذا مَیںکی کوئی واحد شناخت نہیں۔ نیزمَیں کی کہانی ہر ایک مَیں کی کہانی ہو سکتی ہے، یعنی ہر اس شخص کی جو موضوعیت رکھتا ہے، یا خود کا اثبات کرنا چاہتاہے۔ شاید اسی وجہ سے مصنف کے دوست کو مَیں کے لب و لہجے میں مصنف بو لتا ہوا محسوس ہوا۔ (واضح رہے کہ دوست کو مَیں اور مصنف کے حالات میں مماثلت محسوس نہیں ہوئی، بلکہ لب ولہجے میں ہوئی)۔ مصنف بھی تو لکھ کر اپنا اثبات کرتا ہے۔ </p> <p>افسانے میں اگر مَیں کو ایک کردار بنایا گیا ہے تو مصنف بھی ایک کردار ہے، اور جس دوست نے افسانہ پڑھ کر رائے دی، وہ بھی ایک کردار ہے؛تینوں افسانوی کردار ہیں، اور ان کی تفہیم افسانوی رسمیات کی روشنی میں کی جانی چاہیے۔ اب سوال یہ ہے کہ مَیں اور مصنف کے کردار میں مماثلت کیوں خطرناک ہو سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں ذرا افسانے کے ابتدائی حصے کی طرف پلٹنا ہوگا۔ افسانے کے یہ حصے دیکھیے، جن کی مدد سے مَیں کی کہانی سمجھی جا سکتی ہے۔</p> <blockquote> <p>اور میں نے دیکھا کہ…کہ ایک نیا…کہ ایک اجنبی…کہ…کہ </p> <p>اجنبی زمین، اجنبی آسمان، سب کچھ اجنبی</p> <p /> <p>میں نے ایک لاش دیکھی۔</p> <p>گول پتھر کا تکیہ، پتھریلی سطح کا بستر، ہوا کی چادر۔</p> <p>محبتوں، حسرتوں کا درپن </p> <p>میرے خدو خال میری نظروں کے سامنے واضح ہوگئے۔</p> <p> میں ہانپتا کانپتا پہاڑی کی چوٹی پر پہنچا اور پھر چند ہی لمحوں میں دوسری جانب نیچے اتر گیا۔</p> <p>درمیان میں پہاڑی تھی۔ مَیں اس طرف بھی تھا اور اس طرف بھی۔ اس طرف دور چند چھونپڑیاں تھیں۔</p> <p>گھاس پھوس کی ایک ننگی سی جھونپڑی میری دنیا ہے اور سمے؟</p> <p>دھول پور سے جو خبریں موصول ہو رہی ہیں، ان سے صاف ظاہر ہے کہ مَیں صاحب نے بھی اپنے دوستوں کی طرح خو دکشی کی۔ انھوں نے گہما گہمی کی دنیا سے بہت دور، گھاس پھوس کی جھونپڑی کا انتخاب کیا۔ جھونپڑی میں دنیاوی عیش و آرام کا سامان مہیا کیا: پانچ ہزار روپے، پھلوں کی دوٹوکریاں، دودھ کی پانچ بوتلیں اور تنوری پراٹھے۔ اور ان سب چیزوں کی موجودگی میں بھوکے پیٹ موت کے لیے تپسیا شروع کر دی اور آخر سات دسمبر کو ان کا تپ سماپت ہوا۔</p> </blockquote> <p>گویا مَیں نے اپنے دوستوں جیت، موہن، ارجن دیو، امر، دھن راج اورترلوچن کی طرح خود کشی کی۔ خود کشی کے لیے انوکھا، مگر سادھوئوںکے طرزِ زندگی سے ملتا جلتامشکل طریقہ اختیار کیا: سب کچھ اپنے پاس موجودہونے کے باوجود اس نے بیس دن تک کچھ نہیں کھایا پیا اورموت کے سپرد ہوا۔ اس نے خود کشی (جو مین را کے افسانوں کا ایک باقاعدہ موضوع ہے) کیوں کی؟ افسانے میں اس کا ایک قسم کا رومانوی جواب موجود ہے۔ مَیں خود کلامی کے انداز میں کہتا ہے: ”تم نہ جانے کس دکھی آتما کا شراپ ہو کہ تمھارا وجود زہر ہے کہ آپ سے آپ رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے۔ جانے کتنے خوبصورت لوگ تمھاری قربت کے زہر سے (اپنے ہاتھوں) مارے گئے“۔ رمزیہ طنز سے بھر پور یہ جملے ہیں! چونکہ وہ دوستوں کی خود کشی کا ذمہ دار اپنی قربت یعنی اپنے خیالات کو سمجھتا ہے، اس لیے اس بات کو اپنا اخلاقی فرض سمجھتا ہے کہ وہ بھی خود کشی کرلے۔ بلا شبہ مَیں ایک اخلاقی بحران کا شکار تو ہے ہی، مگر ساتھ ہی شناخت کے بحران میں بھی مبتلا ہے۔ ان دونوں بحرانوںنے مَیں کوسماج ودنیا اور فطرت سے بیگانگی میں مبتلا کر دیا ہے۔ وہ شہر میں اپنے دوستوں کی خود کشی کے بعد گائوں چلاجاتا ہے، مگر وہاں کی زمین، آسمان، ہوائیں، پرندے سب سے وہ خود کو اجنبی و بیگانہ محسوس کرتا ہے۔ (یہ بیگانگی اس کی خود کشی کے طریقے میںبھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے پاس کھانے پینے کی سب اشیا تھیں، مگر وہ بیس دن تک ان سے بیگانہ و لاتعلق رہا)۔ تاہم جب وہ ایک لاش دیکھتا ہے تو وہ لاش ایک آئینہ بن جاتی ہے، اور اس میں اسے اپنے خدوخال (اور مستقبل کا حال) دکھائی دیتے ہیں۔ وہ لاش کے ذریعے خود کو پہچانتا ہے۔ یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ اس نے واقعی کوئی لاش دیکھی، یا لاش اس کی ماحول سے شدید اجنبیت کا استعارہ بنی ہے، یا لاش اس کی موت کی خواہش یا پیش گوئی کی ایک التباسی شبیہہ تھی۔ اس طرح کا عدم تعین مین را کے افسانوں میں جا بجا موجود ہے۔ بایں ہمہ لاش، ایک زندہ وجود کے لیے ’غیر‘ کا درجہ رکھتی ہے۔ موت، زندگی کا ’غیر‘ ہے۔ اس طرح اس نے خود کو ایک ’غیر‘ کے ذریعے پہچانا۔ وہ زندہ اشیا سے بیگانہ تھا، مگر ایک مردہ وجود یعنی ایک ’غیر‘ سے (خواہ وہ حقیقی ہو یاتخیلی، اس سے فرق نہیں پڑتا) جب وہ تعلق محسوس کرتا ہے تو اس کی پہچانِ ذات میں عدم پہچان <annotation lang="en">(misrecognition)</annotation> شامل ہو جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کَہ سکتے ہیں کہ لاش کے درپن میں اس نے اپنی زندگی کے راکھ ہوتے خدوخال، شدتِ احساس کے ساتھ دیکھے، نیز اس کی زندگی سے بیگانگی اپنے کلائمیکس اور فیصلہ کن موڑ پر پہنچ گئی۔ بیگانگی کا دوسرا مطلب شخصیت کی وحدت کا ٹوٹنابھی ہے ؛ایک مَیں کا دو مَیں میں تقسیم ہوناہے۔ یہی وجہ ہے کہ مَیں پہاڑی کے دونوں طرف خود کو موجود پاتا ہے (کیونکہ پہاڑی کے ایک طرف وہ لاش موجود تھی، جس کی مدد سے اس نے خود کو پہچاناتھا اور دوسری طرف وہ تھا؛یہ بھی پہچان میں عدم پہچان کا تناقض تھا! )۔ اس کے لیے یہ سوال اہم نہیں کہ دومَیں میں سے حقیقی مَیں کون سا ہے، (اگر مَیںیہ سوال اٹھاتا تو ایک نئے بحران میں مبتلا ہوتا)۔ اس کے لیے بس اتنی بات اہم ہے کہ وہ پہاڑی کے دونوں اطراف موجود ہے، یعنی وہ اس حقیقت کو تسلیم کر لیتا ہے کہ مَیں وحدت سے محروم ہے، نیز مَیں زندہ بھی ہے اور مرا ہوا بھی۔</p> <p>اب اگر مَیں وحدت سے محروم ہے اور اس مَیں کا لب ولہجہ مصنف سے مماثلت رکھتا ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ مصنف بھی داخلی طور پر منقسم ہے۔ یہی بات خطر ناک ہے۔ مگر یہ سوال اب بھی باقی رہتا ہے کہ کس کے لیے خطرناک؟ اگر ہم مصنف کے زاویے سے دیکھیں تو اسے خطرناک نہیں کَہہ سکتے۔ اس لیے کہ مَیں یا موضوع انسانی یعنی <annotation lang="en">subject</annotation> کا تقسیم ہونا، ایک سے زیادہ تناظرات کو بھی ممکن بناتا ہے؛وہ پہاڑ کے دونوں اطراف کی دنیا کو جان سکتا ہے؛ وہ زندگی کی فنتاسی اور موت کی حقیقت دونوں سے رسم و راہ رکھ سکتا ہے؛ نیز وہ دنیا کو حاوی اور متبادل نظریوں کی روشنی میں بیک وقت سمجھ سکتا ہے۔ لیکن تناظرات کی یہی تکثیریت سماج کے غالب طبقات کے لیے خطر ناک ہو سکتی ہے۔ انھیں ایک ایسا موضوعِ انسانی یا مَیں زیادہ موزوں محسوس ہوتا ہے جو داخلی طور پر متحد ہو؛اسے کسی بھی خیال یا نظریے کا ظرف یا <annotation lang="en">container</annotation> آسانی سے بنایا جا سکتا ہے۔ </p> <p>مین را موضوعِ انسانی کی تکثیریت کو آگے بھی موضوع بناتے ہیں۔ مَیں کے ساتھ دیگر اسماے ضمیر یعنی وہ اور تم کو بھی افسانوی کردار بناتے ہیں، یا ان کی مدد سے وجودی شناخت کا سوال اٹھاتے ہیں۔ قصہ یہ ہے کہ تمام شخصی ضمائر بے مرکز ہیں؛ اسی لیے میں، تم اور وہ ایک دوسرے سے بدلتے رہتے ہیں۔ مَیں بیک وقت تم اور وہ بھی ہوں، اور وہ اور تم بھی مَیں ہیں۔ یہ انسانی شناخت اوراظہار کا ایک عظیم دبدھا ہے۔ مین را ”کمپوزیشن موسم سرما ۶۴ئ“ میں لکھتے ہیں:</p> <blockquote> <p>میں، تم اور وہ۔ میں تم بھی ہے اور وہ بھی ہے، تم میں بھی ہے اور وہ بھی ہے، وہ میں بھی ہے اور تم بھی ہے اور کتنا گھپلا ہے (ہاہاہاہاہا)۔ ہم یہاں بیٹھے ہیں، بات چیت کر رہے ہیں، شام کا سمے ہے، کافی ہائوس کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ ہم نے کافی کے لیے کہا ہے۔ کافی کے آنے سے پہلے ہی ہم میں سے ایک، میں، تم یا وہ اٹھا جاتا ہے۔ چاندنی چوک میں چلا جاتا ہے، لاہور چلا جاتا ہے، سان فرانسسکو چلا جاتا ہے یا مرجاتاہے۔ ہم یہاں، اسی کافی ہائوس میں، اسی صوفے پر بیٹھے رہیں گے اور کافی پئیں گے۔ کتنا گھپلا ہے۔ میں، تم اور وہ۔ یہ تکون؟</p> </blockquote> <p>بظاہر یہ ایک چکرا دینے والا لسانی معما اور مہمل سی بات معلوم ہوتی ہے کہ میں، تم بھی ہے اور وہ بھی ہے۔ ایک اعتبار سے یہ تاثر ٹھیک بھی ہے۔ انسانی شناخت و اظہار کے مسائل، دنیا و سماج میں انسان کا ہونا کسی معمے سے کم نہیں، اور نجانے اپنے اندرکس قدر مہملیت رکھتا ہے۔ مین را یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ میں، تم اور وہ کے اسمائے ضمیر محض لسانی نشان نہیںہیں، بلکہ انسانی شناخت اور تقدیر سے جڑے ہیں۔ جب مَیں، تم یا وہ بنتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ میں اپنے آپ میںحتمی طور پر قائم نہیں ہے۔ مَیں کے اندرایک خلا، ایک کمی، ایک گمشدگی ہے، جس کی سب سے بڑی علامت موت ہے۔ مَیں اپنی موجودگی میں عدم موجودگی رکھتا ہے، (جس طرح مَیں اپنی پہچان میں عدم پہچان رکھتا ہے) جسے کبھی ’وہ‘ اور کبھی ’تم‘ کی موجودگی بھرتی ہے، اس پیراڈاکس کے باوجود کہ ان کی موجودگی میں بھی عدم موجودگی ہے۔ مین را کے افسانوں میں موت کے کثرت سے ذکر کا اہم سبب یہی ہے۔ موت کی لازمیت، ہستی و وجود میں سب سے بڑا عدم وجودہے۔ </p> <p>’مَیں‘، ’تم‘ اور ’وہ‘ نیم فلسفیانہ مضمرات ہی نہیں رکھتے، سیاسی جہات بھی رکھتے ہیں۔ مین را کے علاوہ بھی جدیداردو افسانہ نگاروں نے ’مَیں‘ یا ’وہ‘ کو کردار بنایا۔ عام طور پر یہ سمجھا گیا کہ اسم معرفہ کی جگہ اسم ضمیر جدید عہد کے بے چہرہ فرد کی نمائندگی کرتا ہے؛مَیں یا وہ کی کوئی خصوصی پہچان نہیں۔ یہ توجیہہ ایک حد تک ہی درست تھی۔ مثلاً اس جانب دھیان نہیں دیا گیا کہ مَیں کا صیغہ، کسی تجربے کو منفرد و مستند بنا کر پیش کرنے کا ایک قرینہ بھی ہے؛ مَیں کسی بھی تجربے، خیال، واقعے، تاثر کو داخلی، شخصی انداز میں ظاہر کرنے کا ایک ’کنونشن‘ بھی ہے۔ نیز مَیں، وہ یا تم چونکہ بنیادی طور پر بے مرکز ہیں، یااپنے اندرایک خلا رکھتے ہیں، اس لیے یہ خارج کی دنیا و سماج کا آسان ہدف ہیں۔ مَیںبقول مین را، تم اور وہ بھی ہے؛ گویا مَیں کے خلا میں ’وہ‘ یا ’تم‘ در آتاہے، اور مَیں کی دنیا کو تلپٹ کر سکتا ہے۔ یوں نظری طور پر مَیں کی داخلیت ہر لمحہ تم یا وہ کی خارجیت کی زد پر رہتی ہے۔ نہ تو مطلق داخلیت ممکن ہے، نہ مطلق خارجیت۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میںمین را کے افسانوں میں جدیدانسان کے وجودی شناختی مسائل، سیاسی مسائل کا حصہ بن کر آتے ہیں۔ تاہم ان کی افسانوی تیکنیک کچھ اس قسم کی ہے کہ سطح پر وجودی مسائل اور زیر سطح سیاسی مسائل ہوتے ہیں۔ افسانہ ”کمپوزیشن موسم سرما ۶۴ئ“ سررئیلی اسلوب میں لکھا گیا ہے۔ اس میں ایک طرف مَیں، تم اور وہ ایک دوسرے سے ادلتے بدلتے ہیں تو سامنے اور عقب، محبت اور سیاست، فرد اور سماج، واقعہ اور فنتاسی، مکالمہ اور خود کلامی ساتھ ساتھ، ایک دوسرے سے کندھا ملاتے، ٹکراتے موجود ہیں۔ افسانے میںبظاہر مختلف، زمانی ومکانی طورپرجدا واقعات ایک سلسلۂ خیال میں بندھ گئے ہیں؛ اندر کی آوازیں، باہر کی صورتوں پر مسلط ہوتی، اور انھیں تہ و بالا کرتی محسوس ہوتی ہیں؛ لاشعور کے تاریک خیالات، شعور کی روشن دنیا میں در اندازی کرتے، اور ایک خوف و ترحم کی متضاد حالتوں کو تحریک دیتے محسوس ہوتے ہیں۔ اسی سررئیلی اسلوب کی وجہ سے وجودی تجربہ، سیاسی جہت سے گتھ متھ جاتا ہے۔ یہ حصہ دیکھیے:</p> <blockquote> <p>”مارگریٹ مرگئی اور اسے مرے ہوئے بہت دن ہوگئے!“</p> <p>”وہ تمھارے پاس تھی، تم نے اسے مرنے کیوں دیا؟“</p> <p>”میں کیا کر سکتا تھا؟“</p> <p>”ہاں تم کیا کر سکتے تھے“۔</p> <p /> <p>”بابو جی وہ کتابیں آگئی ہیں!“ </p> <p>”کتابیں ؟“</p> <p>”جی ہاں، ہٹلر: اے سٹڈی ان ٹائرنی اور پارٹیشن ٹریجڈی!“</p> <p>”باندھ دو!“</p> <p>…</p> <p>…</p> <p>…</p> <p>اسٹالین، روز ویلٹ، چرچل صاحب! آپ نے ہٹلر کے ہاتھوں ساٹھ لاکھ جیوز کو کیوں مرنے دیا؟</p> <p>ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے؟</p> <p>گاندھی، جناح، نہرو، لیاقت صاحب، آپ نے لاکھوں لوگو ںکو فسادات کی بھینٹ کیوں چڑھنے دیا؟</p> <p>ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے!</p> <p>کتنا گھپلا ہے؟</p> <p>مارگریٹ مر گئی، خدا کے پاس ہے۔ مارگریٹ کو مرے ہوئے بہت دن ہوگئے ہیں۔ ایکس ٹرمینشن آف جیوزکو بہت ہوگئے ہیں۔ پارٹیشن ٹریجڈی ہوئے بھی بہت دن ہوگئے ہیں۔</p> </blockquote> <p>کتنا گھپلاہے؟</p> <p>یہ نسبتاً طویل اقتباس اس لیے درج کیا ہے کہ مین را جو کچھ لکھتے ہیں، اس کی تلخیص ممکن نہیں۔ آپ مین را کو اپنے لفظوں میں نہیں دہرا سکتے۔ وہ لسانی اظہار کے بیش از بیش امکانات کو کھنگالتے ہیں۔ نیز بیانیے میں خاموشی، استفہام، وقفے، قوسین، خط، نکتے کا ایسا اہتمام کرتے ہیں کہ صرف معنی پیدا نہیں ہوتے، ’معنی کا تاثر‘، خیال کی تصویر، لکھے ہوئے لفظ کی آواز بھی پیدا ہوتی ہے۔ (ان کے افسانوں کو شاعری کی طرح رک رک کر پڑھنے کی ضرورت ہے)۔ گویا وہ اپنے افسانوں میں ’کثیر آوازی‘ یعنی <annotation lang="en">polyphony</annotation> کی صفت پیدا کرتے ہیں۔ آپ دیکھیے کہ اس افسانے میں کیسے ایک شخصی نوعیت کا واقعہ، قومی اور عالمی سیاسی واقعات سے جڑ گیا ہے۔ مارگریٹ کی موت، ہٹلر کی جارحیت اور پارٹیشن کے المیے سے وابستہ ہو گئی ہے۔ افسانے کے بیان کنندہ یعنی مَیںکا شخصی صدمہ اس بنا پرمزید گہرا ہو گیا ہے کہ اس میں ’وہ‘ یعنی یہودیوں کا قتل عام اور ’تم‘ یعنی ہندوئوں، مسلمانوں اور سکھوں کی اموات شامل ہو گئی ہیں۔ واضح رہے کہ اس افسانے میںمارگریٹ کی موت، اور یہودیوں اور ہندوستانیوں کی موت، ایک مشترک نکتہ تو ہے، مگر اس تحریر کو جو چیز آرٹ میں بدل رہی ہے، وہ رمزیہ طنز یعنی ’آئرنی‘ ہے۔ یہ کیسی ’آئرنی‘ یا مین را کے لفظوں میں گھپلا ہے کہ ”مارگریٹ کو مرے ہوئے بہت دن ہوگئے ہیں۔ ایکس ٹرمینشن آف جیوزکو بہت ہوگئے ہیں۔ پارٹیشن ٹریجڈی ہوئے بھی بہت دن ہوگئے ہیں۔ “کسی سے کچھ نہیں ہو سکا؛نہ انھیں بھلایا جا سکا، نہ وقت زخموں کو بھرسکا، نہ یہ سمجھا جا سکا کہ ان سب واقعات کو ہونے سے روکا کیوں نہ گیا۔ مارگریٹ کو مرنے سے سرجیت نہیں بچا سکا؛اور روس کااسٹالن، امریکاکا روز ویلٹ، برطانیہ کاچرچل، جرمنی کے ہٹلر کو یہودیوں کے قتل عام سے نہیں روک سکے؛ نیز بھارت کے نہرو، پاکستان کے جناح اور لیاقت فسادات کو نہیں روک سکے۔ کیسا گھپلا یعنی کیا ظلم، کیا آئرنی ہے! سب صاحبانِ اختیار اس قدر بے اختیار نکلے! یا شاید جتنابے بس یا غافل سرجیت تھا، اتنے ہی بے بس یا غافل قومی و عالمی لیڈر بھی تھے۔ اس سے بڑھ کر آئرنی کیا ہو سکتی ہے کہ شخصی، قومی اور عالمی سطح پر ایک جیسا ’گھپلا‘ ہو! اور اس کے علم کے باوجودآدمی جینے پر مجبور ہو، اور اپنی اس مجبوری کو محسوس بھی کرتا ہو۔ </p> <p>مین را اپنے افسانوں میں طرح طرح کے ’افسانوی التباسات‘ پیدا کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ فکشن کے ذریعے، ’فکشن کی حقیقت خلق کرنے‘ کی اہلیت کو پوری طرح کھنگالنا چاہتے ہیں۔ وہ اس تناقض کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ فکشن، عظیم انسانی صداقتوں کو پیش کرتا ہے، مگران تک رسائی کے لیے طرح طرح کے جھوٹے واقعات، فرضی کردار، تخیلی صورتِ حال گھڑتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں حقیقت و فنتاسی، روشنی و تاریکی، مشاہداتی واقعیت اورتخیلی ہیولے ایک دوسرے کو مسلسل تہ و بالا کرتے رہتے ہیں۔ ان کا افسانہ، حقیقت و فنتاسی میں سے کسی ایک کو افسانوی عمل اور بیانیہ عمل پر حاوی ہونے نہیں دیتا۔ جن افسانہ نگاروں کے یہاں حقیقت و فنتاسی میں سے کوئی ایک حاوی ہو جاتی ہے تو ان کا افسانہ یا تو سامنے کی واقعاتی صورتِ حال کا صحافیانہ چربہ بن جاتا ہے، یا پھرمحیر العقول فنتاسی، جس کا مقصد فقط تفریح ہوتا ہے، یا ایک طرح کا مداری پن۔ مین را سامنے کی واقعاتی صورتِ حال کو بھی افسانے میں جگہ دیتے ہیں، دہلی، کناٹ پلیس، کافی ہائوس، ماڈل ٹائون وغیرہ کا ذکر بھی کرتے ہیں، مگر ان کے اردو گرد، ان کے پہلو میںایک تخیلاتی دھندلکا بھی اگاتے ہیں۔ مین راسامنے کی معمولی چیزوں، روزمرہ کے عام واقعات کے ذریعے زندگی کے بعض بنیادی سوالات تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھوں نے کچھ انتظار حسین کی طرح پرانی اساطیرکی طرف رجوع نہیں کیا۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے افسانے سے ایک نئی اسطورہ تشکیل پاتی محسوس ہوتی ہے۔ اس امر کی مثال میں افسانہ ”مقتل“ اور ”وہ“ پیش کیا جاسکتا ہے۔</p> <p>”مقتل“ ایک جدید اسطورہ ہے۔ یہ اسطورہ عبارت ہے، ایک آدمی کی بے رحم، لاتعلق، ویران، سیاہ دنیا میں، اس کے خلاف جدوجہد سے۔ وہ خود کو سنگین دیواروں کے ایک بند تاریک کمرے (جس پر قید خانے کا گمان ہوتا ہے) کے باہر پاتا ہے؛ اسے معلوم نہیں کہ اسے کون وہاں، کب پٹخ گیا تھا؛وہ ماضی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ؛اسے ایک صورتِ حال درپیش ہے کہ اسے دیواروں پر لگی کیلوں سے الجھتے ہوئے چھت پر پہنچنا ہے۔ وہ بھوک، پیاس، ویرانی، سیاہی، دیوار، نوکیلی کیلیں اور وقت، سب کے احساس سے عاری ہو چکا ہے مگر اسے ناقابلِ بیان لذت کا احساس ہے۔ یہ انوکھی لذت ہے کہ جس کی طلب بیٹھے بیٹھے ہنسا دے اور بیٹھے بیٹھے رلا دے۔ یہ زخم کی لذت ہے۔ زخم کی لذت ہی میں پیراڈاکس ہے کہ اس کی طلب بیک وقت ہنسا اور رلا سکتی ہے۔ اس پیراڈاکس کی وجہ ہی سے وہ اس لذت کا اسیر نہیں ہوتا، اور سیاہی اور ویرانی سے باہر نکلنے کی جی توڑ کو شش کرتا ہے۔ چھت کے شیشے کو پتھر سے (جسے اس نے نیچے سے اوپر چھت کی طرف پھینکا تھا) توڑتا اور روشنی کو اندر آنے دیتا ہے۔ پھر خود کمرے میں کود جاتا ہے۔ آدمی کی یہ ساری جدوجہد، جدوجہد کا طریقہ، ویرانی و سیاہی سے نکلنے کے سلسلے میں استقامت ہمیں ایک اسطوری ہیرو (مثلاً سسی فس کی) کی یاد دلاتی ہے۔ روشنی کے اندر آنے سے کمرہ بدی کی روشنی سے چمکنے لگتا ہے۔ قدیم میز کی چھاتی میں چاقو پیوست ہے۔ چاقو کے پھل کا حصہ جو میز کی چھاتی سے باہر رہ گیا ہے، اسی سے بدی کی روشنی نکل رہی ہے۔ ’بدی کی روشنی‘ اسی طرح کا ایک پیرا ڈاکس ہے جس طرح کی وہ لذت جس کی طلب آدمی کو ہنسادے، رلا دے۔ نیز یہ کتنی بڑی آئرنی ہے کہ آدمی ویران، سیاہ دنیا سے باہر آنے کی جدوجہد کرتا ہے مگر اس کا سامنا بدی کی روشنی سے ہوتا ہے۔ یہ افسانہ اس لیے بھی جدید اسطورہ ہے کہ یہ جدید انسان کی جدوجہد میں کلاسیکی عہد کی استقامت و اخلاص کو ظاہر کرتا ہے، مگر جدوجہد کے نتیجے کی مہملیت کو پیش کرتا ہے۔ ’بدی کی روشنی‘ سے چمکنے والے کمرے میں موجود میز پر ایک بوسیدہ جلد والی فائل ہے، اور دیواروں پرتین تصویریں ہیں؛ایک بوڑھے شخص، ایک بوڑھی عورت اور ایک جو ان عورت کی۔ فائل میں انھی تصویروں سے متعلق معلومات ہیں۔ بوڑھے مرد نے لاعلمی کے جرم کی پاداش میں گلے میں پھندا ڈال کر خود کشی کی ؛بوڑھی عورت نے معصومیت کے جرم کی سزا میں دودھ میں زہرملا کر موت کو گلے لگایا؛اور جو ان عورت نے فریب کے جرم میں سینے میں گولی کھاکر موت سے ہمکنار ہوئی۔ کمرے میں چاقو موجود ہے، مگر تینوںکو قتل کرنے میں چاقو سے مدد نہیں لی گئی۔ اسی فائل میں ایک کاغذ پر اس آدمی کا جرم لکھا گیا تھا اور سزا بھی تجویزکی گئی تھی۔ ”اے کہ تونے مجرموں سے سمبندھ رکھا، تیری سزا عمر بھر کی قید تنہائی ہے“۔ اپنے بارے میں پڑھ کر آدمی اسی پتھر کو اٹھاتاہے، جس سے اس نے بند کمرے کا چھت پرسے شیشہ توڑ کر اندر داخل ہوا تھا، اور اس پتھر سے اپنی پیشانی پر ضرب لگاتا ہے۔ کیوں؟ اس کا جواب افسانہ نگار نے اپنے قارئین پر چھوڑ دیا ہے۔ شاید وہ اپنی تقدیر کے خلاف احتجاج کرتا ہے؛یا شاید اپنا ماتھا پھوڑ کر اپنی بے بسی کا اظہار کرتا ہے۔ افسانے کا آخری جملہ ہے ”وہ پتھر اب بھی میرے پاس ہے“۔ گویا جس پتھر سے اس نے کمرے میں داخل ہونے کا راستہ بنایا تھا، اور بعد میں جس سے اپنی پیشانی پر ضرب لگائی تھی، اسے اپنے پاس محفوظ رکھاہے؛ اسے بیکار سمجھ کر پھینک نہیں دیا گیا؛کل اس سے کوئی اور راستہ نکالا جاسکتا ہے، خود کو یا کسی اورکو زخمی کیا جاسکتا ہے ؛کسی کے خلاف احتجاج کیا جاسکتاہے۔ پتھر افسانے کا اہم موتیف ہے۔</p> <p>یہ افسانہ تاریخ کے اندر سفر کی اسطوری جدوجہد کی علامت کہا جا سکتا ہے۔ اس سفر میں آدمی پر کھلتا ہے کہ تاریخ ایک مقتل ہے۔ اس مقتل کو مقفل رکھا گیا ہے؛ اس تک رسائی ایک پر صعوبت اورصبر آزما سفر کے بعد ممکن ہے۔ تاریخ کو گہری تاریکی میں مخفی رکھا گیا ہے، جس کے باطن میں ’بدی کی روشنی‘ جگمگا رہی ہے۔ یہ بدی کی روشنی کیا ہے؟ یہی کہ تاریخ میں ان لوگوں کے نام روشن حروف سے لکھے گئے ہیں جنھوں نے انسانیت کے خلاف جرم کیے۔ انھوں نے ان جرموں پرلوگوں کو موت کی سزا دی جو جرم تھے ہی نہیں۔ لاعلمی، معصومیت اور فریب کو باقاعدہ جرم قراردے کر ان کا دستاویزی ثبوت باقی رکھا گیا ہے۔ یہی نہیں، آنے والے لوگوں کے لیے بھی سزا تجویز کر دی گئی ہے۔ یعنی جو اس تاریخ کی تحقیق کریں گے، اس کی اصل تک رسائی کی سعی کریں گے، انھیں ’مجرموں‘ کا ساتھی سمجھا جائے گا، اور ان کے لیے تاعمر قید تنہائی ہے۔ یہاں بھی وہی آئرنی ہے جو مین را کے دیگر کئی افسانوں میں ہے۔ جو حقیقت کو جانتا ہے، اسے تنہائی کا عذاب جھیلنا پڑتا ہے۔ نیز اس جانب بھی اشارہ ہے کہ جو لاعلم ہوتا ہے، یا معصوم (یعنی کچھ نہیں جانتا) اس کی ’سزا‘ موت ہے۔ یہاں لاعلمی اور موت کی سزا دونوں پر رمزیہ طنز ہے۔ آئرنی تو یہ بھی ہے کہ تاریخ اور اپنی تقدیر کا سامنا کرنے کے لیے آدمی کے پاس پتھرہے!</p> <p> یہ افسانہ اس لیے بھی ایک جدید اسطورہ ہے کہ یہ ماضی کا ایک تاریک تصور پیش کرتا ہے۔ جدید ادب میں ماضی سے، اجداد سے، روایت سے ایک شدید نوعیت کی بے زاری، اور بعض صورتوں میں نفرت پائی جاتی ہے؛بعض ریڈیکل جدیدیت پسند خود کو اپنے باپ کی نافرمان اولاد کہنے میں فخر محسوس کرتے رہے ہیں۔ نیز جدید ادب ماضی کی عظمت کے کسی پر شکوہ بیانیے پر سخت شبہے کا اظہار کرتا ہے۔ جو کچھ ’آج‘ درپیش ہے، اس کے اندر، اور اس کی وساطت سے زندگی کے چھوٹے بڑے معانی سمجھنے کی سعی کی جاتی ہے۔ اس تھیم کو مین را کا افسانہ ”وہ“ پیش کرتا ہے۔</p> <p>”وہ“ مین را کے بہترین افسانوں میں شامل ہے۔ افسانہ زیادہ تر چھوٹے اور کچھ بڑے جملوں میں لکھا گیا ہے۔ یعنی پیرا گراف نہیں بنائے گئے۔ اس سے افسانے میں ایک نسبتاًتیز ٹیمپو پیدا کرنے کی فنی کو شش کی گئی ہے۔ یہ ٹیمپو افسانے کے مرکزی کردار ’وہ‘ کے اضطراب سے ہم آہنگ ہے۔ افسانہ ایک معمولی سے واقعے کے گرد گھومتا ہے۔ دسمبر کی سرد رات کے دوبجے مرکزی کردار کی اچانک آنکھ کھلتی ہے۔ وہ فوراً بیڈ ٹیبل سے سگریٹ کا پیکٹ اٹھا تا ہے، سگریٹ نکال کر لبوں میں تھامتا ہے، اور ماچس تلاش کرتا ہے۔ ماچس خالی تھی؛اسے وہ زورسے پٹخ دیتا ہے۔ ٹیبل لیمپ جلا کر کمرے میں دوسری ماچس تلاش کرتا ہے، مگرسب خالی ماچسیں ملتی ہیں۔ پورا کمرہ چھان مارتاہے۔ کوئی دیا سلائی نہیں ملتی۔ ”سگریٹ اس کے لبوں میں کانپ رہا تھا۔ سلگتے سگریٹ اور دھڑکتے دل میں کتنی مماثلت ہے!“ وہ چادر کندھوں پر ڈال کر باہر نکل آتا ہے۔ حلوائی کی دکان کے پاس پہنچتا ہے کہ شاید بھٹی میں کوئی دہکتا کوئلہ مل جائے۔ جونہی وہ بھٹی میں جھانکتا ہے، حلوائی کا ملازم جاگ پڑتا ہے، اور اسے کہتا ہے کہ ”ماچس سیٹھ کے پاس ہوتی ہے۔ وہ آئے گا اور بھٹی گرم ہوگی“۔ وہ پھر سڑک پر آجاتا ہے۔ وہ چلتا رہتا ہے، راستے اور وقت سے بے خبر ہو کر۔ اسے صرف یہی دھن ہے کہ اسے سگریٹ سلگانا ہے۔ راستے میں کئی لمپ پوسٹ آتے ہیں، مگر ان کی مدھم روشنی فی الوقت اس کے کام کی نہیں۔ وہ چلتے چلتے ایک مرمت طلب پل کے پاس پہنچتا ہے جہاں سرخ کپڑے میں لپٹی ہوئی ایک لالٹین لٹکی ہوئی ہے۔ وہ لالٹین سے سگریٹ سلگانے ہی لگتا ہے کہ سپاہی اس کی طرف بڑھتا ہے۔ اسے تھانے لے جایا جاتا ہے، جہاں سب سگریٹ پی رہے ہیں۔ ان سے وہ ماچس طلب کرتا ہے مگر ذراسی تفتیش کے بعد اسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ”ماچس کہاں ملے گی ؟نہ ملی تو ؟“ یہی سوچتے سوچتے، اور وقت، لیمپ پوسٹوں، سڑک اور بدن سے بے خبر وہ گرتا پڑتا سڑک پر چل رہا تھا۔ صبح ہو جاتی ہے۔ وہ دم بھر کو رکتا ہے، اور کیا دیکھتا ہے کہ سامنے سے کوئی آرہا تھا۔ اس کے لبوں میں بھی سگریٹ کانپ رہا ہے۔ اور وہ پوچھتا ہے کہ آپ کے پاس ماچس ہے ؟وہ حیران رہ جاتا ہے کہ اس سے ماچس طلب کی جارہی سے جس کے لیے وہ آدھی رات سے بھٹک رہا تھا۔ دونوں اپنے اپنے راستے پہ چلے جاتے ہیں۔ </p> <p>بظاہر یہ سادہ سا افسانہ ہے، مگر اس میں اچھی خاصی معنوی تہ داری ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ معنوی تہ داری محض سگریٹ کو علامت بنانے کی مدد سے پیدا نہیں کی گئی۔ سرسری نظر میں یہ افسانہ سگریٹ نوشی کی علت کی مضحکہ خیزی کو پیش کرتا ہے۔ (افسانے میں دومقامات پر ’وہ‘ خود سے یہ سوال کرتا ہے کہ اس نے یہ علت کیوں پال رکھی ہے ؟) اگر افسانہ بس اسی معنی تک محدود ہوتا تو اسے مین را کا بہترین افسانہ کہنا پرلے درجے کی بد مذاقی ہوتی۔ گہری نظر سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ افسانے میں کچھ غیر معمولی معانی ہیں۔ مثلاً یہ دیکھیے کہ سگریٹ سلگانے کے لیے ماچس کی تلاش میںجس سنجیدگی، اندر کے گہرے اضطراب، اور ہر شے سے بے خبری کا ذکر ہوا ہے، ان سے ہمارا دھیان عظیم مقاصد کے حصول کی لگن کی طرف جاتا ہے۔ دیکھیں تو سگریٹ جیسی معمولی شے، اور اس کے لیے دیا سلائی کی تلاش کی غیر معمولی لگن میں کوئی مناسبت محسوس نہیں ہوتی۔ اسے ہم کسی حد تک ایک ’گروٹیسک‘ صورتِ حال کَہہ سکتے ہیں۔ اس میں اگرچہ وہ کراہت نہیں جو گروٹیسک سے مخصوص ہے، مگر معمولی اور غیر معمولی، حقیر اور عظیم کا تضاد ضرور ہے۔ یہ تضاد ہمیں جدید عہدکی ایک بنیادی سچائی سے آگاہ کرتا ہے: انسانی ہستی کے بڑے معانی کی جستجو کا میدان، حقیقی روزمرہ اور درپیش زندگی ہے ؛جدید انسان ماضی کے کبیری بیانیوں، بڑے بڑے نظریات، پر شکوہ عقائدکے سلسلے میں سخت متشکک ہے۔ کلاسیکی فکشن کا ہیرو، ہستی میں معنی پیدا کرنے یا ہستی کے معانی کی تلاش کے لیے نامعلوم مقامات کا طویل، پر صعوبت سفر کرتا تھا، (حاتم طائی کے اسفار یا، یا پریم پچیسی کی کہانیاں یا دکیجیے) مگر جدید فکشن کا ہیرو (جو زیادہ تر متوسط اور نچلے متوسط طبقے کا فرد ہے) اپنی عام زندگی، اور اس کی معمولی چیزوںمیں ہستی کے معانی تلاش کرتا ہے؛ وہ اپنی روزمرہ زندگی میں شامل اشیا، مشاغل، لوگوں، سیاست، سماج سب چیزوں کے اثر و معنی کو اپنے اندر ٹٹولتا ہے۔ جدید فکشن میں ہستی کے معانی کی ’عظمت‘ اور عام زندگی کے ’معمولی پن‘ کا تضاد واضح رہتا ہے۔ مین را کے انسان کی دنیا ”یہ، اس لمحے، آج“ سے عبارت ہے، نیزیہ دنیا ’آج‘ کی اس معنویت کی حامل ہے جسے انسان خود اپنے تجربے سے طے کرتا ہے۔ یعنی جدید انسان کی دنیا معانی سے خالی نہیں، ’غیر‘ کے قائم کردہ معانی کے انکار سے عبارت ضرور ہے۔</p> <p>افسانے میں نقطۂ ارتکاز یعنی <annotation lang="en">focalisation</annotation> کیا ہے؟ کیا سگریٹ یا اس کی علت ہے؟ بجا کہ دونوں کا ذکر ضرور ہے، مگر افسانے میں ’وہ‘ کی جس ذہنی و احساسی حالت کو منکشف کرنے پر زور دیا گیا ہے، وہ ’ماچس یعنی آگ‘ کے نہ ملنے کی ہے۔ ایک ایسی شے، جس کی شدید طلب وہ اچانک آنکھ کھلنے کے بعد کرتا ہے۔ اس پر منکشف ہوتا ہے کہ وہ شے اس کی زندگی سے، اور باہر کی دنیا میں غائب ہے۔ افسانے میں ہمیں یہ جملہ ملتا ہے: ”ایک بار آنکھ کھل جائے، پھر آنکھ نہیں لگتی“۔ ’وہ‘ کی آنکھ کھلی ہے، اور اسے معلوم پڑتا ہے کہ اس کی زندگی سے آگ غائب ہے۔ یہ ایک انکشاف کا لمحہ ہے؛ وہ ہرشے کو تہ و بالا کرڈالتا ہے، مگر اس کی یہ ساری کوشش اسے فقط یہ باور کراتی ہے کہ اس کی زندگی سے آگ غائب ہے۔ یہاں سگریٹ سلگانا، خود کو زندہ رکھنے کی شدید آرزو کی علامت بن گیا ہے۔ اس بات کی تائید اس جملے سے بھی ہوتی ہے ”سلگتے سگریٹ اور دھڑکتے دل میں کتنی مماثلت ہے“۔ وہ آگ کی تلاش میں، وقت، راستے، بدن سے بے خبر ہو کر مارا مارا پھرتا ہے۔ اسے آگ کہیں سے نہیں ملتی۔ حلوائی کی دکان پر اسے پتا چلتاہے کہ آگ سیٹھ کے پاس ہے، اور جب وہ لیمپ سے آگ ’چرانے‘ کی کوشش کرتا ہے تو اسے تھانے لے جایا جاتا ہے، جہاں آگ موجود ہے، مگر اسے دھتکار دیا جاتا ہے۔ ایک زاویے سے دیکھیں تو یہاں سماج کے استبدادی اداروں پر طنز کیا گیا ہے، جو اس آگ پر قابض ہو کر عام آدمی کو اس سے پرے رکھتے ہیں۔ یہ سیاسی معنی قدرے واضح ہونے کے باوجود کچھ زیادہ اہم نہیں۔ افسانے کے اس حصے کی قرائت یوں بھی تو ہو سکتی ہے کہ ’وہ‘ اس الیوژن کا شکار تھا کہ اسے وہی آگ درکار ہے جو سیٹھ یا سپاہیوں کے پاس ہے۔ وہ آگ باہر موجود ہی نہیں جو اسے چاہیے تھی؛ چونکہ وہ آگ باہر نہیں، اس لیے اس پر کسی کو اجارہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ افسانے کا آخری ٹکڑا مذکورہ الیوژن کو ختم کرتا ہے۔</p> <blockquote> <p>وہ اس کے قریب آکر رکا۔</p> <p>اس کے لبوں میں سگریٹ کانپ رہا تھا۔</p> <p>آپ کے پاس ماچس ہیـ؟</p> <p>ماچس؟</p> <p>آپ کے پاس ماچس نہیں ہے؟</p> <p>ماچس کے لیے تو میں…</p> <p>وہ اس کی بات سنے بنا ہی آگے بڑھ گیا۔</p> </blockquote> <p>پو پھٹے ’وہ‘ کا سامنا ’وہ‘ سے ہوتا ہے۔ یعنی تاریکی چھٹ گئی ہے، اور الیوژن دور ہو گیا ہے۔ ’وہ‘ کی ملاقات ’خود‘ سے ہوتی ہے۔ دونوں کے منھ میں سگریٹ کانپ رہا ہے، اور دونوں کو ماچس چاہیے۔ رات بھر سڑک پر مارے مارے پھرنے والے ’وہ سے ’خود‘ حیران ہو کر پوچھتا ہے کہ اس کے پاس ماچس نہیں ہے ؟یعنی کیا واقعی اس کے پاس آگ نہیں ہے؛یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کے پاس آگ نہ ہو۔ جب وہ عذر تراشنے لگتا ہے تو پوپھٹے رونما ہونے والا ’وہ‘ بات سنے بغیر آگے بڑھ جاتا ہے، یعنی یہ کہتے ہوئے کہ کمال ہے، اسے اپنی ہی آگ کا علم نہیں، یا یہ کیسا آدمی ہے جو اپنا انکار <annotation lang="en">(disown)</annotation> کر رہا ہے۔ ایک اور بات بھی توجہ طلب ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ افسانے کا پہلا حصہ حقیقت نگاری کا نمونہ ہے ؛یہاں ماڈل ٹائون، راستہ، راستے میں لگے لمپ پوسٹ، حلوائی کی دکان، ٹوٹا ہوا پل، پولیس اسٹیشن، سپاہی، ان کا کرخت رویہ سب کچھ جانا پہچانا ہے، مگر آخری مختصر ٹکڑا ایک قسم کی فنتاسی ہے۔ ہم اچانک باہر کی مانوس دنیا سے اندر کی اجنبی، دھندلی دنیا میں داخل ہوتے ہیں۔ یہاں ’وہ‘ کا سامنا ’وہ‘ سے ہوتا ہے۔ ان کی گفتگو کو آپ ہم کلامی کہیے یا خود کلامی، ایک ہی بات ہے۔ ایک زاویے سے یہ حصہ ’وہ‘ کی دو میں تقسیم کی طرف اشارہ کرتا ہے، یا ’وہ‘ کے دوہرے وجود کی فنتاسی ابھارتا ہے، اور دوسرے زاویے سے ’وہ‘ کی خود شناسی کی خبر بھی دیتا ہے جو ’وہ‘ کی گھر واپسی کے سفر کے بعد ممکن ہوئی ہے۔</p> <p>مین را کے افسانوں میں سیاہی و موت کے سلسلے میں ایک فنکارانہ ذہن کی جدوجہد ملتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مین را کے افسانوں کا ہیرو (اگرچہ جدید افسانہ، ہیرو کے کلاسیکی تصور کا مضحکہ اڑاتا محسوس ہوتا ہے) یا زیادہ مناسب لفظوں میں کبیری کردار <annotation lang="en">(protagonist)</annotation> ایک جدیدآرٹسٹ ہے۔ ان کے اکثر افسانوں میں دنیا، ذات، آج، کل، میں، تو، وہ اور ان سب کی کشمکش کا جوتصور ظاہر ہوا ہے، وہ ایک ’جدید حسیت کے حامل‘ فنکار کاہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انھوں نے سوانحی افسانے لکھے ہیں۔ بلاشبہ ان کے افسانوں میں سوانحی عناصر ہیں؛جیسے اکثر افسانوں میں دہلی، کناٹ پلیس اور اس کے کافی ہائوس، ماڈل ٹائون، ہسپتال اور ان جگہوں کا ذکر ملتا ہے جن سے مین را کا تعلق رہا ہے۔ نیز کچھ افسانوں میں مین را نے، منٹو کی طرح اپنا اصل نام تک لکھا ہے۔ مگر یہ سوانحی عناصر افسانے میں شامل ہو کر اپنی مخصوص سوانحی حقیقت کو افسانوی عمومیت میں تحلیل کر دیتے ہیں۔ سوانحی واقعیت، افسانوی داخلیت و اشاریت میں بدل جاتی ہے۔</p> <p>یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ مین را نے اپنے افسانوی ہیرو کے لیے فنکار کا انتخاب کیوں کیا؟ نیز کیا اس سے ان کے افسانے محدود یا ایک خاص ذہنی صورتِ حال میں مقید ہو کر نہیںرہ گئے؟ یہ سوال اس حقیقت کے سیاق میں زیادہ اہم ہو جاتا ہے کہ دنیا کے بڑے فکشن میںزندگی کے مختلف، متنوع، متضاد، تکثیری پہلوملتے ہیں۔ باختن ایسے فکشن کو مکالماتی <annotation lang="en">(dialogical)</annotation> کہتے ہیں۔ یعنی فکشن نگار محض زندگی کو محض ایک زاویے یا تناظر میں پیش کرنے کے بجائے، مختلف و متنوع تناظرات میں پیش کرتا ہے۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ مین را کے یہاں ہمیں تنوع، تضاد، تکثیریت کے عناصر ملتے ہیں؛ تاہم ان کی نوعیت ’سماجی‘ نہیں، ’نفسیاتی‘ ہے۔ یعنی مین را نے سماج کے مختلف طبقات، مختلف زاویۂ نظر کے حامل افراد، زندگی وسماج کی متنوع صورتِ حال سے متعلق سیدھے سادے انداز میں افسانے نہیں لکھے، مگر اپنے افسانوں میں ایک ایسی نفسی حالت کو ضرور جگہ دی ہے، جو تضاد وتنوع کواپنی گرفتِ فہم میں لاسکتی ہے، اور زندگی سے متعلق ایک خاص (فنکارانہ) بصیرت کو تخلیق کر سکتی ہے۔ لہٰذاہم کَہہ سکتے ہیں کہ ان کا افسانہ کسی محدود ذہنی صورتِ حال میں مقید نہیں ہوا، بلکہ ایک خاص فنکارانہ بصیرت کا حامل بناہے۔ نیز ان کے کچھ افسانوں میںزندگی سے ایک جمالیاتی رشتہ قائم کرنے پر اصرار ملتا ہے (مثلاً ”ہوس کی اولاد“ )۔ یہاں تک کہ خود کشی میں بھی جمالیاتی قدروں کے احترام پرزور ملتا ہے (مثلاً افسانہ ”بے زاری“ )۔ جہاں تک فنکار کو اپنے افسانوی کردار کا پروٹو ٹائپ بنانے کا سوال ہے تو (ان کے افسانوں کو پڑھ کر) یہ وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ ہستی، وجود، سماج، وقت، تقدیرکے ساتھ ایک پر جوش تخلیقی رشتہ استوارکرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں کے تمام مرکزی کردار ایک ولولہ انگیزتخلیقی لمحے یا تجربے کی تلاش میں نظر آتے ہیں؛ وہ دنیا و تقدیر کے سلسلے میں ایک منفعل رویہ نہیں رکھتے؛وہ اپنی حقیقت، اپنی تقدیر، اپنی حالت خود خلق کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ بجا کہ وہ خود کو تاریکی، سیاہی، موت، ویرانی، تنہائی، بیگانگیت میںمحصور پاتے ہیں، مگر وہ منفعل نہیں ہیں؛ وہ اپنی حالت کو، اس کی پوری شدت کے ساتھ، اور پورے اخلاص کے ساتھ محسوس کرتے ہیں؛وہ اسے باوقار انداز میں قبول کرتے ہیں؛ وہ اپنے اندر کی خباثتوں، ہوس، موہ، کرودھ، انتقام، انا پرستی اور دیگر کمزوریوں کو تسلیم کرتے ہیں، یعنی اپنی بشریت کی ملکیت کو قبول کرتے ہیں؛ وہ خود سے بھاگ کر کسی تخیلی، مابعد الطبیعیاتی دنیا میں پناہ نہیں لیتے؛ مگر وہ روشنی کی تلاش کرتے ہیں۔ ان کا روشنی کا تصور بھی بشری ہے ؛انھیں ایک ایسی روشنی کی جستجو ہے جو زندگی، اور اس کی فنا پذیری کے ساتھ ایک والہانہ، تخلیقی رشتے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ”کوئی روشنی، کوئی روشنی“ کے سلسلے کے تین افسانے قابلِ ذکر ہیں۔ </p> <p>”کوئی روشنی، کوئی روشنی“ کے افسانوں کا آغاز خلیل الرحمن اعظمی کے اس شعر سے کیا گیا ہے۔</p> <verse> میں شہیدِ ظلمتِ شب سہی مری خاک کو یہی آرزو کوئی روشنی، کوئی روشنی، کوئی روشنی، کوئی روشنی </verse> <p>اس شعر میں واقعیت اور خواب کی جدلیت ملتی ہے؛ متکلم کے لیے ظلمت ایک واقعہ ہے، مگر اس کا خواب اور آرزو یہ ہے کہ اسے کوئی روشنی مل جائے۔ گویا متکلم ایک حالت کو جی رہا ہے، اور اس کے برعکس حالت کی آرزو کر رہا ہے۔ تاہم مین را کے افسانے اس شعر کی تفسیر نہیں ہیں۔ مین را کے افسانوں کاہیرو، جس کا نام گیان ہے، اور وہ ایک افسانہ نگارہے، اسے ’کوئی روشنی‘ نہیں ’اپنی روشنی‘ چاہیے۔ پہلے افسانے میں ستائیس سالہ، دبلے پتلے گیان کے شب وروز کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ وہ اکیلا رہتا ہے۔ ایک ہسپتال کی لیبارٹری میں ملازمت کرتا ہے۔ شام کو ٹی ہائوس میں پہنچتا ہے؛ اپنے ادبی دوستوں سے بات چیت کرتا ہے۔ رات کو گھر آتاہے۔ چائے سگریٹ کا شوقین ہے۔ صبح، رات جس وقت کوئی خیال گرفت میں آجائے، لکھنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کے کمرے میں ایک کیلنڈر اور ایک تصویر ہے۔ تصویر البیرکا میو کی ہے، جس کی ”آنکھوں سے یاسیت جھلک رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ خود کشی کی پیچیدگیوں میں کھوگیا ہے“۔ گیان کوان کیلنڈروں سے وحشت ہے جن پر اوتاروں اور سیاسی لیڈروں کی تصویریں ہوں۔ یہ دونوں باتیں گیان کے سماج کے ساتھ رشتے پر روشنی ڈالتی ہیں۔ اسے کامیو پسند ہے، مذہبی و سیاسی رہنما نہیں؛ یعنی وہ اپنی زندگی میںآرٹ اور آرٹسٹ کو تو شامل رکھنا چاہتا ہے، مگر سیاست و مذہب اور ان کے ٹھیکیداروں کو خارج رکھنا چاہتا ہے۔ چنانچہ جب وہ کافی ہائوس کے پاس نہرو کو تقریر کرتے ہوئے سنتا ہے توطنزیہ تبصرہ کرتا ہے: ”یار یہ شخص اپنا علاقہ بھی <annotation lang="en">contaminate</annotation> کر رہا ہے…!“ اگر ہم اس افسانے کو مین را کے دیگرافسانوں سے الگ کر کے پڑھیں تو لگے گا کہ مین را ادب و فن کی دنیا کی خود مختاری میں یقین رکھتے ہیں، اور ریاست و سماج کے کسی ادارے کو ادب و فن کی دنیا میں در اندازی کی اجازت نہیں دیتے۔ لیکن اگر اسے دیگر افسانوں کے ساتھ ملاکراور خود اس افسانے کے بنیادی تھیم (روشنی کے لیے) کی روشنی میں پڑھیںتو دوسری رائے قائم ہوگی۔ گیان اور اس کے دوستوں کاوہ کون سا علاقہ ہے جسے سیاست دان آلودہ کر سکتا ہے، اور کیسے آلود کر سکتا ہے؟ ان کا علاقہ ’اپنی روشنی‘ کی تلاش کا ہے۔ گیان کے قلم سے جب سفید، بے داغ، کنوارے کاغذ پر متناسب الفاط جنم لیتے ہیں تو اس کے ذہن میں سیاہی ابل رہی ہوتی ہے، اور پیٹ میں بھوک۔ وہ اپنے ذہن کی سیاہی کی مددسے اپنی روشنی خلق کرتا ہے۔</p> <p>دہلی شہر میں گیان کا سانس گھٹنے لگتا ہے، تو وہ گائوں چلا جاتا ہے۔ شہر سے گائوں گیان کا، روشنی کی جستجو کا سفرہے۔ یہاں اسے گیان یہ ہوتا ہے کہ ”گرد و غبار سے اٹی ہوئی ایک آدمی کی دنیا …گرد و غبار تہ در تہ اس کی دنیا پر جم چکے تھے اور وہ … ایک آدمی … ایک اکائی جو واضح ہوتے ہوئے بھی غیر واضح تھی“۔ وہ مزید سفر کرتا ہے تو اپنی ذات کو برہنہ حالت میں دیکھتا ہے۔ پھر اسے شمشان گھاٹ کی یاد آتی ہے، جہاں اس نے اپنے باپ کی جلی ہوئی ہڈیاں جمع کی تھیں (غالباً ”آتما رام“ اسی واقعے کی بنیاد پر لکھا گیا ہے)، اور یہ لمحہ ایک ’وجودی تجربے‘ کا ہے، جس کے دوران میں وہ اپنی زندگی کے راستے کا انتخاب کرتا ہے ؛اپنی تقدیرا پنے ہاتھ میں لیتا ہے۔ روشنی کی تلاش کا یہ وہ راستہ ہے جو مین را کا ہیرو اختیار کرتا ہے، اور یہ وہی راستہ ہے جسے ایک جدید تخلیق کار اختیار کر سکتا ہے، اور جس کی مثال کامیو کے یہاں ملتی ہے۔ اس راستے میں گیان بیک وقت بے حس اور شدید حسیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی محبوبہ کے لیے بے حس ہے مگراپنے خالق کے لیے انتہائی زود حس ہے۔ اس کا خالق، اس کا اندر کا آرٹسٹ ہے۔ ”اب اسے محبوبہ نہیں بھاتی، ہاتھوں کا ترانہ بھاتا ہے“۔ ہاتھوں کا ترانہ، ہاتھ میں قلم کی روانی ہے۔ یہ ٹکڑا دیکھیے جس میں گیان نے محبوبہ کے سلسلے میں بے حسی اختیار کرنے کے بعدمحبوبہ کی شبیہہ تخلیق کرتا ہے۔</p> <blockquote> <p>کھلے ہوئے اور کندھے پر پھیلے ہوئے سنہری سیاہ بال، صاف شفاف پیشانی، سیدھی سادی بھنویں، نیم خوابیدہ آنکھیں جیسے نیلی جھیلوں میں دیے لَو دے رہے ہوں، دبے دبے سے گلابی ہونٹ اور چہرے کی سلگتی ہوئی رنگت جیسے لپٹوں کو ڈھال کر شبیہہ کی تشکیل کی گئی ہواور لپٹوں ہی سے ڈھالا گیا اس بے نام ہستی کا بدن، شہد سے بھری ہوئی، جو ان، پکی ہوئی گول چھاتیاں اور ان کی گلابی منھ بند کلیاںجو صرف ہوا اور پانی کے لمس سے مانوس ہیں…سکوت کے پروں پر اڑتی ہوئی آواز دل کی دھڑکن کی طرح محسوس ہوتی ہے …جس کی تصویر لفظوں کی محتاج ہے نہ رنگوں کی…تصور کی محتاج ہے…دیوانے کے خواب کی محتاج ہے…</p> <p>”میں خالق ہوں، دیوانے کے خوابوں کا…خدا…“</p> <p>”خدا۔۔۔۔“</p> </blockquote> <p>یہ اقتباس دنیا اور آرٹسٹ کی دنیا کے باہمی رشتے کی پیچیدگی اور اس کی معمائی صورت <annotation lang="en">(problematic)</annotation> کو واضح کرتا ہے۔ وہ دنیا، سیاست و مذہب کے علم برداروں اور یہاں تک کہ اپنی محبوبہ سے دوری اختیار کرتا ہے، تاکہ وہ ’اپنے خالق‘ سے متعارف ہو سکے۔ خالق سے تعارف ’لکھنے‘ کے دوران میں، لکھنے کے طفیل اور لکھنے سے پیدا ہونے والی موسیقی کے سبب ہوتا ہے؛ یہ خالق ’باہر، ماورا‘ میں نہیں، تخلیق کے دوران میں، تخلیق سے جنم لینے والے سوز وساز میں وجود رکھتا ہے۔ چونکہ یہ خالق ہے، اسے لیے وہ محبوبہ، دنیا، سیاست و مذہب سے بے نیاز ہے ؛کیونکہ وہ ان سب کو (یعنی ان کی شبیہوں کو) خلق کر سکتا ہے؛ لہٰذا ان سب سے اس کی دوری، حقیقت میں دوری نہیںہوتی۔ یہ سب اس کے عملِ تخلیق میں جنم لیتے رہتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ جس تنہائی کا وہ باہر کی دنیا میں شکار ہوتے ہیں، وہ تخلیق میں ختم ہو جاتی ہے؛ ان کا مخفی حسن، ان کا مستو رقبح، نیزوسیع سماجی و فطری تناظر میں ان کی معنویت سامنے آتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ خالق کو اپنی تشکیل دی گئی شبیہہ عزیز ہوتی ہے۔ کیونکہ شبیہہ میں اس کا اعجازِ تخلیق، اس کا سوزو سازظاہر ہوتا ہے؛ شبیہہ میں محبوبہ، سیاست، مذہب کی طرف اشارے ہوتے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ ہو تو شبیہہ <annotation lang="en">contaminate</annotation> ہو جاتی ہے۔ </p> <p>تاہم ’خدا‘ یا فنکار کی دنیا میں وہ سکوت بھی شامل ہے، جس کی تصویر لفظوں میں آسکتی ہے نہ رنگوں میں۔ حقیقت یہ ہے کہ ’خدا‘ یا خالق کی اپنی دنیا یہی ہے، جہاں وہ خاموشی کی موسیقی کو سنتا ہے؛جہاں کچھ دیکھا بھالانہیں ہوتا؛جہاں رنگ، الفاط نہیں ہوتے، صرف ہیئتیں ہوتی ہیں۔ مگر اسی دنیا میں وہ تنہا بھی ہے۔ اپنی روشنی کی تلاش میں خالق او ’ر خدا‘ کو اس تنہائی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، جسے صرف وہی اپنے اندر پید اکرتا، اور محسوس کرتا ہے۔ مین را اس نازک نکتے کو اپنے افسانے میں فراموش نہیں کرتے کہ ایک آرٹسٹ جب خالق یا ’خدا‘ بنتا ہے تو یہ دیوانے کا خواب ہے، اور اس کی قیمت بھی ہے؛ آرٹسٹ اپنی اصل میں بشر ہے، اور یہی اس ہیرو کا ’ہمارشیا‘ ہے، اور اسی میں اس کا المیہ چھپا ہے۔ گیان روشنی کے حصول کے لیے شام ڈھلے گائوں سے پرے ایک ٹیلے پر چلا جایا کرتا تھا۔ ۵ دسمبر کو بھیانک طوفان آیا، بجلی کڑکی اور اس خالق کو ڈس گئی۔ یہ آرٹسٹ اپنی روشنی کی جستجو میں مرگیا۔ افسانے میں معکوس طور پر اس واقعے کی طرف اشارہ ہے کہ گیان موسیٰ نہیں تھا کہ ٹیلے پر جلوہ گر ہونے والی روشنی اس کی نجات دہندہ بنتی۔ کیا آئرنی ہے کہ اس کی روشنی کی تلاش میں کوئی کھوٹ نہیں تھا، پھر بھی وہ المناک انجام سے دوچار ہوا؛ اس کی سعی اخلاص کے باوجود کامیاب نہیں ہوئی۔ اس نے دنیا کو ہجوم کی نظر سے بھی نہیں دیکھا تھا، اپنی آنکھ سے دیکھاتھا، اور اس کے نتیجے میں اسے دنیا بالکل مختلف نظر آئی۔ (اس ’مختلف دنیا‘ میںوہ قیام نہ کر سکا)۔ اس کی اپنی آنکھ ہی اس کی روشنی تھی۔ اس کی روشنی کے حصول کی جدوجہد تو باقی رہ گئی، مگر وہ خود باقی نہیں رہا۔ مین را کا افسانہ خود روشنی پر بھی یہ استفہامیہ قائم کرتا محسوس ہوتا ہے کہ کیا واقعی روشنی موجود ہے؟ ان کے افسانوں میں روشنی کی جستجو میں جان دینے والے کردارتو موجود ہیں، مگرروشنی میں شرابور ہونے کی کسی واردات کا بیان نہیں ملتا؛روشنی کی طرف اندھیرے میں سفر ملتا ہے، مگر کوئی روشن لمحہ نہیں آتا۔ اسے ہم جدید ادب کا ایک بنیادی مسئلہ، یا زیادہ مناسب لفظوں میں ڈائلیمابھی کَہہ سکتے ہیں۔ روشنی اپنی اصل میں ایک مابعد الطبیعیاتی تصور ہے، جسے اس طبیعی دنیا میں حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو ہر طرح کی مابعد الطبیعیات سے انکار کر چکی ہے۔ دوسرے لفظوں میں جدید ادب نے پرانی مابعد الطبیعیاتی دنیا سے خو دکو منقطع کرنے کے بلند بانگ دعوے کے باوجود، اس کی بعض علامتوں کو نہ صرف قائم رکھا، بلکہ ان سے کام بھی لیا؛جدید ذہن میں ماقبل جدید دنیا کی یادداشت باقی رہی۔ مثلاً یہ دیکھیے کہ مین را کے آرٹسٹ ہیرو کے تصور میںباربار سادھو جھلک دکھلاتا ہے؛ اسے ہم ایک جدید تصور میں پرانے تصور کی یادداشت کا کھیل کَہہ سکتے ہیں۔ سادھو کو روشنی مل جاتی تھی، مگر آرٹسٹ ہیرو کے حصے میں سادھو کی مانندروشنی کی جستجو آتی ہے، روشنی نہیں۔ تاہم وہ سادھو کے برعکس تاریکی و سیاہی کی ملکیت تسلیم کرتا ہے۔ جدید ادب میں جو آئرنی اورپیراڈاکس پیدا ہوئے، ان کا بڑا سبب یہی تھا۔ جدید ادب کے اس ڈائلیما کو جس فکشن نے عبور کیا، اسے ہم مابعد جدید کَہہ سکتے ہیں۔ </p> <p>مین را اپنے علامتی افسانوں کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ اس غلغلے میں ان کے وہ افسانے نظر انداز ہوگئے ہیں، جو ’غیر علامتی‘ ہیں، یا علامت کے خاص تصور میں جگہ نہیں پا سکے۔ یہاں ہم خاص طور پر ”بھاگوتی“، ”دھن پتی“، ”آتما رام“، ”غم کا موسم“ اورطویل افسانہ ”جسم کے جنگل میں ہر لمحہ قیامت ہے مجھے“ جیسے افسانوں کا ذکرکرنا چاہتے ہیں۔ یہ کمپوزیشن سیریز اور ”مقتل“، ”وہ“، ”میرانام مَیںہے“ جیسے افسانوں سے مختلف ہیں؛نہ صرف اپنے موضوعات کے سبب، بلکہ اسلوب، پلاٹ، واقعہ سازی وغیرہ کے حوالے سے بھی۔ مین را نے علامتی افسانوں میں زبان کے ذریعے فکشنی حقیقت خلق کرنے پرغیر معمولی توجہ دی ہے، جب کہ مذکورہ افسانوں میں حقیقت کی ترجمانی کو مقصود بنایا ہے۔ یہ حقیقت نفسیاتی اورسماجی ہے۔ چنانچہ انھیں بڑی حد تک ’نفسیاتی، سماجی حقیقت نگاری‘ کے اسلوب میں لکھاگیاہے۔ یہ بھی دیکھنے والی بات ہے کہ مین را نے آغاز میں یہی اسلوب اختیار کیا تھا۔ اس طور اپنا رشتہ منٹو (اور بیدی) کی روایت سے قائم کیا تھا۔ یہ درست ہے کہ انھیں اس روایت میں رخنے نظر آنے لگے تھے، اور انھوں نے علامتی اسلوب اختیار کیا؛تاہم اس اسلوب کو انھوں نے ترک نہیں کیا۔ </p> <p>”بھاگوتی“ (۱۹۵۷ئ میں لکھاگیا مین را کا پہلا افسانہ) اور ”دھن پتی“ کو پڑھتے ہوئے منٹو باربار یاد آتے ہیں۔ ان میںحاشیائی کرداروں کی سماجی صورتِ حال اور نفسی الجھنوں کوپیش کیا گیا ہے۔ دونوں کے انجام میں چونکانے کا وہی عنصر ہے جو ہمیں منٹو کے یہاں ملتا ہے۔ بھاگوتی محلے بھر کی عورتوں کے حمل گراتی ہے، لیکن جب اس کی بیٹی دھن پتی حاملہ ہوتی ہے تو پہلے سخت غصے میں آتی ہے اور پھر قطعی غیر متوقع طور پر اپنی بیٹی کو حمل گرانے سے اس لیے باز رکھتی ہے کہ اب سمجھنے لگتی ہے کہ حمل گرانا سب سے بڑا پاپ ہے۔ ”دھن پتی“ میں دھن پتی اپنے چھوٹے بھائی سے جنسی شرارت کرتی ہے اور ایک نوعمر لڑکے سے شادی کے بعد اپنے دیوردھرم داس سے جنسی مراسم قائم کرتی ہے۔ جب دیورانی اسے طعنہ دیتی ہے تو اس سے انتقام لیتی ہے۔ دھرم داس کو اس کی بیوی کے خلاف اکساتی ہے؛ وہ اسے قتل کر دیتا ہے، اور عمر قید کی سزا پاتا ہے۔ جب اسے اس کا شوہر اوم بتاتاہے کہ بڑے بھائی کو عمر قید کی سزا ہو گئی ہے تو دھرم داس کے روتے ہوئے بیٹے کو سینے سے لگا کر کہتی ہے ”آج سے میں تیری ماں ہوں“۔ برے کرداروں کے اندر بھلائی دریافت کرنے کی یہ وہی تیکنیک ہے، جسے منٹو نے سب سے زیادہ برتا۔ تاہم واضح رہے کہ مین را منٹو کی روایت سے رشتہ قائم کرتے ہیں، اس کی نقل نہیں کرتے۔ </p> <p>”آتما رام“ بھی مین را کے ابتدائی افسانوں میں شامل ہے۔ اسے اردو کے اہم افسانوں میں شمار کیا جانا چاہیے۔ پورا افسانہ بلدیو کی کشمکش کے بیان پر مرتکز ہے۔ بلدیو کی کشمکش کا مرکزی نکتہ ایڈی پس کمپلیکس کہا جاسکتا ہے، جسے خود بلدیو کی زبانی بیان کیا گیا ہے۔ بلدیو کا والد نتھورام پہلی عالمگیر جنگ کے دنوں میں میٹرک کرنے کے بعد برطانوی فوج میں بھرتا ہوا۔ ترقی کرتے کرتے آرڈر آف برٹش انڈیا کا تمغہ حاصل کیا۔ ”نتھورام ایک فوجی شخصیت، مثالی کردار، کم گوئی کی شہرت، مہاتما کا لقب“ جب کہ ”بلدیو، کمزور، دبلا پتلا، باپ کی سماجی شخصیت اس کا کامپلیکس اور فرار…مارکس، بدھ، دوستو وسکی، بلزاک، ایک راہ کی تلاش“۔ بلدیو کا کردار بھی ’آرٹسٹ ہیرو‘ کا ہے۔ وہ باپ کی سماجی حیثیت کو اپنا حوالہ نہیں بنانا چاہتا؛ وہ الگ اپنی پہچان چاہتا ہے۔ اس کی باپ کے خلاف بغاوت، در حقیقت روایت و وراثت اور سماجی مراتب کے خلاف بغاوت ہے۔ اس بغاوت کا اظہار اس وقت شدت سے ہوا ہے جب وہ شمشان بھومی میں اپنے باپ کے پھول چننے آتا ہے (جو ایک دن سیر کرتے ہوئے انتقال کر گیا، اور اسے لاوارث سمجھ کر سیوا سمیتی نے اس کا انتم سنسکار کیا تھا)۔ ”ہندوئوں کی ان رسوم کو ادا کرنے کا عمل اسے ذلت آمیز محسوس ہو رہا تھا اور اس کے باپ کے پھول جو محض ہڈیوں کے چھلکے تھے، اس کی آنکھوں میں چبھنے لگے تھے“۔ اسی طرح وہ جمنا کو پوتر گٹر کہتاہے۔ بلدیو نے اپنی راہ کی تلاش میں مشرق و مغرب کی عظیم شخصیات جیسے مارکس، بدھ، دوستووسکی، بلزاک کی طرف رجوع کیا تھا، اور وہ اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ موت کی یہ رسوم کھوکھلی ہیں؛ان کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔ بلدیو کا المیہ یہ ہے کہ اسے اپنی رائے، اپنی فکر کے خلاف چلنا پڑتا ہے۔ وہ باپ کے سلسلے میں کمپلیکس رکھتا ہے، اور ہندوئوں کی بعد از موت کی رسوم کو ذلت آمیز قرار دیتا ہے، اس کے باوجو داسے باپ کی موت پر صدمہ ہوتا ہے، اور رسوم اداکرنا پڑتی ہیں۔ وہ ایڈی پس کمپلیکس کے زیر اثرباپ کو چھوڑ کر چلا گیا، لیکن باپ کی موت کی خبر اسے شدید صدمے سے دوچار کر دیتی ہے۔ اس کے دل اور ذہن میں جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ وہ رونا چاہتا ہے، مگر اس کا ذہن موت کو معمول کی بات سمجھتا ہے۔ دل اور ذہن میں جنگ کا آغاز اسی لمحے ہوا تھا جب اس نے باپ کی سماجی شخصیت کے سلسلے میں کمپلیکس محسوس کیا تھا۔ ایڈی پس کمپلیکس میں باپ، روایت، اتھارٹی کے ضمن میں دو جذبی <annotation lang="en">(ambivalent)</annotation> رجحان ہوتا ہے؛نفرت اور محبت، گریز اور کشش، انسپریشن اور ڈیپریشن کے متضاد جذبات بیک وقت ایک ہی شے کے سلسلے میں موجود ہوتے ہیں۔ بلدیو اپنے باپ سے انسپائر بھی تھا؛ اس نے ایک اپنی راہ بنانے کی انسپریشن اپنے باپ سے حاصل کی تھی، کیونکہ اس کا باپ بھی سیلف میڈ تھا۔ وہ باپ کی مانند ہی اپنی الگ شناخت چاہتا تھا، اور یہ اسی وقت ممکن تھا، جب وہ باپ کی مثالی شخصیت کے سائے سے دور ہو۔ وہ باپ سے دور چلا گیا تھا، باپ کی طرح ایک اپنی شناخت بنانے کے لیے۔ لیکن والد کے انتقال کی خبر نے اسے ایک نئی صورتِ حال سے دوچار کیا۔ یہ کافی الجھی ہوئی جذباتی حالت تھی۔ اس میں کچھ نیا پن تھا اور کچھ پرانا پن، اور دونوں باہم الجھ گئے تھے۔ ایک طرف اسے احساسِ جرم ہو رہا تھا کہ بیٹے کے ہوتے ہوئے باپ تنہائی میں مرا، اور اس کا انتم سنسکار سیوا سمیتی نے کیا۔ اسی لیے وہ رونا چاہتاتھا۔ یہ اس کی جذباتی حالت کا نیا پن تھا۔ اسے خیال آیا کہ اسے رشتہ داروں اور دوستوں کو والد کے انتقال کی اطلاع دینی چاہیے۔ وہ خودکلامی کرتے ہوئے کہتا ہے: ”کیا میں رشتہ داروں اور دوستوں کو آگاہ کردوں کہ والد رخصت ہوگئے۔ نہیں! …نہیں… میں یہ مصیبت مول نہیں لے سکتا۔ لوگ والد کے مثالی کردار کے گن گائیں گے اور میں آوارہ، بے کار، صفر…صرف ذلت محسوس کروں گا…صرف ذلت…ذلت…“۔ یہ اس کی جذباتی حالت کا پراناپن تھا۔ وہ والد کے انتقال کے بعد بھی ایڈی پس کمپلیکس سے آزاد نہیں ہو سکا تھا۔ اس الجھی ہوئی حالت کی وجہ سے بلدیو کی حالت غیر ہو چکی تھی۔ وہ بھوک سے نڈھال تھا۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا، اور ایسے میں اسے اچانک پنڈت کی یاد آئی تھی، جس نے راکھ میں لپٹی ایک ہڈی ہاتھ میں لے کر بلدیو سے کہا تھا کہ ”دیکھو یہ آتما رام ہے۔ دیکھیے کیسے سمادھی لگائے بیٹھا ہے۔ جن لوگوں کا آتما رام سمادھی لگا کر بیٹھا ہوتا ہے، ان کی آتما کو شانتی ملتی ہے“۔ یہ سن کر بلدیو نے دل میںکہا تھا کہ ”مرنے والے کو دکھ ہو سکتا ہے کیا؟“ بلدیو کووالد کی آتما کے سکھی ہونے کا خیال آیا، اور اسی شدت سے اپنے دکھی ہونے کا۔ یہاں بلدیو کا کمپلیکس اپنی انتہا کو پہنچ گیا، اورشدید صدمے سے اس کے دماغ کی رگیں کٹ گئیں؛وہ دکھ کی حالت میں مرگیا؛دل اور ذہن کی جنگ میں وہ زندگی ہار گیا۔ تیسرے دن پنڈت کو بلدیو کا آتما رام دکھی حالت میں ملا۔ اس نے دل میں کہا ”بابو جی کو باپ کے مرنے کا کتنا دکھ تھا، مرنے کے بعد بھی ان کی آتما دکھی ہے“۔ مین را نے اس افسانے میں کمال کی فنی مہارت کا اظہار کیا ہے۔ بلدیو کے سلسلے میں صرف ایک جگہ بدھ کا ذکر آیا ہے۔ افسانے کے آخر میں کھلتا ہے کہ بلدیو بدھ کو کیوں پڑھتا تھا۔ بدھ نے زندگی کو دکھ کہا تھا۔ بلدیو کی زندگی اور موت پر دکھ کا گھنا سایہ نظرآتا ہے۔ </p> <p>”غم کا موسم“ اور ”جسم کے جنگل میں ہر لمحہ قیامت ہے مجھے“ جنسی نفسیات کی پیچیدگیوں سے متعلق ہیں۔ ممکن ہے کچھ لوگ ان دونوں افسانوںپر فحاشی کا الزام لگائیں، خاص طور پر وہ لوگ جو جنس اور اس کی نفسیات کو زندگی کے تمام بیانیوں سے خارج رکھنا چاہتے ہیں۔ مین را نے دونوں افسانوں کے لیے بے حد نازک موضوعات منتخب کیے، مگر دونوں کو لکھتے ہوئے غیر معمولی فنی ہنر مندی کا مظاہرہ کیا ہے؛ ایجاز و اشاریت کے ساتھ جنسی جمالیات کو پیش کیا ہے، اور کہیں بھی جنسی ترغیب کا شائبہ تک نہیں۔ ”غم کا موسم“ تو انتہائی اداس کردینے والا افسانہ ہے۔ یہ ایک بڑی عمر کے مرد (ایک بار پھر آرٹسٹ ہیرو) اور ایک بارہ سالہ لڑکی کی ’محبت‘ کی کہانی ہے، جس کا نقطۂ ارتکاز نو خیز روح کی قبل از وقت جنسی بیداری ہے۔ ایک بھولی بھالی گڑیا کے جسم میں ایک عورت جنم لیتی ہے، جس کی وہ تاب نہیں لا سکتی اور مین را کے اکثر مرکزی کرداروں کی مانند مر جاتی ہے۔ اس کے بعد مرکزی کردار پر مسلسل غم کا موسم رہتا ہے۔ ”جسم کے جنگل میں ہر لمحہ قیامت ہے مجھے“ (۱۹۸۱ئ میں لکھا گیا ان کا آخری افسانہ) میں بھی دو مختلف عمروں کے اشخاص کی جنسی زندگی کو پیش کیا گیا ہے۔ یہاں عورت بڑی عمر کی اور لڑکا کم عمر ہے۔ مین را کا یہ واحد افسانہ ہے، جس میں زخم کی لذت کے ساتھ ساتھ، جسم کی مسرت کا بیان بھی ہے۔ اس افسانے میں مین را نے جنسی الجھنوں کو موضوع بنانے کے بجائے جنس میں جمالیات کے کچھ پہلوئوں کا ذکرکیا ہے۔ تاہم اس طویل افسانے میں بھی مرکزی کردارمایامر جاتی ہے۔</p> <p>مین را کے قاری کو اس بات سے الجھن محسوس ہوتی ہے کہ آخر ان کے اکثر کردار خود کشی کیوں کرتے ہیں، یا طبعی موت مرجاتے ہیں؟ آخر موت، ان کے افسانوں کااس قدر اہم سروکار کیوں ہے؟ موت ایک حقیقت، مگر مین را کے یہاں ایک کبیری حقیقت کیوں بن گئی ہے؟ ہم ان سوالوں کے جواب مین را کے افسانوں ہی میں تلاش کر سکتے ہیں۔ مین را کا جدید افسانہ، اس جدید عالمی ادب سے منسلک ہے، جو موت، ظلمت، تاریکی، ویسٹ لینڈ کو عصر کی بنیادی سچائی کے طور پر پیش کرتا ہے۔ تاہم یہ جواب مکمل نہیں۔ ہمارے نزدیک مین را کے افسانے میں موت ایک تھیم سے زیادہ ایک تیکنیک ہے ؛قاری کوزندگی کے تاریک، ویران، سیاہ رخوں سے آگاہ کرنے اور ان کا کھلی آنکھوں سے سامنا کرنے کی تیکنیک!</p> </section> </body>
0045.xml
<meta> <title>Unicode Character Annotations</title> <publication> <name>Unicode Common Locale Data Repository v36.1</name> <year>2020</year> <link>http://unicode.org/Public/cldr/36.1/</link> <copyright-holder>Unicode, Inc.</copyright-holder> <license-link>https://www.unicode.org/license.html</license-link> </publication> <num-words>12410</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> <notes>This is a modified version of the original document, retaining only data with Urdu words</notes> </meta>
Unicode Character Annotations
12,410
No
<body> <section> <p>اسکن | ایموجی | تبدیل کار | ٹون | جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اسکن | ایموجی | تبدیل کار | ٹون | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اسکن | ایموجی | تبدیل کار | ٹون | جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اسکن | ایموجی | تبدیل کار | ٹون | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اسکن | ایموجی | تبدیل کار | ٹون | جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>ہیجڑا | ہیجڑوں کی علامت</p> <p>ہیجڑوں کی علامت</p> <p>انگلیاں | بھینچی ہوئی انگلیاں | تفتیش | طنزیہ | ہاتھ کا اشارہ</p> <p>بھینچی ہوئی انگلیاں</p> <p>آنسو | آنسو کے ساتھ مسکراتا چہرہ | فخر | متاثر ہونا | مسکراتا | مشکور | مطمئن</p> <p>آنسو کے ساتھ مسکراتا چہرہ</p> <p>پوشیدگی | خفیہ | لڑاکا | ننجا</p> <p>ننجا</p> <p>بہروپ | چشمہ | چہرہ | خفیہ | ناک</p> <p>بہروپ چہرہ</p> <p>بڑا | خاتمہ | فر والا | میمتھ | ہاتھی دانت</p> <p>میمتھ</p> <p>بڑا | خاتمہ | ڈوڈو | موریشس</p> <p>ڈوڈو</p> <p>اود بلاؤ | سگ آبی</p> <p>سگ آبی</p> <p>ارنا بھینسا | ارنا پھینسا | بھینس | بیل | ریوڑ</p> <p>ارنا بھینسا</p> <p>بڑا سیل | سیل</p> <p>سیل</p> <p>بلبلہ | بلبلوں والی چائے | چائے | دودھ | موتی</p> <p>بلبلوں والی چائے</p> <p>تھونگ سینڈل | تھونگ سینڈلز | تھونگز | زوری | ساحلی سینڈلز | سینڈلز</p> <p>تھونگ سینڈل</p> <p>آسٹریلیا | بازگشت | بومرینگ | پلٹاؤ</p> <p>بومرینگ</p> <p>جادو | جادوئی چھڑی | جادوگر | جادوگرنی</p> <p>جادوئی چھڑی</p> <p>پارٹی | پناٹا | تقریب</p> <p>پناٹا</p> <p>جادوئی | جادوئی گڑیاں | روس | گڑیا</p> <p>جادوئی گڑیاں</p> <p>جنگجو | سپاہی | عکسری | فوج | ملٹری ہیلمٹ | ہیلمٹ</p> <p>ملٹری ہیلمٹ</p> <p>ارگن باجا | سکویز باکس | کنسرٹینا</p> <p>ارگن باجا</p> <p>بجانا | ڈرم | ڈھول | ردھم | لمبا ڈرم</p> <p>لمبا ڈرم</p> <p>چاندی | خزانہ | دھات | رقم | سکہ | سونا</p> <p>سکہ</p> <p>آرا | آلہ | بڑھئی | بڑھئی کا آرا | لکڑی</p> <p>بڑھئی کا آرا</p> <p>آلہ | پیچ | پیچ کس</p> <p>پیچ کس</p> <p>بجانا | چڑھنا | سیڑھی | قدم</p> <p>سیڑھی</p> <p>بیچنے کا مقام | پکڑنا | پھانسنا | خمیدہ | موڑ | ہک</p> <p>ہک</p> <p>آئینہ | عکاسی | منعکس کرنے والا | منعکس کنندہ</p> <p>آئینہ</p> <p>تازہ ہوا | شفاف | فریم | کھڑکی | کھلا | منظر</p> <p>کھڑکی</p> <p>پلمبر | پلنجر | ٹوائلٹ | چوسنا | فورس کپ</p> <p>پلنجر</p> <p>ٹانکے | سلائی | سلائی کی سوئی | سوئی | سینا | کشیدہ کاری</p> <p>سلائی کی سوئی</p> <p>الجھن | باندھنا | دوہرا | رسی | گانٹھ | موڑ</p> <p>گانٹھ</p> <p>بالٹی | پیپا | ٹوکری | حوض</p> <p>بالٹی</p> <p>پھندہ | چارہ | چوہے کا پھندہ</p> <p>چوہے کا پھندہ</p> <p>برش | ٹوتھ برش | حفظان صحت | دانت | دندان | صاف | غسل خانہ</p> <p>ٹوتھ برش</p> <p>قبر | قبرستان | کتبہ</p> <p>کتبہ</p> <p>احتجاج مظاہرہ | پلے کارڈ | علامت | کھونٹی</p> <p>پلے کارڈ</p> <p>بھاری | پتھر | ٹھوس | چٹان | گول پتھر</p> <p>چٹان</p> <p>بیماری | حشرات | خراب ہونا | کیڑا | مکھی</p> <p>مکھی</p> <p>زمینی کیڑا | طفیلیہ | کیچوا | کیڑا</p> <p>کیچوا</p> <p>بھونرا | کھٹمل | کیڑا</p> <p>بھونرا</p> <p>تل چٹا | حشرات | کیڑا | لال بیگ</p> <p>لال بیگ</p> <p>اکتاہٹ | اگنا | بیکار | پودا | گملے میں پودا | گھر | نشوونما</p> <p>گملے میں پودا</p> <p>درخت کی لکڑی | کٹی لکڑی | لکڑی</p> <p>لکڑی</p> <p>پر | پرندہ | پرواز | پنکھ | ہلکا</p> <p>پر</p> <p>دل کا عضو | دل کی دھڑکن | عضو | علم امراض قلب | نبض | وسط</p> <p>دل کا عضو</p> <p>پھیپھڑے | تنفس | سانس | سانس باہر نکالنا | سانس لینا | عضو</p> <p>پھیپھڑے</p> <p>الوداع | شکریہ | گلے ملتے لوگ | گلے ملنا | ہیلو</p> <p>گلے ملتے لوگ</p> <p>بلبری | بلو بیری | بلو بیریز | بیر | نیلا</p> <p>بلو بیریز</p> <p>سبزی | شملہ مرچ | مرچ</p> <p>شملہ مرچ</p> <p>زیتون | غذا</p> <p>زیتون</p> <p>اریپا | پیٹا | چپٹی روٹی | لاوش | نان</p> <p>چپٹی روٹی</p> <p>ٹمالے | لپیٹا ہوا | میکسیکن</p> <p>ٹمالے</p> <p>برتن | پگھلا ہوا | پنیر | چاکلیٹ | سوئس | فانڈی</p> <p>فانڈی</p> <p>برتن | پینا | چائے | چائے کا برتن</p> <p>چائے کا برتن</p> <p>جھونپڑی | گنبد نما جھونپڑی | گھر | گول گھر</p> <p>جھونپڑی</p> <p>ایلیویٹر | رسائی | لفٹ | لہرانا</p> <p>ایلیویٹر</p> <p>پک اپ | پک اپ ٹرک | ٹرک</p> <p>پک اپ ٹرک</p> <p>رولر | سکیٹ</p> <p>رولر سکیٹ</p> <p>چہرہ | کھل کے ہنستا چہرہ | کھلا | منہ | ہنسی</p> <p>کھل کے ہنستا چہرہ</p> <p>بڑی آنکھوں والا کھلے منہ والا مسکراتا چہرہ | چہرہ | مسکراہٹ | منہ</p> <p>بڑی آنکھوں والا کھلے منہ والا مسکراتا چہرہ</p> <p>آنکھ | چہرہ | کھلے منہ اور مسکراتی آنکھوں والا مسکراتا چہرہ | مسکراہٹ | منہ</p> <p>کھلے منہ اور مسکراتی آنکھوں والا مسکراتا چہرہ</p> <p>آنکھ | چہرہ | کھلا | مسکراتی آنکھیں لیے ہنستا چہرہ | مسکراہٹ | منہ | ہنسنا</p> <p>مسکراتی آنکھیں لیے ہنستا چہرہ</p> <p>چہرہ | کھلے منہ اور سختی سے بند آنکھوں والا مسکراتا چہرہ | مسکراہٹ | مطمئن | منہ | ہنسی</p> <p>کھلے منہ اور سختی سے بند آنکھوں والا مسکراتا چہرہ</p> <p>پسینہ | ٹھنڈ | چہرہ | کھلے منہ اور ٹھنڈے پسینے والا مسکراتا چہرہ | مسکراہٹ</p> <p>کھلے منہ اور ٹھنڈے پسینے والا مسکراتا چہرہ</p> <p>چہرہ | لوٹ پوٹ | ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہونا | ہنسی</p> <p>ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہونا</p> <p>آنسو | چہرہ | خوشی | خوشی کے آنسوؤں والا چہرہ | ہنسی</p> <p>خوشی کے آنسوؤں والا چہرہ</p> <p>چہرہ | مدھم مسکراہٹ والا چہرہ | مسکراہٹ</p> <p>مدھم مسکراہٹ والا چہرہ</p> <p>الٹآ | الٹا چہرہ | چہرہ</p> <p>الٹا چہرہ</p> <p>آنکھ جھپکنا | آنکھ مارتا چہرہ | چہرہ</p> <p>آنکھ مارتا چہرہ</p> <p>آنکھ | چہرہ | مسکراتی آنکھوں والا مسکراتا چہرہ | مسکراہٹ</p> <p>مسکراتی آنکھوں والا مسکراتا چہرہ</p> <p>افسانوی | چہرہ | فرشتہ | مسکراہٹ | معصوم | ہالہ لیے مسکراتا چہرہ</p> <p>ہالہ لیے مسکراتا چہرہ</p> <p>پسند کرنا | پیار میں | دل | دلوں کے ساتھ مسکراتا چہرہ | محبت</p> <p>دلوں کے ساتھ مسکراتا چہرہ</p> <p>آنکھ | پیار | چہرہ | دل | دل کی شکل کی آنکھوں والا مسکراتا چہرہ</p> <p>دل کی شکل کی آنکھوں والا مسکراتا چہرہ</p> <p>آنکھیں | تارہ | چہرہ | ستارہ زدہ | مسکراتا</p> <p>ستارہ زدہ</p> <p>بوسہ | بوسہ اچھالتا چہرہ | چہرہ | دل</p> <p>بوسہ اچھالتا چہرہ</p> <p>بوسہ | بوسہ لیتا چہرہ | چہرہ</p> <p>بوسہ لیتا چہرہ</p> <p>پر سکون | چہرہ | مسکراتا چہرہ | مسکراہٹ</p> <p>مسکراتا چہرہ</p> <p>آنکھ | بند | بند آنکھوں کے ساتھ بوسہ لیتا چہرہ | بوسہ | چہرہ</p> <p>بند آنکھوں کے ساتھ بوسہ لیتا چہرہ</p> <p>آنکھ | بوسہ | چہرہ | مسکراتی آنکھوں کے ساتھ بوسہ لیتا چہرہ | مسکراہٹ</p> <p>مسکراتی آنکھوں کے ساتھ بوسہ لیتا چہرہ</p> <p>چہرہ | مزیدار | مزیدار کھانے کا ذائقہ دینے والا چہرہ | مسکراہٹ</p> <p>مزیدار کھانے کا ذائقہ دینے والا چہرہ</p> <p>چہرہ | زبان | زبان نکالے چہرہ</p> <p>زبان نکالے چہرہ</p> <p>آنکھ | چہرہ | زبان | زبان نکالے اور آنکھ مارتا چہرہ | مزاق</p> <p>زبان نکالے اور آنکھ مارتا چہرہ</p> <p>آنکھ | بڑی | پاگل پن والا چہرہ | چھوٹی</p> <p>پاگل پن والا چہرہ</p> <p>آنکھ | چہرہ | خوفناک | زبان | زبان نکالے اور سختی سے بند آنکھوں والا چہرہ</p> <p>زبان نکالے اور سختی سے بند آنکھوں والا چہرہ</p> <p>چہرہ | ڈالر | ڈالر کی زبان والا چہرہ | منہ</p> <p>ڈالر کی زبان والا چہرہ</p> <p>چہرہ | گلے ملتا چہرہ | گلے ملنا</p> <p>گلے ملتا چہرہ</p> <p>افوہ | منہ پر ہاتھ رکھا ہوا چہرہ</p> <p>منہ پر ہاتھ رکھا ہوا چہرہ</p> <p>چپ | خاموش | خاموش رہنے کا اشارہ کرنے والہ چہرہ</p> <p>خاموش رہنے کا اشارہ کرنے والہ چہرہ</p> <p>چہرہ | سوچتا چہرہ | سوچنا</p> <p>سوچتا چہرہ</p> <p>چہرہ | سلا ہوا | منہ | منہ سیے ہوئے چہرہ</p> <p>منہ سیے ہوئے چہرہ</p> <p>اٹھی ہوئی بھویں والا چہرہ | بد اعتمادی | شکی</p> <p>اٹھی ہوئی بھویں والا چہرہ</p> <p>چہرہ | غیر جانبدار | غیر جانبدار چہرہ</p> <p>غیر جانبدار چہرہ</p> <p>اظہار سے عاری چہرہ | بغیر تاثر | چہرہ</p> <p>اظہار سے عاری چہرہ</p> <p>بغیر منہ والا چہرہ | چہرہ | خاموشی | منہ</p> <p>بغیر منہ والا چہرہ</p> <p>چہرہ | طنزیہ | طنزیہ مسکراہٹ والا چہرہ</p> <p>طنزیہ مسکراہٹ والا چہرہ</p> <p>اداس چہرہ | چہرہ | نا خوش</p> <p>اداس چہرہ</p> <p>آنکھیں | چہرہ | گھومتی آنکھوں والا چہرہ | گھومنا</p> <p>گھومتی آنکھوں والا چہرہ</p> <p>چہرہ | مضحکہ خیز چہرہ | ناگواریت</p> <p>مضحکہ خیز چہرہ</p> <p>جھوٹ | جھوٹ بولتا چہرہ | چہرہ</p> <p>جھوٹ بولتا چہرہ</p> <p>پُر سکون | پُر سکون چہرہ | چہرہ</p> <p>پُر سکون چہرہ</p> <p>چہرہ | سوچ میں ڈوبا چہرہ | غمزدہ</p> <p>سوچ میں ڈوبا چہرہ</p> <p>چہرہ | خوابیدہ چہرہ | غنودگی</p> <p>خوابیدہ چہرہ</p> <p>چہرہ | رال ٹپکاتا چہرہ | رال ٹپکنا</p> <p>رال ٹپکاتا چہرہ</p> <p>چہرہ | سوتا ہوا چہرہ | سونا</p> <p>سوتا ہوا چہرہ</p> <p>ٹھنڈ | چہرہ | ڈاکٹر | طبی ماسک والا چہرہ | ماسک</p> <p>طبی ماسک والا چہرہ</p> <p>بیمار | تھرمامیٹر | تھرمامیٹر لیے چہرہ | چہرہ</p> <p>تھرمامیٹر لیے چہرہ</p> <p>پٹی | چہرہ | زخم | سر پر پٹی باندھے چہرہ</p> <p>سر پر پٹی باندھے چہرہ</p> <p>چہرہ | متلی | متلی کی کیفیت والا چہرہ</p> <p>متلی کی کیفیت والا چہرہ</p> <p>بیمار | قے | قے کرتا چہرہ</p> <p>قے کرتا چہرہ</p> <p>بیماری | چھینک | چھینکیں مارتا چہرہ | چہرہ</p> <p>چھینکیں مارتا چہرہ</p> <p>بُخار زَدہ | پسینے سے شرابور | حرارت زدگی | سرخ چہرہ | گرم</p> <p>سرخ چہرہ</p> <p>برف کے قلمیں | بہت زیادہ سرد | ٹھنڈا | سرد چہرہ | سردی سے ماؤف | نیلگوں چہرہ</p> <p>سرد چہرہ</p> <p>اُلجھن کا شکار شہرہ | ٹیڑھی میڑھی آنکھیں | چکرایا ہُوا | مخمُور | مدہوش | ناہموار منہ</p> <p>اُلجھن کا شکار شہرہ</p> <p>چکر | چکراتا چہرہ | چہرہ</p> <p>چکراتا چہرہ</p> <p>حیران | سر پھٹنا</p> <p>سر پھٹنا</p> <p>چہرہ | کاؤ بوائے | کاؤ بوائے ہیٹ کے ساتھ چہرہ | ہیٹ</p> <p>کاؤ بوائے ہیٹ کے ساتھ چہرہ</p> <p>باجا | پارٹی | پارٹی سے لطف اندوز ہوتا چہرہ | ٹوپی | جشن</p> <p>پارٹی سے لطف اندوز ہوتا چہرہ</p> <p>آنکھ | چشمہ | چمکیلا | دھوپ | دھوپ کا چشمہ لگائے مسکراتا چہرہ | سورج | مسکراہٹ</p> <p>دھوپ کا چشمہ لگائے مسکراتا چہرہ</p> <p>بیوقوفانہ | چہرہ</p> <p>بیوقوفانہ چہرہ</p> <p>ایک چشمہ پہنا ہوا چہرہ | بند ناک والا چہرہ</p> <p>ایک چشمہ پہنا ہوا چہرہ</p> <p>الجھن زدہ چہرہ | چہرہ | کنفیوز</p> <p>الجھن زدہ چہرہ</p> <p>پریشان | چہرہ</p> <p>پریشان چہرہ</p> <p>تیوری | چہرہ | ہلکا سا تیوری زدہ چہرہ</p> <p>ہلکا سا تیوری زدہ چہرہ</p> <p>تیوری | تیوری زدہ چہرہ | چہرہ</p> <p>تیوری زدہ چہرہ</p> <p>چہرہ | کھلا ہوا | کھلے منہ والا چہرہ | منہ</p> <p>کھلے منہ والا چہرہ</p> <p>چہرہ | حیرت | شدید حیرت زدہ چہرہ</p> <p>شدید حیرت زدہ چہرہ</p> <p>تکلیف | چہرہ | حیرت | حیرت زدہ چہرہ</p> <p>حیرت زدہ چہرہ</p> <p>چہرہ | سرخ | شرمندگی | شرمندگی سے سرخ چہرہ</p> <p>شرمندگی سے سرخ چہرہ</p> <p>التجا کرنا | رحم | طفلانہ آنکھیں | ملتجی چہرہ</p> <p>ملتجی چہرہ</p> <p>تیوری | چہرہ | کھلا ہوا | منہ | منہ کھولے تیوری چڑھاتا چہرہ</p> <p>منہ کھولے تیوری چڑھاتا چہرہ</p> <p>تکلیف | تکلیف زدہ چہرہ | چہرہ</p> <p>تکلیف زدہ چہرہ</p> <p>چہرہ | خوف | خوفزدہ چہرہ</p> <p>خوفزدہ چہرہ</p> <p>پسینہ | ٹھنڈا | کھلے منہ اور ٹھنڈے پسینے والا چہرہ | منہ | نیلا</p> <p>کھلے منہ اور ٹھنڈے پسینے والا چہرہ</p> <p>پر سکون | چہرہ | مایوس | مایوس لیکن پر سکون چہرہ</p> <p>مایوس لیکن پر سکون چہرہ</p> <p>آنسو | چہرہ | روتا ہوا چہرہ | رونا</p> <p>روتا ہوا چہرہ</p> <p>آنسو | چہرہ | رونا | زار و قطار روتا چہرہ</p> <p>زار و قطار روتا چہرہ</p> <p>چہرہ | چیخ | خوف | خوف سے چلاتا چہرہ</p> <p>خوف سے چلاتا چہرہ</p> <p>انتہائی کنفیوز | بے ترتیب چہرہ | چہرہ</p> <p>بے ترتیب چہرہ</p> <p>پُرعزم چہرہ | پُرعظم | چہرہ</p> <p>پُرعزم چہرہ</p> <p>چہرہ | مایوس</p> <p>مایوس چہرہ</p> <p>پسینہ | ٹھنڈ | ٹھنڈے پسینے والا چہرہ | چہرہ</p> <p>ٹھنڈے پسینے والا چہرہ</p> <p>اکتایا ہوا چہرہ | تھکاوٹ | چہرہ</p> <p>اکتایا ہوا چہرہ</p> <p>تھکا ہوا چہرہ | تھکان | چہرہ</p> <p>تھکا ہوا چہرہ</p> <p>بوریت کا شکار | تھکا ماندہ | جمائی | جمائی لیتا چہرہ</p> <p>جمائی لیتا چہرہ</p> <p>چہرہ | فتح | ناک سے دھواں نکالتا چہرہ</p> <p>ناک سے دھواں نکالتا چہرہ</p> <p>چہرہ | نا خوش | نا شاد چہرہ</p> <p>نا شاد چہرہ</p> <p>چہرہ | غصہ | غصے والا چہرہ</p> <p>غصے والا چہرہ</p> <p>گالیاں دینا | منہ پر علامات والا چہرہ</p> <p>منہ پر علامات والا چہرہ</p> <p>چہرہ | شیطانی مسکراہٹ | شیطانی مسکراہٹ والا چہرہ</p> <p>شیطانی مسکراہٹ والا چہرہ</p> <p>چہرہ | شرارتی | شریر شیطان | شیطان</p> <p>شریر شیطان</p> <p>افسانوی | جن | چہرہ | کھوپڑی | موت</p> <p>کھوپڑی</p> <p>کر اس | کر اس شدہ ہڈیوں کے ساتھ کھوپڑی | کھوپڑی | موت | ہڈیاں</p> <p>کر اس شدہ ہڈیوں کے ساتھ کھوپڑی</p> <p>چہرہ | ڈھیر | گندگی | گندگی کا ڈھیر</p> <p>گندگی کا ڈھیر</p> <p>جوکر | چہرہ</p> <p>جوکر چہرہ</p> <p>افسانوی | جاپانی | جن | چہرہ | شیطانی جن</p> <p>شیطانی جن</p> <p>افسانوی | جاپانی | جن | چہرہ | لمبی ناک اور مونچھوں والا دیو</p> <p>لمبی ناک اور مونچھوں والا دیو</p> <p>افسانوی | بھوت | جن | چہرہ</p> <p>بھوت</p> <p>چہرہ | خلا | خلائی مخلوق | مخلوق</p> <p>خلائی مخلوق</p> <p>چہرہ | خلا | خلائی دیو | دیو</p> <p>خلائی دیو</p> <p>چہرہ | روبوٹ | مونسٹر</p> <p>روبوٹ</p> <p>بلی | چہرہ | کھلے منہ کے ساتھ مسکراتی بلی کا چہرہ | مسکراہٹ | منہ</p> <p>کھلے منہ کے ساتھ مسکراتی بلی کا چہرہ</p> <p>بلی | چہرہ | مسکراتی آنکھوں والی کھل کے ہنستی بلی کا چہرہ | مسکراہٹ</p> <p>مسکراتی آنکھوں والی کھل کے ہنستی بلی کا چہرہ</p> <p>آنسو | بلی | چہرہ | خوشی | خوشی کے آنسو لیے بلی کا چہرہ</p> <p>خوشی کے آنسو لیے بلی کا چہرہ</p> <p>بلی | پیار | چہرہ | دل | دل کی شکل والی آنکھوں کے ساتھ مسکراتی بلی کا چہرہ</p> <p>دل کی شکل والی آنکھوں کے ساتھ مسکراتی بلی کا چہرہ</p> <p>بلی | بلی کا طنزیہ مسکراہٹ والا چہرہ | چہرہ | طنز | مسکراہٹ</p> <p>بلی کا طنزیہ مسکراہٹ والا چہرہ</p> <p>آنکھ | بلی | بند آنکھوں کے ساتھ بوسہ لیتا بلی کا چہرہ | بوسہ | بوسہ لیتی بلی | چہرہ</p> <p>بند آنکھوں کے ساتھ بوسہ لیتا بلی کا چہرہ</p> <p>اوہ | بلی | تھکی ہوئی | تھکی ہوئی بلی | چہرہ | حیران</p> <p>تھکی ہوئی بلی</p> <p>آنسو | بلی | چہرہ | روتا ہوا بلی کا چہرہ | روتی ہوئی بلی | رونا</p> <p>روتی ہوئی بلی</p> <p>بلی | چہرہ | نا شاد | ناشاد بلی</p> <p>ناشاد بلی</p> <p>بندر | چہرہ | دیکھو | نہیں | ہاتھ سے آنکھیں چھپائے بندر</p> <p>ہاتھ سے آنکھیں چھپائے بندر</p> <p>بندر | چہرہ | سنو | کانوں کو ہاتھ سے چھپائے بندر | نہیں</p> <p>کانوں کو ہاتھ سے چھپائے بندر</p> <p>بندر | بولو | چہرہ | منہ کو ہاتھوں سے بند کیے بندر | نہیں</p> <p>منہ کو ہاتھوں سے بند کیے بندر</p> <p>بوسہ | بوسے کا نشان | ہونٹ</p> <p>بوسے کا نشان</p> <p>پیار | خط | رومانس | محبت بھرا خط</p> <p>محبت بھرا خط</p> <p>تیر | تیر پیوست ہوا دل | دل | زخمی</p> <p>تیر پیوست ہوا دل</p> <p>دل | ربن | ربن باندھے دل</p> <p>ربن باندھے دل</p> <p>پر جوش | چمکتا دل | دل</p> <p>چمکتا دل</p> <p>بڑھتا ہوا دل | پر جوش | دل | نروس</p> <p>بڑھتا ہوا دل</p> <p>دل | دھڑکتا دل | دھڑکن</p> <p>دھڑکتا دل</p> <p>دل | گھومتے دل | گھومنا</p> <p>گھومتے دل</p> <p>پیار | دل | دو دل</p> <p>دو دل</p> <p>دل | دل کی ڈیکوریشن | ڈیکوریشن</p> <p>دل کی ڈیکوریشن</p> <p>دلی اظہار | رموزِ اوقاف | علامت | علامتِ ندائیہ</p> <p>دلی اظہار</p> <p>ٹوٹا ہوا | ٹوٹا ہوا دل | دل</p> <p>ٹوٹا ہوا دل</p> <p>دل | سرخ</p> <p>سرخ دل</p> <p>نارنجی | نارنجی دل</p> <p>نارنجی دل</p> <p>پیلا | دل</p> <p>پیلا دل</p> <p>دل | سبز</p> <p>سبز دل</p> <p>دل | نیلا</p> <p>نیلا دل</p> <p>ارغوانی | دل</p> <p>ارغوانی دل</p> <p>بھورا | دل</p> <p>بھورا دل</p> <p>برا | دل | شیطانی | کالا</p> <p>کالا دل</p> <p>دل | سفید</p> <p>سفید دل</p> <p>اسکور | پورے | سو | سو پوائنٹس</p> <p>سو پوائنٹس</p> <p>علامت | غصہ | غصے کی علامت</p> <p>غصے کی علامت</p> <p>تصادم | ٹکر</p> <p>تصادم</p> <p>سر چکرانا | علامت</p> <p>سر چکرانا</p> <p>پسینہ | پسینے کے قطرے | قطرے</p> <p>پسینے کے قطرے</p> <p>تیزی | تیزی سے دوڑنا | دوڑنا</p> <p>تیزی سے دوڑنا</p> <p>چھید | خالی جگہ | سوراخ</p> <p>سوراخ</p> <p>آگ | بم | بمباری</p> <p>بم</p> <p>علامت | غبارہ | گفتگو</p> <p>گفتگو غبارہ</p> <p>آنکھ | دھمکی | دھمکی روکنے کی مہم | مہم</p> <p>دھمکی روکنے کی مہم</p> <p>بایاں | علامت | غبارہ | گفتگو غبارہ بائیں</p> <p>گفتگو غبارہ بائیں</p> <p>دایاں | علامت | غبارہ | غصہ غبارہ دائیں</p> <p>غصہ غبارہ دائیں</p> <p>سوچ | علامت | غبارہ</p> <p>سوچ غبارہ</p> <p>زززززز | لفظی علامت | نیند</p> <p>زززززز</p> <p>جسم | لہرانا | ہاتھ</p> <p>ہاتھ لہرانا</p> <p>پشت | کھڑا | کھڑے ہاتھ کی پشت | ہاتھ</p> <p>کھڑے ہاتھ کی پشت</p> <p>انگلی | پھیلانا | پھیلی ہوئی انگلیوں کے ساتھ بلند ہاتھ | جسم | ہاتھ</p> <p>پھیلی ہوئی انگلیوں کے ساتھ بلند ہاتھ</p> <p>بلند ہاتھ | جسم | ہاتھ</p> <p>بلند ہاتھ</p> <p>اَتش فشاں | انگلی | جسم | ہاتھ | وولکن سلیوٹ</p> <p>وولکن سلیوٹ</p> <p>اوکے | اوکے کا نشان بناتا ہاتھ | ہاتھ</p> <p>اوکے کا نشان بناتا ہاتھ</p> <p>تھوڑی مقدار | چٹکی لیتا ہوا ہاتھ</p> <p>چٹکی لیتا ہوا ہاتھ</p> <p>جسم | فتح | فتح کا نشان بناتا ہاتھ | نشان | ہاتھ</p> <p>فتح کا نشان بناتا ہاتھ</p> <p>امید | انگلی | قسمت | کر اس | کر اس بناتی انگلیاں</p> <p>کر اس بناتی انگلیاں</p> <p>آپ سے محبت | آپ سے محبت کا اشارہ | ہاتھ</p> <p>آپ سے محبت کا اشارہ</p> <p>انگلی | جسم | سینگ | ہاتھ | ہاتھ سے سینگوں کا نشان</p> <p>ہاتھ سے سینگوں کا نشان</p> <p>اشارہ | کال | کال کرنے کا اشارہ | ہاتھ</p> <p>کال کرنے کا اشارہ</p> <p>انگلی | بائیں | بائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | جسم | ہاتھ</p> <p>بائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی</p> <p>انگلی | جسم | دائیں | دائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | ہاتھ</p> <p>دائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی</p> <p>اوپر | اوپر اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | جسم | شہادت کی انگلی | ہاتھ</p> <p>اوپر اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی</p> <p>جسم | درمیانی انگلی | ہاتھ</p> <p>درمیانی انگلی</p> <p>جسم | شہادت کی انگلی | نیچے | نیچے اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | ہاتھ</p> <p>نیچے اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی</p> <p>انگلی | اوپر | اوپر اشارہ کرتی شہادت کی انگلی | جسم | ہاتھ</p> <p>اوپر اشارہ کرتی شہادت کی انگلی</p> <p>+1 | انگوٹھا | اوپر | بہت اچھے | سب اچھا کا نشان بناتا انگوٹھا | ہاتھ</p> <p>سب اچھا کا نشان بناتا انگوٹھا</p> <p>-1 | اچھا نہ ہونے کا نشان بناتا انگوٹھا | انگوٹھا | بہت برے | نیچے | ہاتھ</p> <p>اچھا نہ ہونے کا نشان بناتا انگوٹھا</p> <p>بلند مُٹھی | جسم | مٹھی | ہاتھ</p> <p>بلند مُٹھی</p> <p>آتا ہوا مُکا | جسم | مکا | ہاتھ</p> <p>آتا ہوا مُکا</p> <p>بائیں سمت | بائیں سمت میں مکا | مکا</p> <p>بائیں سمت میں مکا</p> <p>دائیں سمت | دائیں سمت میں مکا | مکا</p> <p>دائیں سمت میں مکا</p> <p>تالی | تالیاں بجاتے ہاتھ | جسم | ہاتھ</p> <p>تالیاں بجاتے ہاتھ</p> <p>جسم | جشن | ہاتھ | ہاتھ بلند کیے ہوئے شخص</p> <p>ہاتھ بلند کیے ہوئے شخص</p> <p>جسم | کھلے ہاتھ | کھولے | ہاتھ</p> <p>کھلے ہاتھ</p> <p>ایک ساتھ ہتھیلیاں اٹھانا | نماز</p> <p>ایک ساتھ ہتھیلیاں اٹھانا</p> <p>ملانا | ہاتھ</p> <p>ہاتھ ملانا</p> <p>اشارہ | بندھے ہاتھ | دعا | شکریہ</p> <p>بندھے ہاتھ</p> <p>جسم | لکھتا ہوا ہاتھ | لکھنا | ہاتھ</p> <p>لکھتا ہوا ہاتھ</p> <p>پالش | جسم | خیال | ناخن | نیل پالش</p> <p>نیل پالش</p> <p>تصویر | سیلفی | فون | کیمرہ</p> <p>سیلفی</p> <p>بازوؤں کے ڈولے | جسم | ڈولے</p> <p>بازوؤں کے ڈولے</p> <p>دسترس | مشینی بازو | مصنوعی</p> <p>مشینی بازو</p> <p>دسترس | مشینی ٹانگ | مصنوعی</p> <p>مشینی ٹانگ</p> <p>ٹانگ | ٹھوکر | عضو</p> <p>ٹانگ</p> <p>پاؤں | پاؤں مارنا | ٹھوکر</p> <p>پاؤں</p> <p>جسم | کان</p> <p>کان</p> <p>آلہ سماعت کے ساتھ کان | دسترس | کمزور سماعت</p> <p>آلہ سماعت کے ساتھ کان</p> <p>جسم | ناک</p> <p>ناک</p> <p>دماغ | ذہین</p> <p>دماغ</p> <p>دانت | معالج دندان</p> <p>دانت</p> <p>ڈھانچا | ہڈی</p> <p>ہڈی</p> <p>آنکھ | آنکھیں | چہرہ</p> <p>آنکھیں</p> <p>آنکھ | جسم</p> <p>آنکھ</p> <p>جسم | زبان</p> <p>زبان</p> <p>جسم | منہ</p> <p>منہ</p> <p>انسان | بچہ | طفل</p> <p>طفل</p> <p>بچہ | صنفی غیر جانبدار | نوجوان</p> <p>بچہ</p> <p>انسان | لڑکا</p> <p>لڑکا</p> <p>انسان | لڑکی</p> <p>لڑکی</p> <p>بالغ | شخص | صنفی غیر جانبدار</p> <p>شخص</p> <p>بال | بندہ | سنہرے | سنہرے بالوں والا شخص</p> <p>سنہرے بالوں والا شخص</p> <p>بچہ، دودھ پلانا، دایہ گیری، شخص | بچے کو دودھ پلاتا شخص</p> <p>بچے کو دودھ پلاتا شخص</p> <p>کلاؤز، کرسمس | میکس کلاؤز</p> <p>میکس کلاؤز</p> <p>انسان | مرد</p> <p>مرد</p> <p>داڑھی | داڑھی والا شخص</p> <p>داڑھی والا شخص</p> <p>بھورے بال | سنہرے بال | سنہرے بالوں والا مرد | مرد</p> <p>سنہرے بالوں والا مرد</p> <p>بچہ | بچے کو دودھ پلاتا مرد | دایہ گیری | دودھ پلانا | مرد</p> <p>بچے کو دودھ پلاتا مرد</p> <p>انسان | عورت</p> <p>عورت</p> <p>بھورے بال | سنہرے بال | سنہرے بالوں والی عورت | عورت</p> <p>سنہرے بالوں والی عورت</p> <p>بچہ | بچے کو دودھ پلاتی عورت | دایہ گیری | دودھ پلانا | عورت</p> <p>بچے کو دودھ پلاتی عورت</p> <p>بوڑھا | بوڑھا بالغ | صنفی غیر جانبدار</p> <p>بوڑھا بالغ</p> <p>انسان | بوڑھا | بوڑھا آدمی | مرد</p> <p>بوڑھا آدمی</p> <p>انسان | بوڑھی | عورت</p> <p>بوڑھی عورت</p> <p>اشارہ | تیوری | تیوری چڑھائے شخص</p> <p>تیوری چڑھائے شخص</p> <p>گھورتا ہوا مرد | گھورنا | مرد | ناراضگی ظاہر کرتا ہوا مرد</p> <p>گھورتا ہوا مرد</p> <p>عورت | گھورتی ہوئی عورت | گھورنا | ناراضگی ظاہر کرتی ہوئی عورت</p> <p>گھورتی ہوئی عورت</p> <p>اشارہ | نا شاد | نا شاد شخص</p> <p>نا شاد شخص</p> <p>اداسی ظاہر کرنا | مرد | منھ بسورنا | منہ بسورتا ہوا مرد | ہونٹ دبانا</p> <p>منہ بسورتا ہوا مرد</p> <p>اداسی ظاہر کرنا | عورت | منھ بسورنا | منہ بسورتی ہوا عورت | ہونٹ دبانا</p> <p>منہ بسورتی ہوا عورت</p> <p>منع کرنا | نہیں | نہیں کا اشارہ | ہاتھ</p> <p>نہیں کا اشارہ</p> <p>اشارہ | ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتا ہوا مرد | روکنا | مرد | منع کرنا</p> <p>ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتا ہوا مرد</p> <p>اشارہ | ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت | روکنا | عورت | منع کرنا</p> <p>ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت</p> <p>ٹھیک ہے | ہاتھ | ہاں کا اشارہ</p> <p>ہاں کا اشارہ</p> <p>اجازت دینا | اشارہ | اوکے | ٹھیک ہے کا اشارہ کرتا ہوا مرد | مرد</p> <p>ٹھیک ہے کا اشارہ کرتا ہوا مرد</p> <p>اجازت دینا | اشارہ | اوکے | ٹھیک ہے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت | عورت</p> <p>ٹھیک ہے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت</p> <p>مدد | معلومات | معلوماتی ڈیسک والا بندہ</p> <p>معلوماتی ڈیسک والا بندہ</p> <p>تجویر | تجویز دیتا ہوا مرد | رائے | مرد | معلومات</p> <p>تجویز دیتا ہوا مرد</p> <p>تجویر | تجویز دیتی ہوئی عورت | رائے | عورت | معلومات</p> <p>تجویز دیتی ہوئی عورت</p> <p>اٹھانا | خوش | ہاتھ | ہاتھ بلند کیے خوش شخص</p> <p>ہاتھ بلند کیے خوش شخص</p> <p>اشارہ | مرد | ہاتھ اٹھاتا ہوا مرد | ہاتھ اٹھانا</p> <p>ہاتھ اٹھاتا ہوا مرد</p> <p>اشارہ | عورت | ہاتھ اٹھاتی ہوئی عورت | ہاتھ اٹھانا</p> <p>ہاتھ اٹھاتی ہوئی عورت</p> <p>بہرہ پن | دسترس | سماعت | سماعت سے محروم شخص | کان</p> <p>سماعت سے محروم شخص</p> <p>بہرہ | سماعت سے محروم مرد | مرد</p> <p>سماعت سے محروم مرد</p> <p>بہری | عورت</p> <p>بہری عورت</p> <p>اشارہ | جھکنا | جھکے ہوئے شخص | معافی</p> <p>جھکے ہوئے شخص</p> <p>افسوس | بہت زیادہ جھکا ہوا مرد | مرد | معافی | معذرت</p> <p>بہت زیادہ جھکا ہوا مرد</p> <p>افسوس | بہت زیادہ جھکی ہوئی عورت | عورت | معافی | معذرت</p> <p>بہت زیادہ جھکی ہوئی عورت</p> <p>بے یقینی | پیشانی | پیشانی پر ہاتھ | چہرہ | غصہ | ہاتھ</p> <p>پیشانی پر ہاتھ</p> <p>بے یقینی | پیشانی | شرمندگی | شرمندگی ظاہر کرتا ہوا مرد | مرد</p> <p>شرمندگی ظاہر کرتا ہوا مرد</p> <p>بے یقینی | پیشانی | شرمندگی | شرمندگی ظاہر کرتی ہوئی عورت | عورت</p> <p>شرمندگی ظاہر کرتی ہوئی عورت</p> <p>بے پرواہی | کندھے اچکانا | لا علمی</p> <p>کندھے اچکانا</p> <p>بے پرواہی | شک | کندھے اچکاتا ہوا مرد | کندھے اچکانا | لا علمی</p> <p>کندھے اچکاتا ہوا مرد</p> <p>بے پرواہی | شک | کندھے اچکاتی ہوئی عورت | کندھے اچکانا | لا علمی</p> <p>کندھے اچکاتی ہوئی عورت</p> <p>تھیراپسٹ | ڈاکٹر | نرس | ہیلتھ کیئر | ہیلتھ ورکر</p> <p>ہیلتھ ورکر</p> <p>ڈاکٹر | صحت | کارکن | مرد | مرد ہیلتھ ورکر</p> <p>مرد ہیلتھ ورکر</p> <p>ڈاکٹر | صحت | عورت | عورت ہیلتھ ورکر | کارکن</p> <p>عورت ہیلتھ ورکر</p> <p>طالب علم | طالبعلم | گریجویٹ</p> <p>طالب علم</p> <p>اسکول | طالب علم | گریجوئیشن | مرد | مرد طالب علم</p> <p>مرد طالب علم</p> <p>اسکول | طالب علم | عورت | عورت طالب علم | گریجوئیشن</p> <p>عورت طالب علم</p> <p>استاد | پروفیسر | معلم</p> <p>استاد</p> <p>استاد | اسکول | پروفیسر | مرد استاد</p> <p>مرد استاد</p> <p>استانی | اسکول | پروفیسر</p> <p>استانی</p> <p>پیمانے | جج</p> <p>جج</p> <p>انصاف | عدالت | کورٹ | مرد | مرد جج</p> <p>مرد جج</p> <p>انصاف | عدالت | عورت | عورت جج | کورٹ</p> <p>عورت جج</p> <p>کاشتکار | کسان | مالی</p> <p>کسان</p> <p>باغبان | کاشت کار | کسان | مرد | مرد کاشت کار</p> <p>مرد کاشت کار</p> <p>باغبان | عورت | عورت کاشت کار | کاشت کار | کسان</p> <p>عورت کاشت کار</p> <p>باورچی | شیف</p> <p>باورچی</p> <p>باورچی | شیف | مرد</p> <p>مرد باورچی</p> <p>باورچی | شیف | عورت</p> <p>عورت باورچی</p> <p>الیکٹریشن | پلمبر | کاریگر | مکینک</p> <p>مکینک</p> <p>الیکٹریشن | کاریگر | مرد | مکینک</p> <p>مرد مکینک</p> <p>الیکٹریشن | عورت مکینک | کاریگر | مرد | مکینک</p> <p>عورت مکینک</p> <p>اسمبلی | صنعتی | فیکٹری | فیکٹری ورکر | کارکن</p> <p>فیکٹری ورکر</p> <p>فیکٹری | کارکن | کاریگر | مرد</p> <p>مرد فیکٹری کارکن</p> <p>عورت | فیکٹری | کارکن | کاریگر</p> <p>عورت فیکٹری کارکن</p> <p>آفس ورکر | کاروبار | ماہر تعمیرات | مینیجر | وائٹ کالر</p> <p>آفس ورکر</p> <p>دفتر | کارکن | مرد | ملازم</p> <p>مرد دفتر کارکن</p> <p>دفتر | عورت | کارکن | ملازم</p> <p>عورت دفتر کارکن</p> <p>انجینیئر | سائنسدان | کیمسٹ | ماہر حیاتیات | ماہر طبیعات</p> <p>سائنسدان</p> <p>بیالوجسٹ | سائنسدان | کیمسٹ | مرد</p> <p>مرد سائنسدان</p> <p>بیالوجسٹ | سائنسدان | عورت | کیمسٹ</p> <p>عورت سائنسدان</p> <p>،موجد | ٹیکنالوجسٹ | ڈویلپر | سافٹ ویئر | کوڈر</p> <p>ٹیکنالوجسٹ</p> <p>کمپیوٹر | کوڈر | لیپ ٹاپ | مرد | مرد ٹیکنولاجسٹ</p> <p>مرد ٹیکنولاجسٹ</p> <p>عورت | عورت ٹیکنولاجسٹ | کمپیوٹر | کوڈر | لیپ ٹاپ</p> <p>عورت ٹیکنولاجسٹ</p> <p>اداکار | تفریح فراہم کرنے والا | راک | سنگر | فنکار | گلوکار</p> <p>سنگر</p> <p>سنگر | فنکار | گلوکار</p> <p>گلوکار</p> <p>سنگر | فنکار | گلوکارہ</p> <p>گلوکارہ</p> <p>آرٹسٹ | رنگوں کی تختی</p> <p>آرٹسٹ</p> <p>آرٹسٹ | سنگر | فنکار</p> <p>فنکار</p> <p>آرٹسٹ | سنگر | فنکارہ</p> <p>فنکارہ</p> <p>پائلٹ | پائیلٹ | جہاز</p> <p>پائیلٹ</p> <p>آسمان | پائلٹ | مرد | ہوائی جہاز</p> <p>مرد پائلٹ</p> <p>آسمان | پائلٹ | عورت | ہوائی جہاز</p> <p>عورت پائلٹ</p> <p>خلا باز | خلاباز | راکٹ</p> <p>خلا باز</p> <p>خلا | خلاباز | راکٹ | مرد</p> <p>مرد خلاباز</p> <p>خلا | خلاباز | راکٹ | عورت خلاباز | مرد</p> <p>عورت خلاباز</p> <p>فائر ٹرک | فائر فائٹر</p> <p>فائر فائٹر</p> <p>آگ | آگ بجھانے والا | فائر فائٹر | مرد | مرد فائر فائٹر</p> <p>مرد فائر فائٹر</p> <p>آگ | آگ بجھانے والی | عورت فائر فائٹر | فائر فائٹر | مرد</p> <p>عورت فائر فائٹر</p> <p>آفیسر | پولیس</p> <p>پولیس آفیسر</p> <p>آفیسر | پولیس | پولیس اسٹیشن | مرد</p> <p>مرد پولیس آفیسر</p> <p>آفیسر | پولیس | پولیس اسٹیشن | عورت</p> <p>عورت پولیس آفیسر</p> <p>جاسوس | سراغ کا پتا لگانے والا</p> <p>جاسوس</p> <p>جاسوس | سراغ کا پتا لگانے والا | مرد</p> <p>مرد جاسوس</p> <p>جاسوس عورت | سراغ کا پتا لگانے والی | عورت جاسوس</p> <p>عورت جاسوس</p> <p>حفاظت | سیکیورٹی | گارڈ</p> <p>گارڈ</p> <p>آدمی | گارڈ | مرد گارڈ</p> <p>مرد گارڈ</p> <p>حفاظت | سیکیورٹی | عورت | گارڈ</p> <p>عورت گارڈ</p> <p>بند آنکھوں والا مستری | ٹوپی | مزدور</p> <p>بند آنکھوں والا مستری</p> <p>تعمیر | عمارت | مرد | مزدور</p> <p>مرد مزدور</p> <p>تعمیر | عمارت | عورت | مزدور</p> <p>عورت مزدور</p> <p>شہزادہ</p> <p>شہزادہ</p> <p>افسانوی | شہزادی | کہانی</p> <p>شہزادی</p> <p>آدمی | پگڑی | پگڑی والا شخص</p> <p>پگڑی والا شخص</p> <p>پگڑی | پگڑی والا مرد | سردار | مرد</p> <p>پگڑی والا مرد</p> <p>پگڑی | پگڑی والی عورت | سردارنی | عورت</p> <p>پگڑی والی عورت</p> <p>آدمی | ٹوپی | چینی ٹوپی والا شخص</p> <p>چینی ٹوپی والا شخص</p> <p>حجاب | سر پر اسکارف پہنے عورت | سر کا اسکارف</p> <p>سر پر اسکارف پہنے عورت</p> <p>تقریب | دلہا | سوٹ | سوٹڈ بوٹڈ آدمی</p> <p>سوٹڈ بوٹڈ آدمی</p> <p>عورت | کوٹ پینٹ پہنی ہوئی | کوٹ پینٹ پہنی ہوئی عورت</p> <p>کوٹ پینٹ پہنی ہوئی عورت</p> <p>کوٹ پینٹ پہنا ہوا | کوٹ پینٹ پہنا ہوا مرد | مرد</p> <p>کوٹ پینٹ پہنا ہوا مرد</p> <p>دلہن | روایتی سفید لباس میں دلہن | شادی</p> <p>روایتی سفید لباس میں دلہن</p> <p>عورت | نقاب | نقاب پوش عورت</p> <p>نقاب پوش عورت</p> <p>پردہ دار مرد | مرد | نقاب | نقاب پوش مرد</p> <p>پردہ دار مرد</p> <p>حاملہ | عورت</p> <p>حاملہ عورت</p> <p>بچہ | پرورش | پستان | دودھ پلانا</p> <p>دودھ پلانا</p> <p>افسانوی | بچہ | بے بی فرشتہ | چہرہ | فرشتہ</p> <p>بے بی فرشتہ</p> <p>باپ | جشن | سانتا | سانتا کلاز | کرسمس</p> <p>سانتا کلاز</p> <p>کرسمس | مدر</p> <p>مدر کرسمس</p> <p>اچھا | سپر پاور | سپر ہیرو | ہیرو | ہیروئن</p> <p>سپر ہیرو</p> <p>اچھا | سپر پاور | مرد | مرد سپر ہیرو | ہیرو</p> <p>مرد سپر ہیرو</p> <p>اچھا | خاتون سپر ہیرو | سپر پاور | عورت | ہیرو | ہیروئن</p> <p>خاتون سپر ہیرو</p> <p>برائی | سپر پاور | سپر ولن | مجرم | ولن</p> <p>سپر ولن</p> <p>برائی | سپر پاور | مجرم | مرد | مرد سپر ولن | ولن</p> <p>مرد سپر ولن</p> <p>برائی | خاتون سپر ولن | سپر پاور | عورت | مجرم | ولن</p> <p>خاتون سپر ولن</p> <p>جادوگر | چادوگرنی</p> <p>جادوگر</p> <p>جادوگر | جادوگر آدمی</p> <p>جادوگر آدمی</p> <p>جادوگر عورت | جادوگرنی | چڑیل</p> <p>جادوگر عورت</p> <p>اوبیران | پری | پک | ٹائٹینیا</p> <p>پری</p> <p>اوبیران | پک | مرد پری</p> <p>مرد پری</p> <p>پری عورت | ٹائٹینیا</p> <p>پری عورت</p> <p>خون خوار | ڈریکلا | زندہ</p> <p>خون خوار</p> <p>خون خوار آدمی | ڈریکلا | زندہ</p> <p>خون خوار آدمی</p> <p>خون خوار عورت | زندہ</p> <p>خون خوار عورت</p> <p>پانی کے جاندار | جل پری</p> <p>پانی کے جاندار</p> <p>جل مانس | سمندری دیوتا</p> <p>جل مانس</p> <p>جل پری | سمندری عورت</p> <p>جل پری</p> <p>پریت | جادوئی</p> <p>پریت</p> <p>پریت آدمی | جادوئی</p> <p>پریت آدمی</p> <p>پریت عورت | جادوئی</p> <p>پریت عورت</p> <p>جن</p> <p>جن</p> <p>جن | مرد جن</p> <p>مرد جن</p> <p>جن | عورت جن</p> <p>عورت جن</p> <p>چلتا پھرتا مردہ | زندہ | زندہ مردہ</p> <p>زندہ مردہ</p> <p>چلتا پھرتا مردہ | زندہ | زندہ مردہ مرد</p> <p>زندہ مردہ مرد</p> <p>چلتا پھرتا مردہ | زندہ | زندہ مردہ عورت</p> <p>زندہ مردہ عورت</p> <p>چہرے کا مساج | مساج</p> <p>چہرے کا مساج</p> <p>چہرا | چہرے کی مالش کراتا ہوا مرد | مالش | مرد | مساج</p> <p>چہرے کی مالش کراتا ہوا مرد</p> <p>چہرا | چہرے کی مالش کراتی ہوئی عورت | عورت | مالش | مساج</p> <p>چہرے کی مالش کراتی ہوئی عورت</p> <p>حجام | حجامت</p> <p>حجامت</p> <p>بال کٹواتا ہوا مرد | بال کٹوانا | حجام | مرد</p> <p>بال کٹواتا ہوا مرد</p> <p>بال کٹواتی ہوئی عورت | بال کٹوانا | حجام | عورت</p> <p>بال کٹواتی ہوئی عورت</p> <p>پیدل | پیدل چلتا شخص | شخص</p> <p>پیدل چلتا شخص</p> <p>پیدل چلتا ہوا مرد | پیدل چلنا | ٹہلنا | چہل قدمی کرنا | مرد</p> <p>پیدل چلتا ہوا مرد</p> <p>پیدل چلتی ہوئی عورت | پیدل چلنا | ٹہلنا | چہل قدمی کرنا | عورت</p> <p>پیدل چلتی ہوئی عورت</p> <p>کھڑا ہوا | کھڑا ہوا شخص | کھڑا ہونا</p> <p>کھڑا ہوا شخص</p> <p>کھڑا ہوا | کھڑا ہوا مرد | مرد</p> <p>کھڑا ہوا مرد</p> <p>عورت | کھڑی ہوئی | کھڑی ہوئی عورت</p> <p>کھڑی ہوئی عورت</p> <p>جھکنا | گھٹنوں کے بل بیٹھا شخص | گھٹنوں کے بل بیٹھنا</p> <p>گھٹنوں کے بل بیٹھا شخص</p> <p>گھٹنوں کے بل بیٹھا مرد | گھٹنوں کے بل بیٹھنا | مرد</p> <p>گھٹنوں کے بل بیٹھا مرد</p> <p>عورت | گھٹنوں کے بل بیٹھنا | گھٹنوں کے بل بیٹھی عورت</p> <p>گھٹنوں کے بل بیٹھی عورت</p> <p>ٹٹولنے والی چھڑی کے ساتھ فرد | رسائی | نابینا</p> <p>ٹٹولنے والی چھڑی کے ساتھ فرد</p> <p>دسترس | مرد | نابینا | نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ مرد</p> <p>نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ مرد</p> <p>دسترس | عورت | نابینا | نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ عورت</p> <p>نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ عورت</p> <p>برقی وہیل چئیر میں بیٹھا فرد | رسائی | وہیل چیئر</p> <p>برقی وہیل چئیر میں بیٹھا فرد</p> <p>برقی وہیل چئیر میں مرد | دسترس | مرد | وہیل چئیر</p> <p>برقی وہیل چئیر میں مرد</p> <p>برقی وہیل چئیر میں عورت | دسترس | عورت | وہیل چئیر</p> <p>برقی وہیل چئیر میں عورت</p> <p>دستی وہیل چیئر میں بیٹھا فرد | رسائی | وہیل چیئر</p> <p>دستی وہیل چیئر میں بیٹھا فرد</p> <p>دسترس | دستی وہیل چئیر میں مرد | مرد | وہیل چئیر</p> <p>دستی وہیل چئیر میں مرد</p> <p>دسترس | دستی وہیل چئیر میں عورت | عورت | وہیل چئیر</p> <p>دستی وہیل چئیر میں عورت</p> <p>دوڑتا ہوا شخص | دوڑنا | شخص</p> <p>دوڑتا ہوا شخص</p> <p>بھاگنا | تیز چلنا | دوڑتا ہوا مرد | دوڑنا | مرد</p> <p>دوڑتا ہوا مرد</p> <p>بھاگنا | تیز چلنا | دوڑتی ہوئی عورت | دوڑنا | عورت</p> <p>دوڑتی ہوئی عورت</p> <p>ڈانس | ڈانسر | لڑکی</p> <p>ڈانسر</p> <p>آدمی | ناچ | ناچتا ہوا شخص</p> <p>ناچتا ہوا شخص</p> <p>بزنس | بزنس سوٹ پہنے ہوا میں معلق شخص | سوٹ | شخص | معلق | ہوا</p> <p>بزنس سوٹ پہنے ہوا میں معلق شخص</p> <p>پارٹی کرتی عورتیں | ڈانس | عورت | لڑکی</p> <p>پارٹی کرتی عورتیں</p> <p>پارٹی | تفریح | ڈانس | ڈانس کرتے ہوئے مرد | مرد</p> <p>ڈانس کرتے ہوئے مرد</p> <p>پارٹی | تفریح | ڈانس | ڈانس کرتی ہوئی عورتیں | عورت</p> <p>ڈانس کرتی ہوئی عورتیں</p> <p>ایک شخص بھاپ سے بھرے کمرے میں | بھاپ سے بھرا | غسل خانہ</p> <p>ایک شخص بھاپ سے بھرے کمرے میں</p> <p>ایک مرد بھاپ سے بھرے کمرے میں | بھاپ سے بھرا | غسل خانہ</p> <p>ایک مرد بھاپ سے بھرے کمرے میں</p> <p>ایک خاتون بھاپ سے بھرے کمرے میں | بھاپ سے بھرا | غسل خانہ</p> <p>ایک خاتون بھاپ سے بھرے کمرے میں</p> <p>چڑھتا ہوا شخص | چڑھنے والا</p> <p>چڑھتا ہوا شخص</p> <p>چڑھتا ہوا آدمی | چڑھنے والا</p> <p>چڑھتا ہوا آدمی</p> <p>چرھنے والی | چڑھتی ہوئی عورت</p> <p>چڑھتی ہوئی عورت</p> <p>بندہ | تلوار | تلوار بازی | کھیل</p> <p>تلوار بازی</p> <p>دوڑ | کھیل | گھڑ دوڑ | گھوڑا</p> <p>گھڑ دوڑ</p> <p>اسکائر | اسکائی | برف</p> <p>اسکائر</p> <p>اسکائی | برف | سنو بورڈ | سنو بورڈر</p> <p>سنو بورڈر</p> <p>کھلاڑی | گالف | گالف کا کھلاڑی</p> <p>گالف کا کھلاڑی</p> <p>کھلاڑی | کھیلنا | گالف | گالف کھیلتا ہوا مرد | مرد</p> <p>گالف کھیلتا ہوا مرد</p> <p>عورت | کھلاڑی | کھیلنا | گالف | گالف کھیلتی ہوئی عورت</p> <p>گالف کھیلتی ہوئی عورت</p> <p>پانی | تختہ | سرف | سرفر</p> <p>سرفر</p> <p>آدمی | سرفنگ | سرفنگ کرتا ہوا مرد</p> <p>سرفنگ کرتا ہوا مرد</p> <p>پانی | تختہ | سرفنگ کرتی ہوئی عورت | عورت | کھیلنا</p> <p>سرفنگ کرتی ہوئی عورت</p> <p>چپوؤں والی کشتی | سواری | کشتی</p> <p>چپوؤں والی کشتی</p> <p>پانی | سواری | کشتی | کشتی چلاتا ہوا مرد | مرد</p> <p>کشتی چلاتا ہوا مرد</p> <p>پانی | سواری | عورت | کشتی | کشتی چلاتی ہوئی عورت</p> <p>کشتی چلاتی ہوئی عورت</p> <p>پانی | تیراک | تیراکی</p> <p>تیراک</p> <p>پانی | تیراکی | تیراکی کرتا ہوا مرد | مرد</p> <p>تیراکی کرتا ہوا مرد</p> <p>پانی | تیراکی | تیراکی کرتی ہوئی عورت | عورت</p> <p>تیراکی کرتی ہوئی عورت</p> <p>بال | بال سے کھیلتا شخص | بندہ</p> <p>بال سے کھیلتا شخص</p> <p>بال | بال سے کھیلتا ہوا مرد | کھیلنا | مرد | میدان</p> <p>بال سے کھیلتا ہوا مرد</p> <p>بال | بال سے کھیلتی ہوئی عورت | عورت | کھیلنا | میدان</p> <p>بال سے کھیلتی ہوئی عورت</p> <p>اٹھانا | وزن | وزن اٹھائے شخص</p> <p>وزن اٹھائے شخص</p> <p>اٹھانا | جم | مرد | وزن | وزن اٹھاتا ہوا مرد</p> <p>وزن اٹھاتا ہوا مرد</p> <p>اٹھانا | جم | عورت | وزن | وزن اٹھاتی ہوئی عورت</p> <p>وزن اٹھاتی ہوئی عورت</p> <p>سائیکل | سوار</p> <p>سائیکل سوار</p> <p>چلانا | سائیکل | سائیکل سوار مرد | سڑک | مرد</p> <p>سائیکل سوار مرد</p> <p>چلانا | سائیکل | سائیکل سوار عورت | سڑک | عورت</p> <p>سائیکل سوار عورت</p> <p>بائیک | سائیکل | سوار | ماؤنٹین</p> <p>ماؤنٹین بائیک</p> <p>چلانا | سائیکل | ماؤنٹین | ماؤنٹین بائیک پر سوار مرد | مرد</p> <p>ماؤنٹین بائیک پر سوار مرد</p> <p>چلانا | سائیکل | عورت | ماؤنٹین | ماؤنٹین بائیک پر سوار عورت</p> <p>ماؤنٹین بائیک پر سوار عورت</p> <p>بندہ | جمناسٹکس | قلابازی | قلابازی لگاتا شخص | کھیل</p> <p>قلابازی لگاتا شخص</p> <p>جمناسٹکس | قلابازی | قلابازی کھاتا ہوا مرد | کھیل | مرد</p> <p>قلابازی کھاتا ہوا مرد</p> <p>جمناسٹکس | عورت | قلابازی | قلابازی کھاتی ہوئی عورت | کھیل</p> <p>قلابازی کھاتی ہوئی عورت</p> <p>بندہ | پہلوان | کشتی | کھیل</p> <p>پہلوان</p> <p>پہلوان | کشتی | کھیل | مرد | مردوں کی کشتی</p> <p>مردوں کی کشتی</p> <p>پہلوان | عورت | عورتوں کی کشتی | کشتی | کھیل</p> <p>عورتوں کی کشتی</p> <p>بندہ | پانی | پولو | کھیل | واٹر پولو</p> <p>واٹر پولو</p> <p>پانی | پولو | کھیل | مرد | واٹر پولو کھیلتا ہوا مرد</p> <p>واٹر پولو کھیلتا ہوا مرد</p> <p>پانی | پولو | عورت | کھیل | واٹر پولو کھیلتی ہوئی عورت</p> <p>واٹر پولو کھیلتی ہوئی عورت</p> <p>بال | بندہ | کھیل | ہینڈ بال</p> <p>ہینڈ بال</p> <p>کھیل | مرد | میدان | ہینڈ بال | ہینڈ بال کھیلتا ہوا مرد</p> <p>ہینڈ بال کھیلتا ہوا مرد</p> <p>عورت | کھیل | میدان | ہینڈ بال | ہینڈ بال کھیلتی ہوئی عورت</p> <p>ہینڈ بال کھیلتی ہوئی عورت</p> <p>توازن | شعبدہ بازی | مداری | مہارت</p> <p>شعبدہ بازی</p> <p>شعبدہ باز مرد | شعبدہ بازی | کھیل | مداری | مرد</p> <p>شعبدہ باز مرد</p> <p>شعبدہ باز عورت | شعبدہ بازی | عورت | کھیل | مداری</p> <p>شعبدہ باز عورت</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا شخص | مراقبہ | یوگا</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا شخص</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا آدمی | مراقبہ | یوگا</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا آدمی</p> <p>پالتی مار کر بیٹھی عورت | مراقبہ | یوگا</p> <p>پالتی مار کر بیٹھی عورت</p> <p>باتھ ٹب | نہاتا ہوا شخص</p> <p>نہاتا ہوا شخص</p> <p>بستر میں لیٹا شخص | نیند | ہوٹل</p> <p>بستر میں لیٹا شخص</p> <p>تھامنا | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ</p> <p>تھامنا | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>تھامنا | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>بوسہ | جوڑا | رومانس</p> <p>بوسہ</p> <p>جوڑا | دل | دل اور جوڑا | رومانس</p> <p>دل اور جوڑا</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | ماں</p> <p>خاندان</p> <p>بولتا سر | بولنا | چہرہ | سر</p> <p>بولتا سر</p> <p>آدمی کا خاکہ | خاکہ</p> <p>آدمی کا خاکہ</p> <p>آدمیوں کے خاکے | خاکہ</p> <p>آدمیوں کے خاکے</p> <p>جسم | قدم | قدموں کے نشانات | نشان</p> <p>قدموں کے نشانات</p> <p>ادرک | سرخ بال | سرخ سر</p> <p>سرخ بال</p> <p>افریقی | گھنگھریالے | گھنگھریالے بال | گیسو</p> <p>گھنگھریالے بال</p> <p>بال | بوڑھا | خاکستری | سفید</p> <p>سفید بال</p> <p>شیو کیا ہوا | کوئی بال نہیں | کیمیائی علاج | گنجا</p> <p>گنجا</p> <p>بندر | بندر کا چہرہ | جانور</p> <p>بندر کا چہرہ</p> <p>بندر | جانور</p> <p>بندر</p> <p>جانور | گوریلا</p> <p>گوریلا</p> <p>انسان نما بندر | گوریلا</p> <p>انسان نما بندر</p> <p>جانور | چہرہ | کتا | کتے کا چہرہ</p> <p>کتے کا چہرہ</p> <p>جانور | کتا</p> <p>کتا</p> <p>دسترس | رہنما | رہنما کتا | نابینا</p> <p>رہنما کتا</p> <p>خدمت | خدمتگار کتا | دسترس | کتا | معاونت</p> <p>خدمتگار کتا</p> <p>پوڈل | جانور</p> <p>پوڈل</p> <p>بھیڑیا | چہرہ</p> <p>بھیڑیا</p> <p>چہرہ | لومڑی</p> <p>لومڑی</p> <p>راکون | متجسس | مکار</p> <p>راکون</p> <p>بلی | بلی کا چہرہ | پالتو | جانور</p> <p>بلی کا چہرہ</p> <p>بلی | پالتو | جانور</p> <p>بلی</p> <p>بَد شَگُون | بلی | کالی</p> <p>کالی بلی</p> <p>ببر شیر | برج | برج اسد | چہرہ | شیر کا چہرہ</p> <p>شیر کا چہرہ</p> <p>ٹائیگر | ٹائیگر کا چہرہ | جانور</p> <p>ٹائیگر کا چہرہ</p> <p>ٹائیگر | جانور</p> <p>ٹائیگر</p> <p>تیندوا | جانور</p> <p>تیندوا</p> <p>جانور | گھوڑا | گھوڑے کا چہرہ</p> <p>گھوڑے کا چہرہ</p> <p>جانور | گھوڑا</p> <p>گھوڑا</p> <p>جانور | چہرہ | یونیکارن | یونیکارن کا چہرہ</p> <p>یونیکارن</p> <p>دھاری | زیبرا</p> <p>زیبرا</p> <p>جانور | ہرن</p> <p>ہرن</p> <p>جانور | گائے | گائے کا چہرہ</p> <p>گائے کا چہرہ</p> <p>بیل | جانور</p> <p>بیل</p> <p>بھینس | پانی کی بھینس | جانور</p> <p>پانی کی بھینس</p> <p>جانور | گائے</p> <p>گائے</p> <p>جانور | سور | سور کا چہرہ</p> <p>سور کا چہرہ</p> <p>جانور | سور</p> <p>سور</p> <p>جانور | جنگلی سور | سوؤر</p> <p>جنگلی سور</p> <p>چہرہ | سور | سور کی ناک | ناک</p> <p>سور کی ناک</p> <p>بھیڑ | جانور | نر بھیڑ</p> <p>نر بھیڑ</p> <p>جانور | مادہ بھیڑ</p> <p>مادہ بھیڑ</p> <p>برج | بکری | جانور | جدی</p> <p>بکری</p> <p>اونٹ | جانور | کوہان</p> <p>اونٹ</p> <p>اونٹ | جانور | دو کوہانوں والا اونٹ | کوہان</p> <p>دو کوہانوں والا اونٹ</p> <p>الپاکا | اون | گوآناکو | لاما | ویکونیا</p> <p>لاما</p> <p>دھبے | زرافہ</p> <p>زرافہ</p> <p>جانور | ہاتھی</p> <p>ہاتھی</p> <p>جانور | گینڈا</p> <p>گینڈا</p> <p>دریائی گھوڑا</p> <p>دریائی گھوڑا</p> <p>جانور | چہرہ | چوہا | چوہے کا چہرہ</p> <p>چوہے کا چہرہ</p> <p>جانور | چوہا | سفید چوہا</p> <p>سفید چوہا</p> <p>جانور | چوہا</p> <p>چوہا</p> <p>پالتو | چہرہ | ہیمسٹر</p> <p>ہیمسٹر</p> <p>جانور | چہرہ | خرگوش | خرگوش کا چہرہ</p> <p>خرگوش کا چہرہ</p> <p>جانور | خرگوش</p> <p>خرگوش</p> <p>جانور | گلہری</p> <p>گلہری</p> <p>خار پشت | خاردار</p> <p>خار پشت</p> <p>جانور | چمگادڑ</p> <p>چمگادڑ</p> <p>چہرہ | ریچھ | ریچھ کا چہرہ</p> <p>ریچھ کا چہرہ</p> <p>برفانی | ریچھ | سفید | قطبی ریچھ</p> <p>قطبی ریچھ</p> <p>جانور | ریچھ | کوآلا</p> <p>کوآلا</p> <p>پانڈا | پانڈا کا چہرہ | جانور</p> <p>پانڈا</p> <p>سست | سلاتھ | کاہل</p> <p>سلاتھ</p> <p>اود بلاؤ | چنچل | ماہی گیری</p> <p>اود بلاؤ</p> <p>بدبودار | سکنک</p> <p>سکنک</p> <p>آسٹریلیا | چھلانگ | کینگرو | مارسوپئیل | ننھا کینگرو</p> <p>کینگرو</p> <p>افریقی بجو | بجو | پریشان کرنا</p> <p>بجو</p> <p>پنجوں کے نشانات | پنجے | جانور | نشان</p> <p>پنجوں کے نشانات</p> <p>ٹرکی | جانور</p> <p>ٹرکی</p> <p>جانور | چکن</p> <p>چکن</p> <p>جانور | مرغ | مرغی</p> <p>مرغی</p> <p>انڈے سے نکلتا چوزہ | بچہ | جانور | چوزہ</p> <p>انڈے سے نکلتا چوزہ</p> <p>بیبی | پرندہ | چوزہ</p> <p>بیبی چوزہ</p> <p>بچہ | جانور | چوزہ | سامنے دیکھتا بیبی چوزہ</p> <p>سامنے دیکھتا بیبی چوزہ</p> <p>آسمان | پرنده | پرندہ | چڑیا</p> <p>پرنده</p> <p>پنگوئن</p> <p>پنگوئن</p> <p>امن | پرندہ | فاختہ</p> <p>فاختہ</p> <p>پرندہ | عقاب</p> <p>عقاب</p> <p>بطخ | پرندہ</p> <p>بطخ</p> <p>بدصورت بط بچہ | پرندہ | جو ان ہنس | راج ہنس</p> <p>راج ہنس</p> <p>الو | پرندہ | عقلمند</p> <p>الو</p> <p>بھڑکیلا | حاری | لم ٹنگو</p> <p>لم ٹنگو</p> <p>پرندہ | مغرور | مور | مورنی | نمائشی</p> <p>مور</p> <p>پرندہ | طوطا | قزاق | گفتگو</p> <p>طوطا</p> <p>چہرہ | مینڈک</p> <p>مینڈک</p> <p>جانور | مگرمچھ</p> <p>مگرمچھ</p> <p>جانور | کچھوا</p> <p>کچھوا</p> <p>جانور | چھپکلی | رینگنا</p> <p>چھپکلی</p> <p>جانور | سانپ</p> <p>سانپ</p> <p>جانور | چہرہ | ڈریگن | ڈریگن کا چہرہ</p> <p>ڈریگن کا چہرہ</p> <p>جانور | ڈریگن</p> <p>ڈریگن</p> <p>جسیم سبزی خور ڈائنوساروں کا ایک طبقہ | سارپا</p> <p>سارپا</p> <p>ٹائرانوسرس ریکس | ٹی ریکس</p> <p>ٹی ریکس</p> <p>پانی کا فوارہ نکالتی وہیل | جانور | وہیل</p> <p>پانی کا فوارہ نکالتی وہیل</p> <p>جانور | وہیل</p> <p>وہیل</p> <p>جانور | ڈولفن</p> <p>ڈولفن</p> <p>جانور | مچھلی</p> <p>مچھلی</p> <p>ٹراپکل | مچھلی</p> <p>ٹراپکل مچھلی</p> <p>بلو مچھلی | مچھلی</p> <p>بلو مچھلی</p> <p>شارک | مچھلی</p> <p>شارک</p> <p>آکٹوپس | جانور</p> <p>آکٹوپس</p> <p>جانور | شیل | مرغولے دار شیل</p> <p>مرغولے دار شیل</p> <p>جانور | گھونگھا</p> <p>گھونگھا</p> <p>تتلی | خوبصورت | کیڑہ</p> <p>تتلی</p> <p>کن کھجورا | کیڑا</p> <p>کن کھجورا</p> <p>چیونٹی</p> <p>چیونٹی</p> <p>شہد | شہد کی مکھی | مکھی</p> <p>شہد کی مکھی</p> <p>کھٹمل | کیڑا</p> <p>کھٹمل</p> <p>ٹڈا | گرگٹ</p> <p>گرگٹ</p> <p>کیڑا | مکڑی</p> <p>مکڑی</p> <p>کیڑا | مکڑی | مکڑی کا جالا</p> <p>مکڑی کا جالا</p> <p>بچھو | جانور</p> <p>بچھو</p> <p>بخار | بیماری | کیڑا | مچھر | ملیریا | وائرس</p> <p>مچھر</p> <p>امیبا | بیکٹیریا | جرثومہ | وائرس</p> <p>جرثومہ</p> <p>پھول | پودہ | گلدستہ</p> <p>گلدستہ</p> <p>بلاسم | پھول | پودہ | چیری</p> <p>چیری بلاسم</p> <p>پھول | سفید پھول</p> <p>سفید پھول</p> <p>پھول | پودا | گلاب کا نقش</p> <p>گلاب کا نقش</p> <p>پھول | پودا | گلاب</p> <p>گلاب</p> <p>پھول | مرجھایا | مرجھایا ہوا پھول</p> <p>مرجھایا ہوا پھول</p> <p>پھول | پودا | گل خطمی</p> <p>گل خطمی</p> <p>پھول | پودا | سورج | سورج مکھی کا پھول</p> <p>سورج مکھی کا پھول</p> <p>پھول | پودا | شگوفہ</p> <p>شگوفہ</p> <p>پھول | پودا | نرگس کا پھول</p> <p>نرگس کا پھول</p> <p>پودا | ننھا</p> <p>ننھا پودا</p> <p>پودا | درخت | سدا بہار</p> <p>سدا بہار</p> <p>پت جھڑ | پت جھڑ درخت | پودا | درخت</p> <p>پت جھڑ درخت</p> <p>پام | پام کا درخت | پودا | درخت</p> <p>پام کا درخت</p> <p>پودا | کیکٹس</p> <p>کیکٹس</p> <p>پودا | چاول | چاولوں کا گٹھا</p> <p>چاولوں کا گٹھا</p> <p>پتا | پودا | جڑی بوٹی</p> <p>جڑی بوٹی</p> <p>پودا | تین پتی پھول</p> <p>تین پتی پھول</p> <p>پتا | پودا | چار | چار پتیوں والی گھاس</p> <p>چار پتیوں والی گھاس</p> <p>پودا | گرنا | میپل | میپل کے پتے</p> <p>میپل کے پتے</p> <p>پتا | پودا | گرنا | گرے ہوئے پتے</p> <p>گرے ہوئے پتے</p> <p>پتا | پودا | ہوا | ہوا میں پھڑپھڑاتے پتے</p> <p>ہوا میں پھڑپھڑاتے پتے</p> <p>انگور | پھل</p> <p>انگور</p> <p>پھل | خربوزہ</p> <p>خربوزہ</p> <p>پھل | تربوز</p> <p>تربوز</p> <p>پھل | چھوٹا سنگترہ | سنترہ</p> <p>چھوٹا سنگترہ</p> <p>پھل | لیموں</p> <p>لیموں</p> <p>پھل | کیلا</p> <p>کیلا</p> <p>انناس | پھل</p> <p>انناس</p> <p>آم | پھل | ٹروپیکل</p> <p>آم</p> <p>پھل | سرخ | سیب</p> <p>سرخ سیب</p> <p>پھل | سبز | سیب</p> <p>سبز سیب</p> <p>پھل | ناشپاتی</p> <p>ناشپاتی</p> <p>آڑو | پھل</p> <p>آڑو</p> <p>پھل | چیریاں</p> <p>چیریاں</p> <p>اسٹابری | پھل</p> <p>اسٹابری</p> <p>پھل | خوراک | کیوی | کیوی فروٹ</p> <p>کیوی فروٹ</p> <p>پھل | ٹماٹر</p> <p>ٹماٹر</p> <p>پینا کولاڈا | کھجور | ناریل</p> <p>ناریل</p> <p>ایوو کیڈو | پھل | خوراک</p> <p>ایوو کیڈو</p> <p>بینگن | سبزی</p> <p>بینگن</p> <p>آلو | خوراک | سبزی</p> <p>آلو</p> <p>خوراک | سبزی | گاجر</p> <p>گاجر</p> <p>پودا | چھلی</p> <p>چھلی</p> <p>پودا | تیز | مرچ</p> <p>تیز مرچ</p> <p>خوراک | سبزی | سلاد | کھیرا</p> <p>کھیرا</p> <p>بند گوبھی | چینی بند گوبھی | سلاد پتہ | ہرے پتوں والی سبزی</p> <p>ہرے پتوں والی سبزی</p> <p>جنگلی گوبھی | شاخ گوبھی</p> <p>شاخ گوبھی</p> <p>ذائقہ | لہسن</p> <p>لہسن</p> <p>پیاز | ذائقہ</p> <p>پیاز</p> <p>پودا | کھمبی</p> <p>کھمبی</p> <p>خوراک | سبزی | مونگ پھلی</p> <p>مونگ پھلی</p> <p>پودا | شاہ بلوط | شاہ بلوط کا پھل</p> <p>شاہ بلوط کا پھل</p> <p>بریڈ | ڈبل روٹی | روٹی | نان</p> <p>ڈبل روٹی</p> <p>خوراک | روٹی | فرنچ | ہلال نما | ہلال نما روٹی</p> <p>ہلال نما روٹی</p> <p>بریڈ | بیگٹ | بیگٹ ڈبل روٹی | خوراک | ڈبل روٹی | فرنچ</p> <p>بیگٹ ڈبل روٹی</p> <p>گانٹھ کی شکل کی بسکٹ | موڑی ہوئی</p> <p>گانٹھ کی شکل کی بسکٹ</p> <p>بیکری | بیگل | شمئیر</p> <p>بیگل</p> <p>پین کیک | پین کیکس | خوراک</p> <p>پین کیکس</p> <p>فولاد | متذبذب | ویفل</p> <p>ویفل</p> <p>پنیر | پنیر کا ٹکڑا | ٹکڑا</p> <p>پنیر کا ٹکڑا</p> <p>اسنیک | گوشت | ہڈی | ہڈی پر گوشت</p> <p>ہڈی پر گوشت</p> <p>اسنیک | ٹانگ | چکن | چکن کی ٹانگ</p> <p>چکن کی ٹانگ</p> <p>چاپ | سوّر کا گوشت | گوشت کا ٹکڑا</p> <p>گوشت کا ٹکڑا</p> <p>خوراک | سور | سور کا نمکین گوشت | گوشت | نمکین</p> <p>سور کا نمکین گوشت</p> <p>اسنیک | برگر | ہیم برگر</p> <p>ہیم برگر</p> <p>اسنیک | فرائز | فرنچ</p> <p>فرنچ فرائز</p> <p>اسنیک | پزا | پنیر | ٹکڑا</p> <p>پزا</p> <p>اسنیک | بریڈ | ہاٹ ڈاگ</p> <p>ہاٹ ڈاگ</p> <p>ڈبل روٹی | سینڈوچ</p> <p>سینڈوچ</p> <p>اسنیک | پراٹھا | مسالہ | مسالے بھرا پراٹھا | میکسیکن</p> <p>مسالے بھرا پراٹھا</p> <p>اسنیک | بریٹو | مسالہ | میکسیکن</p> <p>بریٹو</p> <p>بھری ہوئی | بھری ہوئی چپاتی | چپاتی | خوراک | کباب</p> <p>بھری ہوئی چپاتی</p> <p>چنا | فلافل | کوفتہ</p> <p>فلافل</p> <p>انڈا | خوراک</p> <p>انڈا</p> <p>انڈا | پکتا ہوا انڈہ | پین</p> <p>پکتا ہوا انڈہ</p> <p>پین | خوراک | کم گہرا | کم گہرے پین میں خوراک</p> <p>کم گہرے پین میں خوراک</p> <p>برتن | خوراک | خوراک کا برتن</p> <p>خوراک کا برتن</p> <p>اناج | چمچ اور کٹورا | دلیہ | ناشتہ</p> <p>چمچ اور کٹورا</p> <p>خوراک | سبز | سلاد</p> <p>سبز سلاد</p> <p>اسنیک | پاپ کارن</p> <p>پاپ کارن</p> <p>ڈیری | مکھن</p> <p>مکھن</p> <p>مصالحہ | نمک | نمک دانی</p> <p>نمک</p> <p>ڈبہ | ڈبہ بند کھانا</p> <p>ڈبہ بند کھانا</p> <p>بنٹو | بنٹو باکس | ڈبہ</p> <p>بنٹو باکس</p> <p>پاپڑ | چاول | چاولوں کے پاپڑ</p> <p>چاولوں کے پاپڑ</p> <p>جاپانی | چاول | چاولوں کے بالز | گیند</p> <p>چاولوں کے بالز</p> <p>پکے ہوئے | پکے ہوئے چاول | چاول</p> <p>پکے ہوئے چاول</p> <p>چاول | شوربہ | شوربے والے چاول</p> <p>شوربے والے چاول</p> <p>بھاپ نکالتا پیالہ | پیالہ | نوڈل</p> <p>بھاپ نکالتا پیالہ</p> <p>اسپیگٹی | کھانا</p> <p>اسپیگٹی</p> <p>آلو | بُھنا ہوا | بُھنا ہوا میٹھا آلو | میٹھا</p> <p>بُھنا ہوا میٹھا آلو</p> <p>اوڈن | سٹک | سمندری کھانا | کباب</p> <p>اوڈن</p> <p>جاپانی | سوشی | کھانا</p> <p>سوشی</p> <p>تلا ہوا | تلا ہوا شرمپ | شرمپ</p> <p>تلا ہوا شرمپ</p> <p>بگولا بنا مچھلی کا کیک | پیسٹری | کیک | مچھلی</p> <p>بگولا بنا مچھلی کا کیک</p> <p>تہوار | چاند نما کیک | خزاں</p> <p>چاند نما کیک</p> <p>جاپانی | ڈینگو | سٹک | میٹھا</p> <p>ڈینگو</p> <p>پاٹ سٹیکر | پکوڑی</p> <p>پکوڑی</p> <p>پروفیسی | قسمت والا بسکٹ</p> <p>قسمت والا بسکٹ</p> <p>پارسل کا ڈبہ | صدف کی بالٹی</p> <p>پارسل کا ڈبہ</p> <p>جانور | کیکڑا</p> <p>کیکڑا</p> <p>پنجے | سمندری غذا | گاڑھا سوپ | لوبسٹر</p> <p>لوبسٹر</p> <p>جھینگا | خوراک</p> <p>جھینگا</p> <p>خوراک | قیر ماہی</p> <p>قیر ماہی</p> <p>صدفہ | غوطہ خوری | موتی</p> <p>صدفہ</p> <p>برف | سافٹ آئس کریم | کریم | میٹھی | نرم</p> <p>سافٹ آئس کریم</p> <p>برف | تراشی ہوئی | تراشیدہ برف | میٹھی</p> <p>تراشیدہ برف</p> <p>آئس کریم | برف | کریم | میٹھی</p> <p>آئس کریم</p> <p>ڈونٹ | میٹھا</p> <p>ڈونٹ</p> <p>کوکی | میٹھا</p> <p>کوکی</p> <p>پیسٹری | جشن | سالگرہ کا کیک | کیک | میٹھا</p> <p>سالگرہ کا کیک</p> <p>پیسٹری | ٹکڑا | کیک | کیک کا ٹکڑا | میٹھا</p> <p>کیک کا ٹکڑا</p> <p>بیکری | کپ کیک | میٹھا</p> <p>کپ کیک</p> <p>بھرنا | پائي | پیسری</p> <p>پائي</p> <p>بار | چاکلیٹ | میٹھی</p> <p>چاکلیٹ بار</p> <p>کینڈی | میٹھی</p> <p>کینڈی</p> <p>کینڈی | لالی پاپ | میٹھی</p> <p>لالی پاپ</p> <p>کسٹرڈ | میٹھا</p> <p>کسٹرڈ</p> <p>برتن | شہد | شہد کا برتن | میٹھا</p> <p>شہد کا برتن</p> <p>بچہ | بوتل | دودھ | فیڈر</p> <p>فیڈر</p> <p>دودھ | دودھ کا گلاس | گلاس | مشروب</p> <p>دودھ کا گلاس</p> <p>چائے | کافی | گرم</p> <p>گرم کافی</p> <p>ٹی کپ | چائے | کپ | ہینڈل کے بغیر چائے کا کپ</p> <p>ہینڈل کے بغیر چائے کا کپ</p> <p>بار | بوتل | پینا | جاپانی شراب | شراب</p> <p>جاپانی شراب</p> <p>بار | بوتل | پینا | کارک | کارک لگی بوتل</p> <p>کارک لگی بوتل</p> <p>بار | پینا | شراب | شراب کا گلاس | گلاس</p> <p>شراب کا گلاس</p> <p>بار | پینا | کاک ٹیل | کاک ٹیل گلاس | گلاس</p> <p>کاک ٹیل گلاس</p> <p>بار | پینا | ٹراپکل | ٹراپکل مشروب</p> <p>ٹراپکل مشروب</p> <p>بار | بیئر کا مگ | شراب | مگ</p> <p>بیئر کا مگ</p> <p>بار | ٹکراتے بیئر کے مگ | شراب | مگ</p> <p>ٹکراتے بیئر کے مگ</p> <p>آپس میں ٹکراتے گلاس | ٹکرانا | خوشی منانا | گلاس | مشروب</p> <p>آپس میں ٹکراتے گلاس</p> <p>شراب | گلاس | وہسکی | وہسکی والا گلاس</p> <p>وہسکی والا گلاس</p> <p>جوس | سوڈا | کپ اور اسٹرا</p> <p>کپ اور اسٹرا</p> <p>جوس کا ڈبہ | مشروب کا ڈبہ</p> <p>مشروب کا ڈبہ</p> <p>مشروب | ہم پیالہ</p> <p>ہم پیالہ</p> <p>برف کا ٹکڑا | ٹھنڈا</p> <p>برف کا ٹکڑا</p> <p>چینی کانٹا</p> <p>چینی کانٹا</p> <p>پلیٹ | چھری | چھری کانٹے کے ساتھ پلیٹ | کانٹا</p> <p>چھری کانٹے کے ساتھ پلیٹ</p> <p>چھری | کانٹا | کانٹا اور چھری</p> <p>کانٹا اور چھری</p> <p>چمچ | کھانے کی میز</p> <p>چمچ</p> <p>آلہ | چھری | کچن کی چھری | کُکنگ</p> <p>کچن کی چھری</p> <p>اوزار | ایمفورا | بُرج دِلو | پانی | جگ | ہتھیار</p> <p>ایمفورا</p> <p>افریقہ | دنیا | زمین | گلوب | یورپ اور افریقہ کو دکھاتا گلوب</p> <p>یورپ اور افریقہ کو دکھاتا گلوب</p> <p>امریکہ | امریکہ کو دکھاتا گلوب | دنیا | زمین | گلوب</p> <p>امریکہ کو دکھاتا گلوب</p> <p>آسٹریلیا | ایشیا | ایشیا اور آسٹریلیا کو دکھاتا گلوب | زمین | گلوب</p> <p>ایشیا اور آسٹریلیا کو دکھاتا گلوب</p> <p>دنیا | زمین | طول البلد | طول البلد کو دکھاتا گلوب | گلوب</p> <p>طول البلد کو دکھاتا گلوب</p> <p>دنیا | دنیا کا نقشہ | نقشہ</p> <p>دنیا کا نقشہ</p> <p>جاپان | جاپان کا نقشہ | نقشہ</p> <p>جاپان کا نقشہ</p> <p>قُطب نُما | مقناطیسی | نقشے کی مدد سے راستہ تلاش کرنا | نیویگیشن</p> <p>قُطب نُما</p> <p>برف | برف سے ڈھکا پہاڑ | پہاڑ | ٹھنڈ</p> <p>برف سے ڈھکا پہاڑ</p> <p>پہاڑ | چٹان</p> <p>پہاڑ</p> <p>آتش فشاں | آگ | پھٹنا | پہاڑ | موسم</p> <p>آتش فشاں</p> <p>پہاڑ | فیوجی | ماؤنٹ فیوجی</p> <p>ماؤنٹ فیوجی</p> <p>پڑاؤ | ڈیرا | سفر | کیمپنگ</p> <p>پڑاؤ</p> <p>چھتری | ساحل | ساحل اور چھتری</p> <p>ساحل اور چھتری</p> <p>بیابان | ریگستان | صحرا</p> <p>صحرا</p> <p>جزیرہ | صحرا | صحرائی جزیرہ</p> <p>صحرائی جزیرہ</p> <p>پارک | نیشنل پارک</p> <p>نیشنل پارک</p> <p>اسٹیڈیم | گراؤنڈ | میدان</p> <p>اسٹیڈیم</p> <p>عمارت | کلاسیکی</p> <p>کلاسیکی عمارت</p> <p>تعمیر | عمارت | عمارت کی تعمیر</p> <p>عمارت کی تعمیر</p> <p>اینٹ | اینٹیں | تعمیراتی مادہ | دیوار | گارا</p> <p>اینٹ</p> <p>عمارت | گھر | گھر کی عمارتیں</p> <p>گھر کی عمارتیں</p> <p>گھر | ویران | ویران گھر کی عمارت</p> <p>ویران گھر کی عمارت</p> <p>عمارت | گھر | گھر کی عمارت</p> <p>گھر کی عمارت</p> <p>باغ | باغ والا گھر | عمارت | گھر</p> <p>باغ والا گھر</p> <p>آفس کی عمارت | عمارت</p> <p>آفس کی عمارت</p> <p>پوسٹ | جاپانی | جاپانی پوسٹ آفس | عمارت</p> <p>جاپانی پوسٹ آفس</p> <p>پوسٹ | پوسٹ آفس | عمارت</p> <p>پوسٹ آفس</p> <p>اسپتال | دوائی | ڈاکٹر | عمارت</p> <p>اسپتال</p> <p>بینک | عمارت</p> <p>بینک</p> <p>عمارت | ہوٹل</p> <p>ہوٹل</p> <p>محبت | محبت کا ہوٹل | ہوٹل</p> <p>محبت کا ہوٹل</p> <p>اسٹور | سہولت | سہولت بخش اسٹور</p> <p>سہولت بخش اسٹور</p> <p>اسکول | عمارت</p> <p>اسکول</p> <p>اسٹور | ڈپارٹمنٹ | عمارت</p> <p>ڈپارٹمنٹ اسٹور</p> <p>عمارت | فیکٹری</p> <p>فیکٹری</p> <p>جاپانی | عمارت | قلعہ</p> <p>جاپانی قلعہ</p> <p>قلعہ | یورپی</p> <p>قلعہ</p> <p>شادی | عمارت | گرجہ</p> <p>شادی</p> <p>ٹاور | ٹوکیو</p> <p>ٹوکیو ٹاور</p> <p>آزادی | مجسمہ</p> <p>مجسمہ آزادی</p> <p>عمارت | عیسائیت | کر اس | گرجا گھر</p> <p>گرجا گھر</p> <p>عبادت | عمارت | مسجد | مسلمان</p> <p>مسجد</p> <p>مندر | ہندو</p> <p>ہندو مندر</p> <p>عبادت گاہ | یہودی | یہودیوں کی عبادت گاہ</p> <p>یہودیوں کی عبادت گاہ</p> <p>شنٹو مزار | مذہب | مزار</p> <p>شنٹو مزار</p> <p>عبادت | عمارت | کعبہ | مسلمان | مکہ</p> <p>کعبہ</p> <p>پانی کا چشمہ | چشمہ | فاؤنٹين | فواره</p> <p>چشمہ</p> <p>خیمہ | ڈیرا | شامیانہ | کیمپنگ</p> <p>خیمہ</p> <p>دھند | کُہر آلود | موسم</p> <p>کُہر آلود</p> <p>رات | ستاروں بھری رات | ستارے | موسم</p> <p>ستاروں بھری رات</p> <p>اونچی عمارتیں | شہر | عمارت</p> <p>اونچی عمارتیں</p> <p>پہاڑ | پہاڑوں پر طلوع آفتاب | سورج | طلوع | موسم</p> <p>پہاڑوں پر طلوع آفتاب</p> <p>سورج | صبح | طلوع آفتاب | موسم</p> <p>طلوع آفتاب</p> <p>سورج | شام | شام کے وقت اونچی عمارتیں | عمارت | موسم</p> <p>شام کے وقت اونچی عمارتیں</p> <p>سورج | عمارت | غروب | غروبِ آفتاب | موسم</p> <p>غروبِ آفتاب</p> <p>پل | رات | رات کے وقت پُل | موسم</p> <p>رات کے وقت پُل</p> <p>بھاپ | گرم | ندی</p> <p>گرم ندی</p> <p>جھولا | گھوڑا | گھومتے جھولے کا گھوڑا | گھومنا</p> <p>گھومتے جھولے کا گھوڑا</p> <p>آسمانی جھولا | پارک | پہیہ | جھولا</p> <p>آسمانی جھولا</p> <p>پارک | رولر | کوسٹر</p> <p>رولر کوسٹر</p> <p>پول | حجام | حجام کا پول</p> <p>حجام کا پول</p> <p>ٹینٹ | سرکس | سرکس کا ٹینٹ</p> <p>سرکس کا ٹینٹ</p> <p>انجن | بھاپ | ریل | ریل کا انجن</p> <p>ریل کا انجن</p> <p>بجلی | پٹری | ریل گاڑی | گاڑی</p> <p>ریل گاڑی</p> <p>پٹری | تیز رفتار ٹرین | رفتار | ریل</p> <p>تیز رفتار ٹرین</p> <p>بلٹ | بلٹ کے ناک والی تیز رفتار ٹرین | ٹرین | رفتار</p> <p>بلٹ کے ناک والی تیز رفتار ٹرین</p> <p>ٹرین | سواری</p> <p>ٹرین</p> <p>ریلوے | زیر زمین | میٹرو</p> <p>میٹرو</p> <p>ریلوے | سواری | لائٹ ریل</p> <p>لائٹ ریل</p> <p>اسٹیشن | ٹرین | ریلوے</p> <p>اسٹیشن</p> <p>ٹرام | سواری</p> <p>ٹرام</p> <p>ریل | سواری | مونو ریل</p> <p>مونو ریل</p> <p>پہاڑ | ریلوے | گاڑی | ماؤنٹین ریلوے</p> <p>ماؤنٹین ریلوے</p> <p>ٹرالی بس | ٹرام | ٹرام کار | گاڑی</p> <p>ٹرام کار</p> <p>بس | سواری</p> <p>بس</p> <p>آتی ہوئی | آتی ہوئی بس | بس</p> <p>آتی ہوئی بس</p> <p>بس | ٹرالی | ٹرام</p> <p>ٹرالی بس</p> <p>بس | سواری | منی بس</p> <p>منی بس</p> <p>ایمبولنس | سواری</p> <p>ایمبولنس</p> <p>انجن | ٹرک | فائر</p> <p>فائر انجن</p> <p>پولیس | پولیس کار | گاڑی</p> <p>پولیس کار</p> <p>آتی ہوئی | آتی ہوئی پولیس کار | پولیس | کار</p> <p>آتی ہوئی پولیس کار</p> <p>ٹیکسی | سواری</p> <p>ٹیکسی</p> <p>آتی ہوئی | آتی ہوئی ٹیکسی | ٹیکسی</p> <p>آتی ہوئی ٹیکسی</p> <p>سواری | کار</p> <p>کار</p> <p>آتی ہوئی | آتی ہوئی کار | کار</p> <p>آتی ہوئی کار</p> <p>تفریحی | گاڑی</p> <p>تفریحی گاڑی</p> <p>ٹرک | ڈلیوری</p> <p>ڈلیوری ٹرک</p> <p>ٹرک | جوڑ والی گاڑی | سواری | لاری</p> <p>جوڑ والی گاڑی</p> <p>ٹریکٹر | سواری</p> <p>ٹریکٹر</p> <p>ریس | ریس کی کار | کار | کھیل</p> <p>ریس کی کار</p> <p>ریس | سائیکل | موٹر</p> <p>موٹر سائیکل</p> <p>سکوٹر | موٹر | موٹر والا سکوٹر</p> <p>موٹر والا سکوٹر</p> <p>دسترس | دستی وہیل چئیر</p> <p>دستی وہیل چئیر</p> <p>دسترس | موٹر والی وہیل چئیر</p> <p>موٹر والی وہیل چئیر</p> <p>آٹو رکشا | ٹُک ٹُک</p> <p>آٹو رکشا</p> <p>سائیکل | سواری</p> <p>سائیکل</p> <p>سکوٹر | کک</p> <p>کک سکوٹر</p> <p>اسکیٹنگ تختہ | تختہ</p> <p>اسکیٹنگ تختہ</p> <p>بس | بس اسٹاپ</p> <p>بس اسٹاپ</p> <p>سڑک | موٹر وے</p> <p>موٹر وے</p> <p>ٹرین | ریلوے | ریلوے ٹریک</p> <p>ریلوے ٹریک</p> <p>تیل | تیل کا ڈرم | ڈرم</p> <p>تیل کا ڈرم</p> <p>فیول | فیول پمپ | گیس</p> <p>فیول پمپ</p> <p>پولیس | پولیس کار کی لائٹ | کار | لائٹ</p> <p>پولیس کار کی لائٹ</p> <p>اشارہ | افقی ٹریفک لائٹ | ٹریفک | لائٹ</p> <p>افقی ٹریفک لائٹ</p> <p>اشارہ | ٹریفک | عمودی ٹریفک لائٹ | لائٹ</p> <p>عمودی ٹریفک لائٹ</p> <p>آٹھ زاویے | رکنا | رکنے کا نشان | نشان</p> <p>رکنے کا نشان</p> <p>تعمیر | رکاوٹ</p> <p>تعمیر</p> <p>آلہ | اینکر | بحری جہاز</p> <p>اینکر</p> <p>بادبانی کشتی | سمندر | کشتی</p> <p>بادبانی کشتی</p> <p>چھوٹی | ڈونگی | کشتی</p> <p>چھوٹی کشتی</p> <p>انجن والی کشتی | سواری | کشتی</p> <p>انجن والی کشتی</p> <p>سواری | کشتی | مسافر | مسافر بحری جہاز</p> <p>مسافر بحری جہاز</p> <p>سواری | فیری | کشتی</p> <p>فیری</p> <p>سواری | موٹر بوٹ</p> <p>موٹر بوٹ</p> <p>بحری جہاز | سواری</p> <p>بحری جہاز</p> <p>سوری | ہوائی جہاز</p> <p>ہوائی جہاز</p> <p>چھوٹا | چھوٹا ہوائی جہاز | سواری | ہوائی جہاز</p> <p>چھوٹا ہوائی جہاز</p> <p>روانگی | ہوائی جہاز | ہوائی جہاز کی روانگی</p> <p>ہوائی جہاز کی روانگی</p> <p>آمد | ہوائی جہاز | ہوائی جہاز کی آمد</p> <p>ہوائی جہاز کی آمد</p> <p>پیرا سیل | پیراشوٹ | سکائی ڈائیو | ہینگ گلائیڈ</p> <p>پیراشوٹ</p> <p>سیٹ | فرنیچر | کرسی</p> <p>سیٹ</p> <p>سواری | ہیلی کاپٹر</p> <p>ہیلی کاپٹر</p> <p>ریلوے | معلق</p> <p>معلق ریلوے</p> <p>پہاڑ | پہاڑی کیبل وے | کیبل</p> <p>پہاڑی کیبل وے</p> <p>ٹرام وے | کیبل | گاڑی | ہوائی | ہوائی ٹرام وے</p> <p>ہوائی ٹرام وے</p> <p>آسمان | خلا | خلائی جہاز | سیارہ | سیٹلائٹ</p> <p>سیٹلائٹ</p> <p>آسمان | خلا | خلائی جہاز | راکٹ</p> <p>راکٹ</p> <p>اڑن تشتری | نامعلوم اڑن تشتری</p> <p>اڑن تشتری</p> <p>بیل | بیل ہاپ | بیل ہاپ بیل | ہوٹل</p> <p>بیل ہاپ بیل</p> <p>پیکنگ | سامان | سفر</p> <p>سامان</p> <p>ریت | گھڑی</p> <p>ریت گھڑی</p> <p>ریت | ریت گھڑی میں گرتی ہوئی ریت | گرتی ہوئی ریت کے ساتھ ریت گھڑی | گھڑی</p> <p>ریت گھڑی میں گرتی ہوئی ریت</p> <p>ٹائم | کلاک | گھڑی | وقت</p> <p>گھڑی</p> <p>الارم | کلاک</p> <p>الارم کلاک</p> <p>اسٹاپ واچ | گھڑی</p> <p>اسٹاپ واچ</p> <p>ٹائمر | ٹائمر کلاک | گھڑی</p> <p>ٹائمر کلاک</p> <p>گھڑی | مینٹل پیس کلاک</p> <p>مینٹل پیس کلاک</p> <p>12:00 | بارہ | بارہ کا وقت | گھڑی</p> <p>بارہ کا وقت</p> <p>12:30 | بارہ | بارہ بج کر تیس منٹ | تیس | گھڑی</p> <p>بارہ بج کر تیس منٹ</p> <p>1:00 | ایک | ایک بجے کا وقت | گھڑی</p> <p>ایک بجے کا وقت</p> <p>1:30 | ایک | ایک بج کر تیس منٹ | تیس | گھڑی</p> <p>ایک بج کر تیس منٹ</p> <p>2:00 | دو | دو بجے کا وقت | گھڑی</p> <p>دو بجے کا وقت</p> <p>2:30 | تیس | دو | دو بج کر تیس منٹ | گھڑی</p> <p>دو بج کر تیس منٹ</p> <p>3:00 | تین | تین بجے کا وقت | گھڑی</p> <p>تین بجے کا وقت</p> <p>3:30 | تیس | تین | تین بج کر تیس منٹ | گھڑی</p> <p>تین بج کر تیس منٹ</p> <p>4:00 | چار | چار بجے کا وقت | گھڑی</p> <p>چار بجے کا وقت</p> <p>4:30 | تیس | چار | چار بج کر تیس منٹ | گھڑی</p> <p>چار بج کر تیس منٹ</p> <p>5:00 | پانچ | پانچ بجے کا وقت | گھڑی</p> <p>پانچ بجے کا وقت</p> <p>5:30 | پانچ | پانچ بج کر تیس منٹ | تیس | گھڑی</p> <p>پانچ بج کر تیس منٹ</p> <p>6:00 | چھ | چھ بجے کا وقت | گھڑی</p> <p>چھ بجے کا وقت</p> <p>6:30 | تیس | چھ | چھ بج کر تیس منٹ | وقت</p> <p>چھ بج کر تیس منٹ</p> <p>7:00 | سات | سات بجے کا وقت | گھڑی</p> <p>سات بجے کا وقت</p> <p>07:30 | تیس | سات | سات بج کر تیس منٹ | گھڑی</p> <p>سات بج کر تیس منٹ</p> <p>08:00 | آٹھ | آٹھ بجے کا وقت | گھڑی</p> <p>آٹھ بجے کا وقت</p> <p>08:30 | آٹھ | آٹھ بج کر تیس منٹ | تیس | گھڑی</p> <p>آٹھ بج کر تیس منٹ</p> <p>09:00 | گھڑی | نو | نو بجے کا وقت</p> <p>نو بجے کا وقت</p> <p>09:30 | تیس | گھڑی | نو | نو بج کر تیس منٹ</p> <p>نو بج کر تیس منٹ</p> <p>10:00 | دس | دس بجے کا وقت | گھڑی</p> <p>دس بجے کا وقت</p> <p>10:30 | تیس | دس | دس بج کر تیس منٹ | گھڑی</p> <p>دس بج کر تیس منٹ</p> <p>11:00 | گھڑی | گیارہ | گیارہ بجے کا وقت</p> <p>گیارہ بجے کا وقت</p> <p>11:30 | تیس | گھڑی | گیارہ | گیارہ بج کر تیس منٹ</p> <p>گیارہ بج کر تیس منٹ</p> <p>چاند | سیاہ | موسم | نیا چاند</p> <p>نیا چاند</p> <p>بڑھتا ہوا ہلال چاند | چاند | موسم | ہلال</p> <p>بڑھتا ہوا ہلال چاند</p> <p>پہلے کوارٹر کا چاند | چاند | کوارٹر | موسم</p> <p>پہلے کوارٹر کا چاند</p> <p>آدھے سے زیادہ بڑھتا ہوا چاند | بڑھتا ہوا | چاند | موسم</p> <p>آدھے سے زیادہ بڑھتا ہوا چاند</p> <p>چاند | مکمل | موسم</p> <p>مکمل چاند</p> <p>چاند | گھٹتا ہوا | گھٹتا ہوا آدھے سے زیادہ چاند | موسم</p> <p>گھٹتا ہوا آدھے سے زیادہ چاند</p> <p>آخری کوارٹر کا چاند | چاند | کوارٹر | موسم</p> <p>آخری کوارٹر کا چاند</p> <p>چاند | گھٹتا ہوا ہلال چاند | موسم | ہلال</p> <p>گھٹتا ہوا ہلال چاند</p> <p>چاند | موسم | ہلال</p> <p>ہلال چاند</p> <p>چاند | چہرہ | موسم | نئے چاند کا چہرہ</p> <p>نئے چاند کا چہرہ</p> <p>پہلے کوارٹر کا چاند مع چہرہ | چاند | چہرہ | موسم</p> <p>پہلے کوارٹر کا چاند مع چہرہ</p> <p>آخری کوارٹر کا چاند مع چہرہ | چاند | چہرہ | موسم</p> <p>آخری کوارٹر کا چاند مع چہرہ</p> <p>تھرمامیٹر | موسم</p> <p>تھرمامیٹر</p> <p>سورج | صاف | کرنیں | موسم</p> <p>سورج</p> <p>چہرہ | چہرے والا پورا چاند | خلا | صاف | مکمل | موسم</p> <p>چہرے والا پورا چاند</p> <p>چہرہ | چہرے والا سورج | خلا | سورج | صاف | موسم</p> <p>چہرے والا سورج</p> <p>حلقہ دار سیارہ | زحل | سیارہ زحل کے زیر اثر</p> <p>حلقہ دار سیارہ</p> <p>ستارہ | سفید میڈیم ستارہ</p> <p>ستارہ</p> <p>چمکتا | ستارہ</p> <p>چمکتا ستارہ</p> <p>ستارہ | شہابِ ثاقب | گرتا</p> <p>شہابِ ثاقب</p> <p>خلا | کہکشاں</p> <p>کہکشاں</p> <p>بادل | موسم</p> <p>بادل</p> <p>بادل | بادلوں کے پیچھے چھپا سورج | سورج | موسم</p> <p>بادلوں کے پیچھے چھپا سورج</p> <p>بادل | بارش | گرج چمک اور بارش والے بادل | موسم</p> <p>گرج چمک اور بارش والے بادل</p> <p>بادل | چھوٹے بادل کے پیچھے چھپا سورج | سورج | موسم</p> <p>چھوٹے بادل کے پیچھے چھپا سورج</p> <p>بادل | بڑے بادل کے پیچھے چھپا سورج | سورج | موسم</p> <p>بڑے بادل کے پیچھے چھپا سورج</p> <p>بادل | بادلوں کے پیچھے چھپا سورج اور بارش | بارش | سورج | موسم</p> <p>بادلوں کے پیچھے چھپا سورج اور بارش</p> <p>بادل | بادل اور بارش | بارش | موسم</p> <p>بادل اور بارش</p> <p>بادل | بادل اور برفباری | برف | موسم</p> <p>بادل اور برفباری</p> <p>بادل | بادل اور گرج چمک | بجلی کی چمک | موسم</p> <p>بادل اور گرج چمک</p> <p>بادل | تیز ہوا | جھکڑ | موسم</p> <p>جھکڑ</p> <p>بادل | کُہر | موسم</p> <p>کُہر</p> <p>بادل | چہرہ | منہ سے ہوا نکالتا چہرہ | موسم | ہوا</p> <p>منہ سے ہوا نکالتا چہرہ</p> <p>گرداب | موسم</p> <p>گرداب</p> <p>بارش | قوس قزاح | موسم</p> <p>قوس قزاح</p> <p>بارش | بند چھتری | چھتڑی | موسم</p> <p>بند چھتری</p> <p>بارش | چھتری | لباس | موسم</p> <p>چھتری</p> <p>بارش | بارش کے قطروں والی چھتری | چھتڑی | لباس | موسم</p> <p>بارش کے قطروں والی چھتری</p> <p>بارش | چھتڑی | زمین میں گڑی چھتری | سورج | موسم</p> <p>زمین میں گڑی چھتری</p> <p>بجلی | خطرہ | ہائی وولٹیج | وولٹیج</p> <p>ہائی وولٹیج</p> <p>برف | برف کے گولے | ٹھنڈ | موسم</p> <p>برف کے گولے</p> <p>برف | برف کا آدمی | ٹھنڈ | موسم</p> <p>برف کا آدمی</p> <p>برف | برف کے بغیر برف کا آدمی | ٹھنڈ | موسم</p> <p>برف کے بغیر برف کا آدمی</p> <p>خلا | قطبی ستارہ</p> <p>قطبی ستارہ</p> <p>آگ | اوزار</p> <p>آگ</p> <p>ٹھنڈ | قطرہ | موسم</p> <p>قطرہ</p> <p>پانی | پانی کی لہر | لہر | موسم</p> <p>پانی کی لہر</p> <p>جیک | خوشی منانا | کدو کی لالٹین | لالٹین | ہالووین</p> <p>کدو کی لالٹین</p> <p>جشن | درخت | کرسمس | کرسمس کا درخت</p> <p>کرسمس کا درخت</p> <p>آتشبازی | تفریح | جشن | خوشی | مزہ</p> <p>آتشبازی</p> <p>آتش بازی | پھلجری | جشن</p> <p>پھلجری</p> <p>آتش بازی | پٹاخہ | دھماکا خیز | ڈائنامیٹ</p> <p>پٹاخہ</p> <p>چمک | چمکتے ستارے | ستارہ</p> <p>چمکتے ستارے</p> <p>بلون | جشن | خوشی | غبارہ | مزہ</p> <p>غبارہ</p> <p>پارٹی | پارٹی کے پٹاخے | پٹاخے | جشن</p> <p>پارٹی کے پٹاخے</p> <p>بالز | رنگین کاغذ | رنگین کاغذ کے بالز</p> <p>رنگین کاغذ کے بالز</p> <p>تنابتا درخت | جاپانی | جشن | درخت</p> <p>تنابتا درخت</p> <p>پائن | پائن سے سجاوٹ | پودا | جاپانی | جشن</p> <p>پائن سے سجاوٹ</p> <p>تہوار | جاپان | جاپانی گڑیاں | جشن | گڑیا</p> <p>جاپانی گڑیاں</p> <p>جاپان | جشن | ہوا | ہوائی جرابیں</p> <p>ہوائی جرابیں</p> <p>جھنکار | گھنٹی | ہوا | ہوائی جھنکار</p> <p>ہوائی جھنکار</p> <p>جشن | چاند | چاند کی رسم | رسم</p> <p>چاند کی رسم</p> <p>تحفہ | خوش قسمتی | رقم | سرخ لفافہ | لائی سی | ہونگ باؤ</p> <p>سرخ لفافہ</p> <p>تحفہ | جشن | ربن</p> <p>ربن</p> <p>تحفہ | جشن | کاغذ میں لپٹا تحفہ | کاغذ میں لیٹا تحفہ | لپٹا ہوا</p> <p>کاغذ میں لپٹا تحفہ</p> <p>جشن | ربن | یاددہانی | یاددہانی کا ربن</p> <p>یاددہانی کا ربن</p> <p>ٹکٹ | داخلہ</p> <p>داخلہ ٹکٹ</p> <p>تقریب | ٹکٹ | داخلہ</p> <p>ٹکٹ</p> <p>انعام | فوج | فوجی میڈل | میڈل</p> <p>فوجی میڈل</p> <p>انعام | ٹرافی</p> <p>ٹرافی</p> <p>اسپورٹس | انعام | میڈل</p> <p>اسپورٹس میڈل</p> <p>اول | گولڈ | میڈل | نمبر</p> <p>گولڈ میڈل</p> <p>دوسرا | سلور | میڈل | نمبر</p> <p>سلور میڈل</p> <p>برونز | تیسرا | میڈل | نمبر</p> <p>برونز میڈل</p> <p>فٹبال | کھیل | گیند | میدان</p> <p>فٹبال</p> <p>امریکہ | بال | بیس بال | کھیل</p> <p>بیس بال</p> <p>بازو کے نیچے | دستانہ | گیند | نرم گیند</p> <p>نرم گیند</p> <p>باسکٹ | بال | کھیل</p> <p>باسکٹ بال</p> <p>بال | کھیل | والی بال</p> <p>والی بال</p> <p>امریکی | فٹبال | کھیل</p> <p>امریکی فٹبال</p> <p>امریکی | رغبی | رگبی فٹبال | فٹبال | کھیل</p> <p>رگبی فٹبال</p> <p>بال | ٹینس | کھیل</p> <p>ٹینس</p> <p>اڑتی ہوئی ڈسک | انتہائی</p> <p>اڑتی ہوئی ڈسک</p> <p>باؤلنگ | بال | بوتلیں | کھیل</p> <p>باؤلنگ</p> <p>بال | بیٹ | کرکٹ | کھیل</p> <p>کرکٹ</p> <p>بال | فیلڈ ہاکی | کھیل | میدان | ہاکی</p> <p>فیلڈ ہاکی</p> <p>آئس ہاکی اسٹک اور پک | اسٹک | برف | پک | کھیل | ہاکی</p> <p>آئس ہاکی اسٹک اور پک</p> <p>چھڑی | گول | گیند | لکراس</p> <p>لکراس</p> <p>بال | ٹیبل | ٹیبل ٹینس | ریکٹ | کھیل</p> <p>ٹیبل ٹینس</p> <p>بیڈمنٹن | ریکٹ | شٹل | کھیل | نیٹ</p> <p>بیڈمنٹن</p> <p>باکسنگ | باکسنگ کے دستانے | دستانے | کھیل</p> <p>باکسنگ کے دستانے</p> <p>کراٹے | کھیل | مارشل آرٹس | مارشل آرٹس کا یونیفارم | یونیفارم</p> <p>مارشل آرٹس کا یونیفارم</p> <p>کھیل | گول | نیٹ</p> <p>گول نیٹ</p> <p>کھیل | گالف | گڑھے میں جھنڈا | گیند | میدان میں سوراخ</p> <p>گڑھے میں جھنڈا</p> <p>آئس اسٹیک | اسٹیک | برف</p> <p>آئس اسٹیک</p> <p>پانی | ڈنڈا | شکار | فشنگ پول | مچھلی</p> <p>فشنگ پول</p> <p>سکوبا | سنورکلنگ | غوطہ خوری | غوطہ خوری کا ماسک</p> <p>غوطہ خوری کا ماسک</p> <p>جاگنگ | دوڑنے کی شرٹ | شرٹ | واکنگ</p> <p>دوڑنے کی شرٹ</p> <p>اسکائی | اسکائیز | برف</p> <p>اسکائیز</p> <p>برف گاڑی | بے پہیوں کی گاڑی</p> <p>برف گاڑی</p> <p>پتھر | کرلنگ پتھر | کھیل</p> <p>کرلنگ پتھر</p> <p>براہ راست نشانہ | تیر اندازی | کھیل | نشانہ | ہدف</p> <p>براہ راست نشانہ</p> <p>جھولنا | کھلونا | یو یو</p> <p>یو یو</p> <p>اڑنا | پتنگ | ہوا میں بلند ہونا</p> <p>پتنگ</p> <p>آٹھ | بال | بلیئرڈز | کھیل</p> <p>بلیئرڈز</p> <p>بال | فینٹسی | قسمت | کرسٹل</p> <p>کرسٹل بال</p> <p>بری نظر | بری نظر کیلئے تعویز | تعویز | طلسمان | موتی | نظر</p> <p>بری نظر کیلئے تعویز</p> <p>کھیل | ویڈیو | ویڈیو گیم</p> <p>ویڈیو گیم</p> <p>جوائے اسٹک | کنٹرول | کھیل | ویڈیو</p> <p>جوائے اسٹک</p> <p>سلاٹ مشین | گیم</p> <p>سلاٹ مشین</p> <p>ڈائس | کھیل | گیم ڈائی</p> <p>گیم ڈائی</p> <p>اشارہ | باہم مربوط | پزل | ٹکڑا | جِگسا</p> <p>جِگسا</p> <p>روئی سے بھرا | کھلونا | کھلونا بھالو | کھیلنے کی چیز | مخملی</p> <p>کھلونا بھالو</p> <p>پتہ | تاش | حکم | حکم کا پتہ | کھیل</p> <p>حکم کا پتہ</p> <p>پان | پان کا پتہ | پتہ | تاش | کھیل</p> <p>پان کا پتہ</p> <p>اینٹ | اینٹ کا پتہ | پتہ | تاش | کھیل</p> <p>اینٹ کا پتہ</p> <p>پتہ | تاش | چڑیا | چڑیا کا پتہ | کھیل</p> <p>چڑیا کا پتہ</p> <p>شطرنج | شطرنج کا پیادہ | قابل مصرف | مہرہ</p> <p>شطرنج کا پیادہ</p> <p>پتہ | تاش | جوکر | کھیل</p> <p>جوکر</p> <p>سرخ | کھیل | ماہجونگ | ماہجونگ ریڈ ڈریگن</p> <p>ماہجونگ ریڈ ڈریگن</p> <p>تاش | جاپانی | جاپانی تاش کا کھیل | کھیل</p> <p>جاپانی تاش کا کھیل</p> <p>پرفارمنگ آرٹس | تھیٹر | فنون لطیفہ | فنونِ لطیفہ | کارکردگی کا مظاہرہ | ماسک</p> <p>فنونِ لطیفہ</p> <p>تصویر | عجائب گھر | فریم | فریم شدہ تصویر | فریم میں جڑی تصویر | فن</p> <p>فریم میں جڑی تصویر</p> <p>آرٹسٹ پیلٹ | پینٹنگ | عجائب گھر | فن</p> <p>آرٹسٹ پیلٹ</p> <p>چرخی | دھاگہ | ڈوری | سلائی | سوئی</p> <p>دھاگہ</p> <p>اونی دھاگہ | بُننا | کروشیا | گولہ</p> <p>اونی دھاگہ</p> <p>آنکھ | جشمے | چشمے | لباس</p> <p>چشمے</p> <p>آنکھ | جشمے | دھوپ چشمے | لباس</p> <p>دھوپ چشمے</p> <p>آنکھوں کا تحفظ | تیراکی | گاگل | ویلڈنگ</p> <p>گاگل</p> <p>تجربہ | ڈاکٹر | سائنسدان | لیب میں پہننے والا کوٹ</p> <p>لیب میں پہننے والا کوٹ</p> <p>ایمرجنسی | حفاظت | حفاظتی واسکٹ | واسکٹ</p> <p>حفاظتی واسکٹ</p> <p>لباس | نیک ٹائی | نیکٹائی</p> <p>نیکٹائی</p> <p>ٹی شرٹ | لباس</p> <p>ٹی شرٹ</p> <p>جینز | لباس</p> <p>جینز</p> <p>اسکارف | گردن</p> <p>اسکارف</p> <p>دستانے</p> <p>دستانے</p> <p>جیکٹ | کوٹ</p> <p>کوٹ</p> <p>جراب | جرابیں</p> <p>جرابیں</p> <p>ڈریس | کپڑے | لباس</p> <p>لباس</p> <p>خواتین کا روایتی جاپانی لباس | لباس</p> <p>خواتین کا روایتی جاپانی لباس</p> <p>ساڑھی | کپڑے | لباس</p> <p>ساڑھی</p> <p>نہانے کا لباس | وَن پیس تیراکی کا لباس</p> <p>وَن پیس تیراکی کا لباس</p> <p>تیراکی کا لباس | جانگھیا | زیرِ جامہ | نہانے کا لباس | وَن پیس</p> <p>جانگھیا</p> <p>پینٹس | زیرِ جامہ | نہانے کا لباس | نیکر</p> <p>نیکر</p> <p>بکنی | لباس</p> <p>بکنی</p> <p>عورت | عورتوں کے کپڑے | لباس</p> <p>عورتوں کے کپڑے</p> <p>پرس | پیسہ | لباس</p> <p>پرس</p> <p>بیگ | لباس | ہینڈ بیگ</p> <p>ہینڈ بیگ</p> <p>بیگ | لباس</p> <p>بیگ</p> <p>بیگ | شاپنگ | شاپنگ بیگز | ہوٹل</p> <p>شاپنگ بیگز</p> <p>اسکول | اسکول کا بستہ | بیگ</p> <p>اسکول کا بستہ</p> <p>آدمی | جوتا | لباس | مرد کا جوتا</p> <p>مرد کا جوتا</p> <p>جوتے | دوڑنے والا جوتا | لباس</p> <p>دوڑنے والا جوتا</p> <p>بوٹ | بیک پیکنگ | کیمپنگ | ہائکنگ</p> <p>ہائکنگ بوٹ</p> <p>آسانی سے پہنا جا سکنے والا | بیلے فلیٹ | سلیپر | ہموار جوتا</p> <p>ہموار جوتا</p> <p>اونچی ایڑی | اونچی ایڑی والا جوتا | جوتا | عورت | لباس</p> <p>اونچی ایڑی والا جوتا</p> <p>جوتا | سینڈل | عورت | عورت کی سینڈل | لباس</p> <p>عورت کی سینڈل</p> <p>ڈانس | رقص | رقص کے جوتے</p> <p>رقص کے جوتے</p> <p>بوٹ | جوتا | عورت | عورت کا بوٹ | لباس</p> <p>عورت کا بوٹ</p> <p>بادشاہ | تاج | لباس | ملکہ</p> <p>تاج</p> <p>عورت | عورت کا ہیٹ | لباس | ہیٹ</p> <p>عورت کا ہیٹ</p> <p>اوپری ٹوپ | ٹاپ ہیٹ | لباس</p> <p>اوپری ٹوپ</p> <p>ٹوپی | گریجوئیشن | گریجوئیشن کیپ | لباس</p> <p>گریجوئیشن کیپ</p> <p>بلڈ کیپ | بیس بال ٹوپی</p> <p>بلڈ کیپ</p> <p>ٹوپی | چہرہ | سفید کر اس والا ہیلمٹ | ہیلمٹ</p> <p>سفید کر اس والا ہیلمٹ</p> <p>تسبیح کے دانے | لباس | مذہب</p> <p>تسبیح کے دانے</p> <p>لپ اسٹک | میک اپ</p> <p>لپ اسٹک</p> <p>انگوٹھی | رومانس | ہیرا</p> <p>انگوٹھی</p> <p>رومانس | قیمتی پتھر | ہیرا</p> <p>ہیرا</p> <p>آواز | اسپیکر | اسپیکر بند | خاموشی</p> <p>اسپیکر بند</p> <p>آواز | اسپیکر | دھیمی آواز نکالتے اسپیکر</p> <p>دھیمی آواز نکالتے اسپیکر</p> <p>آواز | اسپیکر | اوسط آواز نکالتے اسپیکر</p> <p>اوسط آواز نکالتے اسپیکر</p> <p>آواز | اسپیکر | بلند | بلند آواز نکالتے اسپیکر</p> <p>بلند آواز نکالتے اسپیکر</p> <p>اجتماع | بلند آواز | خطاب | لاؤڈ اسپیکر</p> <p>لاؤڈ اسپیکر</p> <p>آلہ | تیز آواز | میگا فون</p> <p>میگا فون</p> <p>پوسٹل | ساز | ہارن</p> <p>پوسٹل ہارن</p> <p>آواز | گھنٹی</p> <p>گھنٹی</p> <p>خاموشی | سکوت | گھنٹی | گھنٹی پر سلیش | ممانعت</p> <p>گھنٹی پر سلیش</p> <p>اسکور | موسیقی | میوزیکل اسکور</p> <p>میوزیکل اسکور</p> <p>موسیقی | میوزیکل نوٹ | نوٹ</p> <p>میوزیکل نوٹ</p> <p>موسیقی | میوزیکل نوٹس | نوٹس</p> <p>میوزیکل نوٹس</p> <p>اسٹوڈیو | مائیک | مائیکروفون | موسیقی</p> <p>اسٹوڈیو مائیکروفون</p> <p>سلائیڈر | لیول | موسیقی</p> <p>لیول سلائیڈر</p> <p>کنٹرول | کنٹرول کرنے والی نابز | موسیقی | نابز</p> <p>کنٹرول کرنے والی نابز</p> <p>مائیک | مائیکروفون | موسیقی</p> <p>مائیکروفون</p> <p>موسیقی | ہیڈ فون</p> <p>ہیڈ فون</p> <p>برقی آلہ | ریڈیو</p> <p>ریڈیو</p> <p>آلہ | سیکسو فون | موسیقی</p> <p>سیکسو فون</p> <p>آلہ | گٹار | موسیقی</p> <p>گٹار</p> <p>آلہ | کی بورڈ | موسیقی | میوزیکل کی بورڈ</p> <p>میوزیکل کی بورڈ</p> <p>آلہ | ٹرمپٹ | موسیقی</p> <p>ٹرمپٹ</p> <p>آلہ | موسیقی | وائلن</p> <p>وائلن</p> <p>بینجو | تاروں والا آلہ | موسیقی</p> <p>بینجو</p> <p>اسٹکس | ڈرم | موسیقی</p> <p>ڈرم</p> <p>برقی آلہ | فون | موبائل</p> <p>موبائل فون</p> <p>تیر | تیر کے نشان کے ساتھ موبائل فون | فون | موبائل | نشان</p> <p>تیر کے نشان کے ساتھ موبائل فون</p> <p>برقی آلہ | ٹیلیفون | فون</p> <p>ٹیلیفون</p> <p>برقی آلہ | ٹیلیفون کا ریسیور | ریسیور | فون</p> <p>ٹیلیفون کا ریسیور</p> <p>برقی آلہ | پیجر</p> <p>پیجر</p> <p>برقی آلہ | فیکس | فیکس مشین</p> <p>فیکس مشین</p> <p>بیٹری</p> <p>بیٹری</p> <p>الیکٹرک پلگ | برقی | پلگ</p> <p>الیکٹرک پلگ</p> <p>کمپیوٹر | لیپ ٹاپ | لیپ ٹاپ کمپیوٹر</p> <p>لیپ ٹاپ کمپیوٹر</p> <p>ڈیسک ٹاپ | ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر | کمپیوٹر</p> <p>ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر</p> <p>پرنٹ | پرنٹر | کمپیوٹر</p> <p>پرنٹر</p> <p>ٹائپنگ | کمپیوٹر | کی بورڈ</p> <p>کی بورڈ</p> <p>کرسر | کمپیوٹر | کمپیوٹر ماؤس</p> <p>کمپیوٹر ماؤس</p> <p>بال | ٹریک | کمپیوٹر</p> <p>ٹریک بال</p> <p>ڈسک | کمپیوٹر | منی</p> <p>کمپیوٹر ڈسک</p> <p>ڈسک | فلاپی | کمپیوٹر</p> <p>فلاپی ڈسک</p> <p>آپٹکل | ڈسک | کمپیوٹر</p> <p>آپٹکل ڈسک</p> <p>ڈسک | ڈی وی ڈی | کمپیوٹر</p> <p>ڈی وی ڈی</p> <p>حساب کتاب | گِنتارا</p> <p>گِنتارا</p> <p>سینما | فلم | کیمرا | مووی کیمرا</p> <p>مووی کیمرا</p> <p>سینما | فریم | فلم | فلم کے فریم</p> <p>فلم کے فریم</p> <p>پروجیکٹر | سینما | فلم</p> <p>فلم پروجیکٹر</p> <p>فلم | کلیپر | کلیپر بورڈ</p> <p>کلیپر بورڈ</p> <p>ٹی وی | ٹیلی ویژن | ویڈیو</p> <p>ٹیلی ویژن</p> <p>کیمرا | ویڈیو</p> <p>کیمرا</p> <p>فلیش | فلیش والا کیمرا | کیمرا | ویڈیو</p> <p>فلیش والا کیمرا</p> <p>کیمرا | ویڈیو</p> <p>ویڈیو کیمرا</p> <p>ٹیپ | ویڈیو | ویڈیو کیسٹ</p> <p>ویڈیو کیسٹ</p> <p>آلہ | اشارہ | بائیں | بائیں اشارہ کرتا محدب عدسہ | سمت | عدسہ | محدب</p> <p>بائیں اشارہ کرتا محدب عدسہ</p> <p>آلہ | اشارہ | دائیں | دائیں اشارہ کرتا محدب عدسہ | سمت | عدسہ | محدب</p> <p>دائیں اشارہ کرتا محدب عدسہ</p> <p>بتی | روشنی | موم</p> <p>موم بتی</p> <p>برقی | بلب | روشنی | لائٹ بلب</p> <p>لائٹ بلب</p> <p>برقی | ٹارچ | روشنی | فلیش | فلیش لائٹ</p> <p>فلیش لائٹ</p> <p>بار | روشنی | سرخ | سرخ کاغذی لالٹین | سرخ مرچ | لالٹین</p> <p>سرخ کاغذی لالٹین</p> <p>تیل | دِیا | دیا لیمپ | لیمپ</p> <p>دیا لیمپ</p> <p>سجاوٹ | سجاوٹی کوور والی نوٹ بک | کتاب | کوور | نوٹ بک</p> <p>سجاوٹی کوور والی نوٹ بک</p> <p>بند | کتاب</p> <p>بند کتاب</p> <p>کتاب | کھلی</p> <p>کھلی کتاب</p> <p>رنگ | سبز | کتاب</p> <p>سبز کتاب</p> <p>رنگ | کتاب | نیلا | نیلی کتاب</p> <p>نیلی کتاب</p> <p>رنگ | کتاب | نارنجی</p> <p>نارنجی کتاب</p> <p>کتاب | کتابیں</p> <p>کتابیں</p> <p>کتاب | نوٹ بک</p> <p>نوٹ بک</p> <p>لیجر | نوٹ بک</p> <p>لیجر</p> <p>دستاویز | صفحہ | مڑا ہوا | مڑا ہوا صفحہ</p> <p>مڑا ہوا صفحہ</p> <p>اسکرول | صفحہ</p> <p>اسکرول</p> <p>سامنے | صفحہ | صفحے کا سامنے والا حصہ</p> <p>صفحے کا سامنے والا حصہ</p> <p>اخبار | اطلاع | خبر | معلومات</p> <p>اخبار</p> <p>اخبار | رول | رول کیا ہوا اخبار | کاغذ</p> <p>رول کیا ہوا اخبار</p> <p>بک مارک | بُک مارک ٹیبز | ٹیبز</p> <p>بُک مارک ٹیبز</p> <p>بک مارک | بُک مارک</p> <p>بُک مارک</p> <p>ٹیگ | لیبل</p> <p>لیبل</p> <p>بیگ | پیسوں کا بیگ | ڈالر | رقم</p> <p>پیسوں کا بیگ</p> <p>بنک | رقم | نوٹ | ین | ین بینک نوٹ</p> <p>ین بینک نوٹ</p> <p>بنک | ڈالر | ڈالر بینک نوٹ | رقم | نوٹ</p> <p>ڈالر بینک نوٹ</p> <p>بنک | رقم | نوٹ | یورو | یورو بینک نوٹ</p> <p>یورو بینک نوٹ</p> <p>بنک | پاؤنڈ | پاؤنڈ بینک نوٹ | رقم | نوٹ</p> <p>پاؤنڈ بینک نوٹ</p> <p>اڑنا | بنک | پر | پروں والے نوٹ | ڈالر | رقم | نوٹ</p> <p>پروں والے نوٹ</p> <p>بنک | رقم | کارڈ | کریڈٹ</p> <p>کریڈٹ کارڈ</p> <p>اکاؤنٹنگ | ثبوت | حساب نویسی | رسید | شہادت</p> <p>رسید</p> <p>اضافہ | بنک | چارٹ | رقم | گراف | ین | ین کے ساتھ صعودی چارٹ</p> <p>ین کے ساتھ صعودی چارٹ</p> <p>بنک | تبادلہ | رقم | کرنسی | کرنسی کا تبادلہ</p> <p>کرنسی کا تبادلہ</p> <p>بنک | بھاری ڈالر سائن | ڈالر | رقم | کرنسی</p> <p>بھاری ڈالر سائن</p> <p>پیغام | ڈاک | لفافہ</p> <p>لفافہ</p> <p>ای میل | پیغام | خط</p> <p>ای میل</p> <p>آتا ہوا لفافہ | ای میل | پیغام | ڈاک | وصولی</p> <p>آتا ہوا لفافہ</p> <p>ای میل | پیغام | تیر | تیر کا نشان اور لفافہ | ڈاک | نشان</p> <p>تیر کا نشان اور لفافہ</p> <p>آؤٹ باکس ٹرے | بھیجا ہوا | ٹرے | خط</p> <p>آؤٹ باکس ٹرے</p> <p>ان باکس ٹرے | ٹرے | خط | موصولہ</p> <p>ان باکس ٹرے</p> <p>باکس | پارسل | پیکج</p> <p>پیکج</p> <p>باکس | بلند جھنڈا | بلند جھنڈے والا بند میل باکس | بند | میل</p> <p>بلند جھنڈے والا بند میل باکس</p> <p>باکس | بند | جھکا جھنڈا | جھکے ہوئے جھنڈے والا بند میل باکس | میل</p> <p>جھکے ہوئے جھنڈے والا بند میل باکس</p> <p>باکس | بلند جھنڈا | بلند جھنڈے والا کھلا میل باکس | کھلا | میل</p> <p>بلند جھنڈے والا کھلا میل باکس</p> <p>باکس | جھکا جھنڈا | جھکے ہوئے جھنڈے والا کھلا میل باکس | کھلا | میل</p> <p>جھکے ہوئے جھنڈے والا کھلا میل باکس</p> <p>باکس | پوسٹ باکس | میل</p> <p>پوسٹ باکس</p> <p>باکس | بیلٹ | بیلٹ کے ساتھ بیلٹ باکس</p> <p>بیلٹ کے ساتھ بیلٹ باکس</p> <p>پنسل</p> <p>پنسل</p> <p>پن | سیاہ | نب</p> <p>سیاہ نب</p> <p>پین | فاؤنٹین | فاؤنٹین پن</p> <p>فاؤنٹین پن</p> <p>اسٹیشنری | بال پن | پن</p> <p>پن</p> <p>پینٹ برش | پینٹنگ</p> <p>پینٹ برش</p> <p>اسٹیشنری | رنگ | کرے آن</p> <p>کرے آن</p> <p>پینسل | میمو</p> <p>میمو</p> <p>اسٹیشنری | بریف کیس</p> <p>بریف کیس</p> <p>اسٹیشنری | فائل | فولڈر</p> <p>فائل فولڈر</p> <p>اسٹیشنری | فائل | فولڈر | کھلا</p> <p>کھلا فائل فولڈر</p> <p>اسٹیشنری | انڈیکس | تقسیم کار | کارڈ | کارڈ انڈیکس کے تقسیم کار</p> <p>کارڈ انڈیکس کے تقسیم کار</p> <p>اسٹیشنری | تاریخ | کیلنڈر</p> <p>کیلنڈر</p> <p>اسٹیشنری | ٹیئر آف کیلنڈر | قسم | کیلنڈر</p> <p>ٹیئر آف کیلنڈر</p> <p>اسٹیشنری | سپائرل | سپائرل نوٹ بک | نوٹ بک</p> <p>سپائرل نوٹ بک</p> <p>اسٹیشنری | سپائرل | کیلنڈر</p> <p>سپائرل کیلنڈر</p> <p>اسٹیشنری | انڈیکس | کارڈ</p> <p>کارڈ انڈیکس</p> <p>اسٹیشنری | بڑھوتری | چارٹ | صعودی چارٹ</p> <p>صعودی چارٹ</p> <p>اسٹیشنری | تنزلی | چارٹ</p> <p>تنزلی چارٹ</p> <p>اسٹیشنری | بار | چارٹ | گراف</p> <p>بار چارٹ</p> <p>اسٹیشنری | کلپ بورڈ</p> <p>کلپ بورڈ</p> <p>اسٹیشنری | پُش پن | پِن</p> <p>پُش پن</p> <p>اسٹیشنری | پِن | گول | گول پُش پن</p> <p>گول پُش پن</p> <p>اسٹیشنری | پیپر | کلپ</p> <p>پیپر کلپ</p> <p>اسٹیشنری | پیپر | جڑے ہوئے | جڑے ہوئے پیپر کلپس | کلپ</p> <p>جڑے ہوئے پیپر کلپس</p> <p>اسٹریٹ رولر | اسٹیشنری | رولر | سیدھا</p> <p>اسٹریٹ رولر</p> <p>اسٹیشنری | تکونی | رولر</p> <p>تکونی رولر</p> <p>آلہ | اسٹیشنری | قینچی</p> <p>قینچی</p> <p>اسٹیشنری | باکس | فائل | کارڈ</p> <p>کارڈ فائل باکس</p> <p>اسٹیشنری | فائل | کیبنٹ</p> <p>فائل کیبنٹ</p> <p>ٹوکری | ردی | ردی کی ٹوکری</p> <p>ردی کی ٹوکری</p> <p>بند | لاک</p> <p>لاک</p> <p>کھلا | لاک</p> <p>کھلا لاک</p> <p>پرائیویسی | پن | پن کے ساتھ لاک | لاک</p> <p>پن کے ساتھ لاک</p> <p>بند | چابی | چابی کے ساتھ بند لاک | لاک | محفوظ</p> <p>چابی کے ساتھ بند لاک</p> <p>پاسورڈ | چابی | لاک</p> <p>چابی</p> <p>پاسورڈ | پرانا | پرانی چابی | لاک</p> <p>پرانی چابی</p> <p>آلہ | ہتھوڑا</p> <p>ہتھوڑا</p> <p>ٹکڑے کرنا | کاٹنا | کلہاڑا | کلہاڑی | لکڑی</p> <p>کلہاڑا</p> <p>آلہ | کدال</p> <p>کدال</p> <p>آلہ | کدال | ہتھوڑا | ہتھوڑا اور کدال</p> <p>ہتھوڑا اور کدال</p> <p>آلہ | رینچ | ہتھوڑا | ہتھوڑا اور رینچ</p> <p>ہتھوڑا اور رینچ</p> <p>آلہ | خنجر | ہتھیار</p> <p>خنجر</p> <p>تلواریں | کر اس | کر اس کی شکل بناتی تلواریں | ہتھیار</p> <p>کر اس کی شکل بناتی تلواریں</p> <p>پستول | ہتھیار</p> <p>پستول</p> <p>تیر | تیر اور کمان | جنگ | کمان | ہتھیار</p> <p>تیر اور کمان</p> <p>حفاظت | شیلڈ | ہتھیار</p> <p>شیلڈ</p> <p>آلہ | رینچ</p> <p>رینچ</p> <p>آلہ | بولٹ | نٹ | نٹ اور بولٹ</p> <p>نٹ اور بولٹ</p> <p>آلہ | گراری | گیئر</p> <p>گیئر</p> <p>آلہ | اوزار | کلیمپ | کمپریس کرنا | کمپریشن</p> <p>کمپریشن</p> <p>آلہ | برابر | برابر پلڑوں والا ترازو | پلڑے | ترازو</p> <p>برابر پلڑوں والا ترازو</p> <p>دسترس | نابینا | نابینا افراد کیلئے چھڑی</p> <p>نابینا افراد کیلئے چھڑی</p> <p>تالا | جوڑ | رابطہ | لنک</p> <p>لنک</p> <p>آلہ | زنجیر | زنجیریں</p> <p>زنجیریں</p> <p>اوزار | ٹُول بکس | صندوق | مکینک</p> <p>ٹُول بکس</p> <p>کشش | گھڑ نعل | مقناطیس | مقناطیسی</p> <p>مقناطیس</p> <p>آلہ | الیمبک</p> <p>الیمبک</p> <p>تجربہ | ٹیسٹ ٹیوب | سائنس | کیمسٹ | کیمسٹری | لیب</p> <p>ٹیسٹ ٹیوب</p> <p>بائیالوجسٹ | بائیالوجی | بیکٹیریا | پیٹری ڈش | ثقافت | لیب</p> <p>پیٹری ڈش</p> <p>ارتقاء | بائیالوجسٹ | جین | جینیات | ڈی این اے | زندگی</p> <p>ڈی این اے</p> <p>آلہ | سکوپ | مائیکرو | مائیکروسکوپ</p> <p>مائیکروسکوپ</p> <p>آلہ | ٹیلی | سکوپ</p> <p>ٹیلی سکوپ</p> <p>آلہ | انٹینا | ڈش | سٹلائٹ | سیٹلائٹ انٹینا</p> <p>سیٹلائٹ انٹینا</p> <p>آلہ | دوائی | ڈاکٹر | سرنج | سوئی</p> <p>سرنج</p> <p>حیض | خون کا عطیہ | خون کا قطرہ | دوا</p> <p>خون کا قطرہ</p> <p>بیماری | دوائی | ڈاکٹر | گولی</p> <p>گولی</p> <p>پٹی | چپکنے والی پٹی</p> <p>چپکنے والی پٹی</p> <p>دل | دوا | ڈاکٹر | سٹیتھو سکوپ</p> <p>سٹیتھو سکوپ</p> <p>دروازہ</p> <p>دروازہ</p> <p>بستر | نیند | ہوٹل</p> <p>بستر</p> <p>کاؤچ | کاؤچ اور لیمپ | لیمپ | ہوٹل</p> <p>کاؤچ اور لیمپ</p> <p>بیٹھنا | سیٹ | کرسی</p> <p>کرسی</p> <p>بیت الخلا | ٹوائلٹ</p> <p>بیت الخلا</p> <p>پانی | شاور</p> <p>شاور</p> <p>نہانا | نہانے کا ٹب</p> <p>نہانے کا ٹب</p> <p>استرا | تیز دھار | شیو</p> <p>استرا</p> <p>سورج کی تمازت سے بچنے کے لیے جِلدی کریم | شیمپو | لوشن | لوشن کی بوتل | موئسچرائزر</p> <p>لوشن کی بوتل</p> <p>پَنک راک | حِفاظتی پِن | ڈائپر</p> <p>حِفاظتی پِن</p> <p>جادوگرنی | جھاڑو | جھاڑو لگانا | صفائی</p> <p>جھاڑو</p> <p>پکنک | ٹوکری | فارمنگ | لانڈری</p> <p>ٹوکری</p> <p>ٹوائلٹ پیپر | کاغذی تولیے | کاغذی رول</p> <p>کاغذی رول</p> <p>ٹکیہ | جھاگ | صابن | صابن کی ڈش | صفائی | غسل</p> <p>صابن</p> <p>اسفنج | جذب کرنے والا | صفائی | مسام دار</p> <p>اسفنج</p> <p>آتش | آگ بجھانا | آگ بُجھانے والا آلہ | ٹھنڈا کرنا</p> <p>آگ بُجھانے والا آلہ</p> <p>ٹرالی | شاپنگ</p> <p>شاپنگ ٹرالی</p> <p>دھواں | سگریٹ کشی | سگریٹ نوشی</p> <p>سگریٹ نوشی</p> <p>تابوت | جنازہ | کفن | موت</p> <p>تابوت</p> <p>برتن | راکھ | مردے کی راکھ والا مرتبان | موت</p> <p>مردے کی راکھ والا مرتبان</p> <p>چہرہ | مجسمہ | موآئی</p> <p>موآئی</p> <p>آٹو میٹک | اے ٹی ایم | اے ٹی ایم کی علامت | بنک | رقم</p> <p>اے ٹی ایم کی علامت</p> <p>ٹوکری | ردی | کوڑا ٹوکری میں کا سائن</p> <p>کوڑا ٹوکری میں کا سائن</p> <p>پانی | پینا | پینے کا پانی</p> <p>پینے کا پانی</p> <p>پہیے | رسائی | کرسی | وہیل چیئر</p> <p>وہیل چیئر</p> <p>ٹوائلٹ | مرد | مردوں کا ٹوائلٹ</p> <p>مردوں کا ٹوائلٹ</p> <p>ٹوائلٹ | عورتوں کا ٹوائلٹ | عورتیں</p> <p>عورتوں کا ٹوائلٹ</p> <p>ٹوائلٹ | ریسٹ روم | کمرہ</p> <p>ریسٹ روم</p> <p>بے بی | بے بی کی علامت | سائن</p> <p>بے بی کی علامت</p> <p>ٹوائلٹ | کمرہ | واش روم</p> <p>واش روم</p> <p>پاسپورٹ | کنٹرول</p> <p>پاسپورٹ کنٹرول</p> <p>ادارہ | کسٹمز</p> <p>کسٹمز</p> <p>سامان | سامان کا کلیم | کلیم</p> <p>سامان کا کلیم</p> <p>چُھوٹا ہوا سامان | سامان | لا کر | محفوظ</p> <p>چُھوٹا ہوا سامان</p> <p>انتباہ | ٹریفک | سائن</p> <p>انتباہ</p> <p>بچوں کے گزرنے کا سائن | بچے | ٹریفک | سائن | سڑک</p> <p>بچوں کے گزرنے کا سائن</p> <p>ٹریفک | داخلہ | داخلہ ممنوع | سائن | منع</p> <p>داخلہ ممنوع</p> <p>ٹریفک | داخلہ | سائن | ممنوع | منع</p> <p>ممنوع</p> <p>ٹریفک | سائن | سائیکل | سائیکلیں ممنوع | منع</p> <p>سائیکلیں ممنوع</p> <p>ٹریفک | سائن | سگریٹ کشی | سگریٹ کشی منع ہے | منع</p> <p>سگریٹ کشی منع ہے</p> <p>سائن | کوڑا | کوڑا پھینکنا منع ہے | منع</p> <p>کوڑا پھینکنا منع ہے</p> <p>پانی | پینا | سائن | منع | نا پینے والا پانی</p> <p>نا پینے والا پانی</p> <p>پیدل | پیدل چلنے والے ممنوع | ٹریفک | سائن | منع</p> <p>پیدل چلنے والے ممنوع</p> <p>فون | منع | موبائل | موبائل فون ممنوع</p> <p>موبائل فون ممنوع</p> <p>اٹھارہ | اٹھارہ سے کم عمر کی اجازت نہیں | پابندی | سائن | عمر</p> <p>اٹھارہ سے کم عمر کی اجازت نہیں</p> <p>تابکار | تابکاری | شعاعیں</p> <p>تابکاری</p> <p>جاندار | حیات | زندگی کے لیے مضر | نقصان دہ</p> <p>زندگی کے لیے مضر</p> <p>اوپر کا تیر | تیر | سائن | سمت | شمال</p> <p>اوپر کا تیر</p> <p>اوپر دائیں تیر | تیر | سائن | سمت | شمال مشرق</p> <p>اوپر دائیں تیر</p> <p>تیر | دائیں تیر | سائن | سمت | مشرق</p> <p>دائیں تیر</p> <p>تیر | جنوب مشرق | سائن | سمت | نیچے دائیں تیر</p> <p>نیچے دائیں تیر</p> <p>تیر | جنوب | سائن | سمت | نیچے کا تیر</p> <p>نیچے کا تیر</p> <p>تیر | جنوب مغرب | سائن | سمت | نیچے بائیں تیر</p> <p>نیچے بائیں تیر</p> <p>بائیں تیر | تیر | سائن | سمت | مغرب</p> <p>بائیں تیر</p> <p>اوپر بائیں تیر | تیر | سائن | سمت | شمال مغرب</p> <p>اوپر بائیں تیر</p> <p>اوپر نیچے تیر | تیر | سائن | سمت</p> <p>اوپر نیچے تیر</p> <p>تیر | دائیں بائیں تیر | سائن | سمت</p> <p>دائیں بائیں تیر</p> <p>بائیں مڑتا ہوا دائیں تیر | تیر | سائن | سمت</p> <p>بائیں مڑتا ہوا دائیں تیر</p> <p>تیر | دائیں مڑتا ہوا بائیں تیر | سائن | سمت</p> <p>دائیں مڑتا ہوا بائیں تیر</p> <p>اوپر مڑتا ہوا دائیں تیر | تیر | سائن | سمت</p> <p>اوپر مڑتا ہوا دائیں تیر</p> <p>تیر | سائن | سمت | نیچے مڑتا ہوا دائیں تیر</p> <p>نیچے مڑتا ہوا دائیں تیر</p> <p>تیر | سائن | سمت | گھڑی کی سمت | گھڑی کی سمت میں عمودی تیر</p> <p>گھڑی کی سمت میں عمودی تیر</p> <p>تیر | سائن | سمت | گھڑی کی مخالف سمت | گھڑی کی مخالف سمت میں تیر بٹن</p> <p>گھڑی کی مخالف سمت میں تیر بٹن</p> <p>پیچھے | تیر | واپسی تیر</p> <p>واپسی تیر</p> <p>اختتام | تیر</p> <p>اختتام تیر</p> <p>آن | آن! تیر | تیر</p> <p>آن! تیر</p> <p>تیر | جلد</p> <p>جلد تیر</p> <p>اوپر | بالا تیر | تیر</p> <p>بالا تیر</p> <p>جگہ | عبادت | عبادت گاہ | مذہب</p> <p>عبادت گاہ</p> <p>ایٹم | ایٹم کی علامت | لادین</p> <p>ایٹم کی علامت</p> <p>اوم | مذہب | ہندو</p> <p>اوم</p> <p>پیغمبر | داؤد | داؤد کا ستارہ | ستارہ | مذہب | یہودی</p> <p>داؤد کا ستارہ</p> <p>بدھ مت | پہیہ | دھرم | دھرم چکر | مذہب</p> <p>دھرم چکر</p> <p>تاؤ | مذہب | ین | ین یینگ</p> <p>ین یینگ</p> <p>عیسائیت | کر اس | لاطینی کر اس | مذہب</p> <p>لاطینی کر اس</p> <p>روایتی مذہبی کر اس | عیسائیت | کر اس | مذہب</p> <p>روایتی مذہبی کر اس</p> <p>اسلام | ستارہ اور ہلال | ستارہ و ہلال | مذہب | مسلمان</p> <p>ستارہ اور ہلال</p> <p>امن | امن کا نشان | نشان</p> <p>امن کا نشان</p> <p>کینڈل اسٹک | مذہب | مینورہ</p> <p>مینورہ</p> <p>چھ | ستارہ | قسمت | کونے | نکتہ دار چھ کونوں والا ستارہ</p> <p>نکتہ دار چھ کونوں والا ستارہ</p> <p>برج | حمل</p> <p>برج حمل</p> <p>برج | برج ثور | بیل</p> <p>برج ثور</p> <p>برج | برج جوزا | جُڑواں</p> <p>برج جوزا</p> <p>برج | برج سرطان | کيکڑا</p> <p>برج سرطان</p> <p>برج | برج اسد | شیر</p> <p>برج اسد</p> <p>برج | برج سنبلہ | عورت</p> <p>برج سنبلہ</p> <p>برج | میزان</p> <p>برج میزان</p> <p>بچھو | برج | برج عقرب</p> <p>برج عقرب</p> <p>برج | برج قوس | تیر انداز</p> <p>برج قوس</p> <p>برج | برج جدی | بکرا</p> <p>برج جدی</p> <p>برج | برج دلو | پانی</p> <p>برج دلو</p> <p>برج | برج حوت | مچھلی</p> <p>برج حوت</p> <p>برج | برج حوا | سانپ</p> <p>برج حوا</p> <p>بٹن | ٹریکس | ٹریکس کو شفل کرنے کا بٹن | شفل</p> <p>ٹریکس کو شفل کرنے کا بٹن</p> <p>بٹن | ٹریکس | دوہرانہ | دوہرانے کا بٹن</p> <p>دوہرانے کا بٹن</p> <p>ایک دفعہ | ایک دفعہ دوہرانے کا بٹن | بٹن | ٹریکس | دوہرانہ</p> <p>ایک دفعہ دوہرانے کا بٹن</p> <p>بٹن | ٹریکس | چلانا | چلانے کا بٹن</p> <p>چلانے کا بٹن</p> <p>بٹن | تیز فارورڈ بٹن | ٹریکس | فارورڈ</p> <p>تیز فارورڈ بٹن</p> <p>اگلا | اگلا ٹریک بٹن | بٹن | ٹریکس</p> <p>اگلا ٹریک بٹن</p> <p>بٹن | ٹریکس | چلانا | چلانے یا روکنے کا بٹن | روکنا</p> <p>چلانے یا روکنے کا بٹن</p> <p>بٹن | پیچھے | پیچھے جانے کا بٹن | ٹریکس</p> <p>پیچھے جانے کا بٹن</p> <p>بٹن | پیچھے | تیزی سے پیچھے جانے کا بٹن | ٹریکس</p> <p>تیزی سے پیچھے جانے کا بٹن</p> <p>آخری | آخری ٹریک کا بٹن | بٹن | ٹریکس</p> <p>آخری ٹریک کا بٹن</p> <p>اوپر | اوپر کا بٹن | بٹن | ٹریکس</p> <p>اوپر کا بٹن</p> <p>اوپر | بٹن | تیزی | تیزی سے اوپر کا بٹن | ٹریکس</p> <p>تیزی سے اوپر کا بٹن</p> <p>بٹن | ٹریکس | نیچے | نیچے کا بٹن</p> <p>نیچے کا بٹن</p> <p>بٹن | تیزی | تیزی سے نیچے کا بٹن | ٹریکس | نیچے</p> <p>تیزی سے نیچے کا بٹن</p> <p>بٹن | ٹریکس | وقفہ | وقفہ ڈالنے کا بٹن</p> <p>وقفہ ڈالنے کا بٹن</p> <p>بٹن | ٹریکس | روکنا | روکنے کا بٹن</p> <p>روکنے کا بٹن</p> <p>بٹن | ٹریکس | ریکارڈ | ریکارڈ کا بٹن</p> <p>ریکارڈ کا بٹن</p> <p>بٹن | ٹریکس | نکالنا | نکالنے کا بٹن</p> <p>نکالنے کا بٹن</p> <p>سینما | فلم</p> <p>سینما</p> <p>بٹن | ٹریکس | دھیما | دھیما کا بٹن</p> <p>دھیما کا بٹن</p> <p>بٹن | ٹریکس | روشن | روشن کا بٹن</p> <p>روشن کا بٹن</p> <p>انٹینا | انٹینا بارز | بار | سگنلز | فون | موبائل</p> <p>انٹینا بارز</p> <p>فون | موبائل | وائبریشن | وائبریشن موڈ</p> <p>وائبریشن موڈ</p> <p>بند | فون | موبائل</p> <p>بند موبائل فون</p> <p>علامت | عورت | عورتوں کیلئے | لڑکی</p> <p>عورتوں کیلئے</p> <p>علامت | لڑکا | مرد | مردوں کیلئے</p> <p>مردوں کیلئے</p> <p>صحت | طبی | علامت | نشان</p> <p>طبی علامت</p> <p>عالمگیر | غیر محدود | لامحدود | ہمیشہ</p> <p>لامحدود</p> <p>ری سائیکلنگ | ری سائیکلنگ کا نشان | نشان</p> <p>ری سائیکلنگ کا نشان</p> <p>آسٹریلیا | پتیاں | پھول | تین | تین پتیوں والا للی</p> <p>تین پتیوں والا للی</p> <p>آلہ | اینکر | بحری جہاز | سہ شاخہ آلہ | علامت</p> <p>سہ شاخہ آلہ</p> <p>بیج | نام | نام کا بیج</p> <p>نام کا بیج</p> <p>جاپانی | شروعات | شروعات کرنے والے کا جاپانی نشان | نشان</p> <p>شروعات کرنے والے کا جاپانی نشان</p> <p>o | بڑا | دائرہ | سرخ | کھوکھلا سرخ دائرہ</p> <p>کھوکھلا سرخ دائرہ</p> <p>✓ | بٹن | چیک | سفید بھاری چیک کا نشان | علامت</p> <p>سفید بھاری چیک کا نشان</p> <p>✓ | بٹن | چیک | چیک کے ساتھ چیک باکس | چیک کے نشان والا بیلٹ باکس | خانہ</p> <p>چیک کے نشان والا بیلٹ باکس</p> <p>✓ | بھاری چیک کا نشان | چیک | علامت</p> <p>بھاری چیک کا نشان</p> <p>× | x | بھاری ضرب کا نشان | ضرب | ضرب کرنا | علامت | منسوخ کرنا</p> <p>بھاری ضرب کا نشان</p> <p>× | x | ضرب | ضرب دینا | علامت | کر اس | کر اس کا نشان</p> <p>کر اس کا نشان</p> <p>× | x | علامت | کر اس کی علامت کا بٹن | کر اس کے نشان کا بٹن | مربع</p> <p>کر اس کے نشان کا بٹن</p> <p>+ | جمع | جمع کی علامت | ریاضی | علامت</p> <p>جمع کی علامت</p> <p>- | − | ریاضی | علامت | منفی | منفی کی علامت</p> <p>منفی کی علامت</p> <p>÷ | تقسیم | تقسیم کی علامت | ریاضی | علامت</p> <p>تقسیم کی علامت</p> <p>رسی | کرل ہوئی | کرل ہوئی رسی</p> <p>کرل ہوئی رسی</p> <p>دوہری | دوہری کرل ہوئی رسی | رسی | کرل ہوئی</p> <p>دوہری کرل ہوئی رسی</p> <p>باری | باری کی تبدیلی کا نشان | علامت | موسیقار</p> <p>باری کی تبدیلی کا نشان</p> <p>* | آٹھ کانٹوں والا اسٹیرسک | آٹھ کونوں والا ستارہ | ستارہ</p> <p>آٹھ کانٹوں والا اسٹیرسک</p> <p>* | آٹھ کونوں والا ستارہ | ستارہ</p> <p>آٹھ کونوں والا ستارہ</p> <p>* | چمک</p> <p>چمک</p> <p>! | !! | بینگ بینگ | دوہری علامتِ ندائیہ | علامت | علامت ندائیہ</p> <p>دوہری علامتِ ندائیہ</p> <p>! | !? | ? | رموزواوقاف | سوال | سوالیہ بینگ | علامت | ندائیہ | ندائیہ سوالیہ نشان</p> <p>ندائیہ سوالیہ نشان</p> <p>? | رموزِ اوقاف | سوال | سوالیہ نشان | علامت</p> <p>سوالیہ نشان</p> <p>? | آؤٹ لائن | رموزِ اوقاف | سفید سوالیہ نشان | سوال | علامت</p> <p>سفید سوالیہ نشان</p> <p>! | آؤٹ لائن | رموزِ اوقاف | سفید ندائیہ نشان | علامت | ندائیہ</p> <p>سفید ندائیہ نشان</p> <p>! | رموزِ اوقاف | علامت | ندائیہ علامت | ندائیہ نشان</p> <p>ندائیہ نشان</p> <p>ڈیش | رموزِ اوقاف | لہردار</p> <p>لہردار ڈیش</p> <p>c | کاپی رائٹ</p> <p>کاپی رائٹ</p> <p>r | رجسٹرڈ</p> <p>رجسٹرڈ</p> <p>تجارت | تجارتی نشان | نشان</p> <p>تجارتی نشان</p> <p>ABCD | ان پٹ لاطینی بڑے حروف | اندراج | بڑے حروف | حروف | لاطینی</p> <p>ان پٹ لاطینی بڑے حروف</p> <p>abcd | ان پٹ لاطینی چھوٹے حروف | اندراج | چھوٹے حروف | حروف | لاطینی</p> <p>ان پٹ لاطینی چھوٹے حروف</p> <p>1234 | اعداد | ان پٹ اعداد | اندراج</p> <p>ان پٹ اعداد</p> <p>ان پٹ | ان پٹ علامات | علامات</p> <p>ان پٹ علامات</p> <p>abc | ان پٹ | ان پٹ لاطینی حروف | حروف | حروف تہجی | لاطینی</p> <p>ان پٹ لاطینی حروف</p> <p>A بٹن (خون کی قسم) | اے | خون</p> <p>A بٹن (خون کی قسم)</p> <p>AB بٹن (خون کی قسم) | اے بی | خون</p> <p>AB بٹن (خون کی قسم)</p> <p>B بٹن (خون کی قسم) | بی | خون</p> <p>B بٹن (خون کی قسم)</p> <p>cl | CL بٹن</p> <p>CL بٹن</p> <p>کول | کول بٹن</p> <p>کول بٹن</p> <p>فراغت | مفت بٹن</p> <p>مفت بٹن</p> <p>ماخذ | معلومات</p> <p>معلومات</p> <p>id | ID بٹن | چوکور</p> <p>ID بٹن</p> <p>m | حرف | گول | گول M</p> <p>گول M</p> <p>چوکور | نیا | نیا بٹن</p> <p>نیا بٹن</p> <p>ng | NG بٹن | چوکور</p> <p>NG بٹن</p> <p>o | O بٹن (خون کی قسم) | بٹن</p> <p>O بٹن (خون کی قسم)</p> <p>ok | اوکے بٹن | چوکور</p> <p>اوکے بٹن</p> <p>p | P بٹن | بٹن</p> <p>P بٹن</p> <p>sos | SOS بٹن | چوکور</p> <p>SOS بٹن</p> <p>اوپر | اوپر! بٹن | بٹن</p> <p>اوپر! بٹن</p> <p>vs | VS بٹن | چوکور</p> <p>VS بٹن</p> <p>جاپانی "یہاں" بٹن | چاپانی | چوکور</p> <p>جاپانی "یہاں" بٹن</p> <p>جاپانی | جاپانی "سروس چارج" بٹن | چوکور</p> <p>جاپانی "سروس چارج" بٹن</p> <p>تصویری علامت | جاپانی | جاپانی "ماہانہ رقم" بٹن | چاند | چوکور</p> <p>جاپانی "ماہانہ رقم" بٹن</p> <p>تصویری علامت | جاپانی | جاپانی "مفت نہیں" بٹن | چوکور | موجودگی</p> <p>جاپانی "مفت نہیں" بٹن</p> <p>انگلی | تصویری علامت | جاپانی | جاپانی "محفوظ" بٹن | چوکور</p> <p>جاپانی "محفوظ" بٹن</p> <p>تصویری علامت | جاپانی | جاپانی "سودا بازی " بٹن | دائرہ | فائدہ</p> <p>جاپانی "سودا بازی " بٹن</p> <p>تصویری علامت | تقسیم | جاپانی | جاپانی "رعایت" بٹن | چوکور</p> <p>جاپانی "رعایت" بٹن</p> <p>تصویری علامت | جاپانی | جاپانی "مفت" بٹن | چوکور | نفی</p> <p>جاپانی "مفت" بٹن</p> <p>تصویری علامت | جاپانی | جاپانی "ممنوع" بٹن | چوکور | ممانعت</p> <p>جاپانی "ممنوع" بٹن</p> <p>تصویری علامت | جاپانی "قابل قبول" بٹن | چینی | گول | منظوری</p> <p>جاپانی "قابل قبول" بٹن</p> <p>اپلائی | تصویری علامت | جاپانی "اپلیکیشن" بٹن | چوکور | چینی</p> <p>جاپانی "اپلیکیشن" بٹن</p> <p>اکٹھے | تصویری علامت | جاپانی "پاس کرنے کا گریڈ" بٹن | چوکور | چینی</p> <p>جاپانی "پاس کرنے کا گریڈ" بٹن</p> <p>تصویری علامت | جاپانی "خالی اسامی" علامت | چوکور | چینی | خالی</p> <p>جاپانی "خالی اسامی" علامت</p> <p>تصویری علامت | جاپانی "مبارکباد" بٹن | چینی | گول | مبارکباد</p> <p>جاپانی "مبارکباد" بٹن</p> <p>تصویری علامت | جاپانی "خفیہ" بٹن | چینی | خفیہ | گول</p> <p>جاپانی "خفیہ" بٹن</p> <p>آپریشن | تصویری علامت | جاپانی "کاروبار کے لیے کھلا" بٹن | چوکور | چینی</p> <p>جاپانی "کاروبار کے لیے کھلا" بٹن</p> <p>تصویری علامت | جاپانی "کوئی اسامی نہیں" علامت | چوکور | چینی | کاملیت</p> <p>جاپانی "کوئی اسامی نہیں" علامت</p> <p>جیومیٹری | دائرہ | سرخ</p> <p>سرخ دائرہ</p> <p>دائرہ | نارنجی</p> <p>نارنجی دائرہ</p> <p>پیلا | دائرہ</p> <p>پیلا دائرہ</p> <p>دائرہ | سبز</p> <p>سبز دائرہ</p> <p>جیومیٹری | دائرہ | نیلا</p> <p>نیلا دائرہ</p> <p>ارغوانی | دائرہ</p> <p>ارغوانی دائرہ</p> <p>بھورا | دائرہ</p> <p>بھورا دائرہ</p> <p>جیومیٹری | دائرہ | کالا</p> <p>کالا دائرہ</p> <p>جیومیٹری | دائرہ | سفید</p> <p>سفید دائرہ</p> <p>چوکور | سرخ</p> <p>سرخ چوکور</p> <p>چوکور | نارنجی</p> <p>نارنجی چوکور</p> <p>پیلا | چوکور</p> <p>پیلا چوکور</p> <p>چوکور | سبز</p> <p>سبز چوکور</p> <p>چوکور | نیلا</p> <p>نیلا چوکور</p> <p>ارغوانی | چوکور</p> <p>ارغوانی چوکور</p> <p>بھورا | چوکور</p> <p>بھورا چوکور</p> <p>بڑا | جیومیٹری | چوکور | کالا</p> <p>کالا بڑا چوکور</p> <p>بڑا | جیومیٹری | چوکور | سفید</p> <p>سفید بڑا چوکور</p> <p>جیومیٹری | چوکور | کالا | میڈیم</p> <p>کالا میڈیم چوکور</p> <p>جیومیٹری | چوکور | سفید | سفید میڈیم چوکور | میڈِم</p> <p>سفید میڈیم چوکور</p> <p>جیومیٹری | چھوٹا | چوکور | کالا | میڈیم</p> <p>کالا میڈیم چھوٹا چوکور</p> <p>جیومیٹری | چھوٹا | چوکور | سفید | سفید میڈِیم چھوٹا چوکور | میڈِم</p> <p>سفید میڈِیم چھوٹا چوکور</p> <p>جیومیٹری | چوکور | کالا | کالا چھوٹا چوکور</p> <p>کالا چھوٹا چوکور</p> <p>جیومیٹری | چھوٹا | چوکور | سفید</p> <p>سفید چھوٹا چوکور</p> <p>بڑا نارنجی ہیرا | جیومیٹری | نارنجی | ہیرا</p> <p>بڑا نارنجی ہیرا</p> <p>بڑا نیلا ہیرا | جیومیٹری | نیلا | ہیرا</p> <p>بڑا نیلا ہیرا</p> <p>جیومیٹری | چھوٹا نارنجی ہیرا | نارنجی | ہیرا</p> <p>چھوٹا نارنجی ہیرا</p> <p>جیومیٹری | چھوٹا نیلا ہیرا | نیلا | ہیرا</p> <p>چھوٹا نیلا ہیرا</p> <p>اوپر اشارہ کرتی سرخ مثلث | جیومیٹری | مثلث | نارنجی</p> <p>اوپر اشارہ کرتی سرخ مثلث</p> <p>جیومیٹری | مثلث | نارنجی | نیچے اشارہ کرتی سرخ مثلث</p> <p>نیچے اشارہ کرتی سرخ مثلث</p> <p>جیومیٹری | نکتہ | نکتے والا ہیرا | ہیرا</p> <p>نکتے والا ہیرا</p> <p>بٹن | جیومیٹری | ریڈیو</p> <p>ریڈیو بٹن</p> <p>بٹن | جیومیٹری | چوکور | سفید</p> <p>سفید چوکور بٹن</p> <p>بٹن | جیومیٹری | چوکور | سیاہ چوکور بٹن | کالا</p> <p>سیاہ چوکور بٹن</p> <p>جھنڈا | خانوں والا جھنڈا | ریسنگ</p> <p>خانوں والا جھنڈا</p> <p>تکون | تکونی جھنڈا | جھنڈا</p> <p>تکونی جھنڈا</p> <p>جاپانی | جشن | کر اس | کر اس کی شکل میں جھنڈے</p> <p>کر اس کی شکل میں جھنڈے</p> <p>جھنڈا | کالا | لہراتا</p> <p>لہراتا کالا جھنڈا</p> <p>جھنڈا | سفید | لہراتا</p> <p>لہراتا سفید جھنڈا</p> <p>پرچم | ٹرانزینڈر | سفید | گلابی | نیلی روشنی</p> <p>ٹرانزینڈر پرچم</p> <p>پرچم | رینبو | قوس قزح | قوس قزح پرچم</p> <p>قوس قزح پرچم</p> <p>جولی راجر | خزانہ | غارت گری | قزاق | قزاقوں کا جھنڈا</p> <p>قزاقوں کا جھنڈا</p> </section> </body>
0046.xml
<meta> <title>Unicode Derived Short Names and Annotations</title> <publication> <name>Unicode Common Locale Data Repository v36.1</name> <year>2020</year> <link>http://unicode.org/Public/cldr/36.1/</link> <copyright-holder>Unicode, Inc.</copyright-holder> <license-link>https://www.unicode.org/license.html</license-link> </publication> <num-words>36249</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> <notes>This is a modified version of the original document, retaining only data with Urdu words</notes> </meta>
Unicode Derived Short Names and Annotations
36,249
Yes
<body> <section> <p>انگلیاں | بھینچی ہوئی انگلیاں | تفتیش | جلد کی ہلکی رنگت | طنزیہ | ہاتھ کا اشارہ</p> <p>بھینچی ہوئی انگلیاں: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>انگلیاں | بھینچی ہوئی انگلیاں | تفتیش | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | طنزیہ | ہاتھ کا اشارہ</p> <p>بھینچی ہوئی انگلیاں: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>انگلیاں | بھینچی ہوئی انگلیاں | تفتیش | جلد کی درمیانی رنگت | طنزیہ | ہاتھ کا اشارہ</p> <p>بھینچی ہوئی انگلیاں: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>انگلیاں | بھینچی ہوئی انگلیاں | تفتیش | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | طنزیہ | ہاتھ کا اشارہ</p> <p>بھینچی ہوئی انگلیاں: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>انگلیاں | بھینچی ہوئی انگلیاں | تفتیش | جلد کی سیاہ رنگت | طنزیہ | ہاتھ کا اشارہ</p> <p>بھینچی ہوئی انگلیاں: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جسم | جلد کی ہلکی رنگت | لہرانا | ہاتھ</p> <p>ہاتھ لہرانا: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | لہرانا | ہاتھ</p> <p>ہاتھ لہرانا: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی رنگت | لہرانا | ہاتھ</p> <p>ہاتھ لہرانا: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | لہرانا | ہاتھ</p> <p>ہاتھ لہرانا: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جسم | جلد کی سیاہ رنگت | لہرانا | ہاتھ</p> <p>ہاتھ لہرانا: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پشت | جلد کی ہلکی رنگت | کھڑا | کھڑے ہاتھ کی پشت | ہاتھ</p> <p>کھڑے ہاتھ کی پشت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پشت | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | کھڑا | کھڑے ہاتھ کی پشت | ہاتھ</p> <p>کھڑے ہاتھ کی پشت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پشت | جلد کی درمیانی رنگت | کھڑا | کھڑے ہاتھ کی پشت | ہاتھ</p> <p>کھڑے ہاتھ کی پشت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پشت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | کھڑا | کھڑے ہاتھ کی پشت | ہاتھ</p> <p>کھڑے ہاتھ کی پشت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پشت | جلد کی سیاہ رنگت | کھڑا | کھڑے ہاتھ کی پشت | ہاتھ</p> <p>کھڑے ہاتھ کی پشت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>انگلی | پھیلانا | پھیلی ہوئی انگلیوں کے ساتھ بلند ہاتھ | جسم | جلد کی ہلکی رنگت | ہاتھ</p> <p>پھیلی ہوئی انگلیوں کے ساتھ بلند ہاتھ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>انگلی | پھیلانا | پھیلی ہوئی انگلیوں کے ساتھ بلند ہاتھ | جسم | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | ہاتھ</p> <p>پھیلی ہوئی انگلیوں کے ساتھ بلند ہاتھ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>انگلی | پھیلانا | پھیلی ہوئی انگلیوں کے ساتھ بلند ہاتھ | جسم | جلد کی درمیانی رنگت | ہاتھ</p> <p>پھیلی ہوئی انگلیوں کے ساتھ بلند ہاتھ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>انگلی | پھیلانا | پھیلی ہوئی انگلیوں کے ساتھ بلند ہاتھ | جسم | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | ہاتھ</p> <p>پھیلی ہوئی انگلیوں کے ساتھ بلند ہاتھ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>انگلی | پھیلانا | پھیلی ہوئی انگلیوں کے ساتھ بلند ہاتھ | جسم | جلد کی سیاہ رنگت | ہاتھ</p> <p>پھیلی ہوئی انگلیوں کے ساتھ بلند ہاتھ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بلند ہاتھ | جسم | جلد کی ہلکی رنگت | ہاتھ</p> <p>بلند ہاتھ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بلند ہاتھ | جسم | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | ہاتھ</p> <p>بلند ہاتھ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بلند ہاتھ | جسم | جلد کی درمیانی رنگت | ہاتھ</p> <p>بلند ہاتھ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بلند ہاتھ | جسم | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | ہاتھ</p> <p>بلند ہاتھ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بلند ہاتھ | جسم | جلد کی سیاہ رنگت | ہاتھ</p> <p>بلند ہاتھ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اَتش فشاں | انگلی | جسم | جلد کی ہلکی رنگت | ہاتھ | وولکن سلیوٹ</p> <p>وولکن سلیوٹ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اَتش فشاں | انگلی | جسم | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | ہاتھ | وولکن سلیوٹ</p> <p>وولکن سلیوٹ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اَتش فشاں | انگلی | جسم | جلد کی درمیانی رنگت | ہاتھ | وولکن سلیوٹ</p> <p>وولکن سلیوٹ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اَتش فشاں | انگلی | جسم | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | ہاتھ | وولکن سلیوٹ</p> <p>وولکن سلیوٹ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اَتش فشاں | انگلی | جسم | جلد کی سیاہ رنگت | ہاتھ | وولکن سلیوٹ</p> <p>وولکن سلیوٹ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اوکے | اوکے کا نشان بناتا ہاتھ | جلد کی ہلکی رنگت | ہاتھ</p> <p>اوکے کا نشان بناتا ہاتھ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اوکے | اوکے کا نشان بناتا ہاتھ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | ہاتھ</p> <p>اوکے کا نشان بناتا ہاتھ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اوکے | اوکے کا نشان بناتا ہاتھ | جلد کی درمیانی رنگت | ہاتھ</p> <p>اوکے کا نشان بناتا ہاتھ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اوکے | اوکے کا نشان بناتا ہاتھ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | ہاتھ</p> <p>اوکے کا نشان بناتا ہاتھ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اوکے | اوکے کا نشان بناتا ہاتھ | جلد کی سیاہ رنگت | ہاتھ</p> <p>اوکے کا نشان بناتا ہاتھ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تھوڑی مقدار | جلد کی ہلکی رنگت | چٹکی لیتا ہوا ہاتھ</p> <p>چٹکی لیتا ہوا ہاتھ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تھوڑی مقدار | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | چٹکی لیتا ہوا ہاتھ</p> <p>چٹکی لیتا ہوا ہاتھ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تھوڑی مقدار | جلد کی درمیانی رنگت | چٹکی لیتا ہوا ہاتھ</p> <p>چٹکی لیتا ہوا ہاتھ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تھوڑی مقدار | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | چٹکی لیتا ہوا ہاتھ</p> <p>چٹکی لیتا ہوا ہاتھ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تھوڑی مقدار | جلد کی سیاہ رنگت | چٹکی لیتا ہوا ہاتھ</p> <p>چٹکی لیتا ہوا ہاتھ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جسم | جلد کی ہلکی رنگت | فتح | فتح کا نشان بناتا ہاتھ | نشان | ہاتھ</p> <p>فتح کا نشان بناتا ہاتھ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | فتح | فتح کا نشان بناتا ہاتھ | نشان | ہاتھ</p> <p>فتح کا نشان بناتا ہاتھ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی رنگت | فتح | فتح کا نشان بناتا ہاتھ | نشان | ہاتھ</p> <p>فتح کا نشان بناتا ہاتھ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | فتح | فتح کا نشان بناتا ہاتھ | نشان | ہاتھ</p> <p>فتح کا نشان بناتا ہاتھ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جسم | جلد کی سیاہ رنگت | فتح | فتح کا نشان بناتا ہاتھ | نشان | ہاتھ</p> <p>فتح کا نشان بناتا ہاتھ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>امید | انگلی | جلد کی ہلکی رنگت | قسمت | کر اس | کر اس بناتی انگلیاں</p> <p>کر اس بناتی انگلیاں: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>امید | انگلی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | قسمت | کر اس | کر اس بناتی انگلیاں</p> <p>کر اس بناتی انگلیاں: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>امید | انگلی | جلد کی درمیانی رنگت | قسمت | کر اس | کر اس بناتی انگلیاں</p> <p>کر اس بناتی انگلیاں: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>امید | انگلی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | قسمت | کر اس | کر اس بناتی انگلیاں</p> <p>کر اس بناتی انگلیاں: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>امید | انگلی | جلد کی سیاہ رنگت | قسمت | کر اس | کر اس بناتی انگلیاں</p> <p>کر اس بناتی انگلیاں: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>آپ سے محبت | آپ سے محبت کا اشارہ | جلد کی ہلکی رنگت | ہاتھ</p> <p>آپ سے محبت کا اشارہ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>آپ سے محبت | آپ سے محبت کا اشارہ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | ہاتھ</p> <p>آپ سے محبت کا اشارہ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>آپ سے محبت | آپ سے محبت کا اشارہ | جلد کی درمیانی رنگت | ہاتھ</p> <p>آپ سے محبت کا اشارہ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>آپ سے محبت | آپ سے محبت کا اشارہ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | ہاتھ</p> <p>آپ سے محبت کا اشارہ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>آپ سے محبت | آپ سے محبت کا اشارہ | جلد کی سیاہ رنگت | ہاتھ</p> <p>آپ سے محبت کا اشارہ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>انگلی | جسم | جلد کی ہلکی رنگت | سینگ | ہاتھ | ہاتھ سے سینگوں کا نشان</p> <p>ہاتھ سے سینگوں کا نشان: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>انگلی | جسم | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سینگ | ہاتھ | ہاتھ سے سینگوں کا نشان</p> <p>ہاتھ سے سینگوں کا نشان: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>انگلی | جسم | جلد کی درمیانی رنگت | سینگ | ہاتھ | ہاتھ سے سینگوں کا نشان</p> <p>ہاتھ سے سینگوں کا نشان: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>انگلی | جسم | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سینگ | ہاتھ | ہاتھ سے سینگوں کا نشان</p> <p>ہاتھ سے سینگوں کا نشان: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>انگلی | جسم | جلد کی سیاہ رنگت | سینگ | ہاتھ | ہاتھ سے سینگوں کا نشان</p> <p>ہاتھ سے سینگوں کا نشان: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی ہلکی رنگت | کال | کال کرنے کا اشارہ | ہاتھ</p> <p>کال کرنے کا اشارہ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | کال | کال کرنے کا اشارہ | ہاتھ</p> <p>کال کرنے کا اشارہ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی درمیانی رنگت | کال | کال کرنے کا اشارہ | ہاتھ</p> <p>کال کرنے کا اشارہ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | کال | کال کرنے کا اشارہ | ہاتھ</p> <p>کال کرنے کا اشارہ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی سیاہ رنگت | کال | کال کرنے کا اشارہ | ہاتھ</p> <p>کال کرنے کا اشارہ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>انگلی | بائیں | بائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | جسم | جلد کی ہلکی رنگت | ہاتھ</p> <p>بائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>انگلی | بائیں | بائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | جسم | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | ہاتھ</p> <p>بائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>انگلی | بائیں | بائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | جسم | جلد کی درمیانی رنگت | ہاتھ</p> <p>بائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>انگلی | بائیں | بائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | جسم | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | ہاتھ</p> <p>بائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>انگلی | بائیں | بائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | جسم | جلد کی سیاہ رنگت | ہاتھ</p> <p>بائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>انگلی | جسم | جلد کی ہلکی رنگت | دائیں | دائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | ہاتھ</p> <p>دائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>انگلی | جسم | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | دائیں | دائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | ہاتھ</p> <p>دائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>انگلی | جسم | جلد کی درمیانی رنگت | دائیں | دائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | ہاتھ</p> <p>دائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>انگلی | جسم | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | دائیں | دائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | ہاتھ</p> <p>دائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>انگلی | جسم | جلد کی سیاہ رنگت | دائیں | دائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | ہاتھ</p> <p>دائیں اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اوپر | اوپر اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | جسم | جلد کی ہلکی رنگت | شہادت کی انگلی | ہاتھ</p> <p>اوپر اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اوپر | اوپر اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | جسم | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | شہادت کی انگلی | ہاتھ</p> <p>اوپر اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اوپر | اوپر اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | جسم | جلد کی درمیانی رنگت | شہادت کی انگلی | ہاتھ</p> <p>اوپر اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اوپر | اوپر اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | جسم | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | شہادت کی انگلی | ہاتھ</p> <p>اوپر اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اوپر | اوپر اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | جسم | جلد کی سیاہ رنگت | شہادت کی انگلی | ہاتھ</p> <p>اوپر اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جسم | جلد کی ہلکی رنگت | درمیانی انگلی | ہاتھ</p> <p>درمیانی انگلی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | درمیانی انگلی | ہاتھ</p> <p>درمیانی انگلی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی رنگت | درمیانی انگلی | ہاتھ</p> <p>درمیانی انگلی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | درمیانی انگلی | ہاتھ</p> <p>درمیانی انگلی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جسم | جلد کی سیاہ رنگت | درمیانی انگلی | ہاتھ</p> <p>درمیانی انگلی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جسم | جلد کی ہلکی رنگت | شہادت کی انگلی | نیچے | نیچے اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | ہاتھ</p> <p>نیچے اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | شہادت کی انگلی | نیچے | نیچے اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | ہاتھ</p> <p>نیچے اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی رنگت | شہادت کی انگلی | نیچے | نیچے اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | ہاتھ</p> <p>نیچے اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | شہادت کی انگلی | نیچے | نیچے اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | ہاتھ</p> <p>نیچے اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جسم | جلد کی سیاہ رنگت | شہادت کی انگلی | نیچے | نیچے اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی | ہاتھ</p> <p>نیچے اشارہ کرتی بیک ہینڈ شہادت کی انگلی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>انگلی | اوپر | اوپر اشارہ کرتی شہادت کی انگلی | جسم | جلد کی ہلکی رنگت | ہاتھ</p> <p>اوپر اشارہ کرتی شہادت کی انگلی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>انگلی | اوپر | اوپر اشارہ کرتی شہادت کی انگلی | جسم | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | ہاتھ</p> <p>اوپر اشارہ کرتی شہادت کی انگلی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>انگلی | اوپر | اوپر اشارہ کرتی شہادت کی انگلی | جسم | جلد کی درمیانی رنگت | ہاتھ</p> <p>اوپر اشارہ کرتی شہادت کی انگلی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>انگلی | اوپر | اوپر اشارہ کرتی شہادت کی انگلی | جسم | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | ہاتھ</p> <p>اوپر اشارہ کرتی شہادت کی انگلی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>انگلی | اوپر | اوپر اشارہ کرتی شہادت کی انگلی | جسم | جلد کی سیاہ رنگت | ہاتھ</p> <p>اوپر اشارہ کرتی شہادت کی انگلی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>+1 | انگوٹھا | اوپر | بہت اچھے | جلد کی ہلکی رنگت | سب اچھا کا نشان بناتا انگوٹھا | ہاتھ</p> <p>سب اچھا کا نشان بناتا انگوٹھا: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>+1 | انگوٹھا | اوپر | بہت اچھے | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سب اچھا کا نشان بناتا انگوٹھا | ہاتھ</p> <p>سب اچھا کا نشان بناتا انگوٹھا: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>+1 | انگوٹھا | اوپر | بہت اچھے | جلد کی درمیانی رنگت | سب اچھا کا نشان بناتا انگوٹھا | ہاتھ</p> <p>سب اچھا کا نشان بناتا انگوٹھا: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>+1 | انگوٹھا | اوپر | بہت اچھے | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سب اچھا کا نشان بناتا انگوٹھا | ہاتھ</p> <p>سب اچھا کا نشان بناتا انگوٹھا: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>+1 | انگوٹھا | اوپر | بہت اچھے | جلد کی سیاہ رنگت | سب اچھا کا نشان بناتا انگوٹھا | ہاتھ</p> <p>سب اچھا کا نشان بناتا انگوٹھا: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>-1 | اچھا نہ ہونے کا نشان بناتا انگوٹھا | انگوٹھا | بہت برے | جلد کی ہلکی رنگت | نیچے | ہاتھ</p> <p>اچھا نہ ہونے کا نشان بناتا انگوٹھا: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>-1 | اچھا نہ ہونے کا نشان بناتا انگوٹھا | انگوٹھا | بہت برے | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | نیچے | ہاتھ</p> <p>اچھا نہ ہونے کا نشان بناتا انگوٹھا: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>-1 | اچھا نہ ہونے کا نشان بناتا انگوٹھا | انگوٹھا | بہت برے | جلد کی درمیانی رنگت | نیچے | ہاتھ</p> <p>اچھا نہ ہونے کا نشان بناتا انگوٹھا: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>-1 | اچھا نہ ہونے کا نشان بناتا انگوٹھا | انگوٹھا | بہت برے | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | نیچے | ہاتھ</p> <p>اچھا نہ ہونے کا نشان بناتا انگوٹھا: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>-1 | اچھا نہ ہونے کا نشان بناتا انگوٹھا | انگوٹھا | بہت برے | جلد کی سیاہ رنگت | نیچے | ہاتھ</p> <p>اچھا نہ ہونے کا نشان بناتا انگوٹھا: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بلند مُٹھی | جسم | جلد کی ہلکی رنگت | مٹھی | ہاتھ</p> <p>بلند مُٹھی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بلند مُٹھی | جسم | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | مٹھی | ہاتھ</p> <p>بلند مُٹھی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بلند مُٹھی | جسم | جلد کی درمیانی رنگت | مٹھی | ہاتھ</p> <p>بلند مُٹھی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بلند مُٹھی | جسم | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | مٹھی | ہاتھ</p> <p>بلند مُٹھی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بلند مُٹھی | جسم | جلد کی سیاہ رنگت | مٹھی | ہاتھ</p> <p>بلند مُٹھی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>آتا ہوا مُکا | جسم | جلد کی ہلکی رنگت | مکا | ہاتھ</p> <p>آتا ہوا مُکا: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>آتا ہوا مُکا | جسم | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | مکا | ہاتھ</p> <p>آتا ہوا مُکا: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>آتا ہوا مُکا | جسم | جلد کی درمیانی رنگت | مکا | ہاتھ</p> <p>آتا ہوا مُکا: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>آتا ہوا مُکا | جسم | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | مکا | ہاتھ</p> <p>آتا ہوا مُکا: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>آتا ہوا مُکا | جسم | جلد کی سیاہ رنگت | مکا | ہاتھ</p> <p>آتا ہوا مُکا: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بائیں سمت | بائیں سمت میں مکا | جلد کی ہلکی رنگت | مکا</p> <p>بائیں سمت میں مکا: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بائیں سمت | بائیں سمت میں مکا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | مکا</p> <p>بائیں سمت میں مکا: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بائیں سمت | بائیں سمت میں مکا | جلد کی درمیانی رنگت | مکا</p> <p>بائیں سمت میں مکا: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بائیں سمت | بائیں سمت میں مکا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | مکا</p> <p>بائیں سمت میں مکا: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بائیں سمت | بائیں سمت میں مکا | جلد کی سیاہ رنگت | مکا</p> <p>بائیں سمت میں مکا: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | دائیں سمت | دائیں سمت میں مکا | مکا</p> <p>دائیں سمت میں مکا: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | دائیں سمت | دائیں سمت میں مکا | مکا</p> <p>دائیں سمت میں مکا: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | دائیں سمت | دائیں سمت میں مکا | مکا</p> <p>دائیں سمت میں مکا: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | دائیں سمت | دائیں سمت میں مکا | مکا</p> <p>دائیں سمت میں مکا: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | دائیں سمت | دائیں سمت میں مکا | مکا</p> <p>دائیں سمت میں مکا: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تالی | تالیاں بجاتے ہاتھ | جسم | جلد کی ہلکی رنگت | ہاتھ</p> <p>تالیاں بجاتے ہاتھ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تالی | تالیاں بجاتے ہاتھ | جسم | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | ہاتھ</p> <p>تالیاں بجاتے ہاتھ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تالی | تالیاں بجاتے ہاتھ | جسم | جلد کی درمیانی رنگت | ہاتھ</p> <p>تالیاں بجاتے ہاتھ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تالی | تالیاں بجاتے ہاتھ | جسم | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | ہاتھ</p> <p>تالیاں بجاتے ہاتھ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تالی | تالیاں بجاتے ہاتھ | جسم | جلد کی سیاہ رنگت | ہاتھ</p> <p>تالیاں بجاتے ہاتھ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جسم | جشن | جلد کی ہلکی رنگت | ہاتھ | ہاتھ بلند کیے ہوئے شخص</p> <p>ہاتھ بلند کیے ہوئے شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جسم | جشن | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | ہاتھ | ہاتھ بلند کیے ہوئے شخص</p> <p>ہاتھ بلند کیے ہوئے شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جسم | جشن | جلد کی درمیانی رنگت | ہاتھ | ہاتھ بلند کیے ہوئے شخص</p> <p>ہاتھ بلند کیے ہوئے شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جسم | جشن | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | ہاتھ | ہاتھ بلند کیے ہوئے شخص</p> <p>ہاتھ بلند کیے ہوئے شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جسم | جشن | جلد کی سیاہ رنگت | ہاتھ | ہاتھ بلند کیے ہوئے شخص</p> <p>ہاتھ بلند کیے ہوئے شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جسم | جلد کی ہلکی رنگت | کھلے ہاتھ | کھولے | ہاتھ</p> <p>کھلے ہاتھ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | کھلے ہاتھ | کھولے | ہاتھ</p> <p>کھلے ہاتھ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی رنگت | کھلے ہاتھ | کھولے | ہاتھ</p> <p>کھلے ہاتھ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | کھلے ہاتھ | کھولے | ہاتھ</p> <p>کھلے ہاتھ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جسم | جلد کی سیاہ رنگت | کھلے ہاتھ | کھولے | ہاتھ</p> <p>کھلے ہاتھ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>ایک ساتھ ہتھیلیاں اٹھانا | جلد کی ہلکی رنگت | نماز</p> <p>ایک ساتھ ہتھیلیاں اٹھانا: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>ایک ساتھ ہتھیلیاں اٹھانا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | نماز</p> <p>ایک ساتھ ہتھیلیاں اٹھانا: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>ایک ساتھ ہتھیلیاں اٹھانا | جلد کی درمیانی رنگت | نماز</p> <p>ایک ساتھ ہتھیلیاں اٹھانا: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>ایک ساتھ ہتھیلیاں اٹھانا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | نماز</p> <p>ایک ساتھ ہتھیلیاں اٹھانا: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>ایک ساتھ ہتھیلیاں اٹھانا | جلد کی سیاہ رنگت | نماز</p> <p>ایک ساتھ ہتھیلیاں اٹھانا: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اشارہ | بندھے ہاتھ | جلد کی ہلکی رنگت | دعا | شکریہ</p> <p>بندھے ہاتھ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اشارہ | بندھے ہاتھ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | دعا | شکریہ</p> <p>بندھے ہاتھ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اشارہ | بندھے ہاتھ | جلد کی درمیانی رنگت | دعا | شکریہ</p> <p>بندھے ہاتھ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اشارہ | بندھے ہاتھ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | دعا | شکریہ</p> <p>بندھے ہاتھ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اشارہ | بندھے ہاتھ | جلد کی سیاہ رنگت | دعا | شکریہ</p> <p>بندھے ہاتھ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جسم | جلد کی ہلکی رنگت | لکھتا ہوا ہاتھ | لکھنا | ہاتھ</p> <p>لکھتا ہوا ہاتھ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | لکھتا ہوا ہاتھ | لکھنا | ہاتھ</p> <p>لکھتا ہوا ہاتھ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی رنگت | لکھتا ہوا ہاتھ | لکھنا | ہاتھ</p> <p>لکھتا ہوا ہاتھ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | لکھتا ہوا ہاتھ | لکھنا | ہاتھ</p> <p>لکھتا ہوا ہاتھ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جسم | جلد کی سیاہ رنگت | لکھتا ہوا ہاتھ | لکھنا | ہاتھ</p> <p>لکھتا ہوا ہاتھ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پالش | جسم | جلد کی ہلکی رنگت | خیال | ناخن | نیل پالش</p> <p>نیل پالش: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پالش | جسم | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | خیال | ناخن | نیل پالش</p> <p>نیل پالش: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پالش | جسم | جلد کی درمیانی رنگت | خیال | ناخن | نیل پالش</p> <p>نیل پالش: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پالش | جسم | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | خیال | ناخن | نیل پالش</p> <p>نیل پالش: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پالش | جسم | جلد کی سیاہ رنگت | خیال | ناخن | نیل پالش</p> <p>نیل پالش: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تصویر | جلد کی ہلکی رنگت | سیلفی | فون | کیمرہ</p> <p>سیلفی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تصویر | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سیلفی | فون | کیمرہ</p> <p>سیلفی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تصویر | جلد کی درمیانی رنگت | سیلفی | فون | کیمرہ</p> <p>سیلفی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تصویر | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سیلفی | فون | کیمرہ</p> <p>سیلفی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تصویر | جلد کی سیاہ رنگت | سیلفی | فون | کیمرہ</p> <p>سیلفی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بازوؤں کے ڈولے | جسم | جلد کی ہلکی رنگت | ڈولے</p> <p>بازوؤں کے ڈولے: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بازوؤں کے ڈولے | جسم | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | ڈولے</p> <p>بازوؤں کے ڈولے: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بازوؤں کے ڈولے | جسم | جلد کی درمیانی رنگت | ڈولے</p> <p>بازوؤں کے ڈولے: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بازوؤں کے ڈولے | جسم | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | ڈولے</p> <p>بازوؤں کے ڈولے: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بازوؤں کے ڈولے | جسم | جلد کی سیاہ رنگت | ڈولے</p> <p>بازوؤں کے ڈولے: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>ٹانگ | ٹھوکر | جلد کی ہلکی رنگت | عضو</p> <p>ٹانگ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>ٹانگ | ٹھوکر | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عضو</p> <p>ٹانگ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>ٹانگ | ٹھوکر | جلد کی درمیانی رنگت | عضو</p> <p>ٹانگ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>ٹانگ | ٹھوکر | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عضو</p> <p>ٹانگ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>ٹانگ | ٹھوکر | جلد کی سیاہ رنگت | عضو</p> <p>ٹانگ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پاؤں | پاؤں مارنا | ٹھوکر | جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پاؤں: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پاؤں | پاؤں مارنا | ٹھوکر | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پاؤں: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پاؤں | پاؤں مارنا | ٹھوکر | جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پاؤں: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پاؤں | پاؤں مارنا | ٹھوکر | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پاؤں: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پاؤں | پاؤں مارنا | ٹھوکر | جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پاؤں: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جسم | جلد کی ہلکی رنگت | کان</p> <p>کان: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | کان</p> <p>کان: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی رنگت | کان</p> <p>کان: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | کان</p> <p>کان: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جسم | جلد کی سیاہ رنگت | کان</p> <p>کان: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>آلہ سماعت کے ساتھ کان | جلد کی ہلکی رنگت | دسترس | کمزور سماعت</p> <p>آلہ سماعت کے ساتھ کان: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>آلہ سماعت کے ساتھ کان | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | دسترس | کمزور سماعت</p> <p>آلہ سماعت کے ساتھ کان: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>آلہ سماعت کے ساتھ کان | جلد کی درمیانی رنگت | دسترس | کمزور سماعت</p> <p>آلہ سماعت کے ساتھ کان: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>آلہ سماعت کے ساتھ کان | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | دسترس | کمزور سماعت</p> <p>آلہ سماعت کے ساتھ کان: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>آلہ سماعت کے ساتھ کان | جلد کی سیاہ رنگت | دسترس | کمزور سماعت</p> <p>آلہ سماعت کے ساتھ کان: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جسم | جلد کی ہلکی رنگت | ناک</p> <p>ناک: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | ناک</p> <p>ناک: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی رنگت | ناک</p> <p>ناک: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جسم | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | ناک</p> <p>ناک: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جسم | جلد کی سیاہ رنگت | ناک</p> <p>ناک: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>انسان | بچہ | جلد کی ہلکی رنگت | طفل</p> <p>طفل: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>انسان | بچہ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | طفل</p> <p>طفل: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>انسان | بچہ | جلد کی درمیانی رنگت | طفل</p> <p>طفل: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>انسان | بچہ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | طفل</p> <p>طفل: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>انسان | بچہ | جلد کی سیاہ رنگت | طفل</p> <p>طفل: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بچہ | جلد کی ہلکی رنگت | صنفی غیر جانبدار | نوجوان</p> <p>بچہ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بچہ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | صنفی غیر جانبدار | نوجوان</p> <p>بچہ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بچہ | جلد کی درمیانی رنگت | صنفی غیر جانبدار | نوجوان</p> <p>بچہ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بچہ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | صنفی غیر جانبدار | نوجوان</p> <p>بچہ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بچہ | جلد کی سیاہ رنگت | صنفی غیر جانبدار | نوجوان</p> <p>بچہ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>انسان | جلد کی ہلکی رنگت | لڑکا</p> <p>لڑکا: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | لڑکا</p> <p>لڑکا: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی رنگت | لڑکا</p> <p>لڑکا: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | لڑکا</p> <p>لڑکا: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>انسان | جلد کی سیاہ رنگت | لڑکا</p> <p>لڑکا: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>انسان | جلد کی ہلکی رنگت | لڑکی</p> <p>لڑکی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | لڑکی</p> <p>لڑکی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی رنگت | لڑکی</p> <p>لڑکی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | لڑکی</p> <p>لڑکی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>انسان | جلد کی سیاہ رنگت | لڑکی</p> <p>لڑکی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بالغ | جلد کی ہلکی رنگت | شخص | صنفی غیر جانبدار</p> <p>شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بالغ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | شخص | صنفی غیر جانبدار</p> <p>شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بالغ | جلد کی درمیانی رنگت | شخص | صنفی غیر جانبدار</p> <p>شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بالغ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | شخص | صنفی غیر جانبدار</p> <p>شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بالغ | جلد کی سیاہ رنگت | شخص | صنفی غیر جانبدار</p> <p>شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بال | بندہ | جلد کی ہلکی رنگت | سنہرے | سنہرے بالوں والا شخص</p> <p>سنہرے بالوں والا شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بال | بندہ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سنہرے | سنہرے بالوں والا شخص</p> <p>سنہرے بالوں والا شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بال | بندہ | جلد کی درمیانی رنگت | سنہرے | سنہرے بالوں والا شخص</p> <p>سنہرے بالوں والا شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بال | بندہ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سنہرے | سنہرے بالوں والا شخص</p> <p>سنہرے بالوں والا شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بال | بندہ | جلد کی سیاہ رنگت | سنہرے | سنہرے بالوں والا شخص</p> <p>سنہرے بالوں والا شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بالغ | سرخ بال | شخص | صنفی غیر جانبدار</p> <p>شخص: سرخ بال</p> <p>بالغ | جلد کی ہلکی رنگت | سرخ بال | شخص | صنفی غیر جانبدار</p> <p>شخص: جلد کی ہلکی رنگت اور سرخ بال</p> <p>بالغ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سرخ بال | شخص | صنفی غیر جانبدار</p> <p>شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور سرخ بال</p> <p>بالغ | جلد کی درمیانی رنگت | سرخ بال | شخص | صنفی غیر جانبدار</p> <p>شخص: جلد کی درمیانی رنگت اور سرخ بال</p> <p>بالغ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سرخ بال | شخص | صنفی غیر جانبدار</p> <p>شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور سرخ بال</p> <p>بالغ | جلد کی سیاہ رنگت | سرخ بال | شخص | صنفی غیر جانبدار</p> <p>شخص: جلد کی سیاہ رنگت اور سرخ بال</p> <p>بالغ | شخص | صنفی غیر جانبدار | گھنگھریالے بال</p> <p>شخص: گھنگھریالے بال</p> <p>بالغ | جلد کی ہلکی رنگت | شخص | صنفی غیر جانبدار | گھنگھریالے بال</p> <p>شخص: جلد کی ہلکی رنگت اور گھنگھریالے بال</p> <p>بالغ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | شخص | صنفی غیر جانبدار | گھنگھریالے بال</p> <p>شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور گھنگھریالے بال</p> <p>بالغ | جلد کی درمیانی رنگت | شخص | صنفی غیر جانبدار | گھنگھریالے بال</p> <p>شخص: جلد کی درمیانی رنگت اور گھنگھریالے بال</p> <p>بالغ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | شخص | صنفی غیر جانبدار | گھنگھریالے بال</p> <p>شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور گھنگھریالے بال</p> <p>بالغ | جلد کی سیاہ رنگت | شخص | صنفی غیر جانبدار | گھنگھریالے بال</p> <p>شخص: جلد کی سیاہ رنگت اور گھنگھریالے بال</p> <p>بالغ | سفید بال | شخص | صنفی غیر جانبدار</p> <p>شخص: سفید بال</p> <p>بالغ | جلد کی ہلکی رنگت | سفید بال | شخص | صنفی غیر جانبدار</p> <p>شخص: جلد کی ہلکی رنگت اور سفید بال</p> <p>بالغ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سفید بال | شخص | صنفی غیر جانبدار</p> <p>شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور سفید بال</p> <p>بالغ | جلد کی درمیانی رنگت | سفید بال | شخص | صنفی غیر جانبدار</p> <p>شخص: جلد کی درمیانی رنگت اور سفید بال</p> <p>بالغ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سفید بال | شخص | صنفی غیر جانبدار</p> <p>شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور سفید بال</p> <p>بالغ | جلد کی سیاہ رنگت | سفید بال | شخص | صنفی غیر جانبدار</p> <p>شخص: جلد کی سیاہ رنگت اور سفید بال</p> <p>بالغ | شخص | صنفی غیر جانبدار | گنجا</p> <p>شخص: گنجا</p> <p>بالغ | جلد کی ہلکی رنگت | شخص | صنفی غیر جانبدار | گنجا</p> <p>شخص: جلد کی ہلکی رنگت اور گنجا</p> <p>بالغ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | شخص | صنفی غیر جانبدار | گنجا</p> <p>شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور گنجا</p> <p>بالغ | جلد کی درمیانی رنگت | شخص | صنفی غیر جانبدار | گنجا</p> <p>شخص: جلد کی درمیانی رنگت اور گنجا</p> <p>بالغ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | شخص | صنفی غیر جانبدار | گنجا</p> <p>شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور گنجا</p> <p>بالغ | جلد کی سیاہ رنگت | شخص | صنفی غیر جانبدار | گنجا</p> <p>شخص: جلد کی سیاہ رنگت اور گنجا</p> <p>بچہ، دودھ پلانا، دایہ گیری، شخص | بچے کو دودھ پلاتا شخص | جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بچے کو دودھ پلاتا شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بچہ، دودھ پلانا، دایہ گیری، شخص | بچے کو دودھ پلاتا شخص | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بچے کو دودھ پلاتا شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بچہ، دودھ پلانا، دایہ گیری، شخص | بچے کو دودھ پلاتا شخص | جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بچے کو دودھ پلاتا شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بچہ، دودھ پلانا، دایہ گیری، شخص | بچے کو دودھ پلاتا شخص | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بچے کو دودھ پلاتا شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بچہ، دودھ پلانا، دایہ گیری، شخص | بچے کو دودھ پلاتا شخص | جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بچے کو دودھ پلاتا شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | کلاؤز، کرسمس | میکس کلاؤز</p> <p>میکس کلاؤز: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | کلاؤز، کرسمس | میکس کلاؤز</p> <p>میکس کلاؤز: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | کلاؤز، کرسمس | میکس کلاؤز</p> <p>میکس کلاؤز: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | کلاؤز، کرسمس | میکس کلاؤز</p> <p>میکس کلاؤز: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | کلاؤز، کرسمس | میکس کلاؤز</p> <p>میکس کلاؤز: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>انسان | جلد کی ہلکی رنگت | مرد</p> <p>مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | مرد</p> <p>مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی رنگت | مرد</p> <p>مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | مرد</p> <p>مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>انسان | جلد کی سیاہ رنگت | مرد</p> <p>مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | داڑھی | داڑھی والا شخص</p> <p>داڑھی والا شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | داڑھی | داڑھی والا شخص</p> <p>داڑھی والا شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | داڑھی | داڑھی والا شخص</p> <p>داڑھی والا شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | داڑھی | داڑھی والا شخص</p> <p>داڑھی والا شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | داڑھی | داڑھی والا شخص</p> <p>داڑھی والا شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بھورے بال | جلد کی ہلکی رنگت | سنہرے بال | سنہرے بالوں والا مرد | مرد</p> <p>سنہرے بالوں والا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بھورے بال | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سنہرے بال | سنہرے بالوں والا مرد | مرد</p> <p>سنہرے بالوں والا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بھورے بال | جلد کی درمیانی رنگت | سنہرے بال | سنہرے بالوں والا مرد | مرد</p> <p>سنہرے بالوں والا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بھورے بال | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سنہرے بال | سنہرے بالوں والا مرد | مرد</p> <p>سنہرے بالوں والا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بھورے بال | جلد کی سیاہ رنگت | سنہرے بال | سنہرے بالوں والا مرد | مرد</p> <p>سنہرے بالوں والا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>انسان | سرخ بال | مرد</p> <p>مرد: سرخ بال</p> <p>انسان | جلد کی ہلکی رنگت | سرخ بال | مرد</p> <p>مرد: جلد کی ہلکی رنگت اور سرخ بال</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سرخ بال | مرد</p> <p>مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور سرخ بال</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی رنگت | سرخ بال | مرد</p> <p>مرد: جلد کی درمیانی رنگت اور سرخ بال</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سرخ بال | مرد</p> <p>مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور سرخ بال</p> <p>انسان | جلد کی سیاہ رنگت | سرخ بال | مرد</p> <p>مرد: جلد کی سیاہ رنگت اور سرخ بال</p> <p>انسان | گھنگھریالے بال | مرد</p> <p>مرد: گھنگھریالے بال</p> <p>انسان | جلد کی ہلکی رنگت | گھنگھریالے بال | مرد</p> <p>مرد: جلد کی ہلکی رنگت اور گھنگھریالے بال</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | گھنگھریالے بال | مرد</p> <p>مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور گھنگھریالے بال</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی رنگت | گھنگھریالے بال | مرد</p> <p>مرد: جلد کی درمیانی رنگت اور گھنگھریالے بال</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | گھنگھریالے بال | مرد</p> <p>مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور گھنگھریالے بال</p> <p>انسان | جلد کی سیاہ رنگت | گھنگھریالے بال | مرد</p> <p>مرد: جلد کی سیاہ رنگت اور گھنگھریالے بال</p> <p>انسان | سفید بال | مرد</p> <p>مرد: سفید بال</p> <p>انسان | جلد کی ہلکی رنگت | سفید بال | مرد</p> <p>مرد: جلد کی ہلکی رنگت اور سفید بال</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سفید بال | مرد</p> <p>مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور سفید بال</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی رنگت | سفید بال | مرد</p> <p>مرد: جلد کی درمیانی رنگت اور سفید بال</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سفید بال | مرد</p> <p>مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور سفید بال</p> <p>انسان | جلد کی سیاہ رنگت | سفید بال | مرد</p> <p>مرد: جلد کی سیاہ رنگت اور سفید بال</p> <p>انسان | گنجا | مرد</p> <p>مرد: گنجا</p> <p>انسان | جلد کی ہلکی رنگت | گنجا | مرد</p> <p>مرد: جلد کی ہلکی رنگت اور گنجا</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | گنجا | مرد</p> <p>مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور گنجا</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی رنگت | گنجا | مرد</p> <p>مرد: جلد کی درمیانی رنگت اور گنجا</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | گنجا | مرد</p> <p>مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور گنجا</p> <p>انسان | جلد کی سیاہ رنگت | گنجا | مرد</p> <p>مرد: جلد کی سیاہ رنگت اور گنجا</p> <p>بچہ | بچے کو دودھ پلاتا مرد | جلد کی ہلکی رنگت | دایہ گیری | دودھ پلانا | مرد</p> <p>بچے کو دودھ پلاتا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بچہ | بچے کو دودھ پلاتا مرد | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | دایہ گیری | دودھ پلانا | مرد</p> <p>بچے کو دودھ پلاتا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بچہ | بچے کو دودھ پلاتا مرد | جلد کی درمیانی رنگت | دایہ گیری | دودھ پلانا | مرد</p> <p>بچے کو دودھ پلاتا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بچہ | بچے کو دودھ پلاتا مرد | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | دایہ گیری | دودھ پلانا | مرد</p> <p>بچے کو دودھ پلاتا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بچہ | بچے کو دودھ پلاتا مرد | جلد کی سیاہ رنگت | دایہ گیری | دودھ پلانا | مرد</p> <p>بچے کو دودھ پلاتا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>انسان | جلد کی ہلکی رنگت | عورت</p> <p>عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت</p> <p>عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی رنگت | عورت</p> <p>عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت</p> <p>عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>انسان | جلد کی سیاہ رنگت | عورت</p> <p>عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بھورے بال | جلد کی ہلکی رنگت | سنہرے بال | سنہرے بالوں والی عورت | عورت</p> <p>سنہرے بالوں والی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بھورے بال | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سنہرے بال | سنہرے بالوں والی عورت | عورت</p> <p>سنہرے بالوں والی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بھورے بال | جلد کی درمیانی رنگت | سنہرے بال | سنہرے بالوں والی عورت | عورت</p> <p>سنہرے بالوں والی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بھورے بال | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سنہرے بال | سنہرے بالوں والی عورت | عورت</p> <p>سنہرے بالوں والی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بھورے بال | جلد کی سیاہ رنگت | سنہرے بال | سنہرے بالوں والی عورت | عورت</p> <p>سنہرے بالوں والی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>انسان | سرخ بال | عورت</p> <p>عورت: سرخ بال</p> <p>انسان | جلد کی ہلکی رنگت | سرخ بال | عورت</p> <p>عورت: جلد کی ہلکی رنگت اور سرخ بال</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سرخ بال | عورت</p> <p>عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور سرخ بال</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی رنگت | سرخ بال | عورت</p> <p>عورت: جلد کی درمیانی رنگت اور سرخ بال</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سرخ بال | عورت</p> <p>عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور سرخ بال</p> <p>انسان | جلد کی سیاہ رنگت | سرخ بال | عورت</p> <p>عورت: جلد کی سیاہ رنگت اور سرخ بال</p> <p>انسان | عورت | گھنگھریالے بال</p> <p>عورت: گھنگھریالے بال</p> <p>انسان | جلد کی ہلکی رنگت | عورت | گھنگھریالے بال</p> <p>عورت: جلد کی ہلکی رنگت اور گھنگھریالے بال</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت | گھنگھریالے بال</p> <p>عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور گھنگھریالے بال</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی رنگت | عورت | گھنگھریالے بال</p> <p>عورت: جلد کی درمیانی رنگت اور گھنگھریالے بال</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت | گھنگھریالے بال</p> <p>عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور گھنگھریالے بال</p> <p>انسان | جلد کی سیاہ رنگت | عورت | گھنگھریالے بال</p> <p>عورت: جلد کی سیاہ رنگت اور گھنگھریالے بال</p> <p>انسان | سفید بال | عورت</p> <p>عورت: سفید بال</p> <p>انسان | جلد کی ہلکی رنگت | سفید بال | عورت</p> <p>عورت: جلد کی ہلکی رنگت اور سفید بال</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سفید بال | عورت</p> <p>عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور سفید بال</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی رنگت | سفید بال | عورت</p> <p>عورت: جلد کی درمیانی رنگت اور سفید بال</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سفید بال | عورت</p> <p>عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور سفید بال</p> <p>انسان | جلد کی سیاہ رنگت | سفید بال | عورت</p> <p>عورت: جلد کی سیاہ رنگت اور سفید بال</p> <p>انسان | عورت | گنجا</p> <p>عورت: گنجا</p> <p>انسان | جلد کی ہلکی رنگت | عورت | گنجا</p> <p>عورت: جلد کی ہلکی رنگت اور گنجا</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت | گنجا</p> <p>عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور گنجا</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی رنگت | عورت | گنجا</p> <p>عورت: جلد کی درمیانی رنگت اور گنجا</p> <p>انسان | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت | گنجا</p> <p>عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور گنجا</p> <p>انسان | جلد کی سیاہ رنگت | عورت | گنجا</p> <p>عورت: جلد کی سیاہ رنگت اور گنجا</p> <p>بچہ | بچے کو دودھ پلاتی عورت | جلد کی ہلکی رنگت | دایہ گیری | دودھ پلانا | عورت</p> <p>بچے کو دودھ پلاتی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بچہ | بچے کو دودھ پلاتی عورت | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | دایہ گیری | دودھ پلانا | عورت</p> <p>بچے کو دودھ پلاتی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بچہ | بچے کو دودھ پلاتی عورت | جلد کی درمیانی رنگت | دایہ گیری | دودھ پلانا | عورت</p> <p>بچے کو دودھ پلاتی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بچہ | بچے کو دودھ پلاتی عورت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | دایہ گیری | دودھ پلانا | عورت</p> <p>بچے کو دودھ پلاتی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بچہ | بچے کو دودھ پلاتی عورت | جلد کی سیاہ رنگت | دایہ گیری | دودھ پلانا | عورت</p> <p>بچے کو دودھ پلاتی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بوڑھا | بوڑھا بالغ | جلد کی ہلکی رنگت | صنفی غیر جانبدار</p> <p>بوڑھا بالغ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بوڑھا | بوڑھا بالغ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | صنفی غیر جانبدار</p> <p>بوڑھا بالغ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بوڑھا | بوڑھا بالغ | جلد کی درمیانی رنگت | صنفی غیر جانبدار</p> <p>بوڑھا بالغ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بوڑھا | بوڑھا بالغ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | صنفی غیر جانبدار</p> <p>بوڑھا بالغ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بوڑھا | بوڑھا بالغ | جلد کی سیاہ رنگت | صنفی غیر جانبدار</p> <p>بوڑھا بالغ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>انسان | بوڑھا | بوڑھا آدمی | جلد کی ہلکی رنگت | مرد</p> <p>بوڑھا آدمی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>انسان | بوڑھا | بوڑھا آدمی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | مرد</p> <p>بوڑھا آدمی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>انسان | بوڑھا | بوڑھا آدمی | جلد کی درمیانی رنگت | مرد</p> <p>بوڑھا آدمی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>انسان | بوڑھا | بوڑھا آدمی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | مرد</p> <p>بوڑھا آدمی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>انسان | بوڑھا | بوڑھا آدمی | جلد کی سیاہ رنگت | مرد</p> <p>بوڑھا آدمی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>انسان | بوڑھی | جلد کی ہلکی رنگت | عورت</p> <p>بوڑھی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>انسان | بوڑھی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت</p> <p>بوڑھی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>انسان | بوڑھی | جلد کی درمیانی رنگت | عورت</p> <p>بوڑھی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>انسان | بوڑھی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت</p> <p>بوڑھی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>انسان | بوڑھی | جلد کی سیاہ رنگت | عورت</p> <p>بوڑھی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اشارہ | تیوری | تیوری چڑھائے شخص | جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تیوری چڑھائے شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اشارہ | تیوری | تیوری چڑھائے شخص | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تیوری چڑھائے شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اشارہ | تیوری | تیوری چڑھائے شخص | جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تیوری چڑھائے شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اشارہ | تیوری | تیوری چڑھائے شخص | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تیوری چڑھائے شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اشارہ | تیوری | تیوری چڑھائے شخص | جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تیوری چڑھائے شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | گھورتا ہوا مرد | گھورنا | مرد | ناراضگی ظاہر کرتا ہوا مرد</p> <p>گھورتا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | گھورتا ہوا مرد | گھورنا | مرد | ناراضگی ظاہر کرتا ہوا مرد</p> <p>گھورتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | گھورتا ہوا مرد | گھورنا | مرد | ناراضگی ظاہر کرتا ہوا مرد</p> <p>گھورتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | گھورتا ہوا مرد | گھورنا | مرد | ناراضگی ظاہر کرتا ہوا مرد</p> <p>گھورتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | گھورتا ہوا مرد | گھورنا | مرد | ناراضگی ظاہر کرتا ہوا مرد</p> <p>گھورتا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | عورت | گھورتی ہوئی عورت | گھورنا | ناراضگی ظاہر کرتی ہوئی عورت</p> <p>گھورتی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت | گھورتی ہوئی عورت | گھورنا | ناراضگی ظاہر کرتی ہوئی عورت</p> <p>گھورتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | عورت | گھورتی ہوئی عورت | گھورنا | ناراضگی ظاہر کرتی ہوئی عورت</p> <p>گھورتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت | گھورتی ہوئی عورت | گھورنا | ناراضگی ظاہر کرتی ہوئی عورت</p> <p>گھورتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | عورت | گھورتی ہوئی عورت | گھورنا | ناراضگی ظاہر کرتی ہوئی عورت</p> <p>گھورتی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی ہلکی رنگت | نا شاد | نا شاد شخص</p> <p>نا شاد شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | نا شاد | نا شاد شخص</p> <p>نا شاد شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی درمیانی رنگت | نا شاد | نا شاد شخص</p> <p>نا شاد شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | نا شاد | نا شاد شخص</p> <p>نا شاد شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی سیاہ رنگت | نا شاد | نا شاد شخص</p> <p>نا شاد شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اداسی ظاہر کرنا | جلد کی ہلکی رنگت | مرد | منھ بسورنا | منہ بسورتا ہوا مرد | ہونٹ دبانا</p> <p>منہ بسورتا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اداسی ظاہر کرنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | مرد | منھ بسورنا | منہ بسورتا ہوا مرد | ہونٹ دبانا</p> <p>منہ بسورتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اداسی ظاہر کرنا | جلد کی درمیانی رنگت | مرد | منھ بسورنا | منہ بسورتا ہوا مرد | ہونٹ دبانا</p> <p>منہ بسورتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اداسی ظاہر کرنا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | مرد | منھ بسورنا | منہ بسورتا ہوا مرد | ہونٹ دبانا</p> <p>منہ بسورتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اداسی ظاہر کرنا | جلد کی سیاہ رنگت | مرد | منھ بسورنا | منہ بسورتا ہوا مرد | ہونٹ دبانا</p> <p>منہ بسورتا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اداسی ظاہر کرنا | جلد کی ہلکی رنگت | عورت | منھ بسورنا | منہ بسورتی ہوا عورت | ہونٹ دبانا</p> <p>منہ بسورتی ہوا عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اداسی ظاہر کرنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت | منھ بسورنا | منہ بسورتی ہوا عورت | ہونٹ دبانا</p> <p>منہ بسورتی ہوا عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اداسی ظاہر کرنا | جلد کی درمیانی رنگت | عورت | منھ بسورنا | منہ بسورتی ہوا عورت | ہونٹ دبانا</p> <p>منہ بسورتی ہوا عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اداسی ظاہر کرنا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت | منھ بسورنا | منہ بسورتی ہوا عورت | ہونٹ دبانا</p> <p>منہ بسورتی ہوا عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اداسی ظاہر کرنا | جلد کی سیاہ رنگت | عورت | منھ بسورنا | منہ بسورتی ہوا عورت | ہونٹ دبانا</p> <p>منہ بسورتی ہوا عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | منع کرنا | نہیں | نہیں کا اشارہ | ہاتھ</p> <p>نہیں کا اشارہ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | منع کرنا | نہیں | نہیں کا اشارہ | ہاتھ</p> <p>نہیں کا اشارہ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | منع کرنا | نہیں | نہیں کا اشارہ | ہاتھ</p> <p>نہیں کا اشارہ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | منع کرنا | نہیں | نہیں کا اشارہ | ہاتھ</p> <p>نہیں کا اشارہ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | منع کرنا | نہیں | نہیں کا اشارہ | ہاتھ</p> <p>نہیں کا اشارہ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اشارہ | ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتا ہوا مرد | جلد کی ہلکی رنگت | روکنا | مرد | منع کرنا</p> <p>ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اشارہ | ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتا ہوا مرد | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | روکنا | مرد | منع کرنا</p> <p>ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اشارہ | ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتا ہوا مرد | جلد کی درمیانی رنگت | روکنا | مرد | منع کرنا</p> <p>ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اشارہ | ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتا ہوا مرد | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | روکنا | مرد | منع کرنا</p> <p>ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اشارہ | ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتا ہوا مرد | جلد کی سیاہ رنگت | روکنا | مرد | منع کرنا</p> <p>ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اشارہ | ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت | جلد کی ہلکی رنگت | روکنا | عورت | منع کرنا</p> <p>ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اشارہ | ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | روکنا | عورت | منع کرنا</p> <p>ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اشارہ | ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت | جلد کی درمیانی رنگت | روکنا | عورت | منع کرنا</p> <p>ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اشارہ | ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | روکنا | عورت | منع کرنا</p> <p>ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اشارہ | ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت | جلد کی سیاہ رنگت | روکنا | عورت | منع کرنا</p> <p>ٹھیک نہیں ہونے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>ٹھیک ہے | جلد کی ہلکی رنگت | ہاتھ | ہاں کا اشارہ</p> <p>ہاں کا اشارہ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>ٹھیک ہے | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | ہاتھ | ہاں کا اشارہ</p> <p>ہاں کا اشارہ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>ٹھیک ہے | جلد کی درمیانی رنگت | ہاتھ | ہاں کا اشارہ</p> <p>ہاں کا اشارہ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>ٹھیک ہے | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | ہاتھ | ہاں کا اشارہ</p> <p>ہاں کا اشارہ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>ٹھیک ہے | جلد کی سیاہ رنگت | ہاتھ | ہاں کا اشارہ</p> <p>ہاں کا اشارہ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اجازت دینا | اشارہ | اوکے | ٹھیک ہے کا اشارہ کرتا ہوا مرد | جلد کی ہلکی رنگت | مرد</p> <p>ٹھیک ہے کا اشارہ کرتا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اجازت دینا | اشارہ | اوکے | ٹھیک ہے کا اشارہ کرتا ہوا مرد | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | مرد</p> <p>ٹھیک ہے کا اشارہ کرتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اجازت دینا | اشارہ | اوکے | ٹھیک ہے کا اشارہ کرتا ہوا مرد | جلد کی درمیانی رنگت | مرد</p> <p>ٹھیک ہے کا اشارہ کرتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اجازت دینا | اشارہ | اوکے | ٹھیک ہے کا اشارہ کرتا ہوا مرد | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | مرد</p> <p>ٹھیک ہے کا اشارہ کرتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اجازت دینا | اشارہ | اوکے | ٹھیک ہے کا اشارہ کرتا ہوا مرد | جلد کی سیاہ رنگت | مرد</p> <p>ٹھیک ہے کا اشارہ کرتا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اجازت دینا | اشارہ | اوکے | ٹھیک ہے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت | جلد کی ہلکی رنگت | عورت</p> <p>ٹھیک ہے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اجازت دینا | اشارہ | اوکے | ٹھیک ہے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت</p> <p>ٹھیک ہے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اجازت دینا | اشارہ | اوکے | ٹھیک ہے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت | جلد کی درمیانی رنگت | عورت</p> <p>ٹھیک ہے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اجازت دینا | اشارہ | اوکے | ٹھیک ہے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت</p> <p>ٹھیک ہے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اجازت دینا | اشارہ | اوکے | ٹھیک ہے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت | جلد کی سیاہ رنگت | عورت</p> <p>ٹھیک ہے کا اشارہ کرتی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | مدد | معلومات | معلوماتی ڈیسک والا بندہ</p> <p>معلوماتی ڈیسک والا بندہ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | مدد | معلومات | معلوماتی ڈیسک والا بندہ</p> <p>معلوماتی ڈیسک والا بندہ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | مدد | معلومات | معلوماتی ڈیسک والا بندہ</p> <p>معلوماتی ڈیسک والا بندہ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | مدد | معلومات | معلوماتی ڈیسک والا بندہ</p> <p>معلوماتی ڈیسک والا بندہ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | مدد | معلومات | معلوماتی ڈیسک والا بندہ</p> <p>معلوماتی ڈیسک والا بندہ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تجویر | تجویز دیتا ہوا مرد | جلد کی ہلکی رنگت | رائے | مرد | معلومات</p> <p>تجویز دیتا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تجویر | تجویز دیتا ہوا مرد | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | رائے | مرد | معلومات</p> <p>تجویز دیتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تجویر | تجویز دیتا ہوا مرد | جلد کی درمیانی رنگت | رائے | مرد | معلومات</p> <p>تجویز دیتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تجویر | تجویز دیتا ہوا مرد | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | رائے | مرد | معلومات</p> <p>تجویز دیتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تجویر | تجویز دیتا ہوا مرد | جلد کی سیاہ رنگت | رائے | مرد | معلومات</p> <p>تجویز دیتا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تجویر | تجویز دیتی ہوئی عورت | جلد کی ہلکی رنگت | رائے | عورت | معلومات</p> <p>تجویز دیتی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تجویر | تجویز دیتی ہوئی عورت | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | رائے | عورت | معلومات</p> <p>تجویز دیتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تجویر | تجویز دیتی ہوئی عورت | جلد کی درمیانی رنگت | رائے | عورت | معلومات</p> <p>تجویز دیتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تجویر | تجویز دیتی ہوئی عورت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | رائے | عورت | معلومات</p> <p>تجویز دیتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تجویر | تجویز دیتی ہوئی عورت | جلد کی سیاہ رنگت | رائے | عورت | معلومات</p> <p>تجویز دیتی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اٹھانا | جلد کی ہلکی رنگت | خوش | ہاتھ | ہاتھ بلند کیے خوش شخص</p> <p>ہاتھ بلند کیے خوش شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اٹھانا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | خوش | ہاتھ | ہاتھ بلند کیے خوش شخص</p> <p>ہاتھ بلند کیے خوش شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اٹھانا | جلد کی درمیانی رنگت | خوش | ہاتھ | ہاتھ بلند کیے خوش شخص</p> <p>ہاتھ بلند کیے خوش شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اٹھانا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | خوش | ہاتھ | ہاتھ بلند کیے خوش شخص</p> <p>ہاتھ بلند کیے خوش شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اٹھانا | جلد کی سیاہ رنگت | خوش | ہاتھ | ہاتھ بلند کیے خوش شخص</p> <p>ہاتھ بلند کیے خوش شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی ہلکی رنگت | مرد | ہاتھ اٹھاتا ہوا مرد | ہاتھ اٹھانا</p> <p>ہاتھ اٹھاتا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | مرد | ہاتھ اٹھاتا ہوا مرد | ہاتھ اٹھانا</p> <p>ہاتھ اٹھاتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی درمیانی رنگت | مرد | ہاتھ اٹھاتا ہوا مرد | ہاتھ اٹھانا</p> <p>ہاتھ اٹھاتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | مرد | ہاتھ اٹھاتا ہوا مرد | ہاتھ اٹھانا</p> <p>ہاتھ اٹھاتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی سیاہ رنگت | مرد | ہاتھ اٹھاتا ہوا مرد | ہاتھ اٹھانا</p> <p>ہاتھ اٹھاتا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی ہلکی رنگت | عورت | ہاتھ اٹھاتی ہوئی عورت | ہاتھ اٹھانا</p> <p>ہاتھ اٹھاتی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت | ہاتھ اٹھاتی ہوئی عورت | ہاتھ اٹھانا</p> <p>ہاتھ اٹھاتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی درمیانی رنگت | عورت | ہاتھ اٹھاتی ہوئی عورت | ہاتھ اٹھانا</p> <p>ہاتھ اٹھاتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت | ہاتھ اٹھاتی ہوئی عورت | ہاتھ اٹھانا</p> <p>ہاتھ اٹھاتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی سیاہ رنگت | عورت | ہاتھ اٹھاتی ہوئی عورت | ہاتھ اٹھانا</p> <p>ہاتھ اٹھاتی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بہرہ پن | جلد کی ہلکی رنگت | دسترس | سماعت | سماعت سے محروم شخص | کان</p> <p>سماعت سے محروم شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بہرہ پن | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | دسترس | سماعت | سماعت سے محروم شخص | کان</p> <p>سماعت سے محروم شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بہرہ پن | جلد کی درمیانی رنگت | دسترس | سماعت | سماعت سے محروم شخص | کان</p> <p>سماعت سے محروم شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بہرہ پن | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | دسترس | سماعت | سماعت سے محروم شخص | کان</p> <p>سماعت سے محروم شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بہرہ پن | جلد کی سیاہ رنگت | دسترس | سماعت | سماعت سے محروم شخص | کان</p> <p>سماعت سے محروم شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بہرہ | جلد کی ہلکی رنگت | سماعت سے محروم مرد | مرد</p> <p>سماعت سے محروم مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بہرہ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سماعت سے محروم مرد | مرد</p> <p>سماعت سے محروم مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بہرہ | جلد کی درمیانی رنگت | سماعت سے محروم مرد | مرد</p> <p>سماعت سے محروم مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بہرہ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سماعت سے محروم مرد | مرد</p> <p>سماعت سے محروم مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بہرہ | جلد کی سیاہ رنگت | سماعت سے محروم مرد | مرد</p> <p>سماعت سے محروم مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بہری | جلد کی ہلکی رنگت | عورت</p> <p>بہری عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بہری | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت</p> <p>بہری عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بہری | جلد کی درمیانی رنگت | عورت</p> <p>بہری عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بہری | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت</p> <p>بہری عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بہری | جلد کی سیاہ رنگت | عورت</p> <p>بہری عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی ہلکی رنگت | جھکنا | جھکے ہوئے شخص | معافی</p> <p>جھکے ہوئے شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جھکنا | جھکے ہوئے شخص | معافی</p> <p>جھکے ہوئے شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی درمیانی رنگت | جھکنا | جھکے ہوئے شخص | معافی</p> <p>جھکے ہوئے شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جھکنا | جھکے ہوئے شخص | معافی</p> <p>جھکے ہوئے شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اشارہ | جلد کی سیاہ رنگت | جھکنا | جھکے ہوئے شخص | معافی</p> <p>جھکے ہوئے شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>افسوس | بہت زیادہ جھکا ہوا مرد | جلد کی ہلکی رنگت | مرد | معافی | معذرت</p> <p>بہت زیادہ جھکا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>افسوس | بہت زیادہ جھکا ہوا مرد | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | مرد | معافی | معذرت</p> <p>بہت زیادہ جھکا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>افسوس | بہت زیادہ جھکا ہوا مرد | جلد کی درمیانی رنگت | مرد | معافی | معذرت</p> <p>بہت زیادہ جھکا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>افسوس | بہت زیادہ جھکا ہوا مرد | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | مرد | معافی | معذرت</p> <p>بہت زیادہ جھکا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>افسوس | بہت زیادہ جھکا ہوا مرد | جلد کی سیاہ رنگت | مرد | معافی | معذرت</p> <p>بہت زیادہ جھکا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>افسوس | بہت زیادہ جھکی ہوئی عورت | جلد کی ہلکی رنگت | عورت | معافی | معذرت</p> <p>بہت زیادہ جھکی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>افسوس | بہت زیادہ جھکی ہوئی عورت | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت | معافی | معذرت</p> <p>بہت زیادہ جھکی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>افسوس | بہت زیادہ جھکی ہوئی عورت | جلد کی درمیانی رنگت | عورت | معافی | معذرت</p> <p>بہت زیادہ جھکی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>افسوس | بہت زیادہ جھکی ہوئی عورت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت | معافی | معذرت</p> <p>بہت زیادہ جھکی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>افسوس | بہت زیادہ جھکی ہوئی عورت | جلد کی سیاہ رنگت | عورت | معافی | معذرت</p> <p>بہت زیادہ جھکی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بے یقینی | پیشانی | پیشانی پر ہاتھ | جلد کی ہلکی رنگت | چہرہ | غصہ | ہاتھ</p> <p>پیشانی پر ہاتھ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بے یقینی | پیشانی | پیشانی پر ہاتھ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | چہرہ | غصہ | ہاتھ</p> <p>پیشانی پر ہاتھ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بے یقینی | پیشانی | پیشانی پر ہاتھ | جلد کی درمیانی رنگت | چہرہ | غصہ | ہاتھ</p> <p>پیشانی پر ہاتھ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بے یقینی | پیشانی | پیشانی پر ہاتھ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | چہرہ | غصہ | ہاتھ</p> <p>پیشانی پر ہاتھ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بے یقینی | پیشانی | پیشانی پر ہاتھ | جلد کی سیاہ رنگت | چہرہ | غصہ | ہاتھ</p> <p>پیشانی پر ہاتھ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بے یقینی | پیشانی | جلد کی ہلکی رنگت | شرمندگی | شرمندگی ظاہر کرتا ہوا مرد | مرد</p> <p>شرمندگی ظاہر کرتا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بے یقینی | پیشانی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | شرمندگی | شرمندگی ظاہر کرتا ہوا مرد | مرد</p> <p>شرمندگی ظاہر کرتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بے یقینی | پیشانی | جلد کی درمیانی رنگت | شرمندگی | شرمندگی ظاہر کرتا ہوا مرد | مرد</p> <p>شرمندگی ظاہر کرتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بے یقینی | پیشانی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | شرمندگی | شرمندگی ظاہر کرتا ہوا مرد | مرد</p> <p>شرمندگی ظاہر کرتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بے یقینی | پیشانی | جلد کی سیاہ رنگت | شرمندگی | شرمندگی ظاہر کرتا ہوا مرد | مرد</p> <p>شرمندگی ظاہر کرتا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بے یقینی | پیشانی | جلد کی ہلکی رنگت | شرمندگی | شرمندگی ظاہر کرتی ہوئی عورت | عورت</p> <p>شرمندگی ظاہر کرتی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بے یقینی | پیشانی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | شرمندگی | شرمندگی ظاہر کرتی ہوئی عورت | عورت</p> <p>شرمندگی ظاہر کرتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بے یقینی | پیشانی | جلد کی درمیانی رنگت | شرمندگی | شرمندگی ظاہر کرتی ہوئی عورت | عورت</p> <p>شرمندگی ظاہر کرتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بے یقینی | پیشانی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | شرمندگی | شرمندگی ظاہر کرتی ہوئی عورت | عورت</p> <p>شرمندگی ظاہر کرتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بے یقینی | پیشانی | جلد کی سیاہ رنگت | شرمندگی | شرمندگی ظاہر کرتی ہوئی عورت | عورت</p> <p>شرمندگی ظاہر کرتی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بے پرواہی | جلد کی ہلکی رنگت | کندھے اچکانا | لا علمی</p> <p>کندھے اچکانا: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بے پرواہی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | کندھے اچکانا | لا علمی</p> <p>کندھے اچکانا: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بے پرواہی | جلد کی درمیانی رنگت | کندھے اچکانا | لا علمی</p> <p>کندھے اچکانا: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بے پرواہی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | کندھے اچکانا | لا علمی</p> <p>کندھے اچکانا: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بے پرواہی | جلد کی سیاہ رنگت | کندھے اچکانا | لا علمی</p> <p>کندھے اچکانا: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بے پرواہی | جلد کی ہلکی رنگت | شک | کندھے اچکاتا ہوا مرد | کندھے اچکانا | لا علمی</p> <p>کندھے اچکاتا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بے پرواہی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | شک | کندھے اچکاتا ہوا مرد | کندھے اچکانا | لا علمی</p> <p>کندھے اچکاتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بے پرواہی | جلد کی درمیانی رنگت | شک | کندھے اچکاتا ہوا مرد | کندھے اچکانا | لا علمی</p> <p>کندھے اچکاتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بے پرواہی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | شک | کندھے اچکاتا ہوا مرد | کندھے اچکانا | لا علمی</p> <p>کندھے اچکاتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بے پرواہی | جلد کی سیاہ رنگت | شک | کندھے اچکاتا ہوا مرد | کندھے اچکانا | لا علمی</p> <p>کندھے اچکاتا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بے پرواہی | جلد کی ہلکی رنگت | شک | کندھے اچکاتی ہوئی عورت | کندھے اچکانا | لا علمی</p> <p>کندھے اچکاتی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بے پرواہی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | شک | کندھے اچکاتی ہوئی عورت | کندھے اچکانا | لا علمی</p> <p>کندھے اچکاتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بے پرواہی | جلد کی درمیانی رنگت | شک | کندھے اچکاتی ہوئی عورت | کندھے اچکانا | لا علمی</p> <p>کندھے اچکاتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بے پرواہی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | شک | کندھے اچکاتی ہوئی عورت | کندھے اچکانا | لا علمی</p> <p>کندھے اچکاتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بے پرواہی | جلد کی سیاہ رنگت | شک | کندھے اچکاتی ہوئی عورت | کندھے اچکانا | لا علمی</p> <p>کندھے اچکاتی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تھیراپسٹ | جلد کی ہلکی رنگت | ڈاکٹر | نرس | ہیلتھ کیئر | ہیلتھ ورکر</p> <p>ہیلتھ ورکر: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تھیراپسٹ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | ڈاکٹر | نرس | ہیلتھ کیئر | ہیلتھ ورکر</p> <p>ہیلتھ ورکر: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تھیراپسٹ | جلد کی درمیانی رنگت | ڈاکٹر | نرس | ہیلتھ کیئر | ہیلتھ ورکر</p> <p>ہیلتھ ورکر: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تھیراپسٹ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | ڈاکٹر | نرس | ہیلتھ کیئر | ہیلتھ ورکر</p> <p>ہیلتھ ورکر: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تھیراپسٹ | جلد کی سیاہ رنگت | ڈاکٹر | نرس | ہیلتھ کیئر | ہیلتھ ورکر</p> <p>ہیلتھ ورکر: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | ڈاکٹر | صحت | کارکن | مرد | مرد ہیلتھ ورکر</p> <p>مرد ہیلتھ ورکر: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | ڈاکٹر | صحت | کارکن | مرد | مرد ہیلتھ ورکر</p> <p>مرد ہیلتھ ورکر: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | ڈاکٹر | صحت | کارکن | مرد | مرد ہیلتھ ورکر</p> <p>مرد ہیلتھ ورکر: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | ڈاکٹر | صحت | کارکن | مرد | مرد ہیلتھ ورکر</p> <p>مرد ہیلتھ ورکر: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | ڈاکٹر | صحت | کارکن | مرد | مرد ہیلتھ ورکر</p> <p>مرد ہیلتھ ورکر: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | ڈاکٹر | صحت | عورت | عورت ہیلتھ ورکر | کارکن</p> <p>عورت ہیلتھ ورکر: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | ڈاکٹر | صحت | عورت | عورت ہیلتھ ورکر | کارکن</p> <p>عورت ہیلتھ ورکر: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | ڈاکٹر | صحت | عورت | عورت ہیلتھ ورکر | کارکن</p> <p>عورت ہیلتھ ورکر: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | ڈاکٹر | صحت | عورت | عورت ہیلتھ ورکر | کارکن</p> <p>عورت ہیلتھ ورکر: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | ڈاکٹر | صحت | عورت | عورت ہیلتھ ورکر | کارکن</p> <p>عورت ہیلتھ ورکر: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | طالب علم | طالبعلم | گریجویٹ</p> <p>طالب علم: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | طالب علم | طالبعلم | گریجویٹ</p> <p>طالب علم: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | طالب علم | طالبعلم | گریجویٹ</p> <p>طالب علم: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | طالب علم | طالبعلم | گریجویٹ</p> <p>طالب علم: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | طالب علم | طالبعلم | گریجویٹ</p> <p>طالب علم: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اسکول | جلد کی ہلکی رنگت | طالب علم | گریجوئیشن | مرد | مرد طالب علم</p> <p>مرد طالب علم: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اسکول | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | طالب علم | گریجوئیشن | مرد | مرد طالب علم</p> <p>مرد طالب علم: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اسکول | جلد کی درمیانی رنگت | طالب علم | گریجوئیشن | مرد | مرد طالب علم</p> <p>مرد طالب علم: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اسکول | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | طالب علم | گریجوئیشن | مرد | مرد طالب علم</p> <p>مرد طالب علم: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اسکول | جلد کی سیاہ رنگت | طالب علم | گریجوئیشن | مرد | مرد طالب علم</p> <p>مرد طالب علم: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اسکول | جلد کی ہلکی رنگت | طالب علم | عورت | عورت طالب علم | گریجوئیشن</p> <p>عورت طالب علم: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اسکول | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | طالب علم | عورت | عورت طالب علم | گریجوئیشن</p> <p>عورت طالب علم: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اسکول | جلد کی درمیانی رنگت | طالب علم | عورت | عورت طالب علم | گریجوئیشن</p> <p>عورت طالب علم: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اسکول | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | طالب علم | عورت | عورت طالب علم | گریجوئیشن</p> <p>عورت طالب علم: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اسکول | جلد کی سیاہ رنگت | طالب علم | عورت | عورت طالب علم | گریجوئیشن</p> <p>عورت طالب علم: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>استاد | پروفیسر | جلد کی ہلکی رنگت | معلم</p> <p>استاد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>استاد | پروفیسر | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | معلم</p> <p>استاد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>استاد | پروفیسر | جلد کی درمیانی رنگت | معلم</p> <p>استاد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>استاد | پروفیسر | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | معلم</p> <p>استاد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>استاد | پروفیسر | جلد کی سیاہ رنگت | معلم</p> <p>استاد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>استاد | اسکول | پروفیسر | جلد کی ہلکی رنگت | مرد استاد</p> <p>مرد استاد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>استاد | اسکول | پروفیسر | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | مرد استاد</p> <p>مرد استاد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>استاد | اسکول | پروفیسر | جلد کی درمیانی رنگت | مرد استاد</p> <p>مرد استاد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>استاد | اسکول | پروفیسر | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | مرد استاد</p> <p>مرد استاد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>استاد | اسکول | پروفیسر | جلد کی سیاہ رنگت | مرد استاد</p> <p>مرد استاد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>استانی | اسکول | پروفیسر | جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>استانی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>استانی | اسکول | پروفیسر | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>استانی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>استانی | اسکول | پروفیسر | جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>استانی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>استانی | اسکول | پروفیسر | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>استانی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>استانی | اسکول | پروفیسر | جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>استانی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پیمانے | جج | جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جج: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پیمانے | جج | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جج: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پیمانے | جج | جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جج: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پیمانے | جج | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جج: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پیمانے | جج | جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جج: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>انصاف | جلد کی ہلکی رنگت | عدالت | کورٹ | مرد | مرد جج</p> <p>مرد جج: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>انصاف | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عدالت | کورٹ | مرد | مرد جج</p> <p>مرد جج: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>انصاف | جلد کی درمیانی رنگت | عدالت | کورٹ | مرد | مرد جج</p> <p>مرد جج: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>انصاف | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عدالت | کورٹ | مرد | مرد جج</p> <p>مرد جج: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>انصاف | جلد کی سیاہ رنگت | عدالت | کورٹ | مرد | مرد جج</p> <p>مرد جج: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>انصاف | جلد کی ہلکی رنگت | عدالت | عورت | عورت جج | کورٹ</p> <p>عورت جج: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>انصاف | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عدالت | عورت | عورت جج | کورٹ</p> <p>عورت جج: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>انصاف | جلد کی درمیانی رنگت | عدالت | عورت | عورت جج | کورٹ</p> <p>عورت جج: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>انصاف | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عدالت | عورت | عورت جج | کورٹ</p> <p>عورت جج: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>انصاف | جلد کی سیاہ رنگت | عدالت | عورت | عورت جج | کورٹ</p> <p>عورت جج: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | کاشتکار | کسان | مالی</p> <p>کسان: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | کاشتکار | کسان | مالی</p> <p>کسان: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | کاشتکار | کسان | مالی</p> <p>کسان: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | کاشتکار | کسان | مالی</p> <p>کسان: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | کاشتکار | کسان | مالی</p> <p>کسان: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>باغبان | جلد کی ہلکی رنگت | کاشت کار | کسان | مرد | مرد کاشت کار</p> <p>مرد کاشت کار: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>باغبان | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | کاشت کار | کسان | مرد | مرد کاشت کار</p> <p>مرد کاشت کار: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>باغبان | جلد کی درمیانی رنگت | کاشت کار | کسان | مرد | مرد کاشت کار</p> <p>مرد کاشت کار: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>باغبان | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | کاشت کار | کسان | مرد | مرد کاشت کار</p> <p>مرد کاشت کار: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>باغبان | جلد کی سیاہ رنگت | کاشت کار | کسان | مرد | مرد کاشت کار</p> <p>مرد کاشت کار: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>باغبان | جلد کی ہلکی رنگت | عورت | عورت کاشت کار | کاشت کار | کسان</p> <p>عورت کاشت کار: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>باغبان | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت | عورت کاشت کار | کاشت کار | کسان</p> <p>عورت کاشت کار: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>باغبان | جلد کی درمیانی رنگت | عورت | عورت کاشت کار | کاشت کار | کسان</p> <p>عورت کاشت کار: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>باغبان | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت | عورت کاشت کار | کاشت کار | کسان</p> <p>عورت کاشت کار: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>باغبان | جلد کی سیاہ رنگت | عورت | عورت کاشت کار | کاشت کار | کسان</p> <p>عورت کاشت کار: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>باورچی | جلد کی ہلکی رنگت | شیف</p> <p>باورچی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>باورچی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | شیف</p> <p>باورچی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>باورچی | جلد کی درمیانی رنگت | شیف</p> <p>باورچی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>باورچی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | شیف</p> <p>باورچی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>باورچی | جلد کی سیاہ رنگت | شیف</p> <p>باورچی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>باورچی | جلد کی ہلکی رنگت | شیف | مرد</p> <p>مرد باورچی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>باورچی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | شیف | مرد</p> <p>مرد باورچی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>باورچی | جلد کی درمیانی رنگت | شیف | مرد</p> <p>مرد باورچی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>باورچی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | شیف | مرد</p> <p>مرد باورچی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>باورچی | جلد کی سیاہ رنگت | شیف | مرد</p> <p>مرد باورچی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>باورچی | جلد کی ہلکی رنگت | شیف | عورت</p> <p>عورت باورچی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>باورچی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | شیف | عورت</p> <p>عورت باورچی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>باورچی | جلد کی درمیانی رنگت | شیف | عورت</p> <p>عورت باورچی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>باورچی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | شیف | عورت</p> <p>عورت باورچی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>باورچی | جلد کی سیاہ رنگت | شیف | عورت</p> <p>عورت باورچی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>الیکٹریشن | پلمبر | جلد کی ہلکی رنگت | کاریگر | مکینک</p> <p>مکینک: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>الیکٹریشن | پلمبر | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | کاریگر | مکینک</p> <p>مکینک: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>الیکٹریشن | پلمبر | جلد کی درمیانی رنگت | کاریگر | مکینک</p> <p>مکینک: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>الیکٹریشن | پلمبر | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | کاریگر | مکینک</p> <p>مکینک: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>الیکٹریشن | پلمبر | جلد کی سیاہ رنگت | کاریگر | مکینک</p> <p>مکینک: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>الیکٹریشن | جلد کی ہلکی رنگت | کاریگر | مرد | مکینک</p> <p>مرد مکینک: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>الیکٹریشن | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | کاریگر | مرد | مکینک</p> <p>مرد مکینک: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>الیکٹریشن | جلد کی درمیانی رنگت | کاریگر | مرد | مکینک</p> <p>مرد مکینک: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>الیکٹریشن | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | کاریگر | مرد | مکینک</p> <p>مرد مکینک: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>الیکٹریشن | جلد کی سیاہ رنگت | کاریگر | مرد | مکینک</p> <p>مرد مکینک: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>الیکٹریشن | جلد کی ہلکی رنگت | عورت مکینک | کاریگر | مرد | مکینک</p> <p>عورت مکینک: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>الیکٹریشن | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت مکینک | کاریگر | مرد | مکینک</p> <p>عورت مکینک: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>الیکٹریشن | جلد کی درمیانی رنگت | عورت مکینک | کاریگر | مرد | مکینک</p> <p>عورت مکینک: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>الیکٹریشن | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت مکینک | کاریگر | مرد | مکینک</p> <p>عورت مکینک: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>الیکٹریشن | جلد کی سیاہ رنگت | عورت مکینک | کاریگر | مرد | مکینک</p> <p>عورت مکینک: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اسمبلی | جلد کی ہلکی رنگت | صنعتی | فیکٹری | فیکٹری ورکر | کارکن</p> <p>فیکٹری ورکر: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اسمبلی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | صنعتی | فیکٹری | فیکٹری ورکر | کارکن</p> <p>فیکٹری ورکر: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اسمبلی | جلد کی درمیانی رنگت | صنعتی | فیکٹری | فیکٹری ورکر | کارکن</p> <p>فیکٹری ورکر: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اسمبلی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | صنعتی | فیکٹری | فیکٹری ورکر | کارکن</p> <p>فیکٹری ورکر: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اسمبلی | جلد کی سیاہ رنگت | صنعتی | فیکٹری | فیکٹری ورکر | کارکن</p> <p>فیکٹری ورکر: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | فیکٹری | کارکن | کاریگر | مرد</p> <p>مرد فیکٹری کارکن: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | فیکٹری | کارکن | کاریگر | مرد</p> <p>مرد فیکٹری کارکن: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | فیکٹری | کارکن | کاریگر | مرد</p> <p>مرد فیکٹری کارکن: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | فیکٹری | کارکن | کاریگر | مرد</p> <p>مرد فیکٹری کارکن: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | فیکٹری | کارکن | کاریگر | مرد</p> <p>مرد فیکٹری کارکن: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | عورت | فیکٹری | کارکن | کاریگر</p> <p>عورت فیکٹری کارکن: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت | فیکٹری | کارکن | کاریگر</p> <p>عورت فیکٹری کارکن: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | عورت | فیکٹری | کارکن | کاریگر</p> <p>عورت فیکٹری کارکن: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت | فیکٹری | کارکن | کاریگر</p> <p>عورت فیکٹری کارکن: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | عورت | فیکٹری | کارکن | کاریگر</p> <p>عورت فیکٹری کارکن: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>آفس ورکر | جلد کی ہلکی رنگت | کاروبار | ماہر تعمیرات | مینیجر | وائٹ کالر</p> <p>آفس ورکر: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>آفس ورکر | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | کاروبار | ماہر تعمیرات | مینیجر | وائٹ کالر</p> <p>آفس ورکر: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>آفس ورکر | جلد کی درمیانی رنگت | کاروبار | ماہر تعمیرات | مینیجر | وائٹ کالر</p> <p>آفس ورکر: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>آفس ورکر | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | کاروبار | ماہر تعمیرات | مینیجر | وائٹ کالر</p> <p>آفس ورکر: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>آفس ورکر | جلد کی سیاہ رنگت | کاروبار | ماہر تعمیرات | مینیجر | وائٹ کالر</p> <p>آفس ورکر: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | دفتر | کارکن | مرد | ملازم</p> <p>مرد دفتر کارکن: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | دفتر | کارکن | مرد | ملازم</p> <p>مرد دفتر کارکن: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | دفتر | کارکن | مرد | ملازم</p> <p>مرد دفتر کارکن: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | دفتر | کارکن | مرد | ملازم</p> <p>مرد دفتر کارکن: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | دفتر | کارکن | مرد | ملازم</p> <p>مرد دفتر کارکن: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | دفتر | عورت | کارکن | ملازم</p> <p>عورت دفتر کارکن: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | دفتر | عورت | کارکن | ملازم</p> <p>عورت دفتر کارکن: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | دفتر | عورت | کارکن | ملازم</p> <p>عورت دفتر کارکن: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | دفتر | عورت | کارکن | ملازم</p> <p>عورت دفتر کارکن: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | دفتر | عورت | کارکن | ملازم</p> <p>عورت دفتر کارکن: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>انجینیئر | جلد کی ہلکی رنگت | سائنسدان | کیمسٹ | ماہر حیاتیات | ماہر طبیعات</p> <p>سائنسدان: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>انجینیئر | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سائنسدان | کیمسٹ | ماہر حیاتیات | ماہر طبیعات</p> <p>سائنسدان: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>انجینیئر | جلد کی درمیانی رنگت | سائنسدان | کیمسٹ | ماہر حیاتیات | ماہر طبیعات</p> <p>سائنسدان: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>انجینیئر | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سائنسدان | کیمسٹ | ماہر حیاتیات | ماہر طبیعات</p> <p>سائنسدان: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>انجینیئر | جلد کی سیاہ رنگت | سائنسدان | کیمسٹ | ماہر حیاتیات | ماہر طبیعات</p> <p>سائنسدان: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بیالوجسٹ | جلد کی ہلکی رنگت | سائنسدان | کیمسٹ | مرد</p> <p>مرد سائنسدان: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بیالوجسٹ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سائنسدان | کیمسٹ | مرد</p> <p>مرد سائنسدان: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بیالوجسٹ | جلد کی درمیانی رنگت | سائنسدان | کیمسٹ | مرد</p> <p>مرد سائنسدان: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بیالوجسٹ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سائنسدان | کیمسٹ | مرد</p> <p>مرد سائنسدان: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بیالوجسٹ | جلد کی سیاہ رنگت | سائنسدان | کیمسٹ | مرد</p> <p>مرد سائنسدان: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بیالوجسٹ | جلد کی ہلکی رنگت | سائنسدان | عورت | کیمسٹ</p> <p>عورت سائنسدان: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بیالوجسٹ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سائنسدان | عورت | کیمسٹ</p> <p>عورت سائنسدان: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بیالوجسٹ | جلد کی درمیانی رنگت | سائنسدان | عورت | کیمسٹ</p> <p>عورت سائنسدان: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بیالوجسٹ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سائنسدان | عورت | کیمسٹ</p> <p>عورت سائنسدان: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بیالوجسٹ | جلد کی سیاہ رنگت | سائنسدان | عورت | کیمسٹ</p> <p>عورت سائنسدان: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>،موجد | ٹیکنالوجسٹ | جلد کی ہلکی رنگت | ڈویلپر | سافٹ ویئر | کوڈر</p> <p>ٹیکنالوجسٹ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>،موجد | ٹیکنالوجسٹ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | ڈویلپر | سافٹ ویئر | کوڈر</p> <p>ٹیکنالوجسٹ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>،موجد | ٹیکنالوجسٹ | جلد کی درمیانی رنگت | ڈویلپر | سافٹ ویئر | کوڈر</p> <p>ٹیکنالوجسٹ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>،موجد | ٹیکنالوجسٹ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | ڈویلپر | سافٹ ویئر | کوڈر</p> <p>ٹیکنالوجسٹ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>،موجد | ٹیکنالوجسٹ | جلد کی سیاہ رنگت | ڈویلپر | سافٹ ویئر | کوڈر</p> <p>ٹیکنالوجسٹ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | کمپیوٹر | کوڈر | لیپ ٹاپ | مرد | مرد ٹیکنولاجسٹ</p> <p>مرد ٹیکنولاجسٹ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | کمپیوٹر | کوڈر | لیپ ٹاپ | مرد | مرد ٹیکنولاجسٹ</p> <p>مرد ٹیکنولاجسٹ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | کمپیوٹر | کوڈر | لیپ ٹاپ | مرد | مرد ٹیکنولاجسٹ</p> <p>مرد ٹیکنولاجسٹ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | کمپیوٹر | کوڈر | لیپ ٹاپ | مرد | مرد ٹیکنولاجسٹ</p> <p>مرد ٹیکنولاجسٹ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | کمپیوٹر | کوڈر | لیپ ٹاپ | مرد | مرد ٹیکنولاجسٹ</p> <p>مرد ٹیکنولاجسٹ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | عورت | عورت ٹیکنولاجسٹ | کمپیوٹر | کوڈر | لیپ ٹاپ</p> <p>عورت ٹیکنولاجسٹ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت | عورت ٹیکنولاجسٹ | کمپیوٹر | کوڈر | لیپ ٹاپ</p> <p>عورت ٹیکنولاجسٹ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | عورت | عورت ٹیکنولاجسٹ | کمپیوٹر | کوڈر | لیپ ٹاپ</p> <p>عورت ٹیکنولاجسٹ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت | عورت ٹیکنولاجسٹ | کمپیوٹر | کوڈر | لیپ ٹاپ</p> <p>عورت ٹیکنولاجسٹ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | عورت | عورت ٹیکنولاجسٹ | کمپیوٹر | کوڈر | لیپ ٹاپ</p> <p>عورت ٹیکنولاجسٹ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اداکار | تفریح فراہم کرنے والا | جلد کی ہلکی رنگت | راک | سنگر | فنکار | گلوکار</p> <p>سنگر: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اداکار | تفریح فراہم کرنے والا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | راک | سنگر | فنکار | گلوکار</p> <p>سنگر: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اداکار | تفریح فراہم کرنے والا | جلد کی درمیانی رنگت | راک | سنگر | فنکار | گلوکار</p> <p>سنگر: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اداکار | تفریح فراہم کرنے والا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | راک | سنگر | فنکار | گلوکار</p> <p>سنگر: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اداکار | تفریح فراہم کرنے والا | جلد کی سیاہ رنگت | راک | سنگر | فنکار | گلوکار</p> <p>سنگر: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | سنگر | فنکار | گلوکار</p> <p>گلوکار: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سنگر | فنکار | گلوکار</p> <p>گلوکار: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | سنگر | فنکار | گلوکار</p> <p>گلوکار: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سنگر | فنکار | گلوکار</p> <p>گلوکار: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | سنگر | فنکار | گلوکار</p> <p>گلوکار: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | سنگر | فنکار | گلوکارہ</p> <p>گلوکارہ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سنگر | فنکار | گلوکارہ</p> <p>گلوکارہ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | سنگر | فنکار | گلوکارہ</p> <p>گلوکارہ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سنگر | فنکار | گلوکارہ</p> <p>گلوکارہ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | سنگر | فنکار | گلوکارہ</p> <p>گلوکارہ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>آرٹسٹ | جلد کی ہلکی رنگت | رنگوں کی تختی</p> <p>آرٹسٹ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>آرٹسٹ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | رنگوں کی تختی</p> <p>آرٹسٹ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>آرٹسٹ | جلد کی درمیانی رنگت | رنگوں کی تختی</p> <p>آرٹسٹ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>آرٹسٹ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | رنگوں کی تختی</p> <p>آرٹسٹ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>آرٹسٹ | جلد کی سیاہ رنگت | رنگوں کی تختی</p> <p>آرٹسٹ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>آرٹسٹ | جلد کی ہلکی رنگت | سنگر | فنکار</p> <p>فنکار: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>آرٹسٹ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سنگر | فنکار</p> <p>فنکار: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>آرٹسٹ | جلد کی درمیانی رنگت | سنگر | فنکار</p> <p>فنکار: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>آرٹسٹ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سنگر | فنکار</p> <p>فنکار: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>آرٹسٹ | جلد کی سیاہ رنگت | سنگر | فنکار</p> <p>فنکار: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>آرٹسٹ | جلد کی ہلکی رنگت | سنگر | فنکارہ</p> <p>فنکارہ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>آرٹسٹ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سنگر | فنکارہ</p> <p>فنکارہ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>آرٹسٹ | جلد کی درمیانی رنگت | سنگر | فنکارہ</p> <p>فنکارہ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>آرٹسٹ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سنگر | فنکارہ</p> <p>فنکارہ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>آرٹسٹ | جلد کی سیاہ رنگت | سنگر | فنکارہ</p> <p>فنکارہ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پائلٹ | پائیلٹ | جلد کی ہلکی رنگت | جہاز</p> <p>پائیلٹ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پائلٹ | پائیلٹ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جہاز</p> <p>پائیلٹ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پائلٹ | پائیلٹ | جلد کی درمیانی رنگت | جہاز</p> <p>پائیلٹ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پائلٹ | پائیلٹ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جہاز</p> <p>پائیلٹ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پائلٹ | پائیلٹ | جلد کی سیاہ رنگت | جہاز</p> <p>پائیلٹ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>آسمان | پائلٹ | جلد کی ہلکی رنگت | مرد | ہوائی جہاز</p> <p>مرد پائلٹ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>آسمان | پائلٹ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | مرد | ہوائی جہاز</p> <p>مرد پائلٹ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>آسمان | پائلٹ | جلد کی درمیانی رنگت | مرد | ہوائی جہاز</p> <p>مرد پائلٹ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>آسمان | پائلٹ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | مرد | ہوائی جہاز</p> <p>مرد پائلٹ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>آسمان | پائلٹ | جلد کی سیاہ رنگت | مرد | ہوائی جہاز</p> <p>مرد پائلٹ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>آسمان | پائلٹ | جلد کی ہلکی رنگت | عورت | ہوائی جہاز</p> <p>عورت پائلٹ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>آسمان | پائلٹ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت | ہوائی جہاز</p> <p>عورت پائلٹ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>آسمان | پائلٹ | جلد کی درمیانی رنگت | عورت | ہوائی جہاز</p> <p>عورت پائلٹ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>آسمان | پائلٹ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت | ہوائی جہاز</p> <p>عورت پائلٹ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>آسمان | پائلٹ | جلد کی سیاہ رنگت | عورت | ہوائی جہاز</p> <p>عورت پائلٹ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | خلا باز | خلاباز | راکٹ</p> <p>خلا باز: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | خلا باز | خلاباز | راکٹ</p> <p>خلا باز: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | خلا باز | خلاباز | راکٹ</p> <p>خلا باز: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | خلا باز | خلاباز | راکٹ</p> <p>خلا باز: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | خلا باز | خلاباز | راکٹ</p> <p>خلا باز: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | خلا | خلاباز | راکٹ | مرد</p> <p>مرد خلاباز: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | خلا | خلاباز | راکٹ | مرد</p> <p>مرد خلاباز: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | خلا | خلاباز | راکٹ | مرد</p> <p>مرد خلاباز: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | خلا | خلاباز | راکٹ | مرد</p> <p>مرد خلاباز: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | خلا | خلاباز | راکٹ | مرد</p> <p>مرد خلاباز: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | خلا | خلاباز | راکٹ | عورت خلاباز | مرد</p> <p>عورت خلاباز: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | خلا | خلاباز | راکٹ | عورت خلاباز | مرد</p> <p>عورت خلاباز: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | خلا | خلاباز | راکٹ | عورت خلاباز | مرد</p> <p>عورت خلاباز: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | خلا | خلاباز | راکٹ | عورت خلاباز | مرد</p> <p>عورت خلاباز: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | خلا | خلاباز | راکٹ | عورت خلاباز | مرد</p> <p>عورت خلاباز: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | فائر ٹرک | فائر فائٹر</p> <p>فائر فائٹر: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | فائر ٹرک | فائر فائٹر</p> <p>فائر فائٹر: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | فائر ٹرک | فائر فائٹر</p> <p>فائر فائٹر: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | فائر ٹرک | فائر فائٹر</p> <p>فائر فائٹر: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | فائر ٹرک | فائر فائٹر</p> <p>فائر فائٹر: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>آگ | آگ بجھانے والا | جلد کی ہلکی رنگت | فائر فائٹر | مرد | مرد فائر فائٹر</p> <p>مرد فائر فائٹر: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>آگ | آگ بجھانے والا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | فائر فائٹر | مرد | مرد فائر فائٹر</p> <p>مرد فائر فائٹر: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>آگ | آگ بجھانے والا | جلد کی درمیانی رنگت | فائر فائٹر | مرد | مرد فائر فائٹر</p> <p>مرد فائر فائٹر: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>آگ | آگ بجھانے والا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | فائر فائٹر | مرد | مرد فائر فائٹر</p> <p>مرد فائر فائٹر: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>آگ | آگ بجھانے والا | جلد کی سیاہ رنگت | فائر فائٹر | مرد | مرد فائر فائٹر</p> <p>مرد فائر فائٹر: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>آگ | آگ بجھانے والی | جلد کی ہلکی رنگت | عورت فائر فائٹر | فائر فائٹر | مرد</p> <p>عورت فائر فائٹر: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>آگ | آگ بجھانے والی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت فائر فائٹر | فائر فائٹر | مرد</p> <p>عورت فائر فائٹر: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>آگ | آگ بجھانے والی | جلد کی درمیانی رنگت | عورت فائر فائٹر | فائر فائٹر | مرد</p> <p>عورت فائر فائٹر: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>آگ | آگ بجھانے والی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت فائر فائٹر | فائر فائٹر | مرد</p> <p>عورت فائر فائٹر: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>آگ | آگ بجھانے والی | جلد کی سیاہ رنگت | عورت فائر فائٹر | فائر فائٹر | مرد</p> <p>عورت فائر فائٹر: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>آفیسر | پولیس | جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پولیس آفیسر: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>آفیسر | پولیس | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پولیس آفیسر: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>آفیسر | پولیس | جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پولیس آفیسر: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>آفیسر | پولیس | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پولیس آفیسر: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>آفیسر | پولیس | جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پولیس آفیسر: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>آفیسر | پولیس | پولیس اسٹیشن | جلد کی ہلکی رنگت | مرد</p> <p>مرد پولیس آفیسر: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>آفیسر | پولیس | پولیس اسٹیشن | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | مرد</p> <p>مرد پولیس آفیسر: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>آفیسر | پولیس | پولیس اسٹیشن | جلد کی درمیانی رنگت | مرد</p> <p>مرد پولیس آفیسر: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>آفیسر | پولیس | پولیس اسٹیشن | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | مرد</p> <p>مرد پولیس آفیسر: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>آفیسر | پولیس | پولیس اسٹیشن | جلد کی سیاہ رنگت | مرد</p> <p>مرد پولیس آفیسر: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>آفیسر | پولیس | پولیس اسٹیشن | جلد کی ہلکی رنگت | عورت</p> <p>عورت پولیس آفیسر: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>آفیسر | پولیس | پولیس اسٹیشن | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت</p> <p>عورت پولیس آفیسر: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>آفیسر | پولیس | پولیس اسٹیشن | جلد کی درمیانی رنگت | عورت</p> <p>عورت پولیس آفیسر: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>آفیسر | پولیس | پولیس اسٹیشن | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت</p> <p>عورت پولیس آفیسر: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>آفیسر | پولیس | پولیس اسٹیشن | جلد کی سیاہ رنگت | عورت</p> <p>عورت پولیس آفیسر: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جاسوس | جلد کی ہلکی رنگت | سراغ کا پتا لگانے والا</p> <p>جاسوس: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جاسوس | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سراغ کا پتا لگانے والا</p> <p>جاسوس: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جاسوس | جلد کی درمیانی رنگت | سراغ کا پتا لگانے والا</p> <p>جاسوس: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جاسوس | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سراغ کا پتا لگانے والا</p> <p>جاسوس: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جاسوس | جلد کی سیاہ رنگت | سراغ کا پتا لگانے والا</p> <p>جاسوس: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جاسوس | جلد کی ہلکی رنگت | سراغ کا پتا لگانے والا | مرد</p> <p>مرد جاسوس: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جاسوس | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سراغ کا پتا لگانے والا | مرد</p> <p>مرد جاسوس: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جاسوس | جلد کی درمیانی رنگت | سراغ کا پتا لگانے والا | مرد</p> <p>مرد جاسوس: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جاسوس | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سراغ کا پتا لگانے والا | مرد</p> <p>مرد جاسوس: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جاسوس | جلد کی سیاہ رنگت | سراغ کا پتا لگانے والا | مرد</p> <p>مرد جاسوس: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جاسوس عورت | جلد کی ہلکی رنگت | سراغ کا پتا لگانے والی | عورت جاسوس</p> <p>عورت جاسوس: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جاسوس عورت | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سراغ کا پتا لگانے والی | عورت جاسوس</p> <p>عورت جاسوس: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جاسوس عورت | جلد کی درمیانی رنگت | سراغ کا پتا لگانے والی | عورت جاسوس</p> <p>عورت جاسوس: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جاسوس عورت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سراغ کا پتا لگانے والی | عورت جاسوس</p> <p>عورت جاسوس: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جاسوس عورت | جلد کی سیاہ رنگت | سراغ کا پتا لگانے والی | عورت جاسوس</p> <p>عورت جاسوس: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | حفاظت | سیکیورٹی | گارڈ</p> <p>گارڈ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | حفاظت | سیکیورٹی | گارڈ</p> <p>گارڈ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | حفاظت | سیکیورٹی | گارڈ</p> <p>گارڈ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | حفاظت | سیکیورٹی | گارڈ</p> <p>گارڈ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | حفاظت | سیکیورٹی | گارڈ</p> <p>گارڈ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>آدمی | جلد کی ہلکی رنگت | گارڈ | مرد گارڈ</p> <p>مرد گارڈ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>آدمی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | گارڈ | مرد گارڈ</p> <p>مرد گارڈ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>آدمی | جلد کی درمیانی رنگت | گارڈ | مرد گارڈ</p> <p>مرد گارڈ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>آدمی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | گارڈ | مرد گارڈ</p> <p>مرد گارڈ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>آدمی | جلد کی سیاہ رنگت | گارڈ | مرد گارڈ</p> <p>مرد گارڈ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | حفاظت | سیکیورٹی | عورت | گارڈ</p> <p>عورت گارڈ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | حفاظت | سیکیورٹی | عورت | گارڈ</p> <p>عورت گارڈ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | حفاظت | سیکیورٹی | عورت | گارڈ</p> <p>عورت گارڈ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | حفاظت | سیکیورٹی | عورت | گارڈ</p> <p>عورت گارڈ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | حفاظت | سیکیورٹی | عورت | گارڈ</p> <p>عورت گارڈ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بند آنکھوں والا مستری | ٹوپی | جلد کی ہلکی رنگت | مزدور</p> <p>بند آنکھوں والا مستری: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بند آنکھوں والا مستری | ٹوپی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | مزدور</p> <p>بند آنکھوں والا مستری: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بند آنکھوں والا مستری | ٹوپی | جلد کی درمیانی رنگت | مزدور</p> <p>بند آنکھوں والا مستری: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بند آنکھوں والا مستری | ٹوپی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | مزدور</p> <p>بند آنکھوں والا مستری: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بند آنکھوں والا مستری | ٹوپی | جلد کی سیاہ رنگت | مزدور</p> <p>بند آنکھوں والا مستری: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تعمیر | جلد کی ہلکی رنگت | عمارت | مرد | مزدور</p> <p>مرد مزدور: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تعمیر | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عمارت | مرد | مزدور</p> <p>مرد مزدور: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تعمیر | جلد کی درمیانی رنگت | عمارت | مرد | مزدور</p> <p>مرد مزدور: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تعمیر | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عمارت | مرد | مزدور</p> <p>مرد مزدور: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تعمیر | جلد کی سیاہ رنگت | عمارت | مرد | مزدور</p> <p>مرد مزدور: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تعمیر | جلد کی ہلکی رنگت | عمارت | عورت | مزدور</p> <p>عورت مزدور: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تعمیر | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عمارت | عورت | مزدور</p> <p>عورت مزدور: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تعمیر | جلد کی درمیانی رنگت | عمارت | عورت | مزدور</p> <p>عورت مزدور: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تعمیر | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عمارت | عورت | مزدور</p> <p>عورت مزدور: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تعمیر | جلد کی سیاہ رنگت | عمارت | عورت | مزدور</p> <p>عورت مزدور: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | شہزادہ</p> <p>شہزادہ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | شہزادہ</p> <p>شہزادہ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | شہزادہ</p> <p>شہزادہ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | شہزادہ</p> <p>شہزادہ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | شہزادہ</p> <p>شہزادہ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>افسانوی | جلد کی ہلکی رنگت | شہزادی | کہانی</p> <p>شہزادی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>افسانوی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | شہزادی | کہانی</p> <p>شہزادی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>افسانوی | جلد کی درمیانی رنگت | شہزادی | کہانی</p> <p>شہزادی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>افسانوی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | شہزادی | کہانی</p> <p>شہزادی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>افسانوی | جلد کی سیاہ رنگت | شہزادی | کہانی</p> <p>شہزادی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>آدمی | پگڑی | پگڑی والا شخص | جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پگڑی والا شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>آدمی | پگڑی | پگڑی والا شخص | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پگڑی والا شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>آدمی | پگڑی | پگڑی والا شخص | جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پگڑی والا شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>آدمی | پگڑی | پگڑی والا شخص | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پگڑی والا شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>آدمی | پگڑی | پگڑی والا شخص | جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پگڑی والا شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پگڑی | پگڑی والا مرد | جلد کی ہلکی رنگت | سردار | مرد</p> <p>پگڑی والا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پگڑی | پگڑی والا مرد | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سردار | مرد</p> <p>پگڑی والا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پگڑی | پگڑی والا مرد | جلد کی درمیانی رنگت | سردار | مرد</p> <p>پگڑی والا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پگڑی | پگڑی والا مرد | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سردار | مرد</p> <p>پگڑی والا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پگڑی | پگڑی والا مرد | جلد کی سیاہ رنگت | سردار | مرد</p> <p>پگڑی والا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پگڑی | پگڑی والی عورت | جلد کی ہلکی رنگت | سردارنی | عورت</p> <p>پگڑی والی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پگڑی | پگڑی والی عورت | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سردارنی | عورت</p> <p>پگڑی والی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پگڑی | پگڑی والی عورت | جلد کی درمیانی رنگت | سردارنی | عورت</p> <p>پگڑی والی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پگڑی | پگڑی والی عورت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سردارنی | عورت</p> <p>پگڑی والی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پگڑی | پگڑی والی عورت | جلد کی سیاہ رنگت | سردارنی | عورت</p> <p>پگڑی والی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>آدمی | ٹوپی | جلد کی ہلکی رنگت | چینی ٹوپی والا شخص</p> <p>چینی ٹوپی والا شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>آدمی | ٹوپی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | چینی ٹوپی والا شخص</p> <p>چینی ٹوپی والا شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>آدمی | ٹوپی | جلد کی درمیانی رنگت | چینی ٹوپی والا شخص</p> <p>چینی ٹوپی والا شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>آدمی | ٹوپی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | چینی ٹوپی والا شخص</p> <p>چینی ٹوپی والا شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>آدمی | ٹوپی | جلد کی سیاہ رنگت | چینی ٹوپی والا شخص</p> <p>چینی ٹوپی والا شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | حجاب | سر پر اسکارف پہنے عورت | سر کا اسکارف</p> <p>سر پر اسکارف پہنے عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | حجاب | سر پر اسکارف پہنے عورت | سر کا اسکارف</p> <p>سر پر اسکارف پہنے عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | حجاب | سر پر اسکارف پہنے عورت | سر کا اسکارف</p> <p>سر پر اسکارف پہنے عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | حجاب | سر پر اسکارف پہنے عورت | سر کا اسکارف</p> <p>سر پر اسکارف پہنے عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | حجاب | سر پر اسکارف پہنے عورت | سر کا اسکارف</p> <p>سر پر اسکارف پہنے عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تقریب | جلد کی ہلکی رنگت | دلہا | سوٹ | سوٹڈ بوٹڈ آدمی</p> <p>سوٹڈ بوٹڈ آدمی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تقریب | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | دلہا | سوٹ | سوٹڈ بوٹڈ آدمی</p> <p>سوٹڈ بوٹڈ آدمی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تقریب | جلد کی درمیانی رنگت | دلہا | سوٹ | سوٹڈ بوٹڈ آدمی</p> <p>سوٹڈ بوٹڈ آدمی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تقریب | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | دلہا | سوٹ | سوٹڈ بوٹڈ آدمی</p> <p>سوٹڈ بوٹڈ آدمی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تقریب | جلد کی سیاہ رنگت | دلہا | سوٹ | سوٹڈ بوٹڈ آدمی</p> <p>سوٹڈ بوٹڈ آدمی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | عورت | کوٹ پینٹ پہنی ہوئی | کوٹ پینٹ پہنی ہوئی عورت</p> <p>کوٹ پینٹ پہنی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت | کوٹ پینٹ پہنی ہوئی | کوٹ پینٹ پہنی ہوئی عورت</p> <p>کوٹ پینٹ پہنی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | عورت | کوٹ پینٹ پہنی ہوئی | کوٹ پینٹ پہنی ہوئی عورت</p> <p>کوٹ پینٹ پہنی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت | کوٹ پینٹ پہنی ہوئی | کوٹ پینٹ پہنی ہوئی عورت</p> <p>کوٹ پینٹ پہنی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | عورت | کوٹ پینٹ پہنی ہوئی | کوٹ پینٹ پہنی ہوئی عورت</p> <p>کوٹ پینٹ پہنی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | کوٹ پینٹ پہنا ہوا | کوٹ پینٹ پہنا ہوا مرد | مرد</p> <p>کوٹ پینٹ پہنا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | کوٹ پینٹ پہنا ہوا | کوٹ پینٹ پہنا ہوا مرد | مرد</p> <p>کوٹ پینٹ پہنا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | کوٹ پینٹ پہنا ہوا | کوٹ پینٹ پہنا ہوا مرد | مرد</p> <p>کوٹ پینٹ پہنا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | کوٹ پینٹ پہنا ہوا | کوٹ پینٹ پہنا ہوا مرد | مرد</p> <p>کوٹ پینٹ پہنا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | کوٹ پینٹ پہنا ہوا | کوٹ پینٹ پہنا ہوا مرد | مرد</p> <p>کوٹ پینٹ پہنا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | دلہن | روایتی سفید لباس میں دلہن | شادی</p> <p>روایتی سفید لباس میں دلہن: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | دلہن | روایتی سفید لباس میں دلہن | شادی</p> <p>روایتی سفید لباس میں دلہن: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | دلہن | روایتی سفید لباس میں دلہن | شادی</p> <p>روایتی سفید لباس میں دلہن: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | دلہن | روایتی سفید لباس میں دلہن | شادی</p> <p>روایتی سفید لباس میں دلہن: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | دلہن | روایتی سفید لباس میں دلہن | شادی</p> <p>روایتی سفید لباس میں دلہن: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | عورت | نقاب | نقاب پوش عورت</p> <p>نقاب پوش عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت | نقاب | نقاب پوش عورت</p> <p>نقاب پوش عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | عورت | نقاب | نقاب پوش عورت</p> <p>نقاب پوش عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت | نقاب | نقاب پوش عورت</p> <p>نقاب پوش عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | عورت | نقاب | نقاب پوش عورت</p> <p>نقاب پوش عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پردہ دار مرد | جلد کی ہلکی رنگت | مرد | نقاب | نقاب پوش مرد</p> <p>پردہ دار مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پردہ دار مرد | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | مرد | نقاب | نقاب پوش مرد</p> <p>پردہ دار مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پردہ دار مرد | جلد کی درمیانی رنگت | مرد | نقاب | نقاب پوش مرد</p> <p>پردہ دار مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پردہ دار مرد | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | مرد | نقاب | نقاب پوش مرد</p> <p>پردہ دار مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پردہ دار مرد | جلد کی سیاہ رنگت | مرد | نقاب | نقاب پوش مرد</p> <p>پردہ دار مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | حاملہ | عورت</p> <p>حاملہ عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | حاملہ | عورت</p> <p>حاملہ عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | حاملہ | عورت</p> <p>حاملہ عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | حاملہ | عورت</p> <p>حاملہ عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | حاملہ | عورت</p> <p>حاملہ عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بچہ | پرورش | پستان | جلد کی ہلکی رنگت | دودھ پلانا</p> <p>دودھ پلانا: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بچہ | پرورش | پستان | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | دودھ پلانا</p> <p>دودھ پلانا: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بچہ | پرورش | پستان | جلد کی درمیانی رنگت | دودھ پلانا</p> <p>دودھ پلانا: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بچہ | پرورش | پستان | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | دودھ پلانا</p> <p>دودھ پلانا: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بچہ | پرورش | پستان | جلد کی سیاہ رنگت | دودھ پلانا</p> <p>دودھ پلانا: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>افسانوی | بچہ | بے بی فرشتہ | جلد کی ہلکی رنگت | چہرہ | فرشتہ</p> <p>بے بی فرشتہ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>افسانوی | بچہ | بے بی فرشتہ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | چہرہ | فرشتہ</p> <p>بے بی فرشتہ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>افسانوی | بچہ | بے بی فرشتہ | جلد کی درمیانی رنگت | چہرہ | فرشتہ</p> <p>بے بی فرشتہ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>افسانوی | بچہ | بے بی فرشتہ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | چہرہ | فرشتہ</p> <p>بے بی فرشتہ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>افسانوی | بچہ | بے بی فرشتہ | جلد کی سیاہ رنگت | چہرہ | فرشتہ</p> <p>بے بی فرشتہ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>باپ | جشن | جلد کی ہلکی رنگت | سانتا | سانتا کلاز | کرسمس</p> <p>سانتا کلاز: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>باپ | جشن | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سانتا | سانتا کلاز | کرسمس</p> <p>سانتا کلاز: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>باپ | جشن | جلد کی درمیانی رنگت | سانتا | سانتا کلاز | کرسمس</p> <p>سانتا کلاز: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>باپ | جشن | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سانتا | سانتا کلاز | کرسمس</p> <p>سانتا کلاز: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>باپ | جشن | جلد کی سیاہ رنگت | سانتا | سانتا کلاز | کرسمس</p> <p>سانتا کلاز: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | کرسمس | مدر</p> <p>مدر کرسمس: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | کرسمس | مدر</p> <p>مدر کرسمس: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | کرسمس | مدر</p> <p>مدر کرسمس: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | کرسمس | مدر</p> <p>مدر کرسمس: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | کرسمس | مدر</p> <p>مدر کرسمس: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اچھا | جلد کی ہلکی رنگت | سپر پاور | سپر ہیرو | ہیرو | ہیروئن</p> <p>سپر ہیرو: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اچھا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سپر پاور | سپر ہیرو | ہیرو | ہیروئن</p> <p>سپر ہیرو: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اچھا | جلد کی درمیانی رنگت | سپر پاور | سپر ہیرو | ہیرو | ہیروئن</p> <p>سپر ہیرو: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اچھا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سپر پاور | سپر ہیرو | ہیرو | ہیروئن</p> <p>سپر ہیرو: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اچھا | جلد کی سیاہ رنگت | سپر پاور | سپر ہیرو | ہیرو | ہیروئن</p> <p>سپر ہیرو: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اچھا | جلد کی ہلکی رنگت | سپر پاور | مرد | مرد سپر ہیرو | ہیرو</p> <p>مرد سپر ہیرو: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اچھا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سپر پاور | مرد | مرد سپر ہیرو | ہیرو</p> <p>مرد سپر ہیرو: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اچھا | جلد کی درمیانی رنگت | سپر پاور | مرد | مرد سپر ہیرو | ہیرو</p> <p>مرد سپر ہیرو: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اچھا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سپر پاور | مرد | مرد سپر ہیرو | ہیرو</p> <p>مرد سپر ہیرو: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اچھا | جلد کی سیاہ رنگت | سپر پاور | مرد | مرد سپر ہیرو | ہیرو</p> <p>مرد سپر ہیرو: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اچھا | جلد کی ہلکی رنگت | خاتون سپر ہیرو | سپر پاور | عورت | ہیرو | ہیروئن</p> <p>خاتون سپر ہیرو: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اچھا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | خاتون سپر ہیرو | سپر پاور | عورت | ہیرو | ہیروئن</p> <p>خاتون سپر ہیرو: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اچھا | جلد کی درمیانی رنگت | خاتون سپر ہیرو | سپر پاور | عورت | ہیرو | ہیروئن</p> <p>خاتون سپر ہیرو: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اچھا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | خاتون سپر ہیرو | سپر پاور | عورت | ہیرو | ہیروئن</p> <p>خاتون سپر ہیرو: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اچھا | جلد کی سیاہ رنگت | خاتون سپر ہیرو | سپر پاور | عورت | ہیرو | ہیروئن</p> <p>خاتون سپر ہیرو: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>برائی | جلد کی ہلکی رنگت | سپر پاور | سپر ولن | مجرم | ولن</p> <p>سپر ولن: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>برائی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سپر پاور | سپر ولن | مجرم | ولن</p> <p>سپر ولن: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>برائی | جلد کی درمیانی رنگت | سپر پاور | سپر ولن | مجرم | ولن</p> <p>سپر ولن: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>برائی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سپر پاور | سپر ولن | مجرم | ولن</p> <p>سپر ولن: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>برائی | جلد کی سیاہ رنگت | سپر پاور | سپر ولن | مجرم | ولن</p> <p>سپر ولن: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>برائی | جلد کی ہلکی رنگت | سپر پاور | مجرم | مرد | مرد سپر ولن | ولن</p> <p>مرد سپر ولن: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>برائی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سپر پاور | مجرم | مرد | مرد سپر ولن | ولن</p> <p>مرد سپر ولن: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>برائی | جلد کی درمیانی رنگت | سپر پاور | مجرم | مرد | مرد سپر ولن | ولن</p> <p>مرد سپر ولن: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>برائی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سپر پاور | مجرم | مرد | مرد سپر ولن | ولن</p> <p>مرد سپر ولن: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>برائی | جلد کی سیاہ رنگت | سپر پاور | مجرم | مرد | مرد سپر ولن | ولن</p> <p>مرد سپر ولن: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>برائی | جلد کی ہلکی رنگت | خاتون سپر ولن | سپر پاور | عورت | مجرم | ولن</p> <p>خاتون سپر ولن: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>برائی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | خاتون سپر ولن | سپر پاور | عورت | مجرم | ولن</p> <p>خاتون سپر ولن: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>برائی | جلد کی درمیانی رنگت | خاتون سپر ولن | سپر پاور | عورت | مجرم | ولن</p> <p>خاتون سپر ولن: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>برائی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | خاتون سپر ولن | سپر پاور | عورت | مجرم | ولن</p> <p>خاتون سپر ولن: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>برائی | جلد کی سیاہ رنگت | خاتون سپر ولن | سپر پاور | عورت | مجرم | ولن</p> <p>خاتون سپر ولن: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جادوگر | جلد کی ہلکی رنگت | چادوگرنی</p> <p>جادوگر: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جادوگر | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | چادوگرنی</p> <p>جادوگر: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جادوگر | جلد کی درمیانی رنگت | چادوگرنی</p> <p>جادوگر: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جادوگر | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | چادوگرنی</p> <p>جادوگر: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جادوگر | جلد کی سیاہ رنگت | چادوگرنی</p> <p>جادوگر: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جادوگر | جادوگر آدمی | جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جادوگر آدمی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جادوگر | جادوگر آدمی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جادوگر آدمی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جادوگر | جادوگر آدمی | جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جادوگر آدمی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جادوگر | جادوگر آدمی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جادوگر آدمی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جادوگر | جادوگر آدمی | جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جادوگر آدمی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جادوگر عورت | جادوگرنی | جلد کی ہلکی رنگت | چڑیل</p> <p>جادوگر عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جادوگر عورت | جادوگرنی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | چڑیل</p> <p>جادوگر عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جادوگر عورت | جادوگرنی | جلد کی درمیانی رنگت | چڑیل</p> <p>جادوگر عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جادوگر عورت | جادوگرنی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | چڑیل</p> <p>جادوگر عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جادوگر عورت | جادوگرنی | جلد کی سیاہ رنگت | چڑیل</p> <p>جادوگر عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اوبیران | پری | پک | ٹائٹینیا | جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پری: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اوبیران | پری | پک | ٹائٹینیا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پری: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اوبیران | پری | پک | ٹائٹینیا | جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پری: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اوبیران | پری | پک | ٹائٹینیا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پری: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اوبیران | پری | پک | ٹائٹینیا | جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پری: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اوبیران | پک | جلد کی ہلکی رنگت | مرد پری</p> <p>مرد پری: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اوبیران | پک | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | مرد پری</p> <p>مرد پری: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اوبیران | پک | جلد کی درمیانی رنگت | مرد پری</p> <p>مرد پری: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اوبیران | پک | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | مرد پری</p> <p>مرد پری: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اوبیران | پک | جلد کی سیاہ رنگت | مرد پری</p> <p>مرد پری: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پری عورت | ٹائٹینیا | جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پری عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پری عورت | ٹائٹینیا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پری عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پری عورت | ٹائٹینیا | جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پری عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پری عورت | ٹائٹینیا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پری عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پری عورت | ٹائٹینیا | جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پری عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | خون خوار | ڈریکلا | زندہ</p> <p>خون خوار: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | خون خوار | ڈریکلا | زندہ</p> <p>خون خوار: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | خون خوار | ڈریکلا | زندہ</p> <p>خون خوار: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | خون خوار | ڈریکلا | زندہ</p> <p>خون خوار: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | خون خوار | ڈریکلا | زندہ</p> <p>خون خوار: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | خون خوار آدمی | ڈریکلا | زندہ</p> <p>خون خوار آدمی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | خون خوار آدمی | ڈریکلا | زندہ</p> <p>خون خوار آدمی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | خون خوار آدمی | ڈریکلا | زندہ</p> <p>خون خوار آدمی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | خون خوار آدمی | ڈریکلا | زندہ</p> <p>خون خوار آدمی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | خون خوار آدمی | ڈریکلا | زندہ</p> <p>خون خوار آدمی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | خون خوار عورت | زندہ</p> <p>خون خوار عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | خون خوار عورت | زندہ</p> <p>خون خوار عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | خون خوار عورت | زندہ</p> <p>خون خوار عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | خون خوار عورت | زندہ</p> <p>خون خوار عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | خون خوار عورت | زندہ</p> <p>خون خوار عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پانی کے جاندار | جل پری | جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پانی کے جاندار: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پانی کے جاندار | جل پری | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پانی کے جاندار: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پانی کے جاندار | جل پری | جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پانی کے جاندار: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پانی کے جاندار | جل پری | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پانی کے جاندار: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پانی کے جاندار | جل پری | جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پانی کے جاندار: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جل مانس | جلد کی ہلکی رنگت | سمندری دیوتا</p> <p>جل مانس: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جل مانس | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سمندری دیوتا</p> <p>جل مانس: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جل مانس | جلد کی درمیانی رنگت | سمندری دیوتا</p> <p>جل مانس: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جل مانس | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سمندری دیوتا</p> <p>جل مانس: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جل مانس | جلد کی سیاہ رنگت | سمندری دیوتا</p> <p>جل مانس: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جل پری | جلد کی ہلکی رنگت | سمندری عورت</p> <p>جل پری: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جل پری | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سمندری عورت</p> <p>جل پری: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جل پری | جلد کی درمیانی رنگت | سمندری عورت</p> <p>جل پری: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جل پری | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سمندری عورت</p> <p>جل پری: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جل پری | جلد کی سیاہ رنگت | سمندری عورت</p> <p>جل پری: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پریت | جادوئی | جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پریت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پریت | جادوئی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پریت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پریت | جادوئی | جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پریت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پریت | جادوئی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پریت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پریت | جادوئی | جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پریت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پریت آدمی | جادوئی | جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پریت آدمی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پریت آدمی | جادوئی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پریت آدمی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پریت آدمی | جادوئی | جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پریت آدمی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پریت آدمی | جادوئی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پریت آدمی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پریت آدمی | جادوئی | جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پریت آدمی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پریت عورت | جادوئی | جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پریت عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پریت عورت | جادوئی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پریت عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پریت عورت | جادوئی | جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پریت عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پریت عورت | جادوئی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پریت عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پریت عورت | جادوئی | جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پریت عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | چہرے کا مساج | مساج</p> <p>چہرے کا مساج: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | چہرے کا مساج | مساج</p> <p>چہرے کا مساج: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | چہرے کا مساج | مساج</p> <p>چہرے کا مساج: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | چہرے کا مساج | مساج</p> <p>چہرے کا مساج: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | چہرے کا مساج | مساج</p> <p>چہرے کا مساج: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | چہرا | چہرے کی مالش کراتا ہوا مرد | مالش | مرد | مساج</p> <p>چہرے کی مالش کراتا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | چہرا | چہرے کی مالش کراتا ہوا مرد | مالش | مرد | مساج</p> <p>چہرے کی مالش کراتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | چہرا | چہرے کی مالش کراتا ہوا مرد | مالش | مرد | مساج</p> <p>چہرے کی مالش کراتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | چہرا | چہرے کی مالش کراتا ہوا مرد | مالش | مرد | مساج</p> <p>چہرے کی مالش کراتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | چہرا | چہرے کی مالش کراتا ہوا مرد | مالش | مرد | مساج</p> <p>چہرے کی مالش کراتا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | چہرا | چہرے کی مالش کراتی ہوئی عورت | عورت | مالش | مساج</p> <p>چہرے کی مالش کراتی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | چہرا | چہرے کی مالش کراتی ہوئی عورت | عورت | مالش | مساج</p> <p>چہرے کی مالش کراتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | چہرا | چہرے کی مالش کراتی ہوئی عورت | عورت | مالش | مساج</p> <p>چہرے کی مالش کراتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | چہرا | چہرے کی مالش کراتی ہوئی عورت | عورت | مالش | مساج</p> <p>چہرے کی مالش کراتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | چہرا | چہرے کی مالش کراتی ہوئی عورت | عورت | مالش | مساج</p> <p>چہرے کی مالش کراتی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | حجام | حجامت</p> <p>حجامت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | حجام | حجامت</p> <p>حجامت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | حجام | حجامت</p> <p>حجامت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | حجام | حجامت</p> <p>حجامت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | حجام | حجامت</p> <p>حجامت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بال کٹواتا ہوا مرد | بال کٹوانا | جلد کی ہلکی رنگت | حجام | مرد</p> <p>بال کٹواتا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بال کٹواتا ہوا مرد | بال کٹوانا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | حجام | مرد</p> <p>بال کٹواتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بال کٹواتا ہوا مرد | بال کٹوانا | جلد کی درمیانی رنگت | حجام | مرد</p> <p>بال کٹواتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بال کٹواتا ہوا مرد | بال کٹوانا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | حجام | مرد</p> <p>بال کٹواتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بال کٹواتا ہوا مرد | بال کٹوانا | جلد کی سیاہ رنگت | حجام | مرد</p> <p>بال کٹواتا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بال کٹواتی ہوئی عورت | بال کٹوانا | جلد کی ہلکی رنگت | حجام | عورت</p> <p>بال کٹواتی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بال کٹواتی ہوئی عورت | بال کٹوانا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | حجام | عورت</p> <p>بال کٹواتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بال کٹواتی ہوئی عورت | بال کٹوانا | جلد کی درمیانی رنگت | حجام | عورت</p> <p>بال کٹواتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بال کٹواتی ہوئی عورت | بال کٹوانا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | حجام | عورت</p> <p>بال کٹواتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بال کٹواتی ہوئی عورت | بال کٹوانا | جلد کی سیاہ رنگت | حجام | عورت</p> <p>بال کٹواتی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پیدل | پیدل چلتا شخص | جلد کی ہلکی رنگت | شخص</p> <p>پیدل چلتا شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پیدل | پیدل چلتا شخص | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | شخص</p> <p>پیدل چلتا شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پیدل | پیدل چلتا شخص | جلد کی درمیانی رنگت | شخص</p> <p>پیدل چلتا شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پیدل | پیدل چلتا شخص | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | شخص</p> <p>پیدل چلتا شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پیدل | پیدل چلتا شخص | جلد کی سیاہ رنگت | شخص</p> <p>پیدل چلتا شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پیدل چلتا ہوا مرد | پیدل چلنا | ٹہلنا | جلد کی ہلکی رنگت | چہل قدمی کرنا | مرد</p> <p>پیدل چلتا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پیدل چلتا ہوا مرد | پیدل چلنا | ٹہلنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | چہل قدمی کرنا | مرد</p> <p>پیدل چلتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پیدل چلتا ہوا مرد | پیدل چلنا | ٹہلنا | جلد کی درمیانی رنگت | چہل قدمی کرنا | مرد</p> <p>پیدل چلتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پیدل چلتا ہوا مرد | پیدل چلنا | ٹہلنا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | چہل قدمی کرنا | مرد</p> <p>پیدل چلتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پیدل چلتا ہوا مرد | پیدل چلنا | ٹہلنا | جلد کی سیاہ رنگت | چہل قدمی کرنا | مرد</p> <p>پیدل چلتا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پیدل چلتی ہوئی عورت | پیدل چلنا | ٹہلنا | جلد کی ہلکی رنگت | چہل قدمی کرنا | عورت</p> <p>پیدل چلتی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پیدل چلتی ہوئی عورت | پیدل چلنا | ٹہلنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | چہل قدمی کرنا | عورت</p> <p>پیدل چلتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پیدل چلتی ہوئی عورت | پیدل چلنا | ٹہلنا | جلد کی درمیانی رنگت | چہل قدمی کرنا | عورت</p> <p>پیدل چلتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پیدل چلتی ہوئی عورت | پیدل چلنا | ٹہلنا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | چہل قدمی کرنا | عورت</p> <p>پیدل چلتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پیدل چلتی ہوئی عورت | پیدل چلنا | ٹہلنا | جلد کی سیاہ رنگت | چہل قدمی کرنا | عورت</p> <p>پیدل چلتی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | کھڑا ہوا | کھڑا ہوا شخص | کھڑا ہونا</p> <p>کھڑا ہوا شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | کھڑا ہوا | کھڑا ہوا شخص | کھڑا ہونا</p> <p>کھڑا ہوا شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | کھڑا ہوا | کھڑا ہوا شخص | کھڑا ہونا</p> <p>کھڑا ہوا شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | کھڑا ہوا | کھڑا ہوا شخص | کھڑا ہونا</p> <p>کھڑا ہوا شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | کھڑا ہوا | کھڑا ہوا شخص | کھڑا ہونا</p> <p>کھڑا ہوا شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | کھڑا ہوا | کھڑا ہوا مرد | مرد</p> <p>کھڑا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | کھڑا ہوا | کھڑا ہوا مرد | مرد</p> <p>کھڑا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | کھڑا ہوا | کھڑا ہوا مرد | مرد</p> <p>کھڑا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | کھڑا ہوا | کھڑا ہوا مرد | مرد</p> <p>کھڑا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | کھڑا ہوا | کھڑا ہوا مرد | مرد</p> <p>کھڑا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | عورت | کھڑی ہوئی | کھڑی ہوئی عورت</p> <p>کھڑی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت | کھڑی ہوئی | کھڑی ہوئی عورت</p> <p>کھڑی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | عورت | کھڑی ہوئی | کھڑی ہوئی عورت</p> <p>کھڑی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت | کھڑی ہوئی | کھڑی ہوئی عورت</p> <p>کھڑی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | عورت | کھڑی ہوئی | کھڑی ہوئی عورت</p> <p>کھڑی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | جھکنا | گھٹنوں کے بل بیٹھا شخص | گھٹنوں کے بل بیٹھنا</p> <p>گھٹنوں کے بل بیٹھا شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جھکنا | گھٹنوں کے بل بیٹھا شخص | گھٹنوں کے بل بیٹھنا</p> <p>گھٹنوں کے بل بیٹھا شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | جھکنا | گھٹنوں کے بل بیٹھا شخص | گھٹنوں کے بل بیٹھنا</p> <p>گھٹنوں کے بل بیٹھا شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جھکنا | گھٹنوں کے بل بیٹھا شخص | گھٹنوں کے بل بیٹھنا</p> <p>گھٹنوں کے بل بیٹھا شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | جھکنا | گھٹنوں کے بل بیٹھا شخص | گھٹنوں کے بل بیٹھنا</p> <p>گھٹنوں کے بل بیٹھا شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | گھٹنوں کے بل بیٹھا مرد | گھٹنوں کے بل بیٹھنا | مرد</p> <p>گھٹنوں کے بل بیٹھا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | گھٹنوں کے بل بیٹھا مرد | گھٹنوں کے بل بیٹھنا | مرد</p> <p>گھٹنوں کے بل بیٹھا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | گھٹنوں کے بل بیٹھا مرد | گھٹنوں کے بل بیٹھنا | مرد</p> <p>گھٹنوں کے بل بیٹھا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | گھٹنوں کے بل بیٹھا مرد | گھٹنوں کے بل بیٹھنا | مرد</p> <p>گھٹنوں کے بل بیٹھا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | گھٹنوں کے بل بیٹھا مرد | گھٹنوں کے بل بیٹھنا | مرد</p> <p>گھٹنوں کے بل بیٹھا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | عورت | گھٹنوں کے بل بیٹھنا | گھٹنوں کے بل بیٹھی عورت</p> <p>گھٹنوں کے بل بیٹھی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت | گھٹنوں کے بل بیٹھنا | گھٹنوں کے بل بیٹھی عورت</p> <p>گھٹنوں کے بل بیٹھی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | عورت | گھٹنوں کے بل بیٹھنا | گھٹنوں کے بل بیٹھی عورت</p> <p>گھٹنوں کے بل بیٹھی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت | گھٹنوں کے بل بیٹھنا | گھٹنوں کے بل بیٹھی عورت</p> <p>گھٹنوں کے بل بیٹھی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | عورت | گھٹنوں کے بل بیٹھنا | گھٹنوں کے بل بیٹھی عورت</p> <p>گھٹنوں کے بل بیٹھی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>ٹٹولنے والی چھڑی کے ساتھ فرد | جلد کی ہلکی رنگت | رسائی | نابینا</p> <p>ٹٹولنے والی چھڑی کے ساتھ فرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>ٹٹولنے والی چھڑی کے ساتھ فرد | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | رسائی | نابینا</p> <p>ٹٹولنے والی چھڑی کے ساتھ فرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>ٹٹولنے والی چھڑی کے ساتھ فرد | جلد کی درمیانی رنگت | رسائی | نابینا</p> <p>ٹٹولنے والی چھڑی کے ساتھ فرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>ٹٹولنے والی چھڑی کے ساتھ فرد | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | رسائی | نابینا</p> <p>ٹٹولنے والی چھڑی کے ساتھ فرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>ٹٹولنے والی چھڑی کے ساتھ فرد | جلد کی سیاہ رنگت | رسائی | نابینا</p> <p>ٹٹولنے والی چھڑی کے ساتھ فرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | دسترس | مرد | نابینا | نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ مرد</p> <p>نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | دسترس | مرد | نابینا | نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ مرد</p> <p>نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | دسترس | مرد | نابینا | نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ مرد</p> <p>نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | دسترس | مرد | نابینا | نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ مرد</p> <p>نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | دسترس | مرد | نابینا | نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ مرد</p> <p>نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | دسترس | عورت | نابینا | نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ عورت</p> <p>نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | دسترس | عورت | نابینا | نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ عورت</p> <p>نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | دسترس | عورت | نابینا | نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ عورت</p> <p>نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | دسترس | عورت | نابینا | نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ عورت</p> <p>نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | دسترس | عورت | نابینا | نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ عورت</p> <p>نابینا افراد والی چھڑی کے ساتھ عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>برقی وہیل چئیر میں بیٹھا فرد | جلد کی ہلکی رنگت | رسائی | وہیل چیئر</p> <p>برقی وہیل چئیر میں بیٹھا فرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>برقی وہیل چئیر میں بیٹھا فرد | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | رسائی | وہیل چیئر</p> <p>برقی وہیل چئیر میں بیٹھا فرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>برقی وہیل چئیر میں بیٹھا فرد | جلد کی درمیانی رنگت | رسائی | وہیل چیئر</p> <p>برقی وہیل چئیر میں بیٹھا فرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>برقی وہیل چئیر میں بیٹھا فرد | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | رسائی | وہیل چیئر</p> <p>برقی وہیل چئیر میں بیٹھا فرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>برقی وہیل چئیر میں بیٹھا فرد | جلد کی سیاہ رنگت | رسائی | وہیل چیئر</p> <p>برقی وہیل چئیر میں بیٹھا فرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>برقی وہیل چئیر میں مرد | جلد کی ہلکی رنگت | دسترس | مرد | وہیل چئیر</p> <p>برقی وہیل چئیر میں مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>برقی وہیل چئیر میں مرد | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | دسترس | مرد | وہیل چئیر</p> <p>برقی وہیل چئیر میں مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>برقی وہیل چئیر میں مرد | جلد کی درمیانی رنگت | دسترس | مرد | وہیل چئیر</p> <p>برقی وہیل چئیر میں مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>برقی وہیل چئیر میں مرد | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | دسترس | مرد | وہیل چئیر</p> <p>برقی وہیل چئیر میں مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>برقی وہیل چئیر میں مرد | جلد کی سیاہ رنگت | دسترس | مرد | وہیل چئیر</p> <p>برقی وہیل چئیر میں مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>برقی وہیل چئیر میں عورت | جلد کی ہلکی رنگت | دسترس | عورت | وہیل چئیر</p> <p>برقی وہیل چئیر میں عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>برقی وہیل چئیر میں عورت | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | دسترس | عورت | وہیل چئیر</p> <p>برقی وہیل چئیر میں عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>برقی وہیل چئیر میں عورت | جلد کی درمیانی رنگت | دسترس | عورت | وہیل چئیر</p> <p>برقی وہیل چئیر میں عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>برقی وہیل چئیر میں عورت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | دسترس | عورت | وہیل چئیر</p> <p>برقی وہیل چئیر میں عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>برقی وہیل چئیر میں عورت | جلد کی سیاہ رنگت | دسترس | عورت | وہیل چئیر</p> <p>برقی وہیل چئیر میں عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | دستی وہیل چیئر میں بیٹھا فرد | رسائی | وہیل چیئر</p> <p>دستی وہیل چیئر میں بیٹھا فرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | دستی وہیل چیئر میں بیٹھا فرد | رسائی | وہیل چیئر</p> <p>دستی وہیل چیئر میں بیٹھا فرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | دستی وہیل چیئر میں بیٹھا فرد | رسائی | وہیل چیئر</p> <p>دستی وہیل چیئر میں بیٹھا فرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | دستی وہیل چیئر میں بیٹھا فرد | رسائی | وہیل چیئر</p> <p>دستی وہیل چیئر میں بیٹھا فرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | دستی وہیل چیئر میں بیٹھا فرد | رسائی | وہیل چیئر</p> <p>دستی وہیل چیئر میں بیٹھا فرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | دسترس | دستی وہیل چئیر میں مرد | مرد | وہیل چئیر</p> <p>دستی وہیل چئیر میں مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | دسترس | دستی وہیل چئیر میں مرد | مرد | وہیل چئیر</p> <p>دستی وہیل چئیر میں مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | دسترس | دستی وہیل چئیر میں مرد | مرد | وہیل چئیر</p> <p>دستی وہیل چئیر میں مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | دسترس | دستی وہیل چئیر میں مرد | مرد | وہیل چئیر</p> <p>دستی وہیل چئیر میں مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | دسترس | دستی وہیل چئیر میں مرد | مرد | وہیل چئیر</p> <p>دستی وہیل چئیر میں مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | دسترس | دستی وہیل چئیر میں عورت | عورت | وہیل چئیر</p> <p>دستی وہیل چئیر میں عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | دسترس | دستی وہیل چئیر میں عورت | عورت | وہیل چئیر</p> <p>دستی وہیل چئیر میں عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | دسترس | دستی وہیل چئیر میں عورت | عورت | وہیل چئیر</p> <p>دستی وہیل چئیر میں عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | دسترس | دستی وہیل چئیر میں عورت | عورت | وہیل چئیر</p> <p>دستی وہیل چئیر میں عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | دسترس | دستی وہیل چئیر میں عورت | عورت | وہیل چئیر</p> <p>دستی وہیل چئیر میں عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | دوڑتا ہوا شخص | دوڑنا | شخص</p> <p>دوڑتا ہوا شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | دوڑتا ہوا شخص | دوڑنا | شخص</p> <p>دوڑتا ہوا شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | دوڑتا ہوا شخص | دوڑنا | شخص</p> <p>دوڑتا ہوا شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | دوڑتا ہوا شخص | دوڑنا | شخص</p> <p>دوڑتا ہوا شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | دوڑتا ہوا شخص | دوڑنا | شخص</p> <p>دوڑتا ہوا شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بھاگنا | تیز چلنا | جلد کی ہلکی رنگت | دوڑتا ہوا مرد | دوڑنا | مرد</p> <p>دوڑتا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بھاگنا | تیز چلنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | دوڑتا ہوا مرد | دوڑنا | مرد</p> <p>دوڑتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بھاگنا | تیز چلنا | جلد کی درمیانی رنگت | دوڑتا ہوا مرد | دوڑنا | مرد</p> <p>دوڑتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بھاگنا | تیز چلنا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | دوڑتا ہوا مرد | دوڑنا | مرد</p> <p>دوڑتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بھاگنا | تیز چلنا | جلد کی سیاہ رنگت | دوڑتا ہوا مرد | دوڑنا | مرد</p> <p>دوڑتا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بھاگنا | تیز چلنا | جلد کی ہلکی رنگت | دوڑتی ہوئی عورت | دوڑنا | عورت</p> <p>دوڑتی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بھاگنا | تیز چلنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | دوڑتی ہوئی عورت | دوڑنا | عورت</p> <p>دوڑتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بھاگنا | تیز چلنا | جلد کی درمیانی رنگت | دوڑتی ہوئی عورت | دوڑنا | عورت</p> <p>دوڑتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بھاگنا | تیز چلنا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | دوڑتی ہوئی عورت | دوڑنا | عورت</p> <p>دوڑتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بھاگنا | تیز چلنا | جلد کی سیاہ رنگت | دوڑتی ہوئی عورت | دوڑنا | عورت</p> <p>دوڑتی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | ڈانس | ڈانسر | لڑکی</p> <p>ڈانسر: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | ڈانس | ڈانسر | لڑکی</p> <p>ڈانسر: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | ڈانس | ڈانسر | لڑکی</p> <p>ڈانسر: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | ڈانس | ڈانسر | لڑکی</p> <p>ڈانسر: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | ڈانس | ڈانسر | لڑکی</p> <p>ڈانسر: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>آدمی | جلد کی ہلکی رنگت | ناچ | ناچتا ہوا شخص</p> <p>ناچتا ہوا شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>آدمی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | ناچ | ناچتا ہوا شخص</p> <p>ناچتا ہوا شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>آدمی | جلد کی درمیانی رنگت | ناچ | ناچتا ہوا شخص</p> <p>ناچتا ہوا شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>آدمی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | ناچ | ناچتا ہوا شخص</p> <p>ناچتا ہوا شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>آدمی | جلد کی سیاہ رنگت | ناچ | ناچتا ہوا شخص</p> <p>ناچتا ہوا شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بزنس | بزنس سوٹ پہنے ہوا میں معلق شخص | جلد کی ہلکی رنگت | سوٹ | شخص | معلق | ہوا</p> <p>بزنس سوٹ پہنے ہوا میں معلق شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بزنس | بزنس سوٹ پہنے ہوا میں معلق شخص | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سوٹ | شخص | معلق | ہوا</p> <p>بزنس سوٹ پہنے ہوا میں معلق شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بزنس | بزنس سوٹ پہنے ہوا میں معلق شخص | جلد کی درمیانی رنگت | سوٹ | شخص | معلق | ہوا</p> <p>بزنس سوٹ پہنے ہوا میں معلق شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بزنس | بزنس سوٹ پہنے ہوا میں معلق شخص | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سوٹ | شخص | معلق | ہوا</p> <p>بزنس سوٹ پہنے ہوا میں معلق شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بزنس | بزنس سوٹ پہنے ہوا میں معلق شخص | جلد کی سیاہ رنگت | سوٹ | شخص | معلق | ہوا</p> <p>بزنس سوٹ پہنے ہوا میں معلق شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>ایک شخص بھاپ سے بھرے کمرے میں | بھاپ سے بھرا | جلد کی ہلکی رنگت | غسل خانہ</p> <p>ایک شخص بھاپ سے بھرے کمرے میں: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>ایک شخص بھاپ سے بھرے کمرے میں | بھاپ سے بھرا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | غسل خانہ</p> <p>ایک شخص بھاپ سے بھرے کمرے میں: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>ایک شخص بھاپ سے بھرے کمرے میں | بھاپ سے بھرا | جلد کی درمیانی رنگت | غسل خانہ</p> <p>ایک شخص بھاپ سے بھرے کمرے میں: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>ایک شخص بھاپ سے بھرے کمرے میں | بھاپ سے بھرا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | غسل خانہ</p> <p>ایک شخص بھاپ سے بھرے کمرے میں: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>ایک شخص بھاپ سے بھرے کمرے میں | بھاپ سے بھرا | جلد کی سیاہ رنگت | غسل خانہ</p> <p>ایک شخص بھاپ سے بھرے کمرے میں: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>ایک مرد بھاپ سے بھرے کمرے میں | بھاپ سے بھرا | جلد کی ہلکی رنگت | غسل خانہ</p> <p>ایک مرد بھاپ سے بھرے کمرے میں: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>ایک مرد بھاپ سے بھرے کمرے میں | بھاپ سے بھرا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | غسل خانہ</p> <p>ایک مرد بھاپ سے بھرے کمرے میں: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>ایک مرد بھاپ سے بھرے کمرے میں | بھاپ سے بھرا | جلد کی درمیانی رنگت | غسل خانہ</p> <p>ایک مرد بھاپ سے بھرے کمرے میں: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>ایک مرد بھاپ سے بھرے کمرے میں | بھاپ سے بھرا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | غسل خانہ</p> <p>ایک مرد بھاپ سے بھرے کمرے میں: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>ایک مرد بھاپ سے بھرے کمرے میں | بھاپ سے بھرا | جلد کی سیاہ رنگت | غسل خانہ</p> <p>ایک مرد بھاپ سے بھرے کمرے میں: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>ایک خاتون بھاپ سے بھرے کمرے میں | بھاپ سے بھرا | جلد کی ہلکی رنگت | غسل خانہ</p> <p>ایک خاتون بھاپ سے بھرے کمرے میں: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>ایک خاتون بھاپ سے بھرے کمرے میں | بھاپ سے بھرا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | غسل خانہ</p> <p>ایک خاتون بھاپ سے بھرے کمرے میں: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>ایک خاتون بھاپ سے بھرے کمرے میں | بھاپ سے بھرا | جلد کی درمیانی رنگت | غسل خانہ</p> <p>ایک خاتون بھاپ سے بھرے کمرے میں: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>ایک خاتون بھاپ سے بھرے کمرے میں | بھاپ سے بھرا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | غسل خانہ</p> <p>ایک خاتون بھاپ سے بھرے کمرے میں: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>ایک خاتون بھاپ سے بھرے کمرے میں | بھاپ سے بھرا | جلد کی سیاہ رنگت | غسل خانہ</p> <p>ایک خاتون بھاپ سے بھرے کمرے میں: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | چڑھتا ہوا شخص | چڑھنے والا</p> <p>چڑھتا ہوا شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | چڑھتا ہوا شخص | چڑھنے والا</p> <p>چڑھتا ہوا شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | چڑھتا ہوا شخص | چڑھنے والا</p> <p>چڑھتا ہوا شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | چڑھتا ہوا شخص | چڑھنے والا</p> <p>چڑھتا ہوا شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | چڑھتا ہوا شخص | چڑھنے والا</p> <p>چڑھتا ہوا شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | چڑھتا ہوا آدمی | چڑھنے والا</p> <p>چڑھتا ہوا آدمی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | چڑھتا ہوا آدمی | چڑھنے والا</p> <p>چڑھتا ہوا آدمی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | چڑھتا ہوا آدمی | چڑھنے والا</p> <p>چڑھتا ہوا آدمی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | چڑھتا ہوا آدمی | چڑھنے والا</p> <p>چڑھتا ہوا آدمی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | چڑھتا ہوا آدمی | چڑھنے والا</p> <p>چڑھتا ہوا آدمی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | چرھنے والی | چڑھتی ہوئی عورت</p> <p>چڑھتی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | چرھنے والی | چڑھتی ہوئی عورت</p> <p>چڑھتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | چرھنے والی | چڑھتی ہوئی عورت</p> <p>چڑھتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | چرھنے والی | چڑھتی ہوئی عورت</p> <p>چڑھتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | چرھنے والی | چڑھتی ہوئی عورت</p> <p>چڑھتی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | دوڑ | کھیل | گھڑ دوڑ | گھوڑا</p> <p>گھڑ دوڑ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | دوڑ | کھیل | گھڑ دوڑ | گھوڑا</p> <p>گھڑ دوڑ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | دوڑ | کھیل | گھڑ دوڑ | گھوڑا</p> <p>گھڑ دوڑ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | دوڑ | کھیل | گھڑ دوڑ | گھوڑا</p> <p>گھڑ دوڑ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | دوڑ | کھیل | گھڑ دوڑ | گھوڑا</p> <p>گھڑ دوڑ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اسکائی | برف | جلد کی ہلکی رنگت | سنو بورڈ | سنو بورڈر</p> <p>سنو بورڈر: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اسکائی | برف | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سنو بورڈ | سنو بورڈر</p> <p>سنو بورڈر: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اسکائی | برف | جلد کی درمیانی رنگت | سنو بورڈ | سنو بورڈر</p> <p>سنو بورڈر: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اسکائی | برف | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سنو بورڈ | سنو بورڈر</p> <p>سنو بورڈر: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اسکائی | برف | جلد کی سیاہ رنگت | سنو بورڈ | سنو بورڈر</p> <p>سنو بورڈر: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | کھلاڑی | گالف | گالف کا کھلاڑی</p> <p>گالف کا کھلاڑی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | کھلاڑی | گالف | گالف کا کھلاڑی</p> <p>گالف کا کھلاڑی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | کھلاڑی | گالف | گالف کا کھلاڑی</p> <p>گالف کا کھلاڑی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | کھلاڑی | گالف | گالف کا کھلاڑی</p> <p>گالف کا کھلاڑی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | کھلاڑی | گالف | گالف کا کھلاڑی</p> <p>گالف کا کھلاڑی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | کھلاڑی | کھیلنا | گالف | گالف کھیلتا ہوا مرد | مرد</p> <p>گالف کھیلتا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | کھلاڑی | کھیلنا | گالف | گالف کھیلتا ہوا مرد | مرد</p> <p>گالف کھیلتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | کھلاڑی | کھیلنا | گالف | گالف کھیلتا ہوا مرد | مرد</p> <p>گالف کھیلتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | کھلاڑی | کھیلنا | گالف | گالف کھیلتا ہوا مرد | مرد</p> <p>گالف کھیلتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | کھلاڑی | کھیلنا | گالف | گالف کھیلتا ہوا مرد | مرد</p> <p>گالف کھیلتا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | عورت | کھلاڑی | کھیلنا | گالف | گالف کھیلتی ہوئی عورت</p> <p>گالف کھیلتی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت | کھلاڑی | کھیلنا | گالف | گالف کھیلتی ہوئی عورت</p> <p>گالف کھیلتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | عورت | کھلاڑی | کھیلنا | گالف | گالف کھیلتی ہوئی عورت</p> <p>گالف کھیلتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت | کھلاڑی | کھیلنا | گالف | گالف کھیلتی ہوئی عورت</p> <p>گالف کھیلتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | عورت | کھلاڑی | کھیلنا | گالف | گالف کھیلتی ہوئی عورت</p> <p>گالف کھیلتی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پانی | تختہ | جلد کی ہلکی رنگت | سرف | سرفر</p> <p>سرفر: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پانی | تختہ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سرف | سرفر</p> <p>سرفر: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پانی | تختہ | جلد کی درمیانی رنگت | سرف | سرفر</p> <p>سرفر: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پانی | تختہ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سرف | سرفر</p> <p>سرفر: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پانی | تختہ | جلد کی سیاہ رنگت | سرف | سرفر</p> <p>سرفر: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>آدمی | جلد کی ہلکی رنگت | سرفنگ | سرفنگ کرتا ہوا مرد</p> <p>سرفنگ کرتا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>آدمی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سرفنگ | سرفنگ کرتا ہوا مرد</p> <p>سرفنگ کرتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>آدمی | جلد کی درمیانی رنگت | سرفنگ | سرفنگ کرتا ہوا مرد</p> <p>سرفنگ کرتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>آدمی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سرفنگ | سرفنگ کرتا ہوا مرد</p> <p>سرفنگ کرتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>آدمی | جلد کی سیاہ رنگت | سرفنگ | سرفنگ کرتا ہوا مرد</p> <p>سرفنگ کرتا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پانی | تختہ | جلد کی ہلکی رنگت | سرفنگ کرتی ہوئی عورت | عورت | کھیلنا</p> <p>سرفنگ کرتی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پانی | تختہ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سرفنگ کرتی ہوئی عورت | عورت | کھیلنا</p> <p>سرفنگ کرتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پانی | تختہ | جلد کی درمیانی رنگت | سرفنگ کرتی ہوئی عورت | عورت | کھیلنا</p> <p>سرفنگ کرتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پانی | تختہ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سرفنگ کرتی ہوئی عورت | عورت | کھیلنا</p> <p>سرفنگ کرتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پانی | تختہ | جلد کی سیاہ رنگت | سرفنگ کرتی ہوئی عورت | عورت | کھیلنا</p> <p>سرفنگ کرتی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | چپوؤں والی کشتی | سواری | کشتی</p> <p>چپوؤں والی کشتی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | چپوؤں والی کشتی | سواری | کشتی</p> <p>چپوؤں والی کشتی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | چپوؤں والی کشتی | سواری | کشتی</p> <p>چپوؤں والی کشتی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | چپوؤں والی کشتی | سواری | کشتی</p> <p>چپوؤں والی کشتی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | چپوؤں والی کشتی | سواری | کشتی</p> <p>چپوؤں والی کشتی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پانی | جلد کی ہلکی رنگت | سواری | کشتی | کشتی چلاتا ہوا مرد | مرد</p> <p>کشتی چلاتا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پانی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سواری | کشتی | کشتی چلاتا ہوا مرد | مرد</p> <p>کشتی چلاتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پانی | جلد کی درمیانی رنگت | سواری | کشتی | کشتی چلاتا ہوا مرد | مرد</p> <p>کشتی چلاتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پانی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سواری | کشتی | کشتی چلاتا ہوا مرد | مرد</p> <p>کشتی چلاتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پانی | جلد کی سیاہ رنگت | سواری | کشتی | کشتی چلاتا ہوا مرد | مرد</p> <p>کشتی چلاتا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پانی | جلد کی ہلکی رنگت | سواری | عورت | کشتی | کشتی چلاتی ہوئی عورت</p> <p>کشتی چلاتی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پانی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سواری | عورت | کشتی | کشتی چلاتی ہوئی عورت</p> <p>کشتی چلاتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پانی | جلد کی درمیانی رنگت | سواری | عورت | کشتی | کشتی چلاتی ہوئی عورت</p> <p>کشتی چلاتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پانی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سواری | عورت | کشتی | کشتی چلاتی ہوئی عورت</p> <p>کشتی چلاتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پانی | جلد کی سیاہ رنگت | سواری | عورت | کشتی | کشتی چلاتی ہوئی عورت</p> <p>کشتی چلاتی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پانی | تیراک | تیراکی | جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تیراک: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پانی | تیراک | تیراکی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تیراک: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پانی | تیراک | تیراکی | جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تیراک: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پانی | تیراک | تیراکی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تیراک: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پانی | تیراک | تیراکی | جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تیراک: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پانی | تیراکی | تیراکی کرتا ہوا مرد | جلد کی ہلکی رنگت | مرد</p> <p>تیراکی کرتا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پانی | تیراکی | تیراکی کرتا ہوا مرد | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | مرد</p> <p>تیراکی کرتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پانی | تیراکی | تیراکی کرتا ہوا مرد | جلد کی درمیانی رنگت | مرد</p> <p>تیراکی کرتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پانی | تیراکی | تیراکی کرتا ہوا مرد | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | مرد</p> <p>تیراکی کرتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پانی | تیراکی | تیراکی کرتا ہوا مرد | جلد کی سیاہ رنگت | مرد</p> <p>تیراکی کرتا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پانی | تیراکی | تیراکی کرتی ہوئی عورت | جلد کی ہلکی رنگت | عورت</p> <p>تیراکی کرتی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پانی | تیراکی | تیراکی کرتی ہوئی عورت | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت</p> <p>تیراکی کرتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پانی | تیراکی | تیراکی کرتی ہوئی عورت | جلد کی درمیانی رنگت | عورت</p> <p>تیراکی کرتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پانی | تیراکی | تیراکی کرتی ہوئی عورت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت</p> <p>تیراکی کرتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پانی | تیراکی | تیراکی کرتی ہوئی عورت | جلد کی سیاہ رنگت | عورت</p> <p>تیراکی کرتی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بال | بال سے کھیلتا شخص | بندہ | جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بال سے کھیلتا شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بال | بال سے کھیلتا شخص | بندہ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بال سے کھیلتا شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بال | بال سے کھیلتا شخص | بندہ | جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بال سے کھیلتا شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بال | بال سے کھیلتا شخص | بندہ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بال سے کھیلتا شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بال | بال سے کھیلتا شخص | بندہ | جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بال سے کھیلتا شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بال | بال سے کھیلتا ہوا مرد | جلد کی ہلکی رنگت | کھیلنا | مرد | میدان</p> <p>بال سے کھیلتا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بال | بال سے کھیلتا ہوا مرد | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | کھیلنا | مرد | میدان</p> <p>بال سے کھیلتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بال | بال سے کھیلتا ہوا مرد | جلد کی درمیانی رنگت | کھیلنا | مرد | میدان</p> <p>بال سے کھیلتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بال | بال سے کھیلتا ہوا مرد | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | کھیلنا | مرد | میدان</p> <p>بال سے کھیلتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بال | بال سے کھیلتا ہوا مرد | جلد کی سیاہ رنگت | کھیلنا | مرد | میدان</p> <p>بال سے کھیلتا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بال | بال سے کھیلتی ہوئی عورت | جلد کی ہلکی رنگت | عورت | کھیلنا | میدان</p> <p>بال سے کھیلتی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بال | بال سے کھیلتی ہوئی عورت | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت | کھیلنا | میدان</p> <p>بال سے کھیلتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بال | بال سے کھیلتی ہوئی عورت | جلد کی درمیانی رنگت | عورت | کھیلنا | میدان</p> <p>بال سے کھیلتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بال | بال سے کھیلتی ہوئی عورت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت | کھیلنا | میدان</p> <p>بال سے کھیلتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بال | بال سے کھیلتی ہوئی عورت | جلد کی سیاہ رنگت | عورت | کھیلنا | میدان</p> <p>بال سے کھیلتی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اٹھانا | جلد کی ہلکی رنگت | وزن | وزن اٹھائے شخص</p> <p>وزن اٹھائے شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اٹھانا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | وزن | وزن اٹھائے شخص</p> <p>وزن اٹھائے شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اٹھانا | جلد کی درمیانی رنگت | وزن | وزن اٹھائے شخص</p> <p>وزن اٹھائے شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اٹھانا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | وزن | وزن اٹھائے شخص</p> <p>وزن اٹھائے شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اٹھانا | جلد کی سیاہ رنگت | وزن | وزن اٹھائے شخص</p> <p>وزن اٹھائے شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اٹھانا | جلد کی ہلکی رنگت | جم | مرد | وزن | وزن اٹھاتا ہوا مرد</p> <p>وزن اٹھاتا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اٹھانا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جم | مرد | وزن | وزن اٹھاتا ہوا مرد</p> <p>وزن اٹھاتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اٹھانا | جلد کی درمیانی رنگت | جم | مرد | وزن | وزن اٹھاتا ہوا مرد</p> <p>وزن اٹھاتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اٹھانا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جم | مرد | وزن | وزن اٹھاتا ہوا مرد</p> <p>وزن اٹھاتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اٹھانا | جلد کی سیاہ رنگت | جم | مرد | وزن | وزن اٹھاتا ہوا مرد</p> <p>وزن اٹھاتا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>اٹھانا | جلد کی ہلکی رنگت | جم | عورت | وزن | وزن اٹھاتی ہوئی عورت</p> <p>وزن اٹھاتی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>اٹھانا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جم | عورت | وزن | وزن اٹھاتی ہوئی عورت</p> <p>وزن اٹھاتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>اٹھانا | جلد کی درمیانی رنگت | جم | عورت | وزن | وزن اٹھاتی ہوئی عورت</p> <p>وزن اٹھاتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>اٹھانا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جم | عورت | وزن | وزن اٹھاتی ہوئی عورت</p> <p>وزن اٹھاتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>اٹھانا | جلد کی سیاہ رنگت | جم | عورت | وزن | وزن اٹھاتی ہوئی عورت</p> <p>وزن اٹھاتی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | سائیکل | سوار</p> <p>سائیکل سوار: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سائیکل | سوار</p> <p>سائیکل سوار: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | سائیکل | سوار</p> <p>سائیکل سوار: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سائیکل | سوار</p> <p>سائیکل سوار: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | سائیکل | سوار</p> <p>سائیکل سوار: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | چلانا | سائیکل | سائیکل سوار مرد | سڑک | مرد</p> <p>سائیکل سوار مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | چلانا | سائیکل | سائیکل سوار مرد | سڑک | مرد</p> <p>سائیکل سوار مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | چلانا | سائیکل | سائیکل سوار مرد | سڑک | مرد</p> <p>سائیکل سوار مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | چلانا | سائیکل | سائیکل سوار مرد | سڑک | مرد</p> <p>سائیکل سوار مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | چلانا | سائیکل | سائیکل سوار مرد | سڑک | مرد</p> <p>سائیکل سوار مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | چلانا | سائیکل | سائیکل سوار عورت | سڑک | عورت</p> <p>سائیکل سوار عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | چلانا | سائیکل | سائیکل سوار عورت | سڑک | عورت</p> <p>سائیکل سوار عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | چلانا | سائیکل | سائیکل سوار عورت | سڑک | عورت</p> <p>سائیکل سوار عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | چلانا | سائیکل | سائیکل سوار عورت | سڑک | عورت</p> <p>سائیکل سوار عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | چلانا | سائیکل | سائیکل سوار عورت | سڑک | عورت</p> <p>سائیکل سوار عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بائیک | جلد کی ہلکی رنگت | سائیکل | سوار | ماؤنٹین</p> <p>ماؤنٹین بائیک: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بائیک | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | سائیکل | سوار | ماؤنٹین</p> <p>ماؤنٹین بائیک: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بائیک | جلد کی درمیانی رنگت | سائیکل | سوار | ماؤنٹین</p> <p>ماؤنٹین بائیک: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بائیک | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | سائیکل | سوار | ماؤنٹین</p> <p>ماؤنٹین بائیک: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بائیک | جلد کی سیاہ رنگت | سائیکل | سوار | ماؤنٹین</p> <p>ماؤنٹین بائیک: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | چلانا | سائیکل | ماؤنٹین | ماؤنٹین بائیک پر سوار مرد | مرد</p> <p>ماؤنٹین بائیک پر سوار مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | چلانا | سائیکل | ماؤنٹین | ماؤنٹین بائیک پر سوار مرد | مرد</p> <p>ماؤنٹین بائیک پر سوار مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | چلانا | سائیکل | ماؤنٹین | ماؤنٹین بائیک پر سوار مرد | مرد</p> <p>ماؤنٹین بائیک پر سوار مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | چلانا | سائیکل | ماؤنٹین | ماؤنٹین بائیک پر سوار مرد | مرد</p> <p>ماؤنٹین بائیک پر سوار مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | چلانا | سائیکل | ماؤنٹین | ماؤنٹین بائیک پر سوار مرد | مرد</p> <p>ماؤنٹین بائیک پر سوار مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | چلانا | سائیکل | عورت | ماؤنٹین | ماؤنٹین بائیک پر سوار عورت</p> <p>ماؤنٹین بائیک پر سوار عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | چلانا | سائیکل | عورت | ماؤنٹین | ماؤنٹین بائیک پر سوار عورت</p> <p>ماؤنٹین بائیک پر سوار عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | چلانا | سائیکل | عورت | ماؤنٹین | ماؤنٹین بائیک پر سوار عورت</p> <p>ماؤنٹین بائیک پر سوار عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | چلانا | سائیکل | عورت | ماؤنٹین | ماؤنٹین بائیک پر سوار عورت</p> <p>ماؤنٹین بائیک پر سوار عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | چلانا | سائیکل | عورت | ماؤنٹین | ماؤنٹین بائیک پر سوار عورت</p> <p>ماؤنٹین بائیک پر سوار عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بندہ | جلد کی ہلکی رنگت | جمناسٹکس | قلابازی | قلابازی لگاتا شخص | کھیل</p> <p>قلابازی لگاتا شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بندہ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جمناسٹکس | قلابازی | قلابازی لگاتا شخص | کھیل</p> <p>قلابازی لگاتا شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بندہ | جلد کی درمیانی رنگت | جمناسٹکس | قلابازی | قلابازی لگاتا شخص | کھیل</p> <p>قلابازی لگاتا شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بندہ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جمناسٹکس | قلابازی | قلابازی لگاتا شخص | کھیل</p> <p>قلابازی لگاتا شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بندہ | جلد کی سیاہ رنگت | جمناسٹکس | قلابازی | قلابازی لگاتا شخص | کھیل</p> <p>قلابازی لگاتا شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | جمناسٹکس | قلابازی | قلابازی کھاتا ہوا مرد | کھیل | مرد</p> <p>قلابازی کھاتا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جمناسٹکس | قلابازی | قلابازی کھاتا ہوا مرد | کھیل | مرد</p> <p>قلابازی کھاتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | جمناسٹکس | قلابازی | قلابازی کھاتا ہوا مرد | کھیل | مرد</p> <p>قلابازی کھاتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جمناسٹکس | قلابازی | قلابازی کھاتا ہوا مرد | کھیل | مرد</p> <p>قلابازی کھاتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | جمناسٹکس | قلابازی | قلابازی کھاتا ہوا مرد | کھیل | مرد</p> <p>قلابازی کھاتا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | جمناسٹکس | عورت | قلابازی | قلابازی کھاتی ہوئی عورت | کھیل</p> <p>قلابازی کھاتی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جمناسٹکس | عورت | قلابازی | قلابازی کھاتی ہوئی عورت | کھیل</p> <p>قلابازی کھاتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | جمناسٹکس | عورت | قلابازی | قلابازی کھاتی ہوئی عورت | کھیل</p> <p>قلابازی کھاتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جمناسٹکس | عورت | قلابازی | قلابازی کھاتی ہوئی عورت | کھیل</p> <p>قلابازی کھاتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | جمناسٹکس | عورت | قلابازی | قلابازی کھاتی ہوئی عورت | کھیل</p> <p>قلابازی کھاتی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بندہ | پانی | پولو | جلد کی ہلکی رنگت | کھیل | واٹر پولو</p> <p>واٹر پولو: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بندہ | پانی | پولو | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | کھیل | واٹر پولو</p> <p>واٹر پولو: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بندہ | پانی | پولو | جلد کی درمیانی رنگت | کھیل | واٹر پولو</p> <p>واٹر پولو: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بندہ | پانی | پولو | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | کھیل | واٹر پولو</p> <p>واٹر پولو: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بندہ | پانی | پولو | جلد کی سیاہ رنگت | کھیل | واٹر پولو</p> <p>واٹر پولو: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پانی | پولو | جلد کی ہلکی رنگت | کھیل | مرد | واٹر پولو کھیلتا ہوا مرد</p> <p>واٹر پولو کھیلتا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پانی | پولو | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | کھیل | مرد | واٹر پولو کھیلتا ہوا مرد</p> <p>واٹر پولو کھیلتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پانی | پولو | جلد کی درمیانی رنگت | کھیل | مرد | واٹر پولو کھیلتا ہوا مرد</p> <p>واٹر پولو کھیلتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پانی | پولو | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | کھیل | مرد | واٹر پولو کھیلتا ہوا مرد</p> <p>واٹر پولو کھیلتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پانی | پولو | جلد کی سیاہ رنگت | کھیل | مرد | واٹر پولو کھیلتا ہوا مرد</p> <p>واٹر پولو کھیلتا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پانی | پولو | جلد کی ہلکی رنگت | عورت | کھیل | واٹر پولو کھیلتی ہوئی عورت</p> <p>واٹر پولو کھیلتی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پانی | پولو | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت | کھیل | واٹر پولو کھیلتی ہوئی عورت</p> <p>واٹر پولو کھیلتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پانی | پولو | جلد کی درمیانی رنگت | عورت | کھیل | واٹر پولو کھیلتی ہوئی عورت</p> <p>واٹر پولو کھیلتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پانی | پولو | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت | کھیل | واٹر پولو کھیلتی ہوئی عورت</p> <p>واٹر پولو کھیلتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پانی | پولو | جلد کی سیاہ رنگت | عورت | کھیل | واٹر پولو کھیلتی ہوئی عورت</p> <p>واٹر پولو کھیلتی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بال | بندہ | جلد کی ہلکی رنگت | کھیل | ہینڈ بال</p> <p>ہینڈ بال: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بال | بندہ | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | کھیل | ہینڈ بال</p> <p>ہینڈ بال: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بال | بندہ | جلد کی درمیانی رنگت | کھیل | ہینڈ بال</p> <p>ہینڈ بال: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بال | بندہ | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | کھیل | ہینڈ بال</p> <p>ہینڈ بال: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بال | بندہ | جلد کی سیاہ رنگت | کھیل | ہینڈ بال</p> <p>ہینڈ بال: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | کھیل | مرد | میدان | ہینڈ بال | ہینڈ بال کھیلتا ہوا مرد</p> <p>ہینڈ بال کھیلتا ہوا مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | کھیل | مرد | میدان | ہینڈ بال | ہینڈ بال کھیلتا ہوا مرد</p> <p>ہینڈ بال کھیلتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | کھیل | مرد | میدان | ہینڈ بال | ہینڈ بال کھیلتا ہوا مرد</p> <p>ہینڈ بال کھیلتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | کھیل | مرد | میدان | ہینڈ بال | ہینڈ بال کھیلتا ہوا مرد</p> <p>ہینڈ بال کھیلتا ہوا مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | کھیل | مرد | میدان | ہینڈ بال | ہینڈ بال کھیلتا ہوا مرد</p> <p>ہینڈ بال کھیلتا ہوا مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | عورت | کھیل | میدان | ہینڈ بال | ہینڈ بال کھیلتی ہوئی عورت</p> <p>ہینڈ بال کھیلتی ہوئی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | عورت | کھیل | میدان | ہینڈ بال | ہینڈ بال کھیلتی ہوئی عورت</p> <p>ہینڈ بال کھیلتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | عورت | کھیل | میدان | ہینڈ بال | ہینڈ بال کھیلتی ہوئی عورت</p> <p>ہینڈ بال کھیلتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | عورت | کھیل | میدان | ہینڈ بال | ہینڈ بال کھیلتی ہوئی عورت</p> <p>ہینڈ بال کھیلتی ہوئی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | عورت | کھیل | میدان | ہینڈ بال | ہینڈ بال کھیلتی ہوئی عورت</p> <p>ہینڈ بال کھیلتی ہوئی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>توازن | جلد کی ہلکی رنگت | شعبدہ بازی | مداری | مہارت</p> <p>شعبدہ بازی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>توازن | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | شعبدہ بازی | مداری | مہارت</p> <p>شعبدہ بازی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>توازن | جلد کی درمیانی رنگت | شعبدہ بازی | مداری | مہارت</p> <p>شعبدہ بازی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>توازن | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | شعبدہ بازی | مداری | مہارت</p> <p>شعبدہ بازی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>توازن | جلد کی سیاہ رنگت | شعبدہ بازی | مداری | مہارت</p> <p>شعبدہ بازی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | شعبدہ باز مرد | شعبدہ بازی | کھیل | مداری | مرد</p> <p>شعبدہ باز مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | شعبدہ باز مرد | شعبدہ بازی | کھیل | مداری | مرد</p> <p>شعبدہ باز مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | شعبدہ باز مرد | شعبدہ بازی | کھیل | مداری | مرد</p> <p>شعبدہ باز مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | شعبدہ باز مرد | شعبدہ بازی | کھیل | مداری | مرد</p> <p>شعبدہ باز مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | شعبدہ باز مرد | شعبدہ بازی | کھیل | مداری | مرد</p> <p>شعبدہ باز مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی ہلکی رنگت | شعبدہ باز عورت | شعبدہ بازی | عورت | کھیل | مداری</p> <p>شعبدہ باز عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | شعبدہ باز عورت | شعبدہ بازی | عورت | کھیل | مداری</p> <p>شعبدہ باز عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی رنگت | شعبدہ باز عورت | شعبدہ بازی | عورت | کھیل | مداری</p> <p>شعبدہ باز عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | شعبدہ باز عورت | شعبدہ بازی | عورت | کھیل | مداری</p> <p>شعبدہ باز عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>جلد کی سیاہ رنگت | شعبدہ باز عورت | شعبدہ بازی | عورت | کھیل | مداری</p> <p>شعبدہ باز عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا شخص | جلد کی ہلکی رنگت | مراقبہ | یوگا</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا شخص | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | مراقبہ | یوگا</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا شخص | جلد کی درمیانی رنگت | مراقبہ | یوگا</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا شخص | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | مراقبہ | یوگا</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا شخص | جلد کی سیاہ رنگت | مراقبہ | یوگا</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا آدمی | جلد کی ہلکی رنگت | مراقبہ | یوگا</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا آدمی: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا آدمی | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | مراقبہ | یوگا</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا آدمی: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا آدمی | جلد کی درمیانی رنگت | مراقبہ | یوگا</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا آدمی: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا آدمی | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | مراقبہ | یوگا</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا آدمی: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا آدمی | جلد کی سیاہ رنگت | مراقبہ | یوگا</p> <p>پالتی مار کر بیٹھا آدمی: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>پالتی مار کر بیٹھی عورت | جلد کی ہلکی رنگت | مراقبہ | یوگا</p> <p>پالتی مار کر بیٹھی عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>پالتی مار کر بیٹھی عورت | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | مراقبہ | یوگا</p> <p>پالتی مار کر بیٹھی عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>پالتی مار کر بیٹھی عورت | جلد کی درمیانی رنگت | مراقبہ | یوگا</p> <p>پالتی مار کر بیٹھی عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>پالتی مار کر بیٹھی عورت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | مراقبہ | یوگا</p> <p>پالتی مار کر بیٹھی عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>پالتی مار کر بیٹھی عورت | جلد کی سیاہ رنگت | مراقبہ | یوگا</p> <p>پالتی مار کر بیٹھی عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>باتھ ٹب | جلد کی ہلکی رنگت | نہاتا ہوا شخص</p> <p>نہاتا ہوا شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>باتھ ٹب | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | نہاتا ہوا شخص</p> <p>نہاتا ہوا شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>باتھ ٹب | جلد کی درمیانی رنگت | نہاتا ہوا شخص</p> <p>نہاتا ہوا شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>باتھ ٹب | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | نہاتا ہوا شخص</p> <p>نہاتا ہوا شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>باتھ ٹب | جلد کی سیاہ رنگت | نہاتا ہوا شخص</p> <p>نہاتا ہوا شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بستر میں لیٹا شخص | جلد کی ہلکی رنگت | نیند | ہوٹل</p> <p>بستر میں لیٹا شخص: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>بستر میں لیٹا شخص | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | نیند | ہوٹل</p> <p>بستر میں لیٹا شخص: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>بستر میں لیٹا شخص | جلد کی درمیانی رنگت | نیند | ہوٹل</p> <p>بستر میں لیٹا شخص: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>بستر میں لیٹا شخص | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | نیند | ہوٹل</p> <p>بستر میں لیٹا شخص: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>بستر میں لیٹا شخص | جلد کی سیاہ رنگت | نیند | ہوٹل</p> <p>بستر میں لیٹا شخص: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی ہلکی رنگت اور جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی ہلکی رنگت اور جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی ہلکی رنگت اور جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی سیاہ رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی ہلکی رنگت اور جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی درمیانی رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی درمیانی رنگت اور جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی درمیانی رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی درمیانی رنگت اور جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی درمیانی رنگت اور جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی درمیانی رنگت اور جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی سیاہ رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی سیاہ رنگت اور جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی سیاہ رنگت اور جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی سیاہ رنگت اور جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی سیاہ رنگت اور جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | فرد | ہاتھ | ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ | ہاتھ تھامے لوگ</p> <p>ہاتھ پکڑے ہوئے لوگ: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی ہلکی رنگت اور جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی ہلکی رنگت اور جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی ہلکی رنگت اور جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی سیاہ رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی ہلکی رنگت اور جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی درمیانی رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی درمیانی رنگت اور جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی درمیانی رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی درمیانی رنگت اور جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی درمیانی رنگت اور جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی درمیانی رنگت اور جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی سیاہ رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی سیاہ رنگت اور جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی سیاہ رنگت اور جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی سیاہ رنگت اور جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی سیاہ رنگت اور جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | عورتیں | ہاتھ | ہاتھ تھامے دو عورتیں</p> <p>ہاتھ تھامے دو عورتیں: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی ہلکی رنگت اور جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی ہلکی رنگت اور جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی ہلکی رنگت اور جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی سیاہ رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی ہلکی رنگت اور جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی درمیانی رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی درمیانی رنگت اور جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی درمیانی رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی درمیانی رنگت اور جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی درمیانی رنگت اور جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی درمیانی رنگت اور جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی سیاہ رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی سیاہ رنگت اور جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی سیاہ رنگت اور جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی سیاہ رنگت اور جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی سیاہ رنگت اور جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>تھامنا | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | ہاتھ | ہاتھ تھامے مرد اور عورت</p> <p>ہاتھ تھامے مرد اور عورت: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی ہلکی رنگت اور جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی ہلکی رنگت اور جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی ہلکی رنگت اور جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی سیاہ رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی ہلکی رنگت اور جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی درمیانی رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت اور جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی درمیانی رنگت اور جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی درمیانی رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی درمیانی رنگت اور جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی درمیانی رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی درمیانی رنگت اور جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی درمیانی رنگت اور جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی درمیانی سیاہ رنگت اور جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی سیاہ رنگت | جلد کی ہلکی رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی سیاہ رنگت اور جلد کی ہلکی رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی سیاہ رنگت اور جلد کی درمیانی -ہلکی رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی درمیانی رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی سیاہ رنگت اور جلد کی درمیانی رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی درمیانی سیاہ رنگت | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی سیاہ رنگت اور جلد کی درمیانی سیاہ رنگت</p> <p>برج | برج جوزا | جڑواں | جلد کی سیاہ رنگت | جوڑا | مرد | ہاتھ تھامنا | ہاتھ تھامے دو مرد</p> <p>ہاتھ تھامے دو مرد: جلد کی سیاہ رنگت</p> <p>بوسہ | جوڑا | رومانس | عورت | مرد</p> <p>بوسہ: عورت اور مرد</p> <p>بوسہ | جوڑا | رومانس | مرد</p> <p>بوسہ: مرد اور مرد</p> <p>بوسہ | جوڑا | رومانس | عورت</p> <p>بوسہ: عورت اور عورت</p> <p>جوڑا | دل | دل اور جوڑا | رومانس | عورت | مرد</p> <p>دل اور جوڑا: عورت اور مرد</p> <p>جوڑا | دل | دل اور جوڑا | رومانس | مرد</p> <p>دل اور جوڑا: مرد اور مرد</p> <p>جوڑا | دل | دل اور جوڑا | رومانس | عورت</p> <p>دل اور جوڑا: عورت اور عورت</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | عورت | لڑکا | ماں | مرد</p> <p>خاندان: مرد، عورت، اور لڑکا</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | عورت | لڑکی | ماں | مرد</p> <p>خاندان: مرد، عورت، اور لڑکی</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | عورت | لڑکا | لڑکی | ماں | مرد</p> <p>خاندان: مرد، عورت، لڑکی، اور لڑکا</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | عورت | لڑکا | ماں | مرد</p> <p>خاندان: مرد، عورت، لڑکا، اور لڑکا</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | عورت | لڑکی | ماں | مرد</p> <p>خاندان: مرد، عورت، لڑکی، اور لڑکی</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | لڑکا | ماں | مرد</p> <p>خاندان: مرد، مرد، اور لڑکا</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | لڑکی | ماں | مرد</p> <p>خاندان: مرد، مرد، اور لڑکی</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | لڑکا | لڑکی | ماں | مرد</p> <p>خاندان: مرد، مرد، لڑکی، اور لڑکا</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | لڑکا | ماں | مرد</p> <p>خاندان: مرد، مرد، لڑکا، اور لڑکا</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | لڑکی | ماں | مرد</p> <p>خاندان: مرد، مرد، لڑکی، اور لڑکی</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | عورت | لڑکا | ماں</p> <p>خاندان: عورت، عورت، اور لڑکا</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | عورت | لڑکی | ماں</p> <p>خاندان: عورت، عورت، اور لڑکی</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | عورت | لڑکا | لڑکی | ماں</p> <p>خاندان: عورت، عورت، لڑکی، اور لڑکا</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | عورت | لڑکا | ماں</p> <p>خاندان: عورت، عورت، لڑکا، اور لڑکا</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | عورت | لڑکی | ماں</p> <p>خاندان: عورت، عورت، لڑکی، اور لڑکی</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | لڑکا | ماں | مرد</p> <p>خاندان: مرد اور لڑکا</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | لڑکا | ماں | مرد</p> <p>خاندان: مرد، لڑکا، اور لڑکا</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | لڑکی | ماں | مرد</p> <p>خاندان: مرد اور لڑکی</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | لڑکا | لڑکی | ماں | مرد</p> <p>خاندان: مرد، لڑکی، اور لڑکا</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | لڑکی | ماں | مرد</p> <p>خاندان: مرد، لڑکی، اور لڑکی</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | عورت | لڑکا | ماں</p> <p>خاندان: عورت اور لڑکا</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | عورت | لڑکا | ماں</p> <p>خاندان: عورت، لڑکا، اور لڑکا</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | عورت | لڑکی | ماں</p> <p>خاندان: عورت اور لڑکی</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | عورت | لڑکا | لڑکی | ماں</p> <p>خاندان: عورت، لڑکی، اور لڑکا</p> <p>باپ | بچہ | خاندان | عورت | لڑکی | ماں</p> <p>خاندان: عورت، لڑکی، اور لڑکی</p> <p>کی کیپ</p> <p>کی کیپ: #</p> <p>کی کیپ</p> <p>کی کیپ: *</p> <p>کی کیپ</p> <p>کی کیپ: 10</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: اسینشن آئلینڈ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: انڈورا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: متحدہ عرب امارات</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: افغانستان</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: انٹیگوا اور باربودا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: انگوئیلا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: البانیہ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: آرمینیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: انگولا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: انٹارکٹیکا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ارجنٹینا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: امریکی ساموآ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: آسٹریا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: آسٹریلیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: اروبا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: آلینڈ آئلینڈز</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: آذربائیجان</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: بوسنیا اور ہرزیگووینا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: بارباڈوس</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: بنگلہ دیش</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: بیلجیم</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: برکینا فاسو</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: بلغاریہ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: بحرین</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: برونڈی</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: بینن</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سینٹ برتھلیمی</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: برمودا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: برونائی</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: بولیویا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کریبیائی نیدرلینڈز</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: برازیل</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: بہاماس</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: بھوٹان</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: بؤویٹ آئلینڈ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: بوتسوانا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: بیلاروس</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: بیلائز</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کینیڈا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کوکوس (کیلنگ) جزائر</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کانگو - کنشاسا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: وسط افریقی جمہوریہ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کانگو - برازاویلے</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سوئٹزر لینڈ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کوٹ ڈی آئیوری</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کک آئلینڈز</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: چلی</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کیمرون</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: چین</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کولمبیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کلپرٹن آئلینڈ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کوسٹا ریکا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کیوبا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کیپ ورڈی</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کیوراکاؤ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: جزیرہ کرسمس</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: قبرص</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: چیکیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: جرمنی</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ڈائجو گارسیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: جبوتی</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ڈنمارک</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ڈومنیکا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: جمہوریہ ڈومينيکن</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: الجیریا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سیئوٹا اور میلیلا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ایکواڈور</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: اسٹونیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: مصر</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: مغربی صحارا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: اریٹیریا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ہسپانیہ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ایتھوپیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: یوروپی یونین</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: فن لینڈ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: فجی</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: فاکلینڈ جزائر</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: مائکرونیشیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: جزائر فارو</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: فرانس</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: گیبون</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سلطنت متحدہ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: گریناڈا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: جارجیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: فرینچ گیانا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: گوئرنسی</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: گھانا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: جبل الطارق</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: گرین لینڈ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: گیمبیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: گنی</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: گواڈیلوپ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: استوائی گیانا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: یونان</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: جنوبی جارجیا اور جنوبی سینڈوچ جزائر</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: گواٹے مالا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: گوام</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: گنی بساؤ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: گیانا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ہانگ کانگ SAR چین</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ہیرڈ جزیرہ و میکڈولینڈ جزائر</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ہونڈاروس</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کروشیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ہیٹی</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ہنگری</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کینری آئلینڈز</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: انڈونیشیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: آئرلینڈ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: اسرائیل</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: آئل آف مین</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: بھارت</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: برطانوی بحر ہند کا علاقہ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: عراق</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ایران</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: آئس لینڈ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: اٹلی</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: جرسی</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: جمائیکا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: اردن</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: جاپان</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کینیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کرغزستان</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کمبوڈیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کریباتی</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کوموروس</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سینٹ کٹس اور نیویس</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: شمالی کوریا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: جنوبی کوریا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کویت</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کیمین آئلینڈز</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: قزاخستان</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: لاؤس</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: لبنان</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سینٹ لوسیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: لیشٹنسٹائن</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سری لنکا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: لائبیریا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: لیسوتھو</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: لیتھونیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: لکسمبرگ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: لٹویا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: لیبیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: مراکش</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: موناکو</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: مالدووا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: مونٹے نیگرو</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سینٹ مارٹن</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: مڈغاسکر</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: مارشل آئلینڈز</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: شمالی مقدونیہ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: مالی</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: میانمار (برما)</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: منگولیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: مکاؤ SAR چین</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: شمالی ماریانا آئلینڈز</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: مارٹینک</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: موریطانیہ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: مونٹسیراٹ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: مالٹا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ماریشس</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: مالدیپ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ملاوی</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: میکسیکو</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ملائشیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: موزمبیق</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: نامیبیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: نیو کلیڈونیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: نائجر</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: نارفوک آئلینڈ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: نائجیریا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: نکاراگووا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: نیدر لینڈز</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ناروے</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: نیپال</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: نؤرو</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: نیئو</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: نیوزی لینڈ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: عمان</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: پانامہ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: پیرو</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: فرانسیسی پولینیشیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: پاپوآ نیو گنی</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: فلپائن</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: پاکستان</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: پولینڈ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سینٹ پیئر اور میکلیئون</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: پٹکائرن جزائر</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: پیورٹو ریکو</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: فلسطینی خطے</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: پرتگال</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: پلاؤ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: پیراگوئے</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: قطر</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ری یونین</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: رومانیہ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سربیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: روس</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: روانڈا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سعودی عرب</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سولومن آئلینڈز</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سشلیز</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سوڈان</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سویڈن</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سنگاپور</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سینٹ ہیلینا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سلووینیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سوالبرڈ اور جان ماین</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سلوواکیہ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سیرالیون</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سان مارینو</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سینیگل</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: صومالیہ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سورینام</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: جنوبی سوڈان</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ساؤ ٹومے اور پرنسپے</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ال سلواڈور</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سنٹ مارٹن</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: شام</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سواتنی</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ٹرسٹن ڈا کیونہا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ٹرکس اور کیکوس جزائر</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: چاڈ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: فرانسیسی جنوبی خطے</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ٹوگو</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: تھائی لینڈ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: تاجکستان</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ٹوکیلاؤ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: تیمور لیسٹ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ترکمانستان</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: تونس</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ٹونگا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ترکی</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ترینیداد اور ٹوباگو</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ٹووالو</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: تائیوان</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: تنزانیہ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: یوکرین</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: یوگنڈا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: امریکہ سے باہر کے چھوٹے جزائز</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: اقوام متحدہ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ریاست ہائے متحدہ امریکہ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: یوروگوئے</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ازبکستان</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ویٹیکن سٹی</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: سینٹ ونسنٹ اور گرینیڈائنز</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: وینزوئیلا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: برٹش ورجن آئلینڈز</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: امریکی ورجن آئلینڈز</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ویتنام</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: وینوآٹو</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ویلیز اور فیوٹیونا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ساموآ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: کوسووو</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: یمن</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: مایوٹ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: جنوبی افریقہ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: زامبیا</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: زمبابوے</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: انگلینڈ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: اسکاٹ لینڈ</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم: ویلز</p> <p>کی کیپ</p> <p>کی کیپ: 0</p> <p>کی کیپ</p> <p>کی کیپ: 1</p> <p>کی کیپ</p> <p>کی کیپ: 2</p> <p>کی کیپ</p> <p>کی کیپ: 3</p> <p>کی کیپ</p> <p>کی کیپ: 4</p> <p>کی کیپ</p> <p>کی کیپ: 5</p> <p>کی کیپ</p> <p>کی کیپ: 6</p> <p>کی کیپ</p> <p>کی کیپ: 7</p> <p>کی کیپ</p> <p>کی کیپ: 8</p> <p>کی کیپ</p> <p>کی کیپ: 9</p> </section> </body>
0047.xml
<meta> <title>Unicode Locale Data</title> <publication> <name>Unicode Common Locale Data Repository v36.1</name> <year>2020</year> <link>http://unicode.org/Public/cldr/36.1/</link> <copyright-holder>Unicode, Inc.</copyright-holder> <license-link>https://www.unicode.org/license.html</license-link> </publication> <num-words>7458</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> <notes>This is a modified version of the original document, retaining only data with Urdu words</notes> </meta>
Unicode Locale Data
7,458
Yes
<body> <section> <p>افار</p> <p>ابقازیان</p> <p>اچائینیز</p> <p>اکولی</p> <p>ادانگمے</p> <p>ادیگھے</p> <p>افریقی</p> <p>اغم</p> <p>اینو</p> <p>اکان</p> <p>الیوت</p> <p>جنوبی الٹائی</p> <p>امہاری</p> <p>اراگونیز</p> <p>انگیکا</p> <p>عربی</p> <p>ماڈرن اسٹینڈرڈ عربی</p> <p>ماپوچے</p> <p>اراپاہو</p> <p>آسامی</p> <p>آسو</p> <p>اسٹوریائی</p> <p>اواری</p> <p>اوادھی</p> <p>ایمارا</p> <p>آذربائیجانی</p> <p>ازیری</p> <p>آزربائیجانی (عربی)</p> <p>باشکیر</p> <p>بالینیز</p> <p>باسا</p> <p>بیلاروسی</p> <p>بیمبا</p> <p>بینا</p> <p>بلغاری</p> <p>مغربی بلوچی</p> <p>بھوجپوری</p> <p>بسلاما</p> <p>بینی</p> <p>سکسیکا</p> <p>بمبارا</p> <p>بنگلہ</p> <p>تبتی</p> <p>بریٹن</p> <p>بوڈو</p> <p>بوسنیائی</p> <p>بگینیز</p> <p>بلین</p> <p>کیٹالان</p> <p>چکمہ</p> <p>چیچن</p> <p>سیبوآنو</p> <p>چیگا</p> <p>چیمارو</p> <p>چوکیز</p> <p>ماری</p> <p>چاکٹاؤ</p> <p>چیروکی</p> <p>چینّے</p> <p>سینٹرل کردش</p> <p>کوراسیکن</p> <p>سیسلوا کریولے فرانسیسی</p> <p>چیک</p> <p>چرچ سلاوک</p> <p>چوواش</p> <p>ویلش</p> <p>ڈینش</p> <p>ڈاکوٹا</p> <p>درگوا</p> <p>تائتا</p> <p>جرمن</p> <p>آسٹریائی جرمن</p> <p>سوئس ہائی جرمن</p> <p>دوگریب</p> <p>زرما</p> <p>ذیلی سربیائی</p> <p>دوالا</p> <p>ڈیویہی</p> <p>جولا فونيا</p> <p>ژونگکھا</p> <p>دزاگا</p> <p>امبو</p> <p>ایو</p> <p>ایفِک</p> <p>ایکاجوی</p> <p>یونانی</p> <p>انگریزی</p> <p>آسٹریلیائی انگریزی</p> <p>کینیڈین انگریزی</p> <p>برطانوی انگریزی</p> <p>امریکی انگریزی</p> <p>امریکی انگریزی</p> <p>ایسپرانٹو</p> <p>ہسپانوی</p> <p>لاطینی امریکی ہسپانوی</p> <p>یورپی ہسپانوی</p> <p>میکسیکن ہسپانوی</p> <p>اسٹونین</p> <p>باسکی</p> <p>ایوانڈو</p> <p>فارسی</p> <p>فولہ</p> <p>فینیش</p> <p>فلیپینو</p> <p>فجی</p> <p>فیروئیز</p> <p>فون</p> <p>فرانسیسی</p> <p>کینیڈین فرانسیسی</p> <p>سوئس فرینچ</p> <p>کاجن فرانسیسی</p> <p>فریولیائی</p> <p>مغربی فریسیئن</p> <p>آئیرِش</p> <p>گا</p> <p>غاغاوز</p> <p>سکاٹش گیلک</p> <p>گیز</p> <p>گلبرتیز</p> <p>گالیشیائی</p> <p>گُارانی</p> <p>گورانٹالو</p> <p>سوئس جرمن</p> <p>گجراتی</p> <p>گسی</p> <p>مینکس</p> <p>گوئچ ان</p> <p>ہؤسا</p> <p>ہوائی</p> <p>عبرانی</p> <p>ہندی</p> <p>ہالیگینون</p> <p>ہمانگ</p> <p>کراتی</p> <p>اپر سربیائی</p> <p>ہیتی</p> <p>ہنگیرین</p> <p>ہیوپا</p> <p>آرمینیائی</p> <p>ہریرو</p> <p>بین لسانیات</p> <p>ایبان</p> <p>ابی بیو</p> <p>انڈونیثیائی</p> <p>اِگبو</p> <p>سچوان ای</p> <p>ایلوکو</p> <p>انگوش</p> <p>ایڈو</p> <p>آئس لینڈک</p> <p>اطالوی</p> <p>اینُکٹیٹٹ</p> <p>جاپانی</p> <p>لوجبان</p> <p>نگومبا</p> <p>ماشیم</p> <p>جاوی</p> <p>جارجیائی</p> <p>قبائلی</p> <p>کاچن</p> <p>جے جو</p> <p>کامبا</p> <p>کبارڈین</p> <p>تیاپ</p> <p>ماکونده</p> <p>کابويرديانو</p> <p>کورو</p> <p>کانگو</p> <p>کھاسی</p> <p>کويرا شيني</p> <p>کیکویو</p> <p>کونیاما</p> <p>قزاخ</p> <p>کاکو</p> <p>کالاليست</p> <p>کالينجين</p> <p>خمیر</p> <p>کیمبونڈو</p> <p>کنّاڈا</p> <p>کوریائی</p> <p>کومی پرمیاک</p> <p>کونکنی</p> <p>کیپیلّے</p> <p>کنوری</p> <p>کراچے بالکر</p> <p>کیرلین</p> <p>کوروکھ</p> <p>کشمیری</p> <p>شامبالا</p> <p>بافيا</p> <p>کولوگنیائی</p> <p>کردش</p> <p>کومیک</p> <p>کومی</p> <p>کورنش</p> <p>کرغیزی</p> <p>لاطینی</p> <p>لیڈینو</p> <p>لانگی</p> <p>لکسمبرگیش</p> <p>لیزگیان</p> <p>گینڈا</p> <p>لیمبرگش</p> <p>لاکوٹا</p> <p>لِنگَلا</p> <p>لاؤ</p> <p>لوزیانا کریول</p> <p>لوزی</p> <p>شمالی لری</p> <p>لیتھوینین</p> <p>لبا-کاتانجا</p> <p>لیوبا لولوآ</p> <p>لونڈا</p> <p>لو</p> <p>میزو</p> <p>لویا</p> <p>لیٹوین</p> <p>مدورسی</p> <p>مگاہی</p> <p>میتھیلی</p> <p>مکاسر</p> <p>مسائی</p> <p>موکشا</p> <p>میندے</p> <p>میرو</p> <p>موریسیین</p> <p>ملاگاسی</p> <p>ماخاوا-ميتو</p> <p>میٹا</p> <p>مارشلیز</p> <p>ماؤری</p> <p>مکمیک</p> <p>منانگکباؤ</p> <p>مقدونیائی</p> <p>مالایالم</p> <p>منگولین</p> <p>منی پوری</p> <p>موہاک</p> <p>موسی</p> <p>مراٹهی</p> <p>مالے</p> <p>مالٹی</p> <p>منڈانگ</p> <p>متعدد زبانیں</p> <p>کریک</p> <p>میرانڈیز</p> <p>برمی</p> <p>ارزیا</p> <p>مزندرانی</p> <p>ناؤرو</p> <p>نیاپولیٹن</p> <p>ناما</p> <p>نارویجین بوکمل</p> <p>شمالی دبیل</p> <p>ادنی جرمن</p> <p>ادنی سیکسن</p> <p>نیپالی</p> <p>نیواری</p> <p>نڈونگا</p> <p>نیاس</p> <p>نیویائی</p> <p>ڈچ</p> <p>فلیمِش</p> <p>کوايسو</p> <p>نارویجین نینورسک</p> <p>نگیمبون</p> <p>نارویجین</p> <p>نوگائی</p> <p>اینکو</p> <p>جنوبی نڈیبیلی</p> <p>شمالی سوتھو</p> <p>نویر</p> <p>نواجو</p> <p>نیانجا</p> <p>نینکول</p> <p>آکسیٹان</p> <p>اورومو</p> <p>اڑیہ</p> <p>اوسیٹک</p> <p>پنجابی</p> <p>پنگاسنان</p> <p>پامپنگا</p> <p>پاپیامینٹو</p> <p>پالاون</p> <p>نائجیریائی پڈگن</p> <p>پولش</p> <p>پارسی</p> <p>پشتو</p> <p>پُرتگالی</p> <p>برازیلی پرتگالی</p> <p>یورپی پرتگالی</p> <p>کویچوآ</p> <p>کيشی</p> <p>رپانوی</p> <p>راروتونگان</p> <p>رومانش</p> <p>رونڈی</p> <p>رومینین</p> <p>مالدووا</p> <p>رومبو</p> <p>روٹ</p> <p>روسی</p> <p>ارومانی</p> <p>کینیاروانڈا</p> <p>روا</p> <p>سنسکرت</p> <p>سنڈاوے</p> <p>ساکھا</p> <p>سامبورو</p> <p>سنتالی</p> <p>نگامبے</p> <p>سانگو</p> <p>سردینین</p> <p>سیسیلین</p> <p>سکاٹ</p> <p>سندھی</p> <p>جنوبی کرد</p> <p>شمالی سامی</p> <p>سینا</p> <p>کويرابورو سينی</p> <p>ساںغو</p> <p>سربو-کروئیشین</p> <p>تشلحيت</p> <p>شان</p> <p>سنہالا</p> <p>سلوواک</p> <p>سلووینیائی</p> <p>ساموآن</p> <p>جنوبی سامی</p> <p>لول سامی</p> <p>اناری سامی</p> <p>سکولٹ سامی</p> <p>شونا</p> <p>سوننکے</p> <p>صومالی</p> <p>البانی</p> <p>سربین</p> <p>سرانن ٹونگو</p> <p>سواتی</p> <p>ساہو</p> <p>جنوبی سوتھو</p> <p>سنڈانیز</p> <p>سکوما</p> <p>سویڈش</p> <p>سواحلی</p> <p>کانگو سواحلی</p> <p>کوموریائی</p> <p>سریانی</p> <p>تمل</p> <p>تیلگو</p> <p>ٹمنے</p> <p>تیسو</p> <p>ٹیٹم</p> <p>تاجک</p> <p>تھائی</p> <p>ٹگرینیا</p> <p>ٹگرے</p> <p>ترکمان</p> <p>ٹیگا لوگ</p> <p>کلنگن</p> <p>سوانا</p> <p>ٹونگن</p> <p>ٹوک پِسِن</p> <p>ترکی</p> <p>ٹوروکو</p> <p>زونگا</p> <p>تاتار</p> <p>ٹمبوکا</p> <p>تووالو</p> <p>توی</p> <p>تاساواق</p> <p>تاہیتی</p> <p>تووینین</p> <p>سینٹرل ایٹلس ٹمازائٹ</p> <p>ادمورت</p> <p>یوئگہر</p> <p>یوکرینیائی</p> <p>اومبوندو</p> <p>نامعلوم زبان</p> <p>اردو</p> <p>ازبیک</p> <p>وائی</p> <p>وینڈا</p> <p>ویتنامی</p> <p>وولاپوک</p> <p>ونجو</p> <p>والون</p> <p>والسر</p> <p>وولایتا</p> <p>وارے</p> <p>وارلپیری</p> <p>وولوف</p> <p>کالمیک</p> <p>ژوسا</p> <p>سوگا</p> <p>یانگبین</p> <p>یمبا</p> <p>یدش</p> <p>یوروبا</p> <p>کینٹونیز</p> <p>چینی، کینٹونیز</p> <p>اسٹینڈرڈ مراقشی تمازیقی</p> <p>چینی</p> <p>چینی، مندارن</p> <p>چینی (آسان کردہ)</p> <p>سادہ مندارن چینی</p> <p>روایتی چینی</p> <p>روایتی مندارن چینی</p> <p>زولو</p> <p>زونی</p> <p>کوئی لسانی مواد نہیں</p> <p>زازا</p> <p>عربی</p> <p>فارسی عربی</p> <p>آرمینیائی</p> <p>بنگالی</p> <p>بوپوموفو</p> <p>بریل</p> <p>سیریلک</p> <p>دیوناگری</p> <p>ایتھوپیائی</p> <p>جارجیائی</p> <p>یونانی</p> <p>گجراتی</p> <p>گرمکھی</p> <p>ہینب</p> <p>ہنگول</p> <p>ہان</p> <p>آسان</p> <p>آسان ہان</p> <p>روایتی</p> <p>روایتی ہان</p> <p>عبرانی</p> <p>ہیراگینا</p> <p>جاپانی سیلابریز</p> <p>جامو</p> <p>جاپانی</p> <p>کٹاکانا</p> <p>خمیر</p> <p>کنڑ</p> <p>کوریائی</p> <p>لاؤ</p> <p>لاطینی</p> <p>ملیالم</p> <p>منگولیائی</p> <p>میانمار</p> <p>اڑیہ</p> <p>سنہالا</p> <p>تمل</p> <p>تیلگو</p> <p>تھانا</p> <p>تھائی</p> <p>تبتی</p> <p>ریاضی کی علامتیں</p> <p>ایموجی</p> <p>علامات</p> <p>غیر تحریر شدہ</p> <p>عام</p> <p>نامعلوم رسم الخط</p> <p>دنیا</p> <p>افریقہ</p> <p>شمالی امریکہ</p> <p>جنوبی امریکہ</p> <p>اوشیانیا</p> <p>مغربی افریقہ</p> <p>وسطی امریکہ</p> <p>مشرقی افریقہ</p> <p>شمالی افریقہ</p> <p>وسطی افریقہ</p> <p>جنوبی افریقہ کے علاقہ</p> <p>امیریکاز</p> <p>شمالی امریکہ کا علاقہ</p> <p>کریبیائی</p> <p>مشرقی ایشیا</p> <p>جنوبی ایشیا</p> <p>جنوب مشرقی ایشیا</p> <p>جنوبی یورپ</p> <p>آسٹریلیشیا</p> <p>مالینیشیا</p> <p>مائکرونیشیائی علاقہ</p> <p>پولینیشیا</p> <p>ایشیا</p> <p>وسطی ایشیا</p> <p>مغربی ایشیا</p> <p>یورپ</p> <p>مشرقی یورپ</p> <p>شمالی یورپ</p> <p>مغربی یورپ</p> <p>ذیلی صحارن افریقہ</p> <p>لاطینی امریکہ</p> <p>اسینشن آئلینڈ</p> <p>انڈورا</p> <p>متحدہ عرب امارات</p> <p>افغانستان</p> <p>انٹیگوا اور باربودا</p> <p>انگوئیلا</p> <p>البانیہ</p> <p>آرمینیا</p> <p>انگولا</p> <p>انٹارکٹیکا</p> <p>ارجنٹینا</p> <p>امریکی ساموآ</p> <p>آسٹریا</p> <p>آسٹریلیا</p> <p>اروبا</p> <p>آلینڈ آئلینڈز</p> <p>آذربائیجان</p> <p>بوسنیا اور ہرزیگووینا</p> <p>بارباڈوس</p> <p>بنگلہ دیش</p> <p>بیلجیم</p> <p>برکینا فاسو</p> <p>بلغاریہ</p> <p>بحرین</p> <p>برونڈی</p> <p>بینن</p> <p>سینٹ برتھلیمی</p> <p>برمودا</p> <p>برونائی</p> <p>بولیویا</p> <p>کریبیائی نیدرلینڈز</p> <p>برازیل</p> <p>بہاماس</p> <p>بھوٹان</p> <p>بؤویٹ آئلینڈ</p> <p>بوتسوانا</p> <p>بیلاروس</p> <p>بیلائز</p> <p>کینیڈا</p> <p>کوکوس (کیلنگ) جزائر</p> <p>کانگو - کنشاسا</p> <p>کانگو <annotation lang="en">(DRC)</annotation></p> <p>وسط افریقی جمہوریہ</p> <p>کانگو - برازاویلے</p> <p>کانگو (جمہوریہ)</p> <p>سوئٹزر لینڈ</p> <p>کوٹ ڈی آئیوری</p> <p>آئیوری کوسٹ</p> <p>کک آئلینڈز</p> <p>چلی</p> <p>کیمرون</p> <p>چین</p> <p>کولمبیا</p> <p>کلپرٹن آئلینڈ</p> <p>کوسٹا ریکا</p> <p>کیوبا</p> <p>کیپ ورڈی</p> <p>کیوراکاؤ</p> <p>جزیرہ کرسمس</p> <p>قبرص</p> <p>چیکیا</p> <p>چیک جمہوریہ</p> <p>جرمنی</p> <p>ڈائجو گارسیا</p> <p>جبوتی</p> <p>ڈنمارک</p> <p>ڈومنیکا</p> <p>جمہوریہ ڈومينيکن</p> <p>الجیریا</p> <p>سیئوٹا اور میلیلا</p> <p>ایکواڈور</p> <p>اسٹونیا</p> <p>مصر</p> <p>مغربی صحارا</p> <p>اریٹیریا</p> <p>ہسپانیہ</p> <p>ایتھوپیا</p> <p>یوروپی یونین</p> <p>یوروزون</p> <p>فن لینڈ</p> <p>فجی</p> <p>فاکلینڈ جزائر</p> <p>فاکلینڈ جزائر (مالویناس)</p> <p>مائکرونیشیا</p> <p>جزائر فارو</p> <p>فرانس</p> <p>گیبون</p> <p>سلطنت متحدہ</p> <p>یو کے</p> <p>گریناڈا</p> <p>جارجیا</p> <p>فرینچ گیانا</p> <p>گوئرنسی</p> <p>گھانا</p> <p>جبل الطارق</p> <p>گرین لینڈ</p> <p>گیمبیا</p> <p>گنی</p> <p>گواڈیلوپ</p> <p>استوائی گیانا</p> <p>یونان</p> <p>جنوبی جارجیا اور جنوبی سینڈوچ جزائر</p> <p>گواٹے مالا</p> <p>گوام</p> <p>گنی بساؤ</p> <p>گیانا</p> <p>ہانگ کانگ <annotation lang="en">SAR</annotation> چین</p> <p>ہانگ کانگ</p> <p>ہیرڈ جزیرہ و میکڈولینڈ جزائر</p> <p>ہونڈاروس</p> <p>کروشیا</p> <p>ہیٹی</p> <p>ہنگری</p> <p>کینری آئلینڈز</p> <p>انڈونیشیا</p> <p>آئرلینڈ</p> <p>اسرائیل</p> <p>آئل آف مین</p> <p>بھارت</p> <p>برطانوی بحر ہند کا علاقہ</p> <p>عراق</p> <p>ایران</p> <p>آئس لینڈ</p> <p>اٹلی</p> <p>جرسی</p> <p>جمائیکا</p> <p>اردن</p> <p>جاپان</p> <p>کینیا</p> <p>کرغزستان</p> <p>کمبوڈیا</p> <p>کریباتی</p> <p>کوموروس</p> <p>سینٹ کٹس اور نیویس</p> <p>شمالی کوریا</p> <p>جنوبی کوریا</p> <p>کویت</p> <p>کیمین آئلینڈز</p> <p>قزاخستان</p> <p>لاؤس</p> <p>لبنان</p> <p>سینٹ لوسیا</p> <p>لیشٹنسٹائن</p> <p>سری لنکا</p> <p>لائبیریا</p> <p>لیسوتھو</p> <p>لیتھونیا</p> <p>لکسمبرگ</p> <p>لٹویا</p> <p>لیبیا</p> <p>مراکش</p> <p>موناکو</p> <p>مالدووا</p> <p>مونٹے نیگرو</p> <p>سینٹ مارٹن</p> <p>مڈغاسکر</p> <p>مارشل آئلینڈز</p> <p>شمالی مقدونیہ</p> <p>مالی</p> <p>میانمار (برما)</p> <p>منگولیا</p> <p>مکاؤ <annotation lang="en">SAR</annotation> چین</p> <p>مکاؤ</p> <p>شمالی ماریانا آئلینڈز</p> <p>مارٹینک</p> <p>موریطانیہ</p> <p>مونٹسیراٹ</p> <p>مالٹا</p> <p>ماریشس</p> <p>مالدیپ</p> <p>ملاوی</p> <p>میکسیکو</p> <p>ملائشیا</p> <p>موزمبیق</p> <p>نامیبیا</p> <p>نیو کلیڈونیا</p> <p>نائجر</p> <p>نارفوک آئلینڈ</p> <p>نائجیریا</p> <p>نکاراگووا</p> <p>نیدر لینڈز</p> <p>ناروے</p> <p>نیپال</p> <p>نؤرو</p> <p>نیئو</p> <p>نیوزی لینڈ</p> <p>عمان</p> <p>پانامہ</p> <p>پیرو</p> <p>فرانسیسی پولینیشیا</p> <p>پاپوآ نیو گنی</p> <p>فلپائن</p> <p>پاکستان</p> <p>پولینڈ</p> <p>سینٹ پیئر اور میکلیئون</p> <p>پٹکائرن جزائر</p> <p>پیورٹو ریکو</p> <p>فلسطینی خطے</p> <p>فلسطین</p> <p>پرتگال</p> <p>پلاؤ</p> <p>پیراگوئے</p> <p>قطر</p> <p>بیرونی اوشیانیا</p> <p>ری یونین</p> <p>رومانیہ</p> <p>سربیا</p> <p>روس</p> <p>روانڈا</p> <p>سعودی عرب</p> <p>سولومن آئلینڈز</p> <p>سشلیز</p> <p>سوڈان</p> <p>سویڈن</p> <p>سنگاپور</p> <p>سینٹ ہیلینا</p> <p>سلووینیا</p> <p>سوالبرڈ اور جان ماین</p> <p>سلوواکیہ</p> <p>سیرالیون</p> <p>سان مارینو</p> <p>سینیگل</p> <p>صومالیہ</p> <p>سورینام</p> <p>جنوبی سوڈان</p> <p>ساؤ ٹومے اور پرنسپے</p> <p>ال سلواڈور</p> <p>سنٹ مارٹن</p> <p>شام</p> <p>سواتنی</p> <p>سوازی لینڈ</p> <p>ٹرسٹن ڈا کیونہا</p> <p>ٹرکس اور کیکوس جزائر</p> <p>چاڈ</p> <p>فرانسیسی جنوبی خطے</p> <p>ٹوگو</p> <p>تھائی لینڈ</p> <p>تاجکستان</p> <p>ٹوکیلاؤ</p> <p>تیمور لیسٹ</p> <p>مشرقی تیمور</p> <p>ترکمانستان</p> <p>تونس</p> <p>ٹونگا</p> <p>ترکی</p> <p>ترینیداد اور ٹوباگو</p> <p>ٹووالو</p> <p>تائیوان</p> <p>تنزانیہ</p> <p>یوکرین</p> <p>یوگنڈا</p> <p>امریکہ سے باہر کے چھوٹے جزائز</p> <p>اقوام متحدہ</p> <p>اقوام متحدہ</p> <p>ریاست ہائے متحدہ امریکہ</p> <p>امریکا</p> <p>یوروگوئے</p> <p>ازبکستان</p> <p>ویٹیکن سٹی</p> <p>سینٹ ونسنٹ اور گرینیڈائنز</p> <p>وینزوئیلا</p> <p>برٹش ورجن آئلینڈز</p> <p>امریکی ورجن آئلینڈز</p> <p>ویتنام</p> <p>وینوآٹو</p> <p>ویلیز اور فیوٹیونا</p> <p>ساموآ</p> <p>بناوٹی لہجے</p> <p>مصنوعی بیڑی</p> <p>کوسووو</p> <p>یمن</p> <p>مایوٹ</p> <p>جنوبی افریقہ</p> <p>زامبیا</p> <p>زمبابوے</p> <p>نامعلوم علاقہ</p> <p>کیلنڈر</p> <p>کرنسی فارمیٹ</p> <p>علامات کی چھٹائی نظرانداز کریں</p> <p>معکوس تلفظ کی چھٹائی</p> <p>بڑے حروف/ چھوٹے حروف کی ترتیب بندی</p> <p>حروف کے تئیں حساس چھٹائی</p> <p>چھٹائی کی ترتیب</p> <p>معمول کی چھانٹی</p> <p>عددی چھانٹی</p> <p>چھانٹی کی قوت</p> <p>کرنسی</p> <p>گھنٹہ سائیکل (12 بنام 24)</p> <p>لائن بریک انداز</p> <p>پیمائش کا نظام</p> <p>اعداد</p> <p>منطقۂ وقت</p> <p>مقام کا متغیرہ</p> <p>نجی-استعمال</p> <p>بودھ کلینڈر</p> <p>چینی کیلنڈر</p> <p>کاپٹک کیلنڈر</p> <p>ڈانگی کیلنڈر</p> <p>ایتھوپیائی کیلنڈر</p> <p>ایتھوپک امیٹ الیم کیلنڈر</p> <p>جارجیائی کیلنڈر</p> <p>عبرانی کیلنڈر</p> <p>ہندوستانی قومی کیلنڈر</p> <p>اسلامی کیلنڈر</p> <p>اسلامی شہری کیلنڈر</p> <p>اسلامی کیلنڈر (ام القراہ)</p> <p>جاپانی کیلنڈر</p> <p>فارسی کیلنڈر</p> <p>منگوو کیلنڈر</p> <p>اکاؤنٹنگ کرنسی فارمیٹ</p> <p>اسٹینڈرڈ کرنسی فارمیٹ</p> <p>علامات کی چھٹائی کریں</p> <p>علامات کو نظرانداز کر کے چھٹائی کریں</p> <p>لہجوں کی چھٹائی معمول کے انداز میں کریں</p> <p>لہجوں کی معکوس چھٹائی کریں</p> <p>پہلے چھوٹے حروف کی چھٹائی کریں</p> <p>معمول کے حروف کی ترتیب کی چھٹائی کریں</p> <p>پہلے بالائی حروف کی چھٹائی کریں</p> <p>حروف کی عدم حساسیت کی چھٹائی کریں</p> <p>حروف کے تئیں حساس کی چھٹائی کریں</p> <p>روایتی چینی کی چھٹائی کی ترتیب - <annotation lang="en">Big5</annotation></p> <p>سابقہ چھٹائی کی ترتیب، مطابقت کیلئے</p> <p>لغت کی چھٹنی کی ترتیب</p> <p>ڈیفالٹ یونی کوڈ چھانٹی کی ترتیب</p> <p>یورپی ترتیبی قوانین</p> <p>آسان چینی کی چھٹائی کی ترتیب - <annotation lang="en">GB2312</annotation></p> <p>فون بک کی چھٹنی کی ترتیب</p> <p>صوتی چھٹائی کی ترتیب</p> <p>پن ین کی چھٹنی کی ترتیب</p> <p>دوبارہ تشکیل شدہ چھٹنی کی ترتیب</p> <p>عام-مقصد کی تلاش</p> <p>معیاری چھانٹی کی ترتیب</p> <p>سٹروک کی چھٹنی کی ترتیب</p> <p>روایتی چھٹنی کی ترتیب</p> <p>اساسی-سٹروک کی چھٹنی کی ترتیب</p> <p>حسب معمول بنائے بغیر چھٹائی کریں</p> <p>معمول کے یونیکوڈ کی چھٹائی کریں</p> <p>انفرادی طور پر ہندسوں کی چھٹائی کریں</p> <p>اعداد کے لحاظ سے ہندسوں کی چھٹائی کریں</p> <p>سبھی کی چھٹائی کریں</p> <p>صرف اساسی حروف کی چھٹائی کریں</p> <p>لہجہ/ بڑے چھوٹے حروف/چوڑائی/<annotation lang="en">Kana</annotation> کی چھٹائی کریں</p> <p>لہجوں کی چھٹائی کریں</p> <p>لہجوں/حروف/چوڑائی کی چھٹائی کریں</p> <p>پورا عرض</p> <p>نصف عرض</p> <p>عددی</p> <p>12 گھنٹے کا نظام (0–11)</p> <p>12 گھنٹے کا نظام (1–12)</p> <p>24 گھنٹے کا نظام (0–23)</p> <p>24 گھنٹے کا نظام (1–24)</p> <p>ڈھیلا لائن بریک انداز</p> <p>عمومی لائن بریک انداز</p> <p>سخت لائن بریک انداز</p> <p>میٹرک نظام</p> <p>پیمائش کا امپیریل نظام</p> <p>پیمائش کا امریکی نظام</p> <p>عربی ہندی ہندسے</p> <p>توسیع شدہ عربی ہندی ہندسے</p> <p>آرمینیائی اعداد</p> <p>آرمینیائی زیریں اعداد</p> <p>بنگالی ہندسے</p> <p>دیوناگری ہندسے</p> <p>ایتھوپیائی اعداد</p> <p>مالیاتی ہندسے</p> <p>پورے عرض والے ہندسے</p> <p>جارجیائی اعداد</p> <p>یونانی اعداد</p> <p>یونانی زیریں اعداد</p> <p>گجراتی ہندسے</p> <p>گرمکھی ہندسے</p> <p>چینی اعشاری اعداد</p> <p>آسان چینی اعداد</p> <p>آسان چینی مالی اعداد</p> <p>روایتی چینی اعداد</p> <p>روایتی چینی مالی اعداد</p> <p>عبرانی اعداد</p> <p>جاپانی اعداد</p> <p>جاپانی مالی اعداد</p> <p>خمیر ہندسے</p> <p>کنڑ ہندسے</p> <p>لاؤ ہندسے</p> <p>مغربی ہندسے</p> <p>ملیالم ہندسے</p> <p>منگولیائی ہندسے</p> <p>میانمار کے ہندسے</p> <p>اصل ہندسے</p> <p>اڑیہ ہندسے</p> <p>رومن اعداد</p> <p>رومن زیریں اعداد</p> <p>روایتی تمل اعداد</p> <p>تمل اعداد</p> <p>تیلگو ہندسے</p> <p>تھائی ہندسے</p> <p>تبتی اعداد</p> <p>روایتی اعداد</p> <p>وائی ہندسے</p> <p>میٹرک</p> <p>برطانیہ</p> <p>ریاست ہائے متحدہ امریکہ</p> <p>زبان:</p> <p>رسم الخط:</p> <p>خطہ:</p> <p>ٹاؤٹ</p> <p>بابا</p> <p>ہیٹر</p> <p>کیاہک</p> <p>توبا</p> <p>امشیر</p> <p>برمہات</p> <p>برموڈا</p> <p>بشانس</p> <p>پاؤنا</p> <p>ایپپ</p> <p>میسرا</p> <p>ناسی</p> <p>ٹاؤٹ</p> <p>بابا</p> <p>ہیٹر</p> <p>کیاہک</p> <p>توبا</p> <p>امشیر</p> <p>برمہات</p> <p>برموڈا</p> <p>بشانس</p> <p>پاؤنا</p> <p>ایپپ</p> <p>میسرا</p> <p>ناسی</p> <p>ٹاؤٹ</p> <p>بابا</p> <p>ہیٹر</p> <p>کیاہک</p> <p>توبا</p> <p>امشیر</p> <p>برمہات</p> <p>برموڈا</p> <p>بشانس</p> <p>پاؤنا</p> <p>ایپپ</p> <p>میسرا</p> <p>ناسی</p> <p>ٹاؤٹ</p> <p>بابا</p> <p>ہیٹر</p> <p>کیاہک</p> <p>توبا</p> <p>امشیر</p> <p>برمہات</p> <p>برموڈا</p> <p>بشانس</p> <p>پاؤنا</p> <p>ایپپ</p> <p>میسرا</p> <p>ناسی</p> <p>دور0</p> <p>دور1</p> <p>دور0</p> <p>دور1</p> <p>دور0</p> <p>دور1</p> <p>مسکرم</p> <p>تیکیمت</p> <p>ہیدر</p> <p>تہساس</p> <p>تیر</p> <p>یکاتیت</p> <p>میگابت</p> <p>میازیا</p> <p>گیمبوٹ</p> <p>سینے</p> <p>ہیملے</p> <p>نیہاسے</p> <p>پیگیومین</p> <p>مسکرم</p> <p>تیکیمت</p> <p>ہیدر</p> <p>تہساس</p> <p>تیر</p> <p>یکاتیت</p> <p>میگابت</p> <p>میازیا</p> <p>گیمبوٹ</p> <p>سینے</p> <p>ہیملے</p> <p>نیہاسے</p> <p>پیگیومین</p> <p>مسکرم</p> <p>تیکیمت</p> <p>ہیدر</p> <p>تہساس</p> <p>تیر</p> <p>یکاتیت</p> <p>میگابت</p> <p>میازیا</p> <p>گیمبوٹ</p> <p>سینے</p> <p>ہیملے</p> <p>نیہاسے</p> <p>پیگیومین</p> <p>مسکرم</p> <p>تیکیمت</p> <p>ہیدر</p> <p>تہساس</p> <p>تیر</p> <p>یکاتیت</p> <p>میگابت</p> <p>میازیا</p> <p>گیمبوٹ</p> <p>سینے</p> <p>ہیملے</p> <p>نیہاسے</p> <p>پیگیومین</p> <p>دور0</p> <p>دور1</p> <p>دور0</p> <p>دور1</p> <p>دور0</p> <p>دور1</p> <p>جنوری</p> <p>فروری</p> <p>مارچ</p> <p>اپریل</p> <p>مئی</p> <p>جون</p> <p>جولائی</p> <p>اگست</p> <p>ستمبر</p> <p>اکتوبر</p> <p>نومبر</p> <p>دسمبر</p> <p>جنوری</p> <p>فروری</p> <p>مارچ</p> <p>اپریل</p> <p>مئی</p> <p>جون</p> <p>جولائی</p> <p>اگست</p> <p>ستمبر</p> <p>اکتوبر</p> <p>نومبر</p> <p>دسمبر</p> <p>جنوری</p> <p>فروری</p> <p>مارچ</p> <p>اپریل</p> <p>مئی</p> <p>جون</p> <p>جولائی</p> <p>اگست</p> <p>ستمبر</p> <p>اکتوبر</p> <p>نومبر</p> <p>دسمبر</p> <p>جنوری</p> <p>فروری</p> <p>مارچ</p> <p>اپریل</p> <p>مئی</p> <p>جون</p> <p>جولائی</p> <p>اگست</p> <p>ستمبر</p> <p>اکتوبر</p> <p>نومبر</p> <p>دسمبر</p> <p>اتوار</p> <p>پیر</p> <p>منگل</p> <p>بدھ</p> <p>جمعرات</p> <p>جمعہ</p> <p>ہفتہ</p> <p>اتوار</p> <p>پیر</p> <p>منگل</p> <p>بدھ</p> <p>جمعرات</p> <p>جمعہ</p> <p>ہفتہ</p> <p>اتوار</p> <p>پیر</p> <p>منگل</p> <p>بدھ</p> <p>جمعرات</p> <p>جمعہ</p> <p>ہفتہ</p> <p>اتوار</p> <p>پیر</p> <p>منگل</p> <p>بدھ</p> <p>جمعرات</p> <p>جمعہ</p> <p>ہفتہ</p> <p>اتوار</p> <p>پیر</p> <p>منگل</p> <p>بدھ</p> <p>جمعرات</p> <p>جمعہ</p> <p>ہفتہ</p> <p>اتوار</p> <p>پیر</p> <p>منگل</p> <p>بدھ</p> <p>جمعرات</p> <p>جمعہ</p> <p>ہفتہ</p> <p>پہلی سہ ماہی</p> <p>دوسری سہ ماہی</p> <p>تیسری سہ ماہی</p> <p>چوتهی سہ ماہی</p> <p>پہلی سہ ماہی</p> <p>دوسری سہ ماہی</p> <p>تیسری سہ ماہی</p> <p>چوتهی سہ ماہی</p> <p>پہلی سہ ماہی</p> <p>دوسری سہ ماہی</p> <p>تیسری سہ ماہی</p> <p>چوتهی سہ ماہی</p> <p>پہلی سہ ماہی</p> <p>دوسری سہ ماہی</p> <p>تیسری سہ ماہی</p> <p>چوتهی سہ ماہی</p> <p>آدھی رات</p> <p>صبح</p> <p>دوپہر</p> <p>سہ پہر</p> <p>شام</p> <p>رات</p> <p>آدھی رات</p> <p>صبح</p> <p>دوپہر</p> <p>سہ پہر</p> <p>شام</p> <p>رات</p> <p>آدھی رات</p> <p>صبح میں</p> <p>دوپہر میں</p> <p>سہ پہر</p> <p>شام میں</p> <p>رات میں</p> <p>آدھی رات</p> <p>صبح</p> <p>دوپہر</p> <p>سہ پہر</p> <p>شام</p> <p>رات</p> <p>آدھی رات</p> <p>صبح</p> <p>دوپہر</p> <p>سہ پہر</p> <p>شام</p> <p>رات</p> <p>آدھی رات</p> <p>صبح</p> <p>دوپہر</p> <p>سہ پہر</p> <p>شام</p> <p>رات</p> <p>قبل مسیح</p> <p>عام دور سے قبل</p> <p>عیسوی</p> <p>عام دور</p> <p>قبل مسیح</p> <p>عیسوی</p> <p>ٹشری</p> <p>هےشوان</p> <p>کسلیو</p> <p>تیویت</p> <p>شیوت</p> <p>آدر اوّل</p> <p>آدر</p> <p>آدر دوّم</p> <p>نسان</p> <p>ایئر</p> <p>سیون</p> <p>تموز</p> <p>او</p> <p>ای لول</p> <p>ٹشری</p> <p>هےشوان</p> <p>کسلیو</p> <p>تیویت</p> <p>شیوت</p> <p>آدر اوّل</p> <p>آدر</p> <p>آدر دوّم</p> <p>نسان</p> <p>ایئر</p> <p>سیون</p> <p>تموز</p> <p>او</p> <p>ای لول</p> <p>ٹشری</p> <p>هےشوان</p> <p>کسلیو</p> <p>تیویت</p> <p>شیوت</p> <p>آدر اوّل</p> <p>آدر</p> <p>آدر دوّم</p> <p>نسان</p> <p>ایئر</p> <p>سیون</p> <p>تموز</p> <p>او</p> <p>ای لول</p> <p>ٹشری</p> <p>هےشوان</p> <p>کسلیو</p> <p>تیویت</p> <p>شیوت</p> <p>آدر اوّل</p> <p>آدر</p> <p>آدر دوّم</p> <p>نسان</p> <p>ایئر</p> <p>سیون</p> <p>تموز</p> <p>او</p> <p>ای لول</p> <p>چتررا</p> <p>ویساکھا</p> <p>جیہائشہ</p> <p>اسدھا</p> <p>سراؤنا</p> <p>بھدرا</p> <p>اسوینا</p> <p>کارتیکا</p> <p>اگراہانا</p> <p>پوسا</p> <p>میگا</p> <p>پھالگنا</p> <p>چتررا</p> <p>ویساکھا</p> <p>جیہائشہ</p> <p>اسدھا</p> <p>سراؤنا</p> <p>بھدرا</p> <p>اسوینا</p> <p>کارتیکا</p> <p>اگراہانا</p> <p>پوسا</p> <p>میگا</p> <p>پھالگنا</p> <p>چتررا</p> <p>ویساکھا</p> <p>جیہائشہ</p> <p>اسدھا</p> <p>سراؤنا</p> <p>بھدرا</p> <p>اسوینا</p> <p>کارتیکا</p> <p>اگراہانا</p> <p>پوسا</p> <p>میگا</p> <p>پھالگنا</p> <p>چتررا</p> <p>ویساکھا</p> <p>جیہائشہ</p> <p>اسدھا</p> <p>سراؤنا</p> <p>بھدرا</p> <p>اسوینا</p> <p>کارتیکا</p> <p>اگراہانا</p> <p>پوسا</p> <p>میگا</p> <p>پھالگنا</p> <p>ساکا</p> <p>ساکا</p> <p>ساکا</p> <p>محرم</p> <p>صفر</p> <p>ربیع الاوّل</p> <p>ربیع الثّانی</p> <p>جمادی الاوّل</p> <p>جمادی الثّانی</p> <p>رجب</p> <p>شعبان</p> <p>رمضان</p> <p>شوال</p> <p>ذوالقعدۃ</p> <p>ذوالحجۃ</p> <p>محرم</p> <p>صفر</p> <p>ر بیع الاول</p> <p>ر بیع الثانی</p> <p>جمادی الاول</p> <p>جمادی الثانی</p> <p>رجب</p> <p>شعبان</p> <p>رمضان</p> <p>شوال</p> <p>ذوالقعدۃ</p> <p>ذوالحجۃ</p> <p>محرم</p> <p>صفر</p> <p>ربیع الاوّل</p> <p>ربیع الثّانی</p> <p>جمادی الاوّل</p> <p>جمادی الثّانی</p> <p>رجب</p> <p>شعبان</p> <p>رمضان</p> <p>شوال</p> <p>ذوالقعدۃ</p> <p>ذوالحجۃ</p> <p>محرم</p> <p>صفر</p> <p>ر بیع الاول</p> <p>ر بیع الثانی</p> <p>جمادی الاول</p> <p>جمادی الثانی</p> <p>رجب</p> <p>شعبان</p> <p>رمضان</p> <p>شوال</p> <p>ذوالقعدۃ</p> <p>ذوالحجۃ</p> <p>ہجری</p> <p>ہجری</p> <p>ہجری</p> <p>فروردن</p> <p>آرڈبائش</p> <p>خداداد</p> <p>تیر</p> <p>مرداد</p> <p>شہریوار</p> <p>مہر</p> <p>ابان</p> <p>آزر</p> <p>ڈے</p> <p>بہمن</p> <p>اسفند</p> <p>فروردن</p> <p>آرڈبائش</p> <p>خداداد</p> <p>تیر</p> <p>مرداد</p> <p>شہریوار</p> <p>مہر</p> <p>ابان</p> <p>آزر</p> <p>ڈے</p> <p>بہمن</p> <p>اسفند</p> <p>فروردن</p> <p>آرڈبائش</p> <p>خداداد</p> <p>تیر</p> <p>مرداد</p> <p>شہریوار</p> <p>مہر</p> <p>ابان</p> <p>آزر</p> <p>ڈے</p> <p>بہمن</p> <p>اسفند</p> <p>فروردن</p> <p>آرڈبائش</p> <p>خداداد</p> <p>تیر</p> <p>مرداد</p> <p>شہریوار</p> <p>مہر</p> <p>ابان</p> <p>آزر</p> <p>ڈے</p> <p>بہمن</p> <p>اسفند</p> <p>قبل از جمہوریہ چین</p> <p>جمہوریہ چین</p> <p>قبل از جمہوریہ چین</p> <p>جمہوریہ چین</p> <p>قبل از جمہوریہ چین</p> <p>جمہوریہ چین</p> <p>عہد</p> <p>عہد</p> <p>عہد</p> <p>سال</p> <p>گزشتہ سال</p> <p>اس سال</p> <p>اگلے سال</p> <p>سال میں</p> <p>سال میں</p> <p>سال پہلے</p> <p>سال پہلے</p> <p>سال</p> <p>گزشتہ سال</p> <p>اس سال</p> <p>اگلے سال</p> <p>سال میں</p> <p>سال میں</p> <p>سال پہلے</p> <p>سال پہلے</p> <p>سال</p> <p>گزشتہ سال</p> <p>اس سال</p> <p>اگلے سال</p> <p>سال میں</p> <p>سال میں</p> <p>سال پہلے</p> <p>سال پہلے</p> <p>سہ ماہی</p> <p>گزشتہ سہ ماہی</p> <p>اس سہ ماہی</p> <p>اگلے سہ ماہی</p> <p>سہ ماہی میں</p> <p>سہ ماہی میں</p> <p>سہ ماہی پہلے</p> <p>سہ ماہی پہلے</p> <p>سہ ماہی</p> <p>سہ ماہی میں</p> <p>سہ ماہی میں</p> <p>سہ ماہی قبل</p> <p>سہ ماہی قبل</p> <p>سہ ماہی</p> <p>سہ ماہی میں</p> <p>سہ ماہی میں</p> <p>سہ ماہی پہلے</p> <p>سہ ماہی پہلے</p> <p>مہینہ</p> <p>گزشتہ ماہ</p> <p>اس ماہ</p> <p>اگلا مہینہ</p> <p>مہینہ میں</p> <p>مہینے میں</p> <p>مہینہ پہلے</p> <p>مہینے پہلے</p> <p>ماہ</p> <p>پچھلے مہینہ</p> <p>اس مہینہ</p> <p>اگلے مہینہ</p> <p>ماہ میں</p> <p>ماہ میں</p> <p>ماہ قبل</p> <p>ماہ قبل</p> <p>ماہ</p> <p>گزشتہ ماہ</p> <p>اس ماہ</p> <p>اگلے ماہ</p> <p>ماہ میں</p> <p>ماہ میں</p> <p>ماہ پہلے</p> <p>ماہ پہلے</p> <p>ہفتہ</p> <p>گزشتہ ہفتے</p> <p>اس ہفتہ</p> <p>اگلے ہفتے</p> <p>ہفتہ میں</p> <p>ہفتے میں</p> <p>ہفتہ پہلے</p> <p>ہفتے پہلے</p> <p>کے ہفتے</p> <p>ہفتہ</p> <p>پچھلے ہفتہ</p> <p>اس ہفتہ</p> <p>اگلے ہفتہ</p> <p>ہفتے میں</p> <p>ہفتے میں</p> <p>ہفتے پہلے</p> <p>ہفتے پہلے</p> <p>کے ہفتے</p> <p>ہفتہ</p> <p>پچھلے ہفتہ</p> <p>اس ہفتہ</p> <p>اگلے ہفتہ</p> <p>ہفتہ میں</p> <p>ہفتے میں</p> <p>ہفتہ پہلے</p> <p>ہفتے پہلے</p> <p>کے ہفتے</p> <p>مہینے کا ہفتہ</p> <p>مہینے کا ہفتہ</p> <p>مہینے کا ہفتہ</p> <p>دن</p> <p>گزشتہ پرسوں</p> <p>گزشتہ کل</p> <p>آج</p> <p>آئندہ کل</p> <p>آنے والا پرسوں</p> <p>دن میں</p> <p>دنوں میں</p> <p>دن پہلے</p> <p>دنوں پہلے</p> <p>دن</p> <p>گزشتہ پرسوں</p> <p>گزشتہ کل</p> <p>آج</p> <p>آئندہ کل</p> <p>آنے والا پرسوں</p> <p>دن میں</p> <p>دنوں میں</p> <p>دن پہلے</p> <p>دن پہلے</p> <p>دن</p> <p>گزشتہ پرسوں</p> <p>گزشتہ کل</p> <p>آج</p> <p>آئندہ کل</p> <p>آنے والا پرسوں</p> <p>دن میں</p> <p>دنوں میں</p> <p>دن پہلے</p> <p>دن پہلے</p> <p>یوم سال</p> <p>یوم سال</p> <p>یوم سال</p> <p>ہفتے کا دن</p> <p>ہفتے کا دن</p> <p>ہفتے کا دن</p> <p>مہینے کا یوم ہفتہ</p> <p>مہینے کا یوم ہفتہ</p> <p>مہینے کا یوم ہفتہ</p> <p>گزشتہ اتوار</p> <p>اس اتوار</p> <p>اگلے اتوار</p> <p>اتوار میں</p> <p>اتوار میں</p> <p>اتوار قبل</p> <p>اتوار قبل</p> <p>گزشتہ اتوار</p> <p>اس اتوار</p> <p>اگلے اتوار</p> <p>اتوار میں</p> <p>اتوار میں</p> <p>اتوار قبل</p> <p>اتوار قبل</p> <p>گزشتہ اتوار</p> <p>اس اتوار</p> <p>اگلے اتوار</p> <p>اتوار میں</p> <p>اتوار میں</p> <p>اتوار قبل</p> <p>اتوار قبل</p> <p>گزشتہ پیر</p> <p>اس پیر</p> <p>اگلے پیر</p> <p>پیر میں</p> <p>پیر میں</p> <p>پیر قبل</p> <p>پیر قبل</p> <p>گزشتہ پیر</p> <p>اس پیر</p> <p>اگلے پیر</p> <p>پیر میں</p> <p>پیر میں</p> <p>پیر قبل</p> <p>پیر قبل</p> <p>گزشتہ پیر</p> <p>اس پیر</p> <p>اگلے پیر</p> <p>پیر میں</p> <p>پیر میں</p> <p>پیر قبل</p> <p>پیر قبل</p> <p>گزشتہ منگل</p> <p>اس منگل</p> <p>اگلے منگل</p> <p>منگل میں</p> <p>منگل میں</p> <p>منگل قبل</p> <p>منگل قبل</p> <p>گزشتہ منگل</p> <p>اس منگل</p> <p>اگلے منگل</p> <p>منگل میں</p> <p>منگل میں</p> <p>منگل قبل</p> <p>منگل قبل</p> <p>گزشتہ منگل</p> <p>اس منگل</p> <p>اگلے منگل</p> <p>منگل میں</p> <p>منگل میں</p> <p>منگل قبل</p> <p>منگل قبل</p> <p>گزشتہ بدھ</p> <p>اس بدھ</p> <p>اگلے بدھ</p> <p>بدھ میں</p> <p>بدھ میں</p> <p>بدھ قبل</p> <p>بدھ قبل</p> <p>گزشتہ بدھ</p> <p>اس بدھ</p> <p>اگلے بدھ</p> <p>بدھ میں</p> <p>بدھ میں</p> <p>بدھ قبل</p> <p>بدھ قبل</p> <p>گزشتہ بدھ</p> <p>اس بدھ</p> <p>اگلے بدھ</p> <p>بدھ میں</p> <p>بدھ میں</p> <p>بدھ قبل</p> <p>بدھ قبل</p> <p>گزشتہ جمعرات</p> <p>اس جمعرات</p> <p>اگلے جمعرات</p> <p>جمعرات میں</p> <p>جمعرات میں</p> <p>جمعرات قبل</p> <p>جمعرات قبل</p> <p>گزشتہ جمعرات</p> <p>اس جمعرات</p> <p>اگلے جمعرات</p> <p>جمعرات میں</p> <p>جمعرات میں</p> <p>جمعرات قبل</p> <p>جمعرات قبل</p> <p>گزشتہ جمعرات</p> <p>اس جمعرات</p> <p>اگلی جمعرات</p> <p>جمعرات میں</p> <p>جمعرات میں</p> <p>جمعرات قبل</p> <p>جمعرات قبل</p> <p>گزشتہ جمعہ</p> <p>اس جمعہ</p> <p>اگلے جمعہ</p> <p>جمعہ میں</p> <p>جمعہ میں</p> <p>جمعہ قبل</p> <p>جمعہ قبل</p> <p>گزشتہ جمعہ</p> <p>اس جمعہ</p> <p>اگلے جمعہ</p> <p>جمعہ میں</p> <p>جمعہ میں</p> <p>جمعہ قبل</p> <p>جمعہ قبل</p> <p>گزشتہ جمعہ</p> <p>اس جمعہ</p> <p>اگلے جمعہ</p> <p>جمعہ میں</p> <p>جمعہ میں</p> <p>جمعہ قبل</p> <p>جمعہ قبل</p> <p>گزشتہ سنیچر</p> <p>اس سنیچر</p> <p>اگلے سنیچر</p> <p>سنیچر میں</p> <p>سنیچر میں</p> <p>سنیچر قبل</p> <p>سنیچر قبل</p> <p>گزشتہ سنیچر</p> <p>اس سنیچر</p> <p>اگلے سنیچر</p> <p>سنیچر میں</p> <p>سنیچر میں</p> <p>سنیچر قبل</p> <p>سنیچر قبل</p> <p>گزشتہ سنیچر</p> <p>اس سنیچر</p> <p>اگلے سنیچر</p> <p>سنیچر میں</p> <p>سنیچر میں</p> <p>سنیچر قبل</p> <p>سنیچر قبل</p> <p>قبل دوپہر/بعد دوپہر</p> <p>قبل دوپہر/بعد دوپہر</p> <p>قبل دوپہر/بعد دوپہر</p> <p>گھنٹہ</p> <p>اس گھنٹے</p> <p>گھنٹے میں</p> <p>گھنٹے میں</p> <p>گھنٹہ پہلے</p> <p>گھنٹے پہلے</p> <p>گھنٹہ</p> <p>گھنٹے میں</p> <p>گھنٹے میں</p> <p>گھنٹے پہلے</p> <p>گھنٹے پہلے</p> <p>گھنٹہ</p> <p>گھنٹے میں</p> <p>گھنٹوں میں</p> <p>گھنٹہ پہلے</p> <p>گھنٹے پہلے</p> <p>منٹ</p> <p>اس منٹ</p> <p>منٹ میں</p> <p>منٹ میں</p> <p>منٹ پہلے</p> <p>منٹ پہلے</p> <p>منٹ</p> <p>منٹ میں</p> <p>منٹ میں</p> <p>منٹ پہلے</p> <p>منٹ پہلے</p> <p>منٹ</p> <p>منٹ میں</p> <p>منٹ میں</p> <p>منٹ پہلے</p> <p>منٹ پہلے</p> <p>سیکنڈ</p> <p>اب</p> <p>سیکنڈ میں</p> <p>سیکنڈ میں</p> <p>سیکنڈ پہلے</p> <p>سیکنڈ پہلے</p> <p>سیکنڈ</p> <p>سیکنڈ میں</p> <p>سیکنڈ میں</p> <p>سیکنڈ پہلے</p> <p>سیکنڈ پہلے</p> <p>سیکنڈ</p> <p>سیکنڈ میں</p> <p>سیکنڈ میں</p> <p>سیکنڈ پہلے</p> <p>سیکنڈ پہلے</p> <p>منطقۂ وقت</p> <p>منطقۂ وقت</p> <p>منطقۂ وقت</p> <p>وقت</p> <p>ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>معیاری وقت</p> <p>سانتا ایزابیل</p> <p>ہونولولو</p> <p>کوآرڈینیٹڈ یونیورسل ٹائم</p> <p>نامعلوم شہر</p> <p>انڈورا</p> <p>دبئی</p> <p>کابل</p> <p>انٹیگوا</p> <p>انگویلا</p> <p>ٹیرانی</p> <p>یریوان</p> <p>لوانڈا</p> <p>روتھیرا</p> <p>پلمیر</p> <p>ٹرول</p> <p>سیووا</p> <p>ماؤسن</p> <p>ڈیوس</p> <p>ووستوک</p> <p>کیسی</p> <p>ڈومونٹ ڈی ارویلے</p> <p>میک مرڈو</p> <p>ریو گالیگوس</p> <p>مینڈوزا</p> <p>سان جوآن</p> <p>اوشوآئیا</p> <p>لا ریئوجا</p> <p>سان لوئس</p> <p>کیٹامارکا</p> <p>سالٹا</p> <p>جوجوئی</p> <p>ٹوکومین</p> <p>کورڈوبا</p> <p>بیونس آئرس</p> <p>پاگو پاگو</p> <p>ویانا</p> <p>پرتھ</p> <p>ایوکلا</p> <p>ڈارون</p> <p>اڈیلائڈ</p> <p>بروکن ہِل</p> <p>کیوری</p> <p>ملبورن</p> <p>ہوبارٹ</p> <p>لِنڈمین</p> <p>سڈنی</p> <p>برسبین</p> <p>میکواری</p> <p>لارڈ ہووے</p> <p>اروبا</p> <p>میریہام</p> <p>باکو</p> <p>سراجیوو</p> <p>بارباڈوس</p> <p>ڈھاکہ</p> <p>برسلز</p> <p>اؤگاڈؤگوو</p> <p>صوفیہ</p> <p>بحرین</p> <p>بجمبرا</p> <p>پورٹو نووو</p> <p>سینٹ برتھیلمی</p> <p>برمودا</p> <p>برونئی</p> <p>لا پاز</p> <p>کرالینڈیجک</p> <p>ایرونیپ</p> <p>ریئو برینکو</p> <p>پورٹو ویلہو</p> <p>بوآ وسٹا</p> <p>مناؤس</p> <p>کوئیابا</p> <p>سنٹارین</p> <p>کیمپو گرینڈ</p> <p>بیلیم</p> <p>اراگویانا</p> <p>ساؤ پالو</p> <p>باہیا</p> <p>فورٹالیزا</p> <p>میسیئو</p> <p>ریسائف</p> <p>نورونہا</p> <p>نساؤ</p> <p>تھمپو</p> <p>گبرون</p> <p>مِنسک</p> <p>بیلائز</p> <p>ڈاؤسن</p> <p>وہائٹ ہارس</p> <p>انووِک</p> <p>وینکوور</p> <p>فورٹ نیلسن</p> <p>ڈاؤسن کریک</p> <p>کریسٹون</p> <p>ایلو نائف</p> <p>ایڈمونٹن</p> <p>سوِفٹ کرنٹ</p> <p>کیمبرج کی کھاڑی</p> <p>ریجینا</p> <p>ونّیپیگ</p> <p>ریزولیوٹ</p> <p>رینی ریور</p> <p>رینکن انلیٹ</p> <p>اٹیکوکن</p> <p>تھنڈر بے</p> <p>نپیگون</p> <p>ٹورنٹو</p> <p>ایکالوئٹ</p> <p>پینگنِرٹنگ</p> <p>مونکٹن</p> <p>ہیلیفیکس</p> <p>گوس کی کھاڑی</p> <p>گلیس کی کھاڑی</p> <p>بلانک سبلون</p> <p>سینٹ جانز</p> <p>کوکوس</p> <p>کنشاسا</p> <p>لوبمباشی</p> <p>بنگوئی</p> <p>برازاویلے</p> <p>زیورخ</p> <p>عابدجان</p> <p>راروٹونگا</p> <p>ایسٹر</p> <p>پنٹا اریناس</p> <p>سنٹیاگو</p> <p>ڈوآلا</p> <p>یورومکی</p> <p>شنگھائی</p> <p>بگوٹا</p> <p>کوسٹا ریکا</p> <p>ہوانا</p> <p>کیپ ورڈی</p> <p>کیوراکاؤ</p> <p>کرسمس</p> <p>نکوسیا</p> <p>فاماگوسٹا</p> <p>پراگ</p> <p>بزنجن</p> <p>برلن</p> <p>جبوتی</p> <p>کوپن ہیگن</p> <p>ڈومنیکا</p> <p>سانتو ڈومنگو</p> <p>الجیئرس</p> <p>گیلاپیگوس</p> <p>گوآیاکوئل</p> <p>ٹالن</p> <p>قاہرہ</p> <p>العیون</p> <p>اسمارا</p> <p>کینری</p> <p>سیوٹا</p> <p>میڈرڈ</p> <p>عدیس ابابا</p> <p>ہیلسنکی</p> <p>فجی</p> <p>اسٹینلے</p> <p>چیوک</p> <p>پونپیئی</p> <p>کوسرائی</p> <p>فارو</p> <p>پیرس</p> <p>لبرے ویلے</p> <p>برٹش سمر ٹائم</p> <p>لندن</p> <p>غرناطہ</p> <p>طبلیسی</p> <p>کائین</p> <p>گرنزی</p> <p>اکّرا</p> <p>جبل الطارق</p> <p>تھولو</p> <p>نوک</p> <p>اسکورز بائی سنڈ</p> <p>ڈنمارک شاون</p> <p>بنجول</p> <p>کونکری</p> <p>گواڈیلوپ</p> <p>ملابو</p> <p>ایتھنز</p> <p>جنوبی جارجیا</p> <p>گواٹے مالا</p> <p>گوآم</p> <p>بِساؤ</p> <p>گیانا</p> <p>ہانگ کانگ</p> <p>ٹیگوسیگالپے</p> <p>زیگریب</p> <p>پورٹ او پرنس</p> <p>بڈاپسٹ</p> <p>جکارتہ</p> <p>پونٹیانک</p> <p>مکاسر</p> <p>جے پورہ</p> <p>آئرش اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>ڈبلن</p> <p>یروشلم</p> <p>آئل آف مین</p> <p>کولکاتا</p> <p>چاگوس</p> <p>بغداد</p> <p>تہران</p> <p>ریکجاوک</p> <p>روم</p> <p>جرسی</p> <p>جمائیکا</p> <p>امّان</p> <p>ٹوکیو</p> <p>نیروبی</p> <p>بشکیک</p> <p>پنوم پن</p> <p>اینڈربری</p> <p>کریتیماٹی</p> <p>ٹراوا</p> <p>کومورو</p> <p>سینٹ کٹس</p> <p>پیونگ یانگ</p> <p>سیئول</p> <p>کویت</p> <p>کیمین</p> <p>اکتاؤ</p> <p>اورال</p> <p>آتیراؤ</p> <p>اکٹوب</p> <p>کوستانے</p> <p>کیزیلورڈا</p> <p>الماٹی</p> <p>وینٹیانا</p> <p>بیروت</p> <p>سینٹ لوسیا</p> <p>ویڈوز</p> <p>کولمبو</p> <p>مونروویا</p> <p>مسیرو</p> <p>وِلنیئس</p> <p>لگژمبرگ</p> <p>ریگا</p> <p>ٹریپولی</p> <p>کیسا بلانکا</p> <p>موناکو</p> <p>چیسیناؤ</p> <p>پوڈگورسیا</p> <p>میریگوٹ</p> <p>انٹاناناریوو</p> <p>کواجیلین</p> <p>مجورو</p> <p>اسکوپجے</p> <p>بماکو</p> <p>رنگون</p> <p>ہووارڈ</p> <p>اولان باتار</p> <p>چوئبالسان</p> <p>مکاؤ</p> <p>سائپین</p> <p>مارٹینک</p> <p>نواکشوط</p> <p>مونٹسیراٹ</p> <p>مالٹا</p> <p>ماریشس</p> <p>مالدیپ</p> <p>بلینٹائر</p> <p>تیجوآنا</p> <p>ہرموسیلو</p> <p>میزٹلان</p> <p>چیہوآہوآ</p> <p>بہیا بندراز</p> <p>اوجیناگا</p> <p>مونٹیری</p> <p>میکسیکو سٹی</p> <p>میٹاموروس</p> <p>میریڈا</p> <p>کنکیون</p> <p>کوالا لمپور</p> <p>کیوچنگ</p> <p>مپوٹو</p> <p>ونڈہوک</p> <p>نؤمیا</p> <p>نیامی</p> <p>نورفوک</p> <p>لاگوس</p> <p>مناگوآ</p> <p>ایمسٹرڈم</p> <p>اوسلو</p> <p>کاٹھمنڈو</p> <p>ناؤرو</p> <p>نیئو</p> <p>چیتھم</p> <p>آکلینڈ</p> <p>مسقط</p> <p>پنامہ</p> <p>لیما</p> <p>تاہیتی</p> <p>مارکیساس</p> <p>گامبیئر</p> <p>پورٹ موریسبی</p> <p>بوگینولے</p> <p>منیلا</p> <p>کراچی</p> <p>وارسا</p> <p>میکلیئون</p> <p>پٹکائرن</p> <p>پیورٹو ریکو</p> <p>غزہ</p> <p>ہیبرون</p> <p>ازوریس</p> <p>مڈیئرا</p> <p>لسبن</p> <p>پلاؤ</p> <p>اسنسیئن</p> <p>قطر</p> <p>ری یونین</p> <p>بخارسٹ</p> <p>بلغراد</p> <p>کالينينغراد</p> <p>سمفروپول</p> <p>ماسکو</p> <p>وولگوگراد</p> <p>سیراٹو</p> <p>استراخان</p> <p>الیانوسک</p> <p>کیروف</p> <p>سمارا</p> <p>یکاٹیرِنبرگ</p> <p>اومسک</p> <p>نوووسِبِرسک</p> <p>برنال</p> <p>ٹامسک</p> <p>نوووکیوزنیسک</p> <p>کریسنویارسک</p> <p>ارکتسک</p> <p>چیتا</p> <p>یکوتسک</p> <p>ولادی ووستک</p> <p>خندیگا</p> <p>سخالین</p> <p>اوست-نیرا</p> <p>میگیدن</p> <p>سرہدنیکولیمسک</p> <p>کیمچٹکا</p> <p>انیدر</p> <p>کگالی</p> <p>ریاض</p> <p>گواڈل کینال</p> <p>ماہی</p> <p>خرطوم</p> <p>اسٹاک ہوم</p> <p>سنگاپور</p> <p>سینٹ ہیلینا</p> <p>لیوبلیانا</p> <p>لانگ ایئر بین</p> <p>بریٹِسلاوا</p> <p>فری ٹاؤن</p> <p>سان ماریانو</p> <p>ڈکار</p> <p>موگادیشو</p> <p>پراماریبو</p> <p>جوبا</p> <p>ساؤ ٹوم</p> <p>ال سلواڈور</p> <p>لوور پرنسس کوارٹر</p> <p>دمشق</p> <p>مبابین</p> <p>عظیم ترک</p> <p>اینجامینا</p> <p>کرگیولین</p> <p>لوم</p> <p>بنکاک</p> <p>دوشانبے</p> <p>فکاؤفو</p> <p>ڈلی</p> <p>اشغبت</p> <p>تیونس</p> <p>ٹونگاٹاپو</p> <p>استنبول</p> <p>پورٹ آف اسپین</p> <p>فیونافیوٹی</p> <p>تائپے</p> <p>دار السلام</p> <p>ازہوراڈ</p> <p>کیو</p> <p>زیپوروزائی</p> <p>کیمپالا</p> <p>مڈوے</p> <p>ویک</p> <p>اداک</p> <p>نوم</p> <p>جانسٹن</p> <p>اینکریج</p> <p>یکوٹیٹ</p> <p>سیٹکا</p> <p>جونیئو</p> <p>میٹلا کاٹلا</p> <p>لاس اینجلس</p> <p>بوائس</p> <p>فینکس</p> <p>ڈینور</p> <p>بیولاہ، شمالی ڈکوٹا</p> <p>نیو سلیم، شمالی ڈکوٹا</p> <p>وسط، شمالی ڈکوٹا</p> <p>شکاگو</p> <p>مینومینی</p> <p>ونسینیز، انڈیانا</p> <p>پیٹرزبرگ، انڈیانا</p> <p>ٹیل سٹی، انڈیانا</p> <p>کنوکس، انڈیانا</p> <p>وینامیک، انڈیانا</p> <p>مرینگو، انڈیانا</p> <p>انڈیاناپولس</p> <p>لوئس ویلے</p> <p>ویوے، انڈیانا</p> <p>مونٹیسیلو، کینٹوکی</p> <p>ڈیٹرائٹ</p> <p>نیو یارک</p> <p>مونٹی ویڈیو</p> <p>سمرقند</p> <p>تاشقند</p> <p>واٹیکن</p> <p>سینٹ ونسنٹ</p> <p>کراکاس</p> <p>ٹورٹولا</p> <p>سینٹ تھامس</p> <p>ہو چی منہ سٹی</p> <p>ایفیٹ</p> <p>ولّیس</p> <p>اپیا</p> <p>عدن</p> <p>مایوٹ</p> <p>جوہانسبرگ</p> <p>لیوساکا</p> <p>ہرارے</p> <p>افغانستان کا وقت</p> <p>وسطی افریقہ ٹائم</p> <p>مشرقی افریقہ ٹائم</p> <p>جنوبی افریقہ سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>مغربی افریقہ ٹائم</p> <p>مغربی افریقہ سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>مغربی افریقہ سمر ٹائم</p> <p>الاسکا ٹائم</p> <p>الاسکا اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>الاسکا ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>امیزون ٹائم</p> <p>ایمیزون کا معیاری وقت</p> <p>امیزون کا موسم گرما کا وقت</p> <p>سنٹرل ٹائم</p> <p>سنٹرل اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>سنٹرل ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>ایسٹرن ٹائم</p> <p>ایسٹرن اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>ایسٹرن ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>ماؤنٹین ٹائم</p> <p>ماؤنٹین اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>ماؤنٹین ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>پیسفک ٹائم</p> <p>پیسفک اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>پیسفک ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>انیدر ٹائم</p> <p>انیدر اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>انیدر سمر ٹائم</p> <p>ایپیا ٹائم</p> <p>ایپیا سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>ایپیا ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>عرب کا وقت</p> <p>عرب کا معیاری وقت</p> <p>عرب ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>ارجنٹینا کا وقت</p> <p>ارجنٹینا کا معیاری وقت</p> <p>ارجنٹینا کا موسم گرما کا وقت</p> <p>مغربی ارجنٹینا کا وقت</p> <p>مغربی ارجنٹینا کا معیاری وقت</p> <p>مغربی ارجنٹینا کا موسم گرما کا وقت</p> <p>آرمینیا کا وقت</p> <p>آرمینیا کا معیاری وقت</p> <p>آرمینیا کا موسم گرما کا وقت</p> <p>اٹلانٹک ٹائم</p> <p>اٹلانٹک اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>اٹلانٹک ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>سنٹرل آسٹریلیا ٹائم</p> <p>آسٹریلین سنٹرل اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>آسٹریلین سنٹرل ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>آسٹریلین سنٹرل ویسٹرن ٹائم</p> <p>آسٹریلین سنٹرل ویسٹرن اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>آسٹریلین سنٹرل ویسٹرن ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>ایسٹرن آسٹریلیا ٹائم</p> <p>آسٹریلین ایسٹرن اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>آسٹریلین ایسٹرن ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>ویسٹرن آسٹریلیا ٹائم</p> <p>آسٹریلیا ویسٹرن اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>آسٹریلین ویسٹرن ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>آذربائیجان کا وقت</p> <p>آذربائیجان کا معیاری وقت</p> <p>آذربائیجان کا موسم گرما کا وقت</p> <p>ازوریس کا وقت</p> <p>ازوریس کا معیاری وقت</p> <p>ازوریس کا موسم گرما کا وقت</p> <p>بنگلہ دیش کا وقت</p> <p>بنگلہ دیش کا معیاری وقت</p> <p>بنگلہ دیش کا موسم گرما کا وقت</p> <p>بھوٹان کا وقت</p> <p>بولیویا کا وقت</p> <p>برازیلیا ٹائم</p> <p>برازیلیا اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>برازیلیا سمر ٹائم</p> <p>برونئی دارالسلام ٹائم</p> <p>کیپ ورڈی ٹائم</p> <p>کیپ ورڈی سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>کیپ ورڈی سمر ٹائم</p> <p>چامورو سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>چیتھم ٹائم</p> <p>چیتھم اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>چیتھم ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>چلی کا وقت</p> <p>چلی کا معیاری وقت</p> <p>چلی کا موسم گرما کا وقت</p> <p>چین کا وقت</p> <p>چین سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>چینی ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>کوئبلسان ٹائم</p> <p>کوئبلسان سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>کوائبلسان سمر ٹائم</p> <p>کرسمس آئلینڈ ٹائم</p> <p>کوکوس آئلینڈز ٹائم</p> <p>کولمبیا ٹائم</p> <p>کولمبیا کا معیاری وقت</p> <p>کولمبیا کا موسم گرما کا وقت</p> <p>کک آئلینڈز ٹائم</p> <p>کک آئلینڈز سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>کک آئلینڈز نصف سمر ٹائم</p> <p>کیوبا ٹائم</p> <p>کیوبا اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>کیوبا ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>ڈیوس ٹائم</p> <p>ڈومونٹ-ڈی’ارویلے ٹائم</p> <p>مشرقی تیمور ٹائم</p> <p>ایسٹر آئلینڈ کا وقت</p> <p>ایسٹر آئلینڈ کا معیاری وقت</p> <p>ایسٹر آئلینڈ کا موسم گرما کا وقت</p> <p>ایکواڈور کا وقت</p> <p>وسط یورپ کا وقت</p> <p>وسطی یورپ کا معیاری وقت</p> <p>وسطی یورپ کا موسم گرما کا وقت</p> <p>مشرقی یورپ کا وقت</p> <p>مشرقی یورپ کا معیاری وقت</p> <p>مشرقی یورپ کا موسم گرما کا وقت</p> <p>بعید مشرقی یورپی وقت</p> <p>مغربی یورپ کا وقت</p> <p>مغربی یورپ کا معیاری وقت</p> <p>مغربی یورپ کا موسم گرما کا وقت</p> <p>فاک لینڈ آئلینڈز کا وقت</p> <p>فاک لینڈ آئلینڈز کا معیاری وقت</p> <p>فاک لینڈ آئلینڈز کا موسم گرما کا وقت</p> <p>فجی ٹائم</p> <p>فجی سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>فجی سمر ٹائم</p> <p>فرینچ گیانا کا وقت</p> <p>فرینچ جنوبی اور انٹارکٹک ٹائم</p> <p>گالاپاگوز کا وقت</p> <p>گیمبیئر ٹائم</p> <p>جارجیا کا وقت</p> <p>جارجیا کا معیاری وقت</p> <p>جارجیا کا موسم گرما کا وقت</p> <p>جلبرٹ آئلینڈز ٹائم</p> <p>گرین وچ کا اصل وقت</p> <p>مشرقی گرین لینڈ ٹائم</p> <p>مشرقی گرین لینڈ اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>مشرقی گرین لینڈ کا موسم گرما کا وقت</p> <p>مغربی گرین لینڈ ٹائم</p> <p>مغربی گرین لینڈ اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>مغربی گرین لینڈ کا موسم گرما کا وقت</p> <p>خلیج کا معیاری وقت</p> <p>گیانا کا وقت</p> <p>ہوائی الیوٹیئن ٹائم</p> <p>ہوائی الیوٹیئن اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>ہوائی الیوٹیئن ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>ہانگ کانگ ٹائم</p> <p>ہانگ کانگ سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>ہانگ کانگ سمر ٹائم</p> <p>ہووڈ ٹائم</p> <p>ہووڈ سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>ہووڈ سمر ٹائم</p> <p>ہندوستان کا معیاری وقت</p> <p>بحر ہند ٹائم</p> <p>ہند چین ٹائم</p> <p>وسطی انڈونیشیا ٹائم</p> <p>مشرقی انڈونیشیا ٹائم</p> <p>مغربی انڈونیشیا ٹائم</p> <p>ایران کا وقت</p> <p>ایران کا معیاری وقت</p> <p>ایران ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>ارکتسک ٹائم</p> <p>ارکتسک سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>ارکتسک سمر ٹائم</p> <p>اسرائیل کا وقت</p> <p>اسرائیل کا معیاری وقت</p> <p>اسرائیل ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>جاپان ٹائم</p> <p>جاپان سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>جاپان ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>پیٹروپاؤلووسک-کیمچسکی ٹائم</p> <p>پیٹروپاؤلووسک-کیمچسکی اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>پیٹروپاؤلووسک-کیمچسکی سمر ٹائم</p> <p>مشرقی قزاخستان کا وقت</p> <p>مغربی قزاخستان کا وقت</p> <p>کوریا ٹائم</p> <p>کوریا سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>کوریا ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>کوسرے ٹائم</p> <p>کریسنویارسک ٹائم</p> <p>کرسنویارسک سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>کریسنویارسک سمر ٹائم</p> <p>کرغستان کا وقت</p> <p>لائن آئلینڈز ٹائم</p> <p>لارڈ ہووے ٹائم</p> <p>لارڈ ہووے اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>لارڈ ہووے ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>مکوآری آئلینڈ کا وقت</p> <p>میگیدن ٹائم</p> <p>مگادان اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>میگیدن سمر ٹائم</p> <p>ملیشیا ٹائم</p> <p>مالدیپ کا وقت</p> <p>مارکیسس ٹائم</p> <p>مارشل آئلینڈز ٹائم</p> <p>ماریشس ٹائم</p> <p>ماریشس سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>ماریشس سمر ٹائم</p> <p>ماؤسن ٹائم</p> <p>شمال مغربی میکسیکو ٹائم</p> <p>شمال مغربی میکسیکو اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>شمال مغربی میکسیکو ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>میکسیکن پیسفک ٹائم</p> <p>میکسیکن پیسفک اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>میکسیکن پیسفک ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>یولان بیتور ٹائم</p> <p>یولان بیتور سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>یولان بیتور سمر ٹائم</p> <p>ماسکو ٹائم</p> <p>ماسکو اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>ماسکو سمر ٹائم</p> <p>میانمار ٹائم</p> <p>ناؤرو ٹائم</p> <p>نیپال کا وقت</p> <p>نیو کیلیڈونیا ٹائم</p> <p>نیو کیلیڈونیا سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>نیو کیلیڈونیا سمر ٹائم</p> <p>نیوزی لینڈ کا وقت</p> <p>نیوزی لینڈ کا معیاری وقت</p> <p>نیوزی لینڈ ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>نیو فاؤنڈ لینڈ ٹائم</p> <p>نیو فاؤنڈ لینڈ اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>نیو فاؤنڈ لینڈ ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>نیئو ٹائم</p> <p>نارفوک آئلینڈ کا وقت</p> <p>فرنانڈو ڈی نورنہا کا وقت</p> <p>فرنانڈو ڈی نورنہا کا معیاری وقت</p> <p>فرنانڈو ڈی نورونہا سمر ٹائم</p> <p>نوووسیبرسک ٹائم</p> <p>نوووسیبرسک سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>نوووسیبرسک سمر ٹائم</p> <p>اومسک ٹائم</p> <p>اومسک سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>اومسک سمر ٹائم</p> <p>پاکستان کا وقت</p> <p>پاکستان کا معیاری وقت</p> <p>پاکستان کا موسم گرما کا وقت</p> <p>پلاؤ ٹائم</p> <p>پاپوآ نیو گنی ٹائم</p> <p>پیراگوئے کا وقت</p> <p>پیراگوئے کا معیاری وقت</p> <p>پیراگوئے کا موسم گرما کا وقت</p> <p>پیرو کا وقت</p> <p>پیرو کا معیاری وقت</p> <p>پیرو کا موسم گرما کا وقت</p> <p>فلپائن ٹائم</p> <p>فلپائن سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>فلپائن سمر ٹائم</p> <p>فینکس آئلینڈز ٹائم</p> <p>سینٹ پیئر اور مکلیئون ٹائم</p> <p>سینٹ پیئر اور مکلیئون اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>سینٹ پیئر اور مکلیئون ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>پٹکائرن ٹائم</p> <p>پوناپے ٹائم</p> <p>پیانگ یانگ وقت</p> <p>ری یونین ٹائم</p> <p>روتھیرا کا وقت</p> <p>سخالین ٹائم</p> <p>سخالین سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>سخالین سمر ٹائم</p> <p>سمارا ٹائم</p> <p>سمارا اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>سمارا سمر ٹائم</p> <p>ساموآ ٹائم</p> <p>ساموآ سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>ساموآ ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>سیشلیز ٹائم</p> <p>سنگاپور سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>سولمن آئلینڈز ٹائم</p> <p>جنوبی جارجیا ٹائم</p> <p>سورینام کا وقت</p> <p>سیووا ٹائم</p> <p>تاہیتی ٹائم</p> <p>تائی پیئی ٹائم</p> <p>تائی پیئی اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>تئی پیئی ڈے لائٹ ٹائم</p> <p>تاجکستان کا وقت</p> <p>ٹوکیلاؤ ٹائم</p> <p>ٹونگا ٹائم</p> <p>ٹونگا سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>ٹونگا سمر ٹائم</p> <p>چوک ٹائم</p> <p>ترکمانستان کا وقت</p> <p>ترکمانستان کا معیاری وقت</p> <p>ترکمانستان کا موسم گرما کا وقت</p> <p>ٹوالو ٹائم</p> <p>یوروگوئے کا وقت</p> <p>یوروگوئے کا معیاری وقت</p> <p>یوروگوئے کا موسم گرما کا وقت</p> <p>ازبکستان کا وقت</p> <p>ازبکستان کا معیاری وقت</p> <p>ازبکستان کا موسم گرما کا وقت</p> <p>وانوآٹو ٹائم</p> <p>وانوآٹو سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>وانوآٹو سمر ٹائم</p> <p>وینزوئیلا کا وقت</p> <p>ولادی ووستک ٹائم</p> <p>ولادی ووستک سٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>ولادی ووستک سمر ٹائم</p> <p>وولگوگراد ٹائم</p> <p>وولگوگراد اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>وولگوگراد سمر ٹائم</p> <p>ووسٹاک کا وقت</p> <p>ویک آئلینڈ ٹائم</p> <p>والیز اور فٹونا ٹائم</p> <p>یکوتسک ٹائم</p> <p>یکوتسک اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>یکوتسک سمر ٹائم</p> <p>یکاٹیرِنبرگ ٹائم</p> <p>یکاٹیرِنبرگ اسٹینڈرڈ ٹائم</p> <p>یکاٹیرِنبرگ سمر ٹائم</p> <p>#,##0.###</p> <p>#,##0.###</p> <p>0 ہزار</p> <p>0 ہزار</p> <p>00 ہزار</p> <p>00 ہزار</p> <p>0 لاکھ</p> <p>0 لاکھ</p> <p>00 لاکھ</p> <p>00 لاکھ</p> <p>0 کروڑ</p> <p>0 کروڑ</p> <p>00 کروڑ</p> <p>00 کروڑ</p> <p>0 ارب</p> <p>0 ارب</p> <p>00 ارب</p> <p>00 ارب</p> <p>0 کھرب</p> <p>0 کھرب</p> <p>00 کھرب</p> <p>00 کھرب</p> <p>00 ٹریلین</p> <p>00 ٹریلین</p> <p>000 ٹریلین</p> <p>000 ٹریلین</p> <p>0 ہزار</p> <p>0 ہزار</p> <p>00 ہزار</p> <p>00 ہزار</p> <p>0 لاکھ</p> <p>0 لاکھ</p> <p>00 لاکھ</p> <p>00 لاکھ</p> <p>0 کروڑ</p> <p>0 کروڑ</p> <p>00 کروڑ</p> <p>00 کروڑ</p> <p>0 ارب</p> <p>0 ارب</p> <p>00 ارب</p> <p>00 ارب</p> <p>0 کھرب</p> <p>0 کھرب</p> <p>00 کھرب</p> <p>00 کھرب</p> <p>00 ٹریلین</p> <p>00 ٹریلین</p> <p>000 ٹریلین</p> <p>000 ٹریلین</p> <p>¤ 0 ہزار</p> <p>¤ 0 ہزار</p> <p>¤ 00 ہزار</p> <p>¤ 00 ہزار</p> <p>¤ 0 لاکھ</p> <p>¤ 0 لاکھ</p> <p>¤ 00 لاکھ</p> <p>¤ 00 لاکھ</p> <p>¤ 0 کروڑ</p> <p>¤ 0 کروڑ</p> <p>¤ 00 کروڑ</p> <p>¤ 00 کروڑ</p> <p>¤ 0 ارب</p> <p>¤ 0 ارب</p> <p>¤ 00 ارب</p> <p>¤ 00 ارب</p> <p>¤ 0 کھرب</p> <p>¤ 0 کھرب</p> <p>¤0 ٹریلین</p> <p>¤0 ٹریلین</p> <p>¤ 00 ٹریلین</p> <p>¤ 00 ٹریلین</p> <p>¤ 000 ٹریلین</p> <p>¤ 000 ٹریلین</p> <p>متحدہ عرب اماراتی درہم</p> <p>متحدہ عرب اماراتی درہم</p> <p>متحدہ عرب اماراتی درہم</p> <p>افغان افغانی</p> <p>افغان افغانی</p> <p>افغان افغانی</p> <p>البانیا کا لیک</p> <p>البانیا کا لیک</p> <p>البانیا کا لیک</p> <p>آرمینیائی ڈرم</p> <p>آرمینیائی ڈرم</p> <p>آرمینیائی ڈرم</p> <p>نیدر لینڈز انٹیلیئن گلڈر</p> <p>نیدر لینڈز انٹیلیئن گلڈر</p> <p>نیدر لینڈز انٹیلیئن گلڈر</p> <p>انگولا کا کوانزا</p> <p>انگولا کا کوانزا</p> <p>انگولا کا کوانزا</p> <p>ارجنٹائن پیسہ</p> <p>ارجنٹائن پیسہ</p> <p>ارجنٹائن پیسہ</p> <p>آسٹریلین ڈالر</p> <p>آسٹریلین ڈالر</p> <p>آسٹریلین ڈالر</p> <p>اروبن فلورِن</p> <p>اروبن فلورِن</p> <p>اروبن فلورِن</p> <p>آذربائجانی منات</p> <p>آذربائجانی منات</p> <p>آذربائجانی منات</p> <p>بوسنیا ہرزیگووینا کا قابل منتقلی نشان</p> <p>بوسنیا ہرزیگووینا کا قابل منتقلی نشان</p> <p>بوسنیا ہرزیگووینا کا قابل منتقلی نشان</p> <p>باربیڈین ڈالر</p> <p>باربیڈین ڈالر</p> <p>باربیڈین ڈالر</p> <p>بنگلہ دیشی ٹکا</p> <p>بنگلہ دیشی ٹکا</p> <p>بنگلہ دیشی ٹکا</p> <p>بلغارین لیو</p> <p>بلغارین لیو</p> <p>بلغارین لیو</p> <p>بحرینی دینار</p> <p>بحرینی دینار</p> <p>بحرینی دینار</p> <p>برونڈیئن فرانک</p> <p>برونڈیئن فرانک</p> <p>برونڈیئن فرانک</p> <p>برموڈا ڈالر</p> <p>برموڈا ڈالر</p> <p>برموڈا ڈالر</p> <p>برونئی ڈالر</p> <p>برونئی ڈالر</p> <p>برونئی ڈالر</p> <p>بولیوین بولیویانو</p> <p>بولیوین بولیویانو</p> <p>بولیوین بولیویانو</p> <p>برازیلی ریئل</p> <p>برازیلی ریئل</p> <p>برازیلی ریئل</p> <p>بہامانی ڈالر</p> <p>بہامانی ڈالر</p> <p>بہامانی ڈالر</p> <p>بھوٹانی گُلٹرم</p> <p>بھوٹانی گُلٹرم</p> <p>بھوٹانی گُلٹرم</p> <p>بوتسوانا کا پولا</p> <p>بوتسوانا کا پولا</p> <p>بوتسوانا کا پولا</p> <p>بیلاروسی روبل</p> <p>بیلاروسی روبل</p> <p>بیلاروسی روبل</p> <p>بیلاروسی روبل (۲۰۰۰–۲۰۱۶)</p> <p>بیلاروسی روبل (۲۰۰۰–۲۰۱۶)</p> <p>بیلاروسی روبل (۲۰۰۰–۲۰۱۶)</p> <p>بیلیز ڈالر</p> <p>بیلیز ڈالر</p> <p>بیلیز ڈالرز</p> <p>کنیڈین ڈالر</p> <p>کنیڈین ڈالر</p> <p>کنیڈین ڈالر</p> <p>کانگولیز فرانک</p> <p>کانگولیز فرانک</p> <p>کانگولیز فرانک</p> <p>سوئس فرانکس</p> <p>سوئس فرانکس</p> <p>سوئس فرانکس</p> <p>چلّین پیسہ</p> <p>چلّین پیسہ</p> <p>چلّین پیسہ</p> <p>چینی یوآن (آف شور)</p> <p>چینی یوآن (آف شور)</p> <p>چینی یوآن (آف شور)</p> <p>چینی یوآن</p> <p>چینی یوآن</p> <p>چینی یوآن</p> <p>کولمبین پیسہ</p> <p>کولمبین پیسہ</p> <p>کولمبین پیسہ</p> <p>کوسٹا ریکا کا کولن</p> <p>کوسٹا ریکا کا کولن</p> <p>کوسٹا ریکا کا کولن</p> <p>کیوبا کا قابل منتقلی پیسو</p> <p>کیوبا کا قابل منتقلی پیسو</p> <p>کیوبا کا قابل منتقلی پیسو</p> <p>کیوبا کا پیسو</p> <p>کیوبا کا پیسو</p> <p>کیوبا کا پیسو</p> <p>کیپ ورڈی کا اسکیوڈو</p> <p>کیپ ورڈی کا اسکیوڈو</p> <p>کیپ ورڈی کا اسکیوڈو</p> <p>چیک کرونا</p> <p>چیک کرونا</p> <p>چیک کروناز</p> <p>ڈچ مارکس</p> <p>جبوتی فرانک</p> <p>جبوتی فرانک</p> <p>جبوتی فرانک</p> <p>ڈنمارک کرون</p> <p>ڈنمارک کرون</p> <p>ڈنمارک کرون</p> <p>ڈومنیکن پیسو</p> <p>ڈومنیکن پیسو</p> <p>ڈومنیکن پیسو</p> <p>الجیریائی دینار</p> <p>الجیریائی دینار</p> <p>الجیریائی دینار</p> <p>ایسٹونین کرون</p> <p>مصری پاؤنڈ</p> <p>مصری پاؤنڈ</p> <p>مصری پاؤنڈ</p> <p>اریٹیریا کا نافکا</p> <p>اریٹیریا کا نافکا</p> <p>اریٹیریا کا نافکا</p> <p>ایتھوپیائی بِرّ</p> <p>ایتھوپیائی بِرّ</p> <p>ایتھوپیائی بِرّ</p> <p>یورو</p> <p>یورو</p> <p>یورو</p> <p>فجی کا ڈالر</p> <p>فجی کا ڈالر</p> <p>فجی کا ڈالر</p> <p>فاکلینڈ آئلینڈز پونڈ</p> <p>فاکلینڈ آئلینڈز پونڈ</p> <p>فاکلینڈ آئلینڈز پونڈ</p> <p>فرانسیسی فرانک</p> <p>برطانوی پاؤنڈ</p> <p>برطانوی پاؤنڈ</p> <p>برطانوی پاؤنڈ</p> <p>جارجیائی لاری</p> <p>جارجیائی لاری</p> <p>جارجیائی لاری</p> <p>گھانا کا سیڈی</p> <p>گھانا کا سیڈی</p> <p>گھانا کا سیڈی</p> <p>جبل الطارق پونڈ</p> <p>جبل الطارق پونڈ</p> <p>جبل الطارق پونڈ</p> <p>گامبیا کا ڈلاسی</p> <p>گامبیا کا ڈلاسی</p> <p>گامبیا کا ڈلاسی</p> <p>گنی فرانک</p> <p>گنی فرانک</p> <p>گنی فرانک</p> <p>گواٹے مالا کا کوئٹزل</p> <p>گواٹے مالا کا کوئٹزل</p> <p>گواٹے مالا کا کوئٹزل</p> <p>گویانیز ڈالر</p> <p>گویانیز ڈالر</p> <p>گویانیز ڈالر</p> <p>ھانگ کانگ ڈالر</p> <p>ھانگ کانگ ڈالر</p> <p>ھانگ کانگ ڈالر</p> <p>ہونڈوران لیمپیرا</p> <p>ہونڈوران لیمپیرا</p> <p>ہونڈوران لیمپیرا</p> <p>کروشین کونا</p> <p>کروشین کونا</p> <p>کروشین کونا</p> <p>ہیتی کا گؤرڈی</p> <p>ہیتی کا گؤرڈی</p> <p>ہیتی کا گؤرڈی</p> <p>ہنگرین فورنٹ</p> <p>ہنگرین فورنٹ</p> <p>ہنگرین فورنٹ</p> <p>انڈونیشین روپیہ</p> <p>انڈونیشین روپیہ</p> <p>انڈونیشین روپیہ</p> <p>اسرائیلی نیا شیکل</p> <p>اسرائیلی نیا شیکل</p> <p>اسرائیلی نیا شیکلز</p> <p>بھارتی روپیہ</p> <p>بھارتی روپیہ</p> <p>بھارتی روپے</p> <p>عراقی دینار</p> <p>عراقی دینار</p> <p>عراقی دینار</p> <p>ایرانی ریال</p> <p>ایرانی ریال</p> <p>ایرانی ریال</p> <p>آئس لينڈی کرونا</p> <p>آئس لينڈی کرونا</p> <p>آئس لينڈی کرونوں</p> <p>جمائیکن ڈالر</p> <p>جمائیکن ڈالر</p> <p>جمائیکن ڈالر</p> <p>اردنی دینار</p> <p>اردنی دینار</p> <p>اردنی دینار</p> <p>جاپانی ین</p> <p>جاپانی ین</p> <p>جاپانی ین</p> <p>کینیائی شلنگ</p> <p>کینیائی شلنگ</p> <p>کینیائی شلنگ</p> <p>کرغستانی سوم</p> <p>کرغستانی سوم</p> <p>کرغستانی سوم</p> <p>کمبوڈیائی ریئل</p> <p>کمبوڈیائی ریئل</p> <p>کمبوڈیائی ریئل</p> <p>کوموریئن فرانک</p> <p>کوموریئن فرانک</p> <p>کوموریئن فرانک</p> <p>شمالی کوریائی وون</p> <p>شمالی کوریائی وون</p> <p>شمالی کوریائی وون</p> <p>جنوبی کوریائی وون</p> <p>جنوبی کوریائی وون</p> <p>جنوبی کوریائی وون</p> <p>کویتی دینار</p> <p>کویتی دینار</p> <p>کویتی دینار</p> <p>کیمین آئلینڈز ڈالر</p> <p>کیمین آئلینڈز ڈالر</p> <p>کیمین آئلینڈز ڈالر</p> <p>قزاخستانی ٹینگ</p> <p>قزاخستانی ٹینگ</p> <p>قزاخستانی ٹینگ</p> <p>لاؤشیائی کِپ</p> <p>لاؤشیائی کِپ</p> <p>لاؤشیائی کِپ</p> <p>لبنانی پونڈ</p> <p>لبنانی پونڈ</p> <p>لبنانی پونڈ</p> <p>سری لنکائی روپیہ</p> <p>سری لنکائی روپیہ</p> <p>سری لنکائی روپیہ</p> <p>لائبریائی ڈالر</p> <p>لائبریائی ڈالر</p> <p>لائبریائی ڈالر</p> <p>لیسوتھو لوٹی</p> <p>لیتھوینیائی لیٹاس</p> <p>لیتھوینیائی لیٹاس</p> <p>لیتھوینیائی لیٹاس</p> <p>لاتویائی لیٹس</p> <p>لاتویائی لیٹس</p> <p>لاتویائی لیٹس</p> <p>لیبیائی دینار</p> <p>لیبیائی دینار</p> <p>لیبیائی دینار</p> <p>مراکشی درہم</p> <p>مراکشی درہم</p> <p>مراکشی درہم</p> <p>مالدووی لیو</p> <p>مالدووی لیو</p> <p>مالدووی لیو</p> <p>ملاگاسی اریاری</p> <p>ملاگاسی اریاری</p> <p>ملاگاسی اریاری</p> <p>مقدونیائی دینار</p> <p>مقدونیائی دینار</p> <p>مقدونیائی دینار</p> <p>میانمار کیاٹ</p> <p>میانمار کیاٹ</p> <p>میانمار کیاٹ</p> <p>منگولیائی ٹگرِ</p> <p>منگولیائی ٹگرِ</p> <p>منگولیائی ٹگرِ</p> <p>میکانیز پٹاکا</p> <p>میکانیز پٹاکا</p> <p>میکانیز پٹاکا</p> <p>موریطانیائی اوگوئیا (1973–2017)</p> <p>موریطانیائی اوگوئیا (1973–2017)</p> <p>موریطانیائی اوگوئیا (1973–2017)</p> <p>موریطانیائی اوگوئیا</p> <p>موریطانیائی اوگوئیا</p> <p>موریطانیائی اوگوئیا</p> <p>ماریشس کا روپیہ</p> <p>ماریشس کا روپیہ</p> <p>ماریشس کا روپیہ</p> <p>مالدیپ کا روفیہ</p> <p>مالدیپ کا روفیہ</p> <p>مالدیپ کا روفیہ</p> <p>ملاوی کواچا</p> <p>ملاوی کواچا</p> <p>ملاوی کواچا</p> <p>میکسیکی پیسہ</p> <p>میکسیکی پیسہ</p> <p>میکسیکی پیسہ</p> <p>ملیشیائی رنگِٹ</p> <p>ملیشیائی رنگِٹ</p> <p>ملیشیائی رنگِٹ</p> <p>موزامبیقی میٹیکل</p> <p>موزامبیقی میٹیکل</p> <p>موزامبیقی میٹیکلز</p> <p>نامیبیائی ڈالر</p> <p>نامیبیائی ڈالر</p> <p>نامیبیائی ڈالر</p> <p>نائیجیریائی نائرا</p> <p>نائیجیریائی نائرا</p> <p>نائیجیریائی نائرا</p> <p>نکارا گوا کا کورڈوبا</p> <p>نکارا گوا کا کورڈوبا</p> <p>نکارا گوا کا کورڈوبا</p> <p>ناروے کرون</p> <p>ناروے کرون</p> <p>ناروے کرون</p> <p>نیپالی روپیہ</p> <p>نیپالی روپیہ</p> <p>نیپالی روپیہ</p> <p>نیوزی لینڈ ڈالر</p> <p>نیوزی لینڈ ڈالر</p> <p>نیوزی لینڈ ڈالر</p> <p>عمانی ریال</p> <p>عمانی ریال</p> <p>عمانی ریال</p> <p>پنامہ کا بالبوآ</p> <p>پنامہ کا بالبوآ</p> <p>پنامہ کا بالبوآ</p> <p>پیروویئن سول</p> <p>پیروویئن سول</p> <p>پیروویئن سول</p> <p>پاپوآ نیو گنی کا کینا</p> <p>پاپوآ نیو گنی کا کینا</p> <p>پاپوآ نیو گنی کا کینا</p> <p>فلپائینی پیسہ</p> <p>فلپائینی پیسہ</p> <p>فلپائنی پیسو</p> <p>پاکستانی روپیہ</p> <p>پاکستانی روپیہ</p> <p>پاکستانی روپیہ</p> <p>پولش زلوٹی</p> <p>پولش زلوٹی</p> <p>پولش زلوٹی</p> <p>پیراگوئے کا گوآرنی</p> <p>پیراگوئے کا گوآرنی</p> <p>پیراگوئے کا گوآرنی</p> <p>قطری ریال</p> <p>قطری ریال</p> <p>قطری ریال</p> <p>رومانیائی لیو</p> <p>رومانیائی لیو</p> <p>رومانیائی لی</p> <p>سربین دینار</p> <p>سربین دینار</p> <p>سربین دینار</p> <p>روسی روبل</p> <p>روسی روبل</p> <p>روسی روبل</p> <p>روانڈا کا فرانک</p> <p>روانڈا کا فرانک</p> <p>روانڈا کا فرانک</p> <p>سعودی ریال</p> <p>سعودی ریال</p> <p>سعودی ریال</p> <p>سولومن آئلینڈز ڈالر</p> <p>سولومن آئلینڈز ڈالر</p> <p>سولومن آئلینڈز ڈالر</p> <p>سشلی کا روپیہ</p> <p>سشلی کا روپیہ</p> <p>سشلی کا روپیہ</p> <p>سوڈانی پاؤنڈ</p> <p>سوڈانی پاؤنڈ</p> <p>سوڈانی پاؤنڈ</p> <p>سویڈن کرونا</p> <p>سویڈن کرونا</p> <p>سویڈن کرونر</p> <p>سنگا پور ڈالر</p> <p>سنگا پور ڈالر</p> <p>سنگا پور ڈالر</p> <p>سینٹ ہیلینا پاؤنڈ</p> <p>سینٹ ہیلینا پاؤنڈ</p> <p>سینٹ ہیلینا پاؤنڈ</p> <p>سلوانین ٹولر</p> <p>سلووک کرونا</p> <p>سیئرا لیون لیون</p> <p>سیئرا لیون لیون</p> <p>سیئرا لیون لیون</p> <p>صومالی شلنگ</p> <p>صومالی شلنگ</p> <p>صومالی شلنگ</p> <p>سورینامی ڈالر</p> <p>سورینامی ڈالر</p> <p>سورینامی ڈالر</p> <p>جنوبی سوڈانی پاؤنڈ</p> <p>جنوبی سوڈانی پاؤنڈ</p> <p>جنوبی سوڈانی پاؤنڈز</p> <p>ساؤ ٹوم اور پرنسپے ڈوبرا (1977–2017)</p> <p>ساؤ ٹوم اور پرنسپے ڈوبرا (1977–2017)</p> <p>ساؤ ٹوم اور پرنسپے ڈوبرا (1977–2017)</p> <p>ساؤ ٹومے اور پرنسپے ڈوبرا</p> <p>ساؤ ٹومے اور پرنسپے ڈوبرا</p> <p>ساؤ ٹومے اور پرنسپے ڈوبرا</p> <p>شامی پونڈ</p> <p>شامی پونڈ</p> <p>شامی پونڈ</p> <p>سوازی لیلانجینی</p> <p>سوازی لیلانجینی</p> <p>سوازی لیلانجینی</p> <p>تھائی باہت</p> <p>تھائی باہت</p> <p>تھائی باہت</p> <p>تاجکستانی سومونی</p> <p>تاجکستانی سومونی</p> <p>تاجکستانی سومونی</p> <p>ترکمانستانی منات</p> <p>ترکمانستانی منات</p> <p>ترکمانستانی منات</p> <p>تیونیسیائی دینار</p> <p>تیونیسیائی دینار</p> <p>تیونیسیائی دینار</p> <p>ٹونگن پانگا</p> <p>ٹونگن پانگا</p> <p>ٹونگن پانگا</p> <p>ترکی لیرا</p> <p>ترکی لیرا</p> <p>ترکی لیرا</p> <p>ترینیداد اور ٹوباگو کا ڈالر</p> <p>ترینیداد اور ٹوباگو کا ڈالر</p> <p>ترینیداد اور ٹوباگو کا ڈالر</p> <p>نیو تائیوان ڈالر</p> <p>نیو تائیوان ڈالر</p> <p>نیو تائیوان ڈالر</p> <p>تنزانیائی شلنگ</p> <p>تنزانیائی شلنگ</p> <p>تنزانیائی شلنگ</p> <p>یوکرینیائی ہریونیا</p> <p>یوکرینیائی ہریونیا</p> <p>یوکرینیائی ہریونیا</p> <p>یوگانڈا شلنگ</p> <p>یوگانڈا شلنگ</p> <p>یوگانڈا شلنگ</p> <p>امریکی ڈالر</p> <p>امریکی ڈالر</p> <p>امریکی ڈالر</p> <p>یوروگویان پیسو</p> <p>یوروگویان پیسو</p> <p>یوروگویان پیسو</p> <p>ازبکستانی سوم</p> <p>ازبکستانی سوم</p> <p>ازبکستانی سوم</p> <p>وینزویلا بولیور (1871–2008)</p> <p>وینزویلا بولیور (2008–2018)</p> <p>وینزویلا بولیور (2008–2018)</p> <p>وینزویلا بولیور (2008–2018)</p> <p>وینزویلا بولیور</p> <p>وینزویلا بولیور</p> <p>وینزویلا بولیور</p> <p>ویتنامی ڈانگ</p> <p>ویتنامی ڈانگ</p> <p>ویتنامی ڈانگ</p> <p>وینوواتو واتو</p> <p>وینوواتو واتو</p> <p>وینوواتو واتو</p> <p>ساموآ کا ٹالا</p> <p>ساموآ کا ٹالا</p> <p>ساموآ کا ٹالا</p> <p>وسطی افریقی <annotation lang="en">[CFA]</annotation> فرانک</p> <p>وسطی افریقی <annotation lang="en">[CFA]</annotation> فرانک</p> <p>وسطی افریقی <annotation lang="en">[CFA]</annotation> فرانک</p> <p>مشرقی کریبیا کا ڈالر</p> <p>مشرقی کریبیا کا ڈالر</p> <p>مشرقی کریبیا کا ڈالر</p> <p>مغربی افریقی <annotation lang="en">[CFA]</annotation> فرانک</p> <p>مغربی افریقی <annotation lang="en">[CFA]</annotation> فرانک</p> <p>مغربی افریقی <annotation lang="en">[CFA]</annotation> فرانک</p> <p>نامعلوم کرنسی</p> <p>نامعلوم کرنسی</p> <p>یمنی ریال</p> <p>یمنی ریال</p> <p>یمنی ریال</p> <p>جنوبی افریقی رانڈ</p> <p>جنوبی افریقی رانڈ</p> <p>جنوبی افریقی رانڈ</p> <p>زامبیائی کواچا (1968–2012)</p> <p>زامبیائی کواچا</p> <p>زامبیائی کواچا</p> <p>زامبیائی کواچا</p> <p>گھنٹہ</p> <p>گھنٹے</p> <p>دایاں موڑ نمبر  مڑیں۔</p> <p>فی </p> <p>جی-فورس</p> <p>جی-فورس</p> <p>جی-فورس</p> <p>میٹر فی مربع سیکنڈ</p> <p>میٹر فی مربع سیکنڈ</p> <p>میٹر فی مربع سیکنڈ</p> <p>گردش</p> <p>گردش</p> <p>ریڈینس</p> <p>ریڈین</p> <p>ریڈینس</p> <p>ڈگری</p> <p>ڈگری</p> <p>ڈگری</p> <p>آرک منٹ</p> <p>آرک منٹ</p> <p>آرک منٹ</p> <p>آرک سیکنڈ</p> <p>آرک سیکنڈ</p> <p>آرک سیکنڈ</p> <p>مربع کلو میٹر</p> <p>مربع کلو میٹر</p> <p>مربع کلو میٹر</p> <p>فی مربع کلو میٹر</p> <p>ہیکٹر</p> <p>ہیکٹر</p> <p>ہیکٹر</p> <p>مربع میٹر</p> <p>مربع میٹر</p> <p>مربع میٹر</p> <p>فی مربع میٹر</p> <p>مربع سینٹی میٹر</p> <p>مربع سینٹی میٹر</p> <p>مربع سینٹی میٹر</p> <p>فی مربع سینٹی میٹر</p> <p>مربع میل</p> <p>مربع میل</p> <p>مربع میل</p> <p>فی مربع میل</p> <p>ایکڑ</p> <p>ایکڑ</p> <p>ایکڑ</p> <p>مربع گز</p> <p>مربع گز</p> <p>مربع گز</p> <p>مربع فٹ</p> <p>مربع فٹ</p> <p>مربع فٹ</p> <p>مربع انچ</p> <p>مربع انچ</p> <p>مربع انچ</p> <p>فی مربع انچ</p> <p>دُنامز</p> <p>دُنام</p> <p>دُنامز</p> <p>قیراط</p> <p>قیراط</p> <p>قیراط</p> <p>ملی گرام فی ڈیسی لیٹر</p> <p>ملی گرام فی ڈیسی لیٹر</p> <p>ملی گرام فی ڈیسی لیٹر</p> <p>ملی مولس فی لیٹر</p> <p>ملی مول فی لیٹر</p> <p>ملی مول فی لیٹر</p> <p>فی ملین حصے</p> <p>فی ملین حصے</p> <p>فی ملین حصے</p> <p>فیصد</p> <p>فیصد</p> <p>فیصد</p> <p>فی ہزار</p> <p>فی ہزار</p> <p>فی ہزار</p> <p>پرمرئیڈ</p> <p>پرمرئیڈ</p> <p>پرمرئیڈ</p> <p>مولز</p> <p>مول</p> <p>مولز</p> <p>لیٹر فی کلومیٹر</p> <p>لیٹر فی کلومیٹر</p> <p>لیٹر فی کلومیٹر</p> <p>لیٹر فی 100 کلو میٹر</p> <p>لیٹر فی 100 کلو میٹر</p> <p>لیٹر فی 100 کلو میٹر</p> <p>میل فی گیلن</p> <p>میل فی گیلن</p> <p>میل فی گیلن</p> <p>میل فی امپیریل گیلن</p> <p>میل فی امپیریل گیلن</p> <p>میل فی امپیریل گیلن</p> <p>پیٹا بائٹس</p> <p>پیٹا بائٹ</p> <p>پیٹا بائٹس</p> <p>ٹیرابائٹس</p> <p>ٹیرابائٹ</p> <p>ٹیرابائٹ</p> <p>ٹیرابٹس</p> <p>ٹیرابٹ</p> <p>ٹیرابٹس</p> <p>گیگابائٹس</p> <p>گیگابائٹ</p> <p>گیگابائٹ</p> <p>گیگابٹس</p> <p>گیگابٹ</p> <p>گیگابٹس</p> <p>ميگابائٹس</p> <p>میگابائٹ</p> <p>ميگابائٹس</p> <p>میگابٹس</p> <p>میگابٹ</p> <p>میگابٹس</p> <p>کلوبائٹس</p> <p>کلوبائٹ</p> <p>کلوبائٹس</p> <p>کلوبٹس</p> <p>کلوبٹ</p> <p>کلوبٹس</p> <p>بائٹ</p> <p>بائٹ</p> <p>بائٹس</p> <p>بٹس</p> <p>بٹ</p> <p>بٹس</p> <p>صدیاں</p> <p>صدی</p> <p>صدیاں</p> <p>دہائیاں</p> <p>دہائی</p> <p>دہائیاں</p> <p>سال</p> <p>سال</p> <p>سال</p> <p>فی سال </p> <p>مہینے</p> <p>مہینہ</p> <p>مہینے</p> <p>/m</p> <p>ہفتے</p> <p>ہفتہ</p> <p>ہفتے</p> <p>فی ہفتہ</p> <p>دن</p> <p>دن</p> <p>دن</p> <p>فی دن</p> <p>گھنٹے</p> <p>گھنٹہ</p> <p>گھنٹے</p> <p>فی گھنٹہ</p> <p>منٹ</p> <p>منٹ</p> <p>منٹ</p> <p>فی منٹ</p> <p>سیکنڈ</p> <p>سیکنڈ</p> <p>سیکنڈ</p> <p>فی سیکنڈ</p> <p>ملی سیکنڈز</p> <p>ملی سیکنڈ</p> <p>میل سیکنڈ</p> <p>مائیکرو سیکنڈز</p> <p>مائیکرو سیکنڈ</p> <p>مائیکرو سیکنڈز</p> <p>نینو سیکنڈز</p> <p>نینو سیکنڈ</p> <p>نینو سیکنڈ</p> <p>ایمپیئر</p> <p>ایمپیئر</p> <p>ایمپیئر</p> <p>ملی ایمپیئر</p> <p>ملی ایمپیئر</p> <p>ملی ایمپیئر</p> <p>اوہم</p> <p>اوہم</p> <p>اوہم</p> <p>وولٹ</p> <p>وولٹ</p> <p>وولٹ</p> <p>کلو کیلوریز</p> <p>کلو کیلوری</p> <p>کلو کیلوریز</p> <p>کیلوریز</p> <p>کیلوری</p> <p>کیلوریز</p> <p>کیلوریز</p> <p>کیلوری</p> <p>کیلوریز</p> <p>کلو جول</p> <p>کلو جول</p> <p>کلو جول</p> <p>جول</p> <p>جول</p> <p>جول</p> <p>کلو واٹ آور</p> <p>کلو واٹ آور</p> <p>کلو واٹ آور</p> <p>الیکٹرون وولٹس</p> <p>الیکٹرون وولٹ</p> <p>الیکٹرون وولٹس</p> <p>برطانوی تھرمل اکائیاں</p> <p>برطانوی تھرمل اکائی</p> <p>برطانوی تھرمل اکائیاں</p> <p>امریکی تھرمز</p> <p>امریکی تھرم</p> <p>امریکی تھرمز</p> <p>پاؤنڈز قوت</p> <p>پاؤنڈ قوت</p> <p>پاؤنڈز قوت</p> <p>نیوٹنز</p> <p>نیوٹن</p> <p>نیوٹنز</p> <p>گیگاہرٹز</p> <p>گیگاہرٹز</p> <p>گیگاہرٹز</p> <p>میگاہرٹز</p> <p>میگاہرٹز</p> <p>میگاہرٹز</p> <p>کلوہرٹز</p> <p>کلوہرٹز</p> <p>کلوہرٹز</p> <p>ہرٹز</p> <p>ہرٹز</p> <p>ہرٹز</p> <p>ٹائپوگرافک <annotation lang="en">em</annotation></p> <p>پکسلز</p> <p>پکسل</p> <p>پکسلز</p> <p>میگا پکسلز</p> <p>میگا پکسل</p> <p>میگا پکسلز</p> <p>پکسلز فی سینٹی میٹر</p> <p>پکسل فی سینٹی میٹر</p> <p>پکسلز فی سینٹی میٹر</p> <p>پکسلز فی انچ</p> <p>پکسل فی انچ</p> <p>پکسلز فی انچ</p> <p>ڈاٹس فی سینٹی میٹر</p> <p>ڈاٹ فی سینٹی میٹر</p> <p>ڈاٹس فی سینٹی میٹر</p> <p>ڈاٹس فی انچ</p> <p>ڈاٹ فی انچ</p> <p>ڈاٹس فی انچ</p> <p>کلو میٹر</p> <p>کلو میٹر</p> <p>کلو میٹر</p> <p>فی کلومیٹر</p> <p>میٹر</p> <p>میٹر</p> <p>میٹر</p> <p>فی میٹر</p> <p>ڈیسی میٹر</p> <p>ڈیسی میٹر</p> <p>ڈیسی میٹر</p> <p>سینٹی میٹر</p> <p>سینٹی میٹر</p> <p>سینٹی میٹر</p> <p>فی سینٹی میٹر</p> <p>ملی میٹر</p> <p>ملیمیٹر</p> <p>ملیمیٹر</p> <p>مائیکرو میٹر</p> <p>مائیکرو میٹر</p> <p>مائیکرو میٹر</p> <p>نینو میٹر</p> <p>نینو میٹر</p> <p>نینو میٹر</p> <p>پیکو میٹر</p> <p>پیکو میٹر</p> <p>پیکو میٹر</p> <p>میل</p> <p>میل</p> <p>میل</p> <p>گز</p> <p>یارڈ</p> <p>یارڈ</p> <p>فیٹ</p> <p>فیٹ</p> <p>فیٹ</p> <p>فی فوٹ</p> <p>انچ</p> <p>انچ</p> <p>انچ</p> <p>فی انچ</p> <p>پارسیک</p> <p>پارسیک</p> <p>پارسیک</p> <p>نوری سال</p> <p>نوری سال</p> <p>نوری سال</p> <p>ایسٹرونومیکل یونٹس</p> <p>ایسٹرونومیکل یونٹ</p> <p>ایسٹرونومیکل یونٹس</p> <p>بحری میل</p> <p>بحری میل</p> <p>بحری میل</p> <p>اسکینڈی نیویائی میل</p> <p>اسکینڈی نیویائی میل</p> <p>اسکینڈی نیویائی میل</p> <p>پوائنٹس</p> <p>پوائنٹ</p> <p>پوائنٹس</p> <p>شمسی رداس</p> <p>شمسی رداس</p> <p>شمسی رداس</p> <p>شمسی چمک</p> <p>شمسی چمک</p> <p>شمسی چمک</p> <p>میٹرک ٹن</p> <p>میٹرک ٹن</p> <p>میٹرک ٹن</p> <p>کلو گرام</p> <p>کلو گرام</p> <p>کلو گرام</p> <p>فی کلو گرام</p> <p>گرام</p> <p>گرام</p> <p>گرام</p> <p>فی گرام</p> <p>ملی گرام</p> <p>ملی گرام</p> <p>ملی گرام</p> <p>مائکرو گرام</p> <p>مائکرو گرام</p> <p>مائکرو گرام</p> <p>ٹن</p> <p>ٹن</p> <p>ٹن</p> <p>اسٹونز</p> <p>اسٹون</p> <p>اسٹونز</p> <p>پاؤنڈ</p> <p>پاؤنڈ</p> <p>پاؤنڈ</p> <p>فی پاؤنڈ</p> <p>اونس</p> <p>اونس</p> <p>اونس</p> <p>فی اونس</p> <p>ٹرائے اونس</p> <p>ٹرائے اونس</p> <p>ٹرائے اونس</p> <p>قیراط</p> <p>قیراط</p> <p>قیراط</p> <p>ڈالٹنز</p> <p>ڈالٹن</p> <p>ڈالٹنز</p> <p>زمینی کمیتیں</p> <p>زمینی کمیت</p> <p>زمینی کمیتیں</p> <p>شمسی کمیتیں</p> <p>شمسی کمیت</p> <p>شمسی کمیتیں</p> <p>گیگا واٹ</p> <p>گیگا واٹ</p> <p>گیگا واٹ</p> <p>میگا واٹ</p> <p>میگا واٹ</p> <p>میگا واٹ</p> <p>کلو واٹ</p> <p>کلو واٹ</p> <p>کلو واٹ</p> <p>واٹ</p> <p>واٹ</p> <p>واٹ</p> <p>ملی واٹ</p> <p>ملی واٹ</p> <p>ملی واٹ</p> <p>ہارس پاور</p> <p>ہارس پاور</p> <p>ہارس پاور</p> <p>ملی میٹر مرکری</p> <p>ملی میٹر مرکری</p> <p>ملی میٹر مرکری</p> <p>پاؤنڈز فی مربع انچ</p> <p>پاؤنڈ فی مربع انچ</p> <p>پاؤنڈز فی مربع انچ</p> <p>انچ مرکری</p> <p>انچ مرکری</p> <p>انچ مرکری</p> <p>بارز</p> <p>بار</p> <p>بارز</p> <p>ملی بار</p> <p>ملی بار</p> <p>ملی بار</p> <p>ماحول</p> <p>ماحول</p> <p>ماحول</p> <p>پاسکل</p> <p>پاسکل</p> <p>پاسکل</p> <p>ہیکٹو پاسکل</p> <p>ہیکٹو پاسکل</p> <p>ہیکٹو پاسکل</p> <p>کلو پاسکلز</p> <p>کلو پاسکل</p> <p>کلو پاسکلز</p> <p>میگا پاسکلز</p> <p>میگا پاسکل</p> <p>میگا پاسکلز</p> <p>کلومیٹر فی گھنٹہ</p> <p>کلومیٹر فی گھنٹہ</p> <p>کلومیٹر فی گھنٹہ</p> <p>میٹر فی سیکنڈ</p> <p>میٹر فی سیکنڈ</p> <p>میٹر فی سیکنڈ</p> <p>میل فی گھنٹہ</p> <p>میل فی گھنٹہ</p> <p>میل فی گھنٹہ</p> <p>ناٹس</p> <p>ناٹ</p> <p>ناٹس</p> <p>ڈگری سیلسیس</p> <p>ڈگری سیلسیس</p> <p>ڈگری سیلسیس</p> <p>ڈگری فارن ہائیٹ</p> <p>ڈگری فارن ہائیٹ</p> <p>ڈگری فارن ہائیٹ</p> <p>کیلون</p> <p>کیلون</p> <p>کیلون</p> <p>پاؤنڈ فٹ</p> <p>پاؤنڈ فٹ</p> <p>پاؤنڈ فٹ</p> <p>نیوٹن میٹر</p> <p>نیوٹن میٹر</p> <p>نیوٹن میٹر</p> <p>کیوبک کلو میٹر</p> <p>کیوبک کلو میٹر</p> <p>کیوبک کلو میٹر</p> <p>کیوبک میٹر</p> <p>کیوبک میٹر</p> <p>کیوبک میٹر</p> <p>فی کیوبک میٹر</p> <p>کیوبک سینٹی میٹر</p> <p>کیوبک سینٹی میٹر</p> <p>کیوبک سینٹی میٹر</p> <p>فی کیوبک سینٹی میٹر</p> <p>کیوبک میل</p> <p>کیوبک میل</p> <p>کیوبک میل</p> <p>کیوبک گز</p> <p>کیوبک گز</p> <p>کیوبک گز</p> <p>کیوبک فیٹ</p> <p>کیوبک فیٹ</p> <p>کیوبک فٹ</p> <p>کیوبک انچ</p> <p>کیوبک انچ</p> <p>کیوبک انچ</p> <p>میگا لیٹر</p> <p>میگا لیٹر</p> <p>میگا لیٹر</p> <p>ہیکٹو لیٹر</p> <p>ہیکٹو لیٹر</p> <p>ہیکٹو لیٹر</p> <p>لیٹر</p> <p>لیٹر</p> <p>لیٹر</p> <p>فی لیٹر</p> <p>ڈیسی لیٹر</p> <p>ڈیسی لیٹر</p> <p>ڈیسی لیٹر</p> <p>سینٹی لیٹر</p> <p>سینٹی لیٹر</p> <p>سینٹی لیٹر</p> <p>ملی لیٹر</p> <p>ملی لیٹر</p> <p>ملی لیٹر</p> <p>میٹرک پائنٹ</p> <p>میٹرک پائنٹ</p> <p>میٹرک پائنٹ</p> <p>میٹرک کپ</p> <p>میٹرک کپ</p> <p>میٹرک کپ</p> <p>ایکڑ فٹ</p> <p>ایکڑ فٹ</p> <p>ایکڑ فٹ</p> <p>گیلن</p> <p>گیلن</p> <p>گیلن</p> <p>فی گیلن</p> <p>امپیریل گیلن</p> <p>امپیریل گیلن</p> <p>امپیریل گیلن</p> <p>فی امپیریل گیلن</p> <p>کوارٹ</p> <p>کوارٹ</p> <p>کوارٹ</p> <p>پائنٹ</p> <p>پائنٹ</p> <p>پائنٹ</p> <p>کپ</p> <p>کپ</p> <p>کپ</p> <p>فلوئڈ اونس</p> <p>فلوئڈ اونس</p> <p>فلوئڈ اونس</p> <p>امپیریل فلوئڈ اونس</p> <p>امپیریئل فلوئڈ اونس</p> <p>امپیریئل فلوئڈ اونس</p> <p>ٹیبل سپون</p> <p>ٹیبل سپون</p> <p>ٹیبل سپون</p> <p>ٹی سپون</p> <p>ٹی سپون</p> <p>ٹی سپون</p> <p>بیرلز</p> <p>بیرل</p> <p>بیرلز</p> <p>کارڈینل ڈائریکشن</p> <p>مشرق</p> <p>شمال</p> <p>جنوب</p> <p>مغرب</p> <p>جی-فورس</p> <p>ریڈینس</p> <p>ڈگری</p> <p>ڈگری</p> <p>ڈگری</p> <p>آرک منٹ</p> <p>آرک منٹ</p> <p>آرک منٹ</p> <p>آرک سیکنڈ</p> <p>آرک سیکنڈ</p> <p>آرک سیکنڈ</p> <p>ہیکٹر</p> <p>ہیکٹر</p> <p>ہیکٹر</p> <p>مربع میٹر</p> <p>مربع میل</p> <p>ایکڑ</p> <p>ایکڑ</p> <p>ایکڑ</p> <p>مربع گز</p> <p>مربع فٹ</p> <p>مربع انچ</p> <p>دُنامز</p> <p>دُنام</p> <p>دُنام</p> <p>قیراط</p> <p>ملی مول/لیٹر</p> <p>حصے/ملین</p> <p>فیصد</p> <p>فی ہزار</p> <p>پرمرئیڈ</p> <p>مول</p> <p>مول</p> <p>مول</p> <p>لیٹر/100 کلو میٹر</p> <p>پی بائٹ</p> <p>پی بی</p> <p>پی بی</p> <p>بائٹ</p> <p>صدی</p> <p>صدی</p> <p>صدیاں</p> <p>دہائی</p> <p>دہائی</p> <p>دہائی</p> <p>سال</p> <p>سال</p> <p>سال</p> <p>مہینے</p> <p>مہینہ</p> <p>مہینے</p> <p>ہفتے</p> <p>ہفتہ</p> <p>ہفتے</p> <p>فی ہفتہ</p> <p>دن</p> <p>دن</p> <p>دن</p> <p>فی دن</p> <p>گھنٹے</p> <p>گھنٹہ</p> <p>گھنٹے</p> <p>فی گھنٹہ</p> <p>منٹ</p> <p>منٹ</p> <p>منٹ</p> <p>فی منٹ</p> <p>سیکنڈ</p> <p>سیکنڈ</p> <p>سیکنڈ</p> <p>فی سیکنڈ</p> <p>ملی سیکنڈ</p> <p>ملی سیکنڈ</p> <p>ملی سیکنڈ</p> <p>مائیکرو سیکنڈ</p> <p>مائیکرو سیکنڈ</p> <p>مائیکرو سیکنڈ</p> <p>نینو سیکنڈز</p> <p>نینو سیکنڈ</p> <p>نینو سیکنڈ</p> <p>اوہم</p> <p>وولٹ</p> <p>الیکٹرون وولٹ</p> <p>امریکی تھرم</p> <p>امریکی تھرم</p> <p>امریکی تھرمز</p> <p>پاؤنڈ قوت</p> <p>نیوٹن</p> <p>پکسلز</p> <p>میگا پکسلز</p> <p>کلو میٹر</p> <p>کلو میٹر</p> <p>کلو میٹر</p> <p>فی کلو میٹر</p> <p>میٹر</p> <p>میٹر</p> <p>میٹر</p> <p>سینٹی میٹر</p> <p>سینٹی میٹر</p> <p>سینٹی میٹر</p> <p>ملی میٹر</p> <p>ملیمیٹر</p> <p>ملیمیٹر</p> <p>پیکو میٹر</p> <p>پیکو میٹر</p> <p>پیکو میٹر</p> <p>میل</p> <p>میل</p> <p>میل</p> <p>گز</p> <p>یارڈ</p> <p>یارڈ</p> <p>فیٹ</p> <p>فیٹ</p> <p>فیٹ</p> <p>انچ</p> <p>انچ</p> <p>پارسیک</p> <p>نوری سال</p> <p>پوائنٹس</p> <p>شمسی رداس</p> <p>شمسی چمک</p> <p>گرام</p> <p>ٹن</p> <p>پاؤنڈ</p> <p>قیراط</p> <p>ڈالٹنز</p> <p>زمینی کمیتیں</p> <p>شمسی کمیتیں</p> <p>کلو واٹ</p> <p>کلو واٹ</p> <p>واٹ</p> <p>واٹ</p> <p>واٹ</p> <p>بار</p> <p>بار</p> <p>بارز</p> <p>کلومیٹر/گھنٹہ</p> <p>میٹر فی سیکنڈ</p> <p>میل فی گھنٹہ</p> <p>ڈگری سیلسیس</p> <p>ڈگری فارن ہائیٹ</p> <p>‎کیوبک سینٹی میٹر</p> <p>کیوبک میل</p> <p>کیوبک میل</p> <p>کیوبک میل</p> <p>کیوبک گز</p> <p>کیوبک فٹ</p> <p>کیوبک انچ</p> <p>لیٹر</p> <p>لیٹر</p> <p>لیٹر</p> <p>فی لیٹر</p> <p>ڈیسی لیٹر</p> <p>سینٹی لیٹر</p> <p>ایکڑ فٹ</p> <p>کپ</p> <p>بیرل</p> <p>ڈائریکشن</p> <p>ڈگری</p> <p>ڈگری</p> <p>منٹ</p> <p>منٹ</p> <p>ہیکٹر</p> <p>ہیکٹر</p> <p>ایکڑ</p> <p>ایکڑ</p> <p>لیٹر</p> <p>کلو میٹر</p> <p>سال</p> <p>سال</p> <p>سال</p> <p>مہینہ</p> <p>مہینہ</p> <p>مہینے</p> <p>ہفتہ</p> <p>ہفتہ</p> <p>ہفتے</p> <p>دن</p> <p>دن</p> <p>دن</p> <p>فی دن</p> <p>گھنٹہ</p> <p>گھنٹہ</p> <p>گھنٹے</p> <p>فی گھنٹہ</p> <p>منٹ</p> <p>منٹ</p> <p>منٹ</p> <p>فی منٹ</p> <p>سیکنڈ</p> <p>سیکنڈ</p> <p>سیکنڈ</p> <p>فی سیکنڈ</p> <p>ملی سیکنڈ</p> <p>کلو میٹر</p> <p>کلو میٹر</p> <p>کلو میٹر</p> <p>فی کلو میٹر</p> <p>میٹر</p> <p>میٹر</p> <p>میٹر</p> <p>فی میٹر</p> <p>ڈیسی میٹر</p> <p>سینٹی میٹر</p> <p>فی سینٹی میٹر</p> <p>ملی میٹر</p> <p>ملیمیٹر</p> <p>ملیمیٹر</p> <p>میل</p> <p>میل</p> <p>میل</p> <p>گز</p> <p>یارڈ</p> <p>یارڈ</p> <p>فیٹ</p> <p>فی فیٹ</p> <p>انچ</p> <p>انچ</p> <p>انچ</p> <p>فی انچ</p> <p>فی کلو گرام</p> <p>گرام</p> <p>گرام</p> <p>گرام</p> <p>فی گرام</p> <p>پونڈ</p> <p>پونڈ</p> <p>ونس</p> <p>ونس</p> <p>واٹ</p> <p>واٹ</p> <p>انچ مرکری</p> <p>انچ مرکری</p> <p>میٹر فی سیکنڈ</p> <p>میل فی گھنٹہ</p> <p>لیٹر</p> <p>لیٹر</p> <p>لیٹر</p> <p>ڈائریکشن</p> <p>، اور </p> <p>اور </p> <p>، یا </p> <p>یا </p> <p>، اور </p> <p>اور </p> <p>، اور </p> <p>، اور </p> <p>اور </p> <p>، اور </p> <p>اور </p> <p>ہاں:ہاں</p> <p>نہیں:نہیں</p> <p>— تمام</p> <p>— مطابقت</p> <p>— منسکہ</p> <p>— توسیعی</p> <p>— تاریخی</p> <p>— متفرق</p> <p>— دیگر</p> <p>اسکرپٹس — </p> <p>اسٹروک</p> <p>اسٹروک</p> <p>سرگرمی</p> <p>افریقی اسکرپٹس</p> <p>امریکی سکرپٹس</p> <p>جانور</p> <p>حیوانات و فطرت</p> <p>تیر کے نشانات</p> <p>جسم</p> <p>ڈرائنگ باکس</p> <p>بریل</p> <p>عمارت</p> <p>بلیٹ یا اسٹار</p> <p>کونسونینٹل جامو</p> <p>کرنسی کی علامات</p> <p>ڈیش یا کنکٹر</p> <p>عدد</p> <p>ڈنگ بیٹ</p> <p>غیب دانی کی علامات</p> <p>نیچے کی جانب تیر کا نشان</p> <p>نیچے اوپر کی جانب تیر کا نشان</p> <p>وسطی ایشیائی اسکرپٹس</p> <p>ایموجی</p> <p>یوروپی اسکرپٹس</p> <p>عورت</p> <p>پرچم</p> <p>پرچم</p> <p>غذا اور مشروب</p> <p>فارمیٹ</p> <p>فارمیٹ اور خالی جگہ</p> <p>مکمل صورت کے متغیرات</p> <p>جیومیٹری کی اشکال</p> <p>آدھی صورت کے متغیرات</p> <p>ہین کیرکٹر</p> <p>ہین ریڈیکلز</p> <p>ہنجا</p> <p>ہنزی (آسان کردہ)</p> <p>ہنزی (روایتی)</p> <p>دل</p> <p>تاریخی اسکرپٹ</p> <p>تصور نگاری نزولی حروف</p> <p>چاپانی کانا</p> <p>کانبون</p> <p>کانجی</p> <p>کی کیپ</p> <p>بائیں جانب تیر کا نشان</p> <p>بائیں دائیں جانب تیر کا نشان</p> <p>حروف کے جیسی علامات</p> <p>محدود استعمال</p> <p>مرد</p> <p>ریاضی کی علامات</p> <p>مشرقی وسطی اسکرپٹ</p> <p>متفرق</p> <p>جدید ترین اسکرپٹ</p> <p>ترمیم کار</p> <p>موسیقی کی علامات</p> <p>قدرت</p> <p>غیر فاصلہ کاری</p> <p>اعداد</p> <p>آبجیکٹس</p> <p>دیگر</p> <p>جوڑی</p> <p>شخص</p> <p>صوتیاتی حروف</p> <p>پکٹوگراف</p> <p>جگہ</p> <p>پلانٹ</p> <p>رموز اوقاف</p> <p>دائیں جانب تیر کا نشان</p> <p>نشان یا علامت</p> <p>چھوٹی صورت کے متغیرات</p> <p>مُسکراتا ہوا</p> <p>اسمالیز اور لوگ</p> <p>جنوبی ایشیائی اسکرپٹس</p> <p>جنوب مشرقی ایشیائی اسکرپٹس</p> <p>فاصلہ بندی</p> <p>کھیل</p> <p>علامات</p> <p>تکنیکی علامات</p> <p>ٹون مارکس</p> <p>سفر</p> <p>سفر اور مقامات</p> <p>اوپر کی جانب تیر کا نشان</p> <p>مختلف صورتیں</p> <p>مصوتی جامو</p> <p>موسم</p> <p>مغربی ایشیائی اسکرپٹس</p> <p>خالی جگہ</p> <p>ترچھا</p> <p>بصری سائز</p> <p>جھکاؤ</p> <p>چوڑائی</p> <p>موٹائی</p> <p>خمیدہ</p> <p>کیپشن</p> <p>متن</p> <p>عنوانات</p> <p>ڈسپلے</p> <p>پوسٹر</p> <p>پیچھے کو جُھکا ہوا</p> <p>سیدھا</p> <p>جُھکا ہوا</p> <p>زیادہ جُھکا ہوا</p> <p>انتہائی سکیڑا ہوا</p> <p>انتہائی دبایا ہوا</p> <p>انتہائی تنگ</p> <p>زیادہ سکیڑا ہوا</p> <p>زیادہ دبایا ہوا</p> <p>زیادہ تنگ</p> <p>سکیڑا ہوا</p> <p>دبایا ہوا</p> <p>دبایا ہوا</p> <p>نیم سکیڑا ہوا</p> <p>نیم دبایا ہوا</p> <p>نیم تنگ</p> <p>نارمل</p> <p>نیم کھولا ہوا</p> <p>نیم پھیلایا ہوا</p> <p>نیم چوڑا</p> <p>کھولا ہوا</p> <p>پھیلایا ہوا</p> <p>چوڑا</p> <p>زیادہ کھولا ہوا</p> <p>زیادہ پھیلایا ہوا</p> <p>زیادہ چوڑا</p> <p>انتہائی کھولا ہوا</p> <p>انتہائی پھیلایا ہوا</p> <p>انتہائی چوڑا</p> <p>پتلا</p> <p>زیادہ پتلا</p> <p>انتہائی پتلا</p> <p>ہلکا</p> <p>نیم ہلکا</p> <p>کتاب</p> <p>ریگولر</p> <p>میڈیم</p> <p>نیم بولڈ</p> <p>نصف بولڈ</p> <p>بولڈ</p> <p>زیادہ بولڈ</p> <p>سیاہ</p> <p>بھاری</p> <p>زیادہ سیاہ</p> <p>انتہائی سیاہ</p> <p>انتہائی بھاری</p> <p>عمودی کسور</p> <p>بڑے حروف کے درمیان خالی جگہ</p> <p>اختیاری لگیچر</p> <p>ترچھی کسور</p> <p>لائننگ نمبرز</p> <p>قدیم طرز کے ہندسے</p> <p>آرڈینلز</p> <p>تناسبی نمبرز</p> <p>چھوٹے سائز میں بڑے حروف</p> <p>ٹیبیولر نمبرز</p> <p>خط کشیدہ زیرو</p> </section> </body>
0048.xml
<meta> <title>Unicode Subdivision Data</title> <publication> <name>Unicode Common Locale Data Repository v36.1</name> <year>2020</year> <link>http://unicode.org/Public/cldr/36.1/</link> <copyright-holder>Unicode, Inc.</copyright-holder> <license-link>https://www.unicode.org/license.html</license-link> </publication> <num-words>9560</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> <notes>This is a modified version of the original document, retaining only data with Urdu words</notes> </meta>
Unicode Subdivision Data
9,560
No
<body> <section> <p>کانیلو</p> <p>انکامپ</p> <p>لا ماسانا</p> <p>اوردینو</p> <p>سانت جولیا در لوریا</p> <p>اسکالدیس-انگوردانی</p> <p>عجمان</p> <p>ابوظہبی</p> <p>امارت دبئی</p> <p>فجیرہ</p> <p>راس الخیمہ</p> <p>شارجہ</p> <p>ام القوین</p> <p>بلخ</p> <p>بامیان</p> <p>صوبہ بادغیس</p> <p>صوبہ بدخشاں</p> <p>صوبہ بغلان</p> <p>صوبہ دایکندی</p> <p>صوبہ فراہ</p> <p>صوبہ فاریاب</p> <p>صوبہ غزنی</p> <p>صوبہ غور</p> <p>صوبہ ہلمند</p> <p>صوبہ ہرات</p> <p>صوبہ جوزجان</p> <p>صوبہ کابل</p> <p>صوبہ قندھار</p> <p>صوبہ کاپیسا</p> <p>صوبہ قندوز</p> <p>صوبہ خوست</p> <p>صوبہ کنڑ</p> <p>لاگھمان صوبہ</p> <p>صوبہ لوگر</p> <p>صوبہ ننگرہار</p> <p>صوبہ نیمروز</p> <p>صوبہ نورستان</p> <p>پنج شیر</p> <p>صوبہ پروان</p> <p>پکتیا</p> <p>صوبہ پکتیکا</p> <p>صوبہ سمنگان</p> <p>صوبہ سرپل</p> <p>صوبہ تخار</p> <p>اروزگان</p> <p>وردک</p> <p>زابل پراونس</p> <p>سینٹ جارج پیرش، اینٹیگوا و باربوڈا</p> <p>سینٹ جان پیرش، اینٹیگوا و باربوڈا</p> <p>سینٹ میری پیرش، اینٹیگوا و باربوڈا</p> <p>سینٹ پال پیرش</p> <p>سینٹ پیٹر پیرش، اینٹیگوا و باربوڈا</p> <p>سینٹ فلپ پیرش، اینٹیگوا و باربوڈا</p> <p>باربوڈا</p> <p>ریدوندا</p> <p>صوبہ بیرات</p> <p>صوبہ دراج</p> <p>صوبہ الباسان</p> <p>صوبہ فیر</p> <p>صوبہ ارجیر</p> <p>صوبہ کورچہ</p> <p>صوبہ کوکس</p> <p>صوبہ لژہ</p> <p>صوبہ دیبر</p> <p>صوبہ شکودر</p> <p>صوبہ تیرانا</p> <p>صوبہ ولورہ</p> <p>آراگاتسوتن صوبہ</p> <p>ارارات صوبہ</p> <p>آرامویر صوبہ</p> <p>یریوان</p> <p>گیغارکونیک صوبہ</p> <p>کوتایک صوبہ</p> <p>لوری صوبہ</p> <p>شیراک صوبہ</p> <p>سیونیک صوبہ</p> <p>تاووش صوبہ</p> <p>وایوتس جور صوبہ</p> <p>بنگو صوبہ</p> <p>بینگوئلا صوبہ</p> <p>بئے صوبہ</p> <p>کابیندا صوبہ</p> <p>کواندو کوبانگو صوبہ</p> <p>کونینے صوبہ</p> <p>کوانزا شمالی صوبہ</p> <p>کوانزا جنوبی صوبہ</p> <p>ہوامبو صوبہ</p> <p>ہوئلا صوبہ</p> <p>لوندا شمالی صوبہ</p> <p>لوندا جنوبی صوبہ</p> <p>لواندا صوبہ</p> <p>مالانجے صوبہ</p> <p>موشیکو صوبہ</p> <p>نامیبے صوبہ</p> <p>اوئگے صوبہ</p> <p>زائیر صوبہ</p> <p>صوبہ سالتا</p> <p>صوبہ بیونس آئرس</p> <p>بیونس آئرس</p> <p>صوبہ سان لوئیس</p> <p>صوبہ انترے ریوس</p> <p>لا ریوجا صوبہ، ارجنٹین</p> <p>صوبہ سانتیاگو دل استرو</p> <p>صوبہ چاکو</p> <p>صوبہ سان خوآن، ارجنٹائن</p> <p>صوبہ کاتامارکا</p> <p>لا پامپا صوبہ</p> <p>صوبہ مندوسا</p> <p>صوبہ میسیونس</p> <p>صوبہ فورموسا</p> <p>صوبہ نیوکوین</p> <p>صوبہ ریو نیگرو</p> <p>صوبہ سانتا فے</p> <p>صوبہ توکومان</p> <p>صوبہ چوبوت</p> <p>صوبہ تیئرا دل فوئگو، ارجنٹائن</p> <p>صوبہ کورینتس</p> <p>صوبہ کوردوبا، ارجنٹائن</p> <p>صوبہ خوخوئی</p> <p>صوبہ سانتا کروز، ارجنٹائن</p> <p>بورگنلینڈ</p> <p>کارنتھیا (ریاست)</p> <p>زیریں آسٹریا</p> <p>بالائی آسٹریا</p> <p>سالزبرگ (ریاست)</p> <p>سٹیریا</p> <p>ٹیرول (ریاست)</p> <p>وورارلبرگ</p> <p>ویانا</p> <p>آسٹریلوی دارالحکومت علاقہ</p> <p>نیو ساؤتھ ویلز</p> <p>شمالی علاقہ</p> <p>کوئنزلینڈ</p> <p>جنوبی آسٹریلیا</p> <p>تسمانیا</p> <p>وکٹوریہ (آسٹریلیا)</p> <p>مغربی آسٹریلیا</p> <p>آب شیرون ضلع</p> <p>اغستافا ضلع</p> <p>اغجابادی ضلع</p> <p>اغدام ضلع</p> <p>آقداش ضلع</p> <p>اغسو ضلع</p> <p>آستارا ضلع</p> <p>باکو</p> <p>بابک ضلع</p> <p>بالاکن ضلع</p> <p>بردع ضلع</p> <p>بیلقان ضلع</p> <p>بیلاسوار ضلع</p> <p>جبراییل ضلع</p> <p>جلیل آباد ضلع (آذربائیجان)</p> <p>جلفا ضلع</p> <p>داشکسن ضلع</p> <p>فضولی ضلع</p> <p>گنجہ</p> <p>گدابے ضلع</p> <p>گورانبوئے ضلع</p> <p>گوئچے ضلع</p> <p>حاجی قبول ضلع</p> <p>ایمیشلی ضلع</p> <p>اسماعیلی ضلع</p> <p>کلباجار ضلع</p> <p>کانجارلی ضلع</p> <p>کردامیر ضلع</p> <p>لنکران ضلع</p> <p>لاچین ضلع</p> <p>لنکران</p> <p>لیرک ضلع</p> <p>ماسالی ضلع</p> <p>منگچویر</p> <p>نفتچالا ضلع</p> <p>ناخچیوان (شہر)</p> <p>ناخچیوان خود مختار جمہوریہ</p> <p>اغوز ضلع</p> <p>اردوباد ضلع</p> <p>قابالا ضلع</p> <p>کاخ ضلع</p> <p>قازاخ ضلع</p> <p>قوبا ضلع</p> <p>قوبادلی ضلع</p> <p>قوبوستان ضلع</p> <p>قوسار ضلع</p> <p>شکی</p> <p>سبیر آباد ضلع</p> <p>صدرک ضلع</p> <p>شاحبوز ضلع</p> <p>شکی ضلع</p> <p>سالیان ضلع</p> <p>سااتلی ضلع</p> <p>شابران ضلع</p> <p>سیاہ زن ضلع</p> <p>شمخور ضلع</p> <p>سومقاییت</p> <p>ساموخ ضلع</p> <p>شیروان</p> <p>شوشا ضلع</p> <p>تارتار ضلع</p> <p>توووز ضلع</p> <p>اجڑ ضلع</p> <p>خان کندی</p> <p>خاشماز ضلع</p> <p>خوجالی ضلع</p> <p>یارڈیملی ضلع</p> <p>یولاخ</p> <p>ییولاخ ضلع</p> <p>زنگلان ضلع</p> <p>زاقاتالا ضلع</p> <p>زارداب ضلع</p> <p>وفاق بوسنیا و ہرزیگووینا</p> <p>ضلع برچکو</p> <p>سرپسکا</p> <p>کرائسٹ چرچ، بارباڈوس</p> <p>سینٹ اینڈریو، بارباڈوس</p> <p>سینٹ جارج، بارباڈوس</p> <p>سینٹ جیمز، بارباڈوس</p> <p>سینٹ جان، بارباڈوس</p> <p>سینٹ جوسف، بارباڈوس</p> <p>سینٹ لسی، بارباڈوس</p> <p>سینٹ مائیکل، بارباڈوس</p> <p>سینٹ پیٹر، بارباڈوس</p> <p>سینٹ فلپ، بارباڈوس</p> <p>سینٹ تھامس، بارباڈوس</p> <p>بندربان ضلع</p> <p>برگونا ضلع</p> <p>بوگرا ضلع</p> <p>برہمنباریا ضلع</p> <p>باگرہٹ ضلع</p> <p>باریسال ضلع</p> <p>بھولا ضلع</p> <p>کومیلا ضلع</p> <p>چاندپور ضلع</p> <p>چٹاگانگ ضلع</p> <p>کاکس بازار ضلع</p> <p>چوادانگا ضلع</p> <p>ڈھاکہ ضلع</p> <p>دیناج پور ضلع، بنگلہ دیش</p> <p>فرید پور ضلع</p> <p>فینی ضلع</p> <p>گوپال گنج ضلع، بنگلہ دیش</p> <p>غازی پور ضلع</p> <p>گائے بندھا ضلع</p> <p>حبی گنج ضلع</p> <p>جمالپور ضلع</p> <p>جیسور ضلع</p> <p>جھینایداہ ضلع</p> <p>جیپرحت ضلع</p> <p>جھالوکاٹی ضلع</p> <p>کشور گنج ضلع</p> <p>ضلع کھلنا</p> <p>کوریگرام ضلع</p> <p>کھاگراچاری ضلع</p> <p>کوشتیا ضلع</p> <p>لکشمی پور ضلع</p> <p>لال مینار ہٹ ضلع</p> <p>مانک گنج ضلع</p> <p>میمن سنگھ ضلع</p> <p>منشی گنج ضلع</p> <p>مداری پور ضلع</p> <p>ماگورا ضلع</p> <p>مولوی بازار ضلع</p> <p>مہر پور ضلع</p> <p>نارائن گنج ضلع</p> <p>نیتورکونا ضلع</p> <p>نارسینگدی ضلع</p> <p>نارائل ضلع</p> <p>نتور ضلع</p> <p>چپائی نواب گنج ضلع</p> <p>نیلپھاماری ضلع</p> <p>نواکھالی ضلع</p> <p>ناو گاؤں ضلع</p> <p>پبنا ضلع</p> <p>پیروجپور ضلع</p> <p>پاتواکھاکی ضلع</p> <p>پنچھاگڑھ ضلع</p> <p>راج باڑی ضلع</p> <p>راجشاہی ضلع</p> <p>رنگ پور ضلع</p> <p>رنگامتی ضلع</p> <p>شیر پور ضلع</p> <p>ساتخیرا ضلع</p> <p>سراج گنج ضلع</p> <p>سلہٹ ضلع</p> <p>سونم گنج ضلع</p> <p>شریعت پور ضلع</p> <p>تنگیل ضلع</p> <p>ٹھاکر گاؤں ضلع</p> <p>باریسال ڈویژن</p> <p>چٹاگانگ ڈویژن</p> <p>ڈھاکہ ڈویژن</p> <p>کھلنا ڈویژن</p> <p>راجشاہی ڈویژن</p> <p>رنگپور ڈویژن</p> <p>سلہٹ ڈویژن</p> <p>میمن سنگھ ڈویژن</p> <p>برسلز</p> <p>اینٹورپ</p> <p>فلیمش برابنٹ</p> <p>فلیمش علاقہ</p> <p>لمبرگ</p> <p>مشرقی فلانڈرز</p> <p>مغربی فلانڈرز</p> <p>والونیا</p> <p>والون برابنٹ</p> <p>ہائنو</p> <p>لییج</p> <p>لکسمبرگ</p> <p>نامور</p> <p>بوکل دی موہون علاقہ</p> <p>آبشار علاقہ</p> <p>وسطی علاقہ</p> <p>وسطی-مشرقی علاقہ</p> <p>وسطی-شمالی علاقہ</p> <p>وسطی-مغربی علاقہ</p> <p>وسطی-جنوبی علاقہ</p> <p>مشرقی علاقہ</p> <p>بالائی-طاس علاقہ</p> <p>شمالی علاقہ</p> <p>مرتفع-وسطی علاقہ</p> <p>سہیل ریجن</p> <p>جنوبی-مغربی علاقہ</p> <p>بالے صوبہ</p> <p>بام صوبہ</p> <p>بنوا صوبہ</p> <p>بازےگا صوبہ</p> <p>بؤگؤریبا صوبہ</p> <p>بؤلگؤ صوبہ</p> <p>بوولکییمدی صوبہ</p> <p>کوموے صوبہ</p> <p>گانزؤرگؤ صوبہ</p> <p>گناگنا صوبہ</p> <p>گؤرما صوبہ</p> <p>ہؤیت صوبہ</p> <p>ایوبا صوبہ</p> <p>کادیوگو صوبہ</p> <p>کےنےدؤگؤ صوبہ</p> <p>کوموندجاری صوبہ</p> <p>کومپیئنگا صوبہ</p> <p>کوولپیلوجو صوبہ</p> <p>کوسی صوبہ</p> <p>کؤریتئنگا صوبہ</p> <p>کؤروئوگو صوبہ</p> <p>لیرابا صوبہ</p> <p>لورؤم صوبہ</p> <p>مؤہؤن صوبہ</p> <p>نامینتینجا صوبہ</p> <p>ناہؤری صوبہ</p> <p>نایالا صوبہ</p> <p>نؤمبیئل صوبہ</p> <p>اؤبریتئنگا صوبہ</p> <p>اؤدالان صوبہ</p> <p>پاسورے صوبہ</p> <p>پونی صوبہ</p> <p>سینو صوبہ</p> <p>سیسیلی صوبہ</p> <p>سانماتئنگا صوبہ</p> <p>سانگویے صوبہ</p> <p>سؤم صوبہ</p> <p>سؤرؤ صوبہ</p> <p>تاپوا صوبہ</p> <p>توے صوبہ</p> <p>یاگہا صوبہ</p> <p>یاتئنگا صوبہ</p> <p>زیرو صوبہ</p> <p>زوندوما صوبہ</p> <p>زؤندویوگو صوبہ</p> <p>بلاگووگراد صوبہ</p> <p>بورگاس صوبہ</p> <p>وارنا صوبہ</p> <p>ویلیکو تارنوو صوبہ</p> <p>ویدین صوبہ</p> <p>وراتسا صوبہ</p> <p>گابروو صوبہ</p> <p>دوبریچ صوبہ</p> <p>کاردژالی صوبہ</p> <p>کیوستندیل صوبہ</p> <p>لوویچ صوبہ</p> <p>مونٹانا صوبہ</p> <p>پازارجیک صوبہ</p> <p>پیرنک صوبہ</p> <p>پلیوین صوبہ</p> <p>پلوودیف صوبہ</p> <p>رازگراڈ صوبہ</p> <p>روسے صوبہ</p> <p>سیلیسترا صوبہ</p> <p>سیلوین صوبہ</p> <p>سمولیان صوبہ</p> <p>صوفیہ صوبہ</p> <p>ستارا زاگورا صوبہ</p> <p>ترگوویشتے صوبہ</p> <p>خاسکوو صوبہ</p> <p>شومن صوبہ</p> <p>یامبول صوبہ</p> <p>محافظہ دارالحکومت، بحرین</p> <p>محافظہ جنوبیہ</p> <p>محافظہ محرق</p> <p>محافظہ شمالیہ</p> <p>بوبونزا صوبہ</p> <p>بوجمبورا دیہی صوبہ</p> <p>بوجمبورا میری صوبہ</p> <p>بوروری صوبہ</p> <p>کانکوزو صوبہ</p> <p>سیبیتوکے صوبہ</p> <p>گیتیگا صوبہ</p> <p>کیروندو صوبہ</p> <p>کاروزی صوبہ</p> <p>کایانزا صوبہ</p> <p>ماکامبا صوبہ</p> <p>مورامویا صوبہ</p> <p>موارو صوبہ</p> <p>موئینگا صوبہ</p> <p>نگوزی صوبہ</p> <p>رومونگی صوبہ</p> <p>روتانا صوبہ</p> <p>روئیگی صوبہ</p> <p>اتاکورا محکمہ</p> <p>الیبوری محکمہ</p> <p>اٹلانٹک محکمہ</p> <p>بورگوؤ محکمہ</p> <p>کولینز محکمہ</p> <p>دونگا محکمہ</p> <p>کوؤفو محکمہ</p> <p>لیتورال محکمہ</p> <p>مونو محکمہ</p> <p>اؤیمے محکمہ</p> <p>پلیٹیو محکمہ</p> <p>زوؤ محکمہ</p> <p>بیلائت ضلع</p> <p>برونائی-موارا ضلع</p> <p>تیمبورونگ ضلع</p> <p>توتنگ ضلع</p> <p>محکمہ بینی</p> <p>محکمہ کوچابامبا</p> <p>محکمہ چوکویساکا</p> <p>محکمہ لا پاز</p> <p>محکمہ پاندو</p> <p>محکمہ اورورو</p> <p>محکمہ پوتوسی</p> <p>محکمہ سانتا کروز</p> <p>محکمہ تاریخا</p> <p>بونایر</p> <p>صبا</p> <p>سینٹ ایوسٹائیس</p> <p>اکری</p> <p>الاگواس</p> <p>ایمازوناس</p> <p>اماپا</p> <p>باہیا</p> <p>سئیرا</p> <p>وفاقی ضلع</p> <p>اسپیریتو سانتو</p> <p>گوئیاس</p> <p>مارانہاؤ</p> <p>میناس گیرائس</p> <p>جنوبی ماتو گروسو</p> <p>ماتو گروسو</p> <p>پارا</p> <p>پارائیبا</p> <p>پرنامبوکو</p> <p>پیاوی</p> <p>پارانا</p> <p>ریو دے جینیرو</p> <p>شمالی ریو گرانڈی</p> <p>روندونیا</p> <p>رورائیما</p> <p>جنوبی ریو گرانڈی</p> <p>سانتا کاتارینا</p> <p>سرژیپی</p> <p>ساؤ پاؤلو</p> <p>توکانتینس</p> <p>آکلینز</p> <p>بیمینی</p> <p>بلیک پوائنٹ</p> <p>جزائر بیری</p> <p>سینٹرل یلیوتحیرا</p> <p>جزیرہ کیٹ، بہاماس</p> <p>جزیرہ کروکڈ، بہاماس</p> <p>سینٹرل اباکو</p> <p>سینٹرل اندروس</p> <p>ایسٹ گرینڈ ہہاما</p> <p>جارج ٹاؤن، بہاماس</p> <p>فری پورٹ، بہاماس</p> <p>گرینڈ کای</p> <p>حاربوور آئی لینڈ</p> <p>ہوپ ٹاؤن</p> <p>اناگوا</p> <p>لانگ آئلینڈ، بہاماس</p> <p>مانجرووی کای</p> <p>مایاجوانا</p> <p>نارتھ یلیوتحیرا</p> <p>نارتھ اباکو</p> <p>نارتھ اندروس</p> <p>رم کای</p> <p>راججید آئی لینڈ</p> <p>ساؤتھ اندروس</p> <p>ساؤتھ یلیوتحیرا</p> <p>ساؤتھ اباکو</p> <p>جزیرہ سان سلواڈور</p> <p>سپینش ویلز</p> <p>ویسٹ گرینڈ ہہاما</p> <p>پارو ضلع</p> <p>چوکہا ضلع</p> <p>ہا ضلع</p> <p>سامتسے ضلع</p> <p>تھمپھو ضلع</p> <p>تسیرانگ ضلع</p> <p>داگانا ضلع</p> <p>پوناخا ضلع</p> <p>وانگدو پھودرانگ ضلع</p> <p>سارپانگ ضلع</p> <p>ترونگسا ضلع</p> <p>بومتھانگ ضلع</p> <p>ژیمگانگ ضلع</p> <p>تراشیگانگ ضلع</p> <p>مونگار ضلع</p> <p>پیماگاتشل ضلع</p> <p>لہنتسے ضلع</p> <p>سامدروپ جونگخار ضلع</p> <p>گاسا ضلع</p> <p>تراشییانگتسے ضلع</p> <p>وسطی ضلع</p> <p>چوبے ضلع</p> <p>فرانسس ٹاؤن</p> <p>گبرون</p> <p>غانزی ضلع</p> <p>جوانینگ</p> <p>کگالاگادی ضلع</p> <p>کگاٹلینگ ضلع</p> <p>کوینینگ ضلع</p> <p>لوباٹسے</p> <p>شمال-مشرقی ضلع</p> <p>شمال-مغربی ضلع</p> <p>جنوب-مشرقی ضلع</p> <p>سدرن ضلع</p> <p>سیلیبی-فیکوے</p> <p>سووا</p> <p>بریسٹ علاقہ</p> <p>منسک</p> <p>گومل علاقہ</p> <p>گرودنو علاقہ</p> <p>موگیلیف علاقہ</p> <p>منسک علاقہ</p> <p>ویٹبسک علاقہ</p> <p>بیلیز ضلع</p> <p>کایو ضلع</p> <p>کوروزال ضلع</p> <p>اورنج واک ضلع</p> <p>ستان کریک ضلع</p> <p>ٹولڈو ضلع</p> <p>البرٹا</p> <p>برٹش کولمبیا</p> <p>مانیٹوبا</p> <p>نیو برنزویک</p> <p>نیو فاؤنڈ لینڈ اور لیبراڈور</p> <p>نووا سکوشیا</p> <p>شمال مغربی علاقہ جات، کینیڈا</p> <p>نناوت</p> <p>انٹاریو</p> <p>پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ</p> <p>کیوبیک</p> <p>ساسکچیوان</p> <p>يوکون</p> <p>زیریں-کانگو</p> <p>یقواتیور</p> <p>کاسائی-مشرقی</p> <p>کنشاسا</p> <p>مانیما</p> <p>شمالی کیوو</p> <p>جنوبی کیوو</p> <p>اوہام</p> <p>بامینگوئی-بانگوران</p> <p>بانگوئی</p> <p>زیریں-کوتو</p> <p>بالائی-کوتو</p> <p>بالا-مبومؤ</p> <p>مامبیرے-کادئی</p> <p>نانا-گریبیزی</p> <p>کئمو</p> <p>لوبایے</p> <p>مبومؤ</p> <p>اومبیلا-مپوکو</p> <p>نانا-مامبیرے</p> <p>اوہام-پاندے</p> <p>سانگھا-مبایرے</p> <p>اواکا</p> <p>واکاگا</p> <p>لیکؤمؤ محکمہ</p> <p>کؤیلؤ محکمہ</p> <p>لیکوالا محکمہ</p> <p>کؤیت محکمہ</p> <p>نیاری محکمہ</p> <p>بؤینزا محکمہ</p> <p>پول محکمہ</p> <p>سانگا محکمہ</p> <p>پلاتو محکمہ</p> <p>کؤیت-مغربی محکمہ</p> <p>برازاویلے</p> <p>آرگاؤ</p> <p>اپینسیل انیررودن</p> <p>اپینسیل اوسیررودن</p> <p>کینٹن برن</p> <p>بازل-لاندشافت</p> <p>بازل-شتادت</p> <p>کینٹن فریبور</p> <p>کینٹن جنیوا</p> <p>کینٹن گلاروس</p> <p>گراوبوندن</p> <p>کینٹن جورا</p> <p>کینٹن لوتسیرن</p> <p>کینٹن نوشاتل</p> <p>نیدوالدن</p> <p>اوبوالدن</p> <p>کینٹن سانکت گالن</p> <p>کینٹن شافہاوزن</p> <p>کینٹن زولوتورن</p> <p>کینٹن شویتس</p> <p>تھورگاو</p> <p>تیچینو</p> <p>کینٹن اوری</p> <p>وو</p> <p>والے</p> <p>کینٹن تسوگ</p> <p>کینٹن زیورخ</p> <p>آبدجان</p> <p>باس-ساساندرا ضلع</p> <p>کوموے ضلع</p> <p>دینجویلی ڈسٹرک</p> <p>لاگونیس ضلع</p> <p>مونتاگنیس ضلع</p> <p>ساوانیس ڈسٹرک</p> <p>والیی دو بانداما ضلع</p> <p>ووروبا ضلع</p> <p>یاموسسوکرو</p> <p>زانزان ضلع</p> <p>ایسین ریجن</p> <p>انتوفاجاستا ریجن</p> <p>اراوکانیا ریجن</p> <p>اتاکاما ریجن</p> <p>ریجن میتروپولیتانا</p> <p>کوکیمبو علاقہ</p> <p>لوس لاگوس علاقہ</p> <p>لوس ریوس علاقہ</p> <p>ماگایانس و لا انتارتیکا چلی علاقہ</p> <p>ماولے علاقہ</p> <p>سینٹیاگو میٹروپولیٹن علاقہ</p> <p>تاراپاکا ریجن</p> <p>والپارایسو علاقہ</p> <p>آداماوا علاقہ</p> <p>وسطی علاقہ</p> <p>بعید شمالی علاقہ</p> <p>مشرقی علاقہ</p> <p>لیتورال علاقہ</p> <p>شمالی علاقہ</p> <p>شمال مغربی علاقہ</p> <p>مغربی علاقہ</p> <p>جنوبی علاقہ</p> <p>جنوب مغربی علاقہ</p> <p>انہوئی</p> <p>بیجنگ</p> <p>چونگ کینگ</p> <p>فوجیان</p> <p>گوانگڈونگ</p> <p>گانسو</p> <p>گوانگشی</p> <p>گوئیژو</p> <p>ہینان</p> <p>ہوبئی</p> <p>ہیبئی</p> <p>ہائنان</p> <p>ہانگ کانگ</p> <p>ہیلونگجیانگ</p> <p>ہونان</p> <p>جیلن</p> <p>جیانگسو</p> <p>جیانگشی</p> <p>لیاؤننگ</p> <p>مکاؤ</p> <p>اندرونی منگولیا</p> <p>نینگشیا</p> <p>چنگھائی</p> <p>سیچوان</p> <p>شانڈونگ</p> <p>شنگھائی</p> <p>شانسی</p> <p>شنسی</p> <p>تیانجین</p> <p>صوبہ تائیوان، عوامی جمہوریہ چین</p> <p>سنکیانگ</p> <p>تبت خود مختار علاقہ</p> <p>یوننان</p> <p>ژجیانگ</p> <p>ایمازوناس محکمہ</p> <p>انتیوکیا محکمہ</p> <p>آراوکا محکمہ</p> <p>اتلانتیکو محکمہ</p> <p>بولیوار محکمہ</p> <p>بویاکا محکمہ</p> <p>کالداس محکمہ</p> <p>کاکیتا محکمہ</p> <p>کاسانارے محکمہ</p> <p>کاؤکا محکمہ</p> <p>سیزار محکمہ</p> <p>چوکو محکمہ</p> <p>کوردوبا محکمہ</p> <p>کوندینامارکا محکمہ</p> <p>بوگوتا</p> <p>گواینیا محکمہ</p> <p>گوابیارے محکمہ</p> <p>ہوئلا محکمہ</p> <p>لا گواجیرا دیپارٹمنٹ</p> <p>ماگدالینا محکمہ</p> <p>میتا محکمہ</p> <p>نارینو محکمہ</p> <p>شمالی سانتاندر محکمہ</p> <p>پوتامایو محکمہ</p> <p>قیندیو محکمہ</p> <p>ریسارالدا محکمہ</p> <p>سانتاندر محکمہ</p> <p>مجموعہ الجزائر سان اینڈریس، پرووڈینسیا و سانتا کاتالینا</p> <p>سوکرے محکمہ</p> <p>تولیما محکمہ</p> <p>ویے دیل کاؤکا محکمہ</p> <p>واوپیس محکمہ</p> <p>بیچادا محکمہ</p> <p>الاخویلا صوبہ</p> <p>کارتاگو صوبہ</p> <p>گواناکاستے صوبہ</p> <p>ایریدیا صوبہ</p> <p>لیمون صوبہ</p> <p>پونتاریناس صوبہ</p> <p>سان خوزے صوبہ</p> <p>پینار دیل ریو صوبہ</p> <p>ماتانساس صوبہ</p> <p>ویا کلارا صوبہ</p> <p>سینفویگوس صوبہ</p> <p>سانکتی سپیریتوس صوبہ</p> <p>سیئگو دے ابیلا صوبہ</p> <p>کاماگوئی صوبہ</p> <p>لاس ٹناس صوبہ</p> <p>اولگین صوبہ</p> <p>گرانما صوبہ</p> <p>سانتیاگو دے کیوبا صوبہ</p> <p>گوانتانامو صوبہ</p> <p>آرتیمیسا صوبہ</p> <p>مایابیکوے صوبہ</p> <p>ازلا دے لا خوبینتود</p> <p>بارلاوینتو جزائر</p> <p>براوا</p> <p>بوا وسٹا</p> <p>سنتا کاتارینا</p> <p>سنتا کاتارینا دو فوجو</p> <p>سنتا کروز</p> <p>مائیو، کیپ ورڈی</p> <p>موستییروس</p> <p>پال</p> <p>پورٹو نووو</p> <p>پرایا</p> <p>ریبییرا براوا</p> <p>ریبییرا جراندی</p> <p>ریبییرا جراندی دے سانتیاگو</p> <p>سوتاوینتو جزائر</p> <p>ساؤ دومینجوس</p> <p>ساؤ فیلیپی</p> <p>سال</p> <p>سآو میگوئل، کیپ ورڈی</p> <p>ساؤ لوورینکو ڈوز ورجاوس</p> <p>ساؤ سالوادور دو موندو</p> <p>ساؤ ویکینتی</p> <p>تارافال</p> <p>تارافال دے ساؤ نیکولاو</p> <p>ضلع نیکوسیا</p> <p>ضلع لیماسول</p> <p>ضلع لارناکا</p> <p>ضلع فاماگوستا</p> <p>ضلع پافوس</p> <p>ضلع کیرینیہ</p> <p>پراگ</p> <p>مرکزی بوہیمیائی علاقہ</p> <p>پراگ-غربی ضلع</p> <p>پشیبرام ضلع</p> <p>راکوونیک ضلع</p> <p>جنوبی بوہیمیائی علاقہ</p> <p>پلزین علاقہ</p> <p>کارلووی واری علاقہ</p> <p>اوستی ناد لاہم علاقہ</p> <p>لیبرتس علاقہ</p> <p>ہاردک کارلوف علاقہ</p> <p>پاردوبیتسے علاقہ</p> <p>ویسوچیانا علاقہ</p> <p>جنوبی موراویائی علاقہ</p> <p>اولوموک علاقہ</p> <p>زلین علاقہ</p> <p>موراویائی سیلیسیائی علاقہ</p> <p>پراگ 1</p> <p>پراگ 2</p> <p>پراگ 3</p> <p>پراگ 4</p> <p>پراگ 5</p> <p>پراگ 6</p> <p>پراگ 7</p> <p>پراگ 8</p> <p>پراگ 9</p> <p>پراگ 10</p> <p>پراگ 11</p> <p>پراگ 12</p> <p>پراگ 13</p> <p>پراگ 14</p> <p>پراگ 15</p> <p>بینیشوف ضلع</p> <p>بیرون ضلع</p> <p>کلاندو ضلع</p> <p>کولین ضلع</p> <p>کوتنا ہورا ضلع</p> <p>میلنک ضلع</p> <p>ملادا بولسلاو ضلع</p> <p>نمبورک ضلع</p> <p>پراگ-شرقی ضلع</p> <p>چسکے بودجیووسکے ضلع</p> <p>چیسکی کروملوف ضلع</p> <p>جندرشیخوو ہاردک ضلع</p> <p>پیسک ضلع</p> <p>پراخاتسے ضلع</p> <p>ستراکونیسے ضلع</p> <p>تابور ضلع</p> <p>دوماشزلیسے ضلع</p> <p>کلاتووی ضلع</p> <p>پلزین-شہر ضلع</p> <p>پلزین-جنوبی ضلع</p> <p>پلزین-شمالی ضلع</p> <p>روکیسانی ضلع</p> <p>تاخوف ضلع</p> <p>خیب ضلع</p> <p>کارلووی واری ضلع</p> <p>سوکولوف ضلع</p> <p>دیچین ضلع</p> <p>خومتو ضلع</p> <p>لیتومیرشسے ضلع</p> <p>لونی ضلع</p> <p>موست ضلع</p> <p>تپلیتسے ضلع</p> <p>اوستی ناد لاہم ضلع</p> <p>چیسکا لیپا ضلع</p> <p>جبلونیک ناد نسو ضلع</p> <p>لیبرتس ضلع</p> <p>ہاردک کارلوف ضلع</p> <p>جیچن ضلع</p> <p>ناخود ضلع</p> <p>ریخنوف ناد کنیزشنو ضلع</p> <p>ترنتوو ضلع</p> <p>خودیم ضلع</p> <p>پاردوبیتسے ضلع</p> <p>سویتاوی ضلع</p> <p>اوستی ناد اورلیسی ضلع</p> <p>ہاولیچکورف برود ضلع</p> <p>ایہاوا ضلع</p> <p>پیلہریموف ضلع</p> <p>تشربیچ ضلع</p> <p>زشدار ناد سازوو ضلع</p> <p>بلانسکو ضلع</p> <p>برنو-شہر ضلع</p> <p>برنو-کنٹری ضلع</p> <p>بشرسلاف ضلع</p> <p>ہودونین ضلع</p> <p>ویشکوف ضلع</p> <p>زنویمو ضلع</p> <p>یسنک ضلع</p> <p>اولوموک ضلع</p> <p>پروستیو ضلع</p> <p>پژیرو ضلع</p> <p>شومپرک ضلع</p> <p>کرومیرشیزش ضلع</p> <p>اوہیرسکے ہاردیشتے ضلع</p> <p>وسیتین ضلع</p> <p>زلین ضلع</p> <p>بروتال ضلع</p> <p>فریدک-میستک ضلع</p> <p>کاروینا ضلع</p> <p>نووی جیچن ضلع</p> <p>اوپاوا ضلع</p> <p>اوستراوا-شہر ضلع</p> <p>برندنبرگ</p> <p>برلن</p> <p>بادن-وورتمبرگ</p> <p>بواریا</p> <p>برمن (صوبہ)</p> <p>ہیسے</p> <p>ہامبرگ</p> <p>مکلنبرگ-ورپورمرن</p> <p>نیدرزاکسن</p> <p>نوردرائن-ویسٹ فالیا</p> <p>رائن لینڈ-پلاتینیت</p> <p>شلسویگ-ہولشتائن</p> <p>سارلنڈ</p> <p>زاکسن</p> <p>زاکسن-آنہالت</p> <p>تورینگن</p> <p>ارتا علاقہ</p> <p>علی صبیح علاقہ</p> <p>دخیل علاقہ</p> <p>جبوتی علاقہ</p> <p>اوبوک علاقہ</p> <p>تاجورہ علاقہ</p> <p>شمالی ڈنمارک علاقہ</p> <p>وسطی ڈنمارک علاقہ</p> <p>جنوبی ڈنمارک علاقہ</p> <p>دارالحکومت علاقہ ڈنمارک</p> <p>سینٹ اینڈریو پیرش، ڈومینیکا</p> <p>سینٹ ڈیوڈ پیرش، ڈومینیکا</p> <p>سینٹ جارج پیرش، ڈومینیکا</p> <p>سینٹ جان پیرش، ڈومینیکا</p> <p>سینٹ جوزف پیرش، ڈومینیکا</p> <p>سینٹ لوق پیرش، ڈومینیکا</p> <p>سینٹ مارک پیرش، ڈومینیکا</p> <p>سینٹ پیٹرک پیرش، ڈومینیکا</p> <p>سینٹ پال پیرش، ڈومینیکا</p> <p>سینٹ پیٹر پیرش، ڈومینیکا</p> <p>وفاقی ضلع، جمہوریہ ڈومینیکن</p> <p>آسوا صوبہ</p> <p>باوروکو صوبہ</p> <p>بارائونا صوبہ</p> <p>داخابون صوبہ</p> <p>دوارتے صوبہ</p> <p>ایلیاس پینیا صوبہ</p> <p>ایل سئیبو صوبہ</p> <p>ایسپایئات صوبہ</p> <p>اندیپیندینسیا صوبہ</p> <p>لا التاغراسیا صوبہ</p> <p>لا رومانا صوبہ، جمہوریہ ڈومینیکن</p> <p>لا ویغا صوبہ</p> <p>ماریا ترینیداد سانچیز صوبہ</p> <p>مونتے کریستی صوبہ</p> <p>پیدرنالیس صوبہ</p> <p>پیراویا صوبہ</p> <p>پورتو پلاتا صوبہ</p> <p>ایرماناس میرابال صوبہ</p> <p>سامانآ صوبہ</p> <p>سان کریستوبال صوبہ</p> <p>سان خوان صوبہ</p> <p>سان پیدرو دے ماکوریس صوبہ</p> <p>سانچیز رامیریز صوبہ</p> <p>سانتیاغو صوبہ</p> <p>سانتیاغو روریغیز صوبہ</p> <p>بالبیردے صوبہ</p> <p>مونسینیور نوویئل صوبہ</p> <p>مونتے پلاتا صوبہ</p> <p>آتو مائیور صوبہ</p> <p>سان خوسے دے اوکوا صوبہ</p> <p>سانتو دومینگو صوبہ</p> <p>صوبہ ادرار</p> <p>صوبہ الشلف</p> <p>صوبہ الاغواط</p> <p>صوبہ ام البواقی</p> <p>صوبہ باتنہ</p> <p>صوبہ بجایہ</p> <p>صوبہ بسکرہ</p> <p>صوبہ بشار</p> <p>صوبہ البلیدہ</p> <p>صوبہ البویرہ</p> <p>صوبہ تمنراست</p> <p>صوبہ تبسہ</p> <p>صوبہ تلمسان</p> <p>صوبہ تیارت</p> <p>صوبہ تیزی وزو</p> <p>صوبہ الجزائر</p> <p>صوبہ الجلفہ</p> <p>صوبہ جیجل</p> <p>صوبہ سطیف</p> <p>سیدہ علاقہ</p> <p>صوبہ سکیکدہ</p> <p>صوبہ سیدی بلعباس</p> <p>صوبہ عنابہ</p> <p>صوبہ قالمہ</p> <p>صوبہ قسنطینہ</p> <p>صوبہ المدیہ</p> <p>صوبہ مستغانم</p> <p>صوبہ المسیلہ</p> <p>صوبہ معسکر</p> <p>صوبہ ورقلہ</p> <p>صوبہ وھران</p> <p>صوبہ البیض</p> <p>صوبہ الیزی</p> <p>صوبہ برج بو عریریج</p> <p>صوبہ بومرداس</p> <p>صوبہ الطارف</p> <p>صوبہ تندوف</p> <p>صوبہ تسمسیلت</p> <p>صوبہ الوادی</p> <p>صوبہ خنشلہ</p> <p>صوبہ سوق اھراس</p> <p>صوبہ تیبازہ</p> <p>صوبہ میلہ</p> <p>صوبہ عین الدفلی</p> <p>صوبہ النعامہ</p> <p>صوبہ عین تموشنت</p> <p>صوبہ غرادیہ</p> <p>صوبہ غلیزان</p> <p>آسوای صوبہ</p> <p>بولیوار صوبہ</p> <p>کارچی صوبہ</p> <p>اوریانا صوبہ</p> <p>ایزمیراداس صوبہ</p> <p>کانیار صوبہ</p> <p>گوایاس صوبہ</p> <p>چیمبوراسو صوبہ</p> <p>امبابورا صوبہ</p> <p>لوخا صوبہ</p> <p>مانابی صوبہ</p> <p>ناپو صوبہ</p> <p>ایل اورو صوبہ</p> <p>پیچینچا صوبہ</p> <p>لاس ریوس صوبہ</p> <p>مورونا-سانتیاگو صوبہ</p> <p>سانتو دومنگو دے لاس تسآچیلاس صوبہ</p> <p>سانتا الینا صوبہ</p> <p>تونگوراہوا صوبہ</p> <p>سوکومبیوس صوبہ</p> <p>گالاپاگوس صوبہ</p> <p>کوتوپازی صوبہ</p> <p>پاستاسا صوبہ</p> <p>سامورا-چینچیپے صوبہ</p> <p>ہاریو کاؤنٹی</p> <p>ہییو کاؤنٹی</p> <p>ایدا-ویرو کاؤنٹی</p> <p>یوگاوا کاؤنٹی</p> <p>جاروا کاؤنٹی</p> <p>لانی کاؤنٹی</p> <p>لانی-ویرو کاؤنٹی</p> <p>پولوا کاؤنٹی</p> <p>پارنو کاؤنٹی</p> <p>رپلا کاؤنٹی</p> <p>سارے کاؤنٹی</p> <p>تارتو کاؤنٹی</p> <p>والگا کاؤنٹی</p> <p>ویلیاندی کاؤنٹی</p> <p>وورو کاؤنٹی</p> <p>محافظہ اسکندریہ</p> <p>محافظہ اسوان</p> <p>محافظہ اسیوط</p> <p>محافظہ بحر احمر</p> <p>محافظہ بحیرہ</p> <p>محافظہ بنی سیوف</p> <p>محافظہ قاہرہ</p> <p>محافظہ دقہلیہ</p> <p>محافظہ دمیاط</p> <p>محافظہ فیوم</p> <p>محافظہ غربیہ</p> <p>محافظہ جیزہ</p> <p>محافظہ اسماعیلیہ</p> <p>محافظہ جنوبی سینا</p> <p>محافظہ قلیوبیہ</p> <p>محافظہ کفر الشیخ</p> <p>محافظہ قنا</p> <p>محافظہ الاقصر</p> <p>محافظہ منیا</p> <p>محافظہ منوفیہ</p> <p>محافظہ مطروح</p> <p>محافظہ پورٹ سعید</p> <p>محافظہ سوہاج</p> <p>محافظہ الشرقیہ</p> <p>محافظہ شمالی سینا</p> <p>محافظہ سوئیز</p> <p>محافظہ وادی جدید</p> <p>انسبا علاقہ</p> <p>جنوبی بحیرہ احمر علاقہ</p> <p>دیبوب علاقہ</p> <p>گاش-برکہ علاقہ</p> <p>مائیکیل ریجن</p> <p>شمالی بحیرہ احمر علاقہ</p> <p>صوبہ الیکانتے</p> <p>صوبہ الباسیتے</p> <p>صوبہ المریہ</p> <p>اندلوسیا</p> <p>اراغون</p> <p>استوریاس</p> <p>صوبہ آبیلا</p> <p>صوبہ برشلونہ</p> <p>صوبہ بطليوس</p> <p>بیسکای</p> <p>صوبہ بورگوس</p> <p>صوبہ لا کورونا</p> <p>صوبہ کادیز</p> <p>کانتابریا</p> <p>صوبہ کاسیریس</p> <p>سبتہ</p> <p>قشتالہ اور لیون</p> <p>کاستیا-لا مانچا</p> <p>صوبہ قرطبہ</p> <p>صوبہ سیوداد ریال</p> <p>صوبہ کاستیلون</p> <p>کاتالونیا</p> <p>صوبہ کوینکا</p> <p>اکستریمادورا</p> <p>گالیسیا</p> <p>صوبہ لاس پاماس</p> <p>صوبہ جیرونا</p> <p>صوبہ غرناطہ</p> <p>صوبہ گوادالاخارا</p> <p>صوبہ ویلبا</p> <p>صوبہ ویسکا</p> <p>جزائر بلیبار</p> <p>صوبہ خائن</p> <p>صوبہ لاریدا</p> <p>صوبہ لیون</p> <p>لا ریوخا</p> <p>صوبہ لوگو</p> <p>صوبہ مالقہ</p> <p>ریجن مورکیا</p> <p>ملیلہ</p> <p>ناوار²</p> <p>ناوار</p> <p>صوبہ اورینسے</p> <p>صوبہ پالینسیا</p> <p>جزائر بلیبار²</p> <p>صوبہ پونتیبیدرا</p> <p>باسک ملک</p> <p>لا ریوخا²</p> <p>کانتابریا²</p> <p>صوبہ سالامانکا</p> <p>صوبہ اشبیلیہ</p> <p>صوبہ سیگوبیا</p> <p>سوریا صوبہ</p> <p>گیپوسکوا</p> <p>صوبہ تاریگؤنا</p> <p>صوبہ تیرویل</p> <p>صوبہ سانتا کروز دے فینیریفے</p> <p>صوبہ طلیطلہ</p> <p>صوبہ ویلنسیا</p> <p>صوبہ بلدولید</p> <p>ویلنسیائی کمیونٹی</p> <p>آلابا</p> <p>صوبہ سرقسطہ</p> <p>صوبہ سامورا</p> <p>ادیس ابابا</p> <p>افار علاقہ</p> <p>امہارا علاقہ</p> <p>بینشانگول-گوموز علاقہ</p> <p>دیرہ داوا</p> <p>گامبیلا علاقہ</p> <p>ہراری علاقہ</p> <p>اورومیا علاقہ</p> <p>جنوبی اقوام، قومیتیں، اور عوامی علاقہ</p> <p>صومالی علاقہ</p> <p>تیگراے علاقہ</p> <p>جنوبی کاریلیا</p> <p>جنوبی اوستروبوثنیہ</p> <p>سدرن ساوونیا</p> <p>کاینو</p> <p>تاواستیا پروپر</p> <p>وسطی اوستروبوثنیہ</p> <p>وسطی فن لینڈ</p> <p>کومنلاکسو</p> <p>لاپلند</p> <p>پیرکانما</p> <p>اوستروبوثنیہ</p> <p>شمالی کاریلیا</p> <p>شمالی اوستروبوثنیہ</p> <p>شمالی ساوونیا</p> <p>پائینے تاواستیا</p> <p>ساتاکونتا</p> <p>وسیما</p> <p>جنوب مغربی فن لینڈ</p> <p>سینٹرل ڈویژن</p> <p>یاستیرن ڈویژن</p> <p>ناردرن ڈویژن</p> <p>روتوما</p> <p>ویسٹرن ڈویژن</p> <p>کوسرئی</p> <p>پوحنپیی اسٹیٹ</p> <p>ریاست چوک</p> <p>ریاست یاپ</p> <p>ان، فرانس</p> <p>اینہ</p> <p>کورس-جنوبی</p> <p>بالائی-کورس</p> <p>الیے</p> <p>آلپ-دو-بالائی-پروانس</p> <p>بالائی-آلپ</p> <p>آلپ-ماریتیم</p> <p>آردیش</p> <p>اردن</p> <p>اریج</p> <p>اوب</p> <p>اود</p> <p>اویرون</p> <p>بوش-دو-رون</p> <p>کالوادوس</p> <p>کانتال</p> <p>شارنت</p> <p>شارنت-ماریتیم</p> <p>شر</p> <p>کوریز</p> <p>کوت دور</p> <p>کوت درمور</p> <p>کروز</p> <p>ڈورڈوین</p> <p>ڈو</p> <p>ڈروم</p> <p>اور</p> <p>اور-اے-لوار</p> <p>فینیستیر</p> <p>گار</p> <p>بالائی-گارون</p> <p>جرس</p> <p>جیروند</p> <p>ایرو</p> <p>ایل-اے-ویلن</p> <p>آندر</p> <p>آندر-اے-لوار</p> <p>ایزار</p> <p>جورا</p> <p>لانڈیس</p> <p>لوار-اے-شر</p> <p>لویری</p> <p>بالائی-لوار</p> <p>لوار-اتلانتیک</p> <p>لوارے</p> <p>لوت</p> <p>لوت-اے-گارون</p> <p>لوزیر</p> <p>مین-اے-لوار</p> <p>مانش</p> <p>مارن، فرانس</p> <p>بالائی-مارن</p> <p>ماین</p> <p>مرتے-اے-موزیل</p> <p>موز</p> <p>موربیاں</p> <p>موسیلی</p> <p>نیاور</p> <p>نور</p> <p>واز</p> <p>اورن</p> <p>پا دے کالے</p> <p>پوی-دو-دوم</p> <p>پیرینے-اتلانتیک</p> <p>بالائی-پیرینے</p> <p>پیرینے-اورینتال</p> <p>زیریں-رن</p> <p>بلند-رن</p> <p>رون</p> <p>بالائی-سون</p> <p>سون-اے-لوآر</p> <p>سارت</p> <p>ساووا</p> <p>بالائی-ساووا</p> <p>پیرس</p> <p>سین-ماریتیم</p> <p>سین-اے-مارن</p> <p>یولنس</p> <p>ڈو-سیور</p> <p>سوم</p> <p>تارن</p> <p>تارن-اے-گارون</p> <p>وار</p> <p>وکلوز</p> <p>واندے</p> <p>ویئن</p> <p>بالائی-ویئن</p> <p>ووژ</p> <p>یوننے</p> <p>تیریتوار دو بیلفور</p> <p>ایسون</p> <p>بلند-دو-سین</p> <p>سین-سینٹ-دونی</p> <p>ول-دو-مارن</p> <p>ول-دواز</p> <p>اوویغنئے-غون-آلپ</p> <p>بورغونئے-فغانش-کومتے</p> <p>بریتانیہ</p> <p>کورسیکا</p> <p>سانتر-وال دو لوار</p> <p>گرایت است</p> <p>او دے فرانس</p> <p>ایل-دو-فرانس</p> <p>نوویل-ایکیتین</p> <p>نورمینڈی</p> <p>اوکیتانی</p> <p>پروانس-آلپ-کوت دازور</p> <p>پئی دو لا لوار</p> <p>یستوایری صوبہ</p> <p>حاوت-وجووی صوبہ</p> <p>مویین-وجووی صوبہ</p> <p>نجوونیی صوبہ</p> <p>نیانجا صوبہ</p> <p>اوگوئی اویندو صوبہ</p> <p>اوگوئی لولو صوبہ</p> <p>وجووی-ماریتیمی صوبہ</p> <p>وولیو-نتیم صوبہ</p> <p>آرماہ، بینبریج اور کرائگیون</p> <p>ابیردینشائر</p> <p>ابرڈین</p> <p>آرڈز اور نارتھ ڈاؤن</p> <p>انٹریم اور نیو ٹاؤن ایبی</p> <p>انجوس</p> <p>باتھ اور شمال مشرقی سامرسیٹ</p> <p>بلیکبرن مع ڈاروین</p> <p>بورو بیڈفورڈ</p> <p>بارکنگ اور ڈیگنہیم بورو</p> <p>برینٹ بورو</p> <p>بیکزلی بورو</p> <p>برمنگھم</p> <p>بکنگھمشائر</p> <p>بورنموتھ</p> <p>بارنیٹ بورو</p> <p>برائیٹن اینڈ ہوو</p> <p>میٹروپولیٹن بورو بارنسلے</p> <p>میٹروپولیٹن بورو بولٹن</p> <p>بلیکپول</p> <p>براکنیل فارسٹ</p> <p>بریڈفورڈ شہر</p> <p>بروملی بورو</p> <p>برسٹل</p> <p>میٹروپولیٹن بورو بری</p> <p>کیمبرجشائر</p> <p>وسطی بیڈفورڈشائر</p> <p>کازوئے کوسٹ اور گلینز</p> <p>کیریدیجیون</p> <p>چیشائر مشرقی</p> <p>کلڈرڈیل</p> <p>کلاکماننانشائر</p> <p>کامبریا</p> <p>کیمڈن بورو</p> <p>کارمارتھینشائر</p> <p>کونوال</p> <p>کووینٹری</p> <p>کارڈف</p> <p>کروئڈن بورو</p> <p>ڈربیشائر</p> <p>دینبیگھشائر</p> <p>ڈربی</p> <p>ڈیون</p> <p>میٹروپولیٹن بورو ڈانکاسٹر</p> <p>ڈنڈی، سکاٹ لینڈ</p> <p>ڈورسٹ</p> <p>ڈیری اور سٹربین</p> <p>میٹروپولیٹن بورو ڈڈلی</p> <p>کاؤنٹی ڈرہم</p> <p>ایلنگ بورو</p> <p>مشرقی آئرشائر</p> <p>ایڈنبرا</p> <p>ایسٹ دونبارٹنشائر</p> <p>ایسٹ لوتھیان</p> <p>اینفیلڈ بورو</p> <p>انگلینڈ</p> <p>ایسیکس</p> <p>مشرقی سسیکس</p> <p>فالکیرک</p> <p>فائف</p> <p>فلینتشائر</p> <p>فیرمانہ اور اوما</p> <p>میٹروپولیٹن بورو گیٹسہیڈ</p> <p>برطانیہ عظمی</p> <p>گلاسگو</p> <p>گلوسٹرشائر</p> <p>گرینچ کا شاہی بورو</p> <p>جوینید</p> <p>بورو ہالٹن</p> <p>ہیمپشائر</p> <p>ہیورنگ بورو</p> <p>ہیکنی بورو</p> <p>ہیرفورڈشائر</p> <p>ھلنگٹن بورو</p> <p>ہائی لینڈ</p> <p>ہیمرسمت اور فلہم بورو</p> <p>ہونسلو بورو</p> <p>بورو ہارٹلپول</p> <p>ہارٹفورڈشائر</p> <p>ہیعرو بورو</p> <p>ہارنگے بورو</p> <p>جزائر سیلی</p> <p>آئل آف ویٹ</p> <p>ازلنگٹن بورو</p> <p>انویرکلیدی</p> <p>کینزنگٹن اور چیلسی بورو</p> <p>کینٹ</p> <p>کنگسٹن اپون ہل</p> <p>کرکلیز</p> <p>کنگسٹن اپون تھیمز بورو</p> <p>میٹروپولیٹن بورو نوزلی</p> <p>لنکاشائر</p> <p>لسبرن اور کیسلرے</p> <p>لیمبیتھ بورو</p> <p>لیسٹر</p> <p>لیڈز شہر</p> <p>لیسٹرشائر</p> <p>لیوشم بورو</p> <p>لنکنشائر</p> <p>لیورپول</p> <p>لندن شہر</p> <p>لوٹن</p> <p>مانچسٹر</p> <p>میڈیلزبرو</p> <p>میڈوے</p> <p>وسطی اور مشرقی انٹریم</p> <p>بورو ملٹن کینز</p> <p>میدلوتھیان</p> <p>مونمووتھشائر</p> <p>مرٹن بورو</p> <p>موڑے</p> <p>وسطی-السٹر ضلع</p> <p>شمالی آئرشائر</p> <p>نارتھمبرلینڈ</p> <p>شمالی مشرقی لنکنشائر</p> <p>نیوکیسل اپون ٹائین</p> <p>نارفوک</p> <p>ناٹنگھم</p> <p>شمالی آئرلینڈ</p> <p>شمالی لنکنشائر</p> <p>نیوری، مورن اور ڈاؤن</p> <p>شمالی سامرسیٹ</p> <p>نارتھیمپٹنشائر</p> <p>ناٹنگھمشائر</p> <p>شمالی ٹینیسائڈ</p> <p>نیوہیم بورو</p> <p>شمالی یارکشائر</p> <p>میٹروپولیٹن بورو اولڈھم</p> <p>آکسفورڈشائر</p> <p>پیمبروکشائر</p> <p>پلایماؤتھ</p> <p>پول، انگلستان</p> <p>پورٹسماؤتھ</p> <p>پوویس</p> <p>پیٹربورو</p> <p>ریڈکار اور کلیولینڈ</p> <p>میٹروپولیٹن بورو راچڈیل</p> <p>ریڈبرج بورو</p> <p>ریڈنگ، بارکشائر</p> <p>رینفریوشائر</p> <p>رچمنڈ اپون تھیمز بورو</p> <p>میٹروپولیٹن بورو روتھرہیم</p> <p>راٹلینڈ</p> <p>سینڈویل</p> <p>جنوبی آئرشائر</p> <p>سکاٹش بارڈرز</p> <p>اسکاٹ لینڈ</p> <p>سافک</p> <p>میٹروپولیٹن بورو سیفٹن</p> <p>جنوبی گلوسٹرشائر</p> <p>شیفیلڈ</p> <p>میٹروپولیٹن بورو سینٹ ہیلنز</p> <p>شروپشائر</p> <p>میٹروپولیٹن بورو سٹاکپورٹ</p> <p>سالفورڈ شہر</p> <p>سنڈرلینڈ شہر</p> <p>میٹروپولیٹن بورو سولیہل</p> <p>سامرسیٹ</p> <p>ساوتھاینڈ-آن-سی</p> <p>سرے</p> <p>سٹوک آن ٹرینٹ</p> <p>سٹرلنگ</p> <p>ساؤتھمپٹن</p> <p>سٹن بورو</p> <p>سٹیفورڈشائر</p> <p>بورو سٹاکٹن-آن-ٹیز</p> <p>جنوبی ٹینیسائڈ</p> <p>سوانزی</p> <p>بورو سوینڈون</p> <p>سدرک بورو</p> <p>ٹیمسائڈ</p> <p>ٹیلفورڈ اور ریکن</p> <p>تھاراک</p> <p>ٹوربے</p> <p>ٹریفرڈ</p> <p>ٹاور ہیملٹس بورو</p> <p>برطانیہ</p> <p>وارکشائر</p> <p>مغربی بارکشائر</p> <p>والٹہیم جنگل بورو</p> <p>میٹروپولیٹن بورو ویگان</p> <p>ویلٹشائر</p> <p>ویکفیلڈ شہر</p> <p>میٹروپولیٹن بورو والسال</p> <p>مغربی لوتھین</p> <p>ویلز</p> <p>وولورہیمپٹن</p> <p>وینڈزورتھ بورو</p> <p>شاہی بورو ونڈسر اور میڈنہیڈ</p> <p>بورو ووکنگہیم</p> <p>ووسٹرشائر</p> <p>میٹروپولیٹن برو ویرل</p> <p>وارنگٹن</p> <p>ویسٹمنسٹر شہر</p> <p>مغربی سسیکس</p> <p>یورک</p> <p>شیٹ لینڈ</p> <p>سینٹ اینڈریو پریش، گریناڈا</p> <p>سینٹ ڈیوڈ پریش، گریناڈا</p> <p>سینٹ جارج پریش، گریناڈا</p> <p>سینٹ جان پریش، گریناڈا</p> <p>سینٹ مارک پریش، گریناڈا</p> <p>سینٹ پیٹرک پریش، گریناڈا</p> <p>کاریاکو اور پیٹیٹے مارٹنیک</p> <p>ابخازيا</p> <p>ایجارا</p> <p>گوریا</p> <p>ایمرتی</p> <p>کاختی</p> <p>کویمو کارتلی</p> <p>متسختا-متیانتی</p> <p>راچا-لچخومی و کومو سوانتی</p> <p>سامتسخے-جاواختی</p> <p>شیدا کارتلی</p> <p>سامگرلو-زمو سوانتی</p> <p>تبلیسی</p> <p>عظیم اکرا علاقہ</p> <p>اشانتی ریجن</p> <p>برونج-احافو ریجن</p> <p>وسطی علاقہ</p> <p>مشرقی علاقہ</p> <p>شمالی علاقہ</p> <p>وولٹا علاقہ</p> <p>اپر ایسٹ ریجن</p> <p>اپر ویسٹ ریجن</p> <p>مغربی علاقہ</p> <p>کوجالیق</p> <p>قاسویتسوپ</p> <p>قیقاتا</p> <p>سیرمیرسوق</p> <p>بانجول</p> <p>لوئر ریور ڈویژن</p> <p>سینٹرل ریور ڈویژن</p> <p>نارتھ بینک ڈویژن</p> <p>اپر ریور ڈویژن</p> <p>ویسٹ کوسٹ ڈویژن</p> <p>بوک ریجن</p> <p>بیئلا پریفیکچور</p> <p>بوفا پریفیکچور</p> <p>بوکے پریفیکچور</p> <p>کوناکری</p> <p>کویاہ پریفیکچور</p> <p>کیندیا علاقہ</p> <p>دابولا پریفیکچور</p> <p>دنگویرائے پریفیکچور</p> <p>دالابا پریفیکچور</p> <p>دوبریکا پریفیکچور</p> <p>فاراناہ علاقہ</p> <p>فاراناہ پریفیکچور</p> <p>فوریکاریاہ پریفیکچور</p> <p>فریا پریفیکچور</p> <p>گاؤال پریفیکچور</p> <p>گویکیدؤ پریفیکچور</p> <p>کانکان علاقہ</p> <p>کانکان پریفیکچور</p> <p>کؤبیا پریفیکچور</p> <p>کیندیا پریفیکچور</p> <p>کیرؤانے پریفیکچور</p> <p>کؤندارا پریفیکچور</p> <p>کؤرؤسا پریفیکچور</p> <p>کیسیدؤگؤ پریفیکچور</p> <p>لابی ریجن</p> <p>لابی پریفیکچر</p> <p>لیلؤما پریفیکچور</p> <p>لولا پریفیکچور</p> <p>مامؤ علاقہ</p> <p>میکینٹا پریفیکٹوری</p> <p>ماندیانا پریفیکچور</p> <p>مالی پریفیکچور</p> <p>مامؤ پریفیکچور</p> <p>نزیریکورے علاقہ</p> <p>نزیریکورے پریفیکچور</p> <p>پیتا پریفیکچور</p> <p>سیگویری پریفیکچور</p> <p>تیلیمیلے پریفیکچور</p> <p>تؤگوے پریفیکچور</p> <p>یومو پرفکترے</p> <p>اننوبون صوبہ</p> <p>بیوکو نورتی صوبہ</p> <p>بیوکو سر صوبہ</p> <p>سینترو سر صوبہ</p> <p>کیی-نتیم صوبہ</p> <p>لیتورال صوبہ</p> <p>ویلی-نزاس صوبہ</p> <p>کوہ آتھوس</p> <p>مشرقی مقدونیہ اور تھریس</p> <p>وسطی مقدونیہ</p> <p>مغربی مقدونیہ</p> <p>اپیروس (علاقہ)</p> <p>ثیسالیا</p> <p>ایونی جزائر (علاقہ)</p> <p>مغربی یونان</p> <p>وسطی یونان (علاقہ)</p> <p>اتیکا (علاقہ)</p> <p>پیلوپونیز (علاقہ)</p> <p>شمالی ایجیئن</p> <p>جنوبی ایجیئن</p> <p>آلتا ویراپاس محکمہ</p> <p>باخا ویراپاس محکمہ</p> <p>چیمالتینانگو محکمہ</p> <p>چیکویمولا محکمہ</p> <p>ایسکوینتلا محکمہ</p> <p>گواتیمالا محکمہ</p> <p>ہویہویتینانگو محکمہ</p> <p>اسابال محکمہ</p> <p>خالاپا محکمہ</p> <p>خوتیاپا محکمہ</p> <p>پیتین محکمہ</p> <p>ایل پروگریسو محکمہ</p> <p>کیتشے محکمہ</p> <p>کویتسالتینانگو محکمہ</p> <p>ریتالولیو محکمہ</p> <p>ساکاتیپیکیس محکمہ</p> <p>سان مارکوس محکمہ</p> <p>سولولا محکمہ</p> <p>سانتا روسا محکمہ، گواتیمالا</p> <p>سوتشیتیپیکیس محکمہ</p> <p>توتونیکاپان محکمہ</p> <p>ساکاپا محکمہ</p> <p>بافاتا ریجن</p> <p>بولاما ریجن</p> <p>بیومبو ریجن</p> <p>بساؤ</p> <p>کاشیو علاقہ</p> <p>گابو علاقہ</p> <p>ویو ریجن</p> <p>کوینارا علاقہ</p> <p>تومبالی ریجن</p> <p>باریما واینی</p> <p>کویونی مازارونی</p> <p>دیمیرارا ماہایکا</p> <p>مشرقی بربیس کورینتینے</p> <p>ایسیکویبو جزائر مغربی دیمیرارا</p> <p>ماہایکا بربیس</p> <p>پومیرون سوپینام</p> <p>پوتارو سیپارونی</p> <p>بالائی دیمیرارا بربیس</p> <p>بالائی تاکوتو بالائی ایسیکویبو</p> <p>آتلانتیدا محکمہ</p> <p>چولوتیکا ڈیپارٹمنٹ</p> <p>کولون محکمہ</p> <p>کومایاغوا محکمہ</p> <p>کوپان محکمہ</p> <p>کورتیس محکمہ</p> <p>ال پارایسو ڈیپارٹمنٹ</p> <p>فرانسسکو مورازان ڈیپارٹمنٹ</p> <p>گریشیئس آ دیوس ڈیپارٹمنٹ</p> <p>بے آیلینڈز محکمہ</p> <p>انتیپوکا محکمہ</p> <p>لیمپیرا ڈیپارٹمنٹ</p> <p>لا پاز ڈیپارٹمنٹ</p> <p>اوکوتیپیقوی ڈیپارٹمنٹ</p> <p>اولانچو ڈیپارٹمنٹ</p> <p>سنتا بڑبڑا ڈیپارٹمنٹ</p> <p>والی ڈیپارٹمنٹ</p> <p>یورو ڈیپارٹمنٹ</p> <p>زگریب کاؤنٹی</p> <p>کراپینا-زاکوریے کاؤنٹی</p> <p>سیساک-موسلاوینا کاؤنٹی</p> <p>کارلوواتس کاؤنٹی</p> <p>واراژدن کاؤنٹی</p> <p>کوپریونیتسا-کریژیوتسی کاؤنٹی</p> <p>بیئلووار-بیلوگورا کاؤنٹی</p> <p>پریموریے-گورسکی کوتار کاؤنٹی</p> <p>لیکا-سینی کاؤنٹی</p> <p>ویروسیتیتسا-پودراوینا کاؤنٹی</p> <p>پوژیگا-سلاونیا کاؤنٹی</p> <p>برود-پوساوینا کاؤنٹی</p> <p>زدار کاؤنٹی</p> <p>اوسیئک-بارانیا کاؤنٹی</p> <p>شیبینک-کنین کاؤنٹی</p> <p>ووکووار-سریئیم کاؤنٹی</p> <p>سپلیت-دالماتیا کاؤنٹی</p> <p>استریا کاؤنٹی</p> <p>دوبروونیک-نیریتوا کاؤنٹی</p> <p>میجیموریے کاؤنٹی</p> <p>زگریب</p> <p>آرتیبونیتے محکمہ</p> <p>سانت محکمہ</p> <p>گراند آنسے محکمہ</p> <p>شمالی محکمہ</p> <p>شمالی-مشرقی محکمہ</p> <p>نیپ محکمہ</p> <p>شمالی-مغربی محکمہ</p> <p>مغربی محکمہ</p> <p>جنوبی محکمہ</p> <p>جنوبی-مشرقی محکمہ</p> <p>بارانیا کاؤنٹی</p> <p>بیکیسکسابا</p> <p>بیکیش کاؤنٹی</p> <p>باتش-کیشکون کاؤنٹی</p> <p>بوداپست</p> <p>بورشود-اباوی-زیمپلین کاؤنٹی</p> <p>چونگراد کاؤنٹی</p> <p>دیبریکین</p> <p>فیئیر کاؤنٹی</p> <p>جیور-موشون-شوپرون کاؤنٹی</p> <p>جیور</p> <p>ہایدو-بیہار کاؤنٹی</p> <p>ہیویش کاؤنٹی</p> <p>جاسز-نگیکن-سزولنوک کاؤنٹی</p> <p>کوماروم-ایسترگوم کاؤنٹی</p> <p>کیکسکیمیت</p> <p>کیپوسوار</p> <p>مسکولک</p> <p>نوگراد کاؤنٹی</p> <p>نییریجیحازا</p> <p>پاشت کاؤنٹی</p> <p>پیکس</p> <p>سزیجید</p> <p>سزیکیسفیحیروار</p> <p>سزومباتحیلی</p> <p>سزولنوک</p> <p>شوموج کاؤنٹی</p> <p>زیکسارڈ</p> <p>سالجوتارجان</p> <p>سابولچ-ساتمار-بیریگ کاؤنٹی</p> <p>تاتابانیا</p> <p>تولنا کاؤنٹی</p> <p>واش کاؤنٹی</p> <p>ویسپریم کاؤنٹی</p> <p>ویسزپریم</p> <p>زالا کاؤنٹی</p> <p>زالایجیرسزیج</p> <p>آچے</p> <p>بانگکا بیلیٹنگ</p> <p>بنگکولو</p> <p>بانٹین</p> <p>گورونٹالو (صوبہ)</p> <p>جمبی</p> <p>مغربی جاوا</p> <p>مشرقی جاوا</p> <p>جکارتہ</p> <p>وسطی جاوا</p> <p>جاوا</p> <p>کالیمانتان</p> <p>مغربی کالیمانتان</p> <p>مشرقی کالیمانتان</p> <p>ریاو جزائر صوبہ</p> <p>جنوبی کالیمانتان</p> <p>وسطی کالیمانتان</p> <p>شمالی کالیمانتان</p> <p>لامپونگ</p> <p>مالوکو (صوبہ)</p> <p>جزائر ملوک</p> <p>شمالی مالوکو</p> <p>مغربی نوسا ٹنگارہ</p> <p>مشرقی نوسا ٹنگارہ</p> <p>سونڈای جزائر کوچک</p> <p>پاپوا (صوبہ)</p> <p>مغربی پاپوا (صوبہ)</p> <p>مغربی پاپوا (علاقہ)</p> <p>ریاو</p> <p>شمالی سولاویسی</p> <p>مغربی سماٹرا</p> <p>جنوب مشرقی سولاویسی</p> <p>سولاویسی</p> <p>سماٹرا</p> <p>جنوبی سولاویسی</p> <p>مغربی سولاویسی</p> <p>جنوبی سماٹرا</p> <p>وسطی سولاویسی</p> <p>شمالی سماٹرا</p> <p>خصوصی علاقہ یوگیاکارتا</p> <p>کوناکٹ</p> <p>کاؤنٹی کلیئر</p> <p>کاؤنٹی کاوان</p> <p>کاؤنٹی کورک</p> <p>کاؤنٹی کارلو</p> <p>کاؤنٹی ڈبلن</p> <p>کاؤنٹی ڈانیگول</p> <p>کاؤنٹی گالوے</p> <p>کاؤنٹی کلڈیئر</p> <p>کاؤنٹی کلکینی</p> <p>کاؤنٹی کیری</p> <p>لینسٹر</p> <p>کاؤنٹی لونگفرڈ</p> <p>کاؤنٹی لاوتھ</p> <p>کاؤنٹی لیمرک</p> <p>کاؤنٹی لیٹریم</p> <p>کاؤنٹی لیش</p> <p>مونسٹر</p> <p>کاؤنٹی میدھ</p> <p>کاؤنٹی مونیہین</p> <p>کاؤنٹی میو</p> <p>کاؤنٹی اوفلی</p> <p>کاؤنٹی راسکومن</p> <p>کاؤنٹی سلایگوہ</p> <p>کاؤنٹی ٹپاریری</p> <p>السٹر</p> <p>کاؤنٹی واٹرفرڈ</p> <p>کاؤنٹی ویسٹمیدھ</p> <p>کاؤنٹی ویکلو</p> <p>کاؤنٹی ویکسفرڈ</p> <p>جنوبی ضلع (اسرائیل)</p> <p>حیفا ضلع</p> <p>یروشلم ضلع</p> <p>مرکزی ضلع (اسرائیل)</p> <p>تل ابیب ضلع</p> <p>شمالی ضلع (اسرائیل)</p> <p>جزائر انڈمان و نکوبار</p> <p>آندھرا پردیش</p> <p>اروناچل پردیش</p> <p>آسام</p> <p>بہار</p> <p>چندی گڑھ</p> <p>چھتیس گڑھ</p> <p>دمن و دیو</p> <p>دلی</p> <p>دادرا و نگر حویلی</p> <p>گوا</p> <p>گجرات</p> <p>ہماچل پردیش</p> <p>ہریانہ</p> <p>جھاڑکھنڈ</p> <p>جموں و کشمیر</p> <p>کرناٹک</p> <p>کیرلا</p> <p>لکشادیپ</p> <p>مہاراشٹر</p> <p>میگھالیہ</p> <p>منی پور</p> <p>مدھیہ پردیش</p> <p>میزورم</p> <p>ناگالینڈ</p> <p>اڑیسہ</p> <p>پنجاب</p> <p>پونڈیچری</p> <p>راجستھان</p> <p>سکم</p> <p>تیلنگانا</p> <p>تامل ناڈو</p> <p>تری پورہ</p> <p>اتر پردیش</p> <p>اتراکھنڈ</p> <p>مغربی بنگال</p> <p>محافظہ الانبار</p> <p>محافظہ اربیل</p> <p>محافظہ بصرہ</p> <p>محافظہ بابل</p> <p>محافظہ بغداد</p> <p>محافظہ دھوک</p> <p>محافظہ دیالی</p> <p>محافظہ ذی قار</p> <p>محافظہ کربلا</p> <p>محافظہ کرکوک</p> <p>محافظہ میسان</p> <p>محافظہ مثنی</p> <p>محافظہ نجف</p> <p>محافظہ نینوی</p> <p>محافظہ قادسیہ</p> <p>محافظہ صلاح الدین</p> <p>محافظہ سلیمانیہ</p> <p>محافظہ واسط</p> <p>صوبہ آذربائیجان شرقی</p> <p>صوبہ آذربائیجان غربی</p> <p>صوبہ اردبیل</p> <p>صوبہ اصفہان</p> <p>صوبہ ایلام</p> <p>صوبہ بوشهر</p> <p>صوبہ تہران</p> <p>صوبہ چہارمحال و بختیاری</p> <p>صوبہ خوزستان</p> <p>صوبہ زنجان</p> <p>صوبہ سمنان</p> <p>صوبہ سیستان و بلوچستان</p> <p>صوبہ فارس</p> <p>صوبہ کرمان</p> <p>صوبہ کردستان</p> <p>صوبہ کرمانشاہ</p> <p>صوبہ کہگیلویہ و بویراحمد</p> <p>صوبہ جیلان</p> <p>صوبہ لرستان</p> <p>ماژندران</p> <p>مرکزی</p> <p>صوبہ ہرمزگان</p> <p>صوبہ ہمدان</p> <p>یزد علاقہ</p> <p>صوبہ قم</p> <p>صوبہ گلستان</p> <p>صوبہ قزوین</p> <p>صوبہ خراسان جنوبی</p> <p>صوبہ خراسان رضوی</p> <p>صوبہ خراسان شمالی</p> <p>صوبہ البرز</p> <p>دارالحکومت علاقہ</p> <p>جنوبی جزیرہ نما</p> <p>مغربی علاقہ</p> <p>ویستفجوردس ریجن</p> <p>شمال مغربی علاقہ</p> <p>شمال مشرقی علاقہ</p> <p>مشرقی علاقہ</p> <p>جنوبی علاقہ</p> <p>پیعیمونتے</p> <p>وادی آوستہ</p> <p>لومباردیہ</p> <p>ترینتینو جنوبی ٹائرول</p> <p>وینیتو</p> <p>فریولی وینیزیا جولیا</p> <p>لیگوریا</p> <p>ایمیلیا رومانیا</p> <p>تسکانہ</p> <p>امبریا</p> <p>مارکے</p> <p>لازیو</p> <p>آبروزو</p> <p>مولیزے</p> <p>کمپانیہ</p> <p>پلیہ</p> <p>بازیلیکاتا</p> <p>کلابریا</p> <p>صقلیہ</p> <p>ساردینیا</p> <p>صوبہ آگریجنتو</p> <p>صوبہ الیساندریا</p> <p>صوبہ انکونا</p> <p>آئوستا</p> <p>صوبہ آسکولی پیچینو</p> <p>صوبہ لاکویلا</p> <p>صوبہ آرتزو</p> <p>صوبہ آستی</p> <p>صوبہ آویلینو</p> <p>میٹروپولیٹن شہر باری</p> <p>صوبہ بیرگامو</p> <p>صوبہ بیئلا</p> <p>صوبہ بیلونو</p> <p>صوبہ بینیوینتو</p> <p>صوبہ بولونیا</p> <p>صوبہ بریندیزی</p> <p>صوبہ بریشا</p> <p>صوبہ بارلیتا-آندریا-ترانی</p> <p>جنوبی ٹائرول</p> <p>صوبہ کالیاری</p> <p>صوبہ کامپوباسو</p> <p>صوبہ کاسیرتا</p> <p>صوبہ کئیتی</p> <p>صوبہ کاربونیا-اگلیسیاس</p> <p>صوبہ کالتانیسیتا</p> <p>صوبہ کونیو</p> <p>صوبہ کومو</p> <p>صوبہ کریمونا</p> <p>صوبہ کوزینتسا</p> <p>صوبہ کاتانیا</p> <p>صوبہ کاتاندزارو</p> <p>صوبہ اننا</p> <p>صوبہ فورلی-چیزینا</p> <p>صوبہ فیرارا</p> <p>صوبہ فوجا</p> <p>صوبہ فلورنس</p> <p>صوبہ فیرمو</p> <p>صوبہ فروزینونے</p> <p>میٹروپولیٹن شہر جینوا</p> <p>صوبہ گوریتسیا</p> <p>صوبہ گروسیتو</p> <p>صوبہ امپیریا</p> <p>صوبہ ازیرنیا</p> <p>صوبہ کروتونے</p> <p>صوبہ لیکو</p> <p>صوبہ لیچہ</p> <p>صوبہ لیورنو</p> <p>صوبہ لوڈی</p> <p>صوبہ لاتینا</p> <p>صوبہ لوکا</p> <p>صوبہ مونتسا اور بریانتزا</p> <p>صوبہ ماچیراتا</p> <p>صوبہ میسینا</p> <p>صوبہ میلان</p> <p>صوبہ مانتووا</p> <p>صوبہ مودینا</p> <p>صوبہ ماسا اور کارارا</p> <p>صوبہ ماتیرا</p> <p>صوبہ ناپولی</p> <p>صوبہ نووارا</p> <p>صوبہ نوورو</p> <p>صوبہ اولیاسترا</p> <p>صوبہ اوریستانو</p> <p>صوبہ اولبیا-تیمپیو</p> <p>صوبہ پالیرمو</p> <p>صوبہ پیاچنزا</p> <p>صوبہ پادووا</p> <p>صوبہ پسکارا</p> <p>صوبہ پیروجا</p> <p>صوبہ پیسا</p> <p>صوبہ پوردینونے</p> <p>صوبہ پراتو</p> <p>صوبہ پارما</p> <p>صوبہ پستویا</p> <p>صوبہ پیزارو اور اوربینو</p> <p>صوبہ پاویا</p> <p>صوبہ پوتینتسا</p> <p>صوبہ راوینا</p> <p>صوبہ رجیو کلابریا</p> <p>صوبہ رجیو امیلیا</p> <p>صوبہ راگوزا</p> <p>صوبہ ریئتی</p> <p>صوبہ روما</p> <p>صوبہ ریمینی</p> <p>صوبہ روویگو</p> <p>صوبہ سالیرنو</p> <p>صوبہ سئینا</p> <p>صوبہ سوندریو</p> <p>صوبہ لا سپیتسیا</p> <p>صوبہ سرقوسہ</p> <p>صوبہ ساساری</p> <p>صوبہ ساوونا</p> <p>صوبہ تارانتو</p> <p>صوبہ تیرامو</p> <p>صوبہ تورینو</p> <p>صوبہ تراپانی</p> <p>صوبہ تیرنی</p> <p>صوبہ تریستے</p> <p>صوبہ تریویزو</p> <p>صوبہ اودینے</p> <p>صوبہ واریزے</p> <p>صوبہ ویربانو-کوزیو-اوسولا</p> <p>صوبہ ویرچیلی</p> <p>صوبہ وینس</p> <p>صوبہ ویچینسا</p> <p>صوبہ ویرونا</p> <p>صوبہ میدیو کامپیدانو</p> <p>صوبہ ویتیربو</p> <p>صوبہ ویبو والینتسیا</p> <p>کنگسٹن پیرش</p> <p>سینٹ اینڈریو</p> <p>سینٹ تھامس پیرش، جمیکا</p> <p>پورٹلینڈ پیرش</p> <p>سینٹ میری پیرش، جمیکا</p> <p>سینٹ این پیرش</p> <p>ٹریلاونی پیرش</p> <p>سینٹ جیمز پیرش، جمیکا</p> <p>ہینور پیرش</p> <p>ویسٹمورلینڈ پیرش</p> <p>سینٹ الزبتھ پیرش</p> <p>مانچسٹر پیرش</p> <p>کلاریندون پارش</p> <p>سینٹ کیتھرین پیرش</p> <p>محافظہ عجلون</p> <p>محافظہ عمان</p> <p>محافظہ عقبہ</p> <p>محافظہ طفیلہ</p> <p>محافظہ زرقاء</p> <p>محافظہ بلقاء</p> <p>محافظہ اربد</p> <p>محافظہ جرش</p> <p>محافظہ کرک</p> <p>محافظہ مفرق</p> <p>محافظہ مادبا</p> <p>محافظہ معان</p> <p>ہوکائیدو</p> <p>اوموری پریفیکچر</p> <p>ایواتے پریفیکچر</p> <p>میاگی پریفیکچر</p> <p>اکیتا پریفیکچر</p> <p>یاماگاتا پرفکترے</p> <p>فوکوشیما پریفیکچر</p> <p>ایباراکی پریفیکچر</p> <p>توچیگی پریفیکچر</p> <p>گونما پریفیکچر</p> <p>سایتاما</p> <p>چیبا پریفیکچر</p> <p>توکیو</p> <p>کاناگاوا پریفیکچر</p> <p>نیگاتا پریفیکچر</p> <p>تویاما پریفیکچر</p> <p>اشیکاوا پریفیکچر</p> <p>فوکوئی پریفیکچر</p> <p>یماناشی پرفکترے</p> <p>ناگانو پریفیکچر</p> <p>گیفو پریفیکچر</p> <p>شیزوکا پریفیکچر</p> <p>ایچی پریفیکچر</p> <p>میہ پریفیکچر</p> <p>شیگا پریفیکچر</p> <p>کیوٹو پریفیکچر</p> <p>اوساکا پریفیکچر</p> <p>ہیوگو پریفیکچر</p> <p>نارا پریفیکچر</p> <p>واکایاما پریفیکچر</p> <p>توتوری پریفیکچر</p> <p>شیمانے پریفیکچر</p> <p>اوکایاما پریفیکچر</p> <p>ہیروشیما پریفیکچر</p> <p>یاماگوچی پرفکترے</p> <p>توکوشیما پریفیکچر</p> <p>کاگاوا پریفیکچر</p> <p>اہیمے پریفیکچر</p> <p>کوچی پریفیکچر</p> <p>فوکوکا پریفیکچر</p> <p>سگا پریفیکچر</p> <p>ناگاساکی پریفیکچر</p> <p>کوماموتو پریفیکچر</p> <p>اوئیتا پریفیکچر</p> <p>میازاکی پریفیکچر</p> <p>کاگوشیما پریفیکچر</p> <p>اوکیناوا پریفیکچر</p> <p>بارنگو کاؤنٹی</p> <p>بومت کاؤنٹی</p> <p>بونگوما کاؤنٹی</p> <p>بوسیا کاؤنٹی</p> <p>ایلگیو-ماراکوت کاؤنٹی</p> <p>عمبو کاؤنٹی</p> <p>گاریسا کاؤنٹی</p> <p>ہوما بے کاؤنٹی</p> <p>اسیولو کاؤنٹی</p> <p>کاجیادو کاؤنٹی</p> <p>کاکامیگا کاؤنٹی</p> <p>کیریچو کاؤنٹی</p> <p>کیامبو کاؤنٹی</p> <p>کیلیفی کاؤنٹی</p> <p>کیرینیاگا کاؤنٹی</p> <p>کیسیی کاؤنٹی</p> <p>کسیمو کاؤنٹی</p> <p>کیتوئی کاؤنٹی</p> <p>کوالے کاؤنٹی</p> <p>لائکی پیا کاؤنٹی</p> <p>لامو کاؤنٹی</p> <p>ماچاکوس کاؤنٹی</p> <p>ماکوینی کاؤنٹی</p> <p>ماندیرا کاؤنٹی</p> <p>مارسابیت کاؤنٹی</p> <p>میرو کاؤنٹی</p> <p>میگوری کاؤنٹی</p> <p>ممباسا کاؤنٹی</p> <p>مورانگا کاؤنٹی</p> <p>نیروبی کاؤنٹی</p> <p>ناکورو کاؤنٹی</p> <p>ناندی کاؤنٹی</p> <p>ناروک کاؤنٹی</p> <p>نیامیرا کاؤنٹی</p> <p>نیانداروا کاؤنٹی</p> <p>نیئری کاؤنٹی</p> <p>سامبورو کاؤنٹی</p> <p>سیایا کاؤنٹی</p> <p>تائتا-تاویتا کاؤنٹی</p> <p>دریائے تانا کاؤنٹی</p> <p>تھاراکا-نیتھی کاؤنٹی</p> <p>ٹرانس-نزویا کاؤنٹی</p> <p>ترکانا کاؤنٹی</p> <p>یواسین گیشو گاؤنٹی</p> <p>ویہیگا کاؤنٹی</p> <p>واجیر کاؤنٹی</p> <p>مغربی پوکوت کاؤنٹی</p> <p>صوبہ بادکند</p> <p>صوبہ چوئی</p> <p>بشکیک</p> <p>اوش</p> <p>صوبہ جلال-آباد</p> <p>صوبہ نارین</p> <p>صوبہ اوش</p> <p>صوبہ تراز</p> <p>صوبہ ایسیک کول</p> <p>بانتیئی مینچیئی صوبہ</p> <p>باتامبانگ صوبہ</p> <p>کامپونگ چام صوبہ</p> <p>کامپونگ چھنانگ صوبہ</p> <p>کامپونگ سپیو صوبہ</p> <p>کامپونگ تھوم صوبہ</p> <p>کامپوت صوبہ</p> <p>کاندال صوبہ</p> <p>کوہ کونگ صوبہ</p> <p>کراتیہ صوبہ</p> <p>موندولکیری صوبہ</p> <p>پنوم پن</p> <p>پریاہ ویہیار صوبہ</p> <p>پریی وینگ صوبہ</p> <p>پورسات صوبہ</p> <p>راتاناکیری صوبہ</p> <p>صوبہ سیئم ریئپ</p> <p>سیہانوکویل صوبہ</p> <p>ستونگ ترینگ صوبہ</p> <p>سوای ریئنگ صوبہ</p> <p>تاکیو صوبہ</p> <p>اودار مینچیئی صوبہ</p> <p>کِیپ صوبہ</p> <p>پائلن صوبہ</p> <p>انجوان</p> <p>قمر الکبری</p> <p>موہیلی</p> <p>کرائسٹ چرچ نیکولا ٹاؤن پیرش</p> <p>سینٹ این سینڈی پوائنٹ پیرش</p> <p>سینٹ جارج باسیتیر پیرش</p> <p>سینٹ جارج جنجرلینڈ پیرش</p> <p>سینٹ جیمز ونڈورڈ پیرش</p> <p>سینٹ جان کاپسٹیئر پیرش</p> <p>سینٹ جان فگٹری پیرش</p> <p>سینٹ میری کایون پیرش</p> <p>سینٹ پال کاپسٹیئر پیرش</p> <p>سینٹ پال چارلس ٹاؤن پیرش</p> <p>سینٹ پیٹر باسیتیر پیرش</p> <p>سینٹ تھامس لولینڈ پیرش</p> <p>سینٹ تھامس مڈل آئلینڈ پیرش</p> <p>ٹرنیٹی پالمیٹو پوائنٹ پیرش</p> <p>سینٹ کیٹز</p> <p>ناویس</p> <p>پیانگ یانگ</p> <p>جنوبی پیونگان صوبہ</p> <p>شمالی پیونگان صوبہ</p> <p>چانگانگ صوبہ</p> <p>جنوبی ہوانگہائے صوبہ</p> <p>شمالی ہوانگہائے صوبہ</p> <p>کانگوون صوبہ</p> <p>جنوبی ہامگیونگ صوبہ</p> <p>شمالی ہامگیونگ صوبہ</p> <p>ریانگگانگ صوبہ</p> <p>راسون</p> <p>نامپو</p> <p>سیول</p> <p>بوسان</p> <p>ڈائے گو</p> <p>ان چیون</p> <p>گوانگ جو</p> <p>ڈائے جیون</p> <p>السان</p> <p>گیئونگی صوبہ</p> <p>گانگوان صوبہ</p> <p>شمالی چونگچیونگ صوبہ</p> <p>جنوبی چونگچیونگ صوبہ</p> <p>شمالی جئولا صوبہ</p> <p>جنوبی جئولا صوبہ</p> <p>شمالی گیئونگسانگ صوبہ</p> <p>جنوبی گیئونگسانگ صوبہ</p> <p>جیجو صوبہ</p> <p>سیجونگ شہر</p> <p>محافظہ احمدی</p> <p>محافظہ فروانیہ</p> <p>محافظہ حولی</p> <p>محافظہ جہراء</p> <p>محافظہ العاصمہ (کویت)</p> <p>محافظہ مبارک الکبیر</p> <p>اقمولا صوبہ</p> <p>اقتوبے صوبہ</p> <p>الماتی</p> <p>الماتی صوبہ</p> <p>آستانہ</p> <p>اتیراؤ صوبہ</p> <p>بایکونور</p> <p>قاراغاندی صوبہ</p> <p>قوستانای صوبہ</p> <p>قیزیلوردا صوبہ</p> <p>مانغیستاؤ صوبہ</p> <p>پاؤلودار صوبہ</p> <p>شمالی قازقستان صوبہ</p> <p>مشرقی قازقستان صوبہ</p> <p>جنوبی قازقستان صوبہ</p> <p>مغربی قازقستان صوبہ</p> <p>جمبیل پراونس</p> <p>اتوپو صوبہ</p> <p>بوکیو صوبہ</p> <p>بولیخامسائی صوبہ</p> <p>چامپاساک صوبہ</p> <p>ہوافان صوبہ</p> <p>خاموان صوبہ</p> <p>لوانگ نامتھا صوبہ</p> <p>لوانگ پرابانگ صوبہ</p> <p>اودامسائے صوبہ</p> <p>فونگسالی صوبہ</p> <p>سالاوان صوبہ</p> <p>ساواناخیت صوبہ</p> <p>وینتیان صوبہ</p> <p>وینتیان پریفیکچر</p> <p>سائنیابولی صوبہ</p> <p>سیکونگ صوبہ</p> <p>سیانگہوانگ صوبہ</p> <p>سائسومبون صوبہ</p> <p>محافظہ شمالی</p> <p>محافظہ بیروت</p> <p>محافظہ بعلبک الہرمل</p> <p>محافظہ بقاع</p> <p>محافظہ جنوبی</p> <p>محافظہ جبل لبنان</p> <p>محافظہ نبطیہ</p> <p>انسے لا رائے کوارٹر</p> <p>کاستریس کوارٹر</p> <p>چویسول کوارٹر</p> <p>دیننیری کوارٹر</p> <p>گروس آئلیٹ کوارٹر</p> <p>لابوری کوارٹیر</p> <p>میکود کوارٹر</p> <p>ویو فورٹ کوارٹر</p> <p>کناریز، سینٹ لوسیا</p> <p>گامپرین</p> <p>ماویرن</p> <p>پلنکین</p> <p>شان، لیختینستائن</p> <p>شلنبرگ</p> <p>واڈوز</p> <p>مغربی صوبہ، سری لنکا</p> <p>وسطی صوبہ، سری لنکا</p> <p>جنوبی صوبہ، سری لنکا</p> <p>شمالی صوبہ، سری لنکا</p> <p>مشرقی صوبہ، سری لنکا</p> <p>شمال مغربی صوبہ، سری لنکا</p> <p>شمال وسطی صوبہ، سری لنکا</p> <p>اووا صوبہ</p> <p>سبراگموا علاقہ</p> <p>کولمبو ضلع</p> <p>گامپاہا ضلع</p> <p>کالوتارا ضلع</p> <p>کینڈی ضلع</p> <p>ماتالے ضلع</p> <p>نووارا الییا ضلع</p> <p>گال ضلع</p> <p>ماتارا ضلع</p> <p>ہامبانتوتا ضلع</p> <p>جففناضلع</p> <p>کیلینوچچی ضلع</p> <p>مانار ضلع</p> <p>واوونییا ضلع</p> <p>مولایتیوو ضلع</p> <p>باٹیکالوا ضلع</p> <p>امپارا ضلع</p> <p>ترینکومالی ضلع</p> <p>کرنیگالا ضلع</p> <p>پوٹالام ضلع</p> <p>انورادھاپورہ ضلع</p> <p>پولونارووا ضلع</p> <p>بادولا ضلع</p> <p>مونیراگالا ضلع</p> <p>رتناپورہ ضلع</p> <p>کاگال ضلع</p> <p>بونگ کاؤنٹی</p> <p>بومی کاؤنٹی</p> <p>گرینڈ کیپ ماؤنٹ کاؤنٹی</p> <p>گرینڈ باسا کاؤنٹی</p> <p>گرینڈ گیدیہ کاؤنٹی</p> <p>گرینڈ کرو کاؤنٹی</p> <p>گبارپولو کاؤنٹی</p> <p>لوفا کاؤنٹی</p> <p>مارگیبی کاؤنٹی</p> <p>مونٹسیراڈا کاؤنٹی</p> <p>میری لینڈ کاؤنٹی، لائبیریا</p> <p>نمبا کاؤنٹی</p> <p>دریائے جی کاؤنٹی</p> <p>ریویرکیس کاؤنٹی</p> <p>سینؤ کاؤنٹی</p> <p>ماسیرو ضلع</p> <p>بوتھا-بوتھ ضلع</p> <p>لیریب ضلع</p> <p>بیریا ضلع</p> <p>مافیتینگ ضلع</p> <p>قوتھینگ ضلع</p> <p>موخوتلونگ ضلع</p> <p>تھابا-تسیکا ضلع</p> <p>اکمینے ضلع بلدیہ</p> <p>الیتوس ضلع بلدیہ</p> <p>انیکشئیی ضلع بلدیہ</p> <p>بارشتوناس بلدیہ</p> <p>برژائی ضلع بلدیہ</p> <p>دروسکیکینکائی بلدیہ</p> <p>الیکترینئی بلدیہ</p> <p>اگنالینا ضلع بلدیہ</p> <p>یوناوا ضلع بلدیہ</p> <p>یونیشکس ضلع بلدیہ</p> <p>یوربارکاس ضلع بلدیہ</p> <p>کایشیادوریس ضلع بلدیہ</p> <p>کالواریا بلدیہ</p> <p>کاوناس ضلع بلدیہ</p> <p>کازلو رودا بلدیہ</p> <p>کئیداینیائی ضلع بلدیہ</p> <p>کیلمے ضلع بلدیہ</p> <p>کلائپیدا ضلع بلدیہ</p> <p>کریتینگا ضلع بلدیہ</p> <p>کوپشکس ضلع بلدیہ</p> <p>لازدییئی ضلع بلدیہ</p> <p>مارییامپولے بلدیہ</p> <p>ماژئیکئی ضلع بلدیہ</p> <p>مولیتئی ضلع بلدیہ</p> <p>نیرنگا بلدیہ</p> <p>پاگیگیئی بلدیہ</p> <p>پاکرووئیس ضلع بلدیہ</p> <p>پانیویژیس ضلع بلدیہ</p> <p>پاسویلیس ضلع بلدیہ</p> <p>پلونگے ضلع بلدیہ</p> <p>پریئنائی ضلع بلدیہ</p> <p>رادویلشکس ضلع بلدیہ</p> <p>راسئینیائی ضلع بلدیہ</p> <p>ریئتاواس بلدیہ</p> <p>روکشکس ضلع بلدیہ</p> <p>شاکیای ضلع بلدیہ</p> <p>شیلچینیکئی ضلع بلدیہ</p> <p>شئولئی ضلع بلدیہ</p> <p>شیلالے ضلع بلدیہ</p> <p>شیلوتے ضلع بلدیہ</p> <p>شیروینتوس ضلع بلدیہ</p> <p>سکؤداس ضلع بلدیہ</p> <p>شوینچونیس ضلع بلدیہ</p> <p>توراگئیے ضلع بلدیہ</p> <p>تلشئیی ضلع بلدیہ</p> <p>تراکئی ضلع بلدیہ</p> <p>اوکمیرگے ضلع بلدیہ</p> <p>اوتینا ضلع بلدیہ</p> <p>وورئینا ضلع بلدیہ</p> <p>ویلکاوشکس ضلع بلدیہ</p> <p>ویلنیوس شہر بلدیہ</p> <p>ویلنیوس ضلع بلدیہ</p> <p>ویساگیناس بلدیہ</p> <p>زاراسئی ضلع بلدیہ</p> <p>الیتوس کاؤنٹی</p> <p>کلائپیدا کاؤنٹی</p> <p>کاوناس کاؤنٹی</p> <p>مارییامپولے کاؤنٹی</p> <p>پانیویژیس کاؤنٹی</p> <p>شئولئی کاؤنٹی</p> <p>توراگئیے کاؤنٹی</p> <p>تلشئیی کاؤنٹی</p> <p>اوتینا کاؤنٹی</p> <p>ویلنیوس کاؤنٹی</p> <p>دیکیرش (صوبہ)</p> <p>اشترناخ (صوبہ)</p> <p>اش-سور-الزیت (صوبہ)</p> <p>گرونماخر (صوبہ)</p> <p>لگزمبرگ (صوبہ)</p> <p>ریمیش (صوبہ)</p> <p>ویاندن (صوبہ)</p> <p>ولتز (صوبہ)</p> <p>بلدیہ اگلونا</p> <p>آئزکراوکلے بلدیہ</p> <p>آئزپوتے بلدیہ</p> <p>آکنیستے بلدیہ</p> <p>آلویا بلدیہ</p> <p>آلسونگا بلدیہ</p> <p>آلوکسنے بلدیہ</p> <p>آماتا بلدیہ</p> <p>آپے بلدیہ</p> <p>آوچے بلدیہ</p> <p>آداژی بلدیہ</p> <p>بابیتے بلدیہ</p> <p>بالدونے بلدیہ</p> <p>بالتیناوا بلدیہ</p> <p>بالوی بلدیہ</p> <p>باوسکا میونسپلٹی</p> <p>بیویرینا بلدیہ</p> <p>بروکینی میونسپلٹی</p> <p>بورتنیئکی بلدیہ</p> <p>چارنیکاوا بلدیہ</p> <p>چیسوائنے بلدیہ</p> <p>چیسس بلدیہ</p> <p>چیبلا بلدیہ</p> <p>داگدا بلدیہ</p> <p>داوگاوپلس بلدیہ</p> <p>دوبیلے بلدیہ</p> <p>دونداگا بلدیہ</p> <p>دوربے بلدیہ</p> <p>اینگورے بلدیہ</p> <p>ایرگلی بلدیہ</p> <p>گارکالنے بلدیہ</p> <p>گروبینیا بلدیہ</p> <p>گولبینے بلدیہ</p> <p>ایئچاوا بلدیہ</p> <p>ایکشکیلے بلدیہ</p> <p>الوکستے بلدیہ</p> <p>انچوکالنس بلدیہ</p> <p>یاونیئلگاوا بلدیہ</p> <p>یاونیپیئبالگا بلدیہ</p> <p>یاونپلس بلدیہ</p> <p>جیلجاوا میونسپلٹی</p> <p>جیکابپیلس میونسپلٹی</p> <p>کانداوا میونسپلٹی</p> <p>کرساوا میونسپلٹی</p> <p>کوکینی میونسپلٹی</p> <p>کوکنیسی میونسپلٹی</p> <p>کراسلاوا میونسپلٹی</p> <p>کریمولدا میونسپلٹی</p> <p>کروستپیلس میونسپلٹی</p> <p>کولدیجا میونسپلٹی</p> <p>کیجومس میونسپلٹی</p> <p>کیکاوا میونسپلٹی</p> <p>لییلواردی میونسپلٹی</p> <p>لیمبازی میونسپلٹی</p> <p>لیجاتنی میونسپلٹی</p> <p>لیوانی میونسپلٹی</p> <p>لوبانا میونسپلٹی</p> <p>لودزا میونسپلٹی</p> <p>مادونا میونسپلٹی</p> <p>مازسالاکا میونسپلٹی</p> <p>مالپیلس میونسپلٹی</p> <p>مروپی میونسپلٹی</p> <p>میرسراجس میونسپلٹی</p> <p>ناوکسینی میونسپلٹی</p> <p>نیریتا میونسپلٹی</p> <p>نیکا میونسپلٹی</p> <p>وجری میونسپلٹی</p> <p>ولاینی میونسپلٹی</p> <p>وزولنییکی میونسپلٹی</p> <p>پارجاوجا میونسپلٹی</p> <p>پاویلوستا میونسپلٹی</p> <p>پلاویناس میونسپلٹی</p> <p>میونسپلٹی</p> <p>پرییکولی میونسپلٹی</p> <p>پرییکولی میونسپلٹی²</p> <p>راونا میونسپلٹی</p> <p>ریزیکنی میونسپلٹی</p> <p>میونسپلٹی²</p> <p>روجہ میونسپلٹی</p> <p>روپازی میونسپلٹی</p> <p>روکاوا میونسپلٹی</p> <p>روجاجی میونسپلٹی</p> <p>رندالی میونسپلٹی</p> <p>روجیینا میونسپلٹی</p> <p>سالا میونسپلٹی ، لاتویا</p> <p>سالاکجریوا میونسپلٹی</p> <p>سالاسپیلس میونسپلٹی</p> <p>سالدوس میونسپلٹی</p> <p>ساولکراستی میونسپلٹی</p> <p>سیجا میونسپلٹی</p> <p>سیجولدا میونسپلٹی</p> <p>سکریویری میونسپلٹی</p> <p>سکروندا میونسپلٹی</p> <p>سمیلتینی میونسپلٹی</p> <p>ستوپینی میونسپلٹی</p> <p>اسٹرینکی میونسپلٹی</p> <p>تالسی میونسپلٹی</p> <p>تیرویتی میونسپلٹی</p> <p>توکومس میونسپلٹی</p> <p>واینودی میونسپلٹی</p> <p>والکا میونسپلٹی</p> <p>واراکلانی میونسپلٹی</p> <p>وارکاوا میونسپلٹی</p> <p>ویکپییبالجا میونسپلٹی</p> <p>ویکومنییکی میونسپلٹی</p> <p>وینتسپیلس میونسپلٹی</p> <p>وییسیتی میونسپلٹی</p> <p>ویلاکا میونسپلٹی</p> <p>ویلانی میونسپلٹی</p> <p>زیلوپی میونسپلٹی</p> <p>داوگاوپلس</p> <p>یالگاوا</p> <p>یاکاپلس</p> <p>یورمالا</p> <p>لیاپائیا</p> <p>ریزکنے</p> <p>ریگا</p> <p>وینتپلس</p> <p>والمیرا</p> <p>بنغازی</p> <p>بطنان ضلع</p> <p>درنہ ضلع</p> <p>غات ضلع</p> <p>جبل الاخضر</p> <p>جبل الغربی ضلع</p> <p>جفارہ</p> <p>جفرہ ضلع</p> <p>کفرہ ضلع</p> <p>مرقب ضلع</p> <p>مصراتہ ضلع</p> <p>مرج ضلع</p> <p>مرزق ضلع</p> <p>نالوت ضلع</p> <p>نقاط الخمس</p> <p>صبہہ ضلع</p> <p>سرت ضلع</p> <p>طرابلس ضلع، لیبیا</p> <p>الواحات ضلع</p> <p>وادی الحیاہ ضلع</p> <p>وادی الشاطی ضلع</p> <p>زاویہ ضلع</p> <p>طنجہ تطوان</p> <p>غرب شراردہ بنی حسین</p> <p>تازہ الحسیمہ تاونات</p> <p>جھہ شرقیہ</p> <p>فاس بولمان</p> <p>مکناس تافیلالت</p> <p>رباط سلا زمور زعیر</p> <p>دار البیضاء الکبری</p> <p>شاویہ وردیغہ</p> <p>دکالہ عبدہ</p> <p>مراکش تانسیف الحوز</p> <p>تادلہ ازیال</p> <p>سوس ماسہ درعہ</p> <p>کلمیم السمارہ</p> <p>لایونی-بوجڈور-ساکیا الحمراء</p> <p>وادی ذہب لکویرہ</p> <p>اغادیر</p> <p>برکان صوبہ</p> <p>دار البیضاء</p> <p>شفشاون صوبہ</p> <p>شیشاوہ صوبہ</p> <p>صویرہ صوبہ</p> <p>فاہس انجرا</p> <p>فاس</p> <p>فکیک صوبہ</p> <p>جویلمیم صوبہ</p> <p>الحوز صوبہ</p> <p>الحسیمہ صوبہ</p> <p>انزکان آیت ملول</p> <p>جرادہ صوبہ</p> <p>قنیطرہ صوبہ</p> <p>القعہ سراغنہ صوبہ</p> <p>العرائش صوبہ</p> <p>مکناس</p> <p>مراکش (شہر)</p> <p>مراکش (شہر)²</p> <p>محمدیہ</p> <p>ناظور صوبہ</p> <p>صوبہ نواصر</p> <p>ووید ید-داحاب صوبہ</p> <p>وجدہ</p> <p>رباط</p> <p>سلا</p> <p>سیدی قاسم صوبہ</p> <p>تمارہ</p> <p>مراکش (شہر)³</p> <p>تاوریرت صوبہ</p> <p>تطوان صوبہ</p> <p>طنجہ</p> <p>لا کولی، موناکو</p> <p>لا کونڈامینی</p> <p>لارووٹو</p> <p>مونٹی کارلو</p> <p>موناکو شہر</p> <p>سینٹ رومن، موناکو</p> <p>انینئی نوی ضلع</p> <p>بالتسی</p> <p>بیندر، مالدووا</p> <p>بریچینی ضلع</p> <p>باسارابیاسکا ضلع</p> <p>کاہول ضلع</p> <p>کالاراشی ضلع</p> <p>چیمیشلیا ضلع</p> <p>کریولینی ضلع</p> <p>کاؤشینی ضلع</p> <p>کانتیمیر ضلع</p> <p>کیشیناو</p> <p>دوندوشینی ضلع</p> <p>دروکیا ضلع</p> <p>دوباساری ضلع</p> <p>ایدینیتس ضلع</p> <p>فالیشتی ضلع</p> <p>فلوریشتی ضلع</p> <p>گاگاؤزیا</p> <p>گلودینی ضلع</p> <p>ہینچیشتی ضلع</p> <p>یالووہنی ضلع</p> <p>لیووا ضلع</p> <p>نیسپورینی ضلع</p> <p>اوکنیتسا ضلع</p> <p>اورہئی ضلع</p> <p>ریزینا ضلع</p> <p>ریشکانی ضلع</p> <p>شولدانیشتی ضلع</p> <p>سینگیرئی ضلع</p> <p>ٹرینسنیسٹریا خود مختار علاقائی اکائی مع خصوصی قانونی حیثیت</p> <p>سوروکا ضلع</p> <p>ستراشینی ضلع</p> <p>شتیفان وودا ضلع</p> <p>تاراکلیا ضلع</p> <p>تیلینیشتی ضلع</p> <p>اونگینی ضلع</p> <p>آندریےویتسا بلدیہ</p> <p>بار بلدیہ</p> <p>بیرانے بلدیہ</p> <p>بیئلو پولیے بلدیہ</p> <p>بودوا بلدیہ</p> <p>قدیم شاہی دارالحکومت سیتینیے</p> <p>دانیلووگراد بلدیہ</p> <p>خیرتسیگ نووی بلدیہ</p> <p>کولاشن بلدیہ</p> <p>کوتور بلدیہ</p> <p>مویکوواتس بلدیہ</p> <p>نیکشیچ بلدیہ</p> <p>پلاو بلدیہ</p> <p>پلئیولیا بلدیہ</p> <p>پلوژینے بلدیہ</p> <p>پودگوریتسا دارالحکومت شہر</p> <p>روژایے بلدیہ</p> <p>شاونک بلدیہ</p> <p>تیوات بلدیہ</p> <p>اولتسینی بلدیہ</p> <p>زابلجک میونسپلٹی</p> <p>گوسینیے بلدیہ</p> <p>پیتنئیتسا بلدیہ</p> <p>تواماسینا صوبہ</p> <p>انتسیرانانا صوبہ</p> <p>فیانارانتسوا صوبہ</p> <p>ماہاجانگا صوبہ</p> <p>انتاناناریوو صوبہ</p> <p>تولیارا صوبہ</p> <p>رالیک چین</p> <p>ماجورو</p> <p>راتاک چین</p> <p>بلدیہ آراچینوو</p> <p>بیروو بلدیہ</p> <p>بیتولا بلدیہ</p> <p>بوگدانتسی بلدیہ</p> <p>بوگووینیہ بلدیہ</p> <p>بوسیلوو بلدیہ</p> <p>بروینیسا بلدیہ</p> <p>والاندوو بلدیہ</p> <p>واسیلیوو بلدیہ</p> <p>ویوچانی بلدیہ</p> <p>ویلیس بلدیہ</p> <p>وینیتسا بلدیہ، مقدونیہ</p> <p>بلدیہ وراپچیشتے</p> <p>گیوگیلیا بلدیہ</p> <p>گوستیوار بلدیہ</p> <p>گرادسکو بلدیہ</p> <p>دیبار بلدیہ</p> <p>دیبرسا بلدیہ</p> <p>بلدیہ دیلچیوو</p> <p>دیمیر کاپیا بلدیہ</p> <p>دیمیر حسار بلدیہ</p> <p>دویران بلدیہ</p> <p>دولنینی بلدیہ</p> <p>بلدیہ ژیلینو</p> <p>زیلینیکوو بلدیہ</p> <p>زرنووتسی بلدیہ</p> <p>ایلندن بلدیہ</p> <p>یگونووتسہ بلدیہ</p> <p>کاوادارتسی بلدیہ</p> <p>کاربنتسی بلدیہ</p> <p>کیچیوو بلدیہ</p> <p>کونچے بلدیہ</p> <p>بلدیہ کوچانی</p> <p>کارتوو بلدیہ</p> <p>کریوا پالانکا بلدیہ</p> <p>بلدیہ کریووگاشتانی</p> <p>بلدیہ کروشیوو</p> <p>کومانوو بلدیہ</p> <p>لیپکوو بلدیہ</p> <p>لوزوو بلدیہ</p> <p>بلدیہ ماوروو اور روستوشا</p> <p>ماکیدونسکا کامینیتسا بلدیہ</p> <p>ماکیدونسکی برود بلدیہ</p> <p>موگیلا بلدیہ</p> <p>نیگوتینو بلدیہ</p> <p>نواتسی بلدیہ</p> <p>نوو سیلو بلدیہ</p> <p>اوخرید بلدیہ</p> <p>پیتروویتس بلدیہ</p> <p>بلدیہ پیخچوو</p> <p>پلاسنیتسا بلدیہ</p> <p>پریلپ بلدیہ</p> <p>بلدیہ پوربیشتیپ</p> <p>رادوویش بلدیہ</p> <p>رانکووتسے بلدیہ</p> <p>ریسن بلدیہ</p> <p>روسومان بلدیہ</p> <p>سویتی نیلولے بلدیہ</p> <p>بلدیہ سوپیشتے</p> <p>بلدیہ ستارو ناگوریچانے</p> <p>ستوگا بلدیہ</p> <p>سترومیتسا بلدیہ</p> <p>بلدیہ ستودینیچانی</p> <p>تیارتسے بلدیہ</p> <p>تیتوو بلدیہ</p> <p>سینتر ژوپا بلدیہ</p> <p>چاشکا بلدیہ</p> <p>بلدیہ چیشینوو-وبلیشوو</p> <p>بلدیہ چوچر-ساندوو</p> <p>بلدیہ شتیپ</p> <p>اسکوپیہ</p> <p>علاقہ کیز</p> <p>علاقہ کولیکورو</p> <p>علاقہ سیکاسو</p> <p>علاقہ سیگو</p> <p>علاقہ موپٹی</p> <p>علاقہ ٹمبکٹو</p> <p>علاقہ گاو</p> <p>علاقہ کڈال</p> <p>بماکو</p> <p>ساگاینگ علاقہ</p> <p>باگو علاقہ</p> <p>ماگاوے علاقہ</p> <p>ماندالے علاقہ</p> <p>تانینتھارئی علاقہ</p> <p>یانگون رگوں</p> <p>ایئیاروادی علاقہ</p> <p>کاچین ریاست</p> <p>کایاہ ریاست</p> <p>کایئن ریاست</p> <p>چن ریاست</p> <p>مون ریاست</p> <p>راخائن ریاست</p> <p>ریاست شان</p> <p>نیپیداو متحدہ خطہ</p> <p>اولان‌باتور</p> <p>ارخون صوبہ</p> <p>درخان-اول صوبہ</p> <p>خنتی صوبہ</p> <p>خووسگول صوبہ</p> <p>خوود صوبہ</p> <p>یوس صوبہ</p> <p>توو صوبہ</p> <p>سیلینگی صوبہ</p> <p>سخباتار صوبہ</p> <p>اومنوگووی صوبہ</p> <p>اوورخانگائی صوبہ</p> <p>زاوخان صوبہ</p> <p>دوندگووی صوبہ</p> <p>دورنود صوبہ</p> <p>دورنوگووی صوبہ</p> <p>گوویسمبر صوبہ</p> <p>گووی-التائی صوبہ</p> <p>بلگان صوبہ</p> <p>بیانخونگور صوبہ</p> <p>بیان-اولگی صوبہ</p> <p>ارخانگائی صوبہ</p> <p>حوض الشرقی علاقہ</p> <p>حوض الغربی علاقہ</p> <p>عصابہ علاقہ</p> <p>گورگول علاقہ</p> <p>براکنہ علاقہ</p> <p>ترارزہ علاقہ</p> <p>آدرار علاقہ</p> <p>داخلت نواذیبو علاقہ</p> <p>تکانت علاقہ</p> <p>گیدیماغا علاقہ</p> <p>تیرس زمور علاقہ</p> <p>اینشیری</p> <p>آتار</p> <p>بالزان</p> <p>بیرگو</p> <p>بیرکیرکارا</p> <p>بیرزیبوجا</p> <p>کوسپیکوا</p> <p>دینگلی</p> <p>فگورا</p> <p>فلوریانا</p> <p>فونتانا، گوزو</p> <p>گودیا</p> <p>گزیرہ</p> <p>اینسیلیم</p> <p>ارب، مالٹا</p> <p>ارور</p> <p>اسری</p> <p>اشآ</p> <p>حامرون</p> <p>اکلین</p> <p>سینگلیا</p> <p>کالکارا</p> <p>کیرچیم</p> <p>کیرکوپ</p> <p>لییا</p> <p>لوآ</p> <p>مارسا، مالٹا</p> <p>مارساسکالا</p> <p>مارساشلوک</p> <p>مدینہ، مالٹا</p> <p>مہلیئحا</p> <p>مجار</p> <p>موستا</p> <p>مآبا</p> <p>مسیدا</p> <p>متارفا</p> <p>مونشار</p> <p>نادور</p> <p>ناشار</p> <p>پاولا، مالٹا</p> <p>پیمبروک، مالٹا</p> <p>پیئتا، مالٹا</p> <p>آلا، مالٹا</p> <p>آورمی</p> <p>آریندی</p> <p>وکٹوریہ، گوزو</p> <p>رابات، مالٹا</p> <p>سافی، مالٹا</p> <p>سینٹ یولیان</p> <p>سان جو ان</p> <p>سینٹ لارنس، مالٹا</p> <p>سینٹ پال بے</p> <p>ساننات</p> <p>سانتا لوچیا</p> <p>سانتا وینیرا</p> <p>سیججیوی</p> <p>سلیما</p> <p>سویئای</p> <p>تآشبیئش</p> <p>تارشیئن</p> <p>والیٹا</p> <p>شارا</p> <p>شیوکیا</p> <p>شایرا</p> <p>زابار</p> <p>زیبوج، گوزو</p> <p>زیبوج</p> <p>زیتون، مالٹا</p> <p>زوریئا</p> <p>آگالگا</p> <p>ریویر نوار ضلع</p> <p>بو-باسن روز-ہل</p> <p>سینٹ برینڈن</p> <p>کیورپیپہ</p> <p>فلاق ضلع</p> <p>گرینڈ پورٹ ضلع</p> <p>موکا ضلع</p> <p>پامپلیموس ضلع</p> <p>پورٹ لوئس ضلع</p> <p>پورٹ لوئس</p> <p>پلیئن ویلیمز ضلع</p> <p>قیتخ بورن</p> <p>روڈریگس</p> <p>ریویر دو ریمپار ضلع</p> <p>ساوانے ضلع</p> <p>واکواس فینکس</p> <p>الف ڈھال اتول</p> <p>الف الف اتول</p> <p>لحاویانی اتول</p> <p>واوو اتول</p> <p>لامو اتول</p> <p>ہاں الف اتول</p> <p>مییمو اتول</p> <p>را اتول</p> <p>فافو اتول</p> <p>دحاالو اتول</p> <p>با اتول</p> <p>ہاں دحاالو اتول</p> <p>شاویانی اتول</p> <p>نونو اتول</p> <p>کافو اتول</p> <p>گافو الف اتول</p> <p>گافو دحاالو اتول</p> <p>جناویانی اتول</p> <p>مالے</p> <p>بالاکا ضلع</p> <p>بلانتیری ضلع</p> <p>وسطی علاقہ، ملاوی</p> <p>چیکواوا ضلع</p> <p>چیرادزولو ضلع</p> <p>چیتیپا ضلع</p> <p>دیدزا ضلع</p> <p>دوا ضلع</p> <p>کاسونجو ضلع</p> <p>لیلونجوی ضلع</p> <p>لیکوما ڈسٹرک</p> <p>مچینجی ضلع</p> <p>مانجوچی ضلع</p> <p>ماچینجا ضلع</p> <p>ملانجی ضلع</p> <p>موانزا ضلع</p> <p>مزیمبا ضلع</p> <p>شمالی علاقہ، ملاوی</p> <p>نخاتا بے ضلع</p> <p>نینو ضلع</p> <p>نتچیسی ضلع</p> <p>نخوتاکوتا ضلع</p> <p>نسانجی ضلع</p> <p>نتچیو ضلع</p> <p>پھالومبی ضلع</p> <p>رومپحی ضلع</p> <p>جنوبی علاقہ، ملاوی</p> <p>سلیمہ ضلع</p> <p>آگوسکالینٹس</p> <p>باجا کیلیفورنیا</p> <p>باجا کیلیفورنیا سر</p> <p>کامپیچی</p> <p>چہواہوا</p> <p>چیاپاس</p> <p>میکسیکو شہر</p> <p>کواہويلا</p> <p>کولیما</p> <p>دورانگو</p> <p>گیریرو</p> <p>گوانجواتو</p> <p>ہیدالگو (ریاست)</p> <p>جلیسکو</p> <p>ریاست میکسیکو</p> <p>میشواکان</p> <p>موریلوس</p> <p>نایاریت</p> <p>نیوو لیون</p> <p>اوکساکا</p> <p>پوئبلا</p> <p>کوارتارو</p> <p>کوینتانا رو</p> <p>سینالوا</p> <p>سان لوئیس پوتوسی</p> <p>سونورا</p> <p>تاباسکو</p> <p>تاماولیپاس</p> <p>تلاکسکالا</p> <p>ویراکروز</p> <p>یوکتان</p> <p>زاکاٹیکاس</p> <p>جوھر</p> <p>قدح</p> <p>کیلانتن</p> <p>ملاکا</p> <p>نگری سمبیلان</p> <p>پاہانگ</p> <p>پینانگ</p> <p>پیراک</p> <p>پرلس</p> <p>سلنگور</p> <p>تیرنگانو</p> <p>صباح</p> <p>سراواک</p> <p>کوالالمپور</p> <p>لابوان</p> <p>پتراجایا</p> <p>نیاسا صوبہ</p> <p>مانیکا صوبہ</p> <p>غزہ صوبہ</p> <p>انہامبان صوبہ</p> <p>ماپوتو صوبہ</p> <p>ماپوتو</p> <p>نامپولا صوبہ</p> <p>کابو دیلگادو صوبہ</p> <p>زامبیزیا صوبہ</p> <p>سافولا صوبہ</p> <p>تیتے صوبہ</p> <p>زامبیزی علاقہ</p> <p>عرونگو علاقہ</p> <p>ہارداپ علاقہ</p> <p>کر اس ریجن، نمبیا</p> <p>کاوانگو شرقی</p> <p>خوماس علاقہ</p> <p>کونینے علاقہ</p> <p>کاوانگو غربی</p> <p>اوتجوزوندجوپا علاقہ</p> <p>اوماہیکے علاقہ</p> <p>اوشانا علاقہ</p> <p>اوموساتی علاقہ</p> <p>اوشیکوتو علاقہ</p> <p>اوہانگوینا علاقہ</p> <p>اگادیز علاقہ</p> <p>دیفا علاقہ</p> <p>دوسو علاقہ</p> <p>مارادی علاقہ</p> <p>تاہؤا علاقہ</p> <p>تیلابےری علاقہ</p> <p>زندر علاقہ</p> <p>نیامی</p> <p>ابیا ریاست</p> <p>اداماوا ریاست</p> <p>اکوا ایبوم ریاست</p> <p>انامبرا ریاست</p> <p>باوچی ریاست</p> <p>بینوے ریاست</p> <p>بورنو ریاست</p> <p>بایلسا ریاست</p> <p>کر اس ریور ریاست</p> <p>ڈیلٹا ریاست</p> <p>عبونئی ریاست</p> <p>عدو ریاست</p> <p>عکیتی ریاست</p> <p>عنوگو ریاست</p> <p>وفاقی دارالحکومت علاقہ، نائجیریا</p> <p>گومبے ریاست</p> <p>امو ریاست</p> <p>جیگاوا ریاست</p> <p>کادونا اسٹیٹ</p> <p>کیبی ریاست</p> <p>کانو ریاست</p> <p>کوگی ریاست</p> <p>کاتسینا ریاست</p> <p>کوارا ریاست</p> <p>لاگوس ریاست</p> <p>نصراوا ریاست</p> <p>نائیجر ریاست</p> <p>اوگون ریاست</p> <p>اوندو ریاست</p> <p>اوسون ریاست</p> <p>اویو ریاست</p> <p>پلیٹئو ریاست</p> <p>ریورز ریاست</p> <p>سوکوتو ریاست</p> <p>تارابا ریاست</p> <p>یوبے اسٹیٹ</p> <p>زمفارا ریاست</p> <p>شمالی کیریبین ساحل خود مختار علاقہ</p> <p>جنوبی کیریبین ساحل خود مختار علاقہ</p> <p>بواکو محکمہ</p> <p>کاراسو محکمہ</p> <p>چیناندیگا محکمہ</p> <p>چونتالیس محکمہ</p> <p>ایستالی محکمہ</p> <p>گرینادا محکمہ</p> <p>خینوتیگا محکمہ</p> <p>لیون محکمہ</p> <p>مادریس محکمہ</p> <p>ماناگوا محکمہ</p> <p>ماسایا محکمہ</p> <p>ماتاگالپا محکمہ</p> <p>نویبا سیگوبیا محکمہ</p> <p>ریواز محکمہ</p> <p>ریو سان خوان محکمہ</p> <p>بونایر</p> <p>صبا</p> <p>سینٹ ایوسٹائیس</p> <p>درینتے</p> <p>فلیولانت</p> <p>فریسلانت</p> <p>خیلدرلنت</p> <p>خرونیگین</p> <p>لمبرخ</p> <p>شمالی برابانٹ</p> <p>شمالی ہولانت</p> <p>اوفریسل</p> <p>اوتریخت</p> <p>زی لینڈ</p> <p>جنوبی ہولانت</p> <p>اوستفول</p> <p>آکیشوس</p> <p>اوسلو</p> <p>ہیڈمارک</p> <p>اوپلان</p> <p>بوسکرود</p> <p>ویستفول</p> <p>تیلیمارک</p> <p>آوست-آگدیر</p> <p>ویست-آگدیر</p> <p>روگالان</p> <p>ہوردالان</p> <p>سونگ او فیورانہ</p> <p>مورہ او رومسدال</p> <p>جنوبی-تروندیلاگ</p> <p>شمالی-تروندیلاگ</p> <p>نودلان</p> <p>ترومس</p> <p>فنمارک</p> <p>سوالبارد</p> <p>جان ماین</p> <p>مرکزی ترقیاتی علاقہ، نیپال</p> <p>وسط-مغربی ترقیاتی علاقہ، نیپال</p> <p>مغربی ترقیاتی علاقہ، نیپال</p> <p>مشرقی ترقیاتی علاقہ، نیپال</p> <p>بعید-مغربی ترقیاتی علاقہ، نیپال</p> <p>باگمتی زون</p> <p>بھیری زون</p> <p>دھولاگیری زون</p> <p>گنداکی زون</p> <p>جنکپور زون</p> <p>کرنالی زون</p> <p>کوسی زون</p> <p>لومبینی زون</p> <p>مہاکالی زون</p> <p>میچی زون</p> <p>نارائنی زون</p> <p>راپتی زون</p> <p>ساگرمتھا زون</p> <p>سیتی زون</p> <p>ایوو ضلع</p> <p>انابر ضلع</p> <p>انیتان ضلع</p> <p>انیباری ضلع</p> <p>بیٹی ضلع</p> <p>بیو ضلع</p> <p>بوادا ضلع</p> <p>دینیجومودو ضلع</p> <p>یوا ضلع</p> <p>یجوو ضلع</p> <p>مینینج ضلع</p> <p>نیبوک ضلع</p> <p>وابوی ضلع</p> <p>یارن</p> <p>آکلینڈ علاقہ</p> <p>بے آف پلینٹی علاقہ</p> <p>کینٹربری، نیوزی لینڈ</p> <p>چاتھم آئی لینڈ</p> <p>ضلع گسبورن</p> <p>ہاکس بے علاقہ</p> <p>مارلبورو علاقہ</p> <p>ماناواتو-وانگانوی</p> <p>نارتھ لینڈ علاقہ</p> <p>اوٹاگو</p> <p>ساؤتھ لینڈ، نیوزی لینڈ</p> <p>ضلع تسمان</p> <p>تاراناکی</p> <p>ویلنگٹن علاقہ</p> <p>وائکاٹو</p> <p>ویسٹ کوسٹ، نیوزی لینڈ</p> <p>ال باتینہ ساؤتھ جوویرنوراتی</p> <p>محافظہ البریمی</p> <p>محافظہ الداخلیہ</p> <p>محافظہ مسقط</p> <p>محافظہ مسندم</p> <p>عیش شارقیاح ساؤتھ جوویرنوراتی</p> <p>عیش شارقیاح نارتھ جوویرنوراتی</p> <p>محافظہ وسطی (عمان)</p> <p>محافظہ الظاہرہ</p> <p>محافظہ ظفار</p> <p>بوکاس دیل تورو صوبہ</p> <p>کوکل صوبہ</p> <p>کولون صوبہ</p> <p>چیرکی صوبہ</p> <p>داریئن صوبہ</p> <p>ہیریرا صوبہ</p> <p>لاس سانتوس صوبہ</p> <p>پاناما صوبہ</p> <p>ویراگواس صوبہ</p> <p>پاناما غربی صوبہ</p> <p>کومارکا امبیرا-ووناو</p> <p>گونا یالا</p> <p>نگابے-بوگلے کومارکا</p> <p>امازوناس علاقہ</p> <p>انکاش علاقہ</p> <p>اپوریماک علاقہ</p> <p>اریکیپا علاقہ</p> <p>ایاکوچو علاقہ</p> <p>کاخامارکا علاقہ</p> <p>کوزکو علاقہ</p> <p>وانوکو علاقہ</p> <p>وانکابیلیکا علاقہ</p> <p>اکا علاقہ</p> <p>خونین علاقہ</p> <p>لا لیورتاد علاقہ</p> <p>لامبایےکے علاقہ</p> <p>لیما علاقہ</p> <p>لیما صوبہ</p> <p>لوریتو علاقہ</p> <p>مادرے دے دیوس علاقہ</p> <p>موکیگوا علاقہ</p> <p>پاسکو علاقہ</p> <p>پیورا علاقہ</p> <p>پونو علاقہ</p> <p>سان مارتین علاقہ</p> <p>تاکنا علاقہ</p> <p>تومبیس علاقہ</p> <p>اکیالی علاقہ</p> <p>چیمبو صوبہ</p> <p>مرکزی صوبہ</p> <p>مشرقی نیا برطانیہ صوبہ</p> <p>مشرقی سطح مرتفع صوبہ</p> <p>انگا صوبہ</p> <p>مشرقی سپیک صوبہ</p> <p>گلف صوبہ</p> <p>ہیلا صوبہ</p> <p>جیواکا صوبہ</p> <p>خلیج میلنے صوبہ</p> <p>موروبے صوبہ</p> <p>مادنگ صوبہ</p> <p>مانوس صوبہ</p> <p>پورٹ مورسبی</p> <p>نیو آئر لینڈ صوبہ</p> <p>اورو صوبہ</p> <p>بووجاینویلی</p> <p>سانداون صوبہ</p> <p>جنوبی سطح مرتفع صوبہ</p> <p>مغربی نیا برطانیہ صوبہ</p> <p>مغربی سطح مرتفع صوبہ</p> <p>مغربی صوبہ</p> <p>میٹرو منیلا</p> <p>ایلوکوس علاقہ</p> <p>کاگایان وادی</p> <p>وسطی لوزون</p> <p>بیکول علاقہ</p> <p>مغربی ویسایا</p> <p>وسطی ویسایا</p> <p>مشرقی ویسایا</p> <p>زامبوانگا جزیرہ نما</p> <p>شمالی مینداناؤ</p> <p>داوائو علاقہ</p> <p>سوکسارگین</p> <p>کاراگا</p> <p>مسلم مینداناؤ کا خود مختار علاقہ</p> <p>کوردیلیرا انتظامی علاقہ</p> <p>کالابارزون</p> <p>میماپورا</p> <p>ابرا (صوبہ)</p> <p>اگوسان شمالی</p> <p>اگوسان جنوبی</p> <p>اکلان</p> <p>البائی</p> <p>اینٹیک (صوبہ)</p> <p>اپایاؤ</p> <p>آرورا (صوبہ)</p> <p>باتان</p> <p>باسیلان</p> <p>بینگیت</p> <p>بیلیران</p> <p>بوہول</p> <p>باتھانگاس</p> <p>باتانیس</p> <p>بوکیدنون</p> <p>بولاکان</p> <p>کاگایان</p> <p>کامیگوین</p> <p>کامارینز شمالی</p> <p>کاپیز</p> <p>کامارینز جنوبی</p> <p>کاتاندوانیس</p> <p>کاویت</p> <p>سیبو</p> <p>وادی کومپوستیلا</p> <p>داوائو شرقی</p> <p>داوائو جنوبی</p> <p>داوائو شمالی</p> <p>جزائر دیناگات</p> <p>داوائو غربی</p> <p>مشرقی سامار</p> <p>گوئماراس</p> <p>ایفوگاؤ</p> <p>الوئیلو</p> <p>ایلوکوس شمالی</p> <p>ایلوکوس جنوبی</p> <p>آئزابیلا (صوبہ)</p> <p>کالینگا</p> <p>لاگونا (صوبہ)</p> <p>لاناؤ شمالی</p> <p>لاناؤ دل سور</p> <p>لیئتے (صوبہ)</p> <p>لا یونین</p> <p>ماریندوک</p> <p>ماگوئنداناؤ</p> <p>ماسبات</p> <p>غربی میندورو</p> <p>شرقی میندورو</p> <p>ماؤنٹین صوبہ</p> <p>میسامس غربی</p> <p>میسامس شرقی</p> <p>کوتاباتو</p> <p>نیگروس غربی</p> <p>نیگروس شرقی</p> <p>شمالی سامار</p> <p>نوئوا اسیہا</p> <p>نوئوا ویزکایا</p> <p>پامپانگا</p> <p>پانگاسینان</p> <p>پالاوان</p> <p>کویزون</p> <p>کوئرینو</p> <p>ریزال</p> <p>رومبلون</p> <p>سارانگانی</p> <p>جنوبی کوتاباتو</p> <p>سیقیحور</p> <p>جنوبی لیئتے</p> <p>سولو</p> <p>سورسوگون</p> <p>سلطان قدرت</p> <p>سوریگاؤ شمالی</p> <p>سوریگاؤ جنوبی</p> <p>تارلاک</p> <p>تاوی تاوی</p> <p>سامار (صوبہ)</p> <p>زامبوانگا شمالی</p> <p>زامبوانگا جنوبی</p> <p>زامبالیس</p> <p>زامبوانگا سیبوگائے</p> <p>بلوچستان</p> <p>گلگت بلتستان</p> <p>وفاقی دارالحکومت</p> <p>آزاد کشمیر</p> <p>خیبر پختونخوا</p> <p>پنجاب</p> <p>سندھ</p> <p>قبائلی علاقہ جات</p> <p>زیریں سیلیزیا صوبہ</p> <p>کویاوی-پومرانیا صوبہ</p> <p>لوبلین صوبہ</p> <p>لوبوش صوبہ</p> <p>ووچ صوبہ</p> <p>اصغر پولینڈ صوبہ</p> <p>صوبہ ماسووی</p> <p>اوپولے صوبہ</p> <p>پودکرپاسکیہ صوبہ</p> <p>پودلاسکیہ صوبہ</p> <p>پومرانیا صوبہ</p> <p>سیلیزیا صوبہ</p> <p>شوئینتوشوسکیہ صوبہ</p> <p>وارمیا-ماسوریا صوبہ</p> <p>اکبر پولینڈ صوبہ</p> <p>مغربی پومرانیا صوبہ</p> <p>محافظہ بیت لحم</p> <p>محافظہ دیر البلح</p> <p>محافظہ غزہ</p> <p>محافظہ الخلیل</p> <p>محافظہ یروشلم</p> <p>محافظہ جنین</p> <p>محافظہ اریحا</p> <p>محافظہ خان یونس</p> <p>محافظہ نابلس</p> <p>محافظہ شمالی غزہ</p> <p>محافظہ قلقیلیہ</p> <p>محافظہ رام الله اور البیرہ</p> <p>محافظہ رفح</p> <p>محافظہ سلفیت</p> <p>محافظہ طوباس</p> <p>محافظہ طولکرم</p> <p>آواریو ضلع</p> <p>بیجا ضلع</p> <p>براگا ضلع</p> <p>براگانسا ضلع</p> <p>کاشتیلو برانکو ضلع</p> <p>کویمبرا ضلع</p> <p>ایورا ضلع</p> <p>فارو ضلع</p> <p>گواردا ضلع</p> <p>لائریا ضلع</p> <p>لزبن ضلع</p> <p>پورتالیگرے ضلع</p> <p>پورتو ضلع</p> <p>سانتارامی ضلع</p> <p>سیتوبال ضلع</p> <p>ویانا دو کاشتیلو ضلع</p> <p>ویلا ریال ضلع</p> <p>ویزیو ضلع</p> <p>آزورس</p> <p>مادیعیرا</p> <p>آئمیلیک</p> <p>آئرائی</p> <p>انگاور</p> <p>ہاتوبوبئی</p> <p>کایانگیل</p> <p>کورور</p> <p>میلیکئوک</p> <p>نگارآرد</p> <p>نگارچیلونگ</p> <p>نگاردماو</p> <p>نگاتپانگ</p> <p>نگچیسار</p> <p>نگیریملینگوئی</p> <p>نگیوال</p> <p>پیلیلیو</p> <p>سونسورول</p> <p>سان پیدرو محکمہ</p> <p>کوردیلیرا محکمہ</p> <p>گوایرا محکمہ</p> <p>کااجوازو</p> <p>کاازاپا</p> <p>اتاپوا محکمہ</p> <p>میسیونیس محکمہ</p> <p>پاراگواری محکمہ</p> <p>آلتو پارانا محکمہ</p> <p>سینترال محکمہ</p> <p>نیمبوکو محکمہ</p> <p>امامباے محکمہ</p> <p>کانندیو محکمہ</p> <p>پریسیدینتے خیئس محکمہ</p> <p>آلتو پیراگوئے محکمہ</p> <p>بوکیرون محکمہ</p> <p>اسونسیون</p> <p>دوحہ</p> <p>الخور و الدخیرہ</p> <p>بلدیہ شمال</p> <p>ریان، قطر</p> <p>ام صلال</p> <p>الوکرہ</p> <p>بلدیہ الضعاین</p> <p>البا کاؤنٹی</p> <p>آرجش کاؤنٹی</p> <p>آراد کاؤنٹی</p> <p>بخارسٹ</p> <p>باکئو کاؤنٹی</p> <p>بیہور کاؤنٹی</p> <p>بیستریتسا-ناسائود کاؤنٹی</p> <p>برئیلا کاؤنٹی</p> <p>بوتوشانی کاؤنٹی</p> <p>براشوو کاؤنٹی</p> <p>بوزاو کاؤنٹی</p> <p>کلوژ کاؤنٹی</p> <p>کالاراشی کاؤنٹی</p> <p>کاراش-سیویرین کاؤنٹی</p> <p>کونستانتسا کاؤنٹی</p> <p>کوواسنا کاؤنٹی</p> <p>دیمبوویتسا کاؤنٹی</p> <p>دولژ کاؤنٹی</p> <p>گورژ کاؤنٹی</p> <p>گالاتسی کاؤنٹی</p> <p>جیورجو کاؤنٹی</p> <p>ہونےدوارا کاؤنٹی</p> <p>ہارگیتا کاؤنٹی</p> <p>الیفوف کاؤنٹی</p> <p>یالومیتسا کاؤنٹی</p> <p>یاشی کاؤنٹی</p> <p>میہیدینتسی کاؤنٹی</p> <p>ماراموریش کاؤنٹی</p> <p>موریش کاؤنٹی</p> <p>نامتس کاؤنٹی</p> <p>اولت کاؤنٹی</p> <p>پراہوا کاؤنٹی</p> <p>سیبیو کاؤنٹی</p> <p>سالاژ کاؤنٹی</p> <p>ساتو مارے کاؤنٹی</p> <p>سوچاوا کاؤنٹی</p> <p>تولچا کاؤنٹی</p> <p>تیمیش کاؤنٹی</p> <p>تیلیاورمان کاؤنٹی</p> <p>ویلچا کاؤنٹی</p> <p>ورانچا کاؤنٹی</p> <p>واسلوی کاؤنٹی</p> <p>بلغراد</p> <p>شمالی باچکا ضلع</p> <p>وسطی بانات ضلع</p> <p>شمالی بانات ضلع</p> <p>جنوبی بانات ضلع</p> <p>مغربی باچکا ضلع</p> <p>جنوبی باچکا ضلع</p> <p>سریم ضلع</p> <p>ماچوا ضلع</p> <p>کولوبارا ضلع</p> <p>پودوناولیے ضلع</p> <p>برانیچیوو ضلع</p> <p>شومادیا ضلع</p> <p>پوموراولیے ضلع</p> <p>بور ضلع</p> <p>زایئچار ضلع</p> <p>زلاتیبور ضلع</p> <p>موراویتسا ضلع</p> <p>راشکا ضلع</p> <p>راسینا ضلع</p> <p>نیشاوا ضلع</p> <p>توپلیتسا ضلع</p> <p>پیروت ضلع</p> <p>جبلانیکاضلع</p> <p>پچینیا ضلع</p> <p>کوسووہ ضلع</p> <p>پیچ ضلع</p> <p>پریزرین ضلع</p> <p>کوسووسکا میتروویتسا ضلع</p> <p>کوسووہ پوموراولیے ضلع</p> <p>وئوودینا</p> <p>ادیگیا</p> <p>التائی جمہوریہ</p> <p>التائی کرائی</p> <p>آمور اوبلاست</p> <p>آرخانگلسک اوبلاست</p> <p>استراخان اوبلاست</p> <p>باشکورتوستان</p> <p>بلگورود اوبلاست</p> <p>بریانسک اوبلاست</p> <p>بوریاتیا</p> <p>شیشان</p> <p>چیلیابنسک اوبلاست</p> <p>چوکوتکا خود مختار آکرگ</p> <p>چوواشیا</p> <p>داغستان</p> <p>انگوشتیا</p> <p>ارکتسک اوبلاست</p> <p>ایوانوو اوبلاست</p> <p>کامچاٹکا کرائی</p> <p>کباردینو-بالکاریا جمہوریہ</p> <p>کراچائے-چرکیسیا</p> <p>کریسنوڈار کرائی</p> <p>کیمیروو اوبلاست</p> <p>کیلننگراڈ اوبلاست</p> <p>کورگان اوبلاست</p> <p>خابارووسک کرائی</p> <p>خانتی-مانسی خود مختار آکرگ</p> <p>کیروف اوبلاست</p> <p>خاکاسیا</p> <p>کلمیکیا</p> <p>کالوگا اوبلاست</p> <p>کومی جمہوریہ</p> <p>کوستروما اوبلاست</p> <p>جمہوریہ کریلیا</p> <p>کورسک اوبلاست</p> <p>کراسنویارسک کرائی</p> <p>لیننگراڈ اوبلاست</p> <p>لیپٹسک اوبلاست</p> <p>ماگادان اوبلاست</p> <p>ماری ال</p> <p>موردوویا</p> <p>ماسکو اوبلاست</p> <p>ماسکو</p> <p>مورمانسک اوبلاست</p> <p>نینیتس خود مختار آکرگ</p> <p>نووگورود اوبلاست</p> <p>نزہنی نووگورود اوبلاست</p> <p>نووسیبرسک اوبلاست</p> <p>اومسک اوبلاست</p> <p>اورنبرگ اوبلاست</p> <p>اوریول اوبلاست</p> <p>پیرم کرائی</p> <p>پینزا اوبلاست</p> <p>پریمورسکی کرائی</p> <p>پسکوف اوبلاست</p> <p>روستوف اوبلاست</p> <p>ریازان اوبلاست</p> <p>سخا جمہوریہ</p> <p>سخالن اوبلاست</p> <p>سمارا اوبلاست</p> <p>ساراتوو اوبلاست</p> <p>شمالی اوسیشیا-الانیا</p> <p>سمولنسک اوبلاست</p> <p>سینٹ پیٹرز برگ</p> <p>سٹاوروپول کرائی</p> <p>سوردلووسک اوبلاست</p> <p>تاتارستان</p> <p>تیمبوف اوبلاست</p> <p>تومسک اوبلاست</p> <p>تولا اوبلاست</p> <p>توور اوبلاست</p> <p>تووا</p> <p>تیومن اوبلاست</p> <p>ادمورتیا</p> <p>اولیانووسک اوبلاست</p> <p>وولگوگراڈ اوبلاست</p> <p>ولادیمیر اوبلاست</p> <p>ولوگدا اوبلاست</p> <p>ورونیش اوبلاست</p> <p>یامالو-نینیتس خود مختار آکرگ</p> <p>یاروسلاول اوبلاست</p> <p>یہودی خود مختار اوبلاست</p> <p>زابایکالسکی کرائی</p> <p>کیگالی</p> <p>مشرقی صوبہ، روانڈا</p> <p>شمالی صوبہ، روانڈا</p> <p>مغربی صوبہ، روانڈا</p> <p>جنوبی صوبہ، روانڈا</p> <p>صوبہ الرياض</p> <p>صوبہ المکہ</p> <p>صوبہ المدينہ</p> <p>صوبہ الشرقيہ</p> <p>صوبہ القصيم</p> <p>صوبہ حائل</p> <p>صوبہ تبوک</p> <p>صوبہ الحدود الشماليہ</p> <p>صوبہ جازان</p> <p>صوبہ نجران</p> <p>صوبہ الباحہ</p> <p>صوبہ الجوف</p> <p>صوبہ عسير</p> <p>وسطی صوبہ</p> <p>چویسیول صوبہ</p> <p>ہونیارا</p> <p>گوادالکانال صوبہ</p> <p>ایزابیل صوبہ</p> <p>ماکیرا-اولاوا صوبہ</p> <p>مالایتا صوبہ</p> <p>رینل اور بیلونا صوبہ</p> <p>تیموتو صوبہ</p> <p>مغربی صوبہ</p> <p>انسی-اوز-پینس</p> <p>انسے بویلیاو</p> <p>انسے یتویلی</p> <p>او کیپ</p> <p>انسے رویالی</p> <p>بایی لازاری</p> <p>بایی ساینتی آنے</p> <p>بیو والون</p> <p>بل ایئر</p> <p>بل ومبری</p> <p>کاسکادی</p> <p>جلاکیس</p> <p>لا ریوییری انجلایسی</p> <p>مونٹ بوزتون</p> <p>مونٹ فلیوری</p> <p>پلایسانکی</p> <p>پوائنٹ لا روی</p> <p>پورٹ جلاود</p> <p>سینٹ لوویس</p> <p>تاکاماکا</p> <p>لیس مامیلیس</p> <p>روچی کایمان</p> <p>وسطی دارفور</p> <p>مشرقی دارفور</p> <p>شمالی دارفور</p> <p>جنوبی دارفور</p> <p>مغربی دارفور</p> <p>القضارف (ریاست)</p> <p>مغربی کردفان</p> <p>الجزیرہ (ریاست)</p> <p>کسلا (ریاست)</p> <p>خرطوم (ریاست)</p> <p>شمالی کردفان</p> <p>جنوبی کردفان</p> <p>نیل ازرق (ریاست)</p> <p>شمالی (ریاست)</p> <p>دریائے نیل (ریاست)</p> <p>نیل ابیض (ریاست)</p> <p>بحیرہ احمر (ریاست)</p> <p>سنار (ریاست)</p> <p>سٹاکہوم کاؤنٹی</p> <p>وستربوتن کاؤنٹی</p> <p>نوربوتن کاؤنٹی</p> <p>اوپسالا کاؤنٹی</p> <p>سودرمنلاند کاؤنٹی</p> <p>اوستریوتلاند کاؤنٹی</p> <p>یونشوپنگ کاؤنٹی</p> <p>کرونوبری کاؤنٹی</p> <p>کالمار کاؤنٹی</p> <p>گوتلاند کاؤنٹی</p> <p>بلیکینے کاؤنٹی</p> <p>سکونہ کاؤنٹی</p> <p>ہالاند کاؤنٹی</p> <p>واسترا یوتالاند کاؤنٹی</p> <p>وارملاند کاؤنٹی</p> <p>اوریبرو کاؤنٹی</p> <p>ویستمانلاند کاؤنٹی</p> <p>دالارنا کاؤنٹی</p> <p>یاولیبوری کاؤنٹی</p> <p>ویسترنورلاند کاؤنٹی</p> <p>جامتلنڈ کاؤنٹی</p> <p>مرکزی سنگاپور کمیونٹی ڈیولپمنٹ کونسل</p> <p>شمال مشرقی کمیونٹی ڈیولپمنٹ کونسل</p> <p>شمال مغربی کمیونٹی ڈیولپمنٹ کونسل</p> <p>جنوب مشرقی کمیونٹی ڈیولپمنٹ کونسل</p> <p>جنوب مغربی کمیونٹی ڈیولپمنٹ کونسل</p> <p>جزیرہ اسینشن</p> <p>سینٹ ہلینا</p> <p>بلدیہ آیدووشچینا</p> <p>بلدیہ بیلتینتسی</p> <p>بلدیہ بلیت</p> <p>بلدیہ بوخن</p> <p>بلدیہ بوروونیتسا</p> <p>بلدیہ بوویتس</p> <p>بلدیہ بردا</p> <p>بلدیہ بریزوویتسا</p> <p>بلدیہ بریژیتسے</p> <p>شہر بلدیہ تسیلیے</p> <p>کیرکلجی نا جورینجسکیم میونسپلٹی</p> <p>بلدیہ تسیرکنیتسا</p> <p>بلدیہ تسیرکنو</p> <p>بلدیہ چرینشووتسی</p> <p>بلدیہ چرنا نا کوروشکیم</p> <p>بلدیہ چرنومیل</p> <p>دیسترنیک میونسپلٹی</p> <p>دیواکا میونسپلٹی</p> <p>دوبریپولجی میونسپلٹی</p> <p>ڈول پری لجوبلجانی میونسپلٹی</p> <p>دورناوا میونسپلٹی</p> <p>دراووجراد میونسپلٹی</p> <p>دوپلیک میونسپلٹی</p> <p>جوریسنیکا میونسپلٹی</p> <p>جورنجی گراڈ میونسپلٹی</p> <p>جورنجی پیترووکی میونسپلٹی</p> <p>جروسوپلجی میونسپلٹی</p> <p>سالووکی</p> <p>حراستنیک میونسپلٹی</p> <p>یج میونسپلٹی</p> <p>یوانکنا جوریکا میونسپلٹی</p> <p>یزولا</p> <p>بلدیہ یسینیتسے</p> <p>جورسینکی میونسپلٹی</p> <p>کامنیک میونسپلٹی</p> <p>کنال اوب سوکی</p> <p>کیدریکیوو میونسپلٹی</p> <p>کوبارید میونسپلٹی</p> <p>کوبیلجی میونسپلٹی</p> <p>کوکیوجی میونسپلٹی</p> <p>کومین میونسپلٹی</p> <p>کوزجی میونسپلٹی</p> <p>کرانج شہر میونسپلٹی</p> <p>کرانجسکا گورا میونسپلٹی</p> <p>میونسپلٹی کرسکو</p> <p>کونجوتا میونسپلٹی</p> <p>کوزما میونسپلٹی</p> <p>لاسکو میونسپلٹی</p> <p>لینارت میونسپلٹی</p> <p>لینداوا</p> <p>لیتیجا میونسپلٹی</p> <p>لجوبنو میونسپلٹی</p> <p>لوجاتیک میونسپلٹی</p> <p>لوسکا دولینا میونسپلٹی</p> <p>لوسکی پوتوک میونسپلٹی</p> <p>لوکی میونسپلٹی</p> <p>لوکوویکا میونسپلٹی</p> <p>ماجسپیرک میونسپلٹی</p> <p>مریبور شہر میونسپلٹی</p> <p>میدوودی میونسپلٹی</p> <p>مینجیس میونسپلٹی</p> <p>میتلیکا</p> <p>مسلینجا</p> <p>موراویس میونسپلٹی</p> <p>موراوسکی توپلیکی میونسپلٹی</p> <p>موزیرجی میونسپلٹی</p> <p>مورسکا سوبوتا شہر میونسپلٹی</p> <p>متا میونسپلٹی</p> <p>ناکلو میونسپلٹی</p> <p>نازارجی میونسپلٹی</p> <p>نووا گوریتسا</p> <p>شہر میونسپلٹی نووو میستو</p> <p>ودرانکی</p> <p>ورموز</p> <p>پیسنیکا میونسپلٹی</p> <p>پیران</p> <p>پیوکا میونسپلٹی</p> <p>پودکیترتیک میونسپلٹی</p> <p>پودویلکا میونسپلٹی</p> <p>پوستوجنا میونسپلٹی</p> <p>پریدوور میونسپلٹی</p> <p>پتوج</p> <p>رادیکی</p> <p>رادلجی اوب دراوی میونسپلٹی</p> <p>رادوولجیکا میونسپلٹی</p> <p>راونی نا کوروسکیم</p> <p>ریبنیکا میونسپلٹی</p> <p>روجاسووکی میونسپلٹی</p> <p>روجاسکا سلاتینا</p> <p>روجاتیک میونسپلٹی</p> <p>روز میونسپلٹی</p> <p>سیمیک میونسپلٹی</p> <p>سیونیکا میونسپلٹی</p> <p>سیزانا میونسپلٹی</p> <p>سلووینج جرادیک شہر میونسپلٹی</p> <p>سلووینسکا بیستریکا</p> <p>سلووینسکی کونجیکی</p> <p>اسٹارسی میونسپلٹی</p> <p>سویتی جوریج اوب سکاونیکی میونسپلٹی</p> <p>سینکور میونسپلٹی</p> <p>سینتیلج میونسپلٹی</p> <p>سینتجیرنیج میونسپلٹی</p> <p>سینتجور میونسپلٹی</p> <p>سکوکجان میونسپلٹی</p> <p>سکوفجا لوکا میونسپلٹی</p> <p>سکوفلجیکا میونسپلٹی</p> <p>سمارجی پری جیلساح میونسپلٹی</p> <p>سمارتنو اوب پکی میونسپلٹی</p> <p>سوستانج میونسپلٹی</p> <p>اسٹور میونسپلٹی</p> <p>تولمین میونسپلٹی</p> <p>تریبنجی میونسپلٹی</p> <p>ترزیک میونسپلٹی</p> <p>ویلیکی لاسکی میونسپلٹی</p> <p>ویپاوا میونسپلٹی</p> <p>ویتانجی</p> <p>وودیکی</p> <p>ووجنیک میونسپلٹی</p> <p>ورحنیکا میونسپلٹی</p> <p>ووزینیکا میونسپلٹی</p> <p>زاورک میونسپلٹی</p> <p>میونسپلٹی</p> <p>زیلیزنیکی میونسپلٹی</p> <p>بلدیہ بینیدیکت</p> <p>بلدیہ بیستریتسا اوپ سوتلی</p> <p>بلدیہ بلوکے</p> <p>بلدیہ براسلووچے</p> <p>بلدیہ تسانکووا</p> <p>بلدیہ تسیرکوینیاک</p> <p>دوبجے میونسپلٹی</p> <p>دوبرنا میونسپلٹی</p> <p>دولینجسکی توپلیکی میونسپلٹی</p> <p>گراڈ میونسپلٹی</p> <p>حاجدینا میونسپلٹی</p> <p>ہودوس میونسپلٹی</p> <p>ہورجول میونسپلٹی</p> <p>جیزیرسکو میونسپلٹی</p> <p>کومیندا میونسپلٹی</p> <p>کوستیل میونسپلٹی</p> <p>کریزیوکی میونسپلٹی</p> <p>مرکووکی میونسپلٹی</p> <p>مرنا پیک میونسپلٹی</p> <p>وپلوتنیکا میونسپلٹی</p> <p>پودلیحنیک میونسپلٹی</p> <p>پولزیلا میونسپلٹی</p> <p>پریبولد میونسپلٹی</p> <p>پریوالجی میونسپلٹی</p> <p>رازکریزجی میونسپلٹی</p> <p>ریبنیکا نا پوحورجو میونسپلٹی</p> <p>سیلنیکا اوب دراوی میونسپلٹی</p> <p>سودرازیکا میونسپلٹی</p> <p>سویتا انا میونسپلٹی</p> <p>سویتی اندراز وی سلووینسکیح جوریکاح میونسپلٹی</p> <p>تابور میونسپلٹی</p> <p>ترنووسکا واس میونسپلٹی</p> <p>طرزیں</p> <p>ویلیکا پولانا میونسپلٹی</p> <p>ویرزیج میونسپلٹی</p> <p>ورانسکو</p> <p>زالیک میونسپلٹی</p> <p>زیتالی میونسپلٹی</p> <p>زیروونیکا میونسپلٹی</p> <p>زوزیمبیرک</p> <p>سمارتنو پری لیتیجی</p> <p>بلدیہ آپاچے</p> <p>بلدیہ تسیرکولانے</p> <p>انکاران</p> <p>بانسکا بسٹریکا ریجن</p> <p>براتیسلاوا ریجن</p> <p>کوشیسہ علاقہ</p> <p>نیترا علاقہ</p> <p>پریسوو ریجن</p> <p>ترناوا ریجن</p> <p>ترینکین ریجن</p> <p>ژیلینا علاقہ</p> <p>مشرقی صوبہ، سیرالیون</p> <p>شمالی صوبہ، سیرالیون</p> <p>جنوبی صوبہ، سیرالیون</p> <p>مغربی علاقہ</p> <p>آکواویوا</p> <p>کیئزانووا</p> <p>دوماجنانو</p> <p>فیٹانو</p> <p>فیورنتینو</p> <p>بورجو ماججیوری</p> <p>سان مارینو شہر</p> <p>مونتےجاردینو</p> <p>سیراوالی</p> <p>دیوربیل علاقہ</p> <p>ڈاکار علاقہ</p> <p>فاتیک علاقہ</p> <p>کفرین علاقہ</p> <p>کولدا علاقہ</p> <p>کیدؤگؤ علاقہ</p> <p>کاولاک علاقہ</p> <p>لؤگا علاقہ</p> <p>ماتام علاقہ</p> <p>سیدھیو علاقہ</p> <p>سینٹ-لوئیس ریجن</p> <p>تامباکؤندا علاقہ</p> <p>تھیس علاقہ</p> <p>زیگینچور علاقہ</p> <p>عدل علاقہ</p> <p>باکول</p> <p>بنادر</p> <p>باری، صومالیہ</p> <p>بای، صومالیہ</p> <p>جلجدود</p> <p>جدو</p> <p>ہیران، صومالیہ</p> <p>وسطی جوبا</p> <p>زیریں جوبا</p> <p>مدق</p> <p>نوغال، صومالیہ</p> <p>سناج</p> <p>وسطی شبیلی</p> <p>زیریں شبیلی</p> <p>سول</p> <p>توجدیر</p> <p>وقویی جالبید</p> <p>بروکوپوندو ضلع</p> <p>کوماوائنہ ضلع</p> <p>کورونی ضلع</p> <p>مارووینہ ضلع</p> <p>نیکاری ضلع</p> <p>پاراماریبو ضلع</p> <p>پارا ضلع</p> <p>سارامکا ضلع</p> <p>سیپالیوینی ضلع</p> <p>وانیکا ضلع</p> <p>شمالی بحر الغزال</p> <p>مغربی بحر الغزال</p> <p>وسطی استوائی</p> <p>مشرقی استوائی</p> <p>مغربی استوائی</p> <p>جونقلی</p> <p>جھیلیں (ریاست)</p> <p>بالائی نیل (ریاست)</p> <p>وحدت (ریاست)</p> <p>واراب (ریاست)</p> <p>پرنسپے صوبہ</p> <p>ساؤ ٹومے صوبہ</p> <p>اہواشاپان محکمہ</p> <p>کابانیاس محکمہ</p> <p>شالاتنانگو محکمہ</p> <p>کوسکاتلان محکمہ</p> <p>لا لیبیرتاڈ دیپارٹمنٹ</p> <p>مورازان محکمہ</p> <p>لا پاز ڈیپارٹمنٹ</p> <p>سانتا آنا محکمہ</p> <p>سان میگیل محکمہ</p> <p>سونسوناتے محکمہ</p> <p>سان سیلواڈور محکمہ</p> <p>سان ویسینتے محکمہ</p> <p>لا یونیون ڈیپارٹمنٹ</p> <p>اوسولوتآن محکمہ</p> <p>محافظہ دمشق</p> <p>محافظہ درعا</p> <p>محافظہ دیر الزور</p> <p>محافظہ الحسکہ</p> <p>محافظہ حمص</p> <p>محافظہ حلب</p> <p>محافظہ حماہ</p> <p>محافظہ ادلب</p> <p>اللاذقیة</p> <p>محافظہ قنیطرہ</p> <p>محافظہ الرقہ</p> <p>محافظہ ریف دمشق</p> <p>محافظہ السویداء</p> <p>محافظہ طرطوس</p> <p>ہوہو علاقہ</p> <p>لوبومبو علاقہ</p> <p>مانزینی علاقہ</p> <p>شیزلوینی علاقہ</p> <p>باثا علاقہ</p> <p>بحر الغزال علاقہ</p> <p>بورکؤ علاقہ</p> <p>شاری-باگیرمی علاقہ</p> <p>انیدی-مشرقی علاقہ</p> <p>انیدی-مغربی علاقہ</p> <p>گویرا علاقہ</p> <p>حجر-لامیس علاقہ</p> <p>کانیم علاقہ</p> <p>لاک ریجن</p> <p>لوگونے مغربی علاقہ</p> <p>لوگونے مشرقی علاقہ</p> <p>ماندؤل علاقہ</p> <p>موین-شاری علاقہ</p> <p>مایو-کیبی مشرقی علاقہ</p> <p>مایو-کیبی مغربی علاقہ</p> <p>اینجامینا</p> <p>اوادای علاقہ</p> <p>سلامات علاقہ</p> <p>سیلا علاقہ</p> <p>تانجیلے علاقہ</p> <p>تیبستی علاقہ</p> <p>وادی فیرا علاقہ</p> <p>سونترال علاقہ، ٹوگو</p> <p>کارا علاقہ</p> <p>میری ٹائم علاقہ</p> <p>پلاٹوس علاقہ، ٹوگو</p> <p>ساوانیس علاقہ، ٹوگو</p> <p>بنکاک</p> <p>ساموت پراکان</p> <p>نونتھابوری صوبہ</p> <p>پاتھاوم تھانی صوبہ</p> <p>پھرا ناکھون سی ایوتتھایا صوبہ</p> <p>صوبہ آنگ تھونگ</p> <p>لوپبوری صوبہ</p> <p>سنگ بوری صوبہ</p> <p>چائی نات صوبہ</p> <p>سارابوری صوبہ</p> <p>چونبوری صوبہ</p> <p>رایونگ صوبہ</p> <p>چانتھابوری صوبہ</p> <p>ترات صوبہ</p> <p>چاچوئنگساو صوبہ</p> <p>پراچنبوری صوبہ</p> <p>ناکھون نایوک صوبہ</p> <p>سا کیو علاقہ</p> <p>ناکھون راتچاسیما صوبہ</p> <p>صوبہ بوریرام</p> <p>سورن صوبہ</p> <p>سیساکیت صوبہ</p> <p>صوبہ ابون راتچاتھانی</p> <p>یسوتھون علاقہ</p> <p>چائیاپھوم صوبہ</p> <p>صوبہ امنات چاروئن</p> <p>صوبہ بوئنگ کان</p> <p>نونگ بوا لامپھو صوبہ</p> <p>کھون کیئن صوبہ</p> <p>اودون تھانی صوبہ</p> <p>لوئی صوبہ</p> <p>نونگ کھائی صوبہ</p> <p>مہا ساراکھام صوبہ</p> <p>روئی ات صوبہ</p> <p>کالاسن صوبہ</p> <p>ساکون ناکھون صوبہ</p> <p>ناکھون پھانوم صوبہ</p> <p>موکداہان صوبہ</p> <p>صوبہ چیانگ مائی</p> <p>لیمپھون صوبہ</p> <p>لیمپینگ صوبہ</p> <p>اوتارادیت صوبہ</p> <p>پھرائے صوبہ</p> <p>صوبہ نان</p> <p>پھایاو صوبہ</p> <p>صوبہ چیانگ رائی</p> <p>صوبہ مائے ہونگ سون</p> <p>ناکھون ساوان صوبہ</p> <p>اوتھائی تھانی صوبہ</p> <p>کامپھائنگ پھیت صوبہ</p> <p>تاک صوبہ</p> <p>سوخوتھائی صوبہ</p> <p>پھیتسانولوک صوبہ</p> <p>پھیچیت صوبہ</p> <p>پھیتچابون صوبہ</p> <p>راتچابوری صوبہ</p> <p>کانچانابوری صوبہ</p> <p>سوپھان بوری صوبہ</p> <p>ناکھون پاتھوم صوبہ</p> <p>ساموت ساکھون صوبہ</p> <p>ساموت سونگکھرام صوبہ</p> <p>پھتچابوری صوبہ</p> <p>پراچواپ کھیری کھان صوبہ</p> <p>ناکھون سی تھامارات صوبہ</p> <p>کرابی صوبہ</p> <p>پھانگ نگا صوبہ</p> <p>صوبہ پھوکٹ</p> <p>سورات تھانی صوبہ</p> <p>رانونگ صوبہ</p> <p>چومپھون صوبہ</p> <p>سونگکھلا صوبہ</p> <p>ساتون صوبہ</p> <p>ترانگ صوبہ</p> <p>پھاتتھالونگ صوبہ</p> <p>صوبہ پاتانی</p> <p>یالا پراونس</p> <p>ناراتھیوات صوبہ</p> <p>پتایا</p> <p>دوشنبہ</p> <p>گورنو بدخشاں خود مختار صوبہ</p> <p>صوبہ ختلان</p> <p>جمہوریہ ماتحتی اضلاع</p> <p>صوبہ سغد</p> <p>آئلیو ضلع</p> <p>اینارو ضلع</p> <p>باوکاو ضلع</p> <p>بوبونارو ضلع</p> <p>کووا لیما ضلع</p> <p>دیلی ضلع</p> <p>عرمیرا ضلع</p> <p>لاوتیم ضلع</p> <p>لیکیسا ضلع</p> <p>مانوفاہی ضلع</p> <p>ماناتوتو ضلع</p> <p>اویکوسی ضلع</p> <p>ویقیقی ضلع</p> <p>صوبہ آخال</p> <p>صوبہ بلخان</p> <p>صوبہ داشوغوز</p> <p>صوبہ لب آب</p> <p>صوبہ ماری</p> <p>اشک آباد</p> <p>تونس</p> <p>آریانہ</p> <p>بن عروس</p> <p>منوبہ</p> <p>نابل</p> <p>زغوان گوورنوراتے</p> <p>بنزرت</p> <p>باجہ</p> <p>جندوبہ</p> <p>کاف (صوبہ)</p> <p>سلیانہ</p> <p>قیروان</p> <p>قصرین</p> <p>سیدی بوزید</p> <p>سوسہ</p> <p>منستر</p> <p>مہدیہ</p> <p>صفاقس</p> <p>قفصہ</p> <p>توزر</p> <p>قبلی</p> <p>گابس</p> <p>مدنین</p> <p>تطاوین</p> <p>یوا</p> <p>ہآپائی</p> <p>نیواس</p> <p>ٹونگاٹاپو</p> <p>واواؤ</p> <p>آدانا صوبہ</p> <p>آدیامان صوبہ</p> <p>افیون قرہ حصار صوبہ</p> <p>آغری صوبہ</p> <p>اماسیا صوبہ</p> <p>انقرہ صوبہ</p> <p>انطالیہ صوبہ</p> <p>آرتوین صوبہ</p> <p>آیدین صوبہ</p> <p>بالیکسیر صوبہ</p> <p>بیلیجک صوبہ</p> <p>بینگول صوبہ</p> <p>بتلیس صوبہ</p> <p>بولو صوبہ</p> <p>بوردور صوبہ</p> <p>بورصہ صوبہ</p> <p>چناق قلعہ صوبہ</p> <p>چانقری صوبہ</p> <p>چوروم صوبہ</p> <p>دنیزلی صوبہ</p> <p>دیار بکر صوبہ</p> <p>ادرنہ صوبہ</p> <p>الازیغ صوبہ</p> <p>ارزنجان صوبہ</p> <p>ارض روم صوبہ</p> <p>اس کی شہر صوبہ</p> <p>غازی عینتاب صوبہ</p> <p>گریسون صوبہ</p> <p>گوموشخانے صوبہ</p> <p>حکاری صوبہ</p> <p>ہاتے صوبہ</p> <p>اسپارتا صوبہ</p> <p>مرسین صوبہ</p> <p>استنبول صوبہ</p> <p>ازمیر صوبہ</p> <p>قارص صوبہ</p> <p>کاستامونو صوبہ</p> <p>قیصری صوبہ</p> <p>قرقلرایلی صوبہ</p> <p>قر شہر صوبہ</p> <p>قوجائلی صوبہ</p> <p>قونیہ صوبہ</p> <p>کوتاہیا صوبہ</p> <p>مالاطیہ صوبہ</p> <p>مانیسا صوبہ</p> <p>قہرمان مرعش صوبہ</p> <p>ماردین صوبہ</p> <p>موغلا صوبہ</p> <p>موش صوبہ</p> <p>نو شہر صوبہ</p> <p>نیغدے صوبہ</p> <p>صوبہ اردو</p> <p>ریزہ صوبہ</p> <p>ساکاریا صوبہ</p> <p>سامسون صوبہ</p> <p>سیرت صوبہ</p> <p>سینوپ صوبہ</p> <p>سیواس صوبہ</p> <p>تکیرداغ صوبہ</p> <p>توقات صوبہ</p> <p>ترابزون صوبہ</p> <p>تونجیلی صوبہ</p> <p>شانلیعرفا صوبہ</p> <p>عشاق صوبہ</p> <p>وان صوبہ</p> <p>یوزگت علاقہ</p> <p>زانگولداک صوبہ</p> <p>آق سرائے صوبہ</p> <p>بایبورت صوبہ</p> <p>کارامان صوبہ</p> <p>قیریق قلعہ صوبہ</p> <p>باتمان صوبہ</p> <p>شرناق صوبہ</p> <p>بارتین صوبہ</p> <p>ارداہان صوبہ</p> <p>اغدیر صوبہ</p> <p>یالووا صوبہ</p> <p>کارابوک صوبہ</p> <p>کیلیس صوبہ</p> <p>عثمانیہ صوبہ</p> <p>دوزجے صوبہ</p> <p>آریما</p> <p>چاگواناس</p> <p>کؤوا-تاباکیوٹ-ٹالپارو علاقائی کارپوریشن</p> <p>ڈیگو مارٹن علاقائی کارپوریشن</p> <p>ریو کلارو-مایارو علاقائی کارپوریشن</p> <p>پینل-ڈیبے علاقائی کارپوریشن</p> <p>پورٹ آف اسپین</p> <p>پرنسز ٹاؤن علاقائی کارپوریشن</p> <p>پوائنٹ فورٹن</p> <p>سان فرنانڈو، ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو</p> <p>سانگرے گرانڈے علاقائی کارپوریشن</p> <p>سیپاریا علاقائی کارپوریشن</p> <p>سان حوان-لاوینٹیل علاقائی کارپوریشن</p> <p>ٹوباگو</p> <p>ٹوناپونا-پیارکو علاقائی کارپوریشن</p> <p>فونافوتی</p> <p>نیوتاو</p> <p>نوکوتیتاو</p> <p>نوکولاےلاے</p> <p>نانومیا</p> <p>نانومانگا</p> <p>نوئی</p> <p>وایتوپو</p> <p>چانگہوا کاؤنٹی</p> <p>چیائی کاؤنٹی</p> <p>چیایی شہر</p> <p>ہسینچو کاؤنٹی</p> <p>ہسینچو</p> <p>ہوالیئن کاؤنٹی</p> <p>یلن کاؤنٹی، تائیوان</p> <p>کیلونگ</p> <p>کائوسیونگ شہر</p> <p>کنمن</p> <p>میاولی کاؤنٹی</p> <p>نانتوو کاؤنٹی</p> <p>پنگتونگ کاؤنٹی</p> <p>تاویوان</p> <p>تاینان</p> <p>تائی پے</p> <p>تائیتونگ کاؤنٹی</p> <p>ٹائچونگ</p> <p>یونلن کاؤنٹی</p> <p>اروشا ریجن</p> <p>دَر اس سلام ریجن</p> <p>یرینجا ریجن</p> <p>کاگیرا علاقہ</p> <p>پیمبا شمالی علاقہ</p> <p>زانزیبر نارتھ ریجن</p> <p>کیگوما علاقہ</p> <p>کلیمنجارو علاقہ</p> <p>پیمبا جنوبی علاقہ</p> <p>لیندی علاقہ</p> <p>مارا علاقہ</p> <p>مبیا علاقہ</p> <p>مجینی مغربی علاقہ</p> <p>موروگورو علاقہ</p> <p>متوارا علاقہ</p> <p>موانزا علاقہ</p> <p>پوانی علاقہ</p> <p>رکوا ریجن</p> <p>روووما ریجن</p> <p>شینیانگا علاقہ</p> <p>سنگیدا علاقہ</p> <p>تابورا علاقہ</p> <p>ٹانگہ ریجن</p> <p>مانیارا علاقہ</p> <p>گئیتا علاقہ</p> <p>کاتاوی علاقہ</p> <p>نجومبے علاقہ</p> <p>سیمیو ریجن</p> <p>وینیتسیا اوبلاست</p> <p>ولین اوبلاست</p> <p>لوہانسک اوبلاست</p> <p>دنیپروپیترووسک اوبلاست</p> <p>دونیتسک اوبلاست</p> <p>ژیتومیر اوبلاست</p> <p>زاکارپتیا اوبلاست</p> <p>زابروژیا اوبلاست</p> <p>ایوانو-فرانکیوسک اوبلاست</p> <p>کیف</p> <p>کیف اوبلاست</p> <p>کیرووہراد اوبلاست</p> <p>سواستوپول</p> <p>خود مختار جمہوریہ کریمیا</p> <p>لویئو اوبلاست</p> <p>میکولائیو اوبلاست</p> <p>اودیسا اوبلاست</p> <p>پولتاوا اوبلاست</p> <p>ریونہ اوبلاست</p> <p>سومی اوبلاست</p> <p>تیرنوپیل اوبلاست</p> <p>خارکیو اوبلاست</p> <p>خیرسون اوبلاست</p> <p>خمیلنیتسکی اوبلاست</p> <p>چیرکاسی اوبلاست</p> <p>چیرنیہیو اوبلاست</p> <p>چیرنیوتسی اوبلاست</p> <p>کالاگالا ضلع</p> <p>کمپالا ضلع</p> <p>کیبوگا ضلع</p> <p>لوویرو ضلع</p> <p>ماساکا ضلع</p> <p>مپیگی ضلع</p> <p>موبیندے ضلع</p> <p>موکونو ضلع</p> <p>ناکاسونگولا ضلع</p> <p>راکائی ضلع</p> <p>سیمبابولے ضلع</p> <p>کائونگا ضلع</p> <p>واکیسو ضلع</p> <p>لیانتوندے ضلع</p> <p>میتیانا ضلع</p> <p>لیانتوندے ضلع²</p> <p>بویکوے ضلع</p> <p>بوکومانسیمبی ضلع</p> <p>بوتامبالا ضلع</p> <p>بووما ضلع</p> <p>گومبا ضلع</p> <p>کالونگو ضلع</p> <p>کیانکوانزی ضلع</p> <p>لوینگو ضلع</p> <p>بوگیری ضلع</p> <p>بوسیا ضلع</p> <p>اگانگا ضلع</p> <p>جنجا ضلع</p> <p>کامولی ضلع</p> <p>کاپچوروا ضلع</p> <p>کاتاکوی ضلع</p> <p>کومی ضلع</p> <p>مبالے ضلع</p> <p>پالیسا ضلع</p> <p>سوروتی ضلع</p> <p>تورورو ضلع</p> <p>کابیرامایدو ضلع</p> <p>مائوگی ضلع</p> <p>سیرونکو ضلع</p> <p>اموریا ضلع</p> <p>بوداکا ضلع</p> <p>بودودا ضلع</p> <p>بوتالیجا ضلع</p> <p>کالیرو ضلع</p> <p>مانافوا ضلع</p> <p>ناموتومبا ضلع</p> <p>مانافوا ضلع²</p> <p>بوکیدیا ضلع</p> <p>بولامبولی ضلع</p> <p>بوئیندے ضلع</p> <p>کیبوکو ضلع</p> <p>کوین ضلع</p> <p>کووکا ضلع</p> <p>نامائینگو ضلع</p> <p>نگورا ضلع</p> <p>سیریرے ضلع</p> <p>ادجومانی ضلع</p> <p>اپاک ضلع</p> <p>اروا ضلع</p> <p>گولو ضلع</p> <p>کتگوم ضلع</p> <p>کوتیدو ضلع</p> <p>لیرا ضلع</p> <p>موروتو ضلع</p> <p>مویو ضلع</p> <p>نیبی ضلع</p> <p>ناکاپیریپیریت ضلع</p> <p>پادیر ضلع</p> <p>یومبے ضلع</p> <p>ابیم ضلع</p> <p>کآبونگ ضلع</p> <p>امورو ضلع</p> <p>ابیم ضلع²</p> <p>کآبونگ ضلع²</p> <p>امورو ضلع²</p> <p>مراچا ضلع</p> <p>اویام ضلع</p> <p>اگاگو ضلع</p> <p>الیبتونگ ضلع</p> <p>امودات ضلع</p> <p>کولے ضلع</p> <p>لاموو ضلع</p> <p>ناپاک ضلع</p> <p>نوویا ضلع</p> <p>اوتوکے ضلع</p> <p>زومبو ضلع</p> <p>بوندیبوگیو ضلع</p> <p>بوشینئی ضلع</p> <p>ہویما ضلع</p> <p>کابالے ضلع</p> <p>کابارولے ضلع</p> <p>کاسیسے ضلع</p> <p>کیبآلے ضلع</p> <p>کیسورو ضلع</p> <p>ماسیندی ضلع</p> <p>مبارارا ضلع</p> <p>نتونگامو ضلع</p> <p>روکونگیری ضلع</p> <p>کاموینگے ضلع</p> <p>کانونگو ضلع</p> <p>کئینجوجو ضلع</p> <p>اباندا ضلع</p> <p>اسینگیرو ضلع</p> <p>اسینگیرو ضلع²</p> <p>کیروہورا ضلع</p> <p>بوہویجو ضلع</p> <p>کیریاندونگو ضلع</p> <p>کئیگیگوا ضلع</p> <p>میتوما ضلع</p> <p>نتوروکو ضلع</p> <p>روبیریزی ضلع</p> <p>شیما ضلع</p> <p>وسطی علاقہ، یوگنڈا</p> <p>مشرقی علاقہ، یوگنڈا</p> <p>شمالی علاقہ، یوگنڈا</p> <p>مغربی علاقہ، یوگنڈا</p> <p>جزیرہ جانسٹن</p> <p>جزیرہ مڈوے</p> <p>جزیرہ ناواسا</p> <p>جزیرہ ویک</p> <p>جزیرہ بیکر</p> <p>جزیرہ ہاولینڈ</p> <p>جزیرہ جاروس</p> <p>کنگمین ریف</p> <p>جزیرہ پالمیرا</p> <p>الاسکا</p> <p>الاباما</p> <p>آرکنساس</p> <p>ایریزونا</p> <p>کیلی فورنیا</p> <p>کولوراڈو</p> <p>کنیکٹیکٹ</p> <p>واشنگٹن ڈی سی</p> <p>ڈیلاویئر</p> <p>فلوریڈا</p> <p>ریاست جارجیا</p> <p>ہوائی</p> <p>آئیووا</p> <p>ایڈاہو</p> <p>الینوائے</p> <p>انڈیانا</p> <p>کنساس</p> <p>کینٹکی</p> <p>لوزیانا</p> <p>میساچوسٹس</p> <p>میری لینڈ</p> <p>مینے</p> <p>مشی گن</p> <p>مینیسوٹا</p> <p>مسوری</p> <p>مسیسپی</p> <p>مونٹانا</p> <p>شمالی کیرولینا</p> <p>شمالی ڈکوٹا</p> <p>نیبراسکا</p> <p>نیو ہیمپشائر</p> <p>نیو جرسی</p> <p>نیو میکسیکو</p> <p>نیواڈا</p> <p>نیویارک</p> <p>اوہائیو</p> <p>اوکلاہوما</p> <p>اوریگون</p> <p>پنسلوانیا</p> <p>رہوڈ آئی لینڈ</p> <p>جنوبی کیرولینا</p> <p>جنوبی ڈکوٹا</p> <p>ٹینیسی</p> <p>ٹیکساس</p> <p>یوٹاہ</p> <p>ورجینیا</p> <p>ورمونٹ</p> <p>ریاست واشنگٹن</p> <p>وسکونسن</p> <p>مغربی ورجینیا</p> <p>وائیومنگ</p> <p>آرتیگاس محکمہ</p> <p>کانیلونس محکمہ</p> <p>سیرو لارگو محکمہ</p> <p>کولونیا محکمہ</p> <p>دوراسنو محکمہ</p> <p>فلوریدا محکمہ</p> <p>فلوریس محکمہ</p> <p>لاواشیخا محکمہ</p> <p>مالدونادو محکمہ</p> <p>مونتیبیدیو محکمہ</p> <p>پایساندو محکمہ</p> <p>ریو نیگرو محکمہ</p> <p>روچا محکمہ</p> <p>ریویرا محکمہ</p> <p>سالتو محکمہ</p> <p>سان خوسے محکمہ</p> <p>سوریانو محکمہ</p> <p>تاکواریمبو محکمہ</p> <p>ترینتا ی تریس محکمہ</p> <p>اندیجان صوبہ</p> <p>بخارا صوبہ</p> <p>فرغانہ صوبہ</p> <p>جیزخ صوبہ</p> <p>نمنگان صوبہ</p> <p>نوائی صوبہ</p> <p>قشقہ دریا صوبہ</p> <p>کاراکالپکستان</p> <p>سمرقند صوبہ</p> <p>سیر دریا صوبہ</p> <p>سرخان دریا صوبہ</p> <p>تاشقند</p> <p>تاشقند صوبہ</p> <p>خوارزم صوبہ</p> <p>شارلٹ پیرش، سینٹ وینسینٹ و گریناڈائنز</p> <p>سینٹ اینڈریو پریش، سینٹ ونکنٹ و تھے گریندنس</p> <p>سینٹ ڈیوڈ پریش، سینٹ ونکنٹ و تھے گریندنس</p> <p>سینٹ جارج پریش، سینٹ ونکنٹ و تھے گریندنس</p> <p>سینٹ پیٹرک پریش، سینٹ ونکنٹ و تھے گریندنس</p> <p>گریناڈائنز پیرش</p> <p>دارالحکومت ضلع</p> <p>انسوآتیگی</p> <p>آپورے</p> <p>آراگوا</p> <p>باریناس</p> <p>بولیبار</p> <p>کارابوبو</p> <p>کوخیدیس</p> <p>فالکون</p> <p>گواریکو</p> <p>لارا، وینیزویلا</p> <p>میریدا</p> <p>میراندا</p> <p>موناگاس</p> <p>نویبا ایسپارتا</p> <p>پورتوگیسا، وینیزویلا</p> <p>سوکرے، وینیزویلا</p> <p>تاچیرا</p> <p>تروخیو</p> <p>یارکے</p> <p>سولیا</p> <p>وفاقی توابع وینیزویلا</p> <p>بارگاس</p> <p>دیلتا اماکورا</p> <p>اماسوناس، وینیزویلا</p> <p>لائی چاو صوبہ</p> <p>لاو کائے صوبہ</p> <p>ہا گیانگ صوبہ</p> <p>کاؤ بانگ صوبہ</p> <p>سون لا صوبہ</p> <p>یین با پراونس</p> <p>توین قوانگ صوبہ</p> <p>لانگ سون صوبہ</p> <p>قوانگ ننہ صوبہ</p> <p>ہوا بنہ صوبہ</p> <p>ننہ بنہ صوبہ</p> <p>تھائی بنہ صوبہ</p> <p>تھان ہوا صوبہ</p> <p>نگہ آن صوبہ</p> <p>صوبہ ہاتنہ</p> <p>صوبہ کوانگ بن</p> <p>قوانگ تری صوبہ</p> <p>تھوا تھیئن-ہوائے صوبہ</p> <p>قوانگ نام صوبہ</p> <p>کون تم صوبہ</p> <p>قوانگ نگائی صوبہ</p> <p>گیا لائی صوبہ</p> <p>بنہ دینہ صوبہ</p> <p>فو ین صوبہ</p> <p>داک لاک صوبہ</p> <p>خانھ ہوا صوبہ</p> <p>لام ڈونگ صوبہ</p> <p>ننہ تھوان صوبہ</p> <p>تاے ننہ صوبہ</p> <p>دونگ نائی صوبہ</p> <p>بنہ تھوان صوبہ</p> <p>لونگ آن صوبہ</p> <p>با ریا-وؤنگ تاو صوبہ</p> <p>آن گیانگ صوبہ</p> <p>دونگ تھاپ صوبہ</p> <p>تیئن گیانگ صوبہ</p> <p>کیئن گیانگ صوبہ</p> <p>وینہ لونگ صوبہ</p> <p>بئن تر صوبہ</p> <p>ترا وینہ صوبہ</p> <p>سوک ترانگ صوبہ</p> <p>باک کان صوبہ</p> <p>باک گیانگ صوبہ</p> <p>باک لیئو صوبہ</p> <p>باک ننہ صوبہ</p> <p>بنہ دیونگ صوبہ</p> <p>بنہ فووک صوبہ</p> <p>کآ ماو صوبہ</p> <p>ہائی دیونگ صوبہ</p> <p>صوبہ ہانام</p> <p>ہونگ ین صوبہ</p> <p>نام دینہ صوبہ</p> <p>فو تھو صوبہ</p> <p>تھائی نگوین صوبہ</p> <p>وینہ فوک صوبہ</p> <p>دیئن بیئن صوبہ</p> <p>داک نونگ صوبہ</p> <p>ہآو گیانگ صوبہ</p> <p>کآن تھؤ</p> <p>دا نانگ</p> <p>ہنوئی</p> <p>ہائیفونگ</p> <p>ہو چی من</p> <p>مالامپا صوبہ</p> <p>پیناما صوبہ</p> <p>سامنے صوبہ</p> <p>شفا صوبہ</p> <p>تافیا صوبہ</p> <p>توربا صوبہ</p> <p>الو</p> <p>سیگاوی</p> <p>وویا</p> <p>آنا، سامووا</p> <p>آیگا-ای-لو-تائی</p> <p>اتوا</p> <p>فآسالیلیاگا</p> <p>گاگآئماوگا</p> <p>گاگآانفوماوگا</p> <p>پالاولی</p> <p>ساتوپآیتیا</p> <p>تواماساگا</p> <p>وآ-او-فونوتی</p> <p>وایسیگانو</p> <p>محافظہ ابین</p> <p>محافظہ عدن</p> <p>محافظہ عمران</p> <p>محافظہ البیضاء</p> <p>محافظہ الضالع</p> <p>محافظہ ذمار</p> <p>محافظہ حضرموت</p> <p>محافظہ حجہ</p> <p>محافظہ الحدیدہ</p> <p>محافظہ اب</p> <p>محافظہ الجوف</p> <p>محافظہ لحج</p> <p>محافظہ مآرب</p> <p>محافظہ المہرہ</p> <p>محافظہ المحویت</p> <p>محافظہ ریمہ</p> <p>صنعاء</p> <p>سادہ گوورنوراتے</p> <p>محافظہ شبوہ</p> <p>محافظہ صنعاء</p> <p>محافظہ سقطری</p> <p>محافظہ تعز</p> <p>مشرقی کیپ</p> <p>آزاد ریاست (صوبہ)</p> <p>گاؤتنگ</p> <p>لیمپوپو</p> <p>ماپومالانگا</p> <p>شمالی کیپ</p> <p>کوازولو نیٹل</p> <p>شمال مغربی (جنوبی افریقی صوبہ)</p> <p>مغربی کیپ</p> <p>مغربی صوبہ، زیمبیا</p> <p>وسطی صوبہ، زیمبیا</p> <p>مشرقی صوبہ، زیمبیا</p> <p>لواپولا صوبہ</p> <p>شمالی صوبہ، زیمبیا</p> <p>شمال مغربی صوبہ، زیمبیا</p> <p>جنوبی صوبہ، زیمبیا</p> <p>کاپربیلٹ صوبہ</p> <p>لوساکا صوبہ</p> <p>موچنگا صوبہ</p> <p>مانیکالینڈ صوبہ</p> <p>ماشونالینڈ وسطی صوبہ</p> <p>ماشونالینڈ مشرقی صوبہ</p> <p>مڈلینڈز صوبہ</p> <p>ماتابیلےلینڈ شمالی صوبہ</p> <p>ماتابیلےلینڈ جنوبی صوبہ</p> <p>ماسونگو صوبہ</p> <p>ماشونالینڈ مغربی صوبہ</p> </section> </body>
0049.xml
<meta> <title>آسٹریلوی فاسٹ بالر مچل جانسن کا انٹرنیشنل کرکٹ سےریٹائرمنٹ کا اعلان</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10002/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>126</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
آسٹریلوی فاسٹ بالر مچل جانسن کا انٹرنیشنل کرکٹ سےریٹائرمنٹ کا اعلان
126
No
<body> <section> <p>آسٹریلیا کے فاسٹ بالر مچل جانسن نے انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ وہ نیوزی لینڈ کے خلاف اپنے کیریئر کا آخری ٹیسٹ میچ کھیل کررہےہیں۔</p> <p>آسٹریلوی آل راؤنڈر مچل جانسن نے ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا ہے ، اُن کا کہنا تھا کہ ، کرکٹ کو خیر باد کہنے کا یہ اچھا وقت ہے ۔ 2007 میں اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والے مچل جانسن نے 73 ٹیسٹ میچز میں، تین سو گیارہ وکٹیں ، جبکہ 153 ون ڈے میں 239 وکٹیں حاصل کیں ۔</p> <p>مچل جانسن نے ٹیسٹ میچ میں ایک سنچری اور دو نصف سنچریاں جبکہ ون ڈے میں دو ففٹیاں اسکور کیں،مچل جانسن ٹیسٹ میچز میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے چوتھے آسٹریلوی بالر ہیں</p> </section> </body>
0050.xml
<meta> <title>عمران خان سیاست میں مزاحیہ کردار بن چکے ہیں:خواجہ سعد رفیق</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10005/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>127</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
عمران خان سیاست میں مزاحیہ کردار بن چکے ہیں:خواجہ سعد رفیق
127
No
<body> <section> <p>وزیرِ ریلوےخواجہ سعد رفیق کاکہناہےکہ عمران خان سیاست میں مزاحیہ کرداربن چکےہیں جوشخص اپنی زبان کو کنٹرول نہیں کر سکتا،وہ پاکستان کی ترجمانی کیاکرے گا۔سیاست اور سیاسی جماعتوں سےجرائم پیشہ افراد کو صاف کر دینا چاہئے۔</p> <p>نشاط کالونی لاہورمیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق کاکہناتھاکہ سابق صدورپرویز مشرف اور آصف زرداری توانائی منصوبے شروع کرتےتو آج بجلی کا بحران ختم ہو چکا ہوتا،ان کاکہناتھا کہ کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرنے والوں نے کوئی قومی خدمت نہیں کی۔</p> <p>کراچی کاامن رینجرز کےذریعےبحال ہوا ہے،جسےمزیدبہتر بنایا جائے گا،پاک چین اقتصادی معاہدے میں کوئی دفاعی معاہدہ شامل نہیں،خواجہ سعد رفیق نےبتایاکہ جلد 160 کلومیٹرفی گھنٹاکی رفتار سے ٹرینیں چلنا شروع ہو جائیں گی،کراچی کا سفر 9 گھنٹے جبکہ راولپنڈی اور ملتان کا سفر ڈھائی گھنٹے میں طے ہوا کرے گا</p> </section> </body>
0051.xml
<meta> <title>اداکارہ بابرہ شریف کا چڑیا گھر کا دورہ</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10009/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>118</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
اداکارہ بابرہ شریف کا چڑیا گھر کا دورہ
118
No
<body> <section> <p>فلم انڈسٹری کی نامور اداکارہ بابرہ شریف نے گز شتہ روز لاہور چڑیا گھر کا دورہ کیا جہا ں انہو ں نے لاہور چڑ یا گھر میں گود لئے گئے شیر کے بچے "شینکو " کے ساتھ وقت گزارا ۔</p> <p>بابرہ شریف نے 15 روز کا شیر کا بچہ گود لیا تھا جس کو ملنے کے لئے وہ گز شتہ روز لاہور چڑ یا گھر آ ئیں ۔واضح رہے کہ اداکارہ نے ایک سال کے اخراجات جو دو لاکھ بنتے تھے وہ ادا کر دئیے تھے انہو ں نے شیر کا بچہ ایک سال کے لیے گود لیا ہے۔</p> <p>دریں اثنا انہوں نے اپنے پالتو طو طے کا بھی لاہور چڑیا گھر کے ڈاکٹرو ں سے معائنہ کروایا</p> </section> </body>
0052.xml
<meta> <title>بچوں کے جاسوسی ادب کے خالق اشتیاق احمد انتقال کر گئے</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10013/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>97</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
بچوں کے جاسوسی ادب کے خالق اشتیاق احمد انتقال کر گئے
97
No
<body> <section> <p>پاکستان میں بچوں کے جاسوسی ادب کے بانی اشتیاق احمد کراچی میں ایئرپورٹ پر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔</p> <p>مرحوم اشتیاق احمد کا تعلق پنجاب کے شہر جھنگ سے ہے جو کراچی میں 5 روزہ بین الاقوامی کتب میلے میں شرکت کرنے آئے ہوئے تھے، جہاں ان کے آٹھ سوویں ناول کا اجراء ہوا تھا۔ کتب میلہ گزشتہ روز اختتام پذیر ہوا ہے۔</p> <p>بچوں کو انسپکٹر جمشید، محمود، فاروق، فرزانہ، انسپکٹر کامران مرزا اور شوکی سیریز کے نام سے بچوں کو جاسوسی ادب سے روشناس کرانے کا سہرا مرحوم اشتیاق احمد کے سر جاتا ہے</p> </section> </body>
0053.xml
<meta> <title>بھارت میں بے اولاد خاتون نے سیکڑوں درختوں کو گود لے لیا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10023/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>226</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
بھارت میں بے اولاد خاتون نے سیکڑوں درختوں کو گود لے لیا
226
No
<body> <section> <p>بھارتی ریاست کرناٹکا کے ہولیکل گاؤں سے تعلق رکھنے والی بے اولاد خاتون نے درختوں کو گود لے کر 384 برگد کے درخت لگائے اور وہ ان کی خوب دیکھ بھال بھی کرتی ہیں۔</p> <p>بھارتی ریاست کرناٹکا کے گاؤں ہولیکل کی  103 سالہ سالومرادا تھماکا نامی خاتون کی شادی ایک کسان سے ہوئی تھی لیکن ان کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی تو سالومراد کو طعنے ملنے لگے جس کے بعد انہوں نے اولاد کی جگہ درختوں کا بچوں کی طرح خیال رکھنا شروع کر دیا۔ خاتون نے گاؤں سے 4 کلومیٹر دور زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کیا اوروہاں پہلے سال 10 پودے لگائے اور وہاں پانی نہ ہونے کے باوجود پودوں کو روزانہ پانی دیا جب کہ اگلے برس 15 اور اس کے بعد 20 پودے لگائے اور انہیں جانوروں، بیماریوں سے بچاکر بالکل بچوں کی طرح ان کی دیکھ بھال کی، دیکھتے ہی دیکھتے خاتون کے ہاتھوں سے لگائے گئے درختوں کی تعداد 384 تک پہنچ گئی جن کی قدر 15 لاکھ روپے کے برابر ہے۔ سالومراد خاتون اپنی 103 سالہ عمر میں بھی مزید پودے لگانے کا جذبہ رکھتی ہیں جس کے لیے درختوں کی تعداد بڑھارہی ہیں۔</p> <p>خاتون کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے اب کرناٹکا حکومت باقاعدہ ان درختوں کا خیال رکھتی ہے جب کہ خاتون کو ان خدمات پر کئی ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔</p> </section> </body>
0054.xml
<meta> <title>انگلینڈ نے تیسرے ون ڈے میں پاکستان کو شکست دے دی</title> <author> <name>آئی بی سی ارود نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10027/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>373</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
انگلینڈ نے تیسرے ون ڈے میں پاکستان کو شکست دے دی
373
No
<body> <section> <p>انگلینڈ نے تیسرے ایک روزہ میچ میں پاکستان کو 6 وکٹوں سے شکست دے کر سیریز میں 1-2 کی برتری حاصل کرلی۔</p> <p>شارجہ کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلے گئے تیسرے ایک روزہ میچ میں پاکستان نے انگلینڈ کو جیت کے لیے 209 رنز کا ہدف دیا جو انگلینڈ نے 4 وکٹوں کے نقصان پر پورا کر لیا۔ جیسن روئے اور الیکس ہیلس نے اننگز کا آغاز کیا، روئے 12 رنز کے ٹوٹل پر 7 رنز بنا آؤٹ ہوگئے جب کہ 27 رنز کے مجموعے پر جوئے روٹ بھی 11 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے، ہیلس نے تیسری وکٹ کے لیے کپتان مورگن کے ساتھ 60 رنز کی شراکت داری قائم کی لیکن مورگن 35 رنز پر شعیب ملک کا نشانہ بنے جب کہ اگلے ہی اوور میں اوپنر ہیلس بھی 30 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئے۔ ٹیلر اور بٹلر نے پانچویں وکٹ کے لیے 117 رنز کی شراکت قائم کر کے ٹیم کو فتح سے ہمکنار کروایا، ٹیلر 67 اور بٹلر 49 رنز کے ساتھ ناٹ آؤٹ رہے۔ پاکستان کی جانب سے ظفر گوہر نے 2 جب کہ شعیب ملک اور محمد عرفان نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔</p> <p>اس سے قبل قومی ٹیم کے کپتان اظہر علی نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو نوجوان بلے باز بابر اعظم اور کپتان اظہر علی نے اننگز کا آغاز کیا اور محتاط انداز میں کھیلتے ہوئے پہلی وکٹ پر 45 رنز جوڑے ہی تھے کہ بابر اعظم 22 رنز بنا کر کیچ آؤٹ ہوگئے جس کے بعد محمد حفیظ اور اظہرعلی نے دوسری وکٹ پر شاندار کھیل پیش کیا اور ٹیم کا مجموعی اسکور 92 تک پہنچایا تو کپتان اظہرعلی غلط فہمی کا شکار ہو کر رن آؤٹ ہوگئے جس کے بعد محمد حفیظ 45 ، سرفراز احمد 26 ، افتخار احمد 3 اور محمد رضوان ایک رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔</p> <p>پاکستان کی 6 وکٹیں 145 رنز پر گرگئی تھی تاہم ٹیل انڈرز نے محتاط انداز میں بیتنگ کرتے ہوئے ٹیم کا اسکور 208 تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا، انور علی 7 ، اپنا پہلا میچ کھلنے والے ظفرگوہر نے 15 ، اور وہاب ریاض نے 3 چھکوں کی مدد سے 35 گیندوں پر 33 رنز    کی اننگز کھیلی۔gجب کہ ڈیوڈ ولے اور معین علی نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔</p> </section> </body>
0055.xml
<meta> <title>کروڑوں روپے مالیت کا سونا اسمگل پاکستان اسمگل کرنے کی کوشش ناکام</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10030/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>158</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
کروڑوں روپے مالیت کا سونا اسمگل پاکستان اسمگل کرنے کی کوشش ناکام
158
No
<body> <section> <p>کسٹم حکام نے لاہور ایئرپورٹ پر بیرون ملک سے کروڑوں روپے مالیت کا سونا اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بناتے ہوئے ملزم کو گرفتار کر لیا۔</p> <p>کسٹم حکام نے دبئی سے نجی ایئرلائن کی پرواز کے ذریعے لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ پہنچنے والے شخص رضوان کی جامہ تلاشی لی تو اس کے قبضے سے 7 کلو سونا برآمد ہوا جس کی مالیت عالمی منڈی میں کروڑوں روپے بنتی ہے۔ کسٹم حکام کا کہنا ہے کہ ملزم نے سونا اپنے جسم کے ساتھ باندھ رکھا تھا اور اس کا تعلق لاہور کے علاقے کوٹ خواجہ سعید سے ہے۔</p> <p>دوسری جانب ملزم رضوان کا کہنا ہے کہ اس نے سونا دبئی سے خریدا اور وہ پاکستان برآمد کر کے اسے زیورات کی شکل دے کر واپس دبئی لے جانا چاہتا تھا کیونکہ دبئی میں پاکستانی سونے کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔ کسٹم حکام  نے رضوان کو گرفتار کر کے اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔</p> </section> </body>
0056.xml
<meta> <title>امریکی ماہرین نے دنیا کی سب سے مختصر ترین نینو آبدوز تیار کرلی</title> <author> <name>آئی بی سی اردونیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10033/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>221</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
امریکی ماہرین نے دنیا کی سب سے مختصر ترین نینو آبدوز تیار کرلی
221
No
<body> <section> <p>رائس یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے دنیا کی سب سے چھوٹی آبدوز تیار کرلی ہے جو  244 ایٹموں پر مشتمل ہے اور صرف صرف خردبین سے ہی دکھائی دیتی ہے۔</p> <p>امریکی ماہرین کی جانب سے تیار کردہ یہ آبدوزاگرچہ آبدوز جیسی نہیں کیونکہ اس میں ایٹموں کو اس طرح جوڑا گیا ہے کہ وہ آبدوز جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں دم جیسے پروپیلر صرف 18 نینومیٹر جسامت کے ہیں اور جب وہ گھومتے ہیں تو آبدوز آگے بڑھتی ہے یہاب تک کسی محلول میں سب سے تیز رفتار سے سفر کرنے والا مالیکیول ہے جس کی تفصیلات نینولیٹرز نامی تحقیقی جرنل میں شائع ہوئی ہیں۔ اس سے قبل یہ ٹیم ایک ایک مالیکیول کی کار بناچکی ہے جس میں چار پہیئے، ایکسل، اور سسپینشن نظام بھی تھا جو ایک سطح پر چل سکتی تھی۔</p> <p>ماہرین کے مطابق یہ نینو آبدوز 20 مراحل سے گزارنے کے بعد بنائی گئی ہے، اس کی موٹر بالکل اسی اصول پر آگے بڑھتی ہے جس طرح چھوٹے بیکٹیریا اور جراثیم پانی میں تیرتے ہیں، لیکن یہ اس وقت تک چلتی رہتی ہے جب تک اس پر روشنی پڑتی ہے۔ ماہرین اس کی رفتار اور آگے بڑھنے کے عمل کا مشاہدہ اسکیننگ ٹنلنگ مائیکروسکوپ اور فلوریسنٹ مائیکروسکوپی سے کر رہے ہیں جب کہ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ آبدوز نما یہ مالیکیول بیماریوں کے علاج میں استعمال ہو سکتا ہے</p> </section> </body>
0057.xml
<meta> <title>متحدہ کے ارکان کی غیرحاضری کی تنخواہ ایدھی کو دے سکتے ہیں :سپیکر سندھ اسمبلی</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10037/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>143</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
متحدہ کے ارکان کی غیرحاضری کی تنخواہ ایدھی کو دے سکتے ہیں :سپیکر سندھ اسمبلی
143
No
<body> <section> <p>سپیکرسندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے کہا ہے کہ متحدہ ارکان کو پہلے بھی کہا تھا استعفے نہ دیں ،لیکن انہوں نے جلدی کی ۔</p> <p>تفصیلات کے مطابق سپیکر صوبائی اسمبلی آغا سراج درانی کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں سندھ کی ترقی کی لئے کام کریں،متحدہ،فنکشنل،پی ٹی آئی، ن لیگ اور ایم کیو ایم کے کارکن سندھ کی ترقی کیلئے آگے آئیں۔</p> <p>انہوں نے ایم کیو ایم کی جانب سے استعفے واپس لیئے جانے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم کےکے مطالبات سند ھ سے نہیں بلکہ واق سے تھے اور انہیں استعفے دینے سے روکا تھا لیکن متحدہ کے اراکین نے جلد بازی دکھائی ۔</p> <p>استعفے کی مدت کے دوران تنخواہیں اور مراعات کے حوالے سے سپیکر سندھ اسمبلی کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم ک غیر حاضرارکان کی تنخواہ ایدھی کو دے سکتے ہیں</p> </section> </body>
0058.xml
<meta> <title>وزیراعظم بتائیں ٹانگیں کون کھینچ رہا ہے:خورشید شاہ</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10040/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>71</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
وزیراعظم بتائیں ٹانگیں کون کھینچ رہا ہے:خورشید شاہ
71
No
<body> <section> <p>قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے زلزلہ زدگان کو امداد سیاسی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی تو اچھے نتائج نہیں آئیں گے۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر آواز اٹھائیں گے۔</p> <p>وزیراعظم نواز شریف بتائیں کون ان کی ٹانگیں کھینچ رہا ہے۔ پی پی پی نے ہمیشہ جمہوریت کیلئے سروں کی قربانی دی ہے، پیپلز پارٹی ختم ہونے کا ڈھنڈورا پیٹنے والے خود ختم ہو جائیں گے۔</p> </section> </body>
0059.xml
<meta> <title>دیپکا اور رنبیرکپور 22 نومبرکو پاکستان آئیں گے</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10043/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>191</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
دیپکا اور رنبیرکپور 22 نومبرکو پاکستان آئیں گے
191
No
<body> <section> <p>بالی ووڈ اداکارہ دیپکا پڈوکون اور اداکار رنبیر کپور 22 نومبرکو بھارتی ہدایتکار امتیازعلی کی فلم " تماشا" کے پریمیئر میں شرکت کے لیے پاکستان آئیں گے جب کہ فلم کاپریمیئر نیوپلیکس سینما میں 22 نومبر کی شام کوہوگا۔</p> <p>دونوں فنکاروں کی پاکستان آمد پر مقامی فنکاروں کی جانب سے ان کا شاندار استقبال کیا جائے گا، جب کہ دونوں فنکاروں کی کراچی میں فلم کے پریمئرشومیں شرکت کے ساتھ پاکستانی فلم انڈسٹری کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں بھی متوقع ہیں جس میں پاکستانی ڈائریکٹرزدونوں فنکاروں کو مشترکہ فلم کے لیے سائن بھی کریں گے۔</p> <p>اطلاعات کے مطابق دونوں فنکاروں نے ویزے کے لیے پاسپورٹ جمع کروادیاہے دونوں فنکاروں کی پاکستان آمدویزے سے مشروط ہے۔ واضح رہے کہ فلم "تماشا" میں رنبیر کپور ہیرو اور دیپکا پڈوکون نے بطور ہیروئن کام کیا ہے جب کہ پاکستانی اداکار جاوید شیخ والد کا کردار نبھارہے ہیں فلم کی دیگر کاسٹ میں پونم سنگھ ،فرازسرویا،نکی بھگت نمایاں نام شامل ہیں۔ ساجد نڈیاڈوالا کی پروڈکشن میں بنائی جانیوالی فلم کی موسیقی اے آررحمان نے دی ہےجب کہ سکھویندرسنگھ، ارجیت سنگھ، موہیت چوہان، لکی علی، میکاسنگھ، اے آررحمان اور الکایاگنک کے گائے ہوئے گیت شامل ہیں۔</p> </section> </body>
0060.xml
<meta> <title>عورت سے چھت چھیننے کا فیصلہ کرنے کیلئے ایک لمحے کی ضرورت ہوتی ہے:ریحام خان</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10046/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>981</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
عورت سے چھت چھیننے کا فیصلہ کرنے کیلئے ایک لمحے کی ضرورت ہوتی ہے:ریحام خان
981
No
<body> <section> <p>تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے کہا ہے کہ وہ عمران خان کی زندگی کا حصہ بننے کے بعد ہرلحاظ سے ان کا دفاع کیامگر اب احساس ہوا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بیوی کی محبت اور وفاداری کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی،</p> <p>پاکستانی مردوں کو عورت سے اس کے گھر کی چھت چھیننے کافیصلہ کرنے کیلئے ایک لمحے کی ضرورت ہوتی ہے، اکثر باپ ، بھائی ، شوہر اور بیٹے محبت اور تحفظ کے نام پر خواتین کے بنیادی حقوق کو بے دردی سے پامال کرتے ہیں ،</p> <p>میڈیا نے میری کردار کشی کی، تعجب ہے کہ جن لوگوں سے میری ملاقات تک نہیں ہوئی کوسوں دور بیٹھ کرکیسے میرے بارے میں قابل اعتماد معلومات دیتے ہیں،خواتین زیادہ تر ساس یا بہو کی مداخلت کی شکایت کرتی ہیں لیکن شاید "قومی بھابھی "ہونے کا مطلب تھا کہ پورا ملک میرا سسرال ہو گیا اورہر کسی کومیرے متعلق بولنے کا اختیار حاصل ہے۔</p> <p>برطانوی روزنامے "دی گارڈین "میں شائع ہونے والے ایک پرشکوہ مضمون میں ریحام خان نے لکھا کہ جب میری عمران خان سے شادی ہوئی تو اس وقت میری بہن نے ازراہ مذاق مجھ سے کہ مجھے میڈیا میں ایک تعلیمی ڈگری کی طرح "طلاق یافتہ "کے طور پر کیوں متعارف کیا گیا ؟۔</p> <p>انہوں نے کہا کہ شادی کے وقت مجھے میڈیا میں تین بچوں کی طلاق یافتہ ماں کے طور پر پیش کیا گیا لیکن مجھے حیرت ہے کہ میڈیا نے عمران خان کی جمائما گولڈ سمتھ سے شادی او رطلاق کا کوئی تذکرہ نہیں کیا حتیٰ کہ بعض ٹی وی چینلوں نے میرے بچوں کے برتھ سرٹیفکیٹ بھی بریکنگ نیوز کے طور پر سکرین پر دکھائے جبکہ انہیں کوئی معلومات نہیں ملی تو انہوں نے قیاس آرائیوں سے خالی جگہ پر کر دی۔</p> <p>انہوں نے لکھاکہ دوسری اس با ت کا احساس ہوا کہ اگر آپ عورت ہیں تو اس کیلئے یہ ضروری نہیں کہ آپ کتنی تعلیم یافتہ ہیں ،کتنی قابل رشک آمدنی ہے یا کتنی پر اعتماد ہیں ایک غریب ، ان پڑھ عورت اور میرے جیسی دونوں طرح کی عورتیں خطرات کا مقابلہ کرنے کے لحاظ سے کمزور ہیں ، کوئی بھی مرد ان پر کیچڑ اچھال سکتا ہے ، گالی دے سکتا ہے ، آپ کے کردار پر انگلی اٹھا سکتا ہے ۔</p> <p>اکثر باپ ، بھائی ، شوہر اور بیٹے خواتین کے بنیادی حقوق کو بے دردی سے پامال کرتے ہیں اور یہ سب کچھ محبت اور تحفظ کے نام پر ہوتا ہے ۔</p> <p>جنوری کی جانب واپس چلتے ہیں جب عمران او رمیں اسلام آباد میں ولیمہ کی استقبالیہ تقریب کے بعد واپس گھر پہنچے تو ابھی میں نے عروسی جوڑا بھی تبدیل نہیں کیا تھا ،بتایاگیاکہ آپ نے نو بیاہتا جوڑے کے طور پر اپنا پہلا ٹی وی انٹرویو دیناہے ۔</p> <p>بغیر کسی تیار ی کے مجھے ہاٹ سیٹ پر بٹھا کرکروڑوں افراد کا سامنا کروایاگیا ۔ٹی وی چینل کے اینکر نے پہلا سوال یہ داغا کہ اس کی ریسرچز سے یہ معلوم ہوا ہے کہ آپ پہلی شادی میں گھریلو تشدد کی شکار ہوئی ہیں۔</p> <p>تو میں نے اس سوال کی بغیر کسی تیاری کے جواب دیا کہ میں گھریلو تشدد کے تجربے سے خوفزدہ نہیں اگر چہ یہ بہت بڑا ایشو ہے ۔میں نے پہلے کبھی اپنے تجربات سے متعلق اظہار خیال نہیں کیا لیکن اس ایشو کیلئے بہت زیادہ آگہی کی ضرورت ہے ۔</p> <p>اسی روز میرے سابق میاں نے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میرا جواب ایک سفید جھوٹ تھا ، مجھے تحریک انصاف کی جانب سے جواب نہ دینے کا مشورہ دیا گیا۔</p> <p>ہمارے معاشرے کی خواتین زیادہ تر ساس یا بہو کی مداخلت کی شکایت کرتی ہیں لیکن "قومی بھابھی "ہونے کا مطلب ہے کہ پورا ملک میرا سسرال تھا جس کا مطلب ہے کہ ہر کسی کو آپ سے متعلق بولنے کا اختیار حاصل ہے ۔</p> <p>مجھے اب یہ محسوس ہوا کہ بیوی کی محبت اور وفاداری کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ۔پاکستانی مردوں کے نزدیک مکان کو گھر بنانے والی بیوی کی محنت اور محبت کی قیمت اس اسٹامپ سے زیادہ نہیں ہے جو آپ کیلئے ہمیشہ اس گھر کے دروازے بند کردیتاہے ۔</p> <p>عورت سے اس کے گھر کی چھت چھیننے کے فیصلہ کیلئے ایک لمحے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ 42 سال کی عمر میں اور دوشادیوں کے بعد اپنے پیچھے چھوڑ نے والی چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ،کیونکہ انہیں دوبارہ خریدا جاسکتاہے لیکن انسانیت اور محبت پر یقین ایک بار کھو دیں تو وہ دوبارہ کبھی حاصل نہیں ہو سکتا ۔</p> <p>ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا نے میری کردار کشی کی ۔ میں حیران ہوں کہ جن لوگوں سے میری کبھی ملاقات بھی نہیں ہوئی وہ کس طرح میلوں دور بیٹھ کر میرے بارے میں قابل اعتماد معلومات دیتے ہیں ۔</p> <p>میں اپنی خوابگاہ میں کسی اضافی نظر یا کان سے واقف نہیں تھی ۔مجھ سے مسلسل یہ سوال پوچھا جارہاہے کہ میری شادی صرف 10 ماہ کے بعد ہی کیوں ختم ہوئی ؟کیا یہ میڈیا کی سکروٹنی تھی یا عمران کے مشیروں کی مداخلت تھی ؟کیا یہ صحیح ہے کہ عمران خان کے خاندان نے جدائی میں اہم کردار ادا کیا ؟</p> <p>لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ ان سب میں سے کوئی بھی وجہ نہیں تھی ۔میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ اپنے خاندان کا تحفظ میرا فرض ہے ۔عمران خان کی زندگی کا حصہ بننے کے بعد میں نے ہرطرح سے ان کا دفاع کیا ۔جب پی ٹی آئی کیلئے انتخابی مہم میں شرکت پر تنقید کی گئی تو میں عوامی نظروں سے اوجھل ہو گئی ۔</p> <p>ہم نے اپنے دونوں ٹوئٹر اکاؤنٹس سے یہ وضاحتی بیان دیا کہ میرا پارٹی میں کوئی کردار نہیں ہے لیکن یہ بیان سرزنش کیلئے کافی نہیں تھا ۔</p> <p>اس کے بعد میں نے بامر مجبوری یہ محسوس کیا کہ باعزت رخصتی ہی ضروری ہے اس امید کیساتھ کہ میرے شوہر پر ناقابل یقین حد تک دباؤ ختم ہو اور وہ اپنے مشن پر نظریں مرتکز کر سکیں ۔محبت یہ نہیں کہ آپ ہمیشہ اس سے چمٹے رہیں بلکہ بعض اوقات اسے آزادبھی کرنا پڑتاہے۔</p> </section> </body>
0061.xml
<meta> <title>ریحام خان کو 100 روپے فی لفظ کی پیشکش کی لیکن معاہدہ نہ ہو سکا: نیوز ویک</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10049/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>231</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
ریحام خان کو 100 روپے فی لفظ کی پیشکش کی لیکن معاہدہ نہ ہو سکا: نیوز ویک
231
No
<body> <section> <p>ریحام خان نے پاکستان کے ایک اخبار نیوز ویک میں اپنی ذاتی زندگی سے متعلق آرٹیکل لکھنے کے لیے 35 ہزار پاونڈ کا مطالبہ کیا اور معاہدہ نہ ہونے پر آرٹیکل بلا عاوضہ برطانوی اخبار گارڈین میں شائع کیا گیا۔</p> <p>نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے پروگرا م نقطہ نظر میں نیوز ویک کی ڈپٹی ایڈیٹر بینظیر شاہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریحام خان نے معاہدے کے مطابق آرٹیکل لکھا اور بعد میں جب ان سے رابطہ ہوا توا نہوں نے آرٹیکل کو شائع کرنے سے روک دیا اور کہا کہ ان کی پریس سیکریٹری شازانہ راجارابطہ کریں گی ۔</p> <p>ڈپٹی ایڈیٹر کا کہنا تھا کہ ریحام خان کی سیکریٹری کی انہیں ای میل موصول ہوئی جس میں انہوں نے آرٹیکل کیلئے 35 ہزار پاؤنڈ کا مطالبہ کیا جو کہ پاکستانی تقریباً 56 لاکھ روپے بنتے ہیں ۔</p> <p>ڈپٹی ایڈیٹر کا کہنا تھا کہ انہوں نے ریحام خان کی سیکریٹری سے کہا کہ وہ اتنی رقم ادا نہیں کر سکتے جبکہ وہ ایک لفظ کیلئے 10 روپے اداکرتے ہیں اور اسی حساب سے انہیں بھی ادائیگی کی جائے گی اور یہاں تک کہ انہیں 100 روپے فی لفظ کی پیشکش کی گئی لیکن معاہدہ طے نہیں ہوا۔</p> <p>انہوں نے کہا کہ ریحام خان کی پریس سیکریٹری نے ان کے ذیلی ادارے ہیلو پاکستان سے بھی رابطہ کیا تھا لیکن انہوں نے بھی کسی قسم کا معاوضہ دینے سے انکار کر دیا تھا</p> </section> </body>
0062.xml
<meta> <title>لاہور ہائی کورٹ کا عائشہ ممتاز کے فیس بک اکاﺅنٹ کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10053/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>209</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
لاہور ہائی کورٹ کا عائشہ ممتاز کے فیس بک اکاﺅنٹ کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم
209
No
<body> <section> <p>لاہور ہائی کورٹ نے  عائشہ ممتاز کے فیس بک اکاﺅنٹ کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے ۔</p> <p>لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ نے کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار نجی فوڈ کمپنی کے وکیل نے کہا کہ مہذب ممالک میں کسی کا جرم ثابت کئے بغیر اس کی شناخت ظاہر نہیں کی جاتی مگر محکمہ خوراک کے افسران اپنے چھاپوں کی کارروائی اسی وقت اپنے فیس بک اکاونٹ پر چڑھا دیتے ہیں۔</p> <p>نجی ٹی وی دنیا نیوز کے مطابق انہوں نے کہا کہ عائشہ ممتاز فوڈ فیکٹریوں پر چھاپوں کے بعد اپنی کارروائی کو فیس بک پر جاری کر دیتی ہیں۔</p> <p>محکمہ خوراک کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار کی سیل کردہ فیکٹری کو ڈی سیل کر دیا گیا ہے۔ تاہم فیکٹری سے حاصل کئے گئے نمونوں کی رپورٹ آنے تک مصنوعات کو فروخت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔</p> <p>جس پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فوڈ ڈیپارٹمنٹ کس قانون کے تحت چھاپے مارنے کے بعد کارروائی کو فیس بک اور سوشل میڈیا پر جاری کر رہا ہے۔</p> <p>عدالت نے عائشہ ممتاز کے فیس بک اکاونٹ کی تفصیلات کا ریکارڈ عدالت میں پیش کرنے کی ہدائت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت نو دسمبر تک ملتوی کر دی۔</p> </section> </body>
0063.xml
<meta> <title>پاکستان میں نئے امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل اسلام آباد پہنچ گئے</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10056/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>59</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
پاکستان میں نئے امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل اسلام آباد پہنچ گئے
59
No
<body> <section> <p>پاکستان میں نئے امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ امریکی سفارتخانے کے مطابق نئے امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل صدر مملکت ممنون حسین کو اپنی اسناد سفارت پیش کریں گے۔</p> <p>ڈیوڈ ہیل کو رچرڈ اولسن کی جگہ سفیر مقرر کیا گیا ہے۔ ڈیوڈ ہیل اس سے قبل لبنان کے سفارتخانے میں اپنے فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔</p> </section> </body>
0064.xml
<meta> <title>بھارت میرا گھر اور مجھے اس سے محبت ہے ، پاکستانی حکمران اب معاملہ ختم کریں:عدنان سمیع خان</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10059/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>240</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
بھارت میرا گھر اور مجھے اس سے محبت ہے ، پاکستانی حکمران اب معاملہ ختم کریں:عدنان سمیع خان
240
No
<body> <section> <p>گلوکارعدنان سمیع نے کہا ہے کہ بھارت میرا گھر ہے اور مجھے اس سے محبت ہے ،</p> <p>اب پاکستانی حکمران اس معاملے کو ختم کریں ۔بھارتی شہریت کے حصول کے لئے عدنان سمیع آئے روز متنازعہ بیانات اور ٹوئیٹر پیغامات جاری کر رہے ہیں</p> <p>وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ میرا دل ہمیشہ بھارت کے لئے دھڑکتا ہے ،</p> <p>پاکستان کبھی واپس نہیں جانا چاہتا۔عدنان سمیع 2001 ءسے بھارت میں وزٹ ویزہ پرمقیم تھے وی ویزہ مدت میں بار بار توسیع کرا لیتے تھے جبکہ رواں سال اکتوبرمیں انہیں بھارتی شہریت سے نوازا گیا ہے۔</p> <p>تاہم عدنان سمیع کے ایسے متنازعہ بیانات سے نالاں پاکستانی حکومت انہیں "پاکستانی شہریت منسوخی کا سرٹیفیکیٹ " دینے کو تیار نہیں ہے ۔</p> <p>جب تک عدنان سمیع کو پاکستان کی جانب سے کلین چٹ نہیں مل جاتی وہ بھارتی شہریت حاصل نہیں کر سکتے ۔</p> <p>یاد رہے کہ عدنان سمیع نے 2013 میں بھی بھارتی شہریت کے لئے ممبئی پولیس کی اسپیشل برانچ میں درخواست دی تھی تاہم اس وقت ان کی درخواست منسوخ کر دی گئی تھی۔</p> <p>بھارتی شہریت حاصل کرنے کے بعد عدنان سمیع نے پاکستانی شہریت منسوخ کرنے کے لئے درخواست دے دی تھی اوراپنا قومی شناختی کارڈ واپس کر دیا تھا۔</p> <p>ان کا پاسپورٹ تاحال کارآمد تھا لیکن جب یہ بات وزیرِداخلہ نثار علی خان کے علم میں آئی تو انہوں نے ڈی جی پاسپورٹ عثمان باجوہ کو فوری طور پرعدنان سمیع کا پاسپورٹ منسوخ کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں</p> </section> </body>
0065.xml
<meta> <title>حضرت بہاء الدین زکریا کے 776 ویں عرس کی تقریبات کا آغاز ہو گیا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10062/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>85</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
حضرت بہاء الدین زکریا کے 776 ویں عرس کی تقریبات کا آغاز ہو گیا
85
No
<body> <section> <p>ملتان میں حضرت بہاء الدین زکریا کے 776 ویں تین روزہ سالانہ عرس کی تقریبات کا آغاز ہو گیا جس میں سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی نے مزار کو عرق گلاب سے غسل دیا اور چادر پوشی کی۔</p> <p>برصغیر پاک و ہند کے عظیم روحانی پیشوا حضرت بہاو الدین زکریا کے 3 روزہ عرس کا باقاعدہ آغاز شاہ محمود قریشی نے مزار کو عرق گلاب سے غسل دے کر کیا اس موقع پر زائرین کی کثیر تعداد نے منقبت پڑھی اور نعت خوانی کی۔</p> </section> </body>
0066.xml
<meta> <title>بچوں کا دوست،ہنستا مسکراتا مکی مائوس 87 برس کا ہو گیا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10066/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>164</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
بچوں کا دوست،ہنستا مسکراتا مکی مائوس 87 برس کا ہو گیا
164
No
<body> <section> <p>بڑھاپے کی عمر ہو گئی لیکن اس کی شرارتیں کم نہ ہوئیں،دنیا بھر میں بچوں کا دوست،ہنستا مسکراتا مکی مائوس آج 87 سال کا ہو گیا ہے۔</p> <p>نٹ کھٹ،شرارتی،چلبلا،اپنی معصومانہ شرارتوں سے سب کوہنسا نے والا،جی جناب ،یہ بات ہو رہی ہے سب کے پسندیدہ کارٹون کیریکٹر مکی مائوس کی۔شاید ہی کسی کا بچپن اس کارٹو ن کیریکٹر کودیکھے بغیر گزرا ہو،مکی مائوس کو والٹ ڈزنی نے 1928 میں تخلیق کیا تھا۔</p> <p>مکی ماؤس پہلی کارٹون فلم 'اسٹیم بوٹ وِلی' کے ذریعے منظر عام پر آیا،بلیک اینڈ وائٹ مکی مائوس کے کیریکٹر کو ہر ایک نے پسند کیا،مکی مائوس کی فیملی میں بھی اضافہ ہوااور منی مائوس مسز مکی مائوس بن گئیں۔وقت گزرتا گیا اور مکی مائوس بھی بدلتا گیا۔</p> <p>بڑے بڑے کان،بڑی بڑی آنکھیں،سفیددستانےاور یلوبوٹس والا مکی مائوس توبچوں کا پکا دوست ہے،جیتے جاگتے مکی ماوس سے ملنا ہے توآپ ڈزنی ورلڈبھی جاسکتے ہیںجہاں مکی مائوس سب کو خوب انٹرٹین کرتا ہے ،اپ کے اور ہم سب کےاس بچپن کے ساتھِی مکی مائوس کو ہیپی برتھ ڈے</p> </section> </body>
0067.xml
<meta> <title>جنسی بے راہ روی سے پیدا ہونے والی ایک نئی بیماری دریافت</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10070/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>274</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
جنسی بے راہ روی سے پیدا ہونے والی ایک نئی بیماری دریافت
274
No
<body> <section> <p>سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا میں جنسی بے راہ روی کے باعث ایڈز کی طرز کی ایک نئی بیماری دریافت ہوئی ہے اورحیرت انگیز بات یہ کہ جو افراد اس مرض کا شکار ہیں انہیں اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ ان کے اندر یہ خطرناک انفیکشن جنم لے چکا ہے۔</p> <p>مائیکوپلازما جینیٹیلئم ( جی ایم) نامی یہ انفیکشن 30 سال قبل دریافت ہوا تھا اور اب انکشاف ہوا ہے کہ یہ جنسی عمل کے ذریعے ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہو سکتا ہے، 16 سے 44 سال تک کی ایک فیصد برطانوی آبادی اس مرض کی شکار ہے اور انہیں اس کا علم بھی نہیں۔ جو شخص بہت سے لوگوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھتا ہے ان میں یہ مرض موجود ہو سکتا ہے، جب کہ یہ مرض 90 فیصد مردوں میں موجود ہو سکتا ہے، اگرچہ یہ مرض مہلک نہیں لیکن یہ پیشاب کی نالیوں میں جلن پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ  خواتین کو بانجھ بھی بناسکتا ہے۔</p> <p>دوسری جانب ماہرین اور ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ ٹنڈر، گرنڈر اور ایسی ہی دیگر ایپس اور سہولیات لوگوں میں ایڈز سمیت کئی امراض کی وجہ بن رہے ہیں کیونکہ لوگ ان ایپس کو جنسی تعلقات کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔  ڈاکٹروں کے مطابق اس طرح لوگوں میں ایچ آئی وی انفیکشن اور دیگر امراض کا ایک ' طوفان' پھٹ پڑے گا۔</p> <p>2104  میں صرف برطانیہ میں ہی سفائلس ( آتشک) اور گونوریا ( سوزاک ) کی شرح میں   بالترتیب 33 اور 19 فیصد اضافہ ہو چکا ہے اور ڈاکٹروں کے مطابق ان سے بچاؤ کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے احتیاط اور اپنے شریکِ حیات تک محدود رہنا۔</p> </section> </body>
0068.xml
<meta> <title>لاہور میں وزیراعظم نواز شریف کے بھائی کے گھر چوری کی واردات</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10073/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>134</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
لاہور میں وزیراعظم نواز شریف کے بھائی کے گھر چوری کی واردات
134
No
<body> <section> <p>ماڈل ٹاؤن میں وزیراعظم نواز شریف کے بھائی عباس شریف کے گھر چوری کی واردات میں گھریلو ملازمہ قیمتی زیورات اور نقدی لوٹ کر فرار ہو گئی۔</p> <p>لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن اورنگزیب بلاک میں وزیراعظم نواز شریف کے بھائی عباس شریف کے گھر چوری کی واردات میں نقدی اور قیمتی زیوارت چوری ہوگئے۔ پولیس کے مطابق اہل خانہ گھر پر موجود نہیں تھے کہ اس دوران گھریلو ملازمہ گھر سے قیمتی زیورات سمیت نقدی اور دیگر سامان لے کر فرار ہو گئی۔</p> <p>پولیس کا کہنا ہے کہ نذیراں بی بی نامی خاتون کافی عرصے سے عباس شریف کی گھریلو ملازمہ تھی تاہم آج اس نے اہل خانہ کے گھر پر موجود نہ ہونے کا فائدہ اٹھایا۔ پولیس نے ملزمہ کی تلاش شروع کر دی ہے جب کہ علاقے میں موجود دیگر افراد سے بھی پوچھ گچھ شروع کر دی گئی ہے</p> </section> </body>
0069.xml
<meta> <title>فیس بک نے نئی نسل کو خراب کر دیا ہے: سپریم کورٹ</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10077/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>168</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
فیس بک نے نئی نسل کو خراب کر دیا ہے: سپریم کورٹ
168
No
<body> <section> <p>سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس امیر ہانی مسلم نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ فیس بک نے نئی نسل اورمعاشرے کو خراب کر دیا ہے۔</p> <p>جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فاضل بنچ نے فیس بک پر لڑکیوں کو بلیک میل کرنے والے ملزم منیر احمد کی درخواست ضمانت کی سماعت کی، سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ شکایت کنندہ اورملزم کلاس فیلو تھے، ملزم نے کسی کو بھی بلیک میل نہیں کیا، اس لئے ملزم کی ضمانت منظور کی جائے۔</p> <p>جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ گرل فرینڈ کا کلچر مغرب کا ہے ہمارا نہیں، فیس بک نے نئی نسل اورمعاشرے کو خراب کر دیا ہے، سپریم کورٹ نے فیس بک پر لڑکیوں کو بلیک میل کرنے والے ملزم منیر احمد کی درخواست ضمانت خارج کرتے ہوئے حکم دیا کہ استغاثہ 14 روز میں مقدمے کا چالان ٹرائل کورٹ میں پیش کرے اور ٹرائل کورٹ 6 ماہ میں کیس کا فیصلہ کرے</p> </section> </body>
0070.xml
<meta> <title>لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز اور اسلام آباد انتظامیہ میں عارضی سمجھوتہ</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10080/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>117</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز اور اسلام آباد انتظامیہ میں عارضی سمجھوتہ
117
No
<body> <section> <p>اسلام آباد کی جامعہ لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز اور اسلام آباد کی مقامی انتظامیہ میں ایک عارضی معاہدہ ہو گیا ہے۔</p> <p>ذرائع کا کہنا ہے کہ مستقل معاہدے کیلئے مولانا عبدالعزیز نے انتظامیہ کو سمجھوتے کیلئے اپنی شرائط پیش کر دی ہیں ان میں لاہور سے گرفتار اپنے داماد کی رہائی، لال مسجد آنے جانے کی آزادی اور سکیورٹی کی فراہمی شامل ہیں۔</p> <p>ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ یہ مذاکرات ایک خفیہ مقام پر ہوئے اور یہ سمجھوتہ دو ہفتوں کیلئے ہوا ہے ۔</p> <p>ان دو ہفتوں میں مولانا عبدالعزیز لال مسجد خطبہ جمعہ کیلئے بھی نہیں آئیں گے۔ اس طرح لال مسجد کے معاملے پر بڑھتا ہوا خطرہ دو ہفتوں کیلئے ٹل گیا ہے</p> </section> </body>
0071.xml
<meta> <title>میں کپتان کو پسند کرتا ہوں: ذوالفقار مرزا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10083/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>143</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
میں کپتان کو پسند کرتا ہوں: ذوالفقار مرزا
143
No
<body> <section> <p>سندھ کے سابق وزیر داخلہ اور پیپلز پارٹی کے باغی رہنما ذوالفقار مرزا نے کہا ہے کہ میرے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے رابطے ہیں ان کا مجھ سے فون پر کئی بار رابطہ ہوا ہے۔ میں بھی ان کو پسند کرتا ہوں.</p> <p>نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ایک صاف ستھرے سیاستدان ہیں میں ان کی عزت کرتا ہوں</p> <p>وہ ہمارے ملک کے اہم رہنما ہیں جن کا مستقبل روشن نظر آرہا ہے۔</p> <p>انہوں نے مزید کہا کہ اگر الیکشن میں دھاندلی کی گئی تو اس کا خمیازہ سندھ کی حکومت کو بھگتنا پڑیں گے۔</p> <p>انہوں نے کہا کہ بلاول اگر اپنے باپ کے راستے پر چلیں گے تو ان سے بھی جنگ ہوگی</p> <p>اگربی بی شہید کے راستے پر چلیں گے تو ان کیلئے جان بھی حاضر ہے</p> </section> </body>
0072.xml
<meta> <title>نصیرالدین شاہ پاکستان کے خاموش دورے پر</title> <author> <name>آئی بی سی اردونیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10086/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>123</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
نصیرالدین شاہ پاکستان کے خاموش دورے پر
123
No
<body> <section> <p>بھارت کے لیجنڈ اداکار و ہدایتکار نصیر الدین شاہ 4 روزہ دورے پر واہگہ بارڈر کے راستے بڑی خاموشی کے ساتھ پاکستان پہنچ گئے ۔</p> <p>نجی ٹی وی کے مطابق نصیر الدین شاہ "فیض فانڈیشن ٹرسٹ "کی دعوت پر گزشتہ روز لاہور پہنچے،</p> <p>وہ فیض احمد فیض کے لکھے ہوئے خطوط پر ڈرامہ پرفارمنس بھی دیں گے ۔</p> <p>ذرائع کے مطابق بھارت میں پاکستانیوں کے ساتھ پیش آنے والی حالیہ انتہائی پسندی کے باعث نصیر الدین شاہ کی پاکستان آمد کو خفیہ رکھا گیا ہے جبکہ صحافیوں سمیت کسی کو بھی ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ۔</p> <p>فیض انٹرنیشنل میلہ 2015ء کے موقع پر نصیر الدین شاہ کی آمد کے باعث سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں</p> </section> </body>
0073.xml
<meta> <title>سیگریٹ کی عادت دماغ کو جلد بوڑھا کرنے کا باعث:تحقیق</title> <author> <name>آئی بی سی</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10089/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>276</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
سیگریٹ کی عادت دماغ کو جلد بوڑھا کرنے کا باعث:تحقیق
276
No
<body> <section> <p>اگر آپ سیگریٹ نوشی کے عادی ہیں تو جان لیں کہ یہ عادت جسمانی صحت کے لیے تو نقصان دہ ہے مگر یہ دماغ کو بھی قبل از وقت بڑھاپے کا شکار کر دیتی ہے۔</p> <p>یہ انتباہ اسکاٹ لینڈ میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آیا ہے۔</p> <p>ایڈنبرگ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق تمباکو نوشی کسی عام دماغ کی عمر کی رفتار کو تیز کر دیتی ہے اور اس کے نتیجے میں منصوبہ بندی، فیصلہ سازی اور مسائل حل کرنے جیسی صلاحیتوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔</p> <p>مگر جو لوگ اس عادت کو ترک کر دیتے ہیں چاہے عمر کے کسی بھی حصے میں، ان کے لیے ان مضر اثرات کو ریورس کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔</p> <p>تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ سیگریٹ پینے کے نتیجے میں دماغی کی اوپری تہہ یا قشر کی تہہ کو پتلا کرنے کی رفتار کو تیز کر دیتی ہے جو عام طور پر بڑھاپے میں ہوتی ہے۔</p> <p>یہ دماغ کا وہ حصہ ہے جو متعدد اہم افعال سے جڑا ہوتا ہے اور یاداشت، توجہ، زبان اور شعور کے حوالے سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔</p> <p>محقق پروفیسر آئن ڈیرے نے بتایا کہ یہ جاننا اہمیت رکھتا ہے کہ بڑھاپے میں دماغی صحت کیسی ہوتی ہے اور ہماری تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ سیگریٹ نوشی کے نتیجے میں دماغ کی عمر میں دوگنا اضافہ ہوتا ہے۔</p> <p>تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس عادت کو ترک کرنے سے دماغ کے قشر کو اپنی موٹائی کو واپس حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے اگرچہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔</p> <p>یہ تحقیق طبی جریدے جرنل مالیکیولر سائیکاٹری میں شائع ہوئی۔</p> </section> </body>
0074.xml
<meta> <title>'پاکستان میں لڑکوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ'</title> <author> <name>آئی بی سی</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10092/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>321</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
'پاکستان میں لڑکوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ'
321
No
<body> <section> <p>پاکستان میں رواں سال لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔</p> <p>بچوں سے جنسی زیادتی پر کام کرنے والی ایک غیر سرکاری اور نگران تنظیم 'ساحل' کے مشاہدے میں بتایا گیا کہ 2015 کے پہلے چھ مہینوں میں چھ سے دس سال عمر کے لڑکوں میں پچھلے سال اسی عرصے کی نسبت زیادتی کے واقعات میں 4. 3 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔</p> <p>ساحل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ چھ سے دس عمر کے 178 لڑکوں کے ساتھ ایسے واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ لڑکیوں میں یہ تعداد 150 تھی۔</p> <p>ساحل کے ترجمان ممتاز گوہر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو وجہ بتائی کہ عام طور پر لڑکے گھروں سے زیادہ باہر نکلتے ہیں لہذا انہیں نشانہ بنانا آسان ہوتا ہے۔</p> <p>'بہت سے والدین بدنامی کے خوف سے لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے ریپ رپورٹ نہیں کرتے'۔</p> <p>دوسری جانب، خواتین پر جنسی حملوں میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں سال جنوری سے جون تک 102 ایسے کیس ریکارڈ پر آئے جو پچھلے سال اسی عرصے سے پانچ گنا زیادہ ہے۔</p> <p>رپورٹ میں بتایا گیا کہ مجموعی طور پر تمام عمر کے بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں کمی آئی اور جنوری سے جون تک روزانہ اوسطاً تقریباً نو بچوں کے ساتھ ایسے واقعات سامنے آئے۔</p> <p>رواں سال کے پہلے چھ مہینوں میں تمام عمر کے بچوں سے 1565 ریپ رپورٹ ہوئے جبکہ 2014 میں اسی عرصے کے دوران یہ تعداد 1786 تھی۔</p> <p>ساحل کے ترجمان نے بتایا کہ گزشتہ سال کُل 3500 کیس رپورٹ ہوئے تھے جبکہ حقیقی تعداد دس ہزار تک ہو سکتی ہے۔</p> <p>پاکستانی حکومت نے رواں مہینے موجودہ قوانین میں ترمیم کے بعد بچیوں سے زیادتی کے مجرموں کو عمر قید یا موت کی سزا دینےکا اعلان کیا تھا۔</p> <p>تاہم قوانین میں اس ترمیم کا اطلاق 14 سال سے کم عمر لڑکیوں پر ہوتا ہے اور یہ قانون لڑکوں سے متعلق نہیں۔</p> </section> </body>
0075.xml
<meta> <title>سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے پولنگ</title> <author> <name>آئی بی سی</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10099/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>285</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے پولنگ
285
No
<body> <section> <p>سندھ اور پنجاب کے 26 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لئے پولنگ کا عمل جاری ہے جب کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سندھ کی 81 یونین کونسلز میں انتخابات ملتوی کر دیئے ہیں۔</p> <p>سندھ کے 14 اور پنجاب کے 12 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے پولنگ کا عمل صبح ساڑھے 7 بجے شروع ہوا جو شام ساڑھے 5 بجے تک بلا تعطل جاری رہے گا۔ آج پنجاب کے جن اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں ان میں سرگودھا، گوجرانوالہ، ساہیوال ،اٹک، جہلم، میانوالی، چنیوٹ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، حافظ آباد، منڈی بہاؤالدین، شیخوپورہ اور خانیوال شامل ہیں جب کہ سندھ میں حیدرآباد، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہ یار، مٹیاری، دادو، جامشورو، بدین، ٹھٹھہ، سجاول، شہید بے نظیر آباد، تھرپارکر، میرپوخاص، عمر کوٹ اور نوشہروفیروز میں ووٹنگ جاری ہے تاہم سانگھڑ میں سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر پولنگ ملتوی کر دی گئی ہے۔</p> <p>پنجاب کے 12 اضلاع میں ایک کروڑ 46 لاکھ سے زائد جب کہ سندھ میں 71 لاکھ 69 ہزار سے زائد ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے۔ الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کی مانیٹرنگ کے لیے کنٹرول روم قائم کر دیا ہے جب کہ دونوں صوبے کے حساس پولنگ اسٹیشنوں پر فوج تعینات کر دی گئی ہے۔</p> <p>دوسری جانب الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم پر سندھ کے 8 اضلاع کی 81 یونین کونسلز میں آج ہونے والے انتخابات ملتوی کر دیئے جب کہ 15 روز میں نئی حلقہ بندیاں کرانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ جن یونین کونسلوں میں انتخابات ملتوی کیے گئے ہیں ان میں تھرپارکر کی 6 ، نوشہروفیروز 17 ، میرپور خاص ڈویژن 25 ، بدین 4 ، حیدرآباد 24 اور سانگھڑ کی 5 یونین کونسلز شامل ہیں۔</p> </section> </body>
0076.xml
<meta> <title>صحافی ایسے ہوتے ہیں</title> <author> <name>رئیس فاطمہ</name> <gender>Female</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10103/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1130</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
صحافی ایسے ہوتے ہیں
1,130
No
<body> <section> <p>برطانوی صحافی نے جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورۂ برطانیہ کے موقعے پر برملا کہا کہ "آپ عزت و توقیر کے لائق ہرگز نہیں جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے رہنما کو ملنی چاہیے۔" صحافی نے بلا جھجک یہ بھی کہہ ڈالا کہ نریندر مودی  صاحب ایک طرف آپ ویمیلے اسٹیڈیم میں خطاب کرنے جا رہے ہیں، دوسری طرف لندن میں جو لوگ آپ کی متشدد پالیسیوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں،ان پر بھی غورکیجیے اور یاد کیجیے کہ گجرات میں بحیثیت وزیر اعلیٰ جو کارنامے آپ نے کر دکھائے ہیں، وہ آپ کی جمہوریت کے منہ پر ایک سیاہ اور خوفناک دھبہ ہیں لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ آپ کسی عزت کے لائق ہیں۔</p> <p>یہ ہوتے ہیں صحافی۔ جو صحافت کی آبرو ہیں۔ غور کیجیے اس بات پر کہ وہ شخص جو کسی ملک کا وزیر اعظم ہے اور برطانیہ کے دورے پر آیا ہے۔ یعنی وہ برطانیہ کا مہمان ہے۔ اسے کھلے عام ایک سچا صحافی کھری کھری سنا دیتا ہے۔ نہ ہی برطانوی پولیس اس صحافی کوکالر سے پکڑ کر باہر نکالتی ہے نہ ہی ایجنسیوں کا نزلہ اس پرگرتا ہے نہ ہی حکومت اسے گرفتار کر کے سزا سناتی ہے اور نہ اس کی ملازمت خطرے میں پڑتی ہے کیونکہ وہاں سب جانتے ہیں کہ صحافی کا کام سچ کو سامنے لانا ہے نہ کہ سچ کو جھوٹ اور مصلحت کے لفافے میں بند کر کے اپنی جیب میں رکھنا۔</p> <p>کیا پاکستان میں کوئی صحافی ایسی ہمت دکھا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ وہ خود ہی اس حماقت سے دور رہے گا۔ غیرملکی سربراہان مملکت کو تو چھوڑیے یہاں تو ارکان اسمبلی کے سامنے بھی ہمارے رپورٹر حضرات "حد ادب ملحوظ خاطر" رکھتے ہیں۔ جہاں تک تخت شاہی پہ جلوہ افروز طاقتور لوگوں کا سوال ہے تو پاکستان کی کسی بھی صحافتی لغت میں ایسا کوئی لفظ اب موجود نہیں ہے جس کو استعمال کر کے کوئی رپورٹر پوچھ سکے کہ عزت مآب آپ نے تو پہلے چھ ماہ میں ہی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کی بشارت دی تھی؟ کیا ہوا وہ آپ کا اور برادرِ خورد کا جذباتی مکے لہرا کر عوام کی مشکلات کو ختم کرنے والا "اسم اعظم؟"</p> <p>یہاں تو کسی سرکاری کوریج کے لیے یا پریس کانفرنس میں بلوائے جانے والے رپورٹرز کے نام حکومتی میڈیا سیل کی منظوری کے بعد ہی فائنل کیے جاتے ہیں۔ایسے میں بھلا کس کی مجال ہے جو انواع و اقسام کی لذیذ ڈشیں چھوڑنے کا بھی سوچ سکے۔ فی زمانہ اسے "حماقت" کہا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ جو کہتے ہیں نا کہ "لوح بھی تو قلم بھی تو" وہی معاملہ ہے۔</p> <p>پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے لیے قحط بنگال میں لوگوں نے ایک بوری چاول کے لیے بیٹیاں بیچ دی تھیں۔ دور کیوں جائیے۔ 1971 میں جب ڈھاکا فال ہوا اور بنگلہ دیش بنا تو ایک بہاری خاندان کے ساتھ ایک لڑکی بھی آگئی تھی جو انھوں نے خریدی تھی۔ نام تھا اس کا چندا، لیکن صورت نام کے برعکس۔ میں نے کئی سال پہلے ایک کالم میں اس کا پورا احوال لکھا تھا۔ اسی غربت اور بھوک نے چندا سے اپنا گھر اور ماں باپ چھڑوائے اور پھر وہ وہاں پہنچ گئی جہاں بدنصیب اور خانماں برباد بنت حوا کا مقدر ہے۔ ایسے میں بھلا کون صحافی سچ کی سولی پہ چڑھ کے زندہ درگور ہوگا؟ یا پھر اس کی لاش کسی ندی نالے میں سے ملے گی۔</p> <p>بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔</p> <p>چلیے یہ تو مان لیا کہ ہمارے ملک میں سچ کا پھل کبھی نہیں پکتا۔ کیونکہ اس کو کھانے کے اہل لوگ نہیں رہے۔ لیکن ایک اور المیہ بھی درپیش ہوتا ہے۔وہ یہ کہ دیگر اہل قلم خاص کر کالم نویس بھی اس کی زد میں آتے ہیں۔ کیونکہ کالم نگار کا سچ اگر شایع ہو گیا تو اس کی کمبختی تو بعد میں آئے گی، پہلے وہ ہاتھ قلم کیے جائیں گے جن سے سچائی کے الفاظ ایڈٹ نہ ہو سکے۔</p> <p>لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ گئے دنوں کی صحافت میں جو سچائی کی بہار تھی، وہ سرے سے ختم ہو گئی ہے۔ شاندار عمارت جل کر خاک ہوئی، لیکن نشان عظمت باقی ہیں۔ اب بھی اس دور کے کچھ صاحب ضمیر صحافی زندہ ہیں جنھوں نے سچ لکھنے کی پاداش میں کوڑے بھی کھائے، جیلیں بھی کاٹیں، بھوکے بھی رہے۔</p> <p>آج بھی وہ عظمت رفتہ کی یادیں سمیٹے چپ چاپ کام کر رہے ہیں، قصیدہ خوانی اور یلو جرنلزم کی بڑھتی ہوئی یلغار کی طغیانی دیکھ رہے ہیں۔ اور ماتھا پیٹ رہے ہیں۔ کاش ہمارے وطن میں بھی کوئی ایسا جی دار صحافی ہوتا جو کسی بھی حاکم کے منہ پر اس کی کمزوریاں اور خامیاں بتانے کی ہمت جٹا پاتا۔ اب نہ حسرت موہانی ہیں، نہ مولانا ظفر علی خاں، نہ ابوالکلام آزاد۔ ایسے لوگ جنت میں بیٹھے ہمارے صحافتی نظام پہ آنسو بہا رہے ہیں۔</p> <p>چند دن قبل ایک خبر نے بری طرح جھنجھوڑ دیا جس کے مطابق دوران پرواز پائلٹ کی شراب نوشی کی خبریں عام ہوئیں اور فوری طور پر جب خبر میڈیا پہ آگئی تو شجاعت عظیم نے 24 گھنٹے ایئرپورٹس پر ڈاکٹروں کی تعیناتی کا فیصلہ کیا ہے اور پرواز سے پہلے پائلٹ سمیت تمام کیبن کریو کا طبی معائنہ ضروری قرار دیا گیا ہے۔سبھی جانتے ہیں کہ پائلٹ اورکو پائلٹ دوران پرواز خود کو راجہ اندر سمجھتے ہیں۔ ایک طرح سے تمام عملہ پائلٹ کی مرضی کا ہوتا ہے۔ یہ خبریں بھی اب میڈیا کے ذریعے عام ہو چکی ہیں کہ ہماری کتنی ایئرہوسٹسں اور اسٹیورڈ اسمگلنگ میں ملوث رہے ہیں۔</p> <p>بیرون ملک انھیں گرفتار بھی کیا گیا ہے جب کہ اندرون ملک ان کی گرفتاری اور چیکنگ کا کوئی وجود نہیں۔ یہ کام سب بھائی بند مل کے کرتے ہیں۔ کیبن کریو کے عملے کا سامان چیک نہیں ہوتا۔ان کی حرکات کاسب کو سب پتہ ہے لیکن کوئی دخل اندازی نہیں کرتا۔ میں نے متعدد بار مختلف ایئرلائن سے سفر کرنے کے دوران وہ وہ نظارے دیکھے ہیں جو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے۔ سب دیکھ رہے تھے اور سب چپ تھے۔</p> <p>ایسے پائلٹوں کو انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین ہے جو شراب و شباب کے نشے میں دھت مسافروں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔ جہاں تک ڈاکٹروں کے طبی معائنے کی بات ہے تو کیا وہ الکحل سے آشنا نہیں ہوں گے؟ کیا ضمانت ہے اس بات کی کہ ڈاکٹر ایمانداری سے چیک اپ کے بعد صحیح رپورٹ دے گا؟ بیرون ملک سے قیمتی موبائل اور قیمتی مشروبات کے عوض یہ ڈیل بری نہیں کہ پائلٹ اور کیبن کریو کو کلین چٹ دے دی جائے؟ یہاں حلف اٹھا کر حکمران قوم کو تباہی سے دوچار کر دیتے ہیں۔ ایسے میں ڈاکٹر کا چھوٹا سا سرٹیفکیٹ بھلا کیا اہمیت رکھتا ہے۔ نشہ ضروری ہے خواہ اقتدار کا ہو، شباب کا ہو یا شراب کا۔ مرنے والے مر جاتے ہیں بلیک باکس کی سچائی چھپا لی جاتی ہے اور ایئرلائن پر قتل عمد کا مقدمہ بھی نہیں بنتا۔</p> <p>بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس</p> </section> </body>
0077.xml
<meta> <title>امریکی پولیس افسر کی غلط پارکنگ اور خود پر جرمانہ</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10106/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>250</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
امریکی پولیس افسر کی غلط پارکنگ اور خود پر جرمانہ
250
No
<body> <section> <p>اگر ہر پولیس افسر اپنی ڈیوٹی کو ایمانداری سے انجام دینے لگے تو جرائم پر قابوپانا آسان ہو جائے گا تاہم ایسی ایک مثال دیکھنے میں آئی امریکا میں جہاں ایک ایماندار پولیس افسر نے معذوروں کی گاڑیوں کے لیے مخصوص جگہ پرغلطی سے اپنی گاڑی کھڑے کرنے پر خود ہی پر جرمانہ عائد کرتے ہوئے چالان کاٹ دیا۔</p> <p>تفصیلات کے مطابق وسکونسن کے علاقے ملکواکی کاؤنٹی کے پولیس افسرڈیوڈ کلارک نےاس وقت اپنے پورے ڈیپارٹمنٹ کو حیرت میں ڈال دیا جب انہوں نے اپنے ہی نام پارکنگ ٹکٹ یعنی جرمانہ عائد کر دیا۔ ڈیوڈ بزرگوں کے دن کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کے لیے جب وہاں پہنچے تو اپنی کار غلطی سے معذورں کے لیے مخصوص کی گئی کار پارکنگ میں کھڑی کر دی اور اپنے ماتحت سے کہا کہ وہ کار کو ہٹا کر دوسری جگہ کھڑی کر دے لیکن جب وہ تقریب سے واپس آئے تو ان کی کار وہیں کھڑی تھی جس پر پولیس افسر نے دوسرے شہریوں کی طرح خود پر جرمانہ عائد کر دیا۔ جرمانہ عائد کرنے کے بعد ڈیوڈ نے نہ صرف 35 ڈالر کا جرمانہ ادا کیا بلکہ معذوروں کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے لیے 200 ڈالر مزید بھی عطیہ کر دیئے۔</p> <p>پولیس افسر کا کہنا تھا کہ اس بات کی بھی تحقیقات کی جائیں گی کہ اس کے حکم کے باوجود اس کی اسکواڈ کار دوسری جگہ کیوں پارک نہیں کی گئی جب کہ قانون پولیس اہلکار یا عام شہری سب کے لیے ایک جیسا ہے اس لیے اس کا اقدام بالکل درست تھا۔</p> </section> </body>
0078.xml
<meta> <title>افغانستان میں امریکی ڈرون حملے میں 8 طالبان جاں بحق</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10110/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>433</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
افغانستان میں امریکی ڈرون حملے میں 8 طالبان جاں بحق
433
No
<body> <section> <p>افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار میں امریکی ڈرون حملے میں 8 طالبان جنگجو جاں بحق ہوگئے دوسری طرف پاکستانی سرحد کے قریب واقع شہرجلال آباد میں یونیورسٹی کے طلبہ کی طرف سے داعش کے حق میں نعرے لگانے پر 27 طلبہ کو گرفتار کر کے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہے۔</p> <p>افغان میڈیا کے مطابق ننگرہار کے صوبائی گورنر کے ترجمان عطااللہ کھوگیانی نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ڈرون حملہ ضلع بحسود میں کیا گیا جہاں جنگجو کسی دوسری جگہ منتقل ہو رہے تھے تاہم انھوں نے مزید کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔ اس سے قبل گزشتہ روز صوبے میں ڈرون حملے میں طالبان کے فرضی ضلعی گورنر سمیت 13 جنگجو مارے گئے تھے۔</p> <p>ڈرون حملہ ضلع کھوگیانی میںکیاگیا جس میںضلعی فرضی گورنرنوراحمد کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنی گاڑی میں سفرکررہا تھا۔ دوسری طرف افغان حکام نے جلال آباد سے داعش کے حق میں نعرے لگانے والے 27 طلبا کو گرفتارکرلیا، ان میں سے متعدد گزشتہ ہفتے داعش کے حق میں ہونے والے ایک مظاہرے میں شامل تھے۔ ننگرہار کے گورنر سلیم خان قندوزی نے صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ افغان سیکیورٹی فورسز نے ننگرہاریونیورسٹی کے ہاسٹل پرمنگل اوربدھ کی درمیانی شب چھاپہ مارا۔ ننگرہار کے پولیس سربراہ احمد شیرزاد نے کہا کہ گرفتار ہونے والے طلبا نے حکومت مخالف شدت پسندگروہوںسے وابستہ ہونے کااعتراف کر لیا ہے۔</p> <p>گزشتہ ہفتے طلبا کی ایک بڑی تعداد نے ہاسٹل کے کمروں اور کھانے کی قواعد پر مظاہرہ کیا تھا مگر بعض طلبا نے مظاہرے میں داعش اور طالبان میں حق میں نعرے بازی کی، داعش اور طالبان شدت پسندوں کی طرح چہرے پر نقاب پہنے ہوئے بعض طلبہ نے ان 2 تنظیموں کے پرچم بھی لہرائے۔ ایک طالب علم نے لاؤڈ اسپیکر پر کہا کہ داعش، طالبان اور حزب اسلامی کے پرچم لہرا کر ہم ملک کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔</p> <p>اس کے جواب میں مظاہرے میں شریک طلبا نے داعش اور طالبان کے حق میں نعرے بازی کی۔ ننگرہار یونیورسٹی کے صدر ببرک میاںخیل نے طلباکی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔ اے ایف پی کے مطابق جرمنی نے افغانستان میں اپنے فوجیوں کی موجودگی کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے اگلے برس 2016 کے آخر تک بڑھانے کا اعلان کر دیا ہے۔ چانسلر انجیلا مرکل کی کابینہ نے 980 جرمن فوجیوں کے افغانستان میں نیٹو اتحاد میں خدمات انجام دینے پر اتفاق کر لیا ہے جبکہ اس سے پہلے 850 خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جرمن وزارت دفاع کے ترجمان نے بتایا کہ جرمن فوجی افغانستان میں فوجی آپریشنز یا افغان فوجیوں کے ساتھ مل کر فوجی مہمات میں حصہ لیں گے، پارلیمنٹ کو اس تعداد کو منظور کرنا ہے۔</p> </section> </body>
0079.xml
<meta> <title>وان کے بیان پر رمیز راجہ کی تنقید</title> <author> <name>آئی بی سی</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10113/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>373</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
وان کے بیان پر رمیز راجہ کی تنقید
373
No
<body> <section> <p>مایہ ناز کرکٹ کمنٹیٹر رمیز راجہ نے سابق انگلش کپتان مائیکل وان کی جانب سے پاکستانی ٹیم کی کارکردگی پر شبہات سختی سے مسترد کر دیے۔</p> <p>وان نے منگل کے روز ہونے والے تیسرے ون ڈے کے دوران پاکستان کے حوالے سے کہا تھا: 'تین رن آؤٹ اور کچھ مشکوک شاٹس۔۔۔ ایسا میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔'</p> <p>اس کے بعد ایک ٹوئیٹ میں وان نے کہا: 'وہ سب شاید سمجھتے ہیں کہ ہم بے وقوف ہیں۔'</p> <p>وان نے کچھ دیر بعد ان ٹوئیٹس کو ڈیلیٹ کر دیا تاہم تب تک متعدد افراد سابق انگلش کپتان پر پاکستان سے تعصب رکھنے کا الزام عائد کر چکے تھے۔</p> <p>سیریز میں کمنٹری کر رہے رمیز نے جیو نیوز سے گفتگو میں وان کی جانب سے اس بیان کو 'سستی شہرت' حاصل کرنے کی کوشش قرار دیا۔</p> <p>رمیز نے کہا: 'وان کے بیانات انتہائی غیر ذمہ دارانہ تھے اور میرے خیال سے وہ سوشل میڈیا سے منسلک رہنے کے لیے سستی شہرت حاصل کرنا چاہ رہے ہیں۔'</p> <p>رمیز نے کہا کہ پاکستان کی رننگ ہمیشہ ہی سے خراب رہی ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ محمد حفیظ اچھے رنز نہیں ہیں جبکہ ٹیم دباؤ پڑنے پر گھبراہٹ کا شکار ہو جاتی ہے، اس میں کچھ نیا نہیں۔</p> <p>تیسرے ون ڈے میچ میں پاکستان نے ٹاس جیت پر پہلے بیٹنگ کی اور ایک موقع پر گرین شرٹس دو وکٹوں کے نقصان پر 132 رنز بناچکے تھے تاہم ناقص بلے بازی کے باعث پوری ٹیم 49. 5 اوورز میں 208 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔</p> <p>پاکستان کے تین بلے باز رن آؤٹ ہوئے جبکہ کچھ بیٹسمین غیر ذمہ دارانہ شاٹس مار کر بھی آؤٹ ہوئے۔</p> <p>انگلینڈ باآسانی میچ چھ وکٹ سے جیت گیا۔</p> <p>انگلینڈ کو سیریز میں اب دو، ایک کی سبقت حاصل ہے جبکہ متحدہ عرب امارات میں ایک ون ڈے سیریز میں شکست سے بچنے کے لیے گرین شرٹس کو چوتھے اور آخری ون ڈے میں کامیابی حاصل کرنا ہوگی۔</p> <p>2009 سے لیکر اب تک پاکستان متحدہ عرب امارات میں گیارہ میں سے نو ون ڈے سیریز ہار چکا ہے۔</p> <p>دونوں ٹیموں کے درمیان آخری میچ جمعے کو دبئی میں کھیلا جائے گا۔ سیریز کے پہلے میچ میں پاکستان نے انگلینڈ کو چھ وکٹ سے شکست دی تھی جبکہ انگلینڈ نے دوسرے میچ میں 95 رنز سے فتح حاصل کی تھی۔</p> </section> </body>
0080.xml
<meta> <title>فیس بک پر زیادہ دوست ۔ ۔ ۔خطرے کی علامت</title> <author> <name>آئی بی سی</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10116/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>266</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
فیس بک پر زیادہ دوست ۔ ۔ ۔خطرے کی علامت
266
No
<body> <section> <p>کیا فیس بک پر آپ کے بہت زیادہ دوست ہیں ؟ اگر ہاں تو ہو سکتا ہے کہ ان کی موجودگی آپ کو ذہنی تناﺅ کا مریض بنا دے خاص طور پر اگر آپ نوجوان ہیں۔</p> <p>یہ دعویٰ ایک کینیڈین تحقیق میں سامنے آیا ہے۔</p> <p>مانٹریال یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ فیس بک پر تین سو سے زائد دوستوں کا ہونا ذہنی تناﺅ کا باعث بننے والے ہارمون کورٹیسول کی سطح میں نمایاں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔</p> <p>تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ آن لائن مقبولیت سوشل میڈیا پر ساتھیوں کا دباﺅ بڑھانے کا باعث بن سکتی ہے۔</p> <p>اس تحقیق کے دوران کم عمر نوجوانوں پر ہونے والی 88 تحقیقی رپورٹس کا جائزہ لیا گیا۔</p> <p>یہ نوجوان اکثر فیس بک استعمال کرتے تھے اور ان کے دوستوں کی تعداد بھی کافی تھی جس کے بعد محققین نے نوجوانوں کے ہارمون کورٹیسول کے نمونے کئی بار مختلف اوقات میں حاصل کیے۔</p> <p>محققین کا کہنا ہے کہ تین سو سے زائد فیس بک فرینڈز کی موجودگی سے کورٹیسول کی سطح میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا اور ہم تصور کر سکتے ہیں کہ ایک یا دو ہزار دوستوں کی موجودگی سے ذہنی تناﺅ کس حد تک بڑھ جاتا ہوگا۔</p> <p>تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ اس ذہنی تناﺅ کا مکمل ذمہ دار فیس بک کو قرار نہیں دیا جاسکتا اور اس حوالے سے دیگر عناصر کو بھی دیکھنا ہوگا۔</p> <p>محققین کے مطابق فیس بک سے ذہنی تناﺅ بڑھنے سے نوجوانوں پر طویل المعیاد بنیادوں پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور ان میں بعد کی زندگی میں ڈپریشن کے مرض کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔</p> </section> </body>
0081.xml
<meta> <title>داعش کے خلاف لڑنے والی لڑکی</title> <author> <name>آئی بی سی</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10120/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>914</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
داعش کے خلاف لڑنے والی لڑکی
914
No
<body> <section> <p>پٌر عراق چلی گئی تھیں تاکہ داعش کے خلاف لڑنے والے رضاکار کرد دستوں میں شامل ہو سکیں۔ جب پالانی اپنے کنبے سے ملنے کی خاطر ڈنمارک لوٹیں تو ڈنمارک کی پولیس نے ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا اور انہیں ملک سے نکلنے سے منع کر دیا۔</p> <p>آپ نے یونیورسٹی کی تعلیم کو خیر باد کہہ کر عراق جا کر کرد رضاکارو دستوں میں شامل ہو کر لڑنے کا فیصلہ کیونکر کیا؟ آپ کو کس چیز نے اس جانب راغب کیا</p> <p>؟</p> <p>جواب: میں نے تب جانے کا فیصلہ کیا تھا جب کوبانی اور شینگل پر داعش نے قبضہ کر لیا اور حملے کر کے عام شہریوں کو قتل کرنے لگے۔</p> <p>کیا آپ کے گھر والے اور دوست آپ کے فیصلے سے آگاہ تھے؟ جب انہیں پہلی بار اس بارے میں معلوم ہوا تو ان کا ردعمل کیا تھا</p> <p>؟</p> <p>جواب: کچھ میرے فیصلے سے آگاہ تھے، کچھ نہیں تھے۔ جب ان کو معلوم ہوا تو انہوں نے میرا ساتھ دیا۔ میرے گھر والے اکثر مجھے کہتے تھے کہ تمہیں کبھی بندوق نہیں اٹھانی چاہیے بلکہ اپنے قلم اور کاغذ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرو، ایسا کہنے سے ان کا مطلب یہ تھا کہ مجھے سیاسی لڑائی لڑنی چاہیے۔ پر میں سمجھتی تھی کہ جب آپ کے دشمن مذاکرات کرنا ہی نہیں چاہتے اور صرف اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ میری ماں کے لیے تب بہت کڑا وقت تھا جب میرا ان سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ میں زندہ بھی ہوں یا نہیں۔</p> <p>ڈنمارک میں آپ کے حالات اور زندگی کیسے تھے؟ کیا سب کچھ ایک طرف رکھ چھوڑنا دشوار تھا؟</p> <p>جواب: جب میرے لوگوں کو ہر جانب سے مارا جا رہا ہو اور کوئی بھی کچھ نہ کر رہا ہو تو میرے لیے ڈنمارک میں ٹہرے رہنا مشکل تھا۔ میں اب اپنی زندگی پر دھیان نہیں دے سکتی تھی۔ میں نے لڑنے کی خاطر اپنی تعلیم، اپنے دوستوں اور اپنے مشاغل کو ایک طرف رکھ چھوڑا تھا۔</p> <p>آپ عراق کیسے پہنچیں؟ کیا آپ کو مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا؟</p> <p>جواب: میرے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا اور نہ ہی مجھے کسی مسئلے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔</p> <p>کیا آپ مجھے عراق میں اپنے پہلے روز کے بارے میں بتا سکتی ہیں؟ کیسا لگتا ہے جب آپ ایک نئی زندگی میں قدم دھرتی ہیں؟</p> <p>جواب: میرا پہلا دن میرے لیے خاصا کڑا تھا۔ مجھے کئی میٹنگوں میں جانا پڑا تھا۔ مجھے کرد تصادم سے متعلق اپنا علم اور وفاداری اور یہ کہ بطور سپاہی کے میں کیسے لڑوں کی، ثابت کرنا پڑے تھے۔</p> <p>کیا آپ کبھی داعش کے دہشت گردوں سے دوبدو ہوئیں؟ کیا آپ ان لمحات سے متعلق مجھے کچھ بتا سکتی ہیں؟</p> <p>جواب: ہاں بہت بار سامنا ہوا تھا۔ چند مرتبہ تو میرے پاس کوئی گولی تک باقی نہیں بچی تھی۔ میں سمجھی تھی کہ میں ماری جاؤں گی۔ ایک داعش جنگجو تو میرے کمرے میں گھس آیا تھا۔ اس کے پاس اپنا ہتھیار نہیں تھا، شاید وہ اسے کھو چکا تھا یا کچھ اور۔ میرے پاس اپنی اے کے-47 رائفل تھی لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ اس میں گولیاں نہیں تھیں۔ اس نے میری طرف دیکھا اپنے ہاتھ ہوا میں بلندکیے اور بھاگ کھڑا ہوا۔ اگر اسے معلوم ہو جاتا کہ میری رائفل میں گولیاں نہیں ہیں تو وہ متشددانہ رویہ اختیار کرتا اور شاید میں زندہ نہ رہ سکتی۔</p> <p>ایک عام دن کیسا ہوتا تھا؟ آپ کے معمولات کیا تھے؟</p> <p>جواب: صبح کے وقت میں لڑکیوں کی ٹریننگ کی انچارج ہوتی تھی۔ میں صرف سارجنٹ ہی نہیں بلکہ ڈرل سارجنٹ بھی ہوں۔ سہ پہر کو میں رات تک محاذ کی اگلی صفوں میں چلی جاتی تھی۔ لڑکیوں کا کیمپ محاذ کی اگلی صف سے ایک کلومیٹر پیچھے تھا، میں تقریبا" ایک سال کردستان میں رہی ہوں۔</p> <p>کیا آپ سمجھتی ہیں کہ کرد دستوں کو داعش سے لڑنے کی خاطر ہتھیاروں یا سازوسامان کی شکل میں کسی حمایت کی ضرورت ہے؟</p> <p>جواب: ہاں بالکل ہے۔ جب بھی ہم داعش یا القاعدہ سے مبارزہ آراء ہوتے تھے تو ہمارے پاس کوئی اچھے ہتھیار نہیں ہوتے تھے۔ داعش والوں کے پاس اکثر ہتھیار امریکی ہیں اور نئے بھی، 2003 کے۔ عراقی فوجی اس ڈر سے کہ کہیں مارے نہ جائیں یا داعش والے انہیں قیدی نہ بنا لیں بھاگ گئے تھے۔ داعش والے اتنے طاقت ور نہیں رہے جتنے ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ سب معاملہ ہمت کا ہے۔</p> <p>جب آپ لوٹین تو کیا پولیس یا خفیہ شعبے نے آپ سے تفتیش کی؟</p> <p>جواب: میں اپنے گھر والوں سے ملنا چاہتی تھی۔ میں اپنی ڈیوٹی سے چھٹی پر آئی تھی اور مجھے 15 روز کے بعد لوٹ جانا تھا۔ پولیس اور ایجنسی نے مجھے خط لکھا کہ آپ کا پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا اور آپ ڈنمارک سے باہر نہیں جا سکتیں کیونکہ آپ ڈنمارک کی ریاست کے لیے خطرہ ہیں۔ اس کی کوئی تک نہیں ہے کیونکہ ڈنمارک خود بھی داعش کے خلاف لڑائی کا حصہ ہے۔ اب میرے ساتھ ایک وکیل ہیں جو میری مدد کر رہے ہیں۔ ہم اس فیصلے کے خلاف عدالت میں جا رہے ہیں۔</p> <p>اگر داعش کو روک لیا گیا تو آپ کے مستقبل کے کیا منصوبے ہیں؟ جنگ تمام ہو جانے کے بعد آپ اپنی زندگی کے بارے میں کیا ارادہ رکھتی ہیں؟</p> <p>جواب: میں اپنے یونٹ میں واپس جانا چاہتی ہوں اور اپنے فرائض جاری رکھنا چاہتی ہوں۔ اگر داعش کے ساتھ جنگ تمام ہو گئی تو میں اپنی تعلیم کی جانب لوٹ جاؤں گی ۔ ۔ ۔ اگر تب تک میں ماری نہ گئی تو۔</p> <p>بشکریہ:سپٹنک نیوز</p> </section> </body>
0082.xml
<meta> <title>زیادہ مذہبی گھرانوں کے بچوں میں انسان دوستی کا امکان: رپورٹ</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10124/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>599</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
زیادہ مذہبی گھرانوں کے بچوں میں انسان دوستی کا امکان: رپورٹ
599
No
<body> <section> <p>ایک نئے مطالعے کا نتیجہ بتاتا ہے کہ زیادہ مذہبی گھرانوں کے بچوں میں دوسروں کے ساتھ اشتراک کرنے کا رجحان کم پایا جاتا ہے۔</p> <p>شکاگو یونیورسٹی سے منسلک ماہرین نفسیات کی ٹیم نے کہا کہ والدین میں یہ نظریہ عام طور پر پایا جاتا ہے کہ بچپن میں بچوں کی اخلاقی ترقی کے لیے مذہب ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔</p> <p>لیکن ترقیاتی نفسیات سے وابستہ ماہرین کی ٹیم  نے اندازا لگایا ہے کہ زیادہ مذہبی گھرانوں کے بچے اتنے انسان دوست نہیں تھے جتنا کہ ان کے والدین انھیں سمجھتے تھے۔</p> <p>علم نفسیات کے ماہرین کی ٹیم کی قیادت پروفیسر جین ڈیسیٹا نے کی جنھوں نے بین الاقوامی مطالعے کے لیے چھ ممالک میں مذہب اور انسان دوستی کے بارے میں پائے جانے والے تصورات اور بچوں کے رویوں کا جائزہ لیا ہے۔</p> <p>علم حیاتیات کے شمارے 'کرنٹ بیالوجی 'میں شائع ہونے والے مطالعے کے لیے ماہرین ان ملکوں کے بچوں میں دوسروں کے ساتھ اشتراک کرنے کے رویے، انسان دوستی کے اقدام اور برے رویے کے لیے دوسروں کا تعین کرنے اور سزا کے حوالے سے ان کے رجحان کا جائزہ لیا۔</p> <p>نتائج سے ثابت ہوا کہ مذہبی خاندانوں کے بچوں میں غیر مذہبی گھرانوں کے بچوں کے مقابلے میں دوسروں کے ساتھ اشتراک کرنے کے لیے کم امکان تھا۔</p> <p>اس کے علاوہ سخت مذہبی پرورش میں پلنے والے بچوں میں سماج مخالف رویہ کے جواب میں زیادہ تادیبی رجحانات پائے گئے۔</p> <p>پروفیسر جین ڈیسیٹا نے کہا کہ ہمارے نتائج نے مذہبی گھرانوں کے بچوں کے حوالے سے پائے جانے والے مقبول تصورات کی تردید کی ہے کہ ایسے بچے دوسرے بچوں کے مقابلے میں زیادہ ہمدرد اور انسان دوست ہوتے ہیں۔</p> <p>انھوں نے مزید کہا کہ ہمارے مطالعے میں ملحد اور غیر مذہبی گھرانوں کے بچے بھی شامل تھے جو زیادہ روادار تھے۔</p> <p>شکاگو یونیورسٹی میں چائلڈ نیورو سویٹ کے شعبے سے وابستہ ماہرین نفسیات نے بتایا کہ ہمارا مطالعہ</p> <p>5</p> <p>سے</p> <p>12</p> <p>برس کے</p> <p>1170</p> <p>بچوں پر مشتمل تھا جن کا تعلق کینیڈا، چین، اردن، جنوبی افریقہ، ترکی اور امریکہ سے تھا۔</p> <p>ایک مشاہدے کے دوران بچوں میں انسان دوستی کے ایک ٹاسک کے لیے انھیں</p> <p>10</p> <p>اسٹیکرز دیے گئے تاکہ وہ اجنبی بچوں کے ساتھ ان کا اشتراک کریں اس تجربے میں انسان دوستی کی سطح کو اشتراک کیے جانے والے اوسط تعداد کے ساتھ ناپا گیا۔</p> <p>اسی طرح اخلاقی سطح کے لیے ایک دوسرے ٹاسک میں بچوں کو ایک مختصر فلم دیکھائی گئی جس میں کردار ایک دوسرے کو جان بوجھ کر یا انجانے میں دھکا دیا تھا۔ فلم کے اختتام پر بچوں سے صورتحال کے حوالے سے پوچھا گیا کہ ان کا رویہ کتنا غلط تھا اور انھیں کتنی سزا کا مستحق ہونا چاہیئے تھا۔</p> <p>علاوہ ازیں ایک دوسرے مشاہدے میں ان گھرانوں میں مذہبی رجحان اور بچوں میں ہمدردی اور انصاف کےحوالے سے والدین کی رائے جاننے کے لیے ایک سوالنامہ بھروایا گیا اس مشاہدے کے دوران والدین کے تین بڑے گروپ میں تقسیم کیا گیا جن کا تعلق عیسائیت، اسلام اور غیر مذہب گھرانوں سے تھا۔</p> <p>ماہرین نے کہا عام طور خیال کیا جاتا ہے کہ بچوں میں بڑے ہونے کے بعد دوسروں کے ساتھ اشتراک کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں لیکن نتائج سے پتا چلا کہ عیسائی اور مسلم گھرانوں کے سخت مذہبی ماحول میں پلنے والے بچوں نے بہت کم اسٹیکرز کا اشتراک کیا تھا۔</p> <p>اور زیادہ مذہبی گھرانوں کے بچوں میں کم انسان دوستی کا رویہ عمر کے ساتھ مزید مضبوط ہوا تھا۔</p> <p>اسی طرح برے رویے کے لیے زیادہ سختی سے نمٹنے اور تادیبی سزائیں دینے کا رجحان بھی غیر مذہبی گھرانوں کے بچوں کے مقابلے میں زیادہ سخت</p> <p>تھا۔</p> <p>بشکریہ:وی او اے اردو</p> </section> </body>
0083.xml
<meta> <title>کچھ کہنے کی ہمت نہیں</title> <author> <name>نصرت جاوید</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10132/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1172</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
کچھ کہنے کی ہمت نہیں
1,172
Yes
<body> <section> <p>بات کھل کر واضح الفاظ میں بیان کرنے کی ہمیں عادت نہیں۔ ناک کو ہاتھ گھماکر پکڑتے ہیں۔ کسی کی برائی یا بدخوئی کرتے ہوئے احتیاط کا یہ رویہ کسی حد تک سمجھا جاسکتا ہے۔ حیرت مگر اس وقت ہوتی ہے جب تعریف کرتے ہوئے بھی اصل کو بیان نہیں کیا جاتا۔ محبوب کے خوب صورت دانتوں کو دُر، چہرے کو گلاب اور جسم کے خدوخال کو صراحی سے تشبیہ دے کر جان چھڑالی جاتی ہے۔ حقائق کو استعاروں کے ذریعے بیان کرنے کی یہ عادت درباری ثقافت کا ورثہ ہے جسے سامراج اور اس کی سرپرستی میں پروان چڑھائی اشرافیہ کی مسلط کردہ گھٹن نے مزید طاقت ور بنا دیا ہے۔</p> <p>مشرف دور کے آخری مہینوں میں لیکن محسوس ہوا کہ ہمارا میڈیا آزاد ہو گیا ہے۔ آزادیٔ فکر واظہار کے اس ماحول کو مزید جاندار بنانے کے لئے جاری رہی عدلیہ بحالی کی تحریک۔ آخر میں لیکن نہ جنوں رہا نہ پری رہی۔ "آنے والی تھاں" پر ہم واپس آچکے ہیں مگر یہ اعتراف کرنے کی جرأت نہیں دکھاپارہے کہ "وہ دن ہوا ہوئے…"</p> <p>کور کمانڈرز کے اجلاس کے بعد جاری ہوئی پریس ریلیز اور اس کے ردعمل میں وزیر اعظم ہائوس سے آئے جوابِ شکوہ کے بعد ستے خیراں کا تاثر پھیلائے رکھنے کے لئے کھال بہت موٹی، ہڈی نہایت ڈھیٹ اور ذہن کافی بودا ہونا چاہیے۔ میری بدقسمتی کہ ان تینوں خصوصیات سے محروم ہوں۔ جائوں تو کہاں جائوں۔</p> <p>ٹی وی لگائیں یا اخباروں کے کالم پڑھیں۔ کوئی ایک صاحب علم وہنر انتہائی جی دار ہونے کے باوجود بھی یہ کہتا سنائی نہیں دیتا کہ بہت ہو گئی جمہوریت- جمہوریت۔ وقت آگیا ہے کہ کوئی "دیدور" آگے بڑھے اور ڈنڈا چلاتے ہوئے ہمیں ہجوم سے قوم میں بدل کر میرٹ پر مبنی بہتر حکومت کی راہ پر ڈال دے تاکہ لوگوں کو سکون میسر آئے۔ انہیں تعلیم اور علاج معالجے کی وافر سہولتیں ملیں اور ہمارے نوجوان دنیا کے نقشے پر اپنے ٹھکانے تلاش کرتے نہ پائے جائیں۔</p> <p>بارہا بات دہرائی جاتی ہے تو صرف اتنی کہ نواز شریف کے پاس اب بھی وقت ہے۔ انہیں چاہیے کہ سرجھکاکر اس ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہو جائیں جو ان کی کابینہ یا جماعت کے لوگوں نے مل بیٹھ کر طے نہیں کیا بلکہ اس ادارے سے آیا ہے جہاں وطنِ عزیز کے طویل اور قلیل المدتی مفادات کے حصول کے لئے بہت سوچ بچار کی جاتی ہے۔</p> <p>وزیر اعظم کو "بندے کا پُتر" بن جانے کے مشورے دینے والے یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے کہ اگر لاہور سے آکر اس ملک کا تیسری بار وزیر اعظم بننے والا سیاست دان ڈاکٹر عاصم کے ساتھ وہی سلوک کرے جس کی اس سے توقع کی جارہی ہے تو ذکر بعدازاں ان کے برادرِخورد کی "گڈگورننس" کابھی شروع ہو جائے گا۔ احتساب کو صرف سندھ تک محدود رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ " <annotation lang="en">Balance</annotation> "قائم کرنے کے لئے کچھ ڈاکٹر عاصم صرف پنجاب ہی میں نہیں مرکزی کابینہ سے بھی ڈھونڈنا پڑیں گے۔</p> <p>پنجاب کے ممکنہ ڈاکٹر عاصموں کا میں اسلام آباد بیٹھ کر صحیح طور پر اندازہ نہیں لگاسکتا۔ حکمرانوں کے اس شہر میں لوگوں سے ملنا جلنا ویسے ہی بہت کم کر رکھا ہے۔ چند محفلوں میں لیکن پرانی دوستیوں کی وجہ سے جانا پڑتا ہے اور جہاں بھی گیا تذکرہ صرف اسحاق ڈار کا ہوا۔ بڑے کاروباری حضرات، اعلیٰ سرکاری نوکریوں سے چند ماہ یا سال قبل ریٹائرڈ ہوئے لوگ اور ورلڈ بینک وغیرہ کے لئے <annotation lang="en">Consultancies</annotation> کا دھندا کرنے والے متفق نظر آتے ہیں کہ صرف ایک بات پر اور وہ یہ کہ "نواز شریف کے سمدھی" اسحاق ڈار نے پاکستانی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔</p> <p>پاکستان کے امیر لوگوں سے بے رحمانہ انداز میں محاصل اکٹھاکرنے کی بجائے اسحاق ڈار غیر ملکی اداروں سے قرض لئے چلے جارہے ہیں۔ پھر ان کے کچھ فیصلے، جیسے <annotation lang="en">IPPs</annotation> کو گردشی قرضے کی یکمشت ادائیگی اور یورو بانڈز کابھاری سود پر اجراء ایسے معاملات ہیں، جن کا فائدہ مبینہ طور پر نواز شریف کے چند بلکہ شاید ایک ہی چہیتے کو پہنچا۔ اس لئے ضرورت ہے آزادانہ تفتیش کی۔ وہ تفتیش مگر کیسے ہو؟</p> <p>ڈاکٹر عاصم کو نوے روز تک قید میں رکھ کر اعترافی بیانات اگلوانے کی سہولت موجود تھی <annotation lang="en">PPO</annotation> کی۔ پیپلز پارٹی کی بھرپور معاونت سے بنایاگیا یہ قانون دہشت گردی کے "سہولت کاروں" کی گرفتاری آسان بنادیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مبینہ "سہولت کار" جب گرفتار ہو جاتا ہے تو بیانات ایسے دیتا ہے جو بالآخر <annotation lang="en">NAB</annotation> وغیرہ کا کام آسان کر دیتے ہیں۔ اسحاق ڈار کو ہاتھ کس قانون کے تحت ڈالیں۔ "دہشت گردوں کے سہولت کار" وہ اس لئے نہیں ٹھہرائے جاسکتے کہ اکثر جمعراتیں لاہور کے داتا دربار میں روتے ہوئے گزارتے ہیں اور علی ہجویریؒ کے عرس کے دوران غریبوں میں بانٹنے کے لئے بتائی دیگوں کی تعداد سے مطمئن نہیں ہوتے۔ اسے کم از کم دگنا دیکھنا چاہتے ہیں۔</p> <p>اسحاق ڈار کے بارے میں اسلام آباد میں پھیلتی مسلسل سرگوشیاں اور بدگمانیاں اقتصادیات کے علم کے بارے میں قطعی جاہل مجھ ایسے شخص کو پیغام دیتی ہیں تو صرف اتنا کہ وطن عزیز کی طویل اور قلیل المدتی ضرورتوں کے بارے میں مسلسل سوچ بچار کرنے والے ان دنوں بہت فکر مند ہیں۔</p> <p>آصف علی زرداری نے شوکت ترین اور شاہ محمود قریشی کی بھرپور معاونت سے کیری-لوگر نام کا بل امریکی کانگریس سے منظور کروایا تھا۔ اس بل کے ذریعے ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے لئے صرف اپنے ریاستی وسائل صرف نہ کرنا پڑے۔ زیادہ ترخرچہ بلکہ اس ضمن میں <annotation lang="en">Coalition Support Fund</annotation> کے ذریعے پورا ہوتا رہا۔ اب اس بل کی معیاد ختم ہو چکی ہے۔</p> <p>اوبامہ نے دسمبر 2014ء تک افغانستان سے لاتعلق ہو جانا تھا۔ کابل اور اس کے گردونواح میں لیکن چند واقعات ہوگئے۔ امریکی فوج کی ایک مؤثر تعداد افغانستان میں اب بھی موجود ہے۔ اسے سامانِ رسد پہنچانے کے لئے مگر پاکستان کے زمینی راستوں پر ہی انحصار باقی نہیں رہا۔</p> <p>ہمارے ہاں کاآپریشن ضربِ عضب مگر اپنے حتمی انجام تک ابھی نہیں پہنچا۔ فوج جب بیرکوں سے نکل کر کراچی، بلوچستان اور شمالی وزیرستان جیسے علاقوں میں مصروف ہو جائے تو طے شدہ بجٹ سے کہیں زیادہ رقوم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے اپنے ریاستی خزانے سے اس رقم کی مناسب فراہمی ممکن نہیں۔ ویسے بھی نواز حکومت اگر ریاستی خزانے کو صرف دہشت گردی کی جنگ پر خرچ کر دے تو 2018ء میں اسے ووٹ نہیں ملیں گے۔ اسے تو میٹرو بسیں چلانی ہیں، سڑکیں بنانی ہیں، لوڈشیڈنگ کو ختم کرنا ہے تاکہ <annotation lang="en">Feel Good</annotation> صورت حال بنے اور "اک واری فیر-شیر" کے امکانات روشن ہوں۔ وقت لہذا کم ہے اور مقابلہ سخت۔</p> <p>خدا کرے کہ امریکہ کو سمجھ آجائے کہ داعش صرف عراق اور شام تک محدود نہیں۔ خیبر کے اس پار افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں بھی بہت تیزی کے ساتھ طالبان کی جگہ لے رہی ہے۔ اس کے پھیلائو کو روکنے کے لئے آپریشن ضربِ عضب کا تسلسل انتہائی ضروری ہے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے ہمیں ضرورت ہے <annotation lang="en">Coalition Support Fund</annotation> کے حصول کے لئے کسی نئے معاہدے کی۔ واشنگٹن یہ بات سمجھ نہ پایا تو اسحاق ڈار کو نواز شریف کا ڈاکٹر عاصم بننے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔ اس کے علاوہ کچھ کہنے کی ہمت مجھ میں نہیں۔</p> </section> </body>
0084.xml
<meta> <title>ماڈل ایان علی پر کرنسی اسمگلنگ کیس میں فردجرم عائد</title> <author> <name>آئی بی سی اردونیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10134/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>265</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
ماڈل ایان علی پر کرنسی اسمگلنگ کیس میں فردجرم عائد
265
No
<body> <section> <p>کسٹم عدالت نے ماڈل ایان علی پر کرنسی اسمگلنگ کیس میں باقاعدہ طور پر فرد جرم عائد کر دی ۔</p> <p>ماڈل ایان علی کرنسی اسمگلنگ کیس میں اٹھارویں مرتبہ کسٹم عدالت میں پیش ہوئیں اس موقع پر ایک مرتبہ پھر ان کے وکیل  لطیف کھوسہ نے فرد جرم سے جان چھڑانے کیے لئے بھرپور کوشش کی لیکن عدالت نے کہا کہ پہلے فرد جرم اور بعد میں کسی درخواست پر سماعت ہوگی۔ عدالت نے ملزمہ پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے کہا کہ ملزمہ نے 14 مارچ 2015 کو بے نظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے   6 لاکھ 6 ہزار 800 امریکی ڈالر اسمگل کرتے ہوئے گرفتار ہوئیں  تاہم ملزمہ نے صحت جرم سے صاف کر دیا جس کے بعد عدالت نے آئندہ سماعت پر تمام 14 گواہاں کو طلب کر لیا۔</p> <p>سماعت کے دوران ماڈل ایان علی کے وکیل لطیف کھوسہ  نے تین اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ماڈل کا پاسپورٹ واپس کرنے کی درخواست پر فیصلہ آنا ابھی باقی ہے جب کہ کسٹم حکام نے کیس میں ٹیمپرنگ کی اور ہائیکورٹ جب تک ماڈل کو بری کرنے کی درخواست پر فیصلہ نہیں سناتی اس وقت تک فرد جرم عائد نہیں ہو سکتی۔  اس موقع پر کسٹم کی تفتیشی ٹیم نے موقف اختیار کیا کہ اگر ماڈل کا پاسپورٹ واپس کیا گیا تو وہ بیرون ملک سے واپس نہیں آئیں گی اس لئے ان کی درخواست مسترد کی جائے جس کے بعد کسٹم عدالت نے لطیف کھوسہ کے تینوں اعتراضات مسترد کر دیئے۔</p> <p>واضح رہے کہ ماڈل ایان علی پر عائد الزامات ثابت ہونے کی صورت میں انہیں 5 سال سے لے کر 14 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔</p> </section> </body>
0085.xml
<meta> <title>بنگلہ دیش میں سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر پابندی</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10137/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>143</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
بنگلہ دیش میں سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر پابندی
143
No
<body> <section> <p>بنگلا دیش میں امن و امان کی صورت حال کے پیش نظر سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔</p> <p>غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق بنگلا دیش میں ٹیلی کمیونیکشن کے نگراں ادارے نے فیس بک، فیس بک میسنجر، وائبراورواٹس ایپ سروسز سمیت سب کو بلاک کر دیا گیا ہے۔</p> <p>بنگلا دیشی حکام کا کہنا ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس بند کرنے کا فیصلہ گزشتہ روزسپریم کورٹ کی جانب سے 2  سیاسی رہنماؤں کی سزائے موت کے خلاف اپیل مسترد کئے جانے کے بعد امن و امان کی صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔</p> <p>واضح رہے کہ گزشتہ روزبنگلا دیش کی سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کے سینیئر رہنما علی احسن محمد اور بنگلا دیش نینشل پارٹی سے تعلق رکنے والے سابق وزیر صلاح الدین قادر چوہدری کی سزائے موت کے خلاف درخواست مسترد کر دی تھی۔</p> </section> </body>
0086.xml
<meta> <title>بیوی کی محبت نے جعلی پریزائڈنگ افسر کو جیل پہنچادیا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10140/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>98</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
بیوی کی محبت نے جعلی پریزائڈنگ افسر کو جیل پہنچادیا
98
No
<body> <section> <p>بیوی کی جگہ پریزائڈنگ افسر بن کر ڈیوٹی دینے والے شخص کو پولیس نے گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا ۔</p> <p>تفصیلات کے مطابق شرقپور شریف کی یونین کونسل نمبر 43 کے پولنگ سٹیشن نمبر 59 پرالیکشن کمیشن کی طرف سے ایک خاتون پریزائڈنگ افسر کو تعینات کیا گیا تھالیکن اس کی جگہ اس کا خاوند پریزائڈنگ افسر بن کر ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا ۔</p> <p>پولیس نے آکر جب جعلی پریزائڈنگ افسر سے دستاویزات طلب کیں تو وہ کسی قسم کی دستاویزات پیش نہ کر سکا جس پر پولیس نے ملزم کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا۔</p> </section> </body>
0087.xml
<meta> <title>حکومت سٹیل ملزکومالیاتی بحران سے نکالنے کیلئے موثراقدامات کرےگی:وزیرخزانہ</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10143/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>170</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
حکومت سٹیل ملزکومالیاتی بحران سے نکالنے کیلئے موثراقدامات کرےگی:وزیرخزانہ
170
No
<body> <section> <p>اسحا ق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان روس کے درمیان سیاسی ، معاشی اور صنعتی شعبوں میں تعاون کے وسیع مواقع ہیں۔</p> <p>وزیرخزانہ اسحق ڈارنے کہا ہے کہ حکومت پاکستان سٹیل ملز کو مالیاتی بحران سے نکالنے کیلئے موثر اقدامات کرے گی۔</p> <p>وہ اسلام آباد میں پہلے باضابطہ پاکستان روس سرمایہ کار فورم سے خطاب کر رہے تھے۔وزیرخزانہ نے کہا کہ پاکستان روس کے درمیان سیاسی ، معاشی اور صنعتی شعبوں میں تعاون کے وسیع مواقع ہیں۔انہوں نے کہا کہ تاجر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔</p> <p>دریں اثنا کراچی میں پاکستان کے ایوان ہائے صنعت و تجارت کی فیڈریشن اور بینکاروں کے ایک وفد سے گفتگو کر رہے تھے۔</p> <p>وفاقی وزیر نے تاجر برداری پرزوردیا کہ وہ ٹیکس وصولی کے کلچر کو فروغ دینے کیلئے حکومت کی مدد کریں۔</p> <p>انہوں نے ایوان ہائے صنعت و تجارت سے کہا کہ ملک میں اقتصادی ترقی کو تیز کرنے کی خاطر بہتر رابطے کیلئے حکومت اور تاجروں کے درمیان پل کا کردار ادا کریں</p> </section> </body>
0088.xml
<meta> <title>'میں مسلمان ہوں، اعتبار ہے تو گلے لگایئے'</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10146/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>433</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
'میں مسلمان ہوں، اعتبار ہے تو گلے لگایئے'
433
No
<body> <section> <p>فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہونے والے حملوں نے جہاں مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے مزید پریشانی مین اضافہ کیا ہےتو وہیں پیرس میں ایسا مسلمان شخص بھی موجود ہے جو مسلمانوں سے متعلق مثبت سوچ قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔</p> <p>پیرس کے 6 مقامات پر گزشتہ جمعہ حملوں کے بعد جب پورا ملک غم میں ڈوبا ہوا تھا، پیرس میں مقیم ایک مسلمان نے اعتماد سازی کے لیے انوکھا انداز اپنایا۔</p> <p>یہ شخص پیرس کے مشہور چوراہے پر آنکھوں پر کالی پٹی باندھے گتے کے دو کتبے لے کر کھڑا ہو گیا۔</p> <p>گتے کے ایک ٹکڑے پر لکھا تھا کہ 'میں مسلمان ہوں اور مجھے کہا جاتا ہے کہ میں دہشت گرد ہوں'جبکہ دوسرے ٹکڑے پر لکھا تھا کہ 'مجھے آپ پر اعتبار ہے، اگر آپ بھی مجھ پر اعتبار کرتے ہیں تو مجھے گلے لگایئے' .</p> <p>مسلمان شخص کا یہ پیغام پڑھ کر لوگوں کی بڑی تعداد نے اسے گلے لگایا، جبکہ کچھ لوگ اس جذباتی مناظر کو دیکھ کر آبدیدہ بھی ہوگئے۔</p> <p>کئی لوگوں کے بغل گیر ہونے کے بعد مسلمان نوجوان اپنی آنکھ سے پٹی اتاری اور گلے لگانے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ 'میں نے یہ سب کچھ یہ پیغام دینے کے لیے کیا کہ میں مسلمان ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں دہشت گرد ہوں، میں نے کبھی کسی کو نہیں مارا بلکہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ شہر میں جس دن حملے ہوئے اس دن میری سالگرہ تھی، لیکن میں غم کی وجہ سے اپنے گھر سے باہر تک نہیں نکلا۔'</p> <p>نوجوان نے مزید کہا کہ میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے لواحقین کے دکھ کو سمجھتا ہوں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ مسلمان ہونے کا مطلب ہرگز دہشت گرد ہونا نہیں، دہشت گرد صرف دہشت گرد ہے جو ایک کے بعد انسان کو قتل کرتا ہے لیکن مسلمان کبھی ایسا نہیں کر سکتا، کیونکہ اسلام میں اس کی سختی سے ممانعت ہے۔'</p> <p>مسلمان نوجوان کے اس پیغام کو سن کر لوگوں نے تالیاں بجائیں اور خوشی کا اظہار کیا۔</p> <p>یہ ویڈیو فیس بک کے ایک پیج پر شیئر ہوئی تو بہت تیزی سے وائیرل ہو گئی۔</p> <p>ویڈیو کو 4 لاکھ سے زائد افراد نے شئیر کیا ہے جبکہ ویڈیو دیکھنے والے ایک کروڑ 60 لاکھ سے زائد ہیں۔</p> <p>واضح رہے کہ گزشتہ جمعہ کی رات پیرس کے 6 مقامات پر ہونے والے ہولناک دہشت گرد حملوں میں 132 افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔</p> <p>حملوں کی ذمہ داری شام و عراق میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی اور مزید حملوں کی دھمکی دی تھی.</p> </section> </body>
0089.xml
<meta> <title>اب میں پاکستان میں ہوں</title> <author> <name>عطاءالحق قاسمی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10152/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>726</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
اب میں پاکستان میں ہوں
726
Yes
<body> <section> <p>لندن سے پاکستان لوٹے مجھے کئی دن گزر چکے ہیں لیکن ابھی کیفیت کسی داستان کے سوتے جاگتے کردار کی سی ہے۔ مجھے یاد نہیں رہتا کہ میں پاکستان میں ہوں کہ لندن میں ہوں چنانچہ کچھ کرنے سے پہلے ہر دفعہ سوچ میں پڑ جاتا ہوں۔ ابھی کل کی بات ہے سینے میں ریشے کی زیادتی کی وجہ سے بار بار تھوکنے کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی مگر مجھے اس کے لئے کوئی مناسب جگہ نہیں مل رہی تھی مگر پھر اچانک مجھے یاد آیا کہ میں تو پاکستان میں ہوں چنانچہ میں نے اللہ کاشکر ادا کرتے ہوئے حلق سے "اخ" کی آوا ز نکالی اور سڑک پر پچکاری مار دی۔ اس کے چھینٹے ایک شخص پر پڑے مگر تھینک گاڈوہ سائیکل سوار تھا اور شکل سے بھی غریب ہی لگتا تھا۔ اس نے بے بسی سے میری طرف دیکھا اور آگے نکل گیا۔ مجھے بہت دنوں بعد یہ آزادی ملی تھی چنانچہ اس آزادی کو <annotation lang="en">Celebrate</annotation> کرنے کے لئے میں نے ایک دوست کے ساتھ شرط لگائی کہ سڑک پر کس کی تھوک زیادہ دور جاتی ہے چونکہ لندن میں کئی ہفتے قیام کی وجہ سے میرے پاس "اسٹاک" زیادہ تھا چنانچہ میں شرط جیت گیا۔</p> <p>اسی طرح گاڑی چلاتے ہوئے میں ایک ٹریفک سگنل سرخ ہونے پر رک گیا اس وقت رات کے بارہ بجے تھے سڑک پر نہ کوئی ٹریفک تھا اور نہ ٹریفک پولیس مگر کچھ ہی دیر بعد مجھے اپنی حماقت کا احساس ہو گیا۔ مجھے یاد آیا کہ میں تو پاکستان میں ہوں چنانچہ میں نے گاڑی کو پہلے گیئر میں فل ریس دی جس کے نتیجے میں سرخ سگنل کہیں پیچھے رہ گیا۔ میں اس وقت اتنے اچھے موڈ میں تھا کہ اگر وہاں کوئی سپاہی کھڑا ہوتا تو میں اس کی ٹوپی بھی اُچک لے جاتا اور اس کی چندیا پر ایک زوردار ٹھاپ بھی لگاتا۔ میں نے بتایا تھا کہ مجھے یاد ہی نہیں رہتا کہ میں پاکستان واپس آ چکا ہوں یا ابھی تک لندن ہی میں ہوں۔ چنانچہ اخبارات میں "خبر" کی جگہ بیانات دیکھتا ہوں اور گالی گلوچ والے کالم پڑھتا ہوں تو جھنجھلا جاتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ لند ن کی صحافت کو کس کی نظر لگ گئی ہے؟مگر پھر یاد آ جاتا ہے۔</p> <p>میں اپنی جس کنفیوژن کا ذکر کر رہا ہوں لگتا ہے یہ مجھے لے ڈوبے گی کیونکہ گزشتہ شام ایک کار سوار ڈکیت ایک دکان میں ڈاکہ ڈالنے کے بعد ایک خوانچہ فروش کو کچل کر بھاگ رہا تھا اس نے اپنا پیچھا کرنے والے ایک موٹرسائیکل سوار پرفائرنگ بھی کی مگر نوجوان دوسرے شہریوں کی مدد سے بالآخر اسے پکڑنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ سارا تماشا میری آنکھوں کے سامنے ہوا، میں اپنا فرض نبھانے کی خاطر دوسرے شہریوں کے ساتھ تھانے پہنچا تاکہ اس سارے واقعہ کی ایف آئی آر درج کرائوں اور اپنی شہادت بھی قلمبند کرائوں مگر جب تھانیدار نے خود مجھے شک بھری نظروں سے دیکھا اور سپاہی کو "لتر" لانے کا اشارہ کیا تو مجھے یاد آگیا کہ میں پاکستان میں ہوں چنانچہ میں نے وہاں سے دوڑ لگا دی۔ اس طرح کے اور بہت سے واقعات گزشتہ چند دنوں میں میرے ساتھ پیش آچکے ہیں جن میں بجلی کا بار بار جانا، کھانے پینے کی اشیا سڑکوں پر بغیر ڈھانپے فروخت ہوتے دیکھنا، کسی کی جائیداد پر پوری دیدہ دلیری سے قبضہ کرنا، تاجروں کا ٹیکس دینے سے کھلم کھلا انکار کرنا، انکم ٹیکس وصول کرنے والوں کا مک مکا کرنا، اغوا برائے تاوان، نیز اس طرح کی اور بہت سی انہونی باتیں دیکھ کر میں حیران ہوتا تھا اور سوچتا تھا کہ میں کس ملک میں ہوں اور پھر یاد آ جاتا تھا کہ میں لند ن میں نہیں پاکستان میں ہوں اور پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے۔ میرا خیال ہے مجھے آرام کی ضرورت ہے میرا لندن سے نان اسٹاپ پاکستان آنے کا فیصلہ غلط تھا، مجھے راستے میں کسی ایسے ملک میں قیام کرنا چاہئے تھا جس کی تھوڑی بہت "عادتیں" پاکستان سے ملتی جلتی ہوتیں مگر پھر میں نے سوچا کہ جو ہونا تھا، ہو گیا۔ اب پچھتانے میں کیا فائدہ؟ بہرحال اب تو جو ہونا تھا ہو گیا میرا ارادہ آئندہ چند روز گھر میں بند رہنے کا ہے۔ ان چند دنوں میں جب مجھے پوری طرح یقین ہو جائے گا کہ میں واپس اپنے پیارے وطن آچکا ہوں پھر گھر سے باہر قدم رکھوں گا یا کسی سے بات کروں گا۔</p> <p>بشکریہ:روزنامہ جنگ</p> </section> </body>
0090.xml
<meta> <title>بلڈربرگ گروپ کیا ہے؟</title> <author> <name>زاہد علی خان</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10155/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1146</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
بلڈربرگ گروپ کیا ہے؟
1,146
Yes
<body> <section> <p>گزشتہ دنوں میں نے لگ بھگ سو کے قریب ھائ پروفائل بزنس مینوں، یونیورسٹیوں کے اساتذہ، طلباء اور سیاسی ورکرز اور اس فورم کے ممبران سےبھی یہ سوال پوچھا کہ کیا وہ <annotation lang="en">Bildeberg Group</annotation> یا کلب کے بارے میں کچھ جانتے ہیں تو سو فیصد نے نفی میں جواب دیا حقیقت یہ ہے کہ مجھے خود بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا۔ اگرچہ میں این جی اوز اور نیو ورلڈ آرڈر پر زمانہء طالب علمی سے تحقیقاتی مضامین دلچسپی سے پڑھتا ھوں اور اور یہ میری دلچسپی کے خصوصی مضامین ہیں ان کے بارے میں میرا شروع سے ایک اسٹرونگ نقطہ نگاہ ہے میں اس حوالے سے مواد ڈھونڈتا رہتا ہوں۔</p> <p>اسی قسم کی ریسرچ کے دوران مجھے اس کلب کا علم ہوا اگرچہ یہ کلب 1954 میں قائم ہوا اور ہر سال اس کا خفیہ اجلاس دنیا کے کسی بھی ملک میں منعقد ہوتا ہے۔ لیکن ان میٹینگز کی تفصیلات کبھی بھی کہیں شائع نہیں ہوئ۔ ہر سال دنیا کے مختلف ممالک میں یہ میٹنگز زبردست سیکیورٹی حصار میں منعقد ہوتی ہیں تاہم میڈیا یا کسی عام فرد کو کبھی ان کی تفصیلات معلوم نہیں ہو سکیں۔</p> <p>اکثر لوگ دنیا میں یہ سمجھتے ہیں کہ نیو ورلڈ آرڈر کا تصور امریکہ نے پیش کیا جبکہ حقیقت میں یہ تصور بلڈر برگ کی 1985 میں منعقدہ میٹینگ میں پیش کیا گیا اگرچہ اس کے خدو خال تو سالوں پہلے طے کر لیے گئے تھے تاہم اس تصور کو پبلک کرنے کا فیصلہ اس 1985 کی میٹنگ میں ہوا۔ رونالڈ ریگن اس وقت امریکہ کے صدر تھے۔ بعد ازاں جارج بش کے دور میں سماجی اور معاشی ترقی کے عنوان سے نیو ورلڈ آرڈر کے تصور کو پوری شدت کے ساتھ دنیا بھر میں پھیلایا گیا اور اس مقصد کے لیے یو این او کے تعاون سے این جی اوز کا ایک جال دنیا بھر میں بچھا دیا گیا۔</p> <p>این جی اوز نے دنیا بھر میں کیا رول پلے کرنا ہے بلڈر برگ گروپ یہ طے کرتا ہے اور دنیا بھر کی این جی اوز اس کے مطابق سماجی، معاشی میدانوں میں ری ایکٹ کرتی ہیں اس نیٹ ورک کی جڑیں تصور سے زیادہ گہری ھو چکی ہیں۔ 2005 میں پہلی بار کینڈین صحافی <annotation lang="en">Deniel Estulin</annotation> نے اس کلب کے بارے میں ایک کتاب لکھی اور اس کلب کے خدو خال کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اگرچہ یورپ اور امریکہ میں اس کے ون ورلڈ حکومت کے تصور پر کافی</p> <p>تنقید ہوئ تاہم کوئ بھی اس کے اندرونی خفیہ نظام کےبارے میں کچھ خاص نہیں جانتا۔ Jó <annotation lang="en">zef Hieronim Retinger ( 17 April 1888</annotation> – 12 <annotation lang="en">June 1960</annotation> جوزف ہائرونیم ریٹینگراس گروپ کا بانی ہے، جوزف نے پولینڈ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی ، بیس سال کی ریکارڈ عمر میں اس نے پی ایچ ڈی</p> <p>کی ڈگری حاصل کی بہت کم عمری میں وہ ایک پولش جنرل کا پولیٹیکل ایڈوائزر بن گیا۔ جوزف یورپین موومنٹ کا بانی ہے اور موجودہ یوروپین یونین اسی کے دئے گئے تصور کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ 1954 میں اس نے ہالینڈ کے بادشاہ کو بلڈر برگ گروپ کے قیام کے لے قائل کیا اور یوں ھالینڈ کے ایک چھوٹے سے خوبصورت قصبے <annotation lang="en">Oysterbeek</annotation> کے ایک ھوٹل بلڈربرگ میں اس کا پہلا خفیہ اجلاس ہوا۔</p> <p>بلڈر برگ گروپ 1954 میں ھالینڈ میں قائم ھوا اور تب سے اب تک ہر سال ستمبر میں بلا تعطل اس گروپ کی سالانہ میٹنگ ھوتی ہے جس میں یہ طے کیا جاتا ھے کہ اگلا سال اکنومکلی اور پولیٹیکلی کیسا ھو گا۔ دنیا بھر میں ھونے والی معاشی، سیاسی، جغرافیائ تبدیلیاں یہ گروپ کنٹرول کرتا ہے۔ پورپین یونین، نیٹو، عالمی بینک اسی گروپ کے آئیڈیاز ہیں۔ اس گروپ میں امریکہ، کینیڈا سمیت اٹھارہ یوروپین ممالک کے موسٹ انفلواینشل لوگ شامل ہیں ۔ عالمی بینک کا سربراہ، نیٹو کا سیکریٹری جنرل، یو این او کا سیکریٹری جنرل اور دیگر عالمی اداروں کے سربراہ اس میٹنگ کا لازمی حصہ ھوتے ھیں اور اسی گروپ میں دنیا کے ٹاپ تھنک ٹینکس کے نمائندے بھی شریک ھوتے ہیں۔</p> <p>اس گروپ کو آپ کس طور پر فری میسن ٹائپ کا گروپ نا سمجھیں ، فری میسن بہت چھوٹا گروپ ہے اپنے اثر و رسوخ کے اعتبار سے جبکہ بلڈر برگ گروپ اپنے اثرو رسوخ کے اعتبار سے ایک عالمی حکومت کا متبادل ہے اور حقیقت میں اس کا بنیادی مقصد ہی ایک عالمی حکومت قائم کرنا ہے۔ دنیا کے دس بڑے معاشی گروپس کے مالکان اس کے بنیادی ممبرز ہیں لیکن یہ گروپ کا سب کچھ نہیں بلکہ اس کا ایک حصہ ہیں ۔دنیا بھر کے صارفین کے استعمال کی اشیاء یہ دس بڑے گروپس مینوفیکچر کرتے ہیں اور اپنی اجاراہ داری قائم رکھنے کے لیے انہوں نے ان اشیاء کو عالمی منڈی میں ایک معاھدے کے تحت آپس میں تقسیم کر لیا ہے، جس کے نتیجے میں ان پروڈکٹس کی قیمتیں ان کی مرضی کے مطابق متعین ھوتی ہیں۔</p> <p>پندرہ سو بلین ڈالر کی ڈرگ مارکیٹ بھی دنیا بھر میں یہ گروپ کنٹرول کرتا ہے۔ اور جن جن ممالک میں ڈرگ کا بزنس ھوتا ہے وہ بلیک منی ان ممالک کی اسٹاک مارکیٹس کو کنٹرول کرنے اور بلیک منی کو لیگل کرنے میں استعمال ھوتی ہے۔ دنیا بھر کی معاشی منڈیوں کو کنٹرول کرنے کی منصوبہ بندی سال ہا سال سے اس گروپ کے شاطر ترین افراد کر رہے ہیں۔ اور عالمی معیشت پر ان کی گرفت مظبوت سے مظبوط ہوتی جا رہی ھے۔ پیٹرول، سونے، چاندی، لوہے سے لیکر رئیل اسٹیٹ تک یہ گروپ ہر بڑی معاشی منڈی کو کنٹرول کرتا ہے۔ آپ ان اشیاء کی قیمتوں کے اوپر نیچے ہونے کی دسیوں توجیحات پیش کر سکتے ہیں لیکن کن مقاصد کے تحت قیمتیں تھری سکسٹی کے زاویے سے اوپر اور نیچیے ہوتی ہیں کوئ نہیں جانتالیکن اس کا کنٹرول ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔</p> <p>پیٹرول ۱۱۵ ڈالر سے ۳۵ ڈالر فی بیرل کیوں ھوا کوئ نہیں جانتا اور تو اور اس سال کھالوں کی عالمی قیمیت 75 فیصد سے زائد ڈراپ ہوئیں ، لیکن کیوں اور کس نے کیں کوئ نہیں جانتا۔ دوسری طرف عالمی سیاست پر ان کی گرفت کا اندازا اس بات سے لگا لیجئے کہ بل کلنٹن، ٹونی بلئیر، مارگریٹ تھیچر اور دسیوں دوسرے سیاستداں ان کی سالانہ میٹینگ میں شرکت کے بعد اپنے اپنے ملکوں کے صدر اور وزیراعظم بنےتھے۔ جو جو ان کی سالانہ میٹنگ میں شریک ھوتا ہے اس کے بارے میں یہ کہ دیا جاتا ہے کہ وہ آئندہ سال کوئ حکومتی عہدہ سنبھالنے والا ہے۔</p> <p>واضح رہے کہ ان خفیہ میٹنگز میں شرہک ہونے والے مندوبین کی حیثیت سے شریک ھوتے ہیں وہ اس گروپ کے مستقل ممبرز نہیں ھوتے۔</p> <p>بلڈر برگ کی عالمی حکومت کا تصور چار عناصر پر مشتمل ہے جنہیں اگر کنٹرول کیا جائے تو پوری دنیا پر حکومت کی جا سکتی ہے۔ معیشت (دس بڑے معاشی گروپ) آرمی (نیٹو) مالیات (ورلڈ بینک) اور ماس میڈیا ( چار میڈیا گروپ) اور ان چار میدانوں میں ہر آنے والے دن دنیا کے یہ طاقتور ترین لوگ مظبوط تر ہوتے جا رہے ہیں۔</p> </section> </body>
0091.xml
<meta> <title>بدین کا میدان ذوالفقار مرزا نے مارلیا، پیپلز پارٹی کو بدترین شکست</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10165/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>246</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
بدین کا میدان ذوالفقار مرزا نے مارلیا، پیپلز پارٹی کو بدترین شکست
246
No
<body> <section> <p>سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بدین سے ذوالفقار مرزا گروپ نے کلین سوئپ کرتے ہوئے میونسپل کمیٹی کی تمام 14 نشستیں جیت لیں جب کہ پیپلز پارٹی کو اس کے ہوم گراؤنڈ پر بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔</p> <p>بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی اور نتائج کی آمد کا سلسلہ جاری ہے جب کہ بدین سے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کے حمایتی گروپ نے 14 وارڈ کی تمام یونین کونسل کی نشستیں جیت لی ہیں اور علاقے میں پیپلز پارٹی کو بدترین شکت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔</p> <p>بدین میں مرزا گروپ کے امیدواروں نے بوتل کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑا اور غیر معمولی کامیابی حاصل کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے "تیر" کو مات دے دی۔</p> <p>بدین میں پیپلز پارٹی کے اثرورسوخ رکھنے والے علاقوں میں بھی اسے بدترین شکست ہوئی جب کہ مرزا گروپ کی کامیابی کے بعد اس گروپ کے حمایتی سڑکوں پر نکل آئے اور جشن منایا،</p> <p>اس موقع پر قومی پرچم بھی لہرائے گئے، مرزا گروپ کے حامیوں نے ان کے اور شہید بے نظیر بھٹو کے حق میں نعرے لگائے جب کہ اس دوران سابق صدر آصف زرداری کے خلاف بھی نعرے لگائے گئے۔</p> <p>بدین میں پیپلز پارٹی کو بدترین شکست کے بعد جیالوں کے کیمپ میں سناٹا چھاگیا جب کہ کامیابی کے بعد ذوالفقار مرزا کے حمایتی مرزا فارم ہاؤس پہنچ گئے اور ڈھوپ کی تھاپ پر رقص کیا</p> </section> </body>
0092.xml
<meta> <title>مسلم لیگ ن کے رہنما لشکری رئیسانی پارٹی رکنیت سے مستعفی، پی ٹی آئی میں جانے کا امکان</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10168/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>70</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
مسلم لیگ ن کے رہنما لشکری رئیسانی پارٹی رکنیت سے مستعفی، پی ٹی آئی میں جانے کا امکان
70
No
<body> <section> <p>مسلم لیگ ن بلوچستان کے رہنما لشکری رئیسانی پارٹی رکنیت سے مستعفی ہو گئے ہیں</p> <p>انہوں نے اپنا استعفی وزیراعظم نواز شریف کو بھجوا دیا ہے تاہم انہوں نے اس کی وجہ بیان نہیں کی لیکن امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں</p> <p>اس طرح پی ٹی آئی کو بلوچستان میں ایک اور اہم وکٹ ملنے کا امکان ہے</p> </section> </body>
0093.xml
<meta> <title>پاکستان جونئیر ایشیا کپ ہاکی کے سیمی فائنل میں پہنچ گیا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10171/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>73</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
پاکستان جونئیر ایشیا کپ ہاکی کے سیمی فائنل میں پہنچ گیا
73
No
<body> <section> <p>پاکستان جونئیر ایشیا کپ ہاکی کے سیمی فائنل میں پہنچ گیا۔ کوارٹر فائنل میں پاکستان نے چین کو ایک کے مقابلے میں 4 گول سے ہرا دیا۔</p> <p>پاکستان نے اگلے سال ہونے والے جونئیر ورلڈ کپ کے لیے بھی کوالیفائی کر لیا۔</p> <p>پاکستان کی جانب سے شان ارشاد نے 2 گول کئے، مبشر علی اور محمد دلبر نے ایک ایک گول کیا۔</p> <p>پاکستان کا سیمی فائنل میں ہفتےکو جنوبی کوریا سے مقابلہ ہو گا</p> </section> </body>
0094.xml
<meta> <title>اینٹی بائیوٹکس بے اثر ہونے لگیں گی،سائنس دانوں کا انکشاف</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10174/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>121</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
اینٹی بائیوٹکس بے اثر ہونے لگیں گی،سائنس دانوں کا انکشاف
121
No
<body> <section> <p>سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ دنیا اس دہانے پر آپہنچی ہے کہ جب اینٹی بائیوٹکس بےاثر ہونے لگیں گی اوردواؤں کے خلاف بیکٹریا میں مدافعت پیدا ہوجانے کے سبب یہ پھر سے طب کو دور جہالت میں پہنچا دے گا۔</p> <p>رپورٹ کے مطابق چین میں ایسے بیکٹیریا ملے ہیں جن پراینٹی بائیوٹک ' کولسٹین' کا بھی کوئی اثر نہیں جو تمام دواؤں کے بےاثر ہونے کے بعد استعمال کی جاتی ہے۔</p> <p>سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بیکٹیریا کی یہ مدافعت دنیا بھر میں پھیل سکتی ہے جس سے انفیکشنز کے لاعلاج ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔عام انفیکشن ایک بار پھر سے جان لیوا ہو جائے گا جبکہ سرجری اور کینسر کے علاج کو بھی خطرہ لاحق ہو جائے گا</p> </section> </body>
0095.xml
<meta> <title>عمران خان کا ڈاکٹر ذولفقار مرزا سے رابطہ</title> <author> <name>آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10182/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>136</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
عمران خان کا ڈاکٹر ذولفقار مرزا سے رابطہ
136
No
<body> <section> <heading>پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو فون کر کے بدین میں بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے پر مبارکباد دی۔</heading> <p>ذوالفقار مرزا کو فون کر کے بدین شہر میں بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے پر مبارکباد دی۔</p> <p>عمران خان نے کہا کرپشن کے خلاف اسی طرح ڈٹے رہیں سب کام ٹھیک ہو جائیں گے کیونکہ آپ نے ہمت کی اللہ نے آپ کی مدد کی۔</p> <p>ذوالفقار مرزا نے کہا آپ کو کرپشن کے خلاف لڑتے ہوئے دیکھا تو خود بھی لڑنے کا فیصلہ کیا اور اسی جذبے کے ساتھ کام کریں گے۔</p> <p>واضح رہے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بدین شہر کی تمام چودہ سیٹیں جیت کر پیپلز پارٹی سے اقتدار چھین لیا ۔</p> <p>پی پی کے ضلعی صدر اور جنرل سیکرٹری سمیت تمام امیدوار ہار گئے۔</p> </section> </body>
0096.xml
<meta> <title>حیدرآباد میں ایم کیو ایم نے میدان مارلیا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10186/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>248</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
حیدرآباد میں ایم کیو ایم نے میدان مارلیا
248
No
<body> <section> <p>سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں حیدرآباد سے متحدہ قومی موومنٹ نے سادہ اکثریت حاصل کرتے ہوئے 78 نشستیں حاصل کرلی ہیں۔</p> <p>بلدیاتی انتخابات کا دوسرے مرحلے میں ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی اور غیر سرکاری اور غیرحتمی نتائج کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، سندھ میں مجموعی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی پہلے اور متحدہ قومی موومنٹ دوسرے نمبر پر ہے جب کہ حیدرآباد میں ایم کیو ایم نے سادہ اکثریت حاصل کرلی ہے، غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کی 94 نشستوں میں ایم کیو ایم نے 77 نشستیں اپنے نام کرلی ہیں جس کے بعد وہ اکیلے ہی اپنا میئر بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہے جب کہ پیپلز پارٹی کے حصے میں 16 نشستیں آئیں، 2 نشستوں پر بعد میں پولنگ ہوگی اور ایک نشست ک نتائج روک لیے گئے ہیں۔</p> <p>دوسری جانب ایم کیو ایم کے امیدواروں کی کامیابی پر کارکنوں کا جوش آسمان کو چھونے لگا، کارکنوں نے خوب جشن منایا اور مٹھایاں تقسیم کیں جب کہ ایم کیو ایم کی کامیابی کے بعد کراچی میں بھی بڑی تعداد میں کارکنان سڑکوں پر نکل آئے اور جشن منایا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے امیدواران کی اکثریت سے کامیابی پرایم کیو ایم کے مرکز نائن زیروعزیز آباد میں جشن منایا گیا جب کہ حیدرآباد اور میرپورخاص میں بھی جشن فتح منایا گیا۔</p> <p>واضح رہے الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم نامے کے بعد حیدرآباد کے 24 یونین کونسلز میں انتخابات ملتوی کر دیے تھے</p> </section> </body>
0097.xml
<meta> <title>پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان سیریز کا آخری میچ آج کھیلا جائے گا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10189/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>275</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان سیریز کا آخری میچ آج کھیلا جائے گا
275
No
<body> <section> <p>پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیموں کے درمیان 4 ایک روزہ میچز پر مشتمل سیریز کا آخری میچ آج کھیلا جائے گا جب کہ سیریز میں مہمان ٹیم کو 1-2 کی برتری حاصل ہے۔</p> <p>دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں پاکستانی وقت کے مطابق میچ شام 4 بجے شروع ہوگا۔ تیسرے ون ڈے میں فیلڈرز نے کئی کیچ چھوڑیں جسے مد نظر رکھتے ہوئے ان میں سے کسی ایک کو ڈراپ کر کے بابر اعظم کو چھٹے نمبر پر بھیجنے اور اگر ہیڈ کوچ نے ضد چھوڑ دی تو احمد شہزاد کو بطور اوپنر آزمانے کا امکان ہے جب کہ یاسر شاہ کی شمولیت کا فیصلہ فٹنس اور پچ کودیکھ کر کیا جائے گا۔</p> <p>شارجہ میں منعقدہ تیسرے مقابلے میں حیران کن رن آؤٹس اور غیر ضروری اونچے اسٹروکس پر کھلاڑیوں اور مینجمنٹ کو شدید تنقید کا سامنا ہے، کپتان اظہرعلی انفرادی اور ٹیم کی کارکردگی کے سبب دبائو کا شکار ہیں۔ انھوں نے 3 میچز میں صرف 66 رنز ہی اسکور کیے، گذشتہ 8 میں سے 5 ون ڈے سیریز کے شکست خوردہ کوچ وقار یونس بیٹنگ آرڈر میں پے درپے ناکام تجربات کے باجود ٹیم کی کارکردگی میں بہتری لانے میں کامیاب نہیں ہو سکے، ریگولر اوپنر احمد شہزاد ٹیسٹ کے بعد ون ڈے سیریزمیں بھی پہلا میچ کھیلنے کے منتظر ہیں، شعیب ملک پہلے ٹیسٹ کی ابتدائی اننگز میں ڈبل سنچری کے بعد 8 اننگز میں صرف 102 رنز بنانے میں کامیاب ہو سکے ہیں، دیگر بیٹسمینوں کی کارکردگی میں بھی تسلسل کا فقدان ہے، سرفراز احمد کو بیٹنگ آرڈر میں اکھاڑ پچھاڑ لے ڈوبی، وہ بطور وکٹ کیپر بھی اہم مواقع گنوانے پر دبائو کا شکار ہوں گے، محمد رضوان صلاحیتوں سے انصاف نہیں کرپا رہے۔</p> </section> </body>
0098.xml
<meta> <title>بھارت میں تیارکردہ ڈرون طیارہ تباہ، فوج نے منصوبہ ختم کر دیا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10192/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>181</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
بھارت میں تیارکردہ ڈرون طیارہ تباہ، فوج نے منصوبہ ختم کر دیا
181
No
<body> <section> <p>بھارت میں مقامی سطح پر بنایا جانے والا بغیر پائلٹ ڈرون طیارہ 'نشانت' راجستھان کے علاقے پوکھران میں گر کر تباہ ہو گیا۔</p> <p>بھارتی فوج کے مطابق ڈرون طیارہ تکنیکی خرابی کے باعث تباہ ہوا۔ 15 دن قبل بھی اسی طرح کا ایک ڈرون تباہ ہوا تھا، دو نشانت ڈرون طیارے اپریل میں پاکستانی سرحدکے نزدیک جیسلمیرمیں تباہ ہوئے تھے۔یہ ڈرون بھارتی ادارے ڈیفنس ریسرچ اینڈڈیولپمنٹ آرگنائزیشن نے تیارکیے تھے اور اس طرح کے ابتک بنائے گئے چاروں ڈرون گرکر تباہ ہو چکے ہیں جس کے بعدبھارتی فوج نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ڈی آر ڈی اوسے مزیدڈرون حاصل نہیں کرے گی۔</p> <p>بھارتی فوجی حکام کے مطابق یہ منصوبہ بری طرح ناکام ہوا ہے، بھارتی فوج کو ایک ڈرون 22 کروڑروپے میں پڑا۔ 2 دہائیوںکی محنت کے بعد نشانت ڈرون 2011 میں بھارتی فوج کو دیے گئے تھے۔ ڈی آرڈی او نے ڈرون کی تباہی کی ذمے داری فوج پرڈالتے ہوئے کہا کہ ڈرون کے نظام کوٹھیک طریقے سے استعمال نہیں کیا گیا، بھارتی فوج نے الزام کی تردیدکی ہے۔چاروں ڈرون کی تباہی کے بعد اب اس منصوبے کا مستقبل غیریقینی ہے</p> </section> </body>
0099.xml
<meta> <title>آنتوں میں رہ کر دل کی دھڑکن اور سانس کی رفتار نوٹ کرنے والی گولی تیار</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10195/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>305</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
آنتوں میں رہ کر دل کی دھڑکن اور سانس کی رفتار نوٹ کرنے والی گولی تیار
305
No
<body> <section> <p>ایم آئی ٹی ماہرین نے ایسی گولی تیار کی ہے جو سینسر اور مائیکروفون کے ذریعے آپ کے دل کی دھڑکن اور سانس کی رفتار سے ڈاکٹر کو آگاہ کرتی رہے گی۔</p> <p>اگرمیساچیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ( ایم آئی ٹی ) کی تیارکردہ نئی اسمارٹ گولی مریض کی آنت میں داخل کر دی جائے تو ڈاکٹروں کو اسٹھیتواسکوپ کی ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ اس میں نصب سینسر اور حساس مائیکروفون سانس کی رفتار اور دل کی دھڑکن دونوں کو نوٹ کر کے باہر بھیجتا رہے گا اور ایک دو دن بعد ازخود جسم سے خارج ہو جائے گا۔</p> <p>ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایجاد ان لوگوں کے لیے مؤثر ثابت ہو سکتی ہے جنہیں چھوا نہیں جاسکتا مثلاً جلے ہوئے یا بہت زخمی افراد یا پھر بہت دور رہنے والے مریض جہاں ڈاکٹر موجود نہ ہو اور انٹرنیٹ کے ذریعے اس کی کیفیت نوٹ کی جاسکتی ہے۔ اسے ایم آئی ٹی کے 2  سائنسدانوں گیووانی ٹریورسو اور گریگری اسکریلی نے تیار کیا ہے جس میں الیکٹرانک آلات کو سلیکن کے ایک مضبوط سے خول میں بند کیا گیا ہے، اس کا حساس ترین مائیکروفون دل کی دھڑکن اور پھیپھڑوں کی آواز کو ریڈیو کے ذریعے خارج کرتا ہے اور اس کا سگنل 3  میٹر ( یعنی 10 فٹ) سے وصول کیا جاسکتا ہے جس کے لیے ایک ریسیور کی ضرورت ہوگی۔</p> <p>ماہرین کے مطابق اس مشینی ٹیبلٹ کو بنانے میں ایک مشکل پھیپھڑوں اور دل کی آواز کے درمیان امتیاز کرنا تھا جس کے لیے ایک پیچیدہ سافٹ ویئر تیار کیا گیا جو یہ کام کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فی الحال اسے 6  جانوروں پر آزمایا جارہا ہے اور یہ گولی آنتوں میں بیٹھ جاتی ہے جس سے آنت میں پہنچنے والی خوراک سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا جب کہ اس ایجاد کو ٹیلی میڈیسن اور کھلاڑیوں میں بھی آزمایا جاسکتا ہے</p> </section> </body>
0100.xml
<meta> <title>برفباری میں کمی سے پاکستان سمیت کئی ممالک متاثر ہوں گے:رپورٹ</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10198/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>336</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
برفباری میں کمی سے پاکستان سمیت کئی ممالک متاثر ہوں گے:رپورٹ
336
No
<body> <section> <p>ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ گلوبل وارمنگ اور آب و ہوا میں تبدیلی سے شمالی نصف کرے کے ممالک میں برفباری میں تبدیلی واقع ہو رہی ہے اور اس پاکستانی آبادی سمیت لگ بھگ 2  ارب افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔</p> <p>امریکا، سوئیڈن اور ہالینڈ کے موسمیاتی ماہرین نے ایک تفصیلی رپورٹ میں دنیا کے ان 421 دریاؤں، ان کے بیسن( طاس) اور پانی کے ذخائر کا مطالعہ کیا جو برفباری کے بعد وجود میں آتے ہیں۔ ان میں سے 32 مقامات پر برفباری کا انداز بدلنے سے کم ازکم 1 ارب 45 کروڑ افراد کے لیے پینے اور زراعت کے لیے پانی کی شدید قلت پیدا ہو جائے گی کیونکہ برف کے خاص انداز سے پگھلنے سے ہی ان علاقوں کے آبی ذخائر سیراب ہوتے ہیں۔ ان علاقوں میں برف کم پڑ رہی اور برف کی نمی بارش کی صورت میں برس کر فوری طور پر بہہ جاتی ہے جس سے مستقبل میں پانی کا شدید قحط پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ برف کے ذخائر ہی میٹھے پانی کی ضمانت ہیں۔</p> <p>رپورٹ کے مرکزی مصنف اور کولمبیا یونیورسٹی میں موسمیات کے ماہر جسٹن منکن نے کہا ہے کہ برفباری میں کمی بیشی عین گلوبل وارمنگ کی مطابقت میں ہے۔ ان میں دریائے سندھ طاس بھی شامل ہے جو بھارت، پاکستان اور چین کو سیراب کرتا ہے اور ماہرین نے ان ممالک کو اس کے لیے تیار رہنے پر زور دیا ہے۔ ماہرین نے ان ممالک میں تحقیق کی ہے جہاں پانی کی شدید طلب ہے اور پانی کا انحصار برف پگھلنے پر ہے۔ رپورٹ میں شامل ایک ماہر نے کہا ہے کہ اس تبدیلی سے وہ لوگ زیادہ متاثر ہوں گے جو دیہاتوں میں رہتے ہیں یا پہاڑوں کے قریب رہائش پذیر ہیں۔ منکن کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی کے لیے مطابقت پذیری(اڈاپٹیشن) کی ضرورت ہے جب کہ بعض علاقوں میں ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر میں تبدیلی کی ضرورت بھی پیش آئے گی۔ اس رپورٹ میں سیٹلائٹ اور زمینی ڈیٹا کو حاصل کر کے انہیں دو ماڈلوں میں رکھ کر برف میں کمی پیشی کی پیش گوئی کی گئی ہے۔</p> </section> </body>